
اس تحریر میں امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام کے نہج البلاغہ میں توحید سے متعلق فرامین میں سے چند اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں۔
دین کی بنیاد: معرفت الٰہی
دین کی ابتدا اس کی معرفت ہے اَوَّلُ الدِّیْنِ مَعْرِفَتُهٗ،
کمالِ معرفت اس کی تصدیق ہے وَ كَمَالُ مَعْرِفَتِهِ التَّصْدِیْقُ بِهٖ،
کمالِ تصدیق توحید ہے وَ كَمَالُ التَّصْدِیْقِ بِهٖ تَوْحِیْدُهٗ،
کمالِ توحید اخلاص ہے وَ كَمَالُ تَوْحِیْدِهِ الْاِخْلَاصُ لَه
اور کمالِ تنزیہ و اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفتوں کی نفی کی جائے، کیونکہ ہر صفت شاہد ہے کہ وہ اپنے موصوف کی غیر ہے اور ہر موصوف شاہد ہے کہ وہ صفت کے علاوہ کوئی چیز ہے۔ وَ كَمَالُ الْاِخْلَاصِ لَهٗ نَفْیُ الصِّفَاتِ عَنْهُ، لِشَهَادَةِ كُلِّ صِفَةٍ اَنَّها غَیْرُ الْمَوْصُوْفِ، وَ شَهَادَةِ كُلِّ مَوْصُوْفٍ اَنَّهٗ غَیْرُ الصِّفَةِ (نہج البلاغہ خطبہ 1)
اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات
توحید (یکتا ہونا)
وہ ایک ہے لیکن نہ ویسا کہ جو شمار میں آئے اَلْاَحَدِ لَا بِتَاْوِیْلِ عَدَدٍ، (نہج البلاغہ خطبہ 150)
وَ اَشْهَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ غَیْرَ مَعْدُوْلٍۭ بِهٖ، وَ لَا مَشْكُوْكٍ فِیْهِ، وَ لَا مَكْفُوْرٍ دِیْنُهٗ، وَ لَا مَجْحُوْدٍ تَكْوِیْنُهٗ، شَهَادَةَ مَنْ صَدَقَتْ نِیَّتُهٗ، وَ صَفَتْ دِخْلَتُهٗ، وَ خَلَصَ یَقِیْنُهٗ، وَ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ.
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، نہ اس کا کوئی ہمسر ہے، نہ اس کی ہستی میں کوئی شبہ، نہ اس کے دین سے سرتابی ہو سکتی ہے اور نہ اس کی آفرینش سے انکار۔ اس شخص کی سی گواہی جس کی نیت سچی، باطن پاکیزہ، یقین (شبہوں سے) پاک اور (اس کے نیک اعمال) کا پلہ بھاری ہو۔ (نہج البلاغہ خطبہ 176)
وَ اَشْهَدُ اَنَّ مَنْ شَبَّهَكَ بِتَبَایُنِ اَعْضَآءِ خَلْقِكَ، وَ تَلَاحُمِ حِقَاقِ مَفَاصِلِهِمُ الْمُحْتَجِبَةِ لِتَدْبِیْرِ حِكْمَتِكَ، لَمْ یَعْقِدْ غَیْبَ ضَمِیْرِهٖ عَلٰی مَعْرِفَتِكَ، وَ لَمْ یُبَاشِرْ قَلْبَهُ الْیَقِیْنُ بِاَنَّهٗ لَا نِدَّ لَكَ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ جس نے تجھے تیری ہی مخلوق سے ان کے اعضاء کے الگ الگ ہونے اور تیری حکمت کی کارسازیوں سے گوشت و پوست میں ڈھکے ہوئے ان کے جوڑوں کے سروں کے ملنے میں تشبیہ دی، اس نے اپنے چھپے ہوئے ضمیر کو تیری معرفت سے وابستہ نہیں کیا اور اس کے دل کو یہ یقین چھو بھی نہیں گیا کہ تیرا کوئی شریک نہیں۔
(نہج البلاغہ خطبہ 89)
كَذَبَ الْعَادِلُوْنَ بِكَ، اِذْ شَبَّهُوْكَ بِاَصْنَامِهِمْ وَ نَحَلُوْكَ حِلْیَةَ الْمَخْلُوْقِیْنَ بِاَوْهَامِهِمْ، وَ جَزَّاُوْكَ تَجْزِئَةَ الْمُجَسَّمَاتِ بِخَوَاطِرِهِمْ، وَ قَدَّرُوْكَ عَلَی الْخِلْقَةِ الْمُخْتَلِفَةِ الْقُوٰی، بِقَرَآئِحِ عُقُوْلِهِمْ.
وہ لوگ جھوٹے ہیں جو تجھے دوسروں کے برابر سمجھ کر اپنے بتوں سے تشبیہ دیتے ہیں اور اپنے وہم میں تجھ پر مخلوقات کی صفتیں جڑ دیتے ہیں اور اپنے خیال میں اس طرح تیرے حصے بخرے کرتے ہیں جس طرح مجسم چیزوں کے جوڑ بند الگ الگ کئے جاتے ہیں اور اپنی عقلوں کی سوجھ بوجھ کے مطابق تجھے مختلف قوتوں والی مخلوقات پر قیاس کرتے ہیں۔ (نہج البلاغہ خطبہ 89)
وَ اَشْهَدُ اَنَّ مَنْ سَاوَاكَ بِشَیْءٍ مِّنْ خَلْقِكِ فَقَدْ عَدَلَ بِكَ، وَ الْعَادِلُ بِكَ كَافِرٌۢ بِمَا تَنَزَّلَتْ بِهٖ مُحْكَمَاتُ اٰیَاتِكَ،
میں گواہی دیتا ہوں کہ جس نے تجھے تیری مخلوق میں سے کسی کے برابر جانا اس نے تیرا ہمسر بنا ڈالا اور تیرا ہمسر بنانے والا تیری کتاب کی محکم آیتوں کے مضامین اور ان حقائق کا جنہیں تیری طرف کے روشن دلائل واضح کررہے ہیں منکر ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ 89)
دیکھنا، سننا، جاننا (بصارت، سماعت، علم)
وہ سننے والا ہے لیکن نہ کسی عضو کے ذریعے سے وَ السَّمِیْعِ لَا بِاَدَاةٍ،۔ (نہج البلاغہ خطبہ 150)
وہ دیکھنے واالا ہے، لیکن نہ اس طرح کہ آنکھیں پھیلائے وَ الْبَصِیْرِ لَا بِتَفْرِیْقِ اٰلَةٍ،۔ (نہج البلاغہ خطبہ 150)
نہ تجھے غنودگی ہوتی ہے اور نہ نیند آتی ہے، نہ تارِ نظر تجھ تک پہنچ سکتا ہے اور نہ نگاہیں تجھے دیکھ سکتی ہیں۔ لَا تَاْخُذُكَ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ، لَمْ یَنْتَهِ اِلَیْكَ نَظَرٌ، وَ لَمْ یُدْرِكْكَ بَصَرٌ،۔ (نہج البلاغہ خطبہ 158)
تو نے نظروں کو پا لیا ہے اور عمروں کا احاطہ کر لیا ہے اور پیشانی کے بالوں کو پیروں (سے ملا کر) گرفت میں لے لیا ہے۔، اَدْرَكْتَ الْاَبْصَارَ، وَ اَحْصَیْتَ الْاَعْمَارَ، وَ اَخَذْتَ بِالنَّواصِیْ وَ الْاَقْدَامِ،۔ (نہج البلاغہ خطبہ 158)
اس سے پانی کے قطروں اور آسمان کے ستاروں اور ہوا کے جھکڑوں کا شمار، چکنے پتھر پر چیونٹی کے چلنے کی آواز اور اندھیری رات میں چھوٹی چیونٹیوں کے قیام کرنے کی جگہ کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔وہ پتوں کے گرنے کی جگہوں اور آنکھ کے چوری چھپے اشاروں کو جانتا ہے۔ وَ لَا یَعْزُبُ عَنْهُ عَدَدُ قَطْرِ الْمَآءِ، وَ لَا نُجُوْمِ السَّمَآءِ، وَ لَا سَوَافِی الرِّیْحِ فِی الْهَوَآءِ، وَ لَا دَبِیْبُ النَّمْلِ عَلَی الصَّفَا، وَ لَا مَقِیْلُ الذَّرِّ فِی اللَّیْلَةِ الظَّلْمَآءِ. یَعْلَمُ مَسَاقِطَ الْاَوْرَاقِ، وَ خَفِیَّ طَرْفِ الْاَحْدَاقِ۔ (نہج البلاغہ خطبہ 176)
عاجز اور اس کے علاوہ ہر سننے والا خفیف آوازوں کے سننے سے قاصر ہوتا ہے اور بڑی آوازیں (اپنی گونج سے) اسے بہرا کر دیتی ہیں اور دور کی آوازیں اس تک پہنچتی نہیں ہیں اور اس کے ماسوا ہر دیکھنے والا مخفی رنگوں اور لطیف جسموں کے دیکھنے سے نابینا ہوتا ہے، وَ كُلُّ سَمِیْعٍ غَیْرُهٗ یَصَمُّ عَنْ لَّطِیْفِ الْاَصْوَاتِ، وَ یُصِمُّهٗ كَبِیْرُهَا، وَ یَذْهَبُ عَنْهُ مَا بَعُدَ مِنْهَا، وَ كُلُّ بَصِیْرٍ غَیْرُهٗ یَعْمٰی عَنْ خَفِیِّ الْاَلْوَانِ وَ لَطِیْفِ الْاَجْسَامِ،۔ (نہج البلاغہ خطبہ 63)
اس نے سب کو روزی بانٹ رکھی ہے۔ وہ سب کے عمل و کردار اور سانسوں کے شمار تک کو جانتا ہے۔ وہ چوری چھپی نظروں اور سینے کی مخفی نیتوں اور صلب میں ان کے ٹھکانوں اور شکم میں ان کے سونپے جانے کی جگہوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے، یہاں تک کہ ان کی عمریں اپنی حد و انتہا کو پہنچ جائیں۔ قَسَمَ اَرْزَاقَهُمْ، وَ اَحْصٰۤی اٰثَارَهُمْ وَ اَعْمَالَهُمْ، وَ عَدَدَ اَنْفَاسَهُمْ، وَ خَآئِنَةَ اَعْیُنِهِمْ وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُهُمْ مِنَ الضَّمِیْرِ، وَمُسْتَقَرَّهُمْ وَ مُسْتَوْدَعَهُمْ مِّنَ الْاَرْحَامِ وَالظُّهُوْرِ، اِلٰۤی اَنْ تَتَنَاهٰی بِهِمُ الْغَایَاتُ. (نہج البلاغہ خطبہ 88)
قدرت و تسلط
فَطَرَ الْخَلَاۗئِقَ بِقُدْرَتِه۔ اس نے مخلوقات کو اپنی قدرت سے پیدا کیا، (نہج البلاغہ خطبہ 1)
اور عین قدرت رہا، حالانکہ قدرت کے اثرات کو قبول کرنے والی کوئی شے نہ تھی وَ الْقُدْرَةُ ذَاتُهُ وَ لَا مَقْدُورَ۔ (نہج البلاغہ خطبہ 1)
بَانَ مِنَ الْاَشْیَآءِ بِالْقَهْرِ لَهَا، وَ الْقُدْرَةِ عَلَیْهَا، وَ بَانَتِ الْاَشْیَآءُ مِنْهُ بِالْخُضُوْعِ لَهٗ، وَ الرُّجُوْعِ اِلَیْهِ.
وہ سب چیزوں سے اس لئے علیحدہ ہے کہ وہ ان پر چھایا ہوا ہے اور ان پر اقتدار رکھتا ہے اور تمام چیزیں اِس لئے اُس سے جدا ہیں کہ وہ اس کے سامنے جھکی ہوئی اور اس کی طرف پلٹنے والی ہیں۔ (نہج البلاغہ خطبہ 150)
اس کے علاوہ ہر قدرت و تسلط والا کبھی قادر ہوتا ہے اور کبھی عاجز وَ كُلُّ قَاِدِر غَیرُهُ یَقْدُر و یَعجِز۔ (نہج البلاغہ خطبہ 63)
وَ اَرَانَا مِنْ مَّلَكُوْتِ قُدْرَتِهٖ، وَ عَجَآئِبِ مَا نَطَقَتْ بِهٖ اٰثَارُ حِكْمَتِهٖ، وَ اعْتِرَافِ الْحَاجَةِ مِنَ الْخَلْقِ اِلٰۤی اَنْ یُّقِیْمَهَا بِمَسَاكِ قُوَّتِهٖ، مَا دَلَّنَا بِاضْطِرَارِ قِیَامِ الْحُجَّةِ لَهٗ عَلٰی مَعْرِفَتِهٖ، اس نے اپنی قدرت کی بادشاہت اور ان عجیب چیزوں کے واسطہ سے کہ جن میں اس کی حکمت و دانائی کے آثار (منہ سے) بول رہے ہیں اور مخلوق کے اس اعتراف سے کہ وہ اپنے رکنے تھمنے میں اس کے سہارے کی محتاج ہے، ہمیں وہ چیزیں دکھائی ہیں کہ جنہوں نے قہراً دلیل قائم ہو جانے کے دباؤ سے اس کی معرفت کی طرف ہماری راہنمائی کی ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ 89)
زمان و مکان سے بالا تر
وہ نہ دور سے نظر آنے والا کوئی ڈھانچہ ہے کہ مٹ جائے اور نہ کسی حجاب میں ہے کہ محدود ہو جائے لَمْ یَلْفِتْهُ تَعَرُّفُ آلَاءَةٍ لِتُدْرِكَهُ، وَ لَا یَجْمَعُهُ تَبَارِیحُ غَایَةٍ لِیَحُدَّهُ۔ (نہج البلاغہ خطبہ 161)
وہ چیزوں سے اس طرح قریب نہیں کہ ساتھ چھو جائے اور نہ وہ جسمانی طور پر ان سے الگ ہو کر دور ہوا ہے لَیْسَ فِی اَشَیآءَ فِجَاوَرُهَا، و لا خَارِج مِنهَا بِتَبَایُنِهَا۔ (نہج البلاغہ خطبہ 161)
وَ لَمْ یَتَقَدَّمْهُ وَقْتٌ وَّ لَا زَمَانٌ، وَ لَمْ یَتَعَاوَرْهُ زِیَادَةٌ وَّ لَا نُقْصَانٌ، بَلْ ظَهَرَ لِلْعُقُوْلِ بِمَاۤ اَرَانَا مِنْ عَلَامَاتِ التَّدْبِیْرِ الْمُتْقَنِ، وَ الْقَضَآءِ الْمُبْرَمِ.
نہ اس کے پہلے وقت اور زمانہ تھا، نہ اس پر یکے بعد دیگرے کمی اور زیادتی طاری ہوتی ہے، بلکہ جو اس نے مضبوط نظام (کائنات) اور اٹل احکام کی علامتیں ہمیں دکھائی ہیں، ان کی وجہ سے وہ عقلوں کیلئے ظاہر ہوا ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ 180)
اس پر زمانہ کے مختلف دور نہیں گزرتے کہ اس کے حالات میں تغیر و تبدل پیدا ہو۔ وہ کسی جگہ میں نہیں ہے کہ اس کیلئے نقل و حرکت صحیح ہو سکے۔ مَا اخْتَلَفَ عَلَیْهِ دَهْرٌ فَیَخْتَلِفَ مِنْهُ الْحَالُ، وَ لَا كَانَ فِی مَكَانٍ فَیَجُوزَ عَلَیْهِ الِانْتِقَالُ۔ (نہج البلاغہ خطبہ 89)
تو وہ اللہ ہے کہ عقلوں کی حد میں گھر نہیں سکتا کہ ان کی سوچ بچار کی زد پر آ کر کیفیات کو قبول کر لے اور نہ ان کے غور و فکر کی جو لانیوں میں تیری سمائی ہے کہ تو محدود ہو کر ان کے فکری تصرفات کا پابند بن جائے۔ وَ اَنَّكَ اَنْتَ اللهُ الَّذِیْ لَمْ تَتَنَاهَ فِیْ الْعُقُوْلِ، فَتَكُوْنَ فِیْ مَهَبِّ فِكْرِهَا مُكَیَّفًا، وَ لَا فِیْ رَوِیَّاتِ خَوَاطِرِهَا فَتَكُوْنَ مَحْدُوْدًا مُّصَرَّفًا. (نہج البلاغہ خطبہ 89)
جسمانیت سے پاک اور بے مثل و مانند
وَ الْخَالِقِ لَا بِمَعْنٰی حَرَكَةٍ وَّ نَصَبٍ وہ پیدا کرنے والا ہے لیکن نہ اس معنی سے کہ اسے حرکت کرنا اور تعب اٹھانا پڑے،۔ (نہج البلاغہ خطبہ 150)
حَدَّ الْاَشْیَآءَ عِنْدَ خَلْقِهٖ لَهَاۤ اِبَانَةً لَّهٗ مِنْ شَبَهِهَا، اس نے تمام چیزوں کو ان کے پیدا کرنے کے وقت ہی سے (جداگانہ صورتوں اور شکلوں میں) محدود کر دیا تاکہ اپنی ذات کو ان کی مشابہت سے الگ رکھے۔ (نہج البلاغہ خطبہ 161)
لَیْسَ بِذِیْ كِبَرٍ امْتَدَّتْ بِهِ النِّهَایَاتُ فَكَبَّرَتْهُ تَجْسِیْمًا، وَ لَا بِذِیْ عِظَمٍ تَنَاهَتْ بِهِ الْغَایَاتُ فَعَظَّمَتْهُ تَجْسِیْدًا، بَلْ كَبُرَ شَاْنًا وَّ عَظُمَ سُلْطَانًا.
وہ اس معنی سے بڑا نہیں کہ اس کے حدود و اطراف پھیلے ہوئے ہیں کہ جو اُسے مجسّم صورت میں بڑا کر کے دکھاتے ہیں اور نہ اس اعتبار سے عظیم ہے کہ وہ جسامت میں انتہائی حدوں تک پھیلا ہوا ہے، بلکہ وہ شان و منزلت کے اعتبار سے بڑا ہے اور دبدبہ و اقتدار کے لحاظ سے عظیم ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ 183)
اللہ تعالیٰ کی شان و عظمت
جَعَلَهٗ سُبْحَانَهٗ عَلَامَةً لِّتَوَاضُعِهِمْ لِعَظَمَتِهٖ، وَ اِذْعَانِهِمْ لِعِزَّتِه
اللہ جل شانہ نے اس کو اپنی عظمت کے سامنے ان کی فروتنی و عاجزی اور اپنی عزت کے اعتراف کا نشان بنایا ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ 1)
وَ مَا تَغَیَّبَ عَنَّا مِنْهُ، وَ قَصُرَتْ اَبْصَارُنَا عَنْهُ، وَ انْتَهَتْ عُقُوْلُنَا دُوْنَهٗ، وَ حَالَتْ سَوَاتِرُ الْغُیُوْبِ بَیْنَنَا وَ بَیْنَهٗۤ اَعْظَمُ.
حالانکہ درحقیقت وہ (مخلوقات) جو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے اور جس تک پہنچنے سے ہماری نظریں عاجز اور عقلیں درماندہ ہیں اور ہمارے اور جن کے درمیان غیب کے پردے حائل ہیں اس سے کہیں زیادہ با عظمت ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ 158)
وَ لَا تَخْطُرُ بِبَالِ اُولِی الرَّوِیَّاتِ خَاطِرَةٌ مِّنْ تَقْدِیْرِ جَلَالِ عِزَّتِهٖ.
اور نہ فکر پیماؤں کے دلوں میں اس کی عزت کے تمکنت و جلال کا ذرا سا شائبہ آ سکتا ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ 89)
وَ لَمْ تَطْمَعْ فِیْهِمُ الْوَسَاوِسُ فَتَقْتَرِعَ بِرَیْنِهَا عَلٰی فِكْرِهِمْ.
نہ کبھی وسوسوں نے ان پر دندان آز تیز کیا ہے کہ ان کے فکروں کو زنگ و تکدر سے آلودہ کر دیں۔ (نہج البلاغہ خطبہ 89)