شمع زندگیمطبوعات

شمع زندگی از امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ سے 365 اقوال کی شرح

واعظِ با عمل کے چراغ کی لَو سے اپنے چراغ روشن کرلو۔ (نہج البلاغہ:خطبہ۱۰۳)

نامِ کتاب: شمعِ زندگی
ترتیب و تشریح: گروہِ اہل قلم
اشاعتِ اول: مارچ ۲۰۲۱
ناشر: مرکزِ افکارِ اسلامی
کتاب ملنے کا پتہ: جامعہ جعفریہ جنڈ ضلع اٹک

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ سبحانہ نے انسان کو پیدا کیا اور ’’ ہم نے اولاد آدمؑ کو عزت و تکریم بخشی اور اسے گرامی قدر بنایا۔اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں بڑی فضیلت دی” کی سند سے شرفیاب فرمایا۔اللہ نے انسان کو اس کی عظمت جتانے کے لیے اپنا تعارف ان الفاظ میں بیان فرمایا: “وہ وہی اللہ ہے جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے پیدا کیا” ۔ پھر انسان پر اپنے احسان کو ان الفاظ میں ذکر کیا “اور جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کیا”۔
انسان کو زندگی جیسی نعمت سے نوازا اوراسے زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھانے کے لیے قرآن مجید جیسی لا ریب کتاب نازل فرمائی جس کا تعارف یوں کروایا “رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت و رہنمائی ہے‘‘۔ ایک مقام پر اس کتاب کے بارے میں فرمایا: ’’یہ قرآن یقینا اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھی ہے‘‘۔ زندگی کے اس دستور العمل اورشمعِ ہدایت قرآن کے تعارف کے ساتھ انسانیت کے معلم حضرت محمد مصطفیؐ کی پہچان ان لفظوں میں کروائی “بتحقیق تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے”
قرآن مجید جیسی کتاب اور مصطفیٰ ؐجیسے معلم و مربی کی تعلیمات کے مطابق مکمل زندگی گزارنے والی ذات گرامی کا نام علی بن ابی طالبؑ ہے۔ وہ عظیم ہستی جس کے لیے خود معلم قرآن نے فرمایا “ علیؑ قرآن کے ساتھ اور قرآن علی کے ساتھ ہے”
امیر المؤمنین ؑ نہج البلاغہ میں اپنی زندگی کا خلاصہ یوں بیان فرماتے ہیں “پیغمبرؐ کے وہ اصحاب جو احکام شریعت کے امین ٹھہرائے گئے تھے اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ میں نےکبھی ایک آن کے لیے بھی اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے سرتابی نہیں کی” (خطبہ ۱۹۵)
امیر المؤمنینؑ ان اصولوں کے مطابق زندگی کی راہوں کو طے کرتے ہوئے جب آخری منزل پر پہنچے اور دشمن نے سر پر تلوار کا وہ وار کیا جس کی وجہ سے دنیا سے کوچ فرمایا تو زخم کھانے پر اعلان کیا “فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃ ِ” کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔ اپنی زندگی کے اختتامی لمحات میں علیؑ نے کامیابی کا اعلان کر کے دعوت دی کہ کل اگر کوئی ’’ کامیاب زندگی‘‘کی تلاش میں نکلتا ہے تو میں شمع زندگی بن کر راہیں روشن کر کے جا رہا ہوں۔ ماضی میں بھی اگر کوئی ہدایت کی راہوں سے گزرا تو اس کے راہنما ہم تھے “ہماری وجہ سے تم نے گمراہی کے اندھیروں میں ہدایت کی روشنی پائی اور رفعت و بلندی کی چوٹیوں پر قدم رکھا اور ہمارے سبب سے ہی اندھیری راتوں کی تاریکیوں سے صبحِ ہدایت کے اجالوں میں آ گئے” (خطبہ 4)
آئندہ اگر کسی کو کامیابی کے سفر کو طے کرنا ہے تو سنو میں علیؑ اعلان کر رہا ہوں “ اللہ کی دکھائی ہوئی راہ پر چلو اور اس کے عائد کردہ احکام کو بجا لاؤ علیؑ تمہاری نجات اخروی کا ضامن ہے”(خطبہ 24)
خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰؐ کے دہنِ مبارک کے چبائے ہوئے لقمے کھا کر پروان چڑھنے والے علیؑ اپنے بارے میں فرماتے ہیں“تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہ ؐسے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام ان کے نزدیک کیا تھا۔ میں بچہ ہی تھا کہ رسول اللہ ؐنے مجھے گود میں لے لیا تھا، اپنے سینے سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کرتے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سنگھاتے تھے۔ پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منہ میں دیتے تھے۔ انہوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی” (خطبہ 190)
پیغمبر اکرم ؐکی گود میں پلنے والے یہ علیؑ اپنے قول و کلام اور خطابت و بیان کے بارے میں فرماتے ہیں۔ “ ہم خاندان رسالت اقلیم سخن کے امیر و فرمانروا ہیں۔ بیان و کلام کے ریشے و جڑیں ہماری رگ رگ میں بھرے ہوئے ہیں اور اس کی شاخیں ہم پر جھکی ہوئی ہیں” (خطبہ 230)
باب مدینة العلم علی ابن ابی طالب ؑکے علم و حکمت سے مالامال اقوال جن میں قرآن و حدیث کی روح اور اسلام کی صحیح تعلیم سمٹی ہوئی ہے ،کو بغداد کے ایک عظیم عالم سید رضیؒ نے 400 ہجری میں جمع کیا۔ اور اس مجموعہ کا نام ’’نہج البلاغہ‘‘ رکھا۔ اس میں 238 خطبات 79 خطوط و وصیتیں اور 480 مختصر اقوال درج ہیں۔ نہج البلاغہ امیرالمؤمنینؑ کی پہچان ہے۔آپ کی زندگی کا روشن آئینہ ہے۔ اس آئینہ میں جھانک کر ہم اپنی زندگیوں کو سنوار سکتے ہیں۔ اور یہ دعا دہرا سکتے ہیں۔

زندگی شمع کی صورت ہو خدا یا مری

اس کتاب میں نہج البلاغہ کے تینوں حصوں سے ’’تین سو پینسٹھ‘‘ فرامین جمع کئے گئے ہیں۔ایسے فرامین جنہیں اپنی روزمرہ عملی زندگی میں اپنا سکتے ہیں۔’’شمع زندگی‘‘ بنا سکتے ہیں۔ زندگی کو واقعی ’’کامیاب زندگی‘‘ بنا سکتے ہیں۔ خود کو “ انسان کامل” کی عظیم منزل تک پہنچا سکتے ہیں۔ اوردوسروں کی زندگیوں کو پر مسرت بنا سکتے ہیں۔
آج مسلمان روسو، ڈیکارٹ، کانٹ، مارکس اور لینن جیسے درجنوں دانشوروں کے اقوال و نظریات میں اپنے درد کا درمان اور اپنے زخم کا مرحم ڈھونڈتے ہیں۔ دوسری قوموں کے رہبروں کے اقوال و تصانیف کو شمع ہدایت قرار دیتے ہیں مگر قرآن اور اپنے راہنماؤں کے ارشادات کو دیکھنے اور پڑھنے کی فرصت نہیں۔ علامہ اقبال کے بقول:

وہ آنکھ کہ ہے سرمہ افرنگ سے روشن

پرکار و سخن ساز ہے غمناک نہیں ہے

آئیں امیرالمؤمنینؑ کے ان فرامین میں غور و فکر کریں۔ ان اقوال کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ زندگی کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا اسلام نےحل پیش نہ کیا ہو۔ دنیا کی بےوفائیوں، زندگی کی ناہمواریوں، مشکلوں کے طوفانوں کے مقابلے کےحل امامؑ کے اقوال میں موجود ہیں۔ ناکامیوں کے اسباب اور ان کا حل، بلندیوں کو جاننے اور ان کے حصول کے طریقے سب ان میں موجود ہیں۔ وہ کون سا پھول ہے جو اس گلدستہ میں موجود نہیں اور وہ کون سا مرہم ہے جو اس دوا خانے سے میسّر نہیں۔
اگر امیرالمؤمنینؑ کے علم لدنی کو مدنظر نہ بھی رکھا جائے تو بھی آپؑ ایسی شخصیت ہیں جن کی زندگی کے تجربات، خیالات اور تصورات کا نچوڑ نہج البلاغہ ہے۔ علی ؑ ایک ہی وقت میں مفکر اور راہنما بھی ہیں۔ سپاہی بھی اور سپہ سالار بھی ہیں۔ پختہ کار جنرل بھی ہیں۔ عالم بھی ،زاہد زمانہ بھی اور سربراہ حکومت بھی۔ انسان کی فطرت کے عظیم نباض بھی ہیں اور دردِ دل رکھنے والے معلم بھی ہیں۔
نہج البلاغہ کے یہ مختصر فرامین حقیقت میں قرآن کے ’’دستور زندگی‘‘ کی تفسیر ہیں جو عملاً آپؑ نے اپنائے اور زندگی میں ہمیں کر کے دکھائے۔ ہمیں بطور مسلمان فخر سے ان کو اپنانا چاہیے اور فخر ہی سے دوسروں تک پہنچانا چاہیے۔ اپنے اس سرمائے کی حفاظت اور اپنی نسلوں کو اس کی افادیت سے آگاہ کرنا چاہیے۔
کامیاب زندگی کی شمعِ راہ کے طور پر ہمیں جو ہدایتیں و راہنمائیاں چاہیں وہ یورپ و فرنگ سے نہیں بلکہ بقول علامہ اقبالؒ مصطفی ؐ و مرتضیٰ ؑیا مدینہ و نجف سے حاصل ہوں گی۔

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ

سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

والسلام
سید سعید حیدر ھمدانی
۲ مارچ ۲۰۲۱

1۔ خود شناسی

كَفٰی بِالْمَرْءِ جَهْلًااَلَّا يَعْرِفَ قَدْرَهٗ۔ (خطبہ 16)
انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی قدر و منزلت کو نہ پہچانے۔

انسان کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا گیا۔ یہ فقط گوشت اور ہڈیوں کے ڈھانچے کا نام نہیں بلکہ اس میں وہ طاقت و قوت موجود ہے جس کی بنا پر وہ ساری مخلوقات سے افضل ہے ۔اس قوت کا نام عقل و ذہانت ہے۔ اسے اچھائی و برائی اور فائدہ و نقصان کی پہچان کی قابلیت دی گئی ہے۔ امیرالمؤمنینؑ اس فرمان میں انسان کی اصل قدر و منزلت یہ بتا رہے ہیں کہ وہ خود کو پہچانتا ہو۔ اگر انسان بہت کچھ جانتا ہے مگر اپنے مقام کو نہیں جانتا تو اسے حیوانوں سے بھی بدتر قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ حیوان میں اپنی پہچان کی طاقت ہی نہیں اور انسان قابلیت ہونے کے باوجود استعمال نہ کرے تو اُس سے بڑھ کر کوئی جاہل نہیں۔ خود کو نہ پہچاننے کہ بنا پر کبھی سب کچھ ہونے کے باوجود انسان خود کو حقیر اور بے مایہ سمجھنے لگتا ہے اور کبھی اپنی حقیقت سے نا آگاہی کی وجہ سے تکبر و غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ انسان کا اصل مقام و منزلت یہ ہے کہ وہ خود سعادت کی بلندیوں کو حاصل کر سکتا ہے اور دوسروں کے لئے بھی اس راستے کا راہنما بن سکتا ہے۔

2۔ آسان سفر

تَخَفَّفُوْا تَلْحَقُوْا۔ (خطبہ 21)
اپنا بوجھ ہلکا کر لو تاکہ آگے بڑھنے والوں کو پا سکو۔

انسان اس دنیا میں مسافر کے مانند ہے۔ کچھ اس سے پہلے مسافر تھے جو منزل تک پہنچ گئے، کچھ پیچھے آ رہے ہیں۔ انسان کی منزل و مقصود وہ کمال ہے جس کمال کے حصول کے لئے وہ پیدا ہوا ہے۔ اسے عرفا کی زبان میں سلوک الی اللہ کہتے ہیں۔ انسان نے زندگی کے سمندر میں اپنی کشتی ڈالی ہے۔ اس زندگی میں اسے تند و تیز ہواؤں کا اور بپھری ہوئی اور متلاطم موجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی حالت میں جس کا سامان جتنا کم ہوگا اتنا ہی اس کا سفر اطمینان بخش ہوگا ۔ممکن ہے جو سامان اس کے پاس ہے اسے بھی کبھی سمندر میں پھیکنا پڑے تب کہیں وہ نجات پاسکے۔ با کمال انسان کا دل بھی اسی کشتی کے مانند توہمات و تخیلات کی موجوں سے ٹکراتا ہے اور دنیا کی محبت، مال و دولت سے الفت اور خواہشات کے تھپیڑوں سے الجھتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ جس نے دل کو ان محبتوں اورخواہشوں کے بوجھ سے بچا لیا وہ کامیاب ہو گیا اور جو ان کے بوجھ تلے دب گیا وہ ناکام و نامراد ہوا۔ جو لوگوں کے حقوق ادا کرتا رہے گا، اللہ کے احکام بجا لاتا رہے گا اور دنیاوی خواہشات و لذات سے دامن کو بچاتا رہے گا آسانی سے منزل کمال کو پا لے گا ۔بلکہ جو کامل ہوتے ہیں وہ راہ کے بھٹکے ہوئے راہیوں اور خطاؤں کے بوجھ تلے دبے ہوؤں کا سہارا بن جاتے ہیں اور انہیں بھی منزل تک پہنچادیتے ہیں، انہی کو رہنما و ہادی کہا جاتا ہے۔ اس لئے جو شخص دنیا کے بوجھ دنیا کے سمندر میں پھینک دے اور جس کی زندگی کی کشتی جذبہ انسانیت کی لہروں پر رواں دواں ہو وہ ایک اچھے ملاح کی طرح بہت سے غرق ہونے والوں کی نجات کا ضامن بن جائے گا اور وہی انسان کامل ہوگا۔

3۔ خاندان کی اہمیت

لَا يَسْتَغْنِي الرَّجُلُ وَ اِنْ كَانَ ذَا مَالٍ عَنْ عَشِيْرَتِهٖ۔ (خطبہ 23)
کوئی شخص مالدار ہو تو بھی اپنے قبیلہ والوں سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔

انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ کبھی مال و دولت تو کبھی فقر و غربت، اسی طرح کبھی خوشی و سکون، تو کبھی غم و اضطراب۔ با کمال انسان وہ ہے جو مشکلوں اور مشقتوں میں مایوس نہ ہو اور ہمت نہ ہارے ۔ سکون و خوشی میں زندگی کے دوسرے رخ کو نہ بھولے ، آرام و راحت کے دنوں میں سختی و مشکل کے دنوں کو یاد رکھے اور مال و دولت کے ہوتے ہوئے غریب و فقیر سے محبت دل میں سجائے رکھے۔ اس فرمان میں امیرالمومنینؑ نے دو پہلوؤں کی وضاحت فرمائی ہے ایک یہ کہ رشتہ داری اور خاندان کی اہمیت سے آگاہ کیا ہے اور واضح فرمایا ہے کہ بعض اوقات انسان کے پاس مال آ جائے تو غریب رشتہ دار کی اس کے ہاں کوئی عزت نہیں رہتی خواہ وہ اس کا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے آپ نے خبردار کیا کہ مال آجائے تو رشتہ داروں سے تعلق میں فرق نہ آنے پائے اور یوں مال خرچ کی ترغیب دلائی اور مال خرچ کا بہترین مقام غریب رشتہ دار ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ اگر رشتہ دار فقیر ہو تو کسی اور پر مال خرچ کرنا صدقہ ہی شمار نہیں ہوگا۔ دوسرا آپ نے یہ واضح فرمایا کہ خاندان کا کوئی فرد مالدار یا صاحب مقام بن جاتا ہے تو اس پر حسد کرنے والے بہت ہو جاتے ہیں اس صورت میں بہترین افراد جو اس کا دفاع کر سکتے ہیں وہ اس کے اور خاندان والے ہی ہو سکتے ہیں یعنی صاحب مال کو رشتہ داروں پر خرچ کرنا چاہیے اور اگر وہ اپنا فریضہ ادا نہ بھی کرے تو دوسری طرف غریب رشتہ دار اپنا فریضہ یعنی مالدار کی مدد کو نہ چھوڑیں۔ یوں آپ نے فرمایا آپ مال خرچ کریں گے تو رشتہ دار ہاتھ اور زبان سے آپ کی نصرت و مدد کریں گے۔ آپ کی پشت پناہی، پریشانیوں کو دور کرنے والے اور مصیبتوں میں مہربانی کرنے والے ہوں گے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں قریبیوں کو فقر و فاقہ میں پائیں تو ان کی مدد کریں۔ آپ اگر مال روک لیں گے تو کچھ بڑھ نہیں جائے گا اور خرچ کریں گے تو کمی نہیں ہوگی ۔جو شخص اپنے قبیلہ کی اعانت سے ہاتھ روک لیتا ہے اس کا تو ایک ہاتھ رکتا ہے لیکن وقت آنے پر بہت سے ہاتھ مدد کرنے سے رک جاتے ہیں۔ اس لئے مالدار اپنا مال خرچ کر کے رشتہ نبھائے اور غریب اپنی جسمانی محنت سے اور اچھے الفاظ سے اپنے تعلقات پر پورا اترے۔

4۔ نیک نامی

لِسَانُ الصِّدْقِ يَجْعَلُهُ اللهُ لِلْمَرْءِ فِي النَّاسِ خَيْرٌ لَهٗ مِنَ الْمَالِ يُوَرِّثُهٗ غَيْرَهٗ۔ (خطبہ 23)
اللہ جس شخص کا سچا ذکر خیر لوگوں میں برقرار رکھتا ہے یہ اس مال سے کہیں بہتر ہے جس کا وہ دوسروں کو وارث بنا جاتا ہے۔

انسان نے زندگی میں کیا کمایا اور دنیا سے جانے کے بعد کیا کچھ ورثہ میں چھوڑا یہ دو سوال اکثر ذہنوں میں آتے ہیں۔ با کمال انسان اس زندگی میں مال و دولت سے بڑھ کر کیا کما سکتا ہے اور ورثہ میں’’نیک نامی ‘‘ سے بڑھ کر کیا چیز چھوڑ کر جاسکتا ہے۔مال و دولت انسان جتنا بھی کما لے مرنے کے بعد اس کے ساتھ کچھ نہیں جاتا۔ مگر اس مال و دولت کو اگر نیکی اور خیر کی راہ میں خرچ کرے تو اس کے مرنے کے بعد وہ نیکیاں اور اچھائیاں اس کو معاشرے میں زندہ رکھتی ہیں۔ انہی اچھائیوں کے ذریعے لوگ اسے یاد کریں گے۔ مال اگر ورثہ کے لئے چھوڑے گا تو محدود مدت کے بعد وہ مال ختم ہو جائے گا۔ نیز وہ مال چند محدود ورثہ تک ہی رہے گا مگر معاشرے کی بہتری و ہدایت کے لئے اگر کوئی بڑا کام کر جائے تو اس سے مستفید ہونے والوں کا دائرہ بڑھتا رہے گا اور وہ دیر پا ہوگا۔ کوئی ہسپتال بنا گیا، کوئی مرکز تعلیم قائم کر گیا، تو یہ اس کی نیک نامی کا سبب بنے گا۔ کئی بار یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کسی نیک نام کے ورثا کو بھی اس شخص سے رابطہ و تعلق کی وجہ سے عزت و مقام ملتا ہے اور نسل در نسل اس کی اولاد بھی اس پر فخر کرتی ہے۔ اس عزت کی خاطر انہیں بھی کارخیر کا حوصلہ ہوگا۔ نیک نامی کوئی ایسی میراث ہے کہ حضرت ابراہیمؑ جیسے خلیل خدا بھی دعا کر رہے تھے پروردگارا مجھے بعد والوں میں نیک نام بنا دے۔

5۔ نرم مزاجی

مَنْ تَلِنْ حاشِيَتُہٗ يَسْتَدِمْ مِنْ قَوْمِهِ الْمَوَدَّةَ۔ (خطبہ 23)
جو شخص نرم مزاج ہوتا ہے وہ اپنی قوم کی محبت ہمیشہ باقی رکھ سکتا ہے۔

نرم مزاجی اور خوش خلقی انسان کی زندگی کے ایسے سرمائے ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوتے۔ امیرالمؤمنینؑ نے رشتہ داروں سے مالی تعاون کا ذکر کیا اور اس کے بعد قوم و قبیلے سے پیار و محبت کی اہمیت بتائی۔ انسان جب مالدار ہو جائے تو اکثر اس میں تکبر آ جاتا ہے خاندان کے لوگوں اور عام غریبوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ خاندان سے الگ رہنے کو پسند کرتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ غریب خاندان ہو تو خود کو اس خاندان کے حوالے سے متعارف بھی نہیں کرواتا۔ ان کے گھر میں آنے جانے کو اپنی عزت کے خلاف سمجھتا ہے۔امیرالمؤمنینؑ اس فرمان میں زندگی کا یہ درس دے رہے ہیں کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ کی دی ہوئی نعمات کے شکرانے کے طور پر مال و دولت کو اپنے عزیز و اقارب پر خرچ کرے اور اگر مال نہ ہو تو کم از کم ان کے ساتھ پیار و محبت اور عزت و احترام اور نرم مزاجی سے پیش آئے۔ خلوص بھرا سلام بھی ان کی محبت خریدنے کا سامان بن سکتا ہے۔ یہ نرم مزاجی قوم و قبیلہ اور عام افراد کے دل جیتنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ سخاوت و دردمندی کے ذریعے قبیلے کی محبت کا قلعہ مضبوط کر سکتا ہے۔ نرم مزاجی معاشرے میں سکون و آرام اور محبت و الفت پھیلا سکتی ہے ۔ یوں لوگوں کی زندگیاں بڑھ سکتی ہیں اور مال میں برکت اور اضافہ ہوتا ہے۔ انسان کو اس طرف بھی متوجہ رہنا چاہیے کہ کبھی خود تو بڑا نیک و متواضع ہوتا ہے مگر اس کے اردگرد والے اور مخصوص افراد اپنی بد خلقی اور سخت مزاجی کی وجہ سے لوگوں کو اس کے فیض سے محروم رکھتے ہیں۔ اس لئے یہ بھی ایک فریضہ ہے کہ اردگرد والے افراد پر بھی نظر رکھے اور غریب افراد خاص طور پر رشتہ داروں کے ساتھ نرم مزاجی اور اچھے اخلاق سے پیش آنے کی تاکید کرے۔ یوں نرم خو شخص کی محبت عزیزوں اور غریبوں کے دلوں میں گھر کر جائے گی اور وہ زندگی میں اسے ملنے اور سلام کرنے کی خواہش رکھیں گے اور دنیا سے چلے جانے پر اس کے لئے طلب رحمت و مغفرت کریں گے۔

6۔ نجات کا راستہ

فِرُّوْا اِلَى اللهِ مِنَ اللّٰهِ۔ (خطبہ 24)
اللہ کے غضب سے بھاگ کر اُس کے دامنِ رحمت میں پناہ لوں۔

انسان کے کمال تک پہنچانے میں رہبروراہنما کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ کامیاب راہنما سب سے پہلے یہ ثابت کرتا ہے کہ میں کامیاب ہوں تب ہی لوگ اسے راہنما مانتے ہیں۔ پھر کامیابی کی راہیں اور اصول بتاتا ہے کہ آپ ایسے کریں تو اس مقصد میں کامیابی ملے گی۔ کامیاب تاجر ہی تجارت میں کامیابی کے اصول بتائے گا تو لوگ قبول کریں گے۔ امیرالمومنینؑ اپنی زندگی میں بار بار اپنے ہادی و راہنما ہونے کا ذکر کرتے رہے اور خود کو کامیاب بھی قرار دیا۔ اس فرمان میں آپ ؑنے کامیابی کے چار اصول بتائے۔ پہلا اصول یہ کہ اللہ نے آپ کی بہتری و اچھائی کے لئے جو کچھ کہا ہے اس کی مخالفت سے ڈرو۔ دوسرا اصول یہ کہ اگر کبھی ارادے سے یا نادانی سے اُس کی مخالفت کے مرتکب ہو جاؤ تو ناامید نہ ہو بلکہ اللہ کے غضب و ناراضگی سے بچنے کے لئے اللہ ہی کی رحمت کا سہارا لو۔ یہ دستور اتنا عظیم ہے کہ ناکام سے ناکام شخص بھی ہمت نہیں ہارتا اور دامنِ امید کو نہیں چھوڑتا۔ تیسرا اصول یہ کہ اللہ نے آپ کو خلق کیا تو کمال تک پہنچانے کی راہ دکھائی ۔کبھی قرآن جیسی کتاب نازل کرکے راہ واضح فرمائی اور کبھی نبیوں کو بھیج کر ان راہوں پر چلایا اور اپنے بندوں کو دعوت دی کہ اِن کی اطاعت کر کے اُن راہوں کو طے کر یں۔ چوتھا اصول یہ کہ جو کچھ اللہ نے حکم دیا ہے اُسے بجا لاؤ۔ جن چیزوں کو انجام دینے کا حکم دیا انہیں انجام دو اور جن سے بچ کر گزر جانے کا فرمایا اس سے بچ کر چلو۔ اگر آپ ان اصولوں کو اپناؤ گے تو “میں علی ضمانت دیتا ہوں کہ تم نجات پاؤ گے” جلدی نہیں تو آخر کار ضرور کامیابی ملے گی۔ حقیقی کامیابی وہی ہے جو دیرپا ہو۔ امیرالمومنینؑ نجات و کامیابی کے اصول بیان فرما کر کامیابی کی ضمانت دے رہے ہیں مگر اِس ضمانت کی شرائط جو بیان ہوئی ہیں اُن پر عمل ہوگا تو ضمانتِ نجات پوری ہوگی۔

7- دو خوف

اِنَّ ا َخْوَفَ مَا اَخَافُ عَلَيْكُمُ اثْنَانِ اتِّبَاعُ الْهَوَى وَطُوْلُ الْاَمَلِ۔ (خطبہ 28)
مجھے تمھارے بارے میں دو چیزوں کا بڑا خوف ہے، خواہشوں کی پیروی اور لمبی امیدیں۔

سعادت و کمال کی منزلوں کو طے کرتے ہوئے ان راہوں کے خطرات سے آگاہ ہونا لازم ہے تاکہ ان خطرات سے بچ کر منزل تک پہنچا جا سکے۔ امیرالمؤمنینؑ نے اس فرمان میں دو اہم خطروں سے آگاہ فرمایا ہے۔ ایک خواہشات کی پیروی اور دوسرا لمبی امیدیں۔ انسان کی زندگی کو چلانے میں خواہشات کا اہم کردار ہوتا ہے مگر یہی خواہشات اگر حد سے بڑھ جائیں تو یہ انسان کی زندگی کے پورے نظام پر مسلط ہو جاتی ہیں اور حقائق کو جاننے یا سننے کی طاقت اس سے چھن جاتی ہے۔ گویا وہ نابینا اور بہرا ہے۔ قرآن کی اصطلاح کے مطابق وہی خواہشات اس کے ہاں خدا کا مقام حاصل کرلیتی ہیں، فکر و عقل معطل ہو جاتی ہے اور انسان زندگی کےواضح مسائل کو بھی سمجھ نہیں پاتا۔ ایسی حالت میں انسان منزل سے پہلے ہی کسی گہری کھائی میں گر جاتا ہے۔ اس لئے قرآن نے کامیابی کی نشانی یہ قرار دی ہے کہ وہ خود سے خواہشوں کو دور رکھتا ہے۔
دوسرا خطرہ جس سے آپ نے خبردار کیا ہے وہ لمبی امیدیں ہیں۔ امیرالمؤمنینؑ نے اس خطرے کو بار ہا مختلف الفاظ میں بیان فرمایا۔ امید انسان کی زندگی کے پہیے کو چلاتی ہے اگر امیدیں ختم ہو جائیں تو انسان زندگی میں حرکت ہی چھوڑ دے، اس لئے نا امیدی کو بڑا گناہ قرار دیا گیاہے مگر امیدیں اگر غیر منطقی ہو جائیں اور ان کی حد نہ رہے تو یہی امیدیں انسان کو کمزور کر دیتی ہیں اور جن چیزوں کو اسے کرنا تھا وہ کرنے نہیں دیتیں۔ لمبی امیدوں سے انسان آج کے کام کو کل پر چھوڑتا رہتا ہے اور یوں آہستہ آہستہ اس کے سب کام کل پر چلے جاتے ہیں اور وہ کل کبھی نہیں آتی۔ اس لئے کامیاب انسان اپنے مختصر ،درمیانی اور طویل مدتی منصوبے بناتا ہے۔ امید کی روشنی میں منصوبہ کو آگے بڑھاتا ہے۔ اس پر عمل درآمد کے دوران پیش آنے والے تجربات کی روشنی میں اس میں تبدیلیاں کرتا رہتا ہے۔

8۔ عبرت

وَ اتَّعِظُوْا بِمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ قَبْلَ اَنْ يَتَّعِظَ بِكُمْ مَنْ بَعْدَكُمْ۔ (خطبہ 32)
اپنے سے پہلے والوں سے عبرت حاصل کرو اس سے پہلے کہ بعد والے تم سے عبرت حاصل کریں۔

انسانی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ دوسروں سے سیکھتا ہے اور دوسروں کو سکھاتا ہے۔ سمجھدار انسان وہی ہے جو دوسروں سے سیکھنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا بلکہ وہ تلاش میں رہتا ہے کہ کسی سے سیکھوں۔ احادیث میں آیا ہے کہ مومن علم کو اپنی گمشدہ میراث سمجھتا ہے، منافق سے بھی ملے تو لے لیتا ہے۔ یہی تلاش اور طلب اسے با کمال بناتی ہے۔ اسے کہاں سے سیکھنا ہے اس میں سے ایک اہم ذریعہ کی امیرالمؤمنینؑ نے نشاندہی فرمائی کہ اپنے سے پہلے والوں سے سیکھو، بعد والے تو بہر حال آپ سے سیکھتے رہیں گے۔ اپنے سے پہلے والوں میں بزرگ معلم بھی آتے ہیں جو زندہ ہیں یا دنیا سے چلے گئے اور کتاب کی صورت میں علوم چھوڑ گئے ہیں۔ اس فرمان میں پہلے والوں سے مراد ان کے تجربات مقصود ہیں یا ان کے حالات و تاریخ سے عبرت حاصل کرنا مراد ہے۔ تاریخ و تجربات انسان کو بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ ہر روز کئی حادثات و واقعات سیکھنے کے لئے نظر سےگزرتے ہیں مگر انسان اکثر توجہ نہیں کرتا۔ کتنے ایسے افراد گزر گئے جنہوں نے ساری زندگی سرمایہ جمع کیا مگر استعمال کرنا نصیب نہ ہوا۔کتنے ایسے تھے جنہوں نے محلات بنائے مگر آج وہ ویران پڑے ہیں۔ کتنے قوت و طاقت والے تھے جو کسی کے محتاج ہو گئے۔ یہ سب وہ خاموش واعظ اور سکھانے والے ہیں جو اپنی بےزبانی سے پوری پوری زندگی کی خبر دے رہے ہیں۔ اس ساری زندگی کا ایک سبق مشترک ہے اور وہ یہ کہ جو آپ نے اپنا بنا کر رکھا وہ ختم ہو جاتا ہے اور جو خلوص سے انسانیت کی خدمت کے لئے خرچ کرتے ہیں وہ باقی رہ جاتا ہے۔ آپ اس پر عمل کریں گے تو آئندہ آنے والوں کے لئے مثبت سبق چھوڑ جائیں گے اور آپ اگر انسانیت کو بھلا کر چلے جائیں گے تو آپ ایک منفی نمونے کے طور پر دوسروں کے لیے سبق آموز بنیں گے۔

9۔ ٹال مٹول

غُلِبَ وَاللّٰهِ الْمُتَخَاذِلُوْنَ۔ (خطبہ 34)
خدا کی قسم ! ایک دوسرے پر ٹالنے والے ہارا ہی کرتے ہیں۔

انسان کی زندگی معاشرتی زندگی ہے۔ بہت سے کام دوسروں کے ذریعے یا دوسروں کی مدد سے انجام پاتے ہیں۔ ایسے اجتماعی کاموں میں یا گروہی سرگرمیوں میں کامیابی و ترقی میں دو چیزوں کا ہونا لازم ہے۔ ایک یہ کہ ہر کسی کے ذمہ جو کام ہے اسے مکمل دل جمعی سے اور بہتر سے بہتر معیار اور طریقے سے انجام دے۔ اپنے حصے کے کام کو دوسروں پر نہ چھوڑے کہ یہ حصہ فلاں کر لے گا۔ دوسرا کہے گا فلاں کر لے گا تو یوں کبھی کام مکمل نہیں ہوگا۔ دوسری چیز جو کامیابی کے لیے لازم ہے وہ دوسروں کی مدد کرنا ہے۔ کبھی کسی کے مشورے کے ذریعے راہنمائی کر کے مدد کی جا سکتی ہے اور کبھی عمل میں اس سے تعاون کیا جا سکتا ہے۔
امیرالمؤمنینؑ نے یہاں ایک عمومی اور واضح اصول بیان فرما دیا کہ زندگی میں جو لوگ بھی اپنا کام خود انجام دینے کے بجائے دوسروں پر چھوڑ دیتے ہیں یا اپنا کام تو کسی حد تک انجام دے دیتے ہیں مگر اس کام میں دوسروں کے ساتھ ہاتھ بٹانے کا خیال نہیں کرتے اور اس کی مدد کو چھوڑ دیتے ہیں تو دونوں صورتوں میں انہیں یقیناً ناکامی و شکست کا سامنا کرنا پڑے گا یا کم از کم وہ کام معیاری نہیں ہوگا۔ اس فرمان سے اپنے سربراہ کی مدد ترک کرنا بھی لیا جاتا سکتا ہے کہ سربراہ کسی کام کی انجام دہی کا کہے اور ما تحت اس کام کی بجا آوری میں ٹال مٹول سے کام لیتا رہے کہ فلاں اسے انجام دے لے گا۔ اس کا نتیجہ واضح ہے کہ یہ ٹال مٹول کام میں رکاوٹ بنے گی اور اس شخص، یا اس گروہ بلکہ اس سربراہ کو بھی ناکامی کا سامنا ہوگا۔ اس لیے ہر کام کو اپنا کام سمجھ کر اور دوسروں کے ذمہ کاموں میں اپنا حصہ شامل کر کے اور سر براہ کے حکم کو اپنی ذمہ داری جان کر انجام دیا جائے تو کاموں کی رفتار بھی تیز ہوگی اور کامیابی بھی نصیب ہوگی۔

10۔ ندامت

فَاِنَّ مَعْصِيَةَ النَّاصِحِ الشَّفِيقِ الْعَالِمِ الْمُجَرِّبِ تُورِثُ ‏الْحَسْرَةَ وَ تُعْقِبُ النَّدامَةَ۔ (خطبہ 35)
مہربان، با خبر اور تجربہ کار نصیحت کرنے والے کی مخالفت کا نتیجہ و انجام حسرت و ندامت ہے۔

انسان کی عمر مختصر اور طاقت محدود ہے اور اپنی زندگی کے تمام مسائل کو خود حل نہیں کر سکتا بلکہ اسے بہت سے کاموں میں بہت سے افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔کاشتکار کو معمار کی اور انجینیئر کو ڈاکٹر کی ضرورت ہوگی۔ اسی طرح ایک انسان زندگی کے سب علوم و تجربات خود حاصل نہیں کر سکتا بلکہ ہر کسی کو دوسروں کے مشوروں اورتجربوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ امیرالمؤمنینؑ اس فرمان میں بہترین نصیحت کرنے والے کی شرائط بیان فرماتے ہیں جو حقیقت میں مکمل طور پر خود آپ پر صادق آتی ہیں اور آپ کا اشارہ بھی سرفہرست اپنی طرف ہے۔ اس نصیحت کرنے والے کی شرائط یہ بیان ہوئی ہیں کہ وہ مہربان و شفیق ہو، اس کی نصیحت کسی منافع یا مقصد کے لیے نہیں بلکہ جسے نصیحت کر رہا ہےاس کی بہتری اور سعادت کے لئے ہو۔ وہ جن امور میں مشورہ دے رہا ہے اور نصیحت کر رہا ہے اس سے مکمل طور پر با خبر ہو اور جس کام کی طرف راہنمائی کر رہا ہے اس کا تجربہ رکھتا ہو۔ ایسے نصیحت کرنے والے اور خیر خواہ کی باتوں پر عمل ہوگا تو یقیناً کامیابی و کمال حاصل ہوگا اور اگر اس کی نصیحتوں پر توجہ نہ ہوگی اور سننے والا اگر اس کی مخالفت کرے گا تو نتیجۃ ً اسے حسرت و اندوہ کا سامنا ہوگا اور ندامت و ناکامی اس کے حصہ میں آئے گی۔ اس فرمان سے اگر استفادہ کیا جائے اور ان صفات کے حامل مشیر و ناصح کو تلاش کر لیا جائے تو یہ خود ایک کامیابی ہوگی۔ پھر اس کی راہنمائی میں کمال کی راہیں طے کرنا آسان ہوگا۔ اگر ایسا نصیحت کرنے والا مل جائے تو اس کے ساتھ کو غنیمت جاننا چاہیے یوں زندگی کی راہیں آسانی سے طے ہو جائیں گی۔

11۔ کفایت شعاری

وَ لَا تَسْأَلُوافِيهَافَوْقَ الْكَفَافِ۔ (خطبہ 45)
اس دنیا میں اپنی ضرورت سے زیادہ نہ چاہو۔

انسان جس دنیا میں رہتا ہے اگر اسے مقصد اور ہدف زندگی سمجھ بیٹھے تو جتنی دنیا زیادہ ملے گی اتنا خوش ہوگا اور خود کو کامیاب انسان سمجھے گا۔ اگر دنیا کی حقیقت سے آگاہ ہو اور یقین کر لے کہ اس سے جانا ہے تو اس کا برتاؤ اس دنیا سے اور طریقے کا ہوگا۔ امیرالمؤمنینؑ نہج البلاغہ میں جن موضوعات پر زیادہ زور دیتے ہیں ان میں سے ایک دنیا کی حقیقت سے آشنائی ہے۔ مورد بحث فرمان میں آپ نے دنیا کی محبت میں کھو جانے اور اس کی خوشنمائی میں گم ہو جانے سے خبردار کیا ہے اور اسے سعادت و کمال کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔ البتہ دنیا کمانے سے منع نہیں کیا بلکہ ارشاد فرمایا کہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے دنیا چاہو مگر اپنی ضرورت سے زیادہ کی تمنا مت کرو اس لیے کہ دنیا کی ضرورتیں جتنی بڑھاتے جاؤ گے وہ بڑھتی جائیں گی۔ دنیا میں اس پر کفایت کرو کہ آپ کو ضرورت کے پورا کرنے کے لیے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ اور کفایت شعاری یہی ہے کہ یوں زندگی گزاروں اور اتنا ضرور کماؤ کہ لوگوں کے سامنے دست سوال نہ پھیلانا پڑے۔ کفایت شعاری کے ذریعہ یعنی اپنے اخراجات پر کنٹرول کر کے آپ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے خود کو بچائیں اور یہی حقیقت میں دولت مندی و غنا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے یہی فرمایا کہ اپنی ضروریات سے زیادہ نہ چاہو اور جس سے زندگی بسر ہو جائے اس سے زیادہ کی خواہش بھی نہ کرو۔ ہاں اگر آپ کو اپنی ضرورت و چاہت سے زیادہ مل جاتا ہے تو یہ بھی سعادت کا ذریعہ بن سکتا ہے جب آپ اس سے اپنی ضروریات کو پورا کر کے دوسروں کی ضروریات بھی پوری کریں۔ اور کسی ہاتھ پھیلانے والے سے بھی یوں تعاون کریں کہ وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے آئندہ بچ جائے۔

12۔ خواہش پرستی

إِنَّمَا بَدْءُ وُقُوعِ الْفِتَنِ أَهْوَاءٌ تُتَّبَعُ۔ (خطبہ 45)
فتنوں میں پڑنے کا آغاز وہ نفسانی خواہشیں ہوتی ہیں جن کی پیروی کی جاتی ہے۔

کامیابی کی راہوں پر بیٹھے راہزن سے ہوشیار کرنا راہنماؤں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اللہ سبحانہ تعالی نے جب صراط مستقیم کی بات کی تو شیطان کے اعلان کا بھی ذکر فرما دیا کہ وہ کہتا ہے میں صراطِ مستقیم پر بیٹھوں گا اور تیرے بندوں کو گمراہ کروں گا۔ امیرالمؤمنینؑ نے یہاں ایسے ہی راہزن کا ذکر فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ دنیا میں ہنگامے، جھگڑے، فساد، فتنے اور جنگ و جدل جو امن و سکون کو برباد کرتے ہیں ان کی ابتدا انسان کی خواہش ہوتی ہے۔ فتنوں کے پیچھے اگر نظر کریں تو دنیا کی محبت اور جوانی کی خواہشوں کی تکمیل دکھائی دے گی۔ قرآن مجید نے بھی ارشاد فرمایا ہے کہ بعض لوگوں کا خدا ان کی خواہشات ہوتی ہیں وہ انہی خواہشوں کے بندے اور غلام بن جاتے ہیں۔
انسان جب خواہشات کی پیروی کرنے لگتا ہے تو وہ صحیح و غلط اور حق و باطل کو نہیں دیکھتا بلکہ اپنی خواہشیں پوری کرنے کے لیے برے سے برا کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور یوں خواہشات کی تکمیل کے لیے قوانین کو پامال کرتا ہے اور عقل کے تقاضوں کو پاؤں تلے روند ڈالتا ہے۔ کرسی و حکومت کے حصول کی خواہش میں ظلم و بربریت کی انتہا تک پہنچ جاتا ہے۔ اسے مظلوموں کی چیخ پکار سنائی نہیں دیتی اور بے گناہ لوگوں کے بہتے ہوئےلہو کو وہ نہیں دیکھتا۔امیرالمؤمنینؑ نے اس خطرے سے آگاہ کر کے گویا عدل و انصاف اور انسانیت کی عزت و احترام کی دعوت دی اور یہ بھی واضح فرما دیا ہے کہ جب انسان خواہش پرستی کی مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے تو پھر نہ وہ خدا کے بنائے ہوئے قوانین کو مدنظر رکھتا ہے اور نہ ہی دوسرے انسانوں کی آراء اس کے لیے اہم ہوتی ہیں۔

13۔ دُنیا کی حقیقت

فَإِنَّهَا عِنْدَ ذَوِی الْعُقُولِ کَفَیْ‏ءِ الظِّلِّ ۔ (خطبہ 61)
دنیا عقل مندوں کے نزدیک ایک بڑھتا ہوا سایہ ہے۔

انسان کے لیے دنیا کھیت کے مانند قرار دی گئی ہے کہ جو جیسا بوئے گا ویسا کاٹے گا اور امیرالمؤمنینؑ ایک مقام پر اسے تجارت گاہ قرار دیتے ہیں۔ انسان سے جو چیز سب سے زیادہ خطائیں کرواتی ہے ان میں سے ایک دنیا کی محبت ہے اور جب یہ محبت کسی کے دل میں سما جاتی ہے تو پھر وہ باقی ساری محبتیں اس کی خاطر قربان کر دیتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ بار بار دنیا کی حقیقت سے آگاہ فرماتے ہیں اور اس فرمان میں بھی دنیا کو سائے کے مانند قرار دیاہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ دنیا عقل مندوں کے لیے سائے کے مانند ہے کہ ابھی ایک طرف سے سورج یا کوئی اور روشنی ظاہر ہوئی تو یہ سایہ بڑھنے لگا اور یہی روشنی جب رخ بدلتی ہے تو یہ سایہ بھی رخ بدل لیتا ہے۔ ابھی یہ سایہ بڑھا ہوا تھا پھیلا ہوا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ گھٹ گیا اور سمٹ کر رہ گیا۔
دنیا کی حقیقت کے بیان کے لیے یہ خوب صورت تشبیہ ہے۔ انسان اگر دنیا کی حقیقت سے آگاہ ہو جائے تو یہی دنیا اس کے لیے کمال کا ذریعہ بن سکتی ہے اور یہی دنیا اس کے نام و عزت کے ہمیشہ بلند ہونے کا سبب واقع ہو سکتی ہے۔ آپؑ اکثر دنیا کے خطرناک پہلو بیان فرماتے ہیں چونکہ اکثر لوگ اس کے خطروں میں گھر جاتے ہیں، مگر اس فرمان میں آپ نے عقل مند کو معیار قرار دیا کہ وہ دنیا کو کیسے دیکھتا ہے۔ آپ اگر عقل مند ہیں تو دنیا کو سایہ ہی سمجھیں۔ بہ الفاظ دیگر جو دنیا کو سایہ سمجھتے ہیں وہی حقیقت میں عقل مند ہیں۔

14۔ بہترین تجارت

وَابْتَاعُوْا مَا يَبقَى لَكُمْ بِمَا يَزُوْلُ عَنْكُم۔ (خطبہ 62)
دنیا کی فانی چیزیں دے کر باقی رہنے والی چیزیں خرید لو۔

اس فرمان میں انسانی زندگی کے سرمایہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے. ایک حصہ وہ ہے جو محدود زمانے کے لئے کسی کی ملکیت رہے گا اور کچھ وقت کے بعد یا مالک نہ رہے گا یا ملکیت نہ رہے گی۔ دوسرا وہ سرمایہ ہے کہ مالک رہے نہ رہے سرمایہ رہے گا۔ اب کسی ذی شعور کو یہ فیصلہ کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی کہ وہ ختم ہونے والے سرمائے کے مقابلے میں باقی رہنے والے سرمائے کو انتخاب کرے ۔مگر مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ کیسے جانے کہ ختم ہونے والا سرمایہ کونسا ہے اور باقی رہنے والا سرمایہ کونسا ہے۔ قرآن مجید نے اسے بڑے واضح الفاظ میں بیان کر دیا ہے کہ جو فنا ہونے والے مالک سے مخصوص ہوگا وہ مال بھی فنا ہو جائے گا اور جو سرمایہ ہمیشہ رہنے والے مالک اللہ کے پاس جمع ہو جائے گا وہ ہمیشہ رہے گا۔ اللہ اس سرمائے کو اپنے لئے نہیں اپنی مخلوق کے لئے خرچ کرنے کا کہتا ہے پس جو سرمایہ مخلوق خدا پر خرچ ہوگا وہ باقی رہے گا۔ اس فرمان میں امیر المؤمنینؑ نے یہ نہیں فرمایا کہ ایک کو لے لو اور دوسرے کو چھوڑ دو بلکہ ایک کامیاب تجارت کا طریقہ بتایا ہے کہ جو ختم ہونے والا سرمایہ ہے اس سے بھی آپ ایسی چیزیں خرید سکتے ہیں جو باقی رہتی ہیں اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ اپنی زندگی میں انسانیت کے منافع کا کوئی کام انجام دے لیں ۔ اس میں جو سرمایہ خرچ کریں گے وہ باقی رہ جائے گا۔ سونے کا زیور اگر میرا رہے گا تو میں دنیا سے گیا تو وہ زیور کسی اور کا ہو جائے گا اور اگر میں اسے کسی ضرورت مند کی شادی کے لئے خرچ کر دوں تو میں رہوں یا نہ رہوں جب تک وہ خاندان اور ان کی نسلیں چلتی رہیں گی حقیقی مالک اس کا مجھے بدلہ دیتا رہے گا۔

15۔ نعمت کا غرور

نَسْأَلُ اللهَ سُبْحَانَهُ أَنْ يَجْعَلَنَا وَإِيَّاکُمْ مِمِّنْ لاَ تُبْطِرُهُ نَعْمَةٌ۔ (خطبہ 62)
ہم اللہ سبحانہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اور تمہیں ایسا بنا دے کہ نعمتیں سرکش نہ بنا سکیں۔

انسان کا بڑا کمال یہ ہے کہ وہ خود کو پہچانے کہ وہ کیا ہے ۔ جن چیزوں کی وجہ سے انسان اپنے آپ کو بھول بیٹھتا ہے ان میں سے سرفہرست دنیا کی نعمات اور سہولیات ہیں۔ نعمتیں سوچوں پر پردہ ڈال دیتی ہیں۔ سرکشی و بغاوت پر تیار کر دیتی ہیں۔ یہ کتنا سرکش بنا دیتی ہیں وہ امیرالمؤمنینؑ کی اس دعا سے ظاہر ہے کہ امیرالمؤمنینؑ اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی دعا کر رہے ہیں کہ اللہ ہم سب کو ان نعمات کی وجہ سے سرکشی سے محفوظ رکھے۔ آپ کی دعا کا یہ جملہ خبردار کر رہا ہے کہ نعمات مست و مغرور اور سرکش و باغی بنا دیتی ہیں۔ انسان جب کسی چیز کے خطرے سے آگاہ ہو جائے تو اس کے لیے نقصان سے بچنا کسی حد تک آسان ہوتا ہے۔ آپ نے خطرے سے آگاہ کر دیا اور بہت سے مقامات پر اس خطرے سے بچنے کے طریقوں سے بھی مطلع فرمایا۔ مثلاً نہج البلاغہ میں ہی ایک جگہ پر فرمایا کہ ان نعمات کا کم از کم شکر تو ادا کرو اور وہ یہ ہے کہ انہیں دینے والے کی معصیت و مخالفت میں استعمال نہ کرو۔ نعمت دینے والے کو یاد رکھیں۔ اور اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ یہ فقط آپ ہی نہیں کہ جسے نعمات حاصل ہوئی ہیں بلکہ بہت سو کو پہلے بھی ملی ہیں۔ انہیں دیکھیں کہاں گئیں نعمات اور کہاں گئے نعمات میں غرق رہنے والے۔
نعمت حقیقت میں ایک امتحان ہے اور کامیاب انسان وہی ہے جو انہیں اپنا حق نہ سمجھ بیٹھے بلکہ امتحان کا ذریعہ جانے۔ قرآن مجید نے اس لیے تفصیل سے جناب سلیمانؑ کو دی جانے والی نعمات کا ذکر کیا اور جب تخت بلقیس جناب سلیمانؑ کے سامنے رکھا گیا تو جناب سلیمان علیہ السلام نے ایک طرف اسے فضل رب کہہ کر یاد کیا اور ساتھ ہی یہ بھی بیان فرما دیا کہ اللہ نے مجھے اس فضل سے نوازا تاکہ دیکھے اور پرکھے کہ میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا احسان فراموشی کرتا ہوں اور اس کی نعمت کو بھول جاتا ہوں۔ نعمت کے غرور سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اسے اللہ کا فضل و فیض سمجھے اور اس فیض سے دوسروں کو فیض یاب کرے۔ یوں نعمت میں اضافہ بھی ہوگا اور غرورِ نعمت سے نجات بھی ملے گی۔

16۔ نگاہِ خالق

وَ اعْلَمُوا اَنَّكُمْ بِعَيْنِ اللّهِ۔ (خطبہ 64)
یقین رکھو کہ تم اللہ کے روبرو ہو۔

انسان کی زندگی غموں اور دکھوں کی آماجگاہ ہے۔ غموں اور پریشانیوں سے چھٹکارے اور نجات کے مختلف اصولوں پر مبنی درجنوں کتابیں بازار میں موجود ہیں۔ زندگی کے مشکل مراحل اور جنگ جیسے سنگین حالات میں امیر المؤمنینؑ نے پریشانیوں پر قابو پانے کے لئے مختصر الفاظ میں ایک عظیم اصول بیان فرما دیا ۔وہ اصول یہ ہے کہ’’یقین رکھو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے ‘‘یہ جملہ و اصول مشکل ترین مقامات پر بھی سکون و اطمینان کا سبب بنتا ہے۔ کربلا کے مشکل ترین لمحات میں جب امام حسین علیہ السلام چھ ماہ کے شہید علی اصغرؑ کو ہاتھوں پر اٹھائے ہوئے تھے تو کہہ رہے تھے یہ سب مشکلات میرے لیے آسان ہیں کیونکہ یہ اللہ کی نگاہوں کے سامنے ہیں۔یہ اصول سامنے رہے تو انسان کسی کے مظالم سے گھبرائے گا نہیں اور خود کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور یہی کسی انسان کی بڑی کامیابی ہے۔ خود کو انسان اس مالک کے روبرو جانے جو قدرت و طاقت بھی رکھتا ہے، ہر چیز کا علم بھی رکھتا ہے اور مہربان و رحمان بھی ہے۔ عمل کو دیکھ رہا ہے باتوں کو سن رہا ہے دلوں کے رازوں سے آشنا ہے۔ یہ عقیدہ دلوں کی تسکین، اعتماد کی قوت اور اطمینان کا سبب بنتا ہے۔
یہ عقیدہ رکھ کر انسان کسی سے بھلائی کرے گا تو اس سے شکریہ کا طلب گار نہیں ہو گا اور اُس کی بے وفائی پر دل شکستہ نہیں ہو گا۔اس لیے کہ اگر وہ یہ سب کچھ اللہ کے لیے کر رہا ہے تو اسے اطمینان ہو گا کہ جس کے لیے یہ کر رہا ہوں وہ اسے دیکھ رہا ہے۔

17۔ با کمال

اَوْرٰی قَبَسَ الْقَابِسِ۔ (خطبہ 70)
اس نے روشنی ڈھونڈنے والے کے لیے شعلے بھڑکا دیے ہیں۔

انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ کمال تک پہنچنے کے لیے با کمال افراد کو پڑھے، ان کی زندگیوں کے حالات جانے، مشکلات سے مقابلے کے طریقے ان سے سیکھے اور خود کو ان کے روپ میں ڈھالنے کی کوشش کرے۔ امیرالمؤمنینؑ نے یہاں با کمال لوگوں کی چند نشانیاں بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ گمراہی و ضلالت کے اندھیرے میں گھرے افراد جو اپنے راستے کو پانے کے لیے روشنی کے متلاشی ہیں ان کے لیے اس نے روشنی کے شعلے بھڑکا دیے ہیں اور اندھیرے میں بھٹکنے والوں کے لیے راستہ روشن کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے با کمال ذات پیغمبر اکرمؐ ہے اور امیرالمؤمنینؑ نے ان الفاظ سے آپ کی عظمت کو بیان کیا ہے۔
اگر کوئی کامیابیوں کی بلندیوں کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو پیغمبر اکرم ؐکے کمال کی راہ اپنائے اور سیرت میں ان کی پیروی کرے۔ دوسروں کی راہوں کو روشن کرنا اور ان کے لیے ہدایت کا سامان مہیا کرنا یہ آپ کا ایک عظیم مشن تھا اور آپ کی اس عظمت کو قرآن مجید نے چمکتا ہوا (چراغ) کہہ کر بیان فرمایا۔ کامیابی کی تلاش کا یہ اصول سیرتِ نبیؐ سے سیکھ لینا چاہیے۔ علامہ اقبال کے بقول دوسروں کے لیے شمع بننے کی تمنا ہونی چاہیے اور دوسروں کے لیے شمع بننے کے لیے دکھ اور تکلیفیں جھیلنی پڑتی ہیں۔ اس راستے میں جو گرمی و تپش برداشت کرنی پڑتی ہے اس کے لیے خوشی سے تیار ہونا چاہیے۔امیرالمؤمنینؑ نے نہج البلاغہ میں پیغمبر اکرمؐ کے جو درجنوں اوصاف بیان فرمائے ہیں یقیناً ہر ایک چراغ راہ ہے۔ اگر کامیابی کے راز کی تلاش ہے اور اگر کوئی کمال کی راہ کا مسافر ہے تو اس فرمان امیرالمؤمنینؑ کے مطابق اسے اپنا تعلق چراغ مصطفوی سے جوڑ لینا چاہیے، اس لیے کہ یہی چراغ روشنی تلاش کرنے والے کے لیے شعلے بھڑکانے والا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے بھی اس گفتگو کے اختتام پر اللہ سے یہی دعا کہ ہے ہمیں بھی پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ ملا دے۔

18۔ شکر

لَا تَنْسَوْا عِنْدَ النِّعَمِ شُكْرَكُمْ۔ (خطبہ 79)
نعمتوں کے وقت شکر کو نہ بھول جاؤ۔

انسان کامل کی یہ پہچان ہے کہ وہ کسی سے بھلائی کرے اور کسی کے کام آئے تو خوش ہوتا ہے اور جس سے بھلائی کرتا ہے اور جس پر احسان کرتا ہے اس سے کبھی شکریے کی توقع نہیں رکھتا بلکہ جو اس کے ساتھ زیادتی بھی کرتا ہے یہ اس کے ساتھ بھی احسان کرتا ہے۔ امیرالمومنینؑ کے فرمان کے مطابق کسی کو سزا دینا چاہتا ہے تو سزا بھی احسان کے ذریعے دیتا ہے۔ اس انسان کامل پر جب کوئی احسان کرتا ہے تو اس احسان کو نہیں بھولتا اور اس کے احسان کا شکریہ اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔جو احسان کرتا ہے سب سے پہلے اسے پہنچاننا ضروری ہے تاکہ حق شکر ادا کیا جائے۔ انسان کی زندگی میں سب سے پہلے زیادہ احسانات و نعمات اللہ کی طرف سے ہیں مگر اکثر نعمات اللہ کسی بندے کے ذریعے دیتا ہے۔ اس لیے اللہ کی نعمات کے شکریے سے پہلے اس کے بندوں کا شکریہ ضروری ہے۔ اس لیے احادیث میں آیا ہے کہ جو آدمی کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا وہ اللہ کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا۔اگر انسانوں میں ایک دوسرے کے ساتھ احسان کا یہ جذبہ پیدا ہو اور جس کے ساتھ احسان کیا گیا ہو وہ اس پر شکر گزار رہے تو معاشرے میں پیار محبت کا اضافہ ہوگا۔ اللہ کی نعمات کا شکریہ یہ ہوگا کہ اس کے بندوں میں وہ نعمات بانٹی جائیں۔ اللہ نے علم دیا ہے تو دوسروں کو سکھا کر شکریہ ادا کیا جائے، مال دیا ہے تو فقراء کا حق ادا کیا جائے، طاقت دی تو انسانیت کی بہتری کے لئے استعمال کرے۔

19۔ جوانی سے استفادہ

هَلْ يَنْتَظِرُ اَهْلُ بَضَاضَةِ الشَّبَابِ اِلَّا حَوَانِيَ الْهَرَمِ۔ (خطبہ 81)
کیا یہ بھرپور جوانی والے، کمر جھکا دینے والے بڑھاپے کے منتظر ہیں؟۔

انسان کی زندگی کا حسین ترین اور قوت و طاقت کا دور جوانی کا دور ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے اپنے کلام میں بار ہا لفظ بدل بدل کر اس جوانی کی اہمیت سے آگاہ کیا ہے۔ اس فرمان میں سوال کی صورت میں واضح فرمایا ہے کہ جوانی کے بعد کمر جھکا دینے والا بڑھاپا ہے اور بڑھاپے میں درد، دکھ اور غم ہی ہیں۔ اس لئے جوانی کے موقع کو غنیمت جانیں اور جوانی کے آئینے میں بڑھاپے کو اور طاقت کے وقت جھکی ہوئی کمر کو دیکھیں۔ دنیا اگر کمائی جا سکتی ہے تو اس جوانی میں اور اگر روحانی طور پر کسی کمال کو حاصل کیا جا سکتا ہے تو وہ بھی جوانی میں۔ جوانی میں جو کل پر کام ڈالتے رہتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے اور جو خود کامیاب نہیں ہوتا وہ بڑھاپے میں کسی کو کامیابی کی راہیں بھی نہیں بتا سکتا یعنی بڑھاپے میں اس قابل نہیں ہوتا کہ لوگ اس کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔ امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں کہ مجھے جوان کی طاقت سے زیادہ بوڑھے کی رائے پسند ہے۔اگر کوئی شخص دنیا کی حقیقت کو سمجھ لے اور اس کے عارضی ہونے پر یقین کر لے تو وہ اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرے گا۔ اس خطبے کے ایک حصے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ ان حقائق کو سمجھنے والا اور دنیا کی نعمات کو عارضی جاننے والا کبھی خوش فریبیوں میں مبتلا نہیں ہوتا اور مبہم و مشتبہ باتیں اس کی آنکھوں پر پردہ نہیں ڈالتیں، اچھائیوں کے لئے جوانی میں تیزی سے قدم اُٹھاتا ہے اور برائیوں سے دور رہتا ہے آج کے دن کل کا خیال رکھتا ہے اور پہلے سے اپنے آگے کی ضرورتوں پر نظر رکھتا ہے۔

20۔ خوش بخت

اَلسَّعِيْدُ مَنْ وُعِظَ بِغَيْرِهِ۔ (خطبہ 84)
خوش بخت وہ ہے جو دوسروں سے پند و نصیحت حاصل کرتا ہے۔

انسان کے سیکھنے کا عمل ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ حادثات و تجربات انسان کو جگاتے، ہوشیار کرتے، اور بہت سے سبق سکھاتے ہیں۔ نیک بخت ہے وہ انسان جو دوسروں کی زندگی کی کتاب کے مطالعہ سے سبق سیکھ لیتا ہے۔ دل کی آنکھوں سے ستمگروں کے طریقہ عمل کو پہچانتا ہے اور ان کے برے انجام سے آگاہ ہوتا ہے تو یہ سبق یاد کر لیتا ہے کہ اس راہ سے نہیں جانا جو تباہی کی طرف لے جاتی ہے ۔ اسی طرح با کمال لوگوں کی طے کی ہوئی منزلوں سے آگاہ ہوتا ہے اور جن راہوں کو طے کر کے وہ منزل تک پہنچے اور کامیاب ہوئے ان راہوں پر چلنے کی کوشش کرتا ہے اور منزل کو پا لیتا ہے۔دوسروں کی زندگیاں خواہ ہم سے پہلے گزر چکے ہیں اور تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں یا ہمارے زمانے کے رہنے والے ہیں آئینہ ہونی چاہئیں ۔مثلاً زندگی کا طے شدہ سبق ہے کہ جنہوں نے محنت کی اور ہمت سے کام لیا وہ کامیاب ہوگئے اور جنھوں نے سستی کی وہ ناکام ہوگئے جب دوسروں سے یہ سبق مل گیا تو اس میں اپنا تجربہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ دوسروں سے پند و نصیحت حاصل کرنا اور ان کے تجربوں سے فائدہ اٹھانا سعادت مندی ہے ۔ اگر کوئی شخص دوسروں کی زندگیوں کے بجائے اپنی گزشتہ زندگی کے تجربات سے بھی کچھ نہیں سیکھتا تو اس سے بڑا بد بخت کوئی نہیں۔

21۔ بد بخت

اَلشَّقِيُّ مَنِ انْخَدَعَ لِهَوَاهُ۔ (خطبہ 84)
جو ہوا و ہوس کے بہکاوے میں آ گیا وہ بہت بد بخت ہے۔

انسان کو مختلف پہلوؤں سے مختلف قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اُن میں سے ایک اُس کا نیک بخت اور بد بخت ہونا ہے۔ اس فرمان میں امیر المؤمنینؑ نے بد بخت کی حقیقت واضح فرمائی۔ دنیا میں اکثر بد بخت و بد نصیب اسے گنا جاتا ہے جسے دنیا میں سختیوں اور نا گواریوں کا سامنا ہو۔ دنیا کی لذیذ چیزوں سے محروم ہو۔ محبوبیت و شہرت سے بے بہرہ ہو۔ مگر امیر المؤمنینؑ یہاں فرماتے ہیں بد بخت وہ ہے جو خواہشات نفسانی کے فریب میں آ چکا ہو یا امیر المؤمنینؑ کے فرمان کے مطابق بد بخت وہ ہے جو عقل اور تجربہ کے ہوتے ہوئے اس کے فوائد سے محروم رہے۔ کسی فقیر یا خالی ہاتھ یعنی جس کی کوئی ملکیت نہیں اسے بد بخت خیال کیا جاتا ہے مگر حقیقت میں بد بخت وہ ہے جو اپنے نفس کا مالک نہ ہو، بد بخت وہ ہے جو ساری قدرت رکھنے کے با وجود اپنے نفس کو کنٹرول کرنے کی قدرت نہیں رکھتا بلکہ اپنی خواہشات کا غلام ہے۔ بد بخت وہ نہیں جو حالات زمانہ یا مجبوریوں کی وجہ سے علم و معرفت حاصل نہ کر سکا ہو بلکہ بد بخت وہ ہے جسے علم و معرفت نے مغرور و خود پرست بنا دیا ہو۔ بدبخت وہ نہیں جو راہ نہ چل سکتا ہو بلکہ بد بخت وہ ہے جو راہ چلتے ہوؤں اور ناتواں افراد کو اور حقیقت پر مبنی اصولوں کو پاؤں تلے روند ڈالے۔بد بخت وہ نہیں جسے عالم طبیعت کے رنگ نظر نہیں آتے بلکہ بد بخت وہ ہے جو خود کو اپنی حقیقت کے مطابق دیکھ اور پہچان نہ سکے۔ بد بختی سے بچنے کے لئے امیر المؤمنینؑؑ نے خبردار کر دیا ہے کہ ہوا و ہوس کے دھوکے میں نہ آؤ ورنہ سب کچھ ہونے کے باوجود بدبخت حساب ہو گے۔

22۔ سچائی

اَلصَّادِقُ عَلَى شَفَا مَنْجَاةٍ وَكَرَامَةٍ۔ (خطبہ 84)
سچا شخص نجات و عزت کی بلندیوں پر فائز ہوتا ہے۔

انسان ہی ایسی مخلوق ہے جسے سچا یا جھوٹا کہا جا سکتا ہے ۔ جو کبھی سچ بولتا ہے اور کبھی جھوٹ سے کام لیتا ہے۔ سچ یعنی حقیقت و واقعیت کے مطابق بات یا عمل کرنا اورجھوٹ یعنی حقیقت و واقعیت کے خلاف بات یا عمل کرنا۔ پتھر پتھر ہے وہ کبھی نہیں کہے گا کہ میں سونا ہوں اور چیونٹی کبھی یہ نہیں کہے گی کہ میں ہاتھی ہوں ۔ چیونٹی کا عمل بھی چیونٹی ہی کی طرح کا ہوگا، ہاتھی کی طرح نہیں ہوگا۔ چیونٹی دانے کو اٹھانے کی کوشش کرے گی درخت کی شاخوں کو نہیں توڑے گی۔امیر المؤمنینؑ نے یہاں فرمایا: جو واقعیت کے مطابق بات یا عمل کرتا ہے وہ بلندیوں اور فضیلتوں کا مالک قرار پائے گا اور جو جھوٹا ہوگا وہ پستی و ذلت کی گہرائیوں میں گرے گا۔ انسان ہوتا کچھ ہے اور کہتا کچھ اورہے۔ یاکہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ ہے۔ یہ اس کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے ۔دنیا میں اکثر فتنہ و فساد کی بنیاد یہی جھوٹ ہوتا ہے۔ اکثر افراد اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کہیں گے کچھ مگر عمل اس کے خلاف ہوگا اور پھر اس جھوٹ کو مانیں گے نہیں بلکہ اپنے کام کی کوئی تاویل کر لیں گے۔ یوں بہت سوں کی زندگیاں جھوٹ کی بنیادوں پر قائم ہوتی ہیں۔ اس لئے جو افراد حقائق کو جانتے اور ان کے مطابق عمل کرتے ہیں، خود کو پہچانتے اور اپنی طاقت کے مطابق آگے بڑھتے ہیں تو یہ سچے ہیں اور معاشرے میں ان کی عزت ہوگی۔ مگر جو اس کے برعکس کرتا ہے کسی نہ کسی وقت اس کا جھوٹ ظاہر ہو جاتا ہے۔ ایسے شخص کو دوسروں سے شرمسار ہونا پڑتا ہے یا کم از کم دوسروں کی نگاہوں میں گر جاتا ہے۔ اس لئےامامؑ فرماتے ہیں کہ عظمت و عزت چاہیے تو اس کے حصول کا نسخہ سچائی ہے۔ جو لوگ اپنے مقصد ومشن میں سچے ہوتے ہیں وہ محنت بھی اسی کےمطابق کرتے ہیں تو کامیابی انہیں نصیب ہوتی ہے۔

23۔ ¬نورِ یقین

فَهُوَ مِنَ الْيَقِينِ عَلَي مِثْلِ ضَوْءِ الشَّمْسِ۔ (خطبہ 85)
وہ یقین کی وجہ سے ایسے اجالے میں ہیں جو سورج کی چمک دمک کے مانند ہے۔

انسان ساری زندگی جو سعی و کوشش کرتا ہے، مال و دولت اکھٹی کرتا ہے ،منصب و عہدہ کا طلب گار رہتا ہے وہ ان چیزوں کو عزت کا ذریعہ اور لوگوں میں محبوب ہونے کا سبب سمجھتا ہے۔ لوگوں کا محبوب ہونا خود ایک کمال ہے، البتہ کمال تب ہوگا جب اصول و قوانین کی بنا پر اس محبت کی جگہ دلوں میں بنے گی۔ لوگ اگر طمع و حرص کی وجہ سے دلوں سے محبت کے بجائے زبانوں پر محبت کے ا لفاظ لائیں تو یہ محبت کمال نہیں ہوگی۔ امیرالمؤمنینؑ نے نہج البلاغہ کے اس خطبہ میں بندوں کی محبت سے بڑھ کر خدا کی محبت کے حصول کے طریقے بیان فرمائے ہیں اور ان کی نشانیاں بیان کی ہیں ۔ جب کوئی انسان اللہ کا محبوب بن جاتا ہے تو پھر اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت و مودت ڈال دیتا ہے۔
اس فرمان میں امیرالمؤمنینؑ نے محبوب خدا کی ایک نشانی یہ بیان فرمائی ہےکہ وہ مقصد اور مشن پر یوں پختہ یقین رکھتا ہے کہ اس کا یقین سورج جیسی چمک دمک رکھتا ہے۔ جو انسان سوچ بچار کے بعد اپنا ہدف معین کرتا ہے، خاص کر جب اس ہدف میں محبت خدا کاحصول مدنظر ہو تو خواہش پرستی کے پردے اور کمال تک پہنچنے کی رکاوٹیں اس کے سامنے سے ہٹ جاتی ہیں ۔ اس کی راہ کے سنگ میل اس کے لیے چمک رہے ہوتے ہیں۔ نفس پرستی کے طوفانی دریاؤں کو عبور کرنے کے اسباب واضح ہو جاتے ہیں اور وہ شخص قرآن جیسے مضبوط ذریعہ کمال کو تھام لیتا ہے اور قرآن کے ذریعے اسے جو راہیں سمجھائی گئی ہیں یقین کے چراغ کی روشنی میں انہیں طے کر لیتا ہے اور اس راہ میں جو مشکلیں آتی ہیں وہ یقین کی قوت سے اطمینان سے عبور کر لیتا ہے۔ یعنی قرآن کے قوانین سے ھدف معین کرتا ہے اور یقین کی طاقت سے ھدف کو حاصل کرتا ہے۔
محبوب خدا کی نشانیوں میں سے پھر امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں کہ وہ خود سازی کی منزل کو یقین کے چراغ سے حاصل کرتا ہے مگر اسے انتہائے منزل نہیں سمجھتا بلکہ پھر مخلوق خدا کی راہنمائی اور خدمت کے لیے چراغ بن جاتا ہے اور انہیں جہالت و گمراہی کے اندھیروں سے نجات دلاتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں “ وہ تاریکیوں میں روشنی پھیلانے والا، مشتبہ باتوں کو حل کرنے والا، الجھے ہوئے مسئلوں کو سلجھانے والا، گنجلکوں کو دور کرنے والا اور لق و دق صحراؤں میں راہ دکھانے والا ہوتا ہے”خلاصہ یہ کہ با کمال وہ ہے جو مخلوق خدا کو با کمال دیکھنا چاہتا ہے اور اس کے اسی کردار کی وجہ سے وہ خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور خدا مخلوق میں اسے محبوب بنا دیتا ہے۔

24۔ عظیم راہنما

أَرَيْتُکُمْ کَرَائِمَ الْأَخْلاَقِ مِنْ نَفْسِي۔ (خطبہ 85)
کیامیں نے آپ کو پاکیزہ اخلاق پر عمل کر کے دکھایا ہے؟۔

کمال کی منزلوں کے حصول کے لیے با کمال راہنماؤں کی اطاعت و پیروی لازم ہے۔ اس لیے کمال کے مسافر کو پہلے راہنما تلاش کرنا چاہیے۔ اس جملے میں امیرالمؤمنینؑ نے خود کو بطور راہنما پیش کیاہے اور اپنے سات اوصاف میں سے ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ میں نے آپ کو زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر پاکیزہ اخلاق دکھائے ہیں۔ یعنی علی علیہ السلام کی سیرت سے اخلاقِ کریم کی پہچان ہو سکتی ہے اور اس پر عمل کے طریقے جانے جا سکتے ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ کے اوصاف جو قرآن مجید نے بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ خلق عظیم کے مالک ہیں۔ امیرالمؤمنینؑ گویا بطور شاگرد ان اخلاقیات کو عملی طور پر بجا لا نے کا اعلان کر رہے ہیں۔ ہدایت و ایثار، زہد و پارسائی، مظلوموں کی حمایت، یتیموں کی سرپرستی، مقصد کے لیے جرأت و شجاعت، اور بطور راہنما پیش آنے والے دکھ پر صبر وغیرہ اخلاق کریمہ میں شامل ہیں۔ یہاں آپؑ نے لفظ کرامت استعمال کیا ہے، حسن خلق نہیں کہا ۔ علماء کہتے ہیں حسن خلق یہ ہے کہ اچھائی کا بدلہ اچھائی سے دو یا اس سے بھی بہتر بدلا دو مگر کرامت اخلاقی یہ ہے کہ برائی کا بدلہ اچھائی سے دو۔ علی علیہ السلام کا قاتل ضرب لگاتا ہے علی علیہ السلام اس کی دیکھ بھال کی تاکید کرتے ہیں۔
اس حصے میں امیرالمؤمنینؑ سوالیہ انداز میں پوچھتے ہیں کیا میں نے تمھارے سامنے قرآن پر عمل نہیں کیا؟ گویا یہ عظیم راہنما قرآن پر عمل کر کے اور سیرت مصطفٰی کو عملی طور پر اپنا کر ہمیں دعوت دے رہے ہیں، میرے اعمال کو دیکھتے آؤ اور میرے پیچھے چلتے آؤ تو کمال کو پا لو گے۔ عظیم رہبر وہی ہوتا ہے جو عمل سے نمونہ بنتا ہے اور کمال کے متلاشی کو بھی چاہیے کہ وہ اس راہنما کے اصولوں کو عملاً اپنائے۔

25۔ اپنی حفاظت

زِنُوا أَنْفُسَکُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُوزَنُوا۔ (خطبہ 88)
اپنے نفسوں کو خود وزن کرو اس سے پہلے کہ کوئی وزن کرے۔

کامیاب انسان وہی ہو سکتا ہے جو سب سے پہلے اپنی اصلاح کرے۔ اصلاح کے چند اصول بتاتے ہوئے امیرالمؤمنینؑ ارشاد فرماتے ہیں، اپنا وزن کرو اس سے پہلے کہ کوئی آپ کا وزن کرے۔ اس فرمان کو اکثر افراد نے آخرت کی اصلاح کے لیے بیان کیا ہے جبکہ حقیقت میں یہ دنیاوی و اخروی دونوں زندگیوں کی اصلاح کا بہترین قانون ہے۔ وزن سے مراد یہ ہے کہ آپ دنیا کے کسی شعبۂ زندگی میں قدم رکھنا چاہتے ہیں تو پہلے خود کو پرکھیں کہ جس کام میں آپ جانا چاہتے ہیں اس کی ذہنی و جسمانی قابلیت آپ میں ہے یا نہیں۔ اس لیے کہ اگر زمین اس فصل کو اگانے کے قابل ہی نہ ہوئی تو ماہر باغبان اور قیمتی بیج بھی وہاں پھول نہیں کھلائے گا۔اسی طرح اپنی زمین اور قابلیت کا وزن و حساب کر کے، اپنی قابلیت کو جانچنے کے بعد کام شروع کیا جائے۔ کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ مسلسل اس کے معیار اور رفتار کو پرکھتے رہیں اور انصاف سے اس کی صحیح و غلط ہونے کا اندازہ لگاتے رہیں۔ اگر کہیں افراط و تفریط ہے تو خود کو حد وسط میں لے آئیں۔ اس طرح آپ کو اپنی کمزوریوں کا اندازہ ہو جائے گا اور اس کمی کو دور کیا جا سکے گا۔ اعمال کا وزن کرنے کے لیے کسی کامیاب انسان کی زندگی کو معیار بنایا جا سکتا ہے۔ کسی حکیم نے بہت خوب کہا ہے کہ اگر آپ کے کسی عمل کی وجہ سے سارا شہر آپ کی تعریف کرے تو اس پر فخر نہ کرو اور پورا شہر آپ کو برا بھلا کہے تو مایوس نہ ہو بلکہ اپنے عمل کو قرآن سے پرکھو، اگر قرآن کے حکم کے مطابق ہے تو شکر ادا کرو اور اگر مخالف ہے تو اس کی تلافی کرو۔ کامیاب تاجر وہی ہو تا ہے جو اپنے سرمائے کا وزن اور حساب رکھتا ہے۔ اسی طرح کامیاب انسان وہی ہوگا جو اپنے اعمال اور اپنے اوقات کا حساب رکھے۔ امیرالمؤمنینؑ نے اس فرمان کی تکمیل یوں فرمائی( اللہ کے بندو!اپنے نفسوں کو تولے جانے سے پہلے تول لو اور محاسبہ کیے جانے سے قبل خود اپنا محاسبہ کر لو۔ گلے کا پھندا تنگ ہونے سے پہلے سانس لے لو اور سختی کے ساتھ ہنکائے جانے سے پہلے مطیع و فرمانبردار بن جاؤ۔اور یاد رکھو کہ جسے اپنے نفس کیلئے یہ توفیق نہ ہو کہ وہ خود اپنے کو وعظ و پند کر لے اور برائیوں پر متنبہ کر دے تو پھر کسی اور کی بھی پند و توبیخ اس پر اثر نہیں کر سکتی۔

26۔ اللہ کا کنبہ

عِيَالُهُ الْخَلاَئِقُ۔ (خطبہ 89)
ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔

انسان اگر اپنی عظمت کو جاننا چاہے تو دو لفظوں کا یہ جملہ ایک پوری کتاب بن سکتا ہے۔ انسان جب بطور مخلوق و انسان اپنی عظمت جان لے گا تو دوسری مخلوق خدا کی اہمیت بھی اس کے لیے اس فرمان سے واضح ہو جائے گی۔ ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہونے کے اعتبار سے قابل احترام ہوگی۔ انسان جب اپنی اس عظمت سے آگاہ ہوگا تو خود کو گھٹیا حرکتوں سے محفوظ رکھے گا۔ دکھوں اور تکلیفوں میں اللہ کا سہارا لے گا اور مایوسی سے بچا رہے گا۔ زندگی میں دوسروں سے ایسا برتاؤ کرے گا جیسے کنبے کے افراد ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔
اس فرمان میں عیال کےلفظ سےایک طرف مخلوق سے اللہ کی محبت و رحمانیت کا اظہار ہوتا ہے تو دوسری طرف آپؑ کے اس فرمان کہ “ اللہ نے سب کا رزق اپنے ذمہ لیا ہے اور سب کی روزی مقرر کر رکھی ہے” سے اللہ سبحانہ کا مخلوق کے لیے کفیل ہونا ثابت ہے۔ انسان اگر زندگی کا کفیل اللہ کو جان لے تو اس کی بہت سی پریشانیاں دور ہو سکتی ہیں۔ گھر کے سربراہ کا کام ہوتا ہے کہ وہ کنبے کے افراد کی ضروریات کو پورا کرے۔ البتہ سربراہ جو ذمہ داری لگاتا ہے وہ پوری کرنا کنبے کے افراد پر لازم ہوتا ہے۔ اگر وہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرے گا تو نتیجے میں جو کمی واقع ہو گی وہ اس کی اپنی کوتاہی کی وجہ سے ہوگی نہ کہ کفیل کی عنایت و مہربانی میں کمی کے سبب۔ امیرالمؤمنینؑ نے یہاں لفظ انسان استعمال نہیں کیا بلکہ مخلوق کا لفظ استعمال کیا ہے تو یہاں حیوانات بھی رزق کھاتے ہیں تو وہ بھی اللہ کی عنایت سے مستفید ہو رہے ہیں۔انسان اگر زندگی میں انسانی کنبہ کا ایک فرد بن کر رہے تو زمانے میں امن ہی امن ہوگا۔ اس فرمان کو اپنا کر اپنی زندگیوں کو سنوارا جا سکتا ہے اور دوسروں کی زندگیوں کی بہتری کے لیے سہارا بنا جا سکتا ہے۔

27۔ حقیقی عالم

اَلْعَالِمُ مَنْ عَرَفَ قَدْرَهُ وَ كَفَى بِالْمَرْءِ جَهْلًا اَلَّا يَعْرِفَ قَدْرَهُ۔ (خطبہ 101)
سمجھدار و دانا وہ ہے جو اپنا مرتبہ شناس ہو اور انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی قدر و منزلت کو نہ پہچانے۔

انسان خود کو پہچان لے اور یہ جان لے کہ اس کائنات کے ارض و سماء اور کوہ و دریا کے سامنے یہ کتنا چھوٹا سا ذرہ ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہو جائے کہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے بارے میں اس کی کیا ذمہ داریاں ہیں ۔ اس سے بھی آگاہ ہو جائے کہ اسے اس جہاں میں کون لایا ہے، کیوں لایا ہے اور یہ کیا کر رہا ہے، تو نتیجے میں اسے اپنی قدر و منزلت اور حقیقت و حیثیت سے آشنائی ہو جائے گی۔اُسے اندازہ ہوگا کہ خالق نے اُسے اشرف المخلوقات بنایا ہے اور کائنات کی ہر شے اس کے لئے مسخر کر دی ہے۔ پیدا کرنے والے نے اسے اپنے جیسے انسانوں کے درد دل کے لیے پیدا کیا ہے، اور اسے حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرنے کا حکم دیا ہے۔ بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھانے پر اجر کا وعدہ کیا ہے ۔ خالق نے اسے عقل جیسی نعمت سے نوازا ہے تاکہ اپنی اور اپنے جیسوں کی بہتری کے ذرائع تلاش کرے۔
انسان جب اپنی قدر و منزلت کو بھلا دیتا ہے تو یہ اس کی نادانی کی انتہا ہوتی ہے۔ وہ اپنے مقام کو بھلا کر بہت کچھ ایجاد کرنے میں تو مشغول رہتا ہے مگر انسانیت کھو دیتا ہے ۔قتل و کشتار کے آلات بنانا شروع کر دیتا ہے۔ چوری اور ڈاکے کی سوچوں میں مشغول ہو جاتا ہے۔ دوسروں پر جائز و نا جائز طریقے سے حکومت کرنے کو اپنا حق سمجھتا ہے ۔ انسانوں کی بہتری و اصلاح کے بجائے فتنہ و فساد کھڑے کرتا ہے۔ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے ایٹم بم جیسے ہتھیار بنا کر اسے علم کا نام دیتا ہے۔ مگر امیر المومنینؑ کے فرمان کے مطابق اس کی یہ سوچ اس کی جہالت کی نشانی ہے۔ انسان کو اس معلم انسانیت کے اس فرمان کو مدنظر رکھتے ہوئے خود کو پہچاننا چاہیے اور خود کو پہچانے گا تو خدا کو پہچانے گا اور مخلوق کو اپنے جیسا سمجھے گا، یوں دوسروں کے ساتھ ویسا سلوک کرے گا جیسا چاہتا ہے کہ لوگ اس سے برتاؤ کریں اور کسی پر ظلم کرے گا نہ کسی کی غلامی۔

28۔ نصیحت

اِسْتَصْبِحُوا مِنْ شُعْلَةِ مِصْبَاحٍ وَّاعِظٍ مُتَّعِظٍ۔ (خطبہ 103)
با عمل نصیحت کرنے والے کے چراغ کی روشنی سے اپنے چراغ روشن کر لو۔

انسان دُنیا میں اپنے راستوں کو روشن کرنے کے لیے چراغ جلاتا ہے۔ یہ چراغ اسے تاریکیوں سے نجات دیتے ہیں،۔راہ کے گڑھوں میں گرنے سے بچاتے ہیں۔راہ سے بھٹک جانے سے محفوظ رکھتے ہیں اور راہ کے خطرات سے بچاتے ہیں۔ اسی طرح ایک باعمل ناصح فکری و اخلاقی راہوں کے طے کرنے میں چراغ کا کام دیتا ہے۔ دنیا میں عزت سے زندگی گزارنے اور دوسروں کو عزت دینے کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ اس واعظ و ناصح کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے عمل سے نصیحت و موعظہ کرتا ہے، ایسے شخص کی روشنی سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ پھر چراغ سے چراغ جلتا ہے کے مقولے کے مطابق خود بھی انسان کو چراغِ راہ بن جانا چاہیے۔ اس فرمان میں اُس ناصح و واعظ سے آپؑ نے اپنی ذات مراد لی ہے۔ قرآن نے پیغمبر اسلامؐ کو روشن چراغ قرار دیا ہے۔ امیر المومنینؑ خود نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں تمھارے درمیان میری مثال ایسی ہے جیسے اندھیرے میں چراغ۔ چراغ راہ کے طور پر امیرالمؤمنینؑ بہترین ذریعہ ہیں۔ انسان اس چراغ علوی سے اپنی راہوں کو طے کر کے خود کو دوسروں کے لیے راہنما بنا سکتا ہے۔

29۔ برائی سے روکنا

وَ اِنْهَوْا غَيْرَكُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تَنَاهَوْا عَنْهُ فَاِنَّمَا اُمِرْتُمْ بِالنَّهْيِ بَعْدَ التَّنَاهِي۔ (خطبہ 103)
دوسروں کو برائیوں سے روکو اور خود بھی رکے رہو، اس لیے تمھیں برائیوں سے رکنے کا حکم پہلے ہے اور دوسروں کو روکنے کا بعد میں ہے۔

انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ کسی کو تکلیف میں دیکھے تو اسے تکلیف ہوتی ہے۔ کسی راہ پر اگر دردندہ بیٹھا دیکھے تو اس طرف جانے والوں کو روکے گا۔دریا میں طغیانی ہے اور ڈوب جانے کا خوف ہے تو اس جانب بڑھنے والوں کو خطرے سے آگاہ کرے گا۔ اس انداز میں روکنا حقیقت میں دوسروں کی بھلائی اورخطرے سے بچانا ہے۔ اخلاقیات میں بھی یہی پسندیدہ روش ہے کہ آپ کسی عمل کی کمزوری سے آگاہ ہیں مثلاً جھوٹ کی برائی سے آپ واقف ہیں، اب کوئی جھوٹ بولے گا تو اسے سمجھائیں گے۔ اس روکنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عقل کا تقاضا ہے کہ دوسرے کو نقصان سے بچائیں۔
امیرالمؤمنینؑ یہاں انسان کو ایک فریضے کے طور پر یاد دلا رہے ہیں کہ کوئی شخص جہالت و نادانی کی وجہ سے یا غفلت کی بنا پر غلطی کر رہا ہے تو آپ یہ مت سوچیں کہ مجھے کیا ہے بلکہ اسے سمجھانا بھی آپ کی ایک ذمہ داری ہے۔ البتہ اس سمجھانے کا اثر تب ہوگا جب آپ خود اس برائی سے دور رہیں گے۔ یعنی دوسروں کی اصلاح کریں مگر دوسروں کی اصلاح تب آسان ہوگی جب آپ پہلے اپنی اصلاح کریں گے۔ لوگ کہنے سے زیادہ کرنے کو دیکھتے ہیں۔ جس راہ پر کسی درندے کی موجودگی کی خبر آپ دے کر دوسروں کو ادھر جانے سے روک رہے ہیں اگر خود ادھر ہی جا رہے ہیں تو لوگ آپ کو جھوٹا سمجھیں گے یا دیوانہ۔ اس لئے جسے آپ دوسروں کے لیے بہتر نہیں سمجھتے اسے خود بھی ترک کریں۔ اس امر کی تاکید کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ آپ دوسروں کو روکیں مگر یاد رکھیں کہ دوسروں کو روکنے کا حکم آپ کے لیے بعد میں دیا گیا ہے اور خود رکنے کا حکم پہلے ہے۔

30۔ بے تحاشا محبت

مَنْ عَشِقَ شَیْاً اَعْشٰی بَصَرَهٗ وَ اَمْرَضَ قَلْبَهٗ۔ (خطبہ 107)
جو شخص کسی شی سے بے تحاشا محبت کرتا ہے وہ اُس کی آنکھوں کو اندھا، دل کو مریض کر دیتی ہے۔

انسان پر بعض اوقات ایسے حالات طاری ہوتے ہیں کہ وہ فقط یک طرفہ دیکھتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص غصے میں ہوتا ہے تو اسے دوسرے کی فقط برائیاں نظر آتی ہیں، اس کی کسی اچھائی پر نظر نہیں پڑتی اس لئے غصے کو جنون کہا گیا ہے جس میں آنکھیں حقائق کو دیکھتی نہیں، کان واقعیت کو سنتے نہیں اور ذہن درست سوچتا نہیں۔ یہی حالت عشق کی ہے یعنی اگر کسی شخص یا شی سے محبت حد سے بڑھ جائے تو اس کا کوئی عیب و کمزوری دکھائی نہیں دیتی اور اگر نصیحت کرنے والا اس کی حقیقت سے آگاہ کرنا چاہے تو وہ نصیحت سننے کو تیار نہیں ہوتا۔ غصے کی طرح بے تحاشا محبت بھی حقیقت کو سمجھنے نہیں دیتی۔
امیرالمؤمنینؑ یہاں دنیا سے بے تحاشا محبت کے نقصانات سے آگاہ کر رہے ہیں۔ گویا بےتحاشا محبت آنکھوں کو اندھا اوردل کو صحیح سوچ سے محروم کر دیتا ہے۔ دیکھتا ہے تو بیمار آنکھوں سے یعنی حقیقت کو دیکھ ہی نہیں سکتا۔ سنتا ہے تو بس محبوب و معشوق کی اچھائیوں کے بارے میں گویا اس اندھی محبت نے اس کی عقل کو مفلوج کر دیا ہے۔ ایسی صورت میں وہ سب سعادت و خوشبختی کو اس محبت میں منحصر جانتا ہے اور جو کمال کی حقیقی راہیں ہیں ان پر چلنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ دنیا کے مکر و فریب کا اسے احساس ہی نہیں ہوتا اور جب یہ دنیا اپنی بساط لپیٹتی ہے تو اب سوچے بھی تو وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ اس لیے کسی شی سے محبت کی حد رکھی جائے تو انسان ترقی کر سکتا ہے اور حقیقی محبت اُس اللہ سے کی جائے جس میں یقیناً کوئی نقص ہے ہی نہیں ۔جب وہ اللہ سے حقیقی محبت کر لے گا تو اسے زندگی میں سکون بھی ملے گا اور عزت بھی اور فنا ہو جانے والی چیزوں کی عارضی محبت بھی ختم ہو جائے گی۔

31۔ قرآن سے سبق

تَعَلَّمُوْا الْقُرْآنَ فَاِنَّهٗ اَحْسَنُ الْحَدِيثِ۔ (خطبہ 108)
قرآن کی تعلیم حاصل کرو کہ وہ بہترین کلام ہے ۔

انسان پر اللہ کا یہ احسان ہے کہ خلقت کے ساتھ عقل جیسا راہنما عطا فرمایا اور اس سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس عقل کی راہنمائی کے لیے خطاؤں سے پاک انبیاء و رسل کی صورت میں ہادی اور غلطیوں سے محفوظ قرآن جیسا دستور العمل نصیب فرمایا۔ ہر وہ طریقہ جس سے انسان صاحب فضیلت رہے وہ عطا فرمایا۔ امیرالمؤمنینؑ اس فرمان میں رسول اللہؐ کی پیروی و ہدایت کے بعد قرآن کی تعلیم کا حکم فرماتے ہیں۔ قرآن کو آپ نے بہترین کلام، اس میں غور و فکر کو دلوں کی بہار اور اس کے نور کو سینوں کے لیے شفا قرار دیا۔ پھر فرمایا: اچھی طرح اس کی تلاوت کرو کہ اس کے واقعات سب واقعات سے زیادہ فائدہ رساں ہیں۔اور یہ انسان ساز کتاب ہے۔
معلم قرآن امیرالمؤمنینؑ نے کمال انسانیت کے یہ دو نسخے یعنی سیرت نبیؐ اور تعلیم کتاب ہمیں بتا دئے۔ اس راہنمائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انسان کمال کی بلندیوں تک پہنچ سکتا ہے۔اللہ سبحانہ قرآن میں باکمال انسانوں کے واقعات بیان فرما کر نمونے پیش کرتا ہے۔حضرت یوسفؑ کا تفصیل سے واقعہ بیان کیا ۔ان کی زندگی کے اتار چڑھاؤ کی وضاحت کی اور اسے بہترین قصہ کہہ کر اس سے سبق لینے کی دعوت دی۔

32۔ صلہ رحمی

صِلَةُ الرَّحِمِ فَإِنَّهَا مَثْرَاةٌ فِي الْمَالِ وَمَنْسَأَةٌ في الْأَجَلِ۔ (خطبہ 108)
رشتہ داروں سے اچھا برتاؤ کرنا کہ یہ مال میں اضافہ اور عمر کی درازی کا سبب ہے۔

انسان کا انسان سے برتاؤ اس کی فکر کا عکاس ہوتاہے۔ اگر کوئی انسان دوسرے انسان کی عزت و احترام کا قائل ہے تو یہ خود اس کے معزز و مکرم ہونے کی نشانی ہے اور اگر دوسرے کی اہمیت و عظمت کا قائل نہ ہوگا تو یہ خود اس کے کم ظرف ہونے کو ظاہر کرے گا۔ انسان کبھی دوسرے انسان کی عزت اس کے مالدار یا عہدہ دار ہونے کی بنا پر کرتا ہے تو یہ حقیقت میں مال اور عہدے کی عزت ہے انسان کے اعتبار سے نہیں، یہ بھی کوئی قابل تعریف بات نہیں۔
رہا یہ سوال کہ عزت واحترام کا سلسلہ کہاں سے شروع کیا جائے تو امیرالمؤمنینؑ نے اس فرمان میں یہ بھی بتا دیا ہے اور اس کے اثرات سے بھی آگاہ فرما دیا ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو پہلا رشتہ ماں باپ ہوتے ہیں اور پیدائش کے ساتھ ہی کوئی بھائی تو کوئی بہن، کوئی چچا اور کوئی ماموں، کوئی نانا نانی تو کوئی دادا دادی کے روپ میں رشتے بنتے ہیں۔ یہ انسانی رشتے پیدائش کے ساتھ وجود میں آتے ہیں۔ قرآن نے ان رشتہ داروں سے تعلق نبھانے کو صلۃالرحم یعنی رشتہ داروں سے اچھے سلوک کے عنوان سے بار بار ذکرکیا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ اپنے اس ارشاد میں اس کی اہمیت اور ان رشتوں سے جڑے رہنے اور رشتے نبھانے کی تاکید بھی فرما رہے ہیں اور اس کے اثرات بھی بتا رہے ہیں کہ اس سے مال میں اضافہ ہوگا اور عمر دراز نصیب ہوگی۔ اس پورے کلام کا عنوان آپ ؑنے یہ قرار دیا ہے کہ اگر اللہ تک پہنچنے کی راہیں تلاش کرنا چاہتے ہیں تو جہاں اللہ و رسولؐ پر ایمان، نماز، روزہ ،حج، جہاد اورزکات اس تک رسائی کاذریعہ ہیں وہاں اللہ تک پہنچنے کے لیے انسانوں سے تعلق، خاص کر رشتہ داروں سے اچھا برتاؤ بھی ضروری ہے اور یہ اس کے تقرب کا سبب ہے۔اگر انسان ان رشتوں کو اہمیت دے گا تو اللہ سے بندگی کا رشتہ جڑ جائے گا اور انسانوں کی زندگیوں میں نمایاں بہتری آئے گی اور خاندان سے اچھے تعلق سے شروع کر کے معاشرے کے عام افراد تک اس دائرے کو بڑھا سکتے ہیں اور کامیاب انسان وہی ہو سکتا ہے جو دوسرے انسان سے انسانیت کی بنیاد پر تعلق قائم کرے۔

33۔ بھلائی سے دور

لَعَنَ اللهُ الْآمِرِینَ بِالْمَعْرُوفِ التَّارِکِینَ لَهُ وَ النَّاهِینَ عَنِ الْمُنْکَرِ الْعَامِلِینَ بِهِ۔ (خطبہ 127)
اللہ لعنت کرے جو اوروں کو بھلائی کا حکم دیں اور خود اُسے چھوڑ بیٹھیں اور دوسروں کو بری باتوں سے روکیں اور خود اُن کو انجام دیں۔

انسان معاشرے میں عزت سے رہنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ معاشرے کا حصہ بن کر رہے، معاشرے کی اچھائیوں کو اپنائے اور معاشرے میں جو برائیاں پائی جاتی ہیں ان سے دور رہے۔ معاشرے کی بہتری کے لیے کوشش کرے۔ فقط اپنی ذات ہی کے فوائد کو مدنظر نہ رکھے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے دوسرے افراد کے لیے اچھائیوں میں راہنما بن کر رہے اور جس کار خیر سے آشنا ہے دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے ۔جہاں کسی چیز کو معاشرے کے لیے برا اور نقصان دہ سمجھتا ہے اس سے معاشرے کے دوسرے افراد کو روکے۔ یہ عظیم اجتماعی پہلو ہے، اسے جھاد قرار دیا گیا ہے۔ اسے انجام دینے والے کو کامیاب انسان قرار دیا گیا ہے اور اس مشکل کام کے انجام دینے والے کو سراہا گیاہے۔
قرآن کی تعلیمات کے مطابق گھاٹے سے وہی انسان بچ سکتا ہے جو اپنے عقیدہ و ایمان کے ساتھ دوسروں کو بھی حق و حقیقت کی وصیت کرتا ہے، اگرچہ اس راہ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے انجام دینے والے کو صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے یہاں ایک اہم امر کی طرف توجہ دلائی ہے اور وہ یہ کہ اس فریضہ کو انجام دینے میں زیادہ اثر تب ہوگا اور معاشرے کی بہتری کے درد کا واقعا ثبوت یہ ہوگا کہ انسان جس اچھائی کا دوسرے سے تقاضا کررہا ہے اسے خود ترک نہ کرے اور جس کمزوری اور برائی سے معاشرے کو بچانا چاہتا ہے اس سے خود بھی بچ کر رہے ۔جو شخص ایسا نہیں کرتا وہ اللہ کی رحمت سے دور ہے اور اللہ کی لعنت کا مستحق ہے۔

34۔ شکر

نَحْمَدُهٗ عَلیٰ مَآ اََخَذَ و اََعْطٰى وَ عَلٰی مَا اَبْلٰى وَابْتَلٰی۔ (خطبہ 130)
اللہ جو کچھ لے اور جو کچھ دے، جو عطا کرے اور جن امتحانوں میں ڈالے ہم سب پر اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں۔

انسان کی زندگی میں کبھی غم تو کبھی خوشی، کبھی فقر تو کبھی دولت کی دھوپ چھائوں رہتی ہے۔ انسان کی کمزوری یہ ہے کہ اُسے دیا جائے تو راضی اور ساری زندگی دینے کے بعد مختصر وقت کے لیے روک لیا جائے تو شکوہ و شکایت۔ امیرالمؤمنینؑ نے اس فرمان میں انسانی زندگی کا ایک بہت بڑا درس دیا ہے اور فرمایا کہ ہمارا طریقہ زندگی یہ ہے کہ وہ لے لے تو ہم اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں، دے تو بھی حمد و ثنا کرتے ہیں۔ وہ آزمائشوں میں ڈالے تو بھی حمد اور عطا کرے تو بھی حمد۔ یعنی اُس کے روک لینے پر یا پلٹا لینے پر مایوس نہیں ہونا چاہیے اور دے تو دینے والے کو بھول نہیں جانا چاہیے۔ اس اندازِزندگی سے محسن کا شکریہ بھی ادا ہوگا اور نہ ہونے کے باوجود زندگی میں سکون بھی ہوگا۔ یہ طریقہ اللہ سبحانہ کے حضور بھی اپنانا چاہیے اور دُنیا میں احسان کرنے والے افراد کے ساتھ بھی اپنانا چاہیے۔
کسی حاکم کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ اُس کا ایک بڑا چہیتا نوکر تھا، وہ ہر خوشی میں اُسے شامل کرتا، اپنا پسندیدہ کھانا اپنے ساتھ اُسے کھلاتا۔ ایک بار ایک خربوزہ پیش کیا گیا تو اس نے خود کھانے کے بجائے نوکر کو دیا۔ نوکر نے بڑے مزے سے اُسے کھانا شروع کیا اور چہرے سے خوشی کے اثرات نظر آئے۔ حاکم نے کچھ خربوزہ نوکر سے لے کر خود کھایا تو وہ اتنا کڑوا تھا کہ کھانے کے قابل نہ تھا۔ حاکم نے نوکر سے پوچھا اتنا کڑوا خربوزہ اتنے مزے سے کیسے کھا رہے تھے، تو نوکر نے کہا ساری زندگی پسندیدہ کھانا آپ نے دیا اور میں مزے سے کھاتا رہا اگر ایک بار کڑوا آپ کی طرف سے آ گیا تو اسے بھی آپ کی عطا سمجھ کر مزے سے کھا رہا ہوں۔ اگر اللہ کے دیے ہوئے یا اپنے محسن کی عطا پر اس انداز سے برتاؤ کیا جائے تو انسان کی زندگی سکون و اطمینان سے مالا مال ہوگی۔

35۔ خطا کاروں پر رحم

اِنَّمَا يَنْبَغِي لِاَهْلِ الْعِصْمَةِ وَالْمَصْنُوعِ اِلَيْهِمْ فِي السَّلاَمَةِاَنْ يَرْحَمُوْا اَهْلَ الذُّنُوْبِ وَالْمَعْصِيَةِ۔ (خطبہ 138)
جن لوگوں کا دامن خطاؤں سے پاک صاف ہے اور گناہوں سے محفوظ ہے انہیں چاہیے کہ وہ گناہگاروں اور خطا کاروں پر رحم کریں۔

انسان اچھا ہو اور اُس سے اچھا برتاؤ کیا جائے تو یہ عام آدمی بھی کر سکتا ہے۔ مگر ایک خطاکار اور گناہگار ہو تو نہ فقط یہ کہ اس سے اچھا برتاؤ کیا جائے بلکہ امیرالمومنینؑ نے اسے ایک فریضہ کے طور پر پیش فرمایا کہ اس پر رحم کیا جائے، یہ کامل انسان کی نشانی ہے۔انسانی معاشرے میں افراد ایک دوسرے کے اعضاء کے مانند ہیں۔ ایک عضو کو اگر کوئی مرض لاحق ہو تو دوسرے عضو کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ انسانوں میں بھی اگر کوئی فرد اخلاقی مرض میں مبتلا ہے تو انسان کامل کی نشانی یہ ہے کہ اسے اس کے مرض پر تکلیف ہو۔ کسی کو غرق ہوتے ہوئے عام انسان دیکھتا ہے تو اسے بچانے کے لئے کوشش کرتا ہے اگر کچھ نہ کر سکے تو اسے آواز دے کر ہوشیار تو کرتا ہے اور اگر وہ غرق ہونے لگے تو افسوس سے اس کی زبان سے آہ تو نکلتی ہے۔ گناہوں اور خطاؤں سے پاک و محفوظ آدمی بھی کسی کی اخلاقی کمزوریوں کو انسان کے انسانیت سے گرنے کا سبب جانتے ہیں، اس لیے اسے گرنے سے بچانے کے لیے ان پر رحم کھاتے ہیں اور دوسروں کو اخلاقی امراض اور گناہوں کی ذلت و پستی میں گرتے ہوئے دیکھ کر خود بھی محتاط ہو جاتے ہیں کہ کہیں ہم بھی ان کی طرح اس ذلت میں غرق نہ ہو جائیں۔پیغمبرِ اکرمؐ گناہگاروں کے گناہوں پر روتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ خدایا! میری امت میری امت۔
رحم کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ دوسروں کو حقیر اور گھٹیا نہ سمجھیں بلکہ ان کی ہدایت کو تکریم کے طور پر انجام دیں کہ ہم اس قابل ہیں کہ گرتے ہوؤں کا سہارا بن سکیں۔ ان کی غلطیوں کو دیکھ کر ان پر سختی اور سخت مزاجی کا مظاہرہ نہ کریں۔ قرآنی تعلیمات کے مطابق حضرت موسیؑ کو ایک طرف حکم ہوتا ہے کہ فرعون جو خود کو خدا کہلوا کر گھٹیا پن کا اظہار کر رہا ہے آپ اسے پاک کرنے کی کوشش کریں ساتھ یہ بھی تاکید کی جاتی ہے کہ اس سے نرمی سے بات کریں۔ دوسروں کی غلطیوں کی اصلاح شرافت و کرامت انسانی کا ثبوت ہے اور کسی کی کمزوری اورمنفی پہلو کو دوسروں کے سامنے بیان کرنا خود شرافت سے گرا ہوا ہونے کا ثبوت ہے۔

36۔ جلد بازی

لَا تَعْجَلْ فِي ْعَيْبِ اَحَدٍ بِذَنْبِهٖ، فَلَعَلَّهٗ مَغْفُورٌ لَهٗ۔ (خطبہ 130)
کسی پر گناہ کا عیب لگانے پر جلدی نہ کریں شاید اُس کو معاف کر دیا گیا ہو۔

ہر انسان کی کچھ عزت ہوتی ہے اور وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ اُس کی وہ عزت محفوظ رہے۔ اُس سے اگر کوئی ایسا عمل سرزد ہو جو اُس کی عزت کو نقصان پہنچائے تو یا اُسے چھپاتا ہے یا جس عمل کی وجہ سے اُس کی عزت کو نقصان پہنچا اُسے دور کرتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ یہاں فرماتے ہیں کہ کسی کے عیب و گناہ کو آپ نے دیکھا تو اُس کے عیب کے بیان میں جلدی نہ کریں۔ ممکن ہے وہ یہ غلطی جہالت کی وجہ سے کر رہا ہو جب اُسے اُس غلطی کا احساس ہوگا تو اُس پر نادم ہوگا اور معافی مانگے گا۔ ممکن ہے یہ غلطی اُس سے کوئی مجبوری کروا رہی ہو جب وہ مجبوری دور ہو جائے تووہ غلطی کو ترک کر دے یعنی دوسرے کی غلطی دیکھیں بھی تو اُسے بیان نہ کرنے لگ جائیں۔ سب سے پہلے خود کو پاک کریں پھر وہ ہنر سیکھیں جس کے ذریعے دوسروں کو عیب سے پاک کر سکیں۔ عیب بیان کر کے دوسروں کی عزت و شرافت کو خاک میں مت ملائیں ورنہ اس خاک سے اڑنے والا غبار آپ کو بھی غبار آلودہ کر دے گا۔ مولانائے روم نے خوب کہا کہ بڑا عیب یہ ہے کہ عیب کے علاوہ دوسروں میں کچھ نظر ہی نہ آئے۔ کوشش کریں کہ دوسروں کے عیب دیکھ کر وہی عیب اپنے اندر تلاش کریں۔ کہیں آپ کے اندر بھی تو موجود نہیں اگر آپ کے اندر وہی عیب ہے تو اُسے دور کریں۔ اپنے ایک عیب کی تلاش دوسروں کے دسیوں عیب تلاش کرنے سے بہتر ہے۔

37۔ بدلا

كَمَا تَدِيْنُ تُدَانُ وَ كَمَا تَزْرَعُ تَحْصُدُ۔ (خطبہ 151)
جو بوؤ گے وہی کاٹو گے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔

انسان زندگی میں بہت سی چیزیں دوسروں سے سیکھتا ہے اور بہت سے درس تجربات سے حاصل کرتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے ان دو جملوں میں دو مشہور مثالوں کا حوالہ دیا ہے۔ یہ مثالیں قرآن میں بھی دوسرے الفاظ میں بیان ہوئی ہیں اور انبیاء و حکماء نے بھی مختلف الفاظ میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ حقیقت میں یہ مثالیں انسان کو غفلت سے جگانے کے لیے ہیں۔ دین کے مراحل میں بھی یہ مثالیں بیان ہوتی ہیں کہ دین کے معاملے میں اللہ کے سامنے جیسا عمل کرو گے ویسی ہی جزا ملے گی اور انسانوں کے سامنے بھی یہی ہے کہ آپ جیسے دوسرے انسانوں سے برتاؤ کریں گے آپ سے بھی جلد یا بدیر ویسا ہی سلوک ہوگا۔ کسی سے محبت کا برتاؤ کرو گے تو محبت ملے گی اور نفرت سے پیش آؤ گے تو نفرت کا سامنا کرنا ہوگا ۔ اگر عدل و انصاف کا بیج کاشت کرو گے تو اسی کا پھل ملے گا اور اگر ظلم و جور بوؤ گے تو ویسا ہی ثمر ملے گا۔ مولانائے روم نے خوب کہا کہ یہ دنیا پہاڑ کے مانند ہے اور ہمارے اعمال ان پہاڑوں کے درمیان ندا کے مانند ہیں۔ اب آپ جیسی ندا بلند کریں گے ایسی ہی صدا پلٹ کر آپ کو سنائی دے گی۔

38۔ اللہ کا اخلاق

اَلْاَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ لَخُلُقَانِ مِن خُلُقِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ۔ (خطبہ 154)
نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ایسے دو کام ہیں جو اخلاق خداوندی میں سے ہیں۔

معاشرے میں کامیابی کے دعویدار بہت ملیں گے اور ہر کسی کی کامیابی کا اپنا معیار ہوگا ۔کوئی بڑی جائیداد بنا کر خود کو کامیاب سمجھتا ہے اور کوئی سینکڑوں لوگوں کو اپنا تابع فرمان بنا کر خود کو صاحب عزت و وقار شمار کرتا ہے۔ امیرالمومنین ؑنے یہاں با کمال افراد کی دو صفتوں کو بیان کیا ہے اور ان دو صفتوں کی اہمیت عجب انداز سے بیان کی ہے کہ یہ حقیقت میں اللہ کی صفتیں ہیں۔ ان میں سے ایک امر بالمعروف کہلاتی ہے یعنی خود آپ نے کمال کو پا لیا، ہدایت حاصل ہو گئی تو اب اس کمال کی طرف دوسروں کو دعوت دیں، نصیحت کریں، بلائیں اور اگر آپ نے خود کو فساد اور ذلت و پستی سے بچا لیا تو اب اس کی زکات ادا کیجئے اور اس ذلت کی طرف جانے والوں کو روک لیجئے۔ امیرالمومنینؑ نے ان دو صفتوں کو اللہ کی صفات و اخلاق قرار دے کر یہ بھی واضح کیا کہ کسی کو اچھائی کی طرف بلانے یا برائی سے روکنے کے لئے اللہ ہی کا طریقہ اپنائیں۔ اللہ کسی کو اچھائی کا حکم یا برائی سے منع اس لیے نہیں کرتا کہ اس میں اللہ کا کوئی فائدہ ہو بلکہ اللہ نے اپنی طرف سے نبی اور کتابیں بھیجیں اور حقیقت میں یہ اللہ اپنے بندوں سے محبت کی وجہ سے کرتا ہے۔دوسرا یہ کہ اللہ پیار سے بلاتا اور منع کرتا ہے، سختی نہیں کرتا۔ اگر معاشرے کے پاکیزہ و با کمال لوگ دوسروں کی محبت کی خاطر پیار سے اس فریضے کو انجام دیں تو وہ معاشرہ بھی با کمال ہو جائے گا ۔امیرالمومنینؑ نے اس مثال سے معاشرے کے سنجیدہ لوگوں کو احساس ذمہ داری دلایا ہے اور اگر یہ احساس بیدار ہو جائے تو اچھائیوں کی طرف سبقت کا جذبہ پھلے پھولے گا۔

39۔ احترام مسلم

فَضَّلَ حُرْمَةَ الْمُسْلِمِ عَلَى الْحُرَمِ کُلِّهَا۔ (خطبہ 165)
اللہ سبحانہ نے مسلمانوں کی عزت و حرمت کو تمام حرمتوں پر فضیلت دی ہے۔

انسان کی عزت و احترام کے جامع ترین قواعد و قوانین اسلام نے بتائے ہیں۔ امیرالمؤمنینؑ نے زندگی بھر ان قوانین کو نبھایا اور اپنے گورنروں کو بھی اس کی تاکید کی۔ اس خطبے میں آپ نے فرمایا اللہ کے بندوں اوراس کے شہروں کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ اس لیے کہ تم سے ہر چیز کے متعلق سوال کیا جائے گا یہاں تک کہ زمینوں اور چوپاؤں کے متعلق بھی اللہ کی اطاعت کرو اور اس سے سرتابی نہ کرو۔یعنی محترم انسان دوسرے انسان،مکان اور حیوان کا بھی خیال و احترام کرتا ہے۔ اس خطبہ میں آپ فرماتے ہیں کہ اللہ نے مسلمانوں کی عزت و حرمت کو سب قابل احترام چیزوں پر اہمیت دی ہے۔حقیقت میں مسلمان وہی ہے جسے دوسرے مسلمانوں کی حرمت کا خیال ہو اور دوسرا مسلمان اس کی زبان اور ہاتھ سے ہر قسم کی اذیت سے محفوظ ہو بلکہ یہاں تک فرمایا کہ اخلاص اور توحید کی نشانی یہ ہے کہ وہ دوسروں کے مقام و احترام کو ملحوظ رکھے۔ انسان اگر امیرالمؤمنینؑ کے بتائے ہوئے ان اصولوں کو مدنظر رکھے تو دنیا امن و سکون سے مالا مال ہو جائے۔
کسی حکیم نے خوب کہا کہ اسلام کا یہ تشتہ مفاد کی بنیاد پر نہیں محبت کی بنیاد پر قائم ہونا چاہئے۔جیسے دیوار کی اینٹیں آپس میں مربوط ہوتی ہیں ۔اینٹیں ایک دوسرے کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہوتی ہیں۔اگر ان میں یہ ربط ختم ہو جائے اور ایک دوسرے کا بوجھ اُٹھانا چھوڑ دیں تو وہ دیوار ہی زمین بوس ہو جائے گی اور اگر ایک دوسرے سے جڑی رہیں گی تو دیوار کی صورت میں سخت طوفانوں کا بھی آسانی سے مقابلہ کریں گی اور دوسروں کی حفاظت کا ذریعہ بن جائیں گی اور چھت بن کر دوسروں کے لیے سائے کا کام دیں گی۔

40۔ بھلائی کا حصول

اِذَا رَاَيْتُمُ الْخَيْرَ فَخُذُوْا بِهٖ وَ اِذَا رَأَيْتُمُ الشَّرَّ فَاَعْرِضُوْا عَنْهُ۔ (خطبہ 165)
جب بھلائی کو دیکھو تو اسے حاصل کرو اور جب برائی کو دیکھو تو اس سے منہ پھیر لو۔

انسان پر احسان جتلاتے ہوئے اللہ نے فرمایا: ہم نے ماہ رمضان میں قرآن نازل کیا جو انسانوں کی ہد ایت و راہنمائی کرتا ہے۔ اس خطبے میں امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں کہ اللہ نے ہدایت کرنے والی کتاب نازل فرمائی ہے جس میں اچھائیوں اور برائیوں کو کھول کر بیان کیا ہے ۔ اسی خطبے کے آخر میں آپ فرماتے ہیں کہ جہاں اچھائیاں اور بھلائیاں پاؤ انھیں لے لو اور جہاں برائیاں اور شر نظر آئے وہاں سے منہ پھیر لو۔ یوں آپ نے اچھائیوں اور برائیوں کے بیان کا مرکز و منبع ذکر کر دیا اور پھر ان کے حصول کی طلب پیدا کرنے کے لیے بات کو دُہرایا۔ خیر و شر کیا ہے بعض حکماء نے واضح لکھا کہ جس شے میں انسان کی کوئی مادی و معنوی بہتری ہو اور انسانیت کے لیے مثبت پہلو ہو وہ اچھائی اور خیر ہے اور جس شے میں انسان کے لیے منفی و مضر اثرات ہوں وہ برائی اور شر ہے۔ یعنی اچھائی جو انسان کے کمالات کے اجاگر ہونے کا سبب بنے اور شر جو انسان کے کمال سے گرنے کا باعث بنے ۔ان بلند کرنے اور گرانے والے امور کا بہترین بیان قرآن ہے۔
جب خیر کو پا لیں تو عمل سے ظاہر ہونا چاہیے کہ آپ اہل خیر ہیں۔خیر کو تقسیم کریں۔زندگی کی مشکلات کے طوفانوں گھرے ہؤوں کا ہاتھ تھامیں ،انہیں ساتھ لے کر چلین،ان کا بوجھ اآٹھانے میں ان کی مدد کریں۔آپ پر اللہ کی رحمت ہے تو دوسروں کے لیے رحمت بن جائیں ۔ خود برائی و شر سے محفوظ ہیں تو اس سعادت کے شکرانے کے طور پر دوسروں کو برائیوں سے اور ہلاکت سے بچائیں۔

41۔ انسان اور زمین حق

اِتَّقُوا اللهَ فِيْ عِبَادِهٖ وَبِلاَدِهٖ، فَإنَّكُمْ مَسْؤُوْلُوْنَ حَتّٰی عَنِ الْبِقَاعِ وَالْبَهَائِمِ۔ (خطبہ 165)
اللہ سے اس کے بندوں اور اس کے شہروں کے بارے میں ڈرتے رہو۔اس لیے کہ تم سے زمینوں اور چوپایوں کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔

انسان کو آخرت کے طویل سفر کے لیے زاد راہ مہیا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور قرآن مجید نے بہترین زادِ راہ تقویٰ کو قرار دیا ہے۔ انسان کو صاحب فضیلت و کرامت گردانا گیاہے۔ قرآن نے عزت کا سب سے بڑا سبب تقویٰ ہی کو شمار کیاہے۔ تقویٰ یعنی مالک و خالق جو کہے اُسے انجام دو ،جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔ امیرالمؤمنینؑ یہاں فرماتے ہیں کہ اللہ کے بندوں اور شہروں کے بارے میں تقویٰ اختیار کرو یعنی اللہ تعالی نے بندوں اور شہروں کے لیے جو احکام جاری کیے ہیں انھیں بجا لانا اور جن چیزوں سے منع کیا ان سے رک جانا یہ تقویٰ کے عین مطابق ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ نے فقط اپنی ذات سے متعلق احکام کو تقویٰ نہیں قرار دیا بلکہ بندوں سے برتاؤ اور شہروں سے متعلق امور بھی تقویٰ کے مصادیق میں شامل ہیں۔
امیرالمؤمنینؑ نے مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ یاد رکھو زمینوں اور حیوانوں کے بارے میں بھی آپ سے سوال کیا جائے گا۔ آپ کا یہ فرمان بتاتا ہے کہ کامل انسان یا متقی شخص وہ ہے جو اللہ سے متعلق احکام نماز و روزہ کے انجام دینے کے ساتھ ساتھ دوسرے انسانوں، حیوانوں اور زمینوں کے بارے میں بھی ذمہ دار ہے۔ ایک متقی انسان دوسرے انسانوں کو نقصان و تکلیف نہ پہنچانا اور ان کے حقوق و احترام کا خیال کرنا لازم جانتا ہے۔شہروں کی آبادی، ان کی صفائی، ان میں امن و امان کے قیام کا خیال رکھتا ہے ۔ زمینوں کی آبادی و بہتری نیز ماحولیات کی بہتری کے لیے کوشاںرہتا ہے۔حیوانوں سے ان کی طاقت سے زیادہ کام نہیں لیتا، ان کے کھانے پینے کا خیال رکھتا ہے اور دودھ دوہتے وقت ان کے بچوں کا خیال رکھتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے حیوانوں کے متعلق متعدد احکام جاری کیے مثلاً محکمہ زکوۃ کے اہلکاروں کو حکم دیا کہ اگر حیوان بطور زکوٰۃ ملیں اور آپ انہیں ہمارے پاس لا رہے ہیں، ایسے میں راستے میں سبزہ ملے تو حیوانوں کو وہاں سے جلدی سے نہ گزار لانا بلکہ رک جانا تاکہ وہ جی بھر کر کھالیں۔یہ ہیں انسان کامل کی صفات جو چودہ سو سال پہلے آپ نے بیان فرمائیں کہ جو حیوانوں اور زمینوں کا بھی خیال رکھتا ہے۔ اب جوشخص ان احکام کو بجالائے وہ انسان کامل ہےاور اگر کوئی قوم ان اصولوں کا خیال رکھے تو وہ قوم حقیقت میں کامیاب قوم ہوگی۔

42۔ بے صبری

لَا يَخِنَّنَّ اَحَدُكُمْ خَنِيْنَ الْاَمَةِ عَلَى مَا زُوِيَ عَنْهُ مِنْهَا۔ (خطبہ 171)
تم میں سے کوئی شخص دنیا کی کسی چیز کے روک لیے جانے پر لونڈیوں کی طرح رونے نہ بیٹھ جائے۔

انسان جسم و اعضاء کے اعتبار سے ایک جیسے ہیں۔ یہ جسم کسی انسان کو بلند یا پست نہیں کرتا بلکہ حقیقت میں انسان کی فکر اور اس کا عمل ہے جو اسے دوسرے انسانوں سے بڑھاتا یا گھٹاتا ہے۔ اس فرمان میں امیرالمؤمنینؑ نے ایک کمزور انسان کی مثال دی کہ لونڈی اور کنیز سے اگر دنیا کی چھوٹی سی چیز لے لی جائے یا اسے دی نہ جائے اور اس سے روک لی جائے تو وہ آہ و زاری اور گریہ و نالہ کرنے لگتی ہے گویا اس سے سب کچھ چھن گیا۔امیرالمؤمنینؑ یہاں انسانوں کو ان کا مقام و منزلت یاد دلاتے ہیں اور انھیں اس کی بلندی سے آگاہ کرتے ہیں کہ دنیا کی حقیقت کو پہچانو، یہ ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے اور اگر اس کی کوئی چیز رہنے والی ہو بھی تو آپ کو ہمیشہ نہیں رہنا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک چیز آج آپ سے روک لی گئی ہو اور کل اس سے بہتر آپ کو مل جائے۔ اس لئے دنیا کی کوئی شے روک لی جائے تو کنیز کی طرح گریہ مت کرو، خود کو پریشانیوں میں مبتلا نہ کرو ،اپنے آپ کو عملاً گھٹیا ثابت نہ کرو بلکہ جو ملا ہے اس پر راضی رہو اور اپنی سوچوں کو بلند رکھو۔ یہی فکر اگر کسی کے ذہن نشین ہو جائے تو زندگی پریشانیوں اور غموں سے محفوظ ہو جائے گی۔بہت سے لوگ ماضی میں نہ ملنے والی اشیاء یا ہاتھ سے چلی جانے خوشیوں کو یاد کر کے روتے رہتے ہیں یا مستقبل کی سوچوں سے پریشان اور خوفزدہ رہتے ہیں۔ماضی کا رونا اور مستقبل کے خوف کو چھوڑ کر آج کو سنوارنا چاہئے اس طرح ماضی کی کمی بھی دور ہو جائے گی اور آئندہ کے حالات بھی بدل جائیں گے۔

43۔ خود سازی

طُوْبٰی لِمَنْ شَغَلَهٗ عَيْبُهٗ عَنْ عُيُوْبِ النَّاسِ۔ (خطبہ 174)
لائقِ مبارک باد ہے وہ شخص جسے اپنے عیوب دوسروں کی عیب گیری سے باز رکھیں۔

انسان اگر زندگی میں عزت کروانا چاہتا ہے تو دوسروں کی عزت کرنے سے اس کی یہ خواہش پوری ہوگی۔ اگر خود سکون سے زندگی بسر کرنا چاہتا ہے تو دوسروں کو سکون کی راہیں میسر کرنا پڑیں گی۔ دنیا میں اکثر لوگ دوسروں کو خود سے کم تر، گھٹیا اور ذلیل سمجھتے ہیں اور جب دوسروں کے بارے میں ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے تو ان سے برتاؤ بھی ویسا ہی کرتے ہیں اور اگر دوسرے شخص میں کوئی کمزوری یا عیب پایا جاتا ہے تو اسے اچھال کر اپنی سوچ کو تسکین دیتے ہیں اور دوسرے میں کمزوری نہ ہو تو اس میں کمزوری تلاش کرتے ہیں اور بعض اوقات خود سے گھڑ لیتے ہیں۔ یوں سلسلہ جب چل پڑتا ہے تو انسان نہ خود سکون سے رہتا ہے اور نہ دوسروں کو سکون سے رہنے دیتا ہے۔ نہ یہ کسی پر اعتماد کرتا ہے اور نہ دوسرے اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ امیرالمؤمنینؑ نے اس کا حل یہ بتایا ہے کہ دوسروں کے عیب گننے کے بجائے اپنے عیبوں پر نظر کریں۔ اس طرح خود میں کئی کمزوریاں نظر آئیں گی اور پھر ان کی اصلاح پر توجہ ہوگی تو وہ خود سازی میں ہی مشغول ہو جائے گا، دوسروں کے عیوب کی تلاش یا بیان کا وقت ہی نہیں ملے گا۔ اپنے عیب نظر آئیں گے تو خود کو دوسروں سے بہتر و برتر سمجھنا چھوڑ دے گا اور یوں دوسروں سے عزت و احترام کروانے کے بجائے دوسروں کی عزت و احترام کرے گا اور یوں معاشرے میں سکون اور ایک دوسرے پر اعتماد بڑھے گا۔

44۔ ظلم

اَمَّا الظُّلْمُ الَّذِيْ لَا يُتْرَكُ فَظُلْمُ الْعِبَادِ بَعْضِهِمْ بَعْضًا۔ (خطبہ 174)
وہ ظلم جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، بندوں کا ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنا ہے۔

انسانی زندگی میں اگر برے اعمال کی فہرست مرتب کی جائے تو ظلم سرفہرست ہوگا۔ ظلم یعنی جو جس کا حق ہے وہ اس کو نہ دیا جائے یا جو جس کا مقام ہے اس سے اسے دور رکھا جائے اور جو کسی کی حیثیت ہے وہ نہ مانی جائے۔ اشیاء میں سے بھی اگر کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹا کر رکھا جائے، مثلاً جوتے کو سر پر اور ٹوپی کو پاؤں میں، تو یہ ظلم کہلاتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے یہاں ظلم کی تین اقسام کا ذکر کیا جس میں سے دوسری قسم یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ دوسرے بندے پر ظلم کرتا ہے تو اس کے اس عمل و کردار کی اسے جلد یا بدیر سزا ضرور ملے گی اور اس کے اس ظلم کونظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔امیرالمؤمنینؑ کی عدالت زبان زدِ عام ہےاور ایک مسیحی مصنف تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ علی علیہ السلام کا قتل ہی عدالت کی سختی و شدت کی وجہ سے ہوا ہے۔انھوں نے مفصل کتاب لکھی ہے( علیؑ عدالت انسانی کی آواز(۔ یہاں امیرالمؤمنینؑ نے انسان پرکیے جانے والے ظلم کو نظر انداز نہ کیے جانے کا ذکر کیا اور یوں اس کے نقصانات کو واضح فرمایا۔
اگر انسان ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کریں۔ جس کا جو مقام ہے وہ اس کے قائل ہو جائیں تو دنیا عدل و انصاف سے بھر جائے اور دنیا کی سب سے بڑی ترقی یہی ہے کہ اس میں عدل و انصاف قائم ہو اور جو اس عدل کو قائم کرے گا یقیناً وہ کامل انسان ہوگا۔ دنیا میں قتل، مال پر ڈاکا و غصب ،کسی کی توہین، کسی کی اہلیت کے ہوتے ہوئے اسے کسی عہدے سے دور رکھ کر نا اہل کو اس عہدے پر بٹھانا اگر ایسے اعمال رک جائیں تو زمانے کی تقدیر بدل جائے۔
البتہ معاشرے میں ظلم ختم نہیں ہوتا تو جن پر ظلم ہوتا ہے ان کو بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے، آخر جیت عدل و انصاف کی ہوگی اور ظالم کا سر جھکے گا۔ قرآن مجید نے جناب یوسف ؑ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیاہے جس میں ہے کہ بھائیوں نے ظلم کیا تو یوسفؑ نے بدلے میں ظلم نہیں کیا بلکہ اپنے مقام کے لحاظ سےمعاف کر دیا اور اس کا بدلا جناب یوسفؑ کو زندگی میں ہی مل گیا ۔ وہی بھائی سوالی بن کر جناب یوسف ؑکے سامنے آئے۔ اس لیے کامل انسان وہ ہے جس پر ظلم ہو بھی تو وہ ظلم نہیں کرتا۔

45-کار خیر میں مدد

فَاِذَا رَاَيْتُمْ خَيْراً فَاَعِيْنُوْا عَلَيْهِ، وَإِذَا رَاَيْتُمْ شَرّاً فَاذْهَبُوْا عَنْهُ۔ (خطبہ 174)
بھلائی کو دیکھو تو اسے تقویت پہنچاؤ اور برائی کو دیکھو تو اس سے دامن بچاؤ ۔

انسان کے لیے جہاں اچھائی کے کام انجام دینا ضروری ہے وہیں دوسروں کے اچھائی کے کاموں میں مدد کرنا بھی ایک فریضہ ہے۔ دوسروں کی مدد کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ کسی کو بھلائی کرتے دیکھا تو اس کی حوصلہ افزائی اس کے کام کو تقویت پہنچاتی ہے۔ اچھائی کا کام انجام دینے والوں کی تعریف میں کبھی کنجوسی نہ کریں۔البتہ یہ اصول مدنظر رہے کہ تعریف محفل میں کریں تو زیادہ اثر ہوتا ہے اور تنقید تنہائی میں کریں تو مفید ہوتی ہے۔ اگر کسی کو کار خیر میں عملی ضرورت ہے تو اس کی مدد کریں۔ ویسے بھی آج کل گروہی کاموں کی زیادہ ضرورت ہے اور گروہی کام زیادہ مضبوط اور دیر پا ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ایک کار خیر انجام دے رہا ہے تو آپ اسی قسم کا اپنا کام شروع کرنے کے بجائے جس نے شروع کیا ہوا ہے اسی کی مدد کریں، یہ مت خیال کریں کہ چونکہ وہ اس کا کام ہے اسی کا نام ہوگا۔ البتہ نام کے لیے کام نہ کریں خدمت و خلوص کے ساتھ کام کریں۔ برائی کے کاموں کو دیکھیں تو اس سے دور ہو جائیں، اس کام والے کی حوصلہ شکنی کریں۔ آپ کی حوصلہ شکنی سے وہ سوچے گا کہ میں غلط کام کر رہا ہوں اور نہیں بھی چھوڑے گا تو آپ نے اپنا فریضہ تو ادا کردیا۔بھلائی کے کاموں میں اس انتظار میں بیٹھیں کہ کوئی بڑا کام کروں گا۔نہیں بڑے کام چھوٹے کام ہی سے شروع ہوتے ہیں۔

46۔ علم کی تقسیم

سَلُوْنِی قَبْلَ‏ اَنْ‏ تَفْقِدُوْنِیْ۔ (خطبہ 187)
مجھے کھو دینے سے پہلے مجھ سے پوچھ لو۔

انسان کو عقل و شعور کے بعد جو سب سے بڑی دولت دی گئی ہے اس کا نام علم ہے۔ علم اتنی وسیع اور اہم دولت ہے کہ اللہ سبحانہ نے پیغمبر اکرمؐ سے فرمایا کہ اس کے اضافے کی دعا مجھ سے مانگتے رہو اور اللہ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ جنھیں علم ملا اور جنھیں نہیں ملا وہ برابر نہیں ہو سکتے۔ انہی صاحبان علم میں سے ایک ذات امیرالمؤمنینؑ کی ہے جو فرماتے ہیں مجھے رسولؐ اللہ نے یوں علم سکھایا جیسے پرندہ اپنے بچوں کو غذا منتقل کرتا ہے اور فرمایا: میں زمین کی راہوں سے آسمان کے راستوں سے زیادہ واقف ہوں۔
اب کامل انسان کو جب یہ دولت علم ملی تو ہر وقت اعلان کر کے اسے تقسیم کر رہا ہے۔ مجھ سے لے لو، مجھ سے پوچھ لو، کبھی افسوس کرتے ہیں کہ کاش کوئی لینے والا مل جاتا۔ اس کردار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کامل انسان چاہتا ہے کہ اس سے دوسرے لوگ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ میں نے جو سیکھا ہے اسے دوسروں کی بہتری کے لیے استعمال کروں۔ آج کا استاد و معلم یا کوئی ہنر مند اپنے اندر یہ جذبہ پیدا کر لے کہ میں نے دولت علم تقسیم کرنی ہے تو قوم کے حالات بدل سکتے ہیں۔ علم کو بھی ذریعہ معاش بنانے کے بجائے ذریعہ کمال و سعادت سمجھا جائے تو انسانیت کی ترقی کی راہیں کھل جائیں۔ سخاوت فقط اسے نہ جانا جائے کہ چند پیسے کسی کو دے دیے بلکہ حقیقی سخاوت یہی ہے کہ علم و ہنر بانٹ کر دوسروں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ معاشی طور پر اتنے مضبوط ہو جائیں کہ خود کفیل ہو جائیں ۔ امیرالمؤمنینؑ کے سَلُوْنِیْ کے اس دعوے کو آپ کی عظمت کے ساتھ خدمت انسانی کے جذبے کے طور پر دیکھا جائے اور یہی جذبہ ہر صاحب علم اپنے اندر پیدا کرے کہ لوگ اس سے سیکھ سکیں۔

47۔ تواضع

وَاعْتَمِدُوْا وَضْعَ التَّذَلُّلِ عَلٰی رُءُوسِکُمْ۔ (خطبہ 174)
عجز و انکساری کو سر کا تاج بنانے کا عزم بالجزم کرو۔

انسان کو جو مقام و عظمت ملی ہے اسے اس کی پہچان ہونی چاہیے اور اس عظمت کے ملنے کے سبب سے بھی واقفیت ہونی چاہیے تب وہ اس مقام کی حفاظت کر سکے گا۔ خود کو بلند سمجھنے اور کہنے سے بڑائی نہیں ملتی بلکہ انسان کو یہ مقام تواضع کی وجہ سے نصیب ہوتا ہے۔ تواضع کا سب سے پہلا مقام اللہ کے سامنے ہے جس نے انسان کو باقی مخلوقات پر فضیلت بخشی اور اللہ کے سامنے تواضع کا خوبصورت ترین انداز اس کے حضور سجدہ ہے۔ سجدے کا انکار تکبر ہے اور یہی انکار یا تکبر ابلیس کو ذلت میں ڈال دیتا ہے۔ اس سے انسان کو یہ سیکھنا چاہیے کہ کمال و بزرگی غرور و تکبر سے نہیں عجز و انکساری سے ملتی ہے۔ یاد رہے شیطان کا تکبر اللہ کی ایک نئی مخلوق آدمؑ کے مقابلے میں تھا جو اللہ کو اتنا نا پسند ہوا کہ شیطان کو دربار سے نکال دیا۔ اس لیے اللہ کی مخلوق کے سامنے تکبر سے بچا جائے۔ امیرالمؤمنینؑ نہج البلاغہ کے سب سے تفصیلی خطبے میں اس مرضِ تکبر سے اور اس کے نقصانات سے آگاہ کرتے ہیں اور اس مرض ِتکبر کے علاج سے مطلع فرماتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں ’’عجز و انکساری اور تواضع کو اپنے سر کا تاج بنا لو، تکبر و خود بینی کو پاؤں تلے روند ڈالو اور رعونت کا طوق گردن سے اتار پھینکو۔ اپنے اور اپنے دشمن شیطان اور اس کی سپاہ کے درمیان تواضع و فروتنی کا مورچہ قائم کرو‘‘۔ انسان جب خدا کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے تو اللہ اسے بلند کرتا ہے اور انسان جب دوسروں کے لیے اپنے کندھے جھکا کر انھیں بلند کرتا ہے اورکندھوں پر بٹھاتا ہے، اس کے کندھے دوسروں کے بلند ہونے کا ذریعہ بنتے ہیں تو بندوں کے دلوں میں اس کا مقام بڑھتا ہے اور یہی تواضع و عاجزی اسے بندوں میں بلند کر دیتی ہے۔

48۔ پختہ ارادہ

جَعَلَ رُسُلَهٗ اُوْلِيْ قُوَّةٍ فِیْ عَزَائِمِهِمْ۔ (خطبہ 190)
اللہ سبحانہ اپنے رسولوں کو ارادوں میں قوی کر دیتا ہے

انسان کو خلق کر کے اللہ سبحانہ نے اسے کمال تک پہنچنے کی راہیں بتائیں اور انہی انسانوں میں سے نبیوں اور رسولوں کی صورت میں کامل انسان نمونے کے طور پر اور ہدایت و راہنمائی کے لیے منتخب فرمائے۔ بار بار ان کی تعریف کی اور ان کی عظمت کو بیان کیا۔ یہ انبیاء و رسل یا انسانیت کی عزت و عظمت کے نمونے ،کس بنا پر اس مقام کو پہنچے اس کی وضاحت امیرالمؤمنینؑ یہاں بیان فرما رہے ہیں۔ اگر کوئی با کمال و کامیاب انسان بننا چاہتا ہے تو ان انبیاء کی پیروی کرے۔ آپ فرماتے ہیں “اگر اللہ چاہتا تو نبیوں کے لیے سونے کے خزانوں اور خالص طلا کی کانوں کے منہ کھول دیتا، باغ ان کے لیے مہیا کر دیتا تو کر سکتا تھا‘‘ دنیا کی سب سہولیات اور اور مال و متاع انہیں دے سکتا تھا مگر اللہ نے ان میں سے کچھ نہیں دیا اگر یہ سب کچھ نبیوں کے پاس ہوتا اور لوگ اتباع کرتے تو خلوص کا پتہ نہ چلتا کہ مال و سہولیات کی پیروی کی جا رہی ہے یا شخصیت و کردار کی۔
امیرالمؤمنینؑ نے واضح فرمایا کہ وہ ان نعمات کی وجہ سے با کمال نہیں بنے بلکہ اللہ نے انہیں پختہ و قوی ارادوں کا مالک بنایا اور قناعت کی دولت سے نوازا۔گویا پختہ ارادہ اور قناعت جیسے اوصاف حقیقت میں بزرگی و کمال کا ذریعہ و سبب ہیں۔آج بھی اگر انسان ان بلندیوں کو پانا چاہتا ہے تو ایک سبب پختہ ارادہ و عزم ہے۔ انبیاء کی زندگی کو دیکھا جائے تو حضرت موسیٰ ؑپر مشکلوں کے پہاڑ، ابراہیمؑ کے لیے تنہائی اور ہر طرف سے دشمنی اور آگ اور خاتم الانبیاؐء کے لیے سب اذیت اور تکلیفوں کا یک جا ہو جانا ،ان شخصیات کے پختہ ارادوں کو متزلزل نہ کر سکا اور ان کی سیرت آج بھی ان کے اسی قوی عزم جیسے اوصاف کی وجہ سے زندہ و باقی ہے۔

49۔ اچھے اخلاق

فَاِنْ كَانَ لَا بُدَّ مِنَ الْعَصَبِيَّةِ، فَلْيَكُنْ تَعَصُّبُكُمْ لِمَكَارِمِ الْخِصَالِ۔ (خطبہ 190)
اگر تمھیں فخر ہی کرنا ہے تو پاکیزگیٔ اخلاق پر فخر و ناز کرو۔

انسان کی فطرت میں مقابلے کا جذبہ پایا جاتا ہے وہ مختلف معاملات میں خود کو دوسروں سے بہتر بنانا چاہتا ہے اور جب خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے یا بہتر بن جاتا ہے تو اس پر فخر و ناز کرتا ہے۔ قرآن مجید نے بھی انسان کے مقابلے کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے مگرارشاد فرمایا کہ اچھائیوں کی طرف ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرو۔ امیرالمؤمنینؑ نے اپنے اس بیان میں شدت سے تکبر کی مذمت کی مگر ان کلمات میں ارشاد فرمایا کہ اگر فخر و ناز ہی کرنا ہے تو مال و دولت کے بجائے اچھائیوں پر ایک دوسرے سے سبقت اور برتری حاصل کرو اور فخر و ناز کرو۔ آپ نے کچھ اچھے خصائل کو بطور نمونہ ذکر فرمایا کہ فخر ہی کرنا ہے تو انھیں حاصل کرو اور ان پر فخر کرو۔ فرمایا پاکیزہ اخلاق، کردار کی بلندی، حسن سیرت، ہمسایوں کے حقوق کی حفاظت، عہد و پیمان کو نبھانا، نیک لوگوں کی اطاعت، سرکشوں کی مخالفت، حسن سلوک کے پابندی، ظلم و سرکشی سے کنارہ کشی، خونریزی سے پناہ مانگنا، خلق خدا سے عدل و انصاف سے پیش آنا، غصہ کو پی جانا اور زمین پر شر انگیزی سے دامن بچانا، جیسے اخلاقیات کو اپناؤ اور ان پر فخر و ناز کرو۔
حقیقت میں ایک طرف غرور وتکبرکی کمزوری سے آگاہ کر کے بچنے کی تاکید فرمائی اور ساتھ ہی اچھائیوں کی فہرست مہیا کر کے مقابلے کا میدان کھول دیا۔ لفظ تکبر اکثر مذموم چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے مگر امام علیؑ کی اپنی زندگی میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آپ کی یہ مشہور مناجات ہیں۔ خدا میری عزت کے لیے یہ کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں اور میرے فخر کے لیے یہی کافی ہے کہ تو میرا رب ہے۔ یہ اچھائیوں کی ترغیب و تشویق کا ایک خوبصورت طریقہ ہے اور جو اس راہ کو طے کرے گا وہ کامیاب و کامل انسان بنے گا۔

50۔ دوستی و دشمنی میں توازن

لا يَحِيْفُ عَلٰی مَنْ يُبْغِضُ ، وَ لَا يَاْثَمُ فِيْمَنْ يُحِبُّ۔ (خطبہ 191)
جس کا دشمن ہو اس کے خلاف زیادتی نہیں کرتا اور جس کا دوست ہو اس کی خاطر گناہ نہیں کرتا۔

انسان کامل کے لیے مذہبی دنیا میں مختلف نام ہیں ۔کبھی متقی، کبھی محسن کبھی عبادالرحمٰن اور کبھی ابرار کہا جاتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے یہاں انسان کامل کے درجنوں اوصاف و خصوصیات متقی کے عنوان سے بیان فرمائی ہیں۔ انسان کامل یا کامیاب انسان کی دو خصوصیات اس جگہ بیان ہوئی ہیں۔ انسان کامل کی سب سے پہلے تو کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں ہوتی اور اگر کوئی اس سے دشمنی کرتا بھی ہے تو یہ اسے معاف کر دیتا ہے مگر اصولوں کی بنیاد پر کسی سے مخالفت ہو یا کسی سے نفرت کرے تو یہ نفرت اسے اصول اور انصاف سے باہر نہیں لے جاسکتی۔ دشمن سے انتقام کی طاقت رکھتا ہے تو انتقام میں بھی اپنی حد سے آگے نہیں بڑھتا۔
امیرالمؤمنینؑ حقیقت میں ایسے ہی انسان کی تربیت کرنا چاہتے ہیں جو بغض میں بھی انصاف کو مدنظر رکھے اور خود امامؑ نے اپنی آخری وصیت میں اس اصول پر تاکید فرماتے ہوئے انسان کامل کے کردار کا نمونہ روشن کر دیا۔ آپ کو جب زخم لگا تو بیٹوں کو وصیت کی۔’’دیکھو ! جب میں اس ضرب سے مر جاؤں تو ایک ضرب کے بدلے میں اسے ایک ہی ضرب لگانا‘‘۔
اسی طرح کامل انسان کی یہ نشانی ہے کہ وہ دوستی میں بھی اصول و انصاف کو مدنظر رکھتا ہے۔ جیسے دشمنی میں زیادتی نہیں کرتا اسی طرح دوستی میں بھی حق سے زیادہ نہیں دیتا اور دوست کی خاطر خود گناہ میں مبتلا نہیں ہوتا۔
آج کے زمانے میں سفارشی اور تعلقدار لوگ دوسروں کے حقوق کو پامال کرتے رہتے ہیں۔ ایک طرف ایم اے امیدوار اور دوسری طرف میٹرک پاس۔ اب یہاں رشتہ داری یا تعلقداری کو اہمیت دے کر اہل کو حق سے محروم کر دیا گیا تو یہ گناہ ہے مگر کامل انسان کبھی ایسا کام نہیں کرتا اور نہ ہی انسان کامل کسی ایسی صورت میں سفارش کرتا ہے۔ کسی شخص نے ملازمت کے لیے کسی کامل سے سفارش کی درخواست ان الفاظ میں کی کہ آپ سفارش کر دیں گے تو ان سینکڑوں افراد میں سے مجھے ملازمت مل جائے گی میری زندگی سنور جائے گی ۔ انہوں نے جواب دیا دوسروں کا حق پس پشت ڈال کر آپ کی زندگی سنوارتے سنوارتے میں اپنی زندگی نہیں بگاڑ سکتا۔ انہی اصولوں کے عامل کو انسان کامل کہیں گے۔

51۔ کامل انسان

لَا يَرْضَوْنَ مِنْ اَعْمَالِهِمُ الْقَلِيْلَ وَلَا يَسْتَكْثِرُوْنَ الْكَثِيْرَ۔ (خطبہ 191)
وہ اپنے اعمال کی کم مقدار سے مطمئن نہیں ہوتے اور زیادہ کو زیادہ نہیں سمجھتے۔

انسان کی راہنمائی کے دو طریقے ہیں یا انھیں کہا جائے کہ یہ کریں اور یہ نہ کریں اور یا انھیں نمونے دکھائے جاتے ہیں کہ ان جیسے اعمال انجام دیں۔ کامل انسانوں کے اوصاف اگر یکجا دیکھنے ہوں تو امیرالمؤمنینؑ کے اس خطبے میں موجود ہیں۔ ان اوصاف و فضائل میں سے ایک یہ ہے کہ کامل انسان کبھی مطمئن ہو کر بیٹھ نہیں جاتا کہ اب بہت کچھ حاصل کر لیا ہے اس لیے اب کافی ہے بلکہ وہ کمال کی مزید بلندیاں طے کرتا رہتا ہے۔ وہ کبھی چھوٹا سا عمل انجام دے کر اسے اہمیت دے کر اور بڑھا چڑھا کر پیش کر کے راضی نہیں ہو جاتا کہ مجھے جو کچھ کرنا تھا کر لیا اگر ظاہری طور پر لوگوں کی نگاہ میں بہت سے کام انجام دے لیے تو بھی انھیں بہت نہیں سمجھتا اس لیے کہ وہ ڈرتا ہے کہ اس میں سے کتنے قبول ہوں گے۔یہ سوچ بلند ہمتی کی نشانی ہے۔ ان کے مقابلے میں وہ کم ہمت اور پست فکر لوگ ہوتے ہیں جو تھوڑا سا عمل انجام دے کر مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں بلکہ اس پر فخر کرتے پھرتے ہیں اور اس کی وجہ سے خود کو عظیم سمجھنے لگتے ہیں۔ ان اعمال سے عبادات بھی مراد لی جا سکتی ہیں مگر معاشرے کی خدمت میں انجام دیے جانے والے امور بھی یقیناً ان میں شامل ہیں۔ بڑے لوگ معاشرتی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں زندگیاں خرچ کر دیتے ہیں اور پھر بھی یہ کہتے ہیں۔
جان دی دی اُسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔

52۔ بھلائی کی توقع

اَلْخَيْرُ مِنْهُ مَاْمُولٌ وَ الشَّرُّ مِنْهُ مَاْمُونٌ۔ (خطبہ 191)
اس سے بھلائی ہی کی توقع ہو سکتی ہے اور اس سے کسی تکلیف کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔

انسان کامل اُس چراغ کے مانند ہے جو خود جلتا ہے اور دوسروں کو روشنی دیتا ہے۔ انسان کامل اُس کشتی کے مانند ہے جو طوفان و طغیانی سے خود ٹکراتی رہتی ہے مگر اپنے سواروں کو غرق ہونے سے بچاتی ہے۔ انسان کامل کے اوصاف میں سے ہے کہ وہ جہاں ہو اور جس حال میں ہو اپنی ذات پر مشکلات کو برداشت کرے گا مگر کسی کے لئے مشکل پیدا نہیں کرے گا۔ ہر کوئی اس سے ہمیشہ اچھائی اور بھلائی ہی دیکھتا ہے اس لیے آئندہ بھی خیر اور نیکی ہی کی توقع اور امید رکھے گا۔ کوئی اس سے زیادتی بھی کر لے تو یہ زیادتی نہیں کرے گا۔ اپنے حق سے تجاوز نہیں کرے گا۔ لوگ اس کے شر سے محفوظ ہوں گے۔ دشمن بھی اس سے اچھائی ہی کی توقع و امید رکھیں گے۔ دشمن رسول اللہﷺ کو شب ہجرت قتل کرنےکے لیے تیار تھے مگر انہیں یہ خطرہ نہیں تھا کہ ہماری امانتوں میں خیانت ہوگی۔
اس خطبے میں امیرالمؤمنینؑ نے انسان کامل کے دیگر اوصاف میں فرمایا: ’’جو اس پر ظلم کرتا ہے یہ اس سے درگزر کرتا ہے، جو اسے محروم کرتا ہے اس کی باری آئے تو اس کا دامن عطا سے بھر دیتا ہے۔ جو اس سے تعلق توڑتا ہے یہ اس سے تعلق جوڑتا ہے۔ انسان کامل کسی کا دشمن بھی ہو تو اس کے خلاف بے جا زیادتی نہیں کرتا اور جس کا دوست ہوتا ہے اس کی خاطر کوئی گناہ و قانون شکنی نہیں کرتا، امانت کو ضائع نہیں کرتا، ہمسائیوں کو تکلیف نہیں پہنچاتا۔ نہ دوسروں کی مصیبت پر خوش ہوتا ہے، نہ باطل کی سرحدوں میں داخل ہوتا ہے، نہ جادہ حق سے قدم باہر نکالتا ہے‘‘۔ انسان کامل خیرات و برکات کا منبع و سرچشمہ ہوتا ہے، اس پھل دار درخت کے مانند ہوتا ہے کہ لوگ اس کے نیچے آ کر پھل اور سایہ حاصل کرتے ہیں اور اگر کوئی اِسے پتھر مارے تو اُسے بھی بدلے میں پھل دیتے ہیں اور سائے سے محروم نہیں کرتے۔

53۔ کوہ حلم

فِي الزَّلَازِلِ وَقُوْرٌ وَ فِي الْمَكَارِهِ صَبُورٌ وَ فِی الرَّخَاءِ شَکُوْرٌ۔ (خطبہ 191)
یہ مصیبت کے جھٹکوں میں کوہ حلم و وقار، سختیوں پر صابر اور خوشحالی میں شاکر رہتا ہے۔

کامیاب انسان کے سو سے زیادہ اوصاف میں سے تین اوصاف امیرالمؤمنینؑ نے یہ بیان فرمائے کہ سختیوں اور مصیبتوں میں کامل انسان پہاڑ جیسی مضبوطی اور وقار کا حامل ہوتا ہے۔ فتنوں اور فساد کی تیز ہواؤں میں تنکوں کی طرح ہوا کے رخ کے ساتھ نہیں چل پڑتا بلکہ بقولِ شاعرتندی بادِ مخالف سے گھبرانے کے بجائے اسے اپنی اونچی اڑانوں کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ مشکلوں کے سیلاب کے ساتھ خود کو بے دست و پا بنا کر بہ نہیں پڑتا بلکہ پہاڑ کی طرح ان کا مقابلہ کر کے ان کے بہاؤ کی سمت موڑ دیتا ہے۔ کامیاب و کامل انسان نہ فقط خود گھبراتا نہیں بلکہ مصیبتوں میں گھرے افراد اس کی بلند چوٹی کا سہارا لے کر خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ کبھی کامل انسان پہاڑ سے بھی سخت اور مضبوط ہوتا ہے اس لیے کہ پہاڑوں کو کھودا جا سکتا ہے مگر کامل انسان کا دل ڈگمگاتا نہیں۔ اس صفت میں ایک اور پہچان بھی ہے کہ کامل انسان مشکلات میں معاشرے سے کٹ کر اور خود کو تنہائی میں چھپا کر زندگی نہیں گزارتا بلکہ مشکلات کا مقابلہ کرتا ہے اور سینہ سپر ہو کر خود کو بھی اور معاشرے کو بھی مشکلات سے بچاتا ہے اور ان مراحل کوطے کرنے میں پیش آنے والی دشواریوں میں صابر ہوتا ہے۔
کامل انسان کی ایک پہچان یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ جب اسے آسانیاں و نعمات میسر ہوں تو خود کو ان میں گم نہیں ہونے دیتا اور تکبر و غرور کی مرض میں مبتلا نہیں ہوتا بلکہ آسانیاں دینے والے خالق کا شکر ادا کرتے ہوئے مخلوق خدا میں وہ سہولتیں بانٹتا ہے۔ یوں تنہا اپنی خوشی پر خوش نہیں ہوتا بلکہ اسے حقیقی مسرت تب ہوتی ہے جب دوسروں کے لیے خوشی و مسرت کے اسباب مہیا کرتا ہے۔

54۔ اہل حق کی قلت

لَا تَسْتَوْحِشُوْا فِيْ طَرِيْقِ الْهُدٰى لِقِلَّةِ اَهْلِه۔ (خطبہ 199)
راہ راست پر چلنے والوں کی کمی کے باعث چلنے سے مت گھبرائیں۔

راہ راست و صراط ہدایت پر چلنے والوں کو عقل و دین کے اعتبار سے اپنی راہ کو مکمل طور پر پرکھنا چاہیے۔ اُنہیں غور وخوض سے صحیح و غلط کو پہچاننا چاہیے اور جب اس راہ پر چلیں تو اتنا اعتماد ہونا چاہیے کہ سب چھوڑ جائیں تو بھی انہیں اپنے آپ پر شک نہ ہو کہ یہ راہ صحیح ہے یا نہیں۔اس فرمان میں امیرالمومنینؑ راہ راست کے راہیوں کو خود پر اعتماد کا سبق سکھا رہے ہیں۔ ایک مقام پرآپ نے اپنے بھائی عقیل سے کہا ’’اپنے گرد لوگوں کو جمگھٹا دیکھ کر میری ہمت نہیں بڑھتی اور نہ ان کے چھوڑ جانے سے مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے‘‘۔ ایسے کئی افرادگزرے ہیں جو اکیلے چلے تھے اور کاروان بن گیا اور کئی ایسے بھی تھے جو کاروان بن کر چلے مگر راہ کی رکاوٹوں نے انہیں تتر بتر کر دیا۔ جو پختہ ارادوں سے چلتے ہیں ان کے ثبات قدم میں تزلزل نہیں آتا۔اور بڑی منزلوں کے مسافر اور لمبی راہوں کے راہی اکثر کم ہی ہوا کرتے ہیں چونکہ کمال کی راہوں میں رکاوٹیں اور مشکلیں زیادہ ہوتی ہیں جنہیں بہت سے لوگ برداشت نہیں کر سکتے اور تھک کر بیٹھ جاتے ہیں یا راہ بدل لیتے ہیں۔ عظیم مقاصد کے حصول کے متمنی نہ خود گھبراتے ہیں اور نہ لوگوں کی باتوں کی پرواہ کرتے ہیں اس لئے کہ لوگوں میں سے ہر کوئی آسائشوں اور سہولتوں کا متمنی ہوتا ہے یا بہت سے اپنے ناکام بزرگوں کی تقلید ہی کو کامیابی سمجھتے ہیں۔ کامیاب لوگ اپنی راہ خود بناتے ہیں اور اس کی مشکلات کو برداشت کرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنھوں نے تاریخ میں اپنا نام پیدا کیا انھوں نے اپنی محنت سے مراحل طے کیے اور اکثریت انہیں دیوانہ اور احمق سمجھتے ہیں۔

55۔ صلہ رحم

تَصِلُ فِيهَا الرَّحِمَ۔ (خطبہ 207)
اس بڑے گھر میں رشتہ داروں سے اچھا برتاؤ کرو۔

انسان اکثر دولت کو عزت و سعادت کا باعث سمجھتا ہے اور دولت کی مختلف طریقوں سے نمائش کرتا ہے۔ آج کے دور میں دولت کی نمائش یا کسی کے صاحب حیثیت ہونے کی دلیل بڑے گھروں اور بنگلوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ اپنے ایک ساتھی کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے وسیع گھر کو دیکھا تو اعتراض آمیز انداز سے سوال کیا کہ تم دنیا میں اتنے وسیع گھر کو کیا کرو گے؟ یعنی اس نمائش کو اچھا نہ جانا پھر فورا اس دولت کو اچھائی اور بھلائی کا ذریعہ بنانے کے لیے ان کی راہنمائی کی اور فرمایا اگر اسی کھلے مکان کو مہمان نوازی اور رشتہ داروں سے اچھے سلوک کے لئے استعمال کرو تو یہی مکان تمھاری سعادت کا سبب بن سکتا ہے۔
امیرالمؤمنینؑ کا یہ طریقہ کار واضح کرتا ہے کہ دولت خود کوئی بری چیز نہیں ہے، اس کے استعمال کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ وہ اگر بڑائی اور فخر کے لیے استعمال ہو تو بری جبکہ مہمان نوازی اور صلہ رحمی کے لیے استعمال ہو تو اچھی ہے۔ حکماء نے آپ کے ان جملوں کو یوں پیش کیا کہ آپ بانٹنے والے بن جاؤ اس دولت میں دوسروں کو شامل کرنے والے بن جاؤ آپ کا دستر خوان کھلا ہو آپ کا سینہ مہمانوں، رشتہ داروں، اور ضرورت مندوں کے لیے کھلا ہو تو گھر کی وسعت سے زیادہ یہ بڑی دولت بن جائے گی۔ امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں اگر اس طریقہ کو آزماؤ گے تو دونوں جہانوں میں سعادت مند قرار پاؤ گے اور یہی آپ کی ترقی و کامیابی قرار پائے گی۔

56۔ حلال کا استعمال

اَ تَرَى اللهَ اَحَلَّ لَكَ الطَّيِّبَاتِ، وَهُوَ يَكْرَهُ اَنْ تَاْخُذَهَا۔ (خطبہ 207)
اللہ نے جن چیزوں کو حلال قرار دیا ان کا استعمال اسے برا نہیں لگتا ۔

انسان اگر اپنی زندگی کے معیار خود بنانا شروع کر دے تو اکثر اشتباہ کرتا ہے۔ کبھی مال و دولت ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے اور اپنی قیمتی زندگی اس کے حصول کے لیے وقف کر دیتا ہے اور کبھی کمال زندگی یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اس دنیا سے لا تعلق ہو جائے اور مسجد و نماز ہی میں مشغول رہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے اس کلام میں دونوں پہلوؤں کی اصلاح کی اور واضح فرمایا کہ دنیا تب قابل مذمت ہے جب اسے اپنی زندگی کا ہدف بنا لیا جائے اور انسان خواہشات کا قیدی اور دنیا پرست بن جائے اور وہ تارک دنیا بھی قابل تعر یف نہیں جو اپنے فرائض کو بھلا کر اور خاندان کو بے سرپرست چھوڑ کر بلکہ کبھی خود کو دوسروں کے سر ڈال کر عبادتوں میں مشغول ہو جائے۔
انسان کی ذمہ داری ہے کہ ان دونوں راہوں یعنی دنیا کی غلامی اور دنیا سے فرار کی درمیانی راہ اختیار کرے اور اعتدال پسندی سے کام لے۔ اس کلام میں آپ نے ایک شخص کو جو گھر بار اور آل اولاد کو چھوڑ کر دنیا سے بے تعلق ہو گیا تھا اپنی جان کا دشمن کہہ کر اور شیطان کا تابع فرمان کہہ کر پکارا۔ یہ فرمان یہ واضح کرتا ہے کہ اللہ نے جن چیزوں کو پاک و حلال قرار دیا ہے ان کا استعمال ہی صحیح زندگی ہے اور اپنے بیوی بچوں کو بھی دنیا کی نعمات اور زندگی کی آسائش مہیا کرے۔ اس فرمان کے مطابق اہل و عیال کی زندگی کو بہتر کرنے کے لیے کوشش بھی ایک عبادت شمار ہوگی۔ انسان کو چاہیے کہ اللہ نے جسے حلال قرار دیا ہے اسے اللہ کے حکم کے مطابق استعمال کرے، اپنے طور طریقے نہ بنائے۔ بعض لوگ انسانی خدمت کے نام سے اپنے اہل و عیال کو بھلا دیتے ہیں اور کبھی تو خود کو بھی دنیا کی سہولتوں سے محروم کر لیتے ہیں، یہ پسندیدہ عمل نہیں ہے۔ ہر کام کا اپنا موقع و محل ہوتا ہے۔

57۔ حکمران کی زندگی

إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی فَرَضَ عَلٰی اَئِمَّةِ الْعَدْلِ اَنْ يُقَدِّرُوْا اَنْفُسَهُمْ بِضَعَفَةِ النَّاسِ۔ (خطبہ 207)
اللہ نے امام عادل پر فرض کیا ہے کہ وہ خود کو مفلس و نادار لوگوں کی سطح پر رکھیں۔

انسان کی پہچان اس کی زبان سے زیادہ عمل سے ہوتی ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے ساری زندگی دنیا کے دھوکے اور غرور سے بچنے کی تعلیم فرمائی۔ دنیا کے لیے طلاق کے الفاظ اور دنیا کو سانپ کے زہر سے تشبیہ آپ ہی نے دی۔ حکمرانی کے دور میں جب ایک شخص کو گھر بار اور اہل و عیال سے بے تعلق دیکھا جسے وہ زہد سمجھتا تھا تو اسے ڈانٹا اور غلطی پر قرار دیا اور فرمایا اللہ نے جسے حلال و طیب قرار دیا ہے اسے اپنے لیے حرام مت قرار دیں۔ اس نے آپ کے لباس کو دیکھا اور عرض کی آپ کا لباس بھی تو ایسا ہی ہے اور آپ کا کھانا بھی تو روکھا سوکھا ہوتا ہے ۔یعنی آپ بھی تو دنیا کو ترک کیے ہوئے ہیں ۔ آپؑ نے فرمایا آپ کی یہ سوچ صحیح نہیں ہے میں تمھاری مانند نہیں ہوں۔ آپؑ نےحکمرانوں کی زندگی کے لیے ایک سنہری اصول بیان فرمایا جسے عملی جامہ پہنانے سے لوگوں کی گردنوں پر ہی نہیں ان کے دلوں پر حکومت کی جا سکتی ہے۔ فرمایا میں ایک حاکم ہوں اور ’’امام و حاکم کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی زندگی یوں گزارے کہ اس کی حکومت میں غریب ترین شخص جیسے گزار رہا ہے‘‘۔ وجہ بھی بیان فرمائی کہ حاکم کی ایسی زندگی ہوگی تو فقیر اپنے فقر پر گھبرائے گا نہیں۔ یعنی حاکم کا لباس، حاکم کا کھانا، حاکم کا رہنا سہنا، غریب و مفلس کے سکون کا سبب ہو کہ حاکم تو مجھ جیسا غریب ہے ۔ امیرالمؤمنینؑ نے اس انداز سے حکمرانی کرکے حکمرانوں کے لیے حکمرانی کے اصول واضح فرما دیے۔

58۔ حقوق انسان

جَعَلَ سُبْحَانَهٗ مِنْ حُقُوقِهٖ حُقُوقاً افْتَرَضَهَا لِبَعْضِ النَّاسِ عَلٰی بَعْضٍ۔ (خطبہ 214)
اللہ سبحانہ نے انسانوں کے ایک دوسرے پر حقوق کو بھی اپنے ہی حقوق قرار دیا ہے۔

انسان کی خدمت کے عنوان سے آج سب سے بڑا دعویٰ حقوق انسانی کا ہے۔ اس کے لیے دنیا کی بڑی بڑی تنظیمیں قائم ہیں۔ ممالک کی ترقی کامعیار ان حقوق کی پاسداری کو قرار دیا جاتا ہے۔ وہ ترقی یافتہ ملک ہے جس میں انسانی حقوق کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے اور وہ ملک جس میں انسانی حقوق پامال کیے جاتے ہیں وہ دنیا کی نظروں میں پسماندہ ہوتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے اس فرمان میں بندوں کے ایک دوسرے کے مقابلے میں حقوق کو حقیقت میں اللہ کے حقوق قرار دیا ہے۔ بندوں کے ایک دوسرے پر جو حقوق ہیں چونکہ ان حقوق کو اللہ نے لازم قرار دیا ہے اس لیے یہ بھی اللہ کے حقوق میں سے شمار ہوں گے۔ گویا اللہ نے اپنے بندوں کے حقوق کو اپنا حق قرار دیا ہے اور اس سے بندوں کے حقوق کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور اسلام میں انسانی حقوق کے مقام کا اندازہ ہوتا ہے۔
دوسرے انسانوں کی اہمیت و ہمدردی ہی انسان کو عظیم بناتی ہے اور اس عظمت کے لیے علامہ اقبال نے یوں راہنمائی کی۔
سر میں جز ہمدردیٔ انسان کوئی سودا نہ ہو
امریکہ کے ماہر نفسیات ڈیل کارنیگی جو کئی کتابوں کے مصنف ہیں،ان کی کتابوں کا خلاصہ یہ ہے کہ دوسروں کو اہمیت دیں۔انہوں نےاس اہمیت کے کئی طریقے بیان کئے مثلا ہمیشہ دوسروں کو یہ احساس دلائیں کہ وہ آپ کے لیے اہمیت رکھتے ہیں،دوسروں کی اہمیت کو دل سے تسلیم کریں،دوسروں سے ملیں تو کسی نہ کسی لحاظ سے انہیں خود سے بہتر سمجھیں،دوسروں کی بات غور سے سنیں،دوسروں کی تعریف کریں،نکتہ چینی نہ کریں۔ امیر المؤمنینؑ کا یہ مختصر جملہ ایسے درجنوں اصولوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اور دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی و سعادت کی ضمانت ہے۔

59۔ فخر کی تمنا

اِنَّ مِنْ اَسْخَفِ حَالَاتِ الْوُلَاةِ عِنْدَ صَالِحِ النَّاسِ اَنْ يَظُنَّ بِهِمْ حُبُّ الْفَخْرِ۔ (خطبہ 214)
نیک بندوں کے نزدیک حکمرانوں کی ذلیل ترین صورت حال یہ ہے کہ ان کے متعلق یہ گمان ہونے لگے کہ وہ فخر کو پسند کرتے ہیں۔

ایک حکمران کے عنوان سے حکمران کی ذمہ داریاں اور فرائض بتانا خود اس حکمران کی عظمت کی نشانی ہے۔ انسان کسی عہدے پر فائز ہو تو وہ یہ تو دیکھتا ہے کہ میرے حکم پر لوگوں کو کیا کرنا ہے مگر یہ بھول جاتا ہے کہ ان لوگوں کے لیے جو میرے ما تحت ہیں یا میری رعایا ہیں مجھے کیا کرنا ہے۔ یہ فرمان کسی چھوٹے سے عہدے یا گھر کے سربراہ سے لے کر بڑی بڑی مملکتوں کے حکمرانوں کے لیے بھی ایک پیغام ہدایت رکھتا ہے۔ کسی عہدے دار کی ذلیل ترین صورت یہ بیان کی گئی ہےکہ اس کے متعلق گمان ہونے لگے یعنی یقین نہیں بلکہ گمان ہو کہ شاید وہ فخر پسند کرتا ہے تو یہ کسی حکمران کے لیے گھٹیا اخلاق ہے۔ پھر آپ نے ایک حکمران کے طور پر اپنے کردار کو پیش کیا جسے اپنا کر آج بھی کوئی عہدے دار خود کو کامل بنا سکتا ہے۔ مثلاً فرمایا ’’مجھے یہ تک ناگوار معلوم ہوتا ہے کہ تمھیں اس کا وہم و گمان ہونے لگے کہ میں بڑھ چڑھ کر سراہے جانے یا تعریف سننے کو پسند کرتا ہوں۔ الحمدللہ کہ میں ایسا نہیں ہوں‘‘۔
انسان انتظامی امور کو کیسے خوش اسلوبی سے نبھا سکتا ہے اور کیسے نبھانا چاہیے یہ آپ نے تفصیل سے بیان کیا مگر دو چیزیں اگر یہاں دیکھی جائیں تو اہم ہیں ایک یہ کہ فخر و سربلندی کے طلب گار مت بنیں اور یہ مت چاہیں کہ لوگ آپ کو بڑا سمجھیں اور دوسری یہ کہ خوشامد طلب مت بنیں اور یہ مت امید رکھیں کہ لوگ آپ کی تعریف کریں۔ اگر ان دو چیزوں کو چھوڑ دیا جائے تو حقائق کے مطابق زندگی گزرے گی اور اس عہدے کا حق اور ذمہ داری بہتر انداز میں انجام پائے گی۔ انتظامی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے یہ بہترین اصول ہیں۔

60۔ فقر سے پناہ

اَللَّهُمَّ صُنْ وَجْهِي ْبِالْيَسَارِ، وَلاَتَبْذُلْ جَاهِيَ بِالْاِقْتَارِ۔ (خطبہ 222)
خدایا میری آبرو کو غنا کے ساتھ محفوظ رکھ اور فقر و تنگدستی سے میری منزلت کو نظروں سے نہ گرا۔

عقل مندانسان اپنی عزت و آبرو کے لیے کوشش خود کرتا ہے اور اس کے لیے اللہ سے مدد چاہتا ہے ۔ اپنا مقام و منزلت بھی خود بناتا ہے اور اس کی حفاظت کی دعا اللہ سے کرتا ہے۔ اللہ نے انسان کے لیے واضح فرمادیاہے کہ جو تم کوشش کرو گے اسی کے مطابق پھل پاؤ گے۔ امیرالمؤمنینؑ کی دعا حقیقت میں ایک درس ہے کہ اللہ سے جو چیز مانگ رہے ہو اللہ کے حکم کے مطابق اس کے لیے کوشش کرو۔ آپ نے یہاں اپنی عزت کی حفاظت کے لیے غنا و تونگری طلب کی یعنی مجھے اتنا کمانے اور حاصل کرنے کی ہمت دے کہ میں اپنی ضرورتوں کو خود پورا کر سکوں، کسی کا محتاج نہ ہوں اور کسی کے سامنے مجھے دست سوال دراز نہ کرنا پڑے۔ اب اس کے لیے سستی و کاہلی اور بدنظمی و کوتاہ اندیشی کو چھوڑ کر کمانے پر زور دینا ہوگا اور جو کمایا ہےاسے میانہ روی سے خرچ کر کے اور قناعت کو ذریعہ بنا کر گزر بسر کرنا پڑے گی۔ امیرالمؤمنینؑ نے ہی ایک اورمقام پر فرمایاہے کہ قناعت بڑی دولت ہے۔
دوسرے جملے میں فرمایاہے کہ فقر و تنگدستی کی وجہ سے میرے مقام و منزلت کو لوگوں کی نگاہوں سے نہ گرا۔ اس جملے میں بھی فقر و تنگدستی کے نقصانات کو بیان فرمایا ہے۔ پھر آپ نے فقر کے چار نقصانات اور کمزوریاں بیان کی ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ فقر کی وجہ سے تجھ سے رزق مانگنے والوں سے رزق مانگنے لگوں، تیرے بندوں کی نگاہ لطف و کرم کو اپنی طرف موڑنے کی تمنا کروں، جو مجھے دے اس کی مدح و ثنا کرنے لگوں اور جو نہ دے اس کی برائی کرنے میں مبتلا ہو جاؤں۔ انسان کو اپنی عزت و مقام کی حفاظت کے طریقے معلوم ہو جائیں تو اسے چاہیے کہ انھیں اپنائے تاکہ عزت و مقام کو بچائے۔ امیرالمؤمنینؑ نے فقر کو عزت و مقام سے گرنے کا بڑا سبب قرار دے کر درس دیا ہے کہ فقیر نہ بنو بلکہ کما کر سخی بنو۔

61۔ سرکش نفس

اِمْرُءٌ اَلْجَمَ نَفْسَهٗ بِلِجَامِهَا، وَزَمَّهَا بِزِمَامِهَا۔ (خطبہ 234)
باہمت وہ ہے جو اپنے نفس کو لگام دے کر اور اس کی باگیں تھام کر اپنے قابو میں رکھے۔

ایسا انسان جو قابل تعریف ہے اس کی دو صفات ان دو جملوں میں بیان فرمائی گئی ہیں۔ حقیقت میں خواہشات نفس کے خطرات سے آگاہ فرمایاگیا ہے اور خواہشات نفس کو سرکش حیوان سے تشبیہ دے کر اس کی منہ زوریوں سے آگاہ کیا گیا ہے۔ انسان اگر منزل کمال تک پہنچنا چاہتا ہے تو اس کے لیے کوئی قوی سواری ہونی چاہیے مگر سواری جتنی قوی ہوگی اسےقابو میں رکھنا اتنا ہی مشکل اور ضروری ہوگا اس لیے کہ اگر اسے آزاد چھوڑ دیا جائے تو سوار کو کہیں بھی گرا سکتی ہے۔ دین اسلام میں کامیاب ترین شخص اسے قرار دیا گیا ہے جو نفس کو اپنے کنٹرول میں رکھے۔ امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں کہ مردانگی یہی ہے کہ انسان نفس کو لگام دے کر اور اس کی باگ کو مضبوطی سے تھام کر اسے قابو میں رکھے۔ انسان کا نفس اگر خود سر ہو جائے تو قرآن مجید کی زبان کے مطابق وہ برائیوں کا حکم دینے لگتا ہے، وہ اپنی ذات کے علاوہ کسی کے وجود کو برداشت نہیں کرتا، دوسروں پر ظلم کر کے خود کو قوی سمجھتا ہے، انسانیت کے خلاف ورزیوں کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ انسان اگر نفس کو کنٹرول کرے گا تو اسے یہ یاد رہے گا کہ اگر میری خواہشات ہیں تو میرے علاوہ دوسروں کی خواہشات بھی ہیں ۔ اگر ہر طرف سے اپنی خواہشات کے حصول کی کوشش ہوگی تو دنیا میں فساد و فتنہ برپا ہوگا اس لیے نفس کو کنٹرول کر کے منزل کی طرف چلنا لازمی ہے تاکہ منزل بھی ملے اور راستے کے دوسرے راہیوں کے ساتھ زیادتی بھی نہ ہو۔ یہی محفوظ سفر ہےجو انسان کو کمال تک پہنچاتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ کے لفظوں میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بچنے اور اس کی اطاعت کو بجا لانے کا نام کمال ہے۔

62۔ نیند

مَآاَنْقَضَ النَّوْمَ لِعَزَآئِمِ الْيَوْمِ۔ (خطبہ 238)
رات کی گہری نیند دن کے مہموں میں بڑی کمزوری پیدا کرنے والی ہے۔

انسان کی کامیابی میں ہمت اور بلند ارادوں کو بڑا دخل ہے۔ جب کوئی شخص کسی بلندی تک پہنچنے کا ارادہ کرے تو اسے اس بلند مقام تک پہنچنے کے لیے بلند حوصلہ اور مسلسل کوشش کرنی لازمی ہے، مشکلات و مصائب کا سامنا یقینی ہے۔ امیرالمومنینؑ نےیہاں نیند کو آسانی اور سستی کے معنی میں لیا ہے۔ کچھ لوگ عزت و افتخار سے اس لیے محروم رہتے ہیں کہ جب بلند ہمتی سے انہیں بڑے فیصلے کرنے تھے تو وہ خواب غفلت میں پڑے رہے اور تب سستی میں مبتلا رہے اور میٹھی نیند کے مزے لیتے رہے، موقع و محل پر بڑا فیصلہ نہ کر سکے۔ یہاں یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ فیصلے تو بڑے کر لیے مگر ان فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جب وقت آیا تو نیند کے مزے لینے لگے۔ گویا آپ واضح فرماتے ہیں کہ آسانیاں اور کامیابیاں، سستیاں اور بلندیاں آپس میں جوڑ نہیں رکھتیں۔ کوشش و زحمت ہی کے نتیجے میں افتخار نصیب ہوتا ہے اور جو عظمتوں کا طلبگار ہوتا ہے اسے راتیں جاگ کر گزارنی پڑتی ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ وہی قومیں اور وہی افراد دنیا میں طاقت و قدرت حاصل کر سکے جو وقت پر فیصلہ کرتے ہیں اور فیصلوں کے حصول کے لئے سخت محنت کرتے ہیں۔ قرآن کا اصول یہی بتاتا ہے کہ انسان جو کوشش کرتا ہے وہی اسے ملتا ہے۔ جو لوگ زندگی میں کسی طویل سفر کا پختہ عزم و ارادہ کرتے ہیں وہ رات کی تاریکیوں میں بھی چراغ تلاش کر کے سفر جاری رکھتے ہیں اور رات ڈھلتے ہی جو سکون سے سو جاتے ہیں ان کے عزائم پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتے۔ اس فرمان میں ایک پہلو مسلسل کوشش کی طرف دعوت دینے کا ہے۔ بعض لوگ ارادہ کرتے ہیں اور خرگوش کی طرح کچھ وقت کے لیے بڑی بڑی چھلانگیں لگاتے ہیں مگر عزم میں تسلسل نہیں ہوتا، منزل تک پہنچنے سے پہلے خواب خرگوش میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو ان کو منزلیں نہیں ملتیں۔

63۔ غیر متعلق گفتگو

دَعِ الْقَوْلَ فِيمَا لَا تَعْرِفُ وَ الْخِطَابَ فِيمَا لَمْ تُكَلَّفْ۔ (وصیت 31)
جو چیز جانتے نہیں ہو اس کے متعلق بات نہ کرو اور جس چیز کا تم سے تعلق نہیں ہے اس کے بارے میں زبان نہ چلاؤ۔

انسان کو اپنی عزت و مقام کے لیے خود کوشش کرنی ہوتی ہے تب وہ حاصل ہوتاہے اور اس کی حفاظت بھی خود اس کے ذمہ ہوتی ہے۔ البتہ اس کوشش و حفاظت کے لیے راہنمائی حکماء و بزرگان اور اہل تجربہ سے لینا بہت مفید ہوتا ہے۔ امیرالمومنینؑ نے نہج البلاغہ کی وصیت 31میں بڑی تفصیل سے اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کو زندگی کے اصول بتائے جو ہر کسی کی کامیاب زندگی کے لئے دستورالعمل ہیں۔ ان میں سے دو جملے یہ ہیں کہ جس چیز کو نہیں جانتے اس کے بارے میں بات نہ کرو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی جس چیز کو نہیں جانتا اگر اس کے بارے میں کچھ کہے گا تو غلطی ہوگی اور یوں خود کو وہ اپنے مقام سے گرا دے گا۔ بلکہ ایک جگہ تو امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں کہ جو بات جانتے ہو وہ بھی سب کی سب نہ کہو۔ جو بات نہیں جانتے وہ پوچھی بھی جائے تو کہہ دو کہ مجھے نہیں معلوم۔
اسی طرح امیرالمومنینؑ نے فرمایا کہ جس بات سے آپ کا تعلق و واسطہ نہیں وہ بات مت کرو۔ اس لیے کہ تم دوسروں کے کاموں میں دخالت دو گے تو کل کو وہ بھی تمھارے مسائل میں مداخلت کریں گے اور اگرتم اس بات میں پڑتے ہو جس سے تمھارا تعلق نہیں تو سامنے والا کہہ دے گاکہ تمھارا اس سے واسطہ نہیں تم مداخلت نہ کرو تو یہ خود اپنی عزت خاک میں ملانے کے مترادف ہے۔جس کام اور موضوع سے تعلق نہیں اس پر گفتگو کرنا وقت کا ضیاع ہے اور اکثر لوگ اسی شغل میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں۔وہ لوگ جن کے سامنے زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا وہ اس قسم کی گفتگو میں مشغول رہتے ہیں۔دوسروں پر تنقید اور ان کے گلوں شکووں میں وقت گزارتے ہیں۔اگر انسان اپنی زندگی کا مقصد معین کر لے اور دوسروں کے بجائے اپنی اصلاح کی کوشش کرے تو خود کوغیر متعلق باتوں سے بچا کر وقت کو ضیاع سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

64۔ گمراہی کا ڈر

اَمْسِكْ عَنْ طَرِيقٍ اِذَا خِفْتَ ضَلَالَتَهٗ۔ (وصیت 31)
جس راہ میں بھٹک جانے کا اندیشہ ہو اس راہ میں قدم نہ اٹھاؤ۔

انسان کو زندگی کے کمال کے سفر میں جیسے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اس کے لیے رکاوٹوں سے آگاہ ہونا بھی لازمی ہے۔ رکاوٹیں کبھی واضح ہوتی ہیں تو ان سے بچنا آسان ہوتا ہے مگر یہی رکاوٹیں بعض اوقات مخفی ہوتی ہیں۔ امیرالمومنینؑ یہاں ایک اصول بیان فرما رہے ہیں کہ جس راہ میں بھٹک جانے کا خوف ہو وہاں خطرات مول لینے اور سرگردانی سے بچنے کے لیے قدم روک لینے چاہئیں۔ اس لیے کہ اگر راستہ واضح نہ ہو تو انسان ہدف کے قریب جانے کے بجائے دور بھی جا سکتا ہے اور اگر ہدف تک پہنچ بھی جائے تو راستہ بھر میں وحشت و اضطراب میں مبتلا رہے گا۔ اس لیے عقلِ انسانی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کسی دو راہے پر پہنچیں تو دیکھ بھال لیں اور راستہ واضح نہ ہو تو کسی جاننے والے سے راہنمائی حاصل کریں۔ جلد بازی نہ کریں بلکہ چھان بین کرلیں۔اس فرمان سے یہ بات بھی سمجھ آتی ہے کہ جدھر کوئی بلائے اُدھر بغیر سوچے سمجھے نہیں چل پڑنا چاہیے، بلکہ پہلے بلانے والے کی حقیقت اور سچائی کا پتہ کر لینا چاہیے۔ ٹھوکر کھا کر سنبھلنے یا چوٹ لگنے پر سنبھلنے سے بہتر یہ ہے کہ ایسی راہ پر جانے سے رک جائیں۔ جاننے والے سے پوچھیں، یا متبادل راہ تلاش کریں۔ دنیاوی زندگی میں اگر اس اصول کو اپنایا جائے تو انسان بہت سے خطرات اور نقصانات سے بچ سکتا ہے۔
البتہ بعض کم ہمت لوگ بھٹک جانے،ناکام ہونے،خطرات میں گھر جانے جیسے تصورات سے خود کو محدود کر لیتے ہیں اور اسے احتیاط کا نام دیتے ہیں۔امیر المؤمنینؑ کا یہ مقصد نہیں ہے کہ ایسی صورت میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں ۔نہیں بلکہ اس راہ کو تلاش کریں جو کمال تک پہنچائے اور ان راہنماؤں کو ڈھونڈھیں جو منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے مددگار بنیں۔اللہ سبحانہ نے سورۃ حمد میں یہی حکم دیا کہ دعا کریں کہ سیدھا راستہ مہیا ہو اور سیدھا راہ اللہ اپنے بندوں کے ذریعہ ہی مہیا فرماتا ہے۔وہ بندے جنہیں اللہ نےنعمات سے نوازا ہے۔

65۔ پسند و ناپسند کا معیار

اَحْبِبْ لِغَيْرِكَ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ وَاكْرَهْ لَهٗ مَا تَكْرَهُ لَهَا۔ (وصیت 31)
جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہی دوسروں کے لئے پسند کرواور جو اپنے لیے نہیں چاہتے اُسے دوسروں کے لیےبھی نہ چاہو۔

انسان اگر اپنی محبت و نفرت کا ایک ہی معیار بنائے، جو اپنے لیے چاہتا اور پسند کرتا ہے وہی دوسروں کے لیے چاہے اور جسے اپنےلیے نا پسند کرتا ہے وہ دوسروں کے لیے بھی نا پسند کرے تو انسانی زندگی میں پیار،محبت اور امن و سکون عام ہوجائے۔ مثلا ہر انسان چاہتا ہے کہ اسے عزت دی جائے یا اپنی زندگی کے لیے سہولیات و سکون چاہتا ہے تو دوسروں کے لیے بھی انہی چیزوں کو چاہے۔ اپنی طرف سے دوسروں کو عزت دے۔ دنیاوی سہولیات میں سے کچھ مل جائے تو دوسروں کو شامل کرے۔ چاہتا ہے کہ دوسرے اسے اہمیت دیں تو پہلے خود دوسروں کو اہمیت دے اور جن چیزوں کو اپنے لیے نہیں چاہتا مثلا کوئی شخص بھی نہیں چاہتا کہ اسے بُرا بھلا کہا جائے یا اس کے خلاف الزام تراشی ہو تو اسے دوسروں کے لیے یہ چیزیں انجام نہیں دینی چاہئیں۔ یہ روش معاشرے کا ہر فرد انجام دینا شروع کرے تو معاشرے کی حالت بدل سکتی ہے۔آپ کو کامیاب لوگوں میں یہی روش نظر آئے گی اور یہی طرز عمل عدل و انصاف کی بنیاد ہے اور اسی سے حقوق انسانی کی حد بندی کی جا سکتی ہے۔ اس طرزِ زندگی سے آپس میں بھائی چارہ اور انسانیت کی دیکھ بھال کا جذبہ پیدا ہوگا اور یوں زندگی میں محبت تقسیم ہو گی اور محبت بانٹنا ہی اصل زندگی ہے۔ اور یہ محبت اچھائیوں اور فضیلتوں کا محور و منبع ہے۔ خلاصہ یہ کہ لوگوں کے بارے میں وہی کہوجو چاہتے ہو کہ لوگ تمھارے بارے میں کہیں اور لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرو جو چاہتے ہو کہ لوگ تم سے کریں۔
دوسروں کو سمجھیں،ان کے جذبات و احساسات کو جانیں۔ان کی ضرورت اور احتیاج کا اندازہ کریں،ان کی پسند کو تلاش کریں۔ان کی پسندیدہ چیزوں میں دلچسپی لیں اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔اگر امامؑ کے اس فرمان کو انسانی تعلقات کا محور بنا لیا جائے تو معاشرت زندگی بدل سکتی ہے۔
معاشرے میں سب سے زیادہ جو لفظ بولا جاتا ہے وہ ’’میں‘‘ ہے۔فقط میں کو راضی رکھنے کے لیےدوسروں کو خود سے دور نہ کریں،دوسروں کی پسند کو اپنی پسند بنائیں تو دوسرے آپ کو پسند کریں گے اور محبت کریں گے۔

66۔ ظلم سے پرہیز

لَا تَظْلِمْ کَمَا لَا تُحِبُّ اَنْ تُظْلَمَ۔ (وصیت 31)
جس طرح چاہتے ہو کہ تم پر زیادتی نہ ہو یونہی دوسروں پر بھی زیادتی نہ کرو۔

انسانیت کی ہدایت کے لیے امیرالمؤمنینؑ نے اپنے فرزند کے ذریعہ اس وصیت نامہ میں جو اصول بیان فرمائے ان میں یہ حصہ بہت مہم ہے۔آپؑ نے فرمایا اپنے اور دوسرے کے درمیان ہر معاملہ میں اپنی ذات کو میزان قرار دیں۔جس طرح آپ چاہتے ہیں کہ تم پر زیادتی نہ ہو یونہی دوسروں پر بھی زیادتی نہ کریں۔جس طرح چاہتے ہیں کہ دوسرے تم سے اچھا برتاؤ کریں اور حسن سلوک سے پیش آئیں،آپ بھی دوسروں سے اچھا برتاؤ کریں اور حسں سلوک سے پیش آئیں۔ دوسروں میں جس چیز کو بُرا سمجھتے ہیں تم میں وہی چیز پائی جاتی ہو تو اسے خود میں بھی بُرا سمجھیں اور لوگوں سے جیسا برتاؤ کرتے ہیں اسی قسم کے رویے کی ان سے توقع رکھیں ۔ دوسروں کے لیے وہ بات نہ کہیں جو اپنے لیے سننا گوارا نہیں کرتے۔
یہ وہ اصول ہیں جو انسان کو دوسروں کے اعمال کے حساب کتاب کے بجائے اپنے عمل و کردار کے دیکھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ان فرامین سے واضح ہوتا ہے کہ ہم جیسا کریں گے ویسا ہی ہم سے ہوگا اور ہم جیسے کردار کی دوسروں سے امید رکھتے ہیں دوسرے بھی ہم سے ویسی ہی توقع رکھتے ہوں گے ۔ یہ اصول حقیقت میں دوسروں کے سنوارنے کے لیے ہیں مگر یہ سنوارنا خود سے شروع کریں گے۔

67۔ خود پسندی

اَلْاِعْجَابُ ضِدُّ الصَّوَابِ وَ آفَةُ الْاَلْبَابِ۔ (وصیت 31)
خود پسندی صحیح طریقہ کار کے خلاف اور عقل کی تباہی کا سبب ہے۔

خود پسندی اور اپنے آپ کو سب سے بہتر قرار دینا حقیقت اور عقل مندی کے خلاف سوچ ہے۔ یہ سوچ انسان کی ترقی و کمال کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے اور اس فکر سے عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے اور عقل صحیح سوچنے سے رُک جاتی ہے۔ خود پسند انسان فقط اسی عمل کو صحیح سمجھتا ہے جسے وہ خود انجام دے رہا ہے۔ دوسروں کے فیصلوں، آرااور اعمال کو سراسر غلط شمار کرتا ہے۔ یوں بہتری کی راہیں اپنے لیے مسدود کر لیتا ہے۔ خود پسندی کی صورت میں انسان جاہل ہوتے ہوئے بھی خود کو بڑا دانشور و عالم تصور کرتا ہے اور اپنی کمزوریوں کو جاننے اور ان کی اصلاح کرنے کے بجائے خود کو صاحب فضیلت و کمال خیال کرتا ہے۔ اپنی کوتاہیوں کی بہتری کے بجائے وہ دوسروں سے چاہتا ہے کہ اس کا ساتھ دیں۔اصل مشکل یہ ہے کہ جب تک انسان کسی چیز کی کمی یا ضرورت محسوس نہیں کرتا اس کے حصول کی کوشش نہیں کرتا۔ خود پسند انسان بھی اپنے اندر کسی قسم کی کمی محسوس نہیں کرتا اس لیے اس غلطی پر ڈٹا رہتا ہے اور اپنی کمزوری کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ہمیشہ کمزوریوں میں جکڑا رہتا ہے اور اس کی خود پسندی اس کی عقل پر بھی پردے ڈال دیتی ہے اور اس کی عقل بھی صحیح کارکردگی سے محروم ہو جاتی ہے۔
انسان اگر کمال کی طرف جانا چاہتا ہے تو اسے اپنے خول سے نکل کر دیکھنا چاہئے کہ لوگ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔دوسروں کی تنقید سننے کی اس میں ہمت ہونی چاہیے اور تنقید سن کر دیکھنا چاہیے کہ وہ کمزوری اس میں اگر واقعا ہے تو اسے دور کرنا چاہیے۔

68۔ محنت

فَاسْعَ فِيْ كَدْحِكَ وَ لَا تَكُنْ خَازِناً لِّغَيْرِكَ۔ (وصیت 31)
روزی کمانے میں کوشش کرو اور دوسروں کے خزانچی نہ بنو۔

انسان کے کمال تک پہنچنے کی بنیاد سعی و کوشش ہے۔ مادی زندگی ہو یا روحانی، انسان کسی مقام تک تبھی پہنچے گا جب محنت کرے گا۔ سستی و کاہلی کامیاب زندگی کے لیے آفت ہے۔ ہر انسان کی قدر و قیمت اور عزت و اہمیت اس کی ہمت و کوشش کے مطابق ہوتی ہے۔ امیرالمومنینؑ نے ظاہراً یہاں رزق و روزی کمانے کے لیے کوشش کی نصیحت کی ہے اور یہ بھی اسی کوشش کے عموم کا ایک مصداق ہوگا۔ انسان کو چاہیے کہ اپنی مادی ضروریات کے لیے بھی محنت کرے اور دوسروں پر بوجھ بن کر زندگی نہ گزارے بلکہ دوسروں کا بوجھ اُٹھانے والا بنے۔ دوسروں سے لینے والا ہی نہیں بلکہ دوسروں کو زندگی کی سہولیات میسر کرنے والا بنے۔ اگر لوگوں میں یہ سوچ پیدا ہو جائے کہ دوسروں سے فقط مدد لینی ہی نہیں بلکہ مدد کرنی بھی ہے تو معاشرے میں ایک دوسرے پر اعتماد بڑھے گا اور افراد میں بھائی چارہ قائم ہوگا۔ کوشش و مشقت کی تلقین کے بعد آپؑ نے فرمایا کہ دوسروں کے خزانچی بن کر نہ رہو جو کمایا ہے اسے اپنے لیے خرچ کرو اپنے اہل وعیال کے لیے سہولیات میسر کرو مگر جو ان ضروریات سے بچ جائے اسے بھی جمع ہی نہ کرتے رہو بلکہ غرباء و فقراء اور ضرورت مندوں کا بھی خیال رکھو۔

69۔ عزت نفس

اَكْرِمْ نَفْسَكَ عَنْ كُلِّ دَنِيَّةٍ وَاِنْ سَاقَتْكَ اِلَى الرَّغَآئِبِ۔ (وصیت 31)
ہر ذلت سے اپنے نفس کو بلند تر سمجھو، اگرچہ وہ تمھاری من مانی چیزوں تک تمھیں پہنچا دے۔

انسان کی زندگی کا بہترین سرمایہ اُس کی عزت و کرامت ہے۔ اس فضیلت و بزرگی کو مال و دولت سے خریدا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اس کی جگہ کوئی اور شے لے سکتی ہے۔ اس لیے اپنی خواہشات کی خاطر یا مال و منال کے لیے اس عظیم سرمائے کو ضائع نہ کیا جائے۔ بعض لوگ مال و مقامِ دنیا کے لیے ہر پستی کو قبول کر لیتے ہیں اور گھٹیا مادی و دنیاوی خواہشوں کی خاطر عزت نفس جیسی دولت بیچ دیتے ہیں۔ امیرالمومنینؑ انسان کو اپنا اصلی مقام پہنچاننے کی طرف توجہ دلا رہے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ممکن ہے اس گھاٹے کے سودے میں تمھارا نفس عارضی طور پر مطمئن ہو جائے مگر عزت نفس کھو دینے کا کوئی بدل حاصل نہیں کر پاؤ گے۔
گھاٹے کے اس سودے سے بچنے کے لیے انسان کے لیے واضح ہونا چاہیے کہ عزتِ نفس کس میں ہے اور ذلت و خسارے کا سبب کونسی چیز ہے۔اس کے لیے کچھ باکمال افراد بطور نمونہ مدنظر رہنے چاہیں۔علامہ اقبال نے ایسے راہنما کی طرف یوں اشارہ فرمایا:
اگر کوئی شعیب آئے میسر

70۔ آزادی

لاَ تَكُنْ عَبْدَ غَيْرِكَ وَقَدْ جَعَلَكَ اللهُ حُرّاً۔ (وصیت 31)
دوسروں کے غلام نہ بنو جبکہ اللہ نے تمھیں آزاد بنایا ہے۔

انسان کی سوچ ایک الہی عطیہ ہے اور اگر یہ سوچ آزاد اور بلند ہوگی تو اس سے انسان بلندیوں کی منزلیں طے کرے گا۔ یہی سوچ اگر گھٹیا ہو جائے تو انسان کو پستی میں دھکیل دیتی ہے۔ انسان کبھی جسمانی طور پر دوسروں کا تابع اور غلام ہوتا ہے جس سے کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح نجات مل جاتی ہے اور جسمانی غلام پر دوسرے سمجھدار لوگ بھی افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور ممکن ہے اس کی مدد بھی کردیں مگر بہت سے لوگ جسمانی غلامی کے بجائے فکر میں دوسروں کے غلام ہوتے ہیں ظاہری طور پر بڑی مسندوں پر بھی ہو سکتے ہیں مگر فکری طور پر زندان میں ہوتے ہیں، ساری زندگی خود کچھ نہیں سوچتے بلکہ دوسروں کی سوچ پر زندگی گزار دیتے ہیں حقیقت میں یہی غلامی ہے۔ افراد کی طرح اقوام بھی غلام ہوتی ہیں۔اس غلامی سے نجات کا طریقہ امیرالمومنینؑ نے یہ فرمایاہے: یہ یاد رکھیں کہ اللہ نے آپ کو آزاد پیدا کیاہے۔ یعنی جس نے پیدا کیا اس کے بن کر رہو۔ اگر انسان اللہ کا بن کر رہے تو کائنات اس کی ہو جاتی ہے۔ اس طرح آپ نے انسان کا مقام واضح فرما دیا ہے اوریہ پیغام دیا ہے کہ انسان کو اپنے نفس پر اعتماد کرنا چاہیے۔ انسان خود کو آزادی و حریت کے زیور سے آراستہ کرے گا تو لالچ، خوف، خوشامد ، چاپلوسی، جیسی کمزور حرکات میں خود کو قید نہیں کرے گا۔ دوسروں کے دستر خوان سے کھا کر ان کا ممنون احسان ہو کر خود کو غلام نہیں بنائے گا۔ کم کھا لے گا کسی کا ممنون احسان نہیں ہو گا۔علامہ اقبال نے فرمایا؛
تجھے گُر فقر و شاہی کا بتا دوں

71۔ بھلائی

مَا خَيْرُ خَيْرٍ لاَ يُنَالُ اِلاَّ بِشَرٍّ۔ (وصیت 31)
اس بھلائی میں کوئی بھلائی نہیں جو بُرائی کے ذریعہ حاصل ہو۔

انسان ہر وقت اچھائی اور بہتری کے حصول کی کوشش کرتا ہے اور کرنی بھی چاہیے مگر عقل کا تقاضا ہے کہ اُس بھلائی اور سعادت کے حصول کے ذرائع پر بھی نظر رکھے۔ انسان اپنی ذاتی بہتری تک کئی افراد کی زندگیوں کو برباد کر کے پہنچے تو یہ کوئی بھلائی نہیں جو اُسے حاصل ہوگی۔ اسی طرح اگر انسان کسی ایک اچھائی کے حصول کے لیے اپنی زندگی کو اہانت آمیز مراحل سے گزارے تو یہ بھی کوئی خیر و خوبی نہیں۔ یہ وقتی طور پر تو انسان کو اچھائی محسوس ہوتی ہے مگر انسان کا ضمیر جب بھی بیدار ہوگا تو وہ خود اُسے اچھائی نہیں کہے گا ایسی اچھائیاں اکثر عارضی ہوا کرتی ہیں اسی طرح وہ آرائش و آسائش جو کسی غلط طریقے سے حاصل ہو یا جس کے ذریعہ انسانی سعادت کو فروخت کرنا پڑے وہ آرائش بھی قابل ستائش نہیں ہے۔ سعادت مند لوگ وہی ہوتے ہیں جو اہداف کو بھی مدنظر رکھتے ہیں اور وسائل و ذرائع کوبھی ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ ہدف تک پہنچنے کے لیے محنت لازمی ہے مگر اُس کے جائز و نا جائز ہونے کا بھی خیال ضروری ہے۔

72۔ طمع

اِيَّاكَ اَنْ تُوْجِفَ بِكَ مَطَايَا الطَّمَعِ، فَتُوْرِدَكَ مَنَاهِلَ الْهَلَكَةِ۔ (وصیت 31)
خبردار؛ طمع و حرص کی تیز رفتار سواریاں تمھیں ہلاکت کے گھاٹ پر نہ لا اتاریں۔

انسان کو بلندیوں سے گرانے اور پستی و ذلت میں ڈالنے کے اسباب میں سے ایک لالچ اور طمع ہے۔ امیرالمومنینؑ نے اس خطرے سے آگاہ کرنے اور اس سے بچنے کے لیے بار بار خبردار کیا ہے۔ اس فرمان میں آپؑ نے طمع و حرص کو تیز رفتار سواری سے تشبیہ دی ہے اگر انسان کسی منہ زور سواری پر سوار ہو اور اُس کا کنٹرول اُس کے ہاتھ میں نہ ہو تو وہ یقیناً اُسے کہیں نہ کہیں گرائے گی۔ البتہ عام سواری سے گرنے والے کے بارے میں معلوم نہیں کہ بچے گا یا کسی جسمانی نقصان سے دوچار ہوگا مگر امیرالمومنینؑ نے لالچ کے مرکب کے سوار کے لیے یہ بھی واضح فرمایا کہ یہ ہلاکت ہی کے گھاٹ پر اُتارے گی یعنی گرنا بھی یقینی اور گر کر ہلاکت بھی واضح ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ لالچ کی سواری سے گرنے والے نہ فقط جسمانی ہلاکت سے دوچار ہوتے ہیں بلکہ انسانی مقام سے بھی گر جاتے ہیں۔
لالچ کی سواری قرار دے کر امامؑ نے واضح فرمایا کہ تیز رفتار سواری پر انسان بیٹھا ہو تو یہی سمجھتا ہے کہ میری منزل جلدی طے ہو رہی ہے اور میں فوراً اپنے مقصود کو پا لوں گا۔ مگر وہی تیز رفتاری اُسے منزل کے بجائے ہلاکت کے قریب لے جا رہی ہوتی ہے۔ لالچ انسان کے عقل و شعور اور آنکھ اور کان پر پردہ ڈال دیتی ہے اور وہ بچاؤ کی راہوں کا سوچتا ہی نہیں۔لالچ و حرص یعنی جو ہے اس پر اکتفا نہ کیا جائے اور مزید کی طلب رہے اور اس مزید کے حصول میں کوئی قانون اور اصول بھی مدنظر نہ ہو۔لالچ ایسی آگ ہے جو بھڑک جائے تو کہیں رکتی نہیں۔

73۔ لوگوں سے طلب

مَرَارَةُ الْيَاْسِ خَيْرٌ مِنَ الطَّلَبِ اِلَى النَّاسِ۔ (وصیت 31)
مایوسی کی تلخی سہ لینا لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے۔

انسان کی زندگی میں کبھی تلخی تو کبھی شیریں لمحات آتے ہیں۔ انسان کی کچھ چاہتیں اور خواہشیں ہوتی ہیں۔ یہ خواہشیں کبھی پوری ہوتی ہیں تو کبھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ آپ اپنی زندگی میں محنت و مشقت کرے اور جو چاہتیں میسر آئیں ان سے استفادہ کرے۔ مگر حالات اگر ساتھ نہ دیں اور اس کی تمنا پوری نہ ہو تو اسے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
امیرالمؤمنینؑ نے یہاں فرمایا: کہ محنت و مشقت کے بعد مقصود حاصل نہ ہونے پر جو احساس محرومی و مایوسی ہوتا ہے اس سے کڑوی اور سخت چیز یہ ہے کہ انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی طرف دیکھنے لگے اور ان کے سامنے دست طلب پھیلا دے۔ کامل انسان اپنی ضروریات کے نہ ملنے کی سختی و تلخی سہہ لے گا مگر خود کو گرا کر دوسروں سے نہیں مانگے گا۔ با کمال انسان حقیقت میں مایوس ہی نہیں ہوتا وہ اپنی محنت جاری رکھتا ہے ناکامی کی سختیاں برداشت کرتا ہے مگر تھکتا نہیں ۔ اسے اللہ کا وعدہ یاد رہتا ہے کہ وہ محنت کا پھل دیتا ہے اور خود سے مایوس ہونے سے منع کرتا ہے۔
یہ خودداری کا سبق ہے جو انسانی کرامت کی محافظ ہے۔خودداری یا بقول علامہ اقبال خودی ہی انسان کا کمال ہے۔یہ امیر المؤمنینؑ کا اپنے فرزند کو وصیت کا جملہ ہے اور علامہ اقبال نے اپنے بیٹے جاوید کے نام نظم میں گویا اسی کا ترجمہ کیا ہے۔
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے

74۔ پاک دامنی

اَلْحِرْفَةُ مَعَ العِفَّةِ خَيْرٌ مِنَ الْغِنَى مَعَ الْفُجُوْرِ۔ (وصیت 31)
پاک دامنی کے ساتھ محنت مزدوری کر لینا فسق و فجور میں گری ہوئی دولت مندی سے بہتر ہے۔

انسان کو زندگی میں خود طے کرنا ہوتا ہے کہ اُسے کیا بننا ہے اور اُس کے لیے بہتری کس کام میں ہے۔ کچھ لوگ دولت کی چہل پہل کو زندگی کا مقصد اور ذریعۂ عزت سمجھتے ہیں اور اسی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ وہ دولت کے خواہش مند رہتے ہیں خواہ جس ذریعہ سے حاصل ہو۔ انہیں لوگوں پر حکمرانی چاہیے خواہ جیسے ملے۔ مگر امیرالمومنینؑ یہاں واضح فرماتے ہیں کہ یہ آسائش و آرام اور دولت و حکومت اگر گناہ اور فسق و فجور کے ذریعے حاصل ہو یا کسی کا دل دُکھا کر اگر آپ سکون پاتے ہیں تو یہ سراسر غلط ہے۔ عفت و پاکدامنی کے ساتھ محنت و مشقت سے وقت بسر کر لینا، غلط راہ سے میسر سہولتوں سے بہتر ہے۔ اللہ کی مخالفت یا بندوں کی آہ کے ساتھ جو ملے اُس سے کبھی سکون نہیں ملتا۔
دولت سے محبت کی بیماری انسانیت کی عزت و کرامت کو گُھن کی طرح اندر سے کھا جاتی ہے،اس لیے اگر دولت کا حصول انسانیت کے حصول سے ٹکرائے ،اس دولت سے عفت و پاکدامنی پر حرف آئے تو اس دولت و رزق ٹھکرا کر انسانیت کی پرواز کے جاری رکھنے کو ترجیح دینی چاہیے۔علامہ اقبال کے فرمان کے مطابق۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی

75۔ راز داری

اَلْمَرْءُ‌ اَحْفَظُ لِسِرِّهٖ۔ (وصیت 31)
انسان اپنے رازوں کو خود ہی چھپا سکتا ہے۔

انسان اپنی عزت و سعادت خود ہی بناتا ہے اور سب سے زیادہ خود ہی اس کو نقصان بھی پہنچاتا ہے۔ عزت کی تعمیر میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں اور ایک لحظہ کی چھوٹی سی غلطی اُس عزت کی عمارت کو گرا دیتی ہے۔ عزت کی حفاظت کے لیے ایک ضروری قدم اپنی پوشیدہ باتوں کو پوشیدہ رکھنے میں ہے یعنی راز کو راز رکھا جائے۔ جو شخص اپنا راز خود محفوظ نہیں رکھتا بلکہ دوسروں کو مطلع کرتا ہے اور پھر اُن سے توقع رکھتا ہےکہ وہ اُس کے راز کو پوشیدہ رکھیں گے تو یہ سخت اشتباہ ہے جب آپ اپنا راز محفوظ نہ رکھ سکے تو دوسروں سے اُسے راز میں رکھنے کی توقع کیسے کر سکتے ہیں۔
اس فرمان سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ہر شخص کے لیے اس کے راز مہم ہوتے ہیں۔جس طرح آپ اپنے راز مخفی رکھنے کے ذمہ دار ہیں اسی طرح اگرکسی کا کوئی راز آپ کے سامنے ظاہر ہو جائے تو انسانی شرافت کا تقاضا ہے کہ اسے راز ہی رہنے دیں۔راز داری اور خطاؤں پر پردہ ڈالنا یہ اللہ کی صفات میں سے ہے۔اللہ انسان سے بھی چاہتا ہے کہ تم میں بھی اس اخلاق کی جھلک نظر آنی چاہیے۔

76۔ زیادہ بولنا

مَنْ اَكْثَرَ اَهْجَرَ۔ (وصیت 31)
جو زیادہ بولتا ہے وہ بے معنی باتیں کرنے لگتا ہے۔

انسان سے جتنی غلطیاں اور اشتباہات ہوتے ہیں اتنا ہی وہ مقام انسانی سے گرتا چلا جاتا ہے اور جتنی زیادہ غلطیاں اور گناہ زبان سے ہوتے ہیں اتنے کسی دوسرے عضو سے نہیں ہوتے۔ امیرالمومنینؑ یہاں اس مشکل سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک اصول بیان فرماتے ہیں اور اسے آپ ؑنے الگ الگ الفاظ میں متعدد بار ارشاد فرمایا ہے جو خود اس موضوع کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں زیادہ باتیں کرنے سے پرہیز کرو اس لیے کہ بات وہ مفید ہوتی ہے جو سوچ بچار کے بعد ہو اور جب انسان زیادہ بولتا ہے تو اسے غور و خوض کا موقع نہیں ملتا اس لیے بہت سی باتیں سوچے سمجھے بغیر کہہ دیتا ہے اور یوں ایسی باتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے جو عقل مند سے بعید ہوتی ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ زیادہ نہ بولا جائے تاکہ زیادہ غلطیاں نہ ہوں۔
بعض افراد بہت سی باتیں کرتے ہیں تاکہ دوسروں پر ان کا رعب قائم ہو اور اس سے وہ اپنا علم بھی ظاہر کرنا چاہتے ہیں جبکہ انسان کا معیار بہت سی باتیں کرنے سے نہیں بڑھتا بلکہ مفید اور سلیقہ کے مطابق بات سے عزت بڑھتی ہے۔علامہ اقبال جواب شکوہ میں لکھتے ہیں۔
ناز ہے طاقتِ گفتار پر نادانوں کو

77۔ میل جول

قَارِنْ اَهْلَ الْخَيْرِ تَـكُنْ مِنْهُمْ وَ بَايِنْ اَهْلَ الشَّرِّ تَبِنْ عَنْهُمْ۔ (وصیت 31)
نیکوں سے میل جول رکھو گے تو تم بھی نیک ہو جاؤ گے، بُروں سے بچے رہو گے تو اُن کے اثرات سے محفوظ رہو گے۔

انسان پر معاشرے کے اثرات ایک مسلم حقیقت ہے۔ اگر معاشرے میں موجود اچھے افراد سے اٹھنا بیٹھنا ہوگا تو اُس کے مثبت و مفید اثرات ہوں گے۔ اور اگر معاشرے میں موجود مفسد و شریر لوگوں سے تعلقات ہوں گےتو اُس کا منفی و مضر اثر پڑے گا۔ تجربات بتاتے ہیں کہ مضبوط سے مضبوط آدمی میں بھی یہ اثرات سرایت کر جاتے ہیں۔ مولانا رومی کہتے ہیں:
صحبت صالح ترا صالح کند
نیک انسان کی صحبت نیک بناتی ہے اور بدکار کی صحبت بدکار بناتی ہے
امیرالمومنینؑ نے یہاں اسی چیز کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ انسان معاشرتی مخلوق ہے الگ نہیں رہ سکتا اس لیے اُسے دیکھنا ہے وہ کیسے افراد کے ساتھ ملنا جلنا رکھے۔ اور اس کی جیسے افراد سے نشست و برخاست ہوگی ویسے ہی اُس کی پہچان بھی ہوگی۔ اس لیے مشہور فرمان ہے کہ انسان اپنے دوست سے پہچانا جاتا ہے۔ البتہ اہل خیر و اہل شر کی پہچان بھی لازمی ہے اور اس پہچان کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جو دوسروں کے لیے خیر و اچھائی کا سوچے وہ اہل خیر ہے اور جو دوسروں کے لئے بھلائی کی سوچ نہیں رکھتا وہ بھلا نہیں ہو سکتا۔ آپ کسی کے ساتھ بیٹھیں اور وہ آپ کے سامنے کسی تیسرے آدمی کی کمزوریاں بیان کرتا ہے تو سمجھ لیں کہ جب آپ سامنے نہیں ہوں گے تو یہی کچھ آپ کے بارے میں بھی سوچ ہو سکتی ہے۔ گویا یہ اچھی سوچ کا آدمی نہیں اور اگر آپ کی موجودگی میں تیسرے شخص کی اچھائیاں بیان کی جارہی ہیں تو یہی رویہ آپ کے بارے بھی اپنایا جاتا ہوگا۔

78۔ سخت گیری

اِذَا کَانَ الرِّفْقُ خُرْقاً، کَانَ الْخُرْقُ رِفْقاً۔ (وصیت 31)
جہاں نرمی سے کام لینا نا مناسب ہو وہاں سخت گیری ہی نرمی ہے۔

نرمی و سختی دو متضاد رویے ہیں، البتہ انسانی رویوں میں ہمیشہ اعتدال کو اہمیت دی گئی ہے۔ نہ اتنے نرم بنو کہ آپ کو نگل لیا جائے اور نہ اتنے سخت بنو کہ آپ کو چھوا نہ جا سکے۔ البتہ کمال تک وہی پہنچ سکتا ہے جو صحیح مقاصد کے لیے حالات کے مطابق فیصلہ کر سکے۔ جب ہدف معین ہوجاتا ہے تو دیکھنا ہوتا ہے کہ یہاں نرمی سے کام آگے بڑھ سکتا ہے تو وہ نرمی روا رکھی جائے اور جہاں نرمی کو کمزوری یا سادگی سمجھا جاتا ہے وہاں ممکن ہےسختی ضروری ہو۔ بچوں کی تربیت میں، نظم و ضبط کے قیام میں، حکومتی قوانین کے اجرامیں اس اصول کو مدنظر رکھنا ضروری ہے تب ہی معاشرے میں امن و سکون ہو گا۔جیسے جسم کے علاج کے لیے کبھی کچھ اعضاء کو کاٹنا پڑتا ہے یا باندھنا پڑتا ہے تب ان کو صحت ملتی ہے اور اگر انہیں کھلا چھوڑ دیا جائے تو مرض بڑھے گا۔ معاشرے کے افراد بھی اسی طرح ہوتےہیں کہ کبھی سختی سے اصلاح ہوتی ہے اور کبھی نرمی سے۔ یعنی انسان کو موقع کی پہچان ہونی چاہیے۔خاص کر مربی اور سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ نظام کو بچانے کے لیے سختی سے کام لینے کی ضرورت ہو تو سختی کرے۔کسی سے زیادتی ہو رہی ہو تو اسے روکنے کے لیے یا کسی مجرم کے جرائم سے معاشرے کو محٖوظ رکھنے کے لیے سزا دینی پڑے تو اسے سزا دینی چاہے ورنہ ایک فرد پر سختی نہ کرنے سے بہت سو کی زندگیوں میں تلخیاں پیدا ہوں گی۔اس لیے نظامِ عدل کے مطابق سزا دینا بھی انسانیت کی بہتری کا ایک ذریعہ ہے۔

79۔ امیدیں

اِيَّاكَ وَالْاِتِّكَالَ عَلَى الْمُنَى فَاِنَّهَا بَضَآئِعُ النَّوْكَى۔ (وصیت 31)
خبردار امیدوں کے سہارے پر نہ بیٹھے رہنا کیونکہ امیدیں احمقوں کا سرمایہ ہوتی ہیں۔

انسان بعض اوقات ذہن میں ایک تصور پیدا کرتا ہے اور اس کے مطابق بڑے بڑے خیالاتی محلات تعمیر کرتا ہے۔ یوں نا قابل عمل امیدوں کا ایک وسیع جال بُن لیتا ہے جس کی تکمیل اس کے بس میں نہیں ہوتی یا اس کی تکمیل کے لیے جو محنت و مشقت درکار ہوتی ہے وہ انجام نہیں دیتا اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ جو کام کر سکتا تھا اس سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ شیخ چلی کا کردار ایسے مواقع پر مشہور ہے۔
امیرالمؤمنینؑ نے ان لمبی اور خیالی امیدوں سے سختی سے منع کیا ہے اور اسے احمقوں کے سرمایہ سے تعبیر فرمایا ہے۔ حکماء کہتے ہیں کہ یہ خیالی پلاؤ انسان کی کامیابی کی راہ کااژدہا ہے۔ بڑے بڑے منصوبوں کے لیے بڑی محنت و زحمت گوارا کرنی پڑتی ہے اور جو لوگ محنت نہیں کرتےوہ ترقی کی منزلوں کو بھی طے نہیں کرسکتے۔اسی طرح بعض لوگ بڑے منصوبے بنا کر دوسرے لوگوں سے محنت کی امیدیں رکھ بیٹھتے ہیں کہ فلاں میرے لیے یہ کام انجام دے گا۔اس فرمان کے مطابق دوسروں سے امیدیں کام نہیں آئیں گی اپنی محنت سے کامیابیاں ملیں گی۔علامہ اقبال اپنے فارسی کلام میں فرماتے ہیں؛
در جہاں بال و پر خویش گشودن آموز
دنیا میں اپنے پر و بال کھولنا سیکھیں کیونکہ دوسروں کے پر و بال سے پرواز نہیں کی جا سکتی۔

80۔ تجربہ

اَلْعَقْلُ حِفْظُ التَّجَارِبِ، و خَيْرُ مَا جَرَّبْتَ مَا وَعَظَكَ۔ (وصیت 31)
تجربوں کو محفوظ رکھنا عقلمندی ہے، بہترین تجربہ وہ ہے جو پند و نصیحت دے۔

انسان کی زندگی اتنی مختصر اور محدود ہے کہ وہ ہر چیز خود انجام نہیں دے سکتا اور ہر شے کو خود سیکھ بھی نہیں سکتا۔ ڈاکٹر معمار سے فائدہ اٹھاتا ہے اور کاشتکار سائنسدان کے نتائجِ دانش سے اپنی زراعت بڑھاتا ہے۔ امیر المؤمنینؑ یہاں فرماتے ہیں کہ عقل مند شخص وہ ہے کہ جو تجربوں سے سیکھتا ہے اور فائدہ مند تجربہ وہی ہوتا ہے جو تمھیں کچھ سکھا دے۔ انسان کو زندگی میں کبھی خود کچھ تجربات سے گزرنا پڑتا ہے اور ایسے تجربات کو محفوظ کر لینا اس کی عقلمندی ہے اور اکثر دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرتا ہے۔ اس لیے کامیاب لوگ اور سیکھنے کا شوق رکھنے والے افراد تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں اور کامیاب لوگوں کے حالات زندگی پڑھتے ہیں اور ان تجربوں کو اپنی زندگی کی راہوں کے لیے چراغ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ایک اور مقام پر امامؑ فرماتے ہیں: یقیناً وہ شخص بد بخت ہے جو عقل و تجربہ کے ہوتے ہوئے اس کے فوائد سے محروم رہے۔
اپنی غلطیوں سے سیکھنا عقلمندی ہے۔جو شخص اپنی یا دوسروں کی غلطیوں سے نہیں سیکھتا وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔جب ایک سوراخ سے آپ ڈسے گئے تو اس تجربے سے سیکھنا چاہیے اور اس سوراخ میں دوبارہ ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے۔
اگر جوانی میں انسان کو تجربات کی اہمیت کا احسا س ہو جائے تو وہ دوسروں کی زندگیوں کا مطالعہ کر کے اپنی زندگی کا قیمتی وقت بچا سکتا ہے اور بہت جلد منزل کو پا سکتا ہے۔اس لیے ذہین لوگ دوسروں کے حالات زندگی پر مبنی کتابوں کا شوق سے مطالعہ کرتے ہیں اور ان کی کامیابیوں کے رازوں کو تلاش کر کے اپنی زندگی میں انہیں استعمال کر کے اپنی زندگی سنوار سکتے ہیں۔

81۔ فرصت

بَادِرِ الْفُرْصَةَ قَبْلَ اَنْ تَكُوْنَ غُصَّةً۔ (وصیت 31)
موقع کو غنیمت جانو قبل اس کے کہ وہ رنج و اندوہ کا سبب بن جائے۔

انسان بعض اوقات طویل مدت تک کسی چیز کو چاہتا ہے مگر اس کے حصول کے مقدمات میسر نہیں آتے۔مگر کبھی اچانک اس مقصد کی ابتدائی سہولیات میسر آتی ہیں تو وہ لمحات فرصت یا موقع کہلاتے ہیں۔ اس مخصوص وقت میں مقصود کی طرف قدم بڑھانا یہ موقع سے فائدہ اٹھانا ہے اور ایسے ہی مواقع زندگی کی کامیابی کا سبب بنتے ہیں ۔ امیر المؤمنینؑ کے کلام میں مختلف الفاظ میں فرصت کی اہمیت بیان ہوئی ہے۔آپؑ یہاں خبردار فرما رہے ہیں کہ موقع میسر آئے تو لمبی سوچ بچار میں وقت ضائع کرنا یا عملی قدم اٹھانے میں سستی کرنا موقع کا ضیاع ہوگا۔ ممکن ہے پھر ساری زندگی ایسی فرصت اور موقع میسر نہ ہو تو پھر کاش اور افسوس کے الفاظ دہرانے سے پریشانی تو بڑھے گی مگر موقع پلٹ کر نہیں آئے گا۔ اس لیے جب سعادت کی ایسی گھڑیاں نصیب ہوں تو ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اچھائی کا ایسا دروازہ جب کھلا ملے تو اس سے کچھ حاصل کر لیا جائے ۔وقت گزر گیا تو پھر دروازہ پیٹنا کوئی فائدہ نہیں دے گا فقط موقع ضائع ہو جانے کا غم بے سکون کرتا رہے گا۔
فرصت کے مواقع میں سے ایک مہم موقعہ جوانی کا زمانہ ہے۔جو لوگ جوانی کے زمانے کو صحیح طور پر استعمال کرتے ہیں وہ یقینا کامیاب ہوتے ہیں۔واصف علی واصف لکھتے ہیں:جس نے جوانی میں اپنے مستقبل کا خیال رکھا اسے بڑھاپے میں حسرتوں کا شمار کم ہی کرنا پڑتا ہے۔

82۔ کوشش

لَيْسَ كُلُّ طَالِبٍ يُصِيْبُ۔ (وصیت 31)
ہر طلب و سعی کرنے والا مقصد کو نہیں پاتا۔

انسان کو حکم ہے کہ وہ کوشش و سعی کرے اور ہمیشہ کامیابی اس کی محنت کے مطابق ہوتی ہے مگر یہ بھی ذہن میں رہے کہ نتیجہ اس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ کئی افراد زندگی میں سخت محنت کرتے ہیں مگر اس محنت کا وہ نتیجہ جو انہیں مطلوب ہو نہیں ملتا۔ انسان کا کام محنت کرنا ہے اور نتیجہ مرضی کے مطابق نہ ملے تو اسے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور آئندہ کے لیے محنت کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔ یہ فرمان گویا دو چیزوں کی تاکید کر رہا ہے، ایک یہ کہ انسان کا کام محنت کرنا ہے اگر ایک دو بار کوئی مقصود حاصل نہ ہو تو اسے مایوس ہو کر محنت ترک نہیں کرنا چاہیےاور دوسرا یہ کہ نتائج آپ کے ہاتھ میں نہیں ہیں آپ کو اپنا کام کرنا ہے اور اس امید سے آگے بڑھتے رہنا ہے کہ کسی وقت نتیجہ مل ہی جائے گا۔
بہت سے افراد ناکامی کے خوف سے کوئی قدم نہیں اٹھاتے یا یہ کہہ کر قدم روک لیتے ہیں کہ یہ کام ہمارے لیے بہت مشکل ہے۔انسان کا کام ہے محنت کرے، مثبت نتیجے پر یقین رکھے ،اس کام میں شکست کی صورت میں متبادل سوچ بھی ذہن میں رکھے ۔کئی کام ایسے ہوتے ہیں کہ ممکن ہے ایک نسل اس کا نتیجہ حاصل نہ کر سکے مگر اِس نسل کی محنت اور بنیاد کا پھل آئندہ نسلوں کو نصیب ہو گا۔تاریخ میں کئی کامیاب لوگ ملیں گے جو درجنوں دفعہ ناکام ہوئے مگر اپنی ناکامی کو مایوسی میں نہیں بدلا بلکہ محنت جاری رکھی اور کامیاب ہوئے۔

83۔ بدگمان دوست

لَا خَيْرَ فِيْ مُعِيْنٍ مَّهِيْنٍ وَ لَا فِيْ صَدِيْقٍ ظَنِيْنٍ۔ (وصیت 31)
پست فطرت مددگار اور بدگمان دوست میں کوئی بھلائی نہیں۔

انسان کی زندگی میں دوستی اور تعلقات کی بہت اہمیت ہے۔ امیر المؤمنینؑ نے نہج البلاغہ میں متعدد بار مختلف الفاظ میں اس موضوع کو بیان فرمایا۔ اس فرمان میں گھٹیا اور پست فطرت مددگار اور بدگمان دوست سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ پست اور بدگمان افراد میں ایک قدرِ مشترک یہ ہوتی ہے کہ اُن سے جتنی اچھائی کریں گے وہ اس میں برائی کا پہلو تلاش کریں گے۔کبھی شکر گزار نہیں ہوں گے بلکہ ہر وقت شکوہ کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ اگر آپ سےکوئی اچھائی کریں گے تو بار بار احسان جتلائیں گے ۔اس لیے کسی کو اپنا مددگار اور دوست بنانے سے پہلے اس کی فطرت سے واقفیت حاصل کر لینی چاہیے تب دوستی کی جائے ۔ کسی نے بد فطرت ساتھی کے لیے کیا اچھی مثال دی کہ کیکر کے درخت کو ساری زندگی باغ کے ساتھ سیراب کیا جائے تو بھی کسی اس پر آم نہیں لگیں گے۔ پست فطرت شخص کے ساتھ رہنے کی وجہ سے لوگ اسے بھی گھٹیا تصور کریں گے اور یہی صورت بدگمان دوست کی بھی ہوتی ہے، وہ دوسرے دوست کے سکون کے بجائے اسے پریشان ہی کرتا رہے گا۔نیک فطرت انسان سے اچھائی کی جائے گی تو وہ خود بھی ساری زندگی اسے یاد رکھے گا بلکہ اپنی نسلوں کو بھی بتا جاتا ہے کہ فلان میرا محسن ہے اور پست فطرت خود بھی بھول جائے گا کہ کسی نے اس سے اچھائی کی تھی۔

84۔ ضد

وَ اِیَّاكَ اَنْ تَجْمَحَ بِكَ مَطِيَّةُ اللَّجَاجِ۔ (وصیت 31)
خبردار! مبادا دشمنی و عناد کی سواریاں تم سے منہ زوری کرنے لگیں۔

انسان کبھی جہالت و غلط فہمی کی وجہ سے غلط راہ پر چل پڑتا ہے یا خلاف حقیقت بات کو قبول کر لیتا ہے اور کبھی اس غلطی سے آگاہ ہوتا ہے مگر کسی دشمنی و عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس غلطی کو اپنائے رکھتا ہے اور ڈٹا رہتا ہے۔ اس میں حقیقت کو قبول کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ امیر المؤمنینؑ نے یہاں اس کردار کو اور تعصب و ضد کے اس عمل کو منہ زور سواریوں سے تشبیہ دی ہے اور خبردار کیا ہے کہ یہ سوچ سرکش سواری بن جائے تو انسان کو انسانیت سے گرا دیتی ہے اور جھگڑے فساد کی اور تعصب و عناد کی یہ سواریاں عقل و فہم کو پاؤں تلے روند دیتی ہیں۔انسان کو چاہیے کہ حقیقت کو تلاش کرے اور جب حقیقت اس کے لیے واضح ہو تو اسے قبول کرے اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرے۔ یوں اس کی عزت و آبرو میں اضافہ ہوگا کمی نہیں ہوگی اور کمال انسانیت کی راہیں اس کے لیے واضح اور آسان ہوں گی۔
باکمال لوگ ضد اور جھگڑے میں الجھ کر اپنی منزل کو نہیں بھولتے بلکہ کوئی ان سے الجھنا بھی چاہے تو وہ راہ بدل کر منزل کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔راستی روکنے والوں کی غلطیوں سے در گزر کرتے ہیں اور اپنے قیمتی وقت کو مقصد تک پہنچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔راستے میں ایک دوسرے سے الجھنے والے افراد کا زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا اس لیے وہ زندگی کو غھٹیا حرکات میں خرچ کرتے ہیں۔
لوگ خود کو بچا کر آگے بڑھ جانے والے مسافر کو بزدل کہیں تو اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے اس لیے کہ ایک دانا کے بقول لوگ کیچڑ سے اپنا لباس بچا کر راستہ بدل لیتے ہیں اور کیچڑ اس غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں۔ راہ کا کیچڑ آپ کو بزدل سمجھے تو سمجھنے دیجئے آپ آگے بڑھیے۔

85۔ بھائی چارہ

اِحْمِلْ نَفْسَكَ مِنْ اَخِيْكَ عِنْدَ صَرْمِهٖ عَلَى الصِّلَةِ۔ (وصیت 31)
خود کو اپنے بھائی کے لیے اس پر آمادہ کرو کہ جب وہ دوستی توڑے تو تم اُسے جوڑو۔

انسانیت کے لیے ضابطہ حیات تلاش کیا جائے تو امیر المؤمنینؑ کی یہ وصیت ایک مکمل دستاویز ہے۔ انسان ان ضوابط کو اپنا کر کامیاب زندگی کی معراج کو پا سکتا ہے۔ آپ نے اس حصے میں دوسروں سے برتاؤ کے طریقے بیان فرمائے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی تفصیل پیش کی جا سکتی ہے مگر اختصار کی بنا پر تفصیل پیش نہیں کی جا رہی۔ چھ اصول آپ نے اس تعلق کے لیے پیش فرمائے۔ سب سے پہلے فرمایا خود کو آمادہ کرو یعنی دوسروں کی برائیوں اور بے توجہیوں کے مقابلے میں اچھائی سے پیش آنا مشکل ہے مگر آپ اس مشکل پر عمل کریں تبھی آپ کامیاب قرار پائیں گے۔ (الف) وہ دوستی و تعلق توڑے تو آپ جوڑیں، (ب) وہ منہ پھیرے تو آپ آگے بڑھیں اور لطف و مہربانی سے پیش آئیں، (ج) وہ آپ کے لیے کنجوسی کرے تو آپ اس پر خرچ کریں، (د) وہ دوری اختیار کرے آپ نزدیکی کی کوشش کریں، (ھ) وہ سختی کرے آپ نرمی کریں، (و) وہ خطا کا مرتکب ہو تو آپ اس کی خطا کے لیے عذر تلاش کریں یہاں تک کہ گویا آپ اس کے غلام اور وہ آقا ہے۔ البتہ امامؑ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ یہ برتاؤ بے محل نہ ہو اور نا اہل سے نہ ہو۔
ان اصولوں سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کسی سے ناراض ہو کر اور زبردستی کر کے اپنا نہیں بنا سکتے مگر محبت بھرے رویوں اوردوستانہ طرزِ عمل سے انہیں اپنا غلام بنا سکتے ہیں۔مال خرچ کر کے آپ کسی کو خرید لیں تو وہ جسم کی خرید ہوگی مگر اخلاق سے آپ دل خرید سکتے ہیں۔خاص کر یہ تعلق قریبی رشتوں سے ضرور نبھانا چاہیے۔
زندگی میں یہ ہنر بھی آزمانا چاہیے

86۔ دوست کا دشمن

لَا تَتَّخِذَنَّ عَدُوَّ صَدِيْقِكَ صَدِيْقاً فَتُعَادِيَ صَدِيْقَكَ۔ (وصیت 31)
اپنے دوست کے دشمن کو دوست نہ بناؤ ورنہ اس دوست کے دشمن قرار پاؤ گے۔

دوستی ایک ایسا موضوع ہے جس پر امیر المؤمنینؑ کے متعدد فرامین موجود ہیں اور ان اصولوں کو اگر الگ جمع کیا جائے تو مکمل کتاب بنتی ہے۔ ’’ نہج البلاغہ میں دوستی‘‘ کے عنوان سے بعض کتابیں موجود ہیں۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو اس وصیت میں امیر المؤمنینؑ نے بار بار دوستی کے متعلق ارشادات فرمائے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ دوست کے دشمن کو دوست نہ بناؤ۔اکثر لوگ اپنی زندگی میں یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ ہر شخص سے دوستی کے خواہاں ہوتے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ انسان دو ضدوں کو ایک جگہ جمع کر لے اور ہر کسی کو خوش رکھے۔ اگر کوئی ایسا سوچتا ہے یا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ منافقت ہوگی۔ اگر آپ کا کوئی واقعی دوست ہے تو اس دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے دشمن کو دوست نہ بنائیں ورنہ پہلے شخص سے آپ کی دوستی مشکوک ہو جائے گی۔ ہاں یہ خیال رہے کہ دوست کی دوسرے شخص سے دشمنی کسی اصول اور قانون کے تحت ہو اگر دوست کی غلطی کی وجہ سے دشمنی ہے تو دوست کو متوجہ کیا جائے اور اس دشمنی کو ختم کیا جائے۔ یہ دوستی کے تقاضوں میں سے اور محبت کے ثبوت میں سے ایک اچھا عمل ہوگا۔
قرآن مجید نے اللہ کے دشمنوں سے دوستی سے منع کیا ہے اور امیر المؤمنینؑ نے اسی مفہوم کو اپنے الفاظ میں بیا فرمایا ہے۔اس فرمان سے یہ مفہوم بھی اخذ ہوتا ہے کہ ایسے شخص سے دوستی رکھو جو انسانیت کا احترام کرنے والا ہو اور ہر کسی سے دشمنی رکھنے والا نہ ہو۔اس لیے دوست کے انتخاب میں دقت لازمی ہے۔دوست وہ بنائیں جو اپنے چھوٹے چھوٹے فوائد کی خاطر دوسروں کے بڑے بڑے خسارے کو پسند نہ کرتا ہو بلکہ دوست اسے بنائیں جو خود بڑے بڑے گھاٹے کھا کر دوسروں کے چھوٹے چھوٹے فوائد کی تمنا رکھتا ہو۔

87۔ مخلص دوست

وَ امْحَضْ اَخَاكَ النَّصِيْحَةَ حَسَنَةً كَانَتْ اَوْ قَبِيحَةً۔ (وصیت 31)
دوست کو کھری کھری نصیحت کی باتیں سناؤ خواہ اسے اچھی لگیں یا بری۔

انسان کے قیمتی اثاثوں میں سے ایک اثاثہ مخلص دوست ہے۔ مخلص دوست کی نشانیوں میں سے اکثر یہ گنا جاتا ہے کہ وہ دوست کو کسی حال میں ناراض نہ کرے۔ ہمیشہ اس کی پسند و ناپسند کو ملحوظ خاطر رکھے۔ مگر امیر المؤمنینؑ نے یہاں ایک بہترین معیار بیان فرمایا کہ دوست کے خیر خواہ بنو اور اگر کہیں اس سے ایسا عمل سرزد ہو رہا ہے جو اس کے دین یا دنیا کے لیے نقصان دہ ہے تو اسے متوجہ کریں خواہ یہ تذکّر و نصیحت اسے اچھی لگے یا بری۔ اس لیے کہ حقیقی دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ دوست سے خیانت نہ کی جائے اور اگر دوست کوئی ایسا کام کر رہا ہے جو حقیقت کے خلاف ہے اور اس کے نقصان کا سبب ہے تو یہاں خاموش رہنا یا بعض اوقات اسے خوش رکھنے کے لیے اس کی ہاں میں ہاں ملانا خیانت و منافقت ہے۔ مثلاً ایک دوست اپنی علمی کمزوری کے با وجود خود کو بڑا صاحب علم سمجھتا ہے اور اپنے علم پر فخر کرتا ہے یا مثلاً جھوٹ بولتا ہے یا حسد کی مرض میں گرفتار رہتا ہے تو اسے اشارے کنائے سے آگاہ کریں اور اگر اس انداز سے وہ متوجہ نہ ہو اور نہ سمجھے تو تنہائی میں واضح الفاظ میں روکیں تاکہ وہ اس کمزوری کو خود سے دور کرے۔
اس فرمان سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اگر کوئی مخلص دوست آپ کی کسی کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے تو اس سے ناراض ہونے کے بجائے شکر گزار ہوں کہ اس نے آپ کو ایک کمزوری سے مطلع کیا اور آپ اب خود کو اس کمزوری سے بچا سکتے ہیں۔

88۔ غصہ

وَ تَجَرَّعِ الْغَيْظَ فَاِنِّيْ لَمْ اَرَ جُرْعَةً اَحْلَى مِنْهَا عَاقِبَةً وَ لَا اَلَذَّ مَغَبَّةً۔ (وصیت 31)
غصہ کے کڑوے گھونٹ پی جاؤ کیونکہ میں نے نتیجہ کے لحاظ سے اس سے زیادہ خوش مزہ و شیریں گھونٹ نہیں پائے۔

انسان کی زندگی میں کئی ایسے مواقع آتے ہیں جب حالات اس کی طبیعت کے خلاف ہوتے ہیں یا دوسرے لوگوں کا برتاؤ ایسا ہوتا ہے جو اس کے مزاج کے موافق نہیں ہوتا ہے۔ کوئی نا زیبا بات کرتا ہے یا کوئی گھٹیا حرکت انجام دیتا ہے تو انسان کے اعصاب میں تناؤ پیدا ہوتا ہے اور اسے غصہ آ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں امیرالمومنینؑ نے غصےکو ایک بیماری قرار دیتے ہوئے اسے پی جانے اور کنٹرول کرنے کو کڑوی دوا قرار دیاہے۔ آپؑ فرماتے ہیں اب یہ غصہ کڑوی دوا کی طرح پی جاؤ تو غضب کے مرض سے شفا پاؤ گے اور یہ مرض ختم ہو جائے گا ۔اس مرض سے نجات کے بعد آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ گھونٹ کڑوے نہیں بلکہ بہت ہی خوش مزہ تھے۔انسان اگر غضب سے شکست کھا جاتا ہے اور اس بات یا عمل کے خلاف بات کرتا ہے تو یہ معاملہ آگے بڑھ جاتا ہے اور ایک بات جو برداشت نہیں کر سکا تھا اس جیسی کئی باتیں سننا اورسہنا پڑتی ہیں۔
امامؑ نے جہاں غیظ و غضب کو مرض سے تعبیر کیا ہے وہاں متعدد مقامات پر اس کے علاج سے بھی آگاہ فرمایا ہے۔مہم یہ ہے کہ انسان اسے مرض اور کمزوری سمجھے۔اس کے غصہ کے سامنے دوسرے کے خاموش ہو جانے کو اپنے لیے عزت و فخر یا فتح قرار نہ دے۔ اسی طرح سامنے والے کو بھی چاہیے کہ وہ غصہ میں مبتلا شخص سے ایک مریض سمجھ کر برتاؤ کرے اور ویسے ہی یا اس سے بھی سخت الفاظ میں اسے جواب دینے اور خاموش کرنے کے بجائے خود خاموش ہو جائے۔

89۔ نرمی

لِنْ لِمَنْ غَالَظَكَ فَاِنَّهُ يُوشِكُ اَنْ يَلِيْنَ لَكَ۔ (وصیت 31)
جو شخص تم سے سختی سے پیش آئے اس سے نرمی کا برتاؤ کرو کیونکہ اس رویّے سے وہ خود ہی نرم پڑ جائے گا۔

یہ انسانیت کی زینت کا ایک دستور العمل ہے۔ نرمی کے برتاؤ کی تاکید وہ فرما رہا ہے جو شجاعت میں اللہ کا شیر کہلاتا ہے۔ جسے اپنی زندگی میں کئی تلخیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں نرمی سے پیش آنے والے کے لیے نرمی کا حکم نہیں بلکہ سختی کا برتاؤ کرنے والے سے نرمی کا برتاؤ کرنے کا فرمان ہے۔ امامؑ اس کا نتیجہ واضح فرمارہے ہیں کہ زیادہ احتمال یہی ہے کہ آپ سے کوئی سختی کرے اور آپ اس سے نرمی کا برتاؤ کریں تو اس کا ضمیر زندہ ہوا تو وہ اپنی سختی پر نادم و شرمندہ ہوگا اور اگر آپ کی نرمی کے باوجود وہ نرمی سے پیش نہیں آتا تو آپ کی شرافت و سعادت سب کے سامنے آ جائے گی اور لوگوں کی نگاہیں اسی سختی کرنے والے کو برا جانیں گی۔ جواب میں آپ بھی سختی سے پیش آئیں گے تو معاملہ بڑھتے بڑھتے خطرناک حد تک پہنچ سکتا ہے اور یوں حالات کے بگاڑ میں آپ بھی شامل ہو جائیں گے اور اگر آپ نرمی کواپنائیں گے تو نہ فقط یہ کہ معاملات بگڑنے سے بچ جائیں گے بلکہ ممکن ہے یہی آپس میں دوستی و محبت کی بنیاد بن جائے۔یعنی محبت کے پانی سے نفرت کی آگ کے شعلوں کو خاموش کیا جا سکتا ہے۔البتہ اس نرمی کا تعلق انسان کی ذاتی زندگی سے ہے۔جہاں اصولوں اور قوم و عقیدے کی بات ہوتی ہے وہاں اگر نرمی دکھانے سے کام چلتا ہے تو کوشش کرنی چاہیے جیسے اللہ سبحانہ نے حضرتِ موسی ؑ کو کہا کہ فرعون کو نرمی سے سمجھاؤ اور جب وہ نہ سجھا تو خود اللہ نے اسے دریا میں غرق کر دیا۔یعنی نرمی سے اگر مد مقابل کی گستاخی بڑھتی ہے تو وہاں نرمی نہیں سختی ہی اس مرض کا علاج ہو گا۔

90۔ دشمن سے برتاؤ

خُذْ عَلٰی عَدُوِّكَ بِالْفَضْلِ فَاِنَّهٗ اَحْلَى الظَّفَرَيْنِ۔ (وصیت 31)
دشمن سے فضل و کرم سے پیش آؤ کیونکہ دو قسم کی کامیابیوں میں سے یہ زیادہ میٹھی کامیابی ہے۔

دشمن سے لطف و کرم کے ساتھ پیش آؤ یہ کوئی معمولی دستورالعمل نہیں۔ یہ ایک کامیاب انسان کا طرز زندگی ہے۔ وہ شخصیت جو اپنے قاتل کے لیے بھی اپنے بچوں کو وصیت کر رہی تھی کہ اُس نے مجھے ایک وار سے زخمی کیا ہے لہذا میرے مرنے کے بعد اس پر بھی ایک ہی وار کرنا اور دیگر مہربانی کی تاکیدیں اس کے سوا تھیں۔ امیرالمومنینؑ کی یہ وصیت جو امامؑ نے اپنے بیٹے کے لیے تحریر فرمائی کے بارے مشہور عیسائی مصنف جورج جورداق نے لکھتے ہیں کہ علیؑ نے اپنے بیٹے کو وصیت کی ” آپ اور آپ کا انسانی بھائی” یہ انسان کو انسان کا بھائی سمجھنے والی شخصیت کی وصیت ہے۔ اگر انسانوں میں انسانیت کایہ رشتہ بیدار ہو جائے تو دُنیا کے بہت سے مسائل حل ہو جا ئیں ۔
یہاں آپؑ دشمن سے لطف و کرم کی بات کر رہے ہیں۔ اور فرماتے ہیں کہ دشمن سے لطف و کرم سے پیش آنا دو کامیابیوں میں سے میٹھی اور خوش مزہ کامیابی ہے۔اس لیے کہ اگر دشمن پر غلبہ و انتقام کے ذریعہ کامیاب ہوئے تو ممکن ہے کل اُسے دوبارہ قوّت و طاقت حاصل ہو اور وہ آپ سے جنگ پر آمادہ ہو سکتا ہے اور آپ کو شکست بھی دے سکتا ہے تو یہ وقتی کامیابی حساب ہو گی۔ مگر آپ نے اگر عفو و احسان کے ذریعے دشمنی کو مٹا دیا تو مخالفت ختم ہو سکتی ہے اور یہ دشمنی و انتقام دوستی و احسان میں بدل سکتی ہے اور یہ بڑی اور دیرپا کامیابی ہو گی۔

91۔ تعلقات کی حد

اِنْ اَرَدْتَ قَطِيْعَةَ اَخِيْكَ فَاسْتَبْقِ لَهٗ مِنْ نَفْسِكَ بَقِيَّةً يَرْجِعُ اِلَيْهَا اِنْ بَدَا لَهٗ ذَلِكَ يَوْماً مَّا۔ (وصیت 31)
کسی دوست سے تعلقات قطع کرنا چاہو تو اپنے دل میں اتنی جگہ رہنے دو کہ اگر اُس کا رویّہ بدلے تو اس کے لئے گنجائش ہو۔

یہ انسانی تعلقات اور معاشرتی روابط کے لیے ایک نہایت ہی قیمتی اصول ہے۔ معاشرتی موضوعات پر لکھی جانے والی کتابوں میں آپ کو یہ طریقے تو عام ملیں گے کہ آپ تعلقات بڑھا کیسے سکتے ہیں تعلقات ٹوٹنے سے بچا کیسے سکتے ہیں اور معاشرے میں اپنے مقام کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں مگر امیرالمومنینؑ کا یہ فرمان خاص اہمیت کا حامل ہے کہ جب حالات مجبور کریں اور تعلقات توڑنے کی نوبت آ جائے تو اُس وقت سب راہوں کو مکمل بندنہ کریں۔ تعلقات توڑتے وقت بھی تعلقات جوڑنے کی سوچ ذہن میں رہے اور اتنی گنجائش باقی رہے کہ کل اگر زمانہ اور تجربات حالات بدل دیں تو واپسی کا راستہ باقی ہو۔ ایک دوسرے کا آمنا سامنا کرنا پڑے اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا پڑے تو شرمساری نہ ہو۔ اگر یہ سوچ انسان کے ذہن میں رہے تو پہلے تو یہ روابط کٹنے سے ہی محفوظ رہیں گےاور اگر روابط کٹ بھی گئے تو زیادہ امکان یہی رہے گا کہ ایک دن وہ تعلقات دوبارہ جڑ جائیں۔
اس فرمان سے یہ مفہوم بھی اخذ ہوتا ہے کہ رشتے ناتے کی اور دوستی و بھائی چارے کی اہمیت کو سمجھیں۔ان رشتوں کو اپنے لیے آئینہ سمجھیں ۔اگر کسی وجہ سے آئینہ میں کوئی کمی دیک کر اس سے خفا ہو گئے تو اسے توڑیں نہیں اس لیے کہ ٹوٹا ہوا آئینہ جڑ بھی گیا تو داغ اور نشان باقی رہیں گے۔خفگی ہو جائے تو وقتی طور پر منہ موڑ لیں اس لیے کہ کبھی پلٹ کر اسے دیکھنا پڑے تو اس میں آپ کا چہرہ صاف نظر آئے گا ۔خراش زدہ نہیں دکھائی دے گا۔

92۔ دل کی زندگی

اَحْيِ قَلْبَكَ بِالْمَوْعِظَةِ۔ (وصیت 31)
وعظ و نصیحت سے دل کو زندہ رکھیں ۔

امیر المومنین نے اپنے فرزند کو طرزِ زندگی سکھانے کے لئے وصیت تحریر فرمائی۔ اس تحریر سے واضح ہوتا ہے کہ باپ کی ذمہ داری ہے کہ اولاد کو زندگی کا سلیقہ سکھائے اور اولاد کا فرض ہے کہ وہ باپ کے تجربات سے فائدہ اٹھائے۔ باپ جس طرح جسمانی نشوونما کے اسباب مہیا کرتا ہے اسی طرح اسی طرح روحانی تربیت بھی اس کا فریضہ ہے۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں اس تربیت کے لئے جو اصول بیان فرمائے ان میں سے ایک یہ ہے کہ وعظ و نصیحت سے دل و روح اور فکر و عقل کو زندہ رکھیں۔ دل سے مراد جسم کے اعضاء تک خون پہنچانے والا عضو نہیں یہ عضو تو حیوانوں میں بھی پایا جاتا ہے بلکہ مراد وہ عقل و روح ہے جو انسان کو حیوان سے بلند بناتی ہے اور جسم کو نہیں انسانیت کو پروان چڑھاتی ہے۔ وعظ و نصیحت سے مراد بھی وہ گفتگو نہیں جو انسان کو دنیا سے دور کر دے بلکہ وہ تذکرے اور یاددہانیاں مراد ہیں جو زندگی کے میدان میں کھڑا کر کے انسان کو انسانیت کی معراج تک پہنچا دیں۔ امیرالمومنینؑ ایسے ہی واعظ ہیں جو میدان میں بھی اورتخت حکمرانی پر بھی ہر قدم خدا کے لیے اٹھاتے ہیں۔ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ آپ ؑ فرماتے ہیں دل و روح کو زندہ رکھنے اور اُ سے غفلت کے پردوں اور گمراہی کے زنگ سے محفوظ رکھنے کے لیے شاہوں کے گدا اور گداؤں کے شاہ بننے کے قصے سناؤں گھروں اور کھنڈروں میں لے جا کر سمجھاؤ۔

93۔ ¬اہل خانہ سے برتاؤ

لَا يَكُنْ اَهْلُكَ اَشْقَى الْخَلْقِ بِكَ۔ (وصیت 31)
تمھارے گھر والے تمھارے ہاتھوں دُکھی نہ ہوں۔

انسان کی پہچان کا بہترین ذریعہ اُس کے قریبی ہوتے ہیں۔ اہل خانہ ہی وہ قریبی ہیں جو اُس کی اچھائیوں یا کوتاہیوں کے گواہ ہوتے ہیں۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں خبردار کیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ آپ بہت سے لوگوں کی خدمت میں مشغول ہوں مگر جن کی زندگی آپ کے سہارے پر ہے اُن سے آپ کا برتاؤ ایسا ہو کہ وہ آپ سے نفرت کرنے لگیں اور آپ سے نالاں ہوں۔ گھر میں پیار اور محبت کی فضا قائم ہونی چاہیے اور اگر آپ انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں یا اچھائیوں میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو اہل خانہ کی یوں تربیت کریں کہ وہ خیر و بھلائی کے سفر میں آپ کے پر و بال بن جائیں۔ آپ کو دنیا کی جو نعمات میسر ہیں اُنھیں اہل خانہ پر خرچ کریں تاکہ وہ آپ کے سائے میں رہتے ہوئے گھر کو جنت محسوس کریں جہنم شمار نہ کریں۔ جس سے قریبی خوش ہوں گے اور سہولت و راحت میں ہوں گے، دور والے بھی اس سے اچھائیوں کی امید رکھیں گے۔ آپ کی بد نظمی ،بے توجہی اور بد اخلاقی کی وجہ سے گھر والے آپ کے دشمن اور آپ سے دل تنگ نہ ہوں۔ اہل خانہ کے حقوق کا خاص خیال رکھا جائے۔
کسی بزرگ نے کیا خوب کہا کہ ہزاروں میل دور خوشیاں بانٹنے سے پہلے اپنے گھر کے آنگن میں خوشیاں بانٹیں۔اتنی خوشیاں بانٹیں کہ آپ کے گھر والے بھی خوشیاں بانٹنے والے بن جائیں۔دوسروں سے رشتے بنانے سے پہلے اللہ نے جن سے آپ کا پیدائش سے رشتہ بنا دیا ہے اسے اتنا مضبوط کریں کہ دوسروں کے لیے نمونہ بن جائے۔اہل خانہ کے لیے ایسا سایہ بن جائیں جس کے نیچے آ کر وہ خود کو دنیا کی تپش سے محفوظ سمجھیں اور راحت پائیں۔

94۔ معیارِ تعلق

لاَ تَرْغَبَنَّ فِيمَنْ زَهِدَ عَنْكَ۔ (وصیت 31)
جو تم سے تعلقات قائم رکھنا پسند نہیں کرتا اس کے پیچھے نہ پڑو۔

انسان کو جب کسی خاص عمل کی تاکید کی جاتی ہےتو اُس کا موقع و محل اُسے خود پہچاننا پڑتا ہے۔ امیرالمومنینؑ نے بار بار دوسروں سے تعلق جوڑنے کا حکم دیا اور اس وصیت میں بھی اس کی تاکید فرمائی کہ دوسرا تعلق توڑےتو آپ اسے جوڑنے میں بازی لے جائیں اور وہ بُرائی سے پیش آئے تو آپ حسن سلوک میں اس سے بڑھ جائیں۔ مگر پیش نظر فرمان میں آپؑ نے واضح کیا کہ اس برتاؤ کا موقع و محل دیکھیں آپ کی مسلسل کوشش کے باوجود اگر کوئی شخص آپ سے تعلق جوڑنا ہی نہیں چاہتاتو آپ اپنی عزت کی حفاظت کریں، اس کے پیچھے پیچھے مت پھریں اس سے آپ کی توہین ہوگی۔
البتہ یہ نہیں فرمایا کہ ایسے شخس کے کام آنا چھوڑ دیں یا آپ اس سے منہ موڑ لیں،فرمایا اس سے دوستی کی توقع چھوڑ دیں مگر اپنا کردار اتنا بلند رکھیں کہ اُس کو آپ کی ضرورت ہو تو یقین کے ساتھ وہ آپ سے بھلائی کا امیدوار ہو۔یعنی دوستی کا معیار اس میں نہ پایا جائے تو اس سے دوستی کا تقاضا چھوڑ دیں مگر انسانیت کا رشتہ اور برتاؤ چھوڑنے کا حکم نہیں ہے۔اس دنیا میں اکثر لوگ ضرورت مندوں سے رخ موڑ لیتے ہیں اور انسان اگر اپنی ضرورتوں کو محدود کر لے اور دوسروں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا بن جائے تو رُخ موڑنے والے کم ہوں گے اور تعلقات کے لیے ہاتھ بڑھانے والے زیادہ ہوں گی۔

95۔ احسان کا بدلا

لَيْسَ جَزَاءُ مَنْ سَرَّكَ اَنْ تَسُوْءَهٗ۔ (وصیت 31)
جو تمھاری خوشی کا باعث ہو اس کا صلہ یہ نہیں کہ اُس سے بُرائی کرو۔

انسان ہمیشہ دوسروں سے اچھائی کی امید رکھتا ہے مگر کوئی اس سےاچھائی کرے تو اُسے جلد بھول جاتا ہے۔ اگر کوئی زندگی بھر اچھائی سے پیش آتا ہے اور کسی ایک موڑ پر اُس سے کوتاہی ہو جاتی ہے یا وہ حالات کی وجہ سے اُس کی خواہش کو پورا نہیں کر سکتا تو گزشتہ ساری اچھائیوں پر پانی پھیر دیا جاتا ہے۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں قرآنی اصولِ زندگی کو اپنے لفظوں میں پیش کیاہے۔ قرآن کا حکم ہے کہ احسان کا بدلا احسان سے دو۔ آپؑ یہاں فرماتے ہیں کہ کسی نے زندگی میں آپ کی خوشی و مسرت کا اہتمام کیا تو اُس عمل کو یاد رکھیں اور آپ اس تلاش میں رہیں کہ اُس کی مسرت کا بدلا مسرت کی صورت میں دیں۔ خیال رہے کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرا آپ کی خوشیوں کے لیے کوشش کرتا رہے اور آپ اُس کی جڑیں کاٹنے کے انتظار میں رہیں۔ انسان اگر اتنا یاد رکھے کہ فلاں شخص فلاں موقع پر میرے لیے خوشی و مسرت کا سبب بنا تھا تو یہ یاد انسانی معاشرے میں خوشگوار اور مثبت اثرات چھوڑے گی۔ لوگ عموماً ایسے لحظات کو بھلا دیتے ہیں اور اگر کہیں کسی سے جانے یا نا جانے میں کوتاہی ہو جاتی ہے تو ساری زندگی اُسے یاد رکھا جاتا اور مختلف مواقع پر اسے دُہرایا جاتا ہے۔یعنی جس چیز کو بھلا دینا چاہیے اسے یاد رکھا جاتا ہے اور جسے یاد رکھنا چاہیے اسے بھلا دیا جاتا ہے۔یہ کم ظرفی کی نشانی ہے۔البتہ اچھائی و احسان کرنے والے کو کسی کے ایسے کردار سے دل شکستہ نہیں ہونا چاہیے۔اگر ایک شخص احسان فراموش ہے تو سب ایسے نہیں ہوا کرتے اور اس کا احسان خدا کے لیے ہو تو پھر بندے سے اس احسان کا شکریہ یا جزا کی توقع ہی نہیں ہونی چاہیے۔

96۔ بُری عادت

مَا اَقْبَحَ الْخُشُوْعَ عِنْدَ الْحَاجَةِ،وَ الْجَفَاءَ عِنْدَ الْغِنَى۔ (وصیت 31)
ضرورت پڑنے پر گڑ گڑانا اور مطلب نکل جانے پر کج خلقی سے پیش آنا کتنی بُری عادت ہے۔

انسان کا انسان سے تعلق کچھ اصولوں پر قائم ہو تو یہ سعادت انسانی میں اضافہ کا سبب بنے گا اور اگر یہی تعلق ضرورتوں کی بنیاد پر قائم ہوگا اور مفاد کا حصول مدنظر ہو گا تو انسان کی منافقت اور پست فطرت ہونے کی نشاندہی کرے گا۔ امیرالمومنینؑ نے اس فرمان میں خود غرضی کی بنا پر قائم ہونے والے سلوک کی مذمت کی ہے۔ بعض لوگ ضرورت پڑتی ہے تو خود کو حقارت کی حد تک گرا دیتے ہیں اور ضرورت نہ رہے تو نہ فقط احترام کو بھول جاتے ہیں بلکہ بے احترامی و جفا پر اُتر آتے ہیں۔ آپؑ نے یہاں عمومی اصول ارشاد فرمایا ہے کہ دولت مل جائے یا کسی سے مطلب نکل آئے تو متکبر بن کر اُسے بھلائیں نہیں اور اگر فقر سے امتحان ہونے لگے تو خود کو دنیا والوں کے سامنے ذلیل مت کریں۔ کریم النفس شخص پر آسانیاں اور مشکلیں آتی رہتی ہیں مگر اُس کے اصول بدلا نہیں کرتے۔مشکل اور سہولت دونوں حالتوں میں وہ اپنے مقام و منزلت کا محافظ ہوتا ہے۔مشکلوں میں وہ مضبوط پہاڑ کے مانند سربلند ہی رہتا ہے اور مشکلوں کے سامنے جھکتا نہیں بلکہ دوسروں کا سہارا بنا رہتا ہے اور اگر اسے بلندی عطا ہو جائے تو پھر بھی پہاڑ کی چوٹی کی طرح اس کے پاس جو ہوتا ہے اسے اپنے لئے سمیٹ کر نہیں رکھتا بلکہ نیچے والوں کے لیے بھیج دیتا ہے۔

97۔ پریشانیوں کا مقابلہ

اِطْرَحْ عَنْكَ وَارِدَاتِ الْهُمُوْمِ بِعَزَائِمِ الصَّبْرِ وَحُسْنِ الْيَقِيْنِ۔ (وصیت 31)
ٹوٹ پڑنے والے غموں کو صبر کی پختگی اور حسن یقین سے دور کرو۔

غموں کے طوفان اور خوشیوں کی بارشیں انسان کی زندگی کا حصہ ہیں۔ غم بڑھیں تو گھبرایا نہ جائے خوشیاں ملیں تو خود کو بھلایا نہ جائے۔امیرالمومنینؑ غموں کے طوفانوں کے سامنے بند باندھنے کے لیے دو طریقے بیان فرماتے ہیں۔ ان موضوعات پر ماہرین نفسیات نے بڑی بڑی کتابیں لکھیں اور غموں سے نجات اور خوش رہنے کے طریقے بیان کیے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں زمانے کے حالات اور دنیا کے تغیرات اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ کبھی مرض ہے تو کبھی فقر، کبھی پیاروں کی جدائی ہے تو کبھی قریبیوں کی بے وفائی، ان سے دل دُکھتا رہتا ہے مگر آپ فرماتے ہیں کہ مضبوط و محکم صبر اور پختہ یقین ان دکھوں سے نجات کا ذریعہ ہے۔ صبر یعنی جو دکھ آیا ہے اُسے نبھانا ہے، آہ و زاری اسے دور نہیں کر سکتی بلکہ اپنا دُکھ بھی بڑھے گا اور اُس سے محبت کرنے والے اور اردگرد والے بھی دُکھی ہو جائیں گے۔ دوسرا علاج یہ ہے کہ یقین محکم ہو کہ جو دُکھ دیتا ہے وہ دُکھوں کو دور بھی کر دیتا ہے۔ آپ کے دُکھوں سے بھی بڑے دُکھ لوگوں پرگزرےہیں انھوں نے برداشت کئے، ان کی زندگی کی رفتار ان غموں سے کم نہ ہوئی بلکہ ان غموں نے زندگی کے سفر کو اور تیز کر دیا اور دُکھوں کے بعد انہیں زندگی میں بڑی کامیابیاں نصیب ہوئیں۔ یہ یقین رہے گا تو دُکھ جلد دور ہو جائیں گے اور اگر دُکھ دور نہ بھی ہوئے تو زندگی کا سفر رُکے گا نہیں۔

98۔ میانہ روی

مَنْ تَرَكَ الْقَصْدَجَارَ۔ (وصیت 31)
جو درمیانی راستہ چھوڑ دیتا ہے وہ بے راہ ہو جاتا ہے۔

دین اور دنیا میں کامیابی اُنہی لوگوں کو ملتی ہے جو میانہ روی اور اعتدال سے کام لیتے ہیں۔ افراط و تفریط ہمیشہ بدبختی و مشکلات کا سبب بنتے ہیں اور حدود کو پامال کرنے والے ناکامی کا سامنا کرتے ہیں۔ امیرالمومنینؑ زندگی کے سفر کے لیے ہمیشہ راہ اعتدال کی تاکید فرماتے ہیں۔ بات ہو یا عمل اس میں اعتدال ہی بہترین ذریعہ ہے۔ قرآن مجید نے اس اصول کو بارہا بیان کیا ہے امیرالمومنینؑ نے اسے اپنے لفظوں میں بیان فرمایا ہے۔یہ اصول زندگی کے ہر مرحلے اور شعبے میں اپنانا ضروری ہے۔دین اور دنیا کی تقسیم کر کے لوگ ایک طرف کو لے لیتے ہیں اور دیدار یا دنیا دار کہلانے لگتے ہیں۔افراد سے تعلقات میں ایک طرف کے غلام تو دوسری طرف کے لیے فرعون دکھائی دیتے ہیں۔خرچ کرنے کے لحاظ سے کچھ اپنا سب کچھ لٹا دیتے ہیں تو کچھ اپنی ضروریات میں بھی بخل سے کام لیتے ہیں۔یہ سب افراط و تفریط کہلاتا ہے اور امامؑ نے اس طریقہ سے خبردار کیا اور حد وسط کو اپنانے کی تاکید فرمائی۔

99۔ پردیسی

اَلْغَرِيْبُ مَنْ لَمْ يَكُنْ لَهٗ حَبِيْبٌ۔ (وصیت 31)
پردیسی وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔

انسان زندگی کے مختلف معیار اکثر خود قائم کرتا ہے۔ غربت کیا ہے اور امارت کیا ہے، صاحب عزت کون ہے اور حقیر کون ہے۔چاہیے یہ کہ یہ معیار کسی اصول کے تحت قائم ہوں۔ امیرالمؤمنینؑ یہاں ایک معیار بیان فرما رہے ہیں کہ غریب اور پردیسی وہ ہے جس کا کوئی چاہنے والا نہ ہو۔ اس نہ چاہے جانے کے بھی مختلف اسباب ہوتے ہیں کبھی لوگ فقر کی وجہ سے تنہا چھوڑ دیے جاتے ہیں اور قریبی بھی انہیں دور کر دیتے ہیں اور کبھی دولت غرور و تکبر پیدا کر دیتی ہے اور انسان دوسروں کو قریب نہیں کرتا اور محبت نہیں کرتا۔ جب اسے ضرورت پڑتی ہے تو دوسرے اس کے قریب نہیں آتے اور محبت سے پیش نہیں آتے۔ اس تنہائی اور غربت سے بچنے کے لیے اپنے اخلاق پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ جیسا کہ ایک مقام پر امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں کہ جیو تو ایسے کہ لوگ آپ سے ملنے کی خواہش رکھیں اور مر جاؤ تو لوگ آپ کے چلے جانے پر افسوس کریں۔
اس فرمان میں حقیقت میں امامؑ نے دوستی اور انسانوں سے تعلقات کی اہمیت سے آگاہ فرمایا ہے۔جب انسان کی کسی چیز کی اہمیت کا علم ہو گا تو وہ اسے حاصل کرنے کے طریقے تلاش کرے گا اور حاصل ہونے پر اس کی حفاظت بھی کرے گا۔امامؑ کے فرامین میں دوستی کے حصول کے طریقے بھی اور اس کی حفاظت کے اصول بھی بیان ہوئے ہیں۔ان کا خلاصہ یہ ہے کہ دوسروں کو اہمیت دیں تو وہ آپ کو اہمیت دیں گے اور دوسروں سے محبت کریں تو آپ سے محبت کی جائے گی۔یوں آپ تنہا اور غریب نہیں رہیں گے۔

100۔ عورت کی نزاکت

اَلْمَرْاَةُ رَیْحَانَةٌ وَ لَیْسَتْ بِقَهْرِمَانَةٍ۔ (وصیت 31)
عورت پھول ہے پہلوان نہیں ہے۔

انسان کو کمال تک پہنچانے میں عورت کا ایک خاص مقام ہے اور جہاں کائنات میں انسان کامل مردوں کی صورت میں بطور نمونہ ہیں وہیں قرآن نے با کمال مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے حضرت مریمؑ و آسیہؑ کو بطور نمونہ ذکر کیا ہے۔ عورت کے مقام کو پہچاننا ہو تو ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کے ساتھ جناب ہاجرہ ؑکا کردار نظر آتا ہے اور موسی ؑکے نیل کے سفر سے طور کے سفر تک ماں، بہن اور زوجہ ہمسفر نظر آتی ہیں۔موسیؑ کی پرورش میں فرعون کی زوجہ کا کرداراور حضرت شعیبؑ کی بیٹیوں کا ذکر بھی لازمی ہے۔
امیرالمؤمنینؑ اس فرمان میں اپنے بیٹے کو عورت کی حیثیت بتاتے ہوئے ارشاد فرما رہے ہیں کہ عورت ایک خوشبودار پھول ہے جس کی لطافت و نزاکت کی وجہ سے اس کی نگہبانی کی ضرورت ہے ورنہ وہ جلد مرجھا جاتی ہے اور گرم و تیز ہوائیں اُسے جھلسا دیتی ہیں۔ پھر فرمایا کہ یہ کوئی قہرمان اور پہلوان نہیں۔ عورت کے اس مقام کو اگر ملحوظ خاطر رکھا جائے تو معاشرے میں مرد و عورت دونوں با کمال زندگی کی طرف بہتر انداز میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔دین نے مرد کے لیے لازم قراردیا کہ وہ عورت کا نان و نفقہ اپنے ذمہ لے۔یعنی دنیا کی مشکلات سے لوہے اور پتھر کی طرح ٹکراتا رہے ،زمانے کے حوادث سہتا رہے،لوگوں کی زیادتیوں سے زخم کھاتا رہے،سخت جان ہو کر پہلوان کی طرح ان مشکلات کا مقابلہ کرے مگر عورت کو سہولیات مہیا کرے۔اس لیے کہ عورت نازک مزاج ہے اور اس کے مزاج کی نزاکت کی حفاظت مرد کے ذمہ ہے۔اگر عورت خود کو وہ نہ سمجھے جو وہ ہے یا جیسے امیر المؤمنینؑ نے اس کی تعریف کی ہے تووہ اپنے عظیم مقام کو کھو دے گی اور مرد اگر عورت کو وہ مقام نہ دے جو اس کا حق ہے تو وہ ظالم کہلائے گا اور اس سے اس کی باز پرس و گی۔

101۔ قبیلے کی اہمیت

اَكْرِمْ عَشِيْرَتَكَ فَاِنَّهُمْ جَنَاحُكَ الَّذِيْ بِهٖ تَطِيْرُ۔ (وصیت 31)
اپنے قبیلے کا احترام کرو کیونکہ وہ تمھارے پر و بال ہیں جن سے تم پرواز کرتے ہو۔

انسان جتنا قوی اور صاحب قدرت ہو اسے دوسرے انسانوں کی ضرورت رہتی ہے۔ جو لوگ اس کے زیادہ قریب ہوں گے وہ زیادہ مدد کر سکیں گے۔ انسان کا خاندان اس کے سب سے قریب ہوتا ہے، یہ خونی رشتے کسی غرض کی وجہ سے نہیں بنتے بلکہ پیدائش سے رشتے بنتے ہیں البتہ ان رشتوں کی حفاظت ضروری ہے اس لیے جو شخص کسی کمال تک پہنچنا چاہتا ہے اسے سب سے پہلے اپنے اردگرد والوں اور رشتہ داروں کی اس انداز میں تربیت کرنا چاہیے کہ وہ اس کے مشن کے مددگار بن سکیں اور ان کی مدد سے معاشرے کے دوسرے افراد کی اصلاح کی جا سکے۔ امیرالمؤمنینؑ اس مقام پر خاندان کے اس اثر کو واضح فرماتے ہیں اور وصیت کرتے ہیں ” اپنے قوم و قبیلہ کا احترام کرو کیونکہ یہ تمھارے بال و پر ہیں جن کے ذریعے پرواز کرتے ہو اور ایسی بنیادیں ہیں جن کا تم سہارا لیتے ہو اور تمھارے وہ دست و بازو ہیں جن سے تم دشمن پر حملہ کرتے ہو۔یعنی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے پروں کی طرح رشتہ داروں کا ساتھ چاہیے۔خود کو مضبوط رکھنے،اپنے دفاع یا دوسروں سے اپنے حقوق لینے کا ایک مضبوط سہارا یہی رشتہ دار ہوتے ہیں۔البتہ یہ رشتے دوسروں پر ظلم کرنے میں مددگار نہیں ہونے چاہیں بلکہ دوسروں کو ظلم سے روکنے کا سبب ہونے چاہیں۔

102۔ بیٹے کا مقام

وَجَدْتُکَ بَعْضِي، بَلْ وَجَدْتُکَ کُلِّي۔ (خط 31)
تم میرا ہی ایک حصہ ہو بلکہ جو میں ہوں وہی تم ہو۔

انسان کسی سے تربیت پاتا ہے اور پھر کسی کی تربیت اس کے ذمہ ہوتی ہے۔ تربیت کی سب سے زیادہ ذمہ داری والدین کی ہوتی ہے اور پھر اساتذہ کو یہ فریضہ نبھانا ہوتا ہے۔ والدین سب سے پہلے مربی ہوتے ہیں۔ امیرالمؤمنینؑ نے اس تفصیلی مکتوب میں جہاں بیٹے کو درجنوں نصیحتیں کی ہیں۔ وہاں نصیحتیں کرنے کا طریقہ بھی سکھایا ہے۔ اس فرمان میں امام علیہ السلام اپنے بیٹے کو فرماتے ہیں کہ تم میرا ٹکرا ہو بلکہ جو میں ہوں وہی تم ہو۔تم میرا ہی ٹکڑا ہو کا جملہ یا ’’بیٹا باپ کے دل کا ٹکڑاہوتا ہے‘‘ اکثر یہ جملہ استعمال ہوتا ہے۔ آپؑ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا اور فوراً اس کی تاکید کے لیے دوسرا جملہ کہا کہ جو میں ہوں وہی تم ہو۔ اس فرمان سے تربیت کا یہ طریقہ واضح ہوتا ہے کہ اولاد کی تربیت یا جس کی تربیت کرنی ہو سختی سے نہیں پیار سے ہوتی ہے۔ پیار سے ہی آپ بات منوا سکتے ہیں اور اس پیار و محبت کا اظہار بھی ضروری ہے۔ اس اظہار محبت میں خلوص ہونا چاہیے اور بہتر سے بہتر انداز میں ہونا چاہیے۔ باپ یقیناً اولاد سے محبت کرتا ہے مگر اظہار کم کرتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے جو طریقہ کار یہاں بتایا اس کے مطابق اظہار ضروری ہے۔ اس پورے وصیت نامہ میں آپ نے تیرہ بار اے میرے پیارے بیٹے کہہ کر خطاب کیا۔ پس تربیت کو فریضہ جاننا چاہیے، تربیت محبت سے کی جانی چاہیے اور محبت کے لیے خوبصورت الفاظ کا انتخاب کیا جانا چاہیے۔ محبت الفاظ سے بھی ظاہر ہو اور کردار سے بھی ہو اور یہ محبت خلوص نیت اور دل کی گہرائی سے ہو۔

103۔ جوانی

اِنَّمَا قَلْبُ الْحَدَثِ کَالْاَرْضِ الْخَالِيَةِ مَا اُلْقِيَ فِيْهَا مِنْ شَيءٍ قَبِلَتْهُ۔ (خط 31)
کم سن کا دل اس خالی زمین کے مانند ہوتا ہے جس میں جو بیج ڈالا جاتا ہے اسے قبول کر لیتی ہے۔

ہر شے کے لیے موسم بہار ہوتا ہے جو اس کے جمال کے اظہار کا موسم ہوتا ہے۔ انسان کی جوانی اس کی قوت و قدرت کی بہار کا زمانہ ہے۔ سمجھ دار باغبان بہار آنے پر پھلوں اور پھولوں کی دیکھ بھال شروع نہیں کرتا بلکہ بہت پہلے اس کے لیے زمین ہموار کرتاہے ،پانی اور کھاد مہیا کرتا ہے، موسم پر بیج تلاش کرتا ہے پھر اس کی دیکھ بھال کرتا ہے، تو بہار میں وہ پودے پھول دیتے ہیں ۔اگر کہیں سستی و کوتاہی ہو گئی تو بہار میں وہ پودا مرجھایا ہوا ہوگا اور پھولوں سے خالی ہوگا۔ امیرالمؤمنینؑ نے انسان کی تربیت کا موسم اس کی کم سنی یا نوجوانی کو قرار دیاہے۔ اس نوجوانی کے زمانے کو خالی زمین سے تشبیہ دی کہ اسے تیار کر کے اس میں مناسب بیج تلاش کر کے کاشت کیا جائے۔ یوں وقت پر اس زمین میں قیمتی بیج کاشت ہو گیا تو جوانی میں انسانیت کے کمالات کا اس سے اظہار ہوگا اور اگر مربی نے اس کم سنی میں کوتاہی کی، یا مناسب بیج انتخاب نہ کیا تو جلد وہ زمین یا تو اتنی سخت ہو جائے گی کہ پھر کسی بیج کو قبول ہی نہیں کرے گی اور قابل کاشت ہی نہیں رہے گی یا ممکن ہے کہیں اِدھر اُدھر سے ہوا سے اڑ کر آنے والے بیج اُگ آئیں تو یہ خودرو پودے پھول دار ہوں گے یا کانٹے دار اس کا پھر کوئی پتا نہیں چلتا۔ اس فرمان سے امیرالمؤمنینؑ نوجوانی میں تربیت کو خوبصورت مثال سے لازمی قرار دے رہے ہیں۔ والدین کی طرح مربی کو اس موسم میں متوجہ رہنا چاہیے اور جو قومیں ترقی کرنا چاہتی ہیں انھیں اپنے نوجوانوں کی تربیت کے وقت بیدار رہنا چاہیے۔علامہ اقبال مربّی کی حوصلہ افزائی کے لیے فرماتے ہیں:
نہیں ہے نا امید اقبال کشتِ ویراں سے

104۔ خیر اوربھلائی

لَنْ يَفُوْزَ بِالْخَيْرِ اِلَّا عَامِلُهٗ۔ (خط 33)
خیر اور بھلائی وہی پاتا ہے جو اس پر عمل کرتا ہے۔

زندگی میں ہر انسان کامیابی کا خواہاں ہوتا ہے مگر کامیابی کی فقط خواہش کافی نہیں ہوتی اس کے لیے منصوبہ سازی بھی لازمی ہے، پروگرام کی ترتیب ضروری ہوتی ہے، اس کے مقدمات مہیا کرنے پڑتے ہیں اور سب سے اہم اس کار خیر کو عملاً انجام دینا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص باقی سب مراحل طے کرلے مگر عملی اقدام نہ اٹھائے تو اس کا کوئی نتیجہ نہیں ہوگا بلکہ مقدمات پر جو وقت اور قوت خرچ ہوئی ہوگی وہ بھی ضائع ہی شمار ہوگی اس لیے آپؑ نے تاکید فرمائی کہ خیر اور بھلائی میں وہی کامیاب ہوگا جو عمل کرے گا اور یہ قرآنی اصول ہے اور انسانی زندگی کے مسلمات میں سے ہے جسے امیرالمؤمنینؑ اپنے الفاظ میں تاکید سے بیان فرما رہے ہیں۔زندگی عمل سے بنتی ہے کرشمات سے نہیں اور کامیابی محنت سے حاصل ہوتی ہے معجزات سے نہیں۔علامہ اقبال فرماتے ہیں:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

105۔ معذرت

اِيَّاكَ وَمَا يُعْتَذَرُ مِنْهُ۔ (خط 33)
خبردارکوئی ایسا کام نہ کرنا جس پر تمہیں معذرت کی ضرورت پڑے۔

بلند نظر لوگ کسی کام کی انجام دہی سے پہلے اُس کے فوائد و نقصانات کو دقت نظر سے دیکھ لیتے ہیں۔ سوچ بچار کے بعد اُس کام کو انجام دیتے ہیں اور یہ باریک بینی انہیں بہت سی خطاؤں اور غلطیوں سے محفوظ کر لیتی ہے۔ ایسی صورت میں کم ہی ایسے مواقع آتے ہیں جہاں وہ خطا کی راہ پر گامزن ہوں اور انھیں معذرت کرنی پڑے کہ میں نے یہ غلط کیا یا غلط کہا۔ جن غلطیوں پر معذرت کی ضرورت پیش آتی ہے اُن میں یا مکمل سوچ بچار سے کام نہیں لیا گیا ہوتا یا جلد بازی میں انجام دی گئی ہوتی ہیں۔ ناکام لوگوں کی زبانوں سے اکثر معذرت کے الفاظ سنائی دیں گے۔ معذرت کرنا خود ایک ہمت کاکام ہے کہ جب انسان اپنی خطا سے آگاہ ہو تو اُس پر ڈٹ جانے کے بجائے معذرت کر لی جائے مگر جو شخص بار بار غلطیوں کو دُہرا کر معذرت کرتا ہے لوگ اُس کے اگلے عمل پر اعتماد نہیں کرتے کیونکہ ممکن ہے سابقہ کاموں کی طرح یہ بھی غلط ہو اور جلد معذرت کر لی جائے۔ ساتھ ہی معذرت کے بعد اُس شخص کا وہ مقام نہیں رہتا جو معذرت سے پہلے تھا۔ اس لیے امیرالمومنینؑ یہاں متوجہ فرما رہے ہیں کہ کسی کام کو انجام دینے سے پہلے غور و فکر کر لیں اور کوئی ایسا کام نہ کریں کہ جس پر بار بار معذرت کی ضرورت پیش آئے۔

106۔ غرور

لَا تَکُنْ عِنْدَ النَّعْمَاءِ بَطِراً وَلَاعِنْدَالْبَاْسَاءِ فَشِلًا۔ (خط 33)
نعمتوں کی فراوانی کے وقت کبھی مغرور نہ ہو اور سختیوں کے موقع پر کمزوری کا مظاہرہ نہ کرو۔

انسان کو اپنے نفس پر اتنا کنٹرول ہو نا چاہیے کہ ہوا کے رُخ بدلنے سے اس کا رُخ نہ بدلتا رہے۔ آرام و آسائش اور مشکلات و مصائب اُس کی شخصیت کو متأثر نہ کریں۔ یہ کمزور انسان کی نشانی ہوتی ہے کہ چھوٹی سی کامیابی ملے تو پھولے نہیں سماتا اور غرور و تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اور معمولی سی پریشانی لاحق ہو تو خود کو بھول جاتا ہے۔ جو انسان دنیا کی حقیقت سے آگاہ ہے وہ جانتا ہے کہ جتنی دنیا بھی مل جائے یہ کوئی قابل فخر نہیں کیونکہ دنیا کا انجام فنا ہے اس لیے وہ دنیا کی آسائشوں کو پا کر غافل نہیں ہوتا اور جب کبھی دنیا کے امتحانات اور سختیوں میں مبتلا ہوتا ہے تو بھی گھٹیا پن کا مظاہرہ نہیں کرتا اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ سختیاں بھی چند دن کی ہیں جو بہرحال گزر جائیں گی۔ بلکہ حقائق سے آگاہ انسان امتحانوں کو اپنی ترقی و کامیابی کا زینہ سمجھتا ہے۔ اس لیے کامیاب وہی ہوگا جو حالات کے رُخ کے ساتھ مڑنے کے بجائے حالات کے رُخ کو موڑ دے اور اُن کا جرأت سے مقابلہ کرے ۔

107۔ اللہ پریقین

لَايَزِيْدُنِيْ كَثْرَةُ النَّاسِ حَوْلِيْ عِزَّةً وَلَاتَفَرُّقُهُمْ عَنِّيْ وَحْشَةً۔ (خط 36)
اپنے اردگرد لوگوں کا جمگھٹا دیکھ کر میری ہمت میں اضافہ نہیں ہوتا اور نہ ان کے چھوڑ جانے سے مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے۔

انسان کامل کو اگر لفظوں سے پہچانا جائے تو امیرالمؤمنینؑ کے یہ الفاظ آپ کی پہچان کے لیے کافی ہیں اور اگر کردار کو دیکھ کر شناخت کی جائے تو آپ کی زندگی کا ہر عمل آپ کی عظمت کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ الفاظ آپ ہی کہہ سکتے ہیں اور آپ ہی ان کو عملاً نبھا سکتے ہیں۔ یہ الفاظ آپ کی روح کی بلندی اور اپنے مقصد پر یقین اور سچائی کی انتہا کا پتہ دیتے ہیں۔ یہ جملے آپ نے اپنے بھائی عقیل کے خط کے جواب میں لکھے ہیں ۔ “دیکھو ! اپنے بھائی کے متعلق چاہے کتنا ہی لوگ اس کا ساتھ چھوڑ دیں یہ خیال نہ کرنا کہ وہ بے ہمت و ہراساں ہو جائے گا یا کمزوری دکھاتے ہوئے ذلت کے آگے جھکے گا یا مہار کھینچنے والے ہاتھ میں با آسانی اپنی مہار دے دے گا یا سوار ہونے کے لیے اپنی پشت کو مرکب بننے دے گا”۔
اس معلم آزادی و حریت اور مقصد پر یقین کا درس دینے والی ذات گرامی سے کوئی یہ ہنر سیکھ لے تو کامیابیاں اس کے قدم چومیں گی۔ خدا کو ماننے والے اسے خدا پر یقین کی انتہا کہیں گے اور خدا کے منکر بھی اسے ہدف کی پختگی جانیں گے۔ یہاں یہ عظیم درس زندگی موجودہے کہ جب راہ کو سمجھ کر اختیار کیا اور اپنی ذمہ داری کو جان لیا تو پھر افراد کی قلت و کثرت اثر انداز نہیں ہونی چاہیے۔

108۔ بے حسی

وَحَسْبُكَ دَاءً اَنْ تَبِيْتَ بِبِطْنَةٍ وَ حَوْلَکَ اَکْبَادٌ تَحِنُّ اِلَی الْقِدِّ۔ (خط 45)
تمھاری بیماری یہ کیا کم ہے کہ تم پیٹ بھر کر لمبی تان لو اور تمھارے گرد کچھ ایسے جگر ہوں جو سوکھے چمڑے کو ترس رہے ہوں۔

انسان کی عظمت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو کم از کم اپنے جتنی عزت دے۔ یہ الفاظ جو یہاں بیان کئے گئے اس معلم انسانیت کے ہیں جو مسندِ حکومت پر بیٹھا ہے اور دوسرے انسانوں کے غموں میں شریک ہونے کا درس بصرہ کے گورنر کو دے رہا ہے۔ یہ اس شخص کے الفاظ ہیں جو دوسروں کا دردسن کر اپنے اندر درد محسوس کرتا ہے۔ اس خط کا ایک ایک جملہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کی نگاہ میں دکھی انسان کا کیا مقام ہے۔ انسان خود کھا لے اور بھوکوں کو بھلا دے، اسے آپؑ بیماری قرار دیتے ہیں۔ ہاں یہ انسانیت کی بیماری کی نشانی ہے۔ اگر انسان کا باطن صحت مند ہو تو وہ دوسرے انسان کو خود پر ترجیح دیتے ہوئے نظر آئے گا۔
انسانیت کی حقیقت یہ ہے کہ آپ کسی کے درد کو اپنا درد محسوس کریں۔ اگر ظاہری طور پر کچھ بھی نہ کر سکیں تو ایک آہ آپ کے دل کو بھی تسکین دے گی اور جس کے لیے آہ بھری ہے اسے بھی سکون ہو گا کہ کوئی تو میرا ہمدرد ہے۔اس خط میں امامؑ نے اپنی خشک روٹیوں اور پرانی چادروں کا ذکر کیا جو یہ واضح کرتا ہے کہ انسان لباس و خوراک سے بڑا نہیں بنتا بلکہ انسانیت کے احترام اور انصاف سے اسے عزت ملتی ہے۔

109۔ مقصد زندگی

فَمَا خُلِقْتُ لِيَشْغَلَنِيْ اَكْلُ الطَّيِّبَاتِ كَالْبَهِيْمَةِ ۔ (خط 45)
میں اس لیے تو پیدا نہیں ہوا ہوں کہ جانوروں کی طرح اچھے اچھے کھانوں کی فکر میں لگا رہوں۔

یہ جملہ غفلت میں گھرے ہوئے انسان کو خواب غفلت سے جگانے کے لیے ہے۔ انسانوں کی بہت بڑی تعداد اپنی زندگی کا مقصد اچھے کھانے اور دنیاوی سکون کو سمجھتی ہے اور اپنی دولت کا بڑا حصہ اسی کھانے پینے پر خرچ کردیتی ہے۔ جن کے پاس دولت کی فراوانی نہیں ان کی سوچوں میں بھی وہی کھانا پینا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے ایسی سوچ والوں کو حیوان سے تشبیہ دی ہے اور واضح فرمایا کہ انسان اس لیے تو پیدا نہیں ہوا کہ اچھے اچھے کھانوں کی فکر میں لگا رہے۔ یابندھے ہوئے چوپائے کی طرح ہو جائے کہ اس کی ساری فکر چارے میں لگی رہتی ہے یا اس کھلے ہوئے جانور کی طرح ہو جس کا کام ہر طرف منہ مارنا ہوتا ہے۔آپؑ ان فرامین میں انسان اور حیوان میں فرق واضح کر کے انسان کے حقیقی مقام کو بیان کر رہے ہیں کہ انسان کا مقصود کھانا ہی نہیں بلکہ کھلانا بھی ہے اور اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا خیال رکھنا ہے۔

110۔ مضبوط آدمی

اَلَا وَاِنَّ الشَّجَرَةَ الْبَرِّيَّةَ اَصْلَبُ عُوْداً ، والرَّوَائِعَ الْخَضِرَةَ اَرَقُّ جُلُوْداً۔ (خط 45)
یاد رکھو کہ جنگل کے درخت کی لکڑی مضبوط ہوتی ہے اور ترو تازہ پیڑوں کی چھال کمزور اور پتلی ہوتی ہے۔

اس فرمان میں انسانی تربیت کا ایک اہم اصول بیان کیا گیاہے۔ اگر کوئی درخت بیابانوں اور خشکی کے علاقوں میں پرورش پاتا ہے تو وہ قحط کے خلاف بھی زیادہ دیر کھڑا رہ سکتا ہے اور تند و تیز ہواؤں کا مقابلہ بھی آسانی سے کر سکتا ہے مگر وہ درخت جو لب دریا ہو اور پانی کا حصول اس کے لیے آسان ہو تو ظاہری طور پر تو خوبصورت اور شاخ دار ہوگا مگر سختیوں کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ آپ واضح فرمانا چاہتے ہیں کہ ناز و نعمت میں پرورش پانے والے اہداف تک پہنچنے میں مشکلات آئیں تو برداشت نہیں کر سکتے اور راستے میں ہی ہار کر بیٹھ جاتے ہیں۔امیرالمؤمنینؑ خود کو مشکلات سے گزر کر سخت و مضبوط ہونے والا قرار دے کر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ میں مشکلوں سے گھبرانے والا نہیں بلکہ ان مشکلوں کو عبور کر کے مقصد تک پہنچنے کے لیے آمادہ اور تیار ہوں۔
علامہ اقبال نے اپنے فارسی کلام میں ہیرے اور کوئلے کی گفتگو کو نظم میں پیش کیا۔کوئلہ ہیرے کو کہتا ہے ہم دونوں ایک ہی کان سے ہیں تو تمہیں اتنی عزت کیوں اور مجھے اتنی ذلت کا سامنا کس لیے ہے ۔ہیرا جواب دیتا ہے :
فارغ از خوف و غم و وسواس باش
خوف و غم اور وسوسوں سے خود کو آزاد کر اور پتھر کی طرح سخت ہو جا اور ہیرا بن جا۔یعنی خود میں مضبوطی پیدا کریں تو مقام و منزلت اور عزت و وقار ملے گا۔

111۔ سختی اور نرمی

وَ اخْلِطِ الشِّدَّةَ بِضِغْثٍ مِّنَ اللِّيْنِ۔ (خط 46)
سختی کے ساتھ کچھ نرمی کی آمیزش کیے رہو۔

انسان کو معاشرے میں برتاؤ کے لیے جو اصول اپنانے چاہئیں ان کی کچھ وضاحت آپ نے یہاں کی ہے۔ اگرچہ یہ فرمان گورنروں، قاضیوں اور عہدہ داروں کے لیے ہے مگر اسے عمومی طور پر ان تمام افراد کو اپنانا چاہیے جو کسی کی تربیت اور دیکھ بھال کے ذمہ دار ہیں۔ ماں باپ اپنی اولاد کے لیے اس اصول کو اپنا کر بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔جہاں سختی ضروری ہووہاں سختی کرنی چاہیے اور جہاں نرمی سے کام چل سکتا ہے وہاں نرمی ہی بہترین برتاؤ ہوگا۔ یہ اللہ سبحانہ کی روش ہے کہ اس نے اپنے نمائندوں کو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا۔ یعنی بشارت دے کر ان کو خوش بھی کیا جائے اور خلاف ورزی پر ڈرایا بھی جائے۔ البتہ نرمی و عزت و احترام کا اثر بہتر اور مفید ہوتا ہے اور زیادہ افراد نرمی سے متأثر ہوتے ہیں۔
امیر المؤمنینؑ نے کئی بار اس اصول کو بیان فرمایا ہے کہ کسی کام میں بھی درمیانی روش اپنانی چاہیے۔اکثر لوگ سزا اور سختی کے ذریعہ سے کام لینا چاہتے ہیں مگر اس ذریعہ سے وقتی طور پر تو کام لیا جا سکتا ہے لیکن ہمیشہ یہ روش مفید نہیں رہتی۔ظاہری طور پر تو سزا سے کام لیا جا سکتا ہے مگر دلی طور پر اس کام میں دلچسپی نہیں ہو گی۔

112۔ میل ملاپ

وَعَلَيْكُمْ بِالتَّوَاصُلِ وَالتَّبَاذُلِ وَإِيَّاكُمْ وَالتَّدَابُرَ وَالتَّقَاطُعَ۔ (خط 47)
تم پر لازم ہے کہ آپس میں میل ملاپ رکھنا اور دوسروں کی اعانت کرنا، اور خبردار ایک دوسرے سے منہ موڑنے اور تعلقات توڑنے سے پرہیز کرنا۔

زندگی کے آخری لمحات میں جو کہا جاتا ہے اس کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔ امیرالمؤمنینؑ کے یہ جملے زخمی ہونے کے بعد وصیت کے طور پر منقول ہیں۔ اس حالت میں بھی آپ انسانی تعلقات کو مضبوط کرنے کی تاکید فرما رہے ہیں۔ آپس میں میل ملاپ رکھنا یعنی اپنے تعلقات کو جوڑے رکھنا۔ یہاں بیٹوں کے لیے اور اپنے خاندان کے لیے بھی حکم ہے اور عمومی بھی۔ تعلقات میں ایک خاص پہلو کو بھی ذکر کیا کہ ان تعلقات میں جود و سخا سے کام لینا اور ضرورت مند پر مال خرچ کر کے اس کی مدد کرنا اور یوں تعلقات مزید مضبوط کرتے رہنا۔ روابط قائم رکھنے اورجوڑنے کے ساتھ تاکید کے طور پر ایک دوسرے سے منہ موڑنے اور تعلقات منقطع کرنے سے بھی منع فرمایا۔ گویا اللہ والے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک انسانوں کو جوڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
یہ تعلقات گھر سے شروع ہوتے ہیں اور پوری انسانیت کے لیے مفید ہوتے ہیں۔باکمال انسان وہی ہوتا ہے جو ان اصولوں کو اپنی زندگی میں اپنائے۔افراد سے اقوام تک کے لیے یہ قوانین ہیں۔افراد ہی سے قومیں بنتی ہیں اور قوموں ہی سے افراد کی عزت ہوتی ہے۔علامہ اقبال نے اس تعلق کے متعلق فرمایا:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

113۔ یتیم پروری

اَللهَ اللهَ فِي الْاِيْتَامِ، فَلاَ تُغِبُّوْا اَفْوَاهَهُمْ۔ (خط 47)
دیکھو یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، ان کے لیے بھوک کی نوبت نہ آئے۔

انسان کامل کی بلند نظری، دردمندی اور دوسرے انسانوں کی بہتری کی سوچ کے لیے یہ بہترین جملے ہیں۔ امیرالمؤمنینؑ کی زندگی کے آخری ایام کی اور زخمی ہونے کے بعد کی یہ وصیت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کامل کی فقط اپنی اولاد پر نظر نہیں ہوتی بلکہ اس وصیت میں آپؑ اپنی اولاد کو ان انسانوں کی دیکھ بھال کی تاکید کر رہے ہیں جو بے سہارا ہیں۔ گویا ایک حقیقی رہبر و راہنما اپنی زندگی کے بعد پر بھی نظر رکھتا ہے کہ بے سہارا لوگوں کا کیا ہوگا۔ یتیم عموماً اسے کہتے ہیں جس کا باپ نہ ہو مگر حدیث کی زبان میں وہ افراد جو کمال تک پہنچنے کی راہوں میں مشکلات سے دوچار ہوں انھیں بھی یتیم یعنی بے سرپرست کہا گیا ہے۔ کچھ لوگ مالی طور پر تو یتیم نہیں ہوتے مگر اخلاقی و تربیتی اعتبار سے بے سرپرست و یتیم ہوتے ہیں۔ مالی طور پر یتیم کو لقمہ مل جائے تو اسے تسلی ہوتی ہے مگر جو اخلاقی طور پر یتیم ہو اسے مسلسل سہارا دینا پڑتا ہے، اس کی حوصلہ افزائی کرنی پڑتی ہے، اس کے دوستوں پر نظر رکھنی ہوتی ہے۔ گویا اس کے پیٹ کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے اور اس کے دماغ کی پرورش بھی لازمی ہے۔

114۔ نظم و ضبط

اُوْصِیْکُمَا وَ جَمِیْعَ وَلَدِیْ وَ أَهْلِیْ وَ مَنْ بَلَغَهُ کِتَابِیْ بِتَقْوَى اللهِ وَ نَظْمِ اَمْرِکُمْ۔‏(خط 47)
میں تمھیں اللہ سے ڈرنے اور اپنے معاملات کو منظم رکھنے کی وصیت کرتا ہوں۔

زندگی کسی ایک عمل کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل نظام ہے۔ زندگی میں ذات، خاندان، مالیات، صحت، مذہب، عبادات اور درجنوں دیگر معاملات شامل ہیں۔ امیرالمؤمنینؑ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں زخمی حالت میں جو اہم وصیتیں کیں ان میں فرماتے ہیں: ’’میں تم دونوں بیٹوں کو، اپنی تمام اولاد کو، اپنے کنبہ کو اور جن جن تک میری یہ تحریر پہنچے سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اپنے معاملات کو منظم و درست رکھنا‘‘ آپ نے زندگی بھر جس نصیحت پر سب سے زیادہ زور دیا وہ تقویٰ ہے۔ تقویٰ یعنی زندگی دینے والے کی امانت سمجھ کر اسے اس کی خوشی و مرضی کے مطابق گزارنا اور اس کی مخالفت و ناراضی سے ڈرنا ۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں:’’ زندگی کے معاملات کو درست و منظم رکھیں‘‘۔ زندگی کے معاملات کو منظم رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ زندگی کے متعدد معاملات ہیں ان میں توازن رکھیں۔ زندگی کا مقصد سمجھیں اور سوچیں ہم کیوں لائے گئے ہیں اور اسی مقصد کے حصول کے لیے منصوبہ سازی کریں۔ کون سا کام پہلے کرنا ہے کونسا بعد میں کرنا ہے وقت معین کریں۔ بہت سے لوگ زندگی کے معاملات کو تب انجام دیتے ہیں جب کام سر پر آن پڑے۔ یہ زندگی کے غیر منظم ہونے کی نشانی ہے۔ وقت مقرر کریں کب کرنا ہے اور کتنی دیر کرنا ہے۔ اس کے لیے مقدمہ سازی کریں۔ اس کام کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے ان کا جائزہ لیں۔مالیات کو دیکھیں، افراد جن کی مدد درکار ہے ان سے رابطہ کریں۔ یہ سب زندگی کو منظم کرنے کی چیزیں ہیں۔ اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ یہ بھی خیال رہے کہ اس دنیا میں آپ ہی کی زندگی نہیں ہے دوسرے لوگ بھی رہتے ہیں اور ان کی بھی زندگیاں ہیں۔ یوں آپ خود پرستی میں مبتلا ہونے سے بچ جائیں گے۔
جس طرح فرد کی زندگی میں نظم و ضبط کی ضرورت ہے اسی طرح قوم اورمعاشرے کی زندگی میں بھی نظم ضروری ہے۔ غیر منظم زندگی سے جیسے افراد نا کام ہوتے ہیں اسی طرح اقوام بھی نا کام ہوتی ہے۔ امیرالمؤمنینؑ کا آخری لمحات میں تفصیل سے ایسی وصیت کرنا یہ بتلاتا ہے کہ ایک حقیقی راہنما کو اپنے بعد بھی قوم،خاندان اور اولاد کی زندگیوں کو سنوارنے کا خیال ہوتا ہے اور یہی چیز علی علیہ السلام کی عظمت کی نشانی ہے۔ گویا اپنی اس تحریر کے ذریعے آپ نے قیامت تک کامیابی کے طلب گاروں کی راہنمائی کا ذریعہ مہیا کردیاہے۔ یہ تحریر نہج البلاغہ کا حصہ ہے گویا نہج البلاغہ سے راہنمائی اور ان تحریروں سے زندگی کو سنوارنا علیؑ کی خواہش تھی جو اب بھی باقی ہے۔

115۔ لوگوں سے برتاؤ

فَاَنْصِفُوا النَّاسَ مِنْ اَنْفُسِكُمْ، وَاصْبِرُوْا لِحَوَائِجِهِمْ۔ (خط 51)
اپنی طرف سے لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کے ساتھ پیش آؤ اور ان کی خواہشوں پر صبر و تحمل سے کام لو۔

امیرالمؤمنینؑ کا یہ فرمان حکومتی عہدے داروں اور خاص کر مالیات جمع کرنے والوں کے لیے ہے۔ اس فرمان میں امام نے مالی امور کے لیے خصوصیت سے یاد دہانی کروائی ہے کہ مال وصول کرنے میں عدل و انصاف کا خاص خیال رکھیں۔ جیسے چاہتے ہیں کہ تم سے برتاؤ کیا جائے اسی طرح دوسروں سے برتاؤ کریں ۔ جب دوسرےتم سے کوئی خواہش کریں، کوئی سوال کریں تو اس میں صبر سے ان کی بات سنیں اور ان کی خواہش انصاف پر مبنی ہے توپوری کریں۔ یہ عمومی طرز حکمرانی ہے اور اسے عام ما تحت پر بھی اجراء کیا جانا چاہیے۔ یہ انصاف اپنی ذات سے شروع کیا جائے تو معاشرے میں امن و سکون عام ہوگا اور انسانیت سکون کا سانس لے سکی گی۔جو لوگ حاجات لے کر آئیں انہیں پورا کریں اور پورا نہ کر سکیں تو کم از کم ان کی خواہش کا احترام کریں۔اگر کچھ نہ دے سکیں اور سامنے والا غصہ کرے اور کچھ نا زیبا الفاظ کہہ دے تو آپ صبر کریں اوراس کی خواہش پوری نہ کر سکنے پر معذرت کریں۔

116۔ نیک نامی

اِنَّمَا يُسْتَدَلُّ عَلَى الصَّالِحِيْنَ بِمَا يُجْرِي اللهُ لَهُمْ عَلٰی اَلْسُنِ عِبَادِهِ۔ (خط 53)
یاد رکھو! نیک بندوں کا پتہ اس نیک نامی سے چلتا ہے جو خدا نے بندگان الہی میں انہیں دے رکھی ہے۔

زندگی میں اچھائیاں انجام دینے کا اجر کئی طرح سے ملتا ہے۔ سب سے بڑا اجر یہ ہوتا ہے کہ انسان کسی سے اچھائی کر کے سکون قلب حاصل کرتا ہے اور اس سکون قلب کی بڑی قیمت ہے۔ صاحب فضیلت افراد جس کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں اس سے کسی قسم کی توقع یا شکر گزاری کی امید نہیں رکھتے اور نہ رکھنی چاہیے۔ اس بھلائی کا ایک اجر جو اللہ اس دنیا میں انسان کو دیتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ اپنے صالح و نیک بندوں کی زبانوں پر ان کا ذکر خیر جاری کر دیتا ہے۔ مقصد یہ ہوا کہ لوگوں میں نیک نامی ایک سرمایہ ہے جب یہ حاصل ہو جائے تو اس کی حفاظت کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ کسی شخص کی پہچان بھی کرنی ہو تو مال و دولت سے اسے پرکھنے کے بجائے نیک و صالح افراد کی زبان سے اسے جاننا چاہیے۔
اللہ کے صالح بندوں کے ہاں قابل تعریف بننے کے لیے لازمی امر یہ ہے کہ اس شخس کے کام اللہ کے لیے ہوں جسے اخلاص کہا جاتا ہے۔اگر کسی کے کام میں اخلاص ہو گا تو اس کام کو بھی اور وہ کام کرنے والے کے نام کو بھی دوام ملے گا۔

117۔ بہترین ذخیرہ

فَلْيَكُنْ اَحَبُّ الذَّخَائِرِ اِلَيْكَ ذَخِيْرَةُ الْعَمَلِ الصَّالِحِ۔ (خط 53)
ہر ذخیرہ سے زیادہ پسند تمہیں نیک اعمال کا ذخیرہ ہونا چاہیے۔

امیرالمؤمنینؑ اپنی حکومت کے ایک بڑے صوبے کے گورنر اور اپنے ایک نہایت قریبی ساتھی کو قیمتی سرمایہ کا پتا بتا رہے ہیں۔ حکومتیں مال و دولت کو بڑا سرمایہ اور فوج و لشکر کو حکومت کی قوت کا سبب قرار دیتے ہیں مگر امیرالمؤمنینؑ کی نگاہ میں مالک اشتر جیسے گورنر کے لیے محبوب ترین ذخیرہ و سرمایہ عمل خیر ہے۔ یہ دیر پا سرمایہ ہے جوانسان کے مرنے کے بعد بھی باقی رہتا ہے اور قرآنی اصول زندگی کے مطابق اگر گھاٹے سے بچانے والی کوئی چیز ہے تو ان میں سے ایک یہی عمل صالح ہے۔ عمل صالح یعنی انجام دینے والا اپنی طاقت اور صلاحیت کے مطابق جو کام بہتر سے بہتر انجام دے سکتا ہے وہ انجام دے اور جتنا کوئی عمل دوسروں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے اتنا ہی وہ زیادہ عمل خیر حساب ہوگا۔
کسی دانشور نے خوب فرمایا کہ اگر اسلام کا مختصر ترین الفاظ میں تعارف کرایا جائے تو وہ’’عمل صالح‘‘ ہے۔ان نیک اعمال میں فقط نماز اور روزہ جیسی عبادات ہی نہیں آتیں بلکہ ہر وہ شائستہ کام جو انسان کے اپنے لیے اور دوسروں کی بہتری کے لیے ہو وہ عمل صالح کہلائے گا۔یہ چھوٹا سا عمل ہو سکتا ہے جیسے راستے سے پتھر ہٹا دینا یا کسی بھولے ہوئے کو راہ بتا دینا ۔ خاندانی کے لیے کمائی کرنا اوربھائی چارہ بھی عمل صالح کا واضح مصداق ہے۔

118۔ عفو و درگزر

فَاَعْطِهِمْ مِنْ عَفْوِكَ وَ صَفْحِكَ مِثْلِ الَّذِيْ تُحِبُّ وَ تَرْضٰى اَنْ يُعْطِيَكَ اللَّهُ مِنْ عَفْوِهِ وَ صَفْحِهِ۔ (خط 53)
تم دوسروں سے اسی طرح عفو و درگزر سے کام لینا جس طرح اللہ سے اپنے لیے عفو و درگزر کو پسند کرتے ہو۔

احترام انسانیت کے بہترین اصول میں سے ایک یہاں بیان کیا گیا ہے۔ پہلے تو امام مالک اشتر کو فرماتے ہیں کہ تم جن کے لیے حکمران بنا کر بھیجے جا رہے ہو یا تمہارے دینی بھائی ہیں یا تمہاری جیسی مخلوق خدا۔ پھر فرمایا ان سے جان بوجھ کر یا بھولے چوکے سے غلطیاں بھی ہوں گی اس لیے ان سے اگر کوئی غلطی سرزد ہو تو انہیں یوں معاف کر دینا اور ان کی غلطی کو یوں نادیدہ قرار دینا جیسے تم سے غلطی ہو جائے تو چاہتے ہو کہ اللہ معاف کر دے یا جس آدمی سے تم نے زیادتی کی ہے وہ معاف کر دے اور درگزر کرے۔ انسان اگر خود وہی کام دوسروں کے لیے انجام دے جس کی دوسروں سے توقع رکھتا ہے تو زندگی کی بہت سی مشکلیں اور پریشانیاں دور ہو جائیں۔
اس فرمان میں ایک حکمران کے لیے بھی یہ واضح فرمادیا کہ آپ اگر کسی پر حاکم ہیں تو آپ پر بھی اللہ حاکم ہے۔اگر حکمرانوں کے ذہنوں میں یہ سوچ جا گزیں ہو جائے تو ان کی زندگیوں سے خود سری کا پہلو نقل جائے گا اور انسان خود کو خدا کے سامنے جواب دہ جانے گا۔اس صورت میں خدا کے بندوں سے ویسا برتاؤ کرنے کی کوشش کرے گا جیسے برتاؤ کی توقع خدا سے رکھتا ہے۔

119۔ جلد بازی

لَا تُسْرِعَنَّ اِلٰی بَادِرَةٍ وَجَدْتَ مِنْهَا۔ (خط 53)
غصے میں جلدبازی سے کام نہ لو جبکہ اُس کے ٹال دینے کی گنجائش ہو۔

انسان کی کامیابی میں بروقت اور مناسب فیصلوں کا بہت اہم کردار ہوتاہے۔ البتہ ایک واضح سا امر ہے کہ جب انسان غصے میں ہو تو اُس کی سوچ اُس سے متأثر ہوتی ہے اور بہت سے عقل مند افراد بھی ایسے موقع پر غلط فیصلے کرتے ہیں۔ غضب کی مذمت میں بہت کچھ بیان ہوا ہے۔ اسی طرح جلدبازی بھی غلط فیصلے کرواتی ہے۔ امیرالمومنینؑ کا یہ فرمان حقیقت میں دونوں چیزوں سے بچنے کی تاکید ہے کہ اگر غصہ ہو تو اس حالت میں اور جلدبازی میں کوئی فیصلہ نہ کریں اور جب اس میں تاخیر کی گنجائش ہے تو اُس سے فائدہ اٹھائیں۔ حکما کے ہاں مشہور ہے کہ غضب کے وقت نہ فیصلہ کیا جائے نہ سزا دی جائے نہ حکم جاری کیا جائے۔

120۔ اللہ کا دشمن

مَنْ ظَلَمَ عِبَادَ اللهِ كَانَ اللهُ خَصْمَهٗ دُوْنَ عِبَادِهٖ۔ (خط 53)
جو خدا کے بندوں پر ظلم کرتا ہے تو بندوں کے بجائے اللہ اس کاحریف و دشمن بن جاتا ہے۔

انسان کی زندگی کے زینت اعمال میں سے عدل و انصاف ہے اور انصاف کے متضاد ظلم ہے۔ انصاف یعنی اجتماعی حقوق میں اپنے اور دوسروں کے درمیان برابری کو مدنظر رکھنا۔ روایات میں انصاف کی یہ تعریف بھی ذکر کی گئی ہے کہ جو اپنے لیے چاہتے ہو وہ دوسروں کے لیے بھی چاہو اور جو اپنے لیے پسند نہیں کرتے وہ دوسروں کے لیے بھی نا پسند کرو۔ اس حصے میں امیرالمؤمنینؑ نے بطور گورنر مالک اشتر کو انصاف کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اللہ کے بندوں پر ظلم و زیادتی کرتا ہے تو گویا اس نے اللہ سے دشمنی کی اور اس کا حریف اللہ ہوگا۔ اب جس کا حریف و مد مقابل اللہ ہے اس سے بدتر کون ہو سکتا ہے۔اس فرمان سے انسان کی عظمت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کے ہاں انسان کا کیا مقام ہے ۔ یہاں کسی نیک و پارسا انسان کا نہیں بلکہ عام انسان کا تذکرہ ہے۔

121۔ پردہ پوشی

فَاسْتُرِ العَوْرَةَ مَا اسْتَطَعْتَ۔ (خط 53)
جہاں تک بن پڑے عیبوں کو چھپاؤ ۔

امیرالمؤمنینؑ نے اس حصے میں ایک حکمران یا ادارے کے سربراہ کے طور پر حکم دیا ہے کہ آپ اپنے ماتحت کے رازوں کو راز رہنے دیں اور ان کے عیوب لوگوں کے سامنے مت لائیں۔ عیب پوشی ایک اچھی صفت ہے۔ جس انسان کےاپنے اندر عیوب پائے جاتے ہیں یااس سے کوئی خطا سرزد ہوتی ہے تو اپنی خطا پر خود پردہ ڈالے اور دوسروں سے انہیں مخفی رکھے۔ اور اگر وہ کسی کے گناہ سے آگاہ ہو جاتا ہے تو اس کا اخلاقی فریضہ ہے کہ اس کو پردے میں رہنے دے۔ جو لوگ دوسروں کے عیبوں سے پردہ ہٹاتے ہیں۔حاکم کے سامنے آ کر ان کے عیب بیان کرتے ہیں تو حاکم کے ہاں ایسے افراد کی اہمیت نہیں ہونی چاہیے اور مالک اشتر سے فرمایا کہ آپ جیسے یہ چاہتے ہیں کہ آپ سے کوئی خطا سرزد ہو تو دوسرے اس پر پردہ ڈالیں یا جیسے چاہتے ہیں کہ اللہ آپ کے گناہوں پر پردہ ڈالے تو یہی عمل خود بھی انجام دیں اور دوسروں کے عیبوں کو مت اچھالیں۔ پردے چاک کرنا ایک انسانی اخلاقی کمزوری ہے، اس سے محفوظ رہ کر انسان اپنے اخلاقی مقام کو بلند کر سکتا ہے۔

122کینہ

اَطْلِقْ عَنِ النَّاسِ عُقْدَةَ كُلِّ حِقْدٍ۔ (خط 53)
لوگوں سے کینہ کی ہر گرہ کھول دو۔

ہر شخص چاہتا ہے کہ دوسرے کے دل میں اس کی محبت جاگزیں ہو اور یہ اچھی سوچ ہے مگر اس سوچ کے لیے کچھ اقدام ضروری ہیں۔ امیرالمؤمنینؑ کے اس فرمان میں دو پہلو ہیں پہلا یہ کہ اگر کسی کے دل میں آپ کے بارے میں بغض و کینہ ہے تو اس کو محبت میں بدلنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اس سے محبت سے پیش آئیں، اسے عزت و احترام دیں تو اس کے دل میں آپ سےکینہ کی جگہ محبت آ جائے گی۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کسی نے آپ کی مخالفت میں کوئی قدم اٹھایا ہےتو اسے اپنے دل سے نکال دیں۔ یعنی جن لوگوں نے کوئی اچھائی کی اسے بھلائیں نہیں بلکہ موقع ملے تو اس کا بہتر انداز سے بدلہ دیں اور اگر کسی نے برائی کی تو اسے یاد نہ رکھیں اور کبھی انتقام کا تصور بھی نہ کریں یوں دلوں میں محبت پیدا ہوگی۔یعنی کینہ و عداوت کی مرض نہ اپنے دل میں ّنے دیں کہ آپ کسی سے بغض و کینہ رکھیں اور کوشش کریں کہ دوسروں کے دلوں میں بھی آپ سے متعلق کینہ نہ رہے۔کبھی کسی کی خدمت کر کے ،کبھی کسی سے معذرت کر کے آپ دوسروں کو راضی و خوش رکھنے کی کوشش کریں۔

123۔ بخیل سےمشورہ

وَلَا تُدْخِلَنَّ فِيْ مَشْوَرَتِکَ بَخِيْلاً يَعْدِلُ بِکَ عَنِ الْفَضْلِ۔ (خط 53)
اپنے مشورے میں کسی بخیل کو شریک نہ کرنا کہ وہ تمھیں دوسرے کے ساتھ بھلائی کرنے سے روکے گا۔

انسان زندگی کی بہتری کے لیے ہمیشہ دوسروں سے مشورے لیتا رہتا ہے اور اجتماعی زندگی میں مشورے کی اہمیت بڑی واضح ہے۔ امیرالمومنینؑ نے نہج البلاغہ مین کئی مقامات پر مشورے کی اہمیت کو بیان کیا ہے۔یہاں آپؑ نےتین قسم کے افراد سے مشورے سے منع فرمایاہے اور واضح فرمایا ہےکہ بخیل سے مشورہ نہ کریں وہ دوسروں سے بھلائی سے روکے گا۔ بزدل سے مشورہ نہ کریں وہ ہمت پست کرے گا اور لالچی سے مشورہ نہ کریں کہ وہ دوسروں پر ظلم کرکے مال جمع کرنے کو خوبصورت انداز میں پیش کرے گا۔ حقیقت میں امیرالمومنینؑ نے نفسیات کے تین بنیادی مسائل یعنی سخاوت، شجاعت، اور قناعت کی تاکید کی ہے۔ اجتماعی زندگی میں ان اخلاقی اقدار کو مدنظر رکھا جائے تو معاشرے میں بھی خوشحالی آ سکتی ہے اور انسان اپنی شخصی زندگی کو بھی کامیابی سے آگے بڑھا سکتے ہیں۔

124۔ خوشامد سے پرہیز

اَلْصَقْ بِاَهْلِ الْوَرَعِ وَالصِّدْقِ، ثُمَّ رُضْهُمْ عَلٰی اَلَّا يُطْرُوْکَ وَلاَ يَبْجَحُوْکَ بِبَاطِل لَمْ تَفْعَلْهُ۔ (خط 53)
پرہیز گاروں اور سچے لوگوں سے خود کو وابستہ رکھنا، پھر انہیں اس کا عادی بنانا کہ وہ تمھارے کسی کارنامے کے بغیر تمہاری تعریف کر کے تمہیں خوش نہ کریں۔

امیرالمؤمنینؑ کے یہ قیمتی اصول اگرچہ ایک گورنر کے طور پر جناب مالک اشتر کے لیے بیان ہوئے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی ادارے کا سربراہ بلکہ گھر کا سربراہ بھی ان اصولوں کو اپنا کر اپنے مقام کوبلند کر سکتا ہے بلکہ شخصی طور پر بھی آدمی ان بنیادی اصولوں کو اپنا کر زندگی گزارے تو اس کی زندگی کامیاب زندگی بن سکتی ہے۔سب سے پہلے تو حاکم کا اٹھنا بیٹھنا ایسے لوگوں سے ہو جو حق کہنے کی جرأت رکھتے ہوں چونکہ حق کہنا اکثر کڑوا ہوتا ہے ۔ دوسرے مرحلے میں حکمران کو بھی ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور ایسی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ چاپلوسی اور خوشامد نہ کریں بلکہ حقائق سے آگاہ کریں۔ دونوں طرف سے یہ حقائق اپنائے جائیں تو معاشرے میں خوشحالی رواج پا سکتی ہے۔

125۔ نیک و بد میں امتیاز

لَا يَكُوْنَنَّ الْمُحْسِنُ وَالْمُسِيْءُ عِنْدَكَ بِمَنْزِلَةٍ سَوَاءٍ۔ (خط 53)
تمہارے نزدیک نیکوکار اور بدکردار دونوں برابر نہ ہوں۔

کسی بھی سربراہ کے لیے خواہ وہ گھر کا سربراہ ہو یا حکومت کا اس کے لیے اہم اصول ہے کہ اچھے کام انجام دینے والے کو انعام و اکرام سے نوازا جائے اور بدکردار کو اس کے عمل کی سزا دی جائے۔ اس لیے کہ اگر اس کے خلاف عمل انجام دیا گیا تو اچھائی اور برائی کرنے والے برابر قرار پائیں گے۔ یہ برابری اچھائی انجام دینے والے کی حوصلہ شکنی اور غلط کار کی ہمت میں اضافہ کا سبب بنے گی۔ سزا اور جزا ہر معاشرے کا مسلمہ اصول ہے اور جب خطاکار کو عزت و احترام اور انعام و اکرام سے محروم رکھا جائے گا تو وہ خود بخود اچھائیوں کی طرف راغب ہوگا۔ یوں معاشرے کے افراد کی بہتر تربیت ہو گی۔

126۔ خود پسندی

اِیَّاکَ وَ الْاِعْجَابَ بِنَفْسِکَ وَ الثِّقَةَ بِمَا یُعْجِبُکَ مِنْهَا وَ حُبَّالاِطْرَاءِ۔ (خط 53)
اور دیکھوں ! خود پسندی سے بچتے رہنا اور اپنی جو باتیں اچھی معلوم ہوں ان پر فخر نہ کرنا اور لوگوں کے بڑھا چڑھا کر سراہنے کو پسند نہ کرنا۔

کسی راہنما کا کمال یہی ہوتا ہے کہ وہ جہاں ہدف و منزل کی راہیں بتاتا ہے وہیں اس راہ کی رکاوٹوں سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ کا مالک اشتر کے لیے یہ خط نظام حکومت کا مکمل دستور العمل ہے اور عام افراد بھی اپنی ذاتی زندگی میں اسے اپنا کر کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں۔ آپ نے یہاں کامیابی کے راستے میں درپیش تین خطرات سے آگاہ کیاہے۔ ایک یہ کہ خود پسندی اور محبتِ ذات انسان کو اپنی کمزوریاں نہیں دیکھنے دیتی ۔ دوم اپنے مثبت پہلوؤں کو بہت بڑا سمجھ کر مزید بہتری کی کوشش ہی نہیں کرتا اور تیسرا یہ کہ اپنی بڑائی کی وجہ سے وہ دوسروں سے مدح و ثنا کا طلب گار رہتا ہے اور یہ سوچ انسان کو نہ فقط یہ کہ کمال کی طرف بڑھنے نہیں دیتی بلکہ انسانیت سے گرانے کا ذریعہ بنتی ہے۔

127۔ احسان جتانا

اِیَّاکَ وَ الْمَنَّ عَلٰی رَعِیَّتِکَ بِاِحْسَانِکَ۔ (خط 53)
رعایا کے ساتھ نیکی کر کے کبھی احسان نہ جتانا۔

انسان کے کمال میں رکاوٹ بننے والی چیزیں یہاں امیرالمؤمنینؑ نے بیان فرمائیں۔ یہ قرآنی اصول ہیں جو آپ نے اپنے الفاظ میں پیش فرمائے۔ پہلا یہ کہ احسان کرو مگر اس احسان کو مت جتاؤ، دوسرا یہ کہ جو حسن سلوک کرو اسے زیادہ نہ سمجھو اور تیسرا یہ کہ وعدہ خلافی سے بچو وگرنہ دوسرے انسانوں کے دل میں اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ خود خالق بھی ایسے افراد کو پسند نہیں کرتا۔ ایسی اخلاقی کمزوریاں انسان کو کمزور کر دیتی ہیں اور اچھائیوں کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ مثلاً آپ نے کسی پر احسان کیا تو اس کا فریضہ ہے کہ احسان کا بدلا احسان سے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر دے۔ یوں اسے بھی احسان کی ترغیب ہوگی مگر احسان کر کے آپ نے جتانا شروع کیا تو وہ آپ کے احسان کے جواب میں احسان کرے گانہیں بلکہ بدلا دینے کے لیے اچھائی کرے گا تو یوں اس کی فکر میں ایک کمزوری پیدا ہو جائے گی۔

128۔ موقع و محل

ضَعْ کُلَّ اَمْرٍ مَوْضِعَهُ وَ اَوْقِعْ کُلَّ اَمْرٍ مَوْقِعَهُ۔ (خط 53)
ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھو اور ہر کام کو اس کے موقع پر انجام دو۔

اجتماعی زندگی ہو یا شخصی زندگی ہر قدم کا اپنا اثر ہوتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے اس حصے میں چار اہم اصول بیان فرمائے ہیں اور آخر میں ان کا خلاصہ بیان کیاہے۔ اگر ان جملات کو علم نفسیات کی بنیاد کہا جائے تو بجا ہوگا۔ فرمایا: دیکھو! وقت سے پہلے کسی کام میں جلد بازی نہ کرنا اور جب اس کا موقع آ جائے تو پھر کمزوری نہ دکھانا اور جب صحیح صورت سمجھ نہ آئے تو اس پر مصر نہ ہونا اور جب طریقہ کار واضح ہو جائے تو پھر سستی نہ کرنا۔ ان چار اصولوں کے بعد آپ نے دو جملوں میں ان کا خلاصہ بیان کیا اور فرمایا: ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھو اور ہر کام کو اس کے موقع پر انجام دو۔

129۔ خود پر قابو

اَمْلِکْ حَمِيَّةَ اَنْفِکَ، وَسَوْرَةَ حَدِّکَ، وَسَطْوَةَ يَدِکَ وَغَرْبَ لِسَانِکَ۔ (خط 53)
غضب کی تندی، سرکشی کا جوش، ہاتھ کی جنبش اور زبان کی تیزی پر ہمیشہ قابو رکھو۔

انسان زندگی میں بہت سی چیزوں کا مالک بن کر رہتا ہے اور مزید ملکیت کی کوشش کرتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ یہاں مالک اشتر کو چار چیزوں کا مالک بن کر رہنے کی تاکید کرتے ہیں۔ اگر انسان ان افعال پر قابو پا لے اور ان جذبات کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکے تو وہ کامیاب انسان ہوگا۔ انسان اپنے غصہ و غضب پر اگر قابو پا لے اور اس غضب کی وجہ سے جو سرکشی پیدا ہوتی ہے اور بڑے بڑے جرم کروا دیتی ہے اسے کنٹرول کر لے، پھر ہاتھ اور زبان کو غضب کے تحت استعمال نہ کرے بلکہ مقصد کے لیے استعمال کرے تو یقیناً نفس کے اس مرکب کا سوار بن کر مقصد کو پا لے گا۔ان جملات میں جہاں ان چار اعمال کو کمزوری کے طور پر پیش کیا وہیں یہ بھی واضح فرمایا کہ انہیں کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔اگر کوئی شخص ان حرکات پر قابو پا لے تو وہ زندگی کی سعدتوں کو حاصل کرنے والا ہو گا۔

130۔ برائی سے بچاؤ

فَاجْتَنِبْ مَا تُنْكِرُ اَمْثَالَهٗ۔ (خط 55)
دوسروں کے جن کاموں کو تم برا سمجھتے ہو ان سے اپنا دامن بچا کر رکھو۔

انتہائی مختصر جملوں میں زندگی سنوارنے کے اصول بیان کرنا فصاحت و بلاغت کی عظیم نشانی ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے اس جملے میں بھی نہایت ہی مختصر الفاظ میں بہت وسیع پیغام دیا ہے۔ دوسروں کی کمزوری کو دیکھنا عام آدمی آسان سمجھتا ہے اور ان سے سرزد ہونے والی چھوٹی سی غلطی کو بڑا سمجھتا ہے۔ بہت سے لوگوں کی زندگیاں دوسروں کی زندگی میں واقع ہونے والی کمزوریوں کی تلاش میں گزرتی ہیں۔اور جب کسی کی کوئی غلطی نظر آجائے تو ایک طویل عرصہ اس کو دوسروں کے لیے بیان کرنے میں گزار دیتا ہے۔ انسان اگر اپنی اصلاح کے لیے دوسروں کو آئینہ بنا لے تو اپنی غلطیاں آسانی سے جان سکتا ہے۔جو غلطی کسی میں دیکھی اسے باریک بینی سے اپنے اندر دیکھے۔جب وہ غلطی اپنے اندر مل جائے گی تو پھر ایک ہی ہدف بنائے کہ آئندہ ان غلطیوں سے اپنا دامن بچانا ہے۔یوں اس کی اپنی اصلاح ہو جائے گی۔مثلا کوئی ظلم کرے تو ہر کسی کو برا لگتا ہے دیکھنا یہ ہے کہ وہی ظلم میں تو نہیں کر رہا؟ یوں یہ ایک اصول انسان کی زندگی کو سنوار سکتا ہے۔

131۔ عبرت

اِعتَبِرْ بِمَا مَضٰی مِنَ الدُّنْيَا لِمَا بَقِيَ مِنْهَا۔ (خط 69)
گزری ہوئی دنیا سے باقی دنیا کے بارے میں عبرت حاصل کرو۔

زندگی کا یہ مختصر دستور العمل تینتیس ’’33‘‘ اصولوں پر مبنی ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے اپنے نہایت ہی پیارے ساتھی حارث ہمدانی کو سعادت مند زندگی کے یہ اصول تعلیم فرمائے۔ گویا یہ استاد کے شاگرد کو ،دوست کے دوست کو اور امام کے ماموم کو دیے ہوئے درس ہیں۔ یہ کامیاب زندگی کا ایک جامع اور مختصر باب ہے۔ سب سے پہلے آپؑ نے قرآن مجید سے نصیحت حاصل کرنے کی تاکید فرمائی اور دنیوی اور اُخروی زندگی کی سعادت کے اس اصول کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا۔ پھر قرآنی اصولوں کو اپنے الفاظ میں واضح فرمایا۔ اس فرمان میں دنیا کو ایک کمرہ امتحان قرار دیا۔ اس کمرے کو سامنے رکھا جائے کچھ حصہ اس امتحان کا گزر گیا اور کچھ گزر رہا ہے۔اس امتحان گاہ میں باقی وقت میں کیا کرنا ہے۔ اگر کوئی دنیا کی حقیقت کو سمجھ لے اور یقین کر لے کہ یہ باقی رہنے والی نہیں ہے مگر اس سے وہ کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے جو باقی رہ جائے گا۔ مثلاًکچھ ایسے کام کر جائیں جن کے فوائد دیر پا ہوں اور جن سے آئندہ آنے والوں کی زندگیاں سنور سکیں تو آپ کے چلے جانے کے بعد بھی آپ باقی ہیں چونکہ آپ کا کام باقی ہے۔امیر المؤمنینؑ کے اس فرمان میں مہم سبق یہ ہے کہ گزشتہ لوگوں کی زندگیوں سے عبرت حاصل کریں اور زندگی کے بنیادی اصولوں کو تاریخ کے اوراق سے سیکھ کر اپنی زندگی کے لیے مناسب فیصلے کر یں اور اپنی زندگی کے گزشتہ دنوں کے تجربات سے سبق حاصل کریں اور ان تجربوں کی روشنی میں قدم آگے بڑھائیں اور اپنی زندگی کو کامیاب بنا ئیں۔

132۔ پیمانہ ٔزندگی

اِحْذَرْ كُلِّ عَمَلٍ يَرْضَاهُ عَامِلُهٗ لِنَفْسِهٖ وَيَكْرَهُهٗ لِعَامَّةِ الْمُسْلِمِيْنَ۔ (خط 69)
ہر اس کام سے بچو جو آدمی اپنے لیے پسند کرتا ہو اور عام مسلمانوں کے لیے نا پسند کرتا ہو۔

ایک عام انسان کے لیے اپنی زندگی گزارنے کا پیمانہ معین کرنے کے لیے یہ فرمان بہت آسان اور مفید ہے۔ دوسروں کی زندگیوں کو ہم اکثردیکھتے ہیں اور اس کی زندگی کے معاملات سے ہمارا تعلق ہو نہ ہو اس میں اپنی پسند اور نا پسند کا معیار قائم کرتے ہیں۔یعنی یہ پہلو مدنظر رکھتے ہیں کہ اس کی زندگی اچھی ہے یا کمزور ہے۔دوسروں کی زندگیوں کے مطالعہ کی روش کو اگر تھوڑا سا بدل دیا جائے اور جو چیزیں دوسروں کی زندگی سے ہم نا پسند کرتے ہیں انھیں اپنی زندگی میں بھی نا پسند کریں۔یعنی دوسروں کی زندگی کے آئینہ میں اپنی زندگی کی حقیقت کو دیکھیں اس طرح ایک توہم اپنی زندگی کی اصلاح کر لیں گے اور ثانیاً دوسروں کی زندگی کے امور میں مداخلت کا ہمارے پاس جواز ہی نہیں رہے گا۔ اور لوگ ہمارے بے جا تبصروں سے محفوظ ہو جائیں گے اور یوں بہت سوں کی زندگیوں میں سکون آ جائے گا۔

133۔ حیا

اِحْذَرْ مِنْ كُلِّ عَمَلٍ يُعْمَلُ فِي السِّرِّ وَيُسْتَحْيَا مِنْهُ فِي الْعَلَانِيَةِ۔ (خط 69)
ہر اس کام سے دور رہو جو چوری چھپے کیا جا سکتا ہو مگر اعلانیہ کرنے میں شرم دامن گیر ہوتی ہو۔

حیا ایک بہترین انسانی صفت ہے جو انسان کو کئی برائیوں سے روکے رکھتی ہے۔ حیا کی وجہ سے انسان بہت سی غلطیوں کو انجام دیتے وقت دوسروں سے چھپاتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ یہاں اس صفتِ حیا سے زندگی کا ایک درس دے رہے ہیں کہ جب آپ کسی عمل کو چوری چھپے انجام دے رہے ہیں تو جان لیجئے کہ یہ غلطی ہے اور جب غلطی ہے تو اسے چھپا کر انجام دینے کے بجائے ترک ہی کر دیجئے۔اس لیے کہ جس غلطی کو آپ چھپا رہے ہیں ممکن ہے کل وہ ظاہر ہو جائے تو آپ کو شرمساری کا سامنا کرنا پڑے گا۔اور لوگوں سے تو آپ غلطیوں کو چھپا سکیں گے مگر اللہ تو سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ اس فرمان پر عمل کر کے انسان اپنے ظاہر و باطن دونوں کی اصلاح کر سکتا ہے اور یوں سعادت مند زندگی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔

134۔ عذر

اِحْذَرْ كُلِّ عَمَلٍ إِذَا سُئِلَ عَنْهُ صَاحِبُهُ اسْتَحْيَا مِنْهُ وَاَنْكَرَهُ۔ (خط 69)
ہر اس عمل سے بچو کہ جب اس کے مرتکب ہونے والے سے جواب طلب کیا جائے تو وہ خود بھی اسے برا قرار دے یا اسے معذرت کی ضرورت پڑے۔

غلط کیا ہے اور صحیح کیا ہے اس کی پہچان کے لیے اس فرمان میں وضاحت کی گئی ہے۔ انسان کا ضمیر جب تک بیدار ہوتا ہے اس میں یہ ہمت ہوتی ہے کہ وہ ضمیر کے فیصلوں کا لحاظ کرتا ہے اور ضمیر کے خلاف عمل کر بھی بیٹھے تو اسے خودبرا جانتا ہے یا اس سے اس غلطی کے بارے سوال کیا جائے تو معذرت کرتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں ایسے عمل سے خود کو محفوظ رکھو اور بچاؤ کیونکہ انکار اور عذر اس عمل کی برائی کی نشانی ہے اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں ہم نے عذر خواہی کر لی تو گویا وہ غلطی غلطی نہیں رہی جبکہ یہ صحیح نہیں ہے۔ اگر ضمیر کے خلاف ایسے اعمال کو مسلسل انجام دیا جائے تو اس کا نقصان یہ ہوتا کہ ضمیر بھی مر جاتا ہے اور وہ غلطی کو غلطی ہی نہیں سمجھتا اور جب غلطی نہیں سمجھے گا تو معذرت بھی نہیں کرے گا۔

135۔ سُنی سنائی بات

لَا تُحَدِّثِ النَّاسَ بِكُلِّ مَا سَمِعْتَ بِهٖ، فَكَفٰى بِذٰلِكَ كَذِبًا۔ (خط 69)
جو سنو اسے لوگوں سے حقیقت کی حیثیت سے بیان نہ کرتے پھرو کہ جھوٹا قرار پانے کےلیے اتنا ہی کافی ہوگا۔

انسان کی ایک کمزوری یہ ہے کہ وہ جو سنتا ہے اسے آگے کہنا لازمی سمجھتا ہے۔ آج میڈیا کے دور میں امیرالمؤمنینؑ کا یہ فرمان خاص اہمیت کا حامل ہے۔ آج یہ دیکھے بغیر کہ جو بات سنی ہے وہ مکمل ہے یا نا مکمل، صحیح ہے یا غلط ہر کوئی سوچے اور جانے بغیر آگے بڑھا دیتا ہے۔ بلکہ کئی بار تو وہ پیغام پورا پڑھے بغیر آگے بھیج دیا جاتا ہے۔ امام ؑ واضح فرماتے ہیں کہ اگر آپ نے کچھ سنا تو یہ سننا ایک عمل ہے مگر جب آپ نے اسے آگے بڑھایا تو حقیقت میں اگلے شخص تک پہنچانے والے آپ ہیں اور جب آپ نے کسی تک پہنچایا تو یہ آپ کا ایک عمل ہے اور جب اس پیغام میں موجود بات حقیقت کے خلاف ثابت ہوگی تو آپ بھی جھوٹ پھیلانے والوں میں شمار ہوں گے۔ اس لیے جو سنیں اسے آگے تب بڑھائیں جب اس کا کوئی مقصد اور فائدہ ہو۔

136۔ عفو و درگزر

وَاصْفَحْ مَعَ الدَّوْلَةِ، تَکُنْ لَکَ الْعَاقِبَةُ۔ (خط 69)
اقتدار کے ہوتے ہوئے معاف کرو تو انجام کی کامیابی تمھارے ہاتھ رہے گی۔

کامل انسان کی ایک پہچان یہ ہے کہ جب اس کے ہاتھ میں اقتدار ہو اور سامنے والے سے انتقام کا اس کے پاس مکمل اختیار ہو پھر بھی اسے معاف کر دے اور درگزر سے کام لے ۔ اس فرمان میں آپ نے کامیابی کاایک اصول معین فرمایا۔اب ہر کسی کو خود طے کرنا ہے کہ میں کس معیار پر ہوں۔ بہت سے افراد اقتدار کی صورت میں انتقام کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور اپنی طاقت ثابت کرنے کے لیے سزائیں دیتے ہیں مگر وہ ظاہر پر ہی اقتدار قائم کر سکتے ہیں۔ دلوں پر حکمرانی چاہیے تو اس کا اصول وہی ہے کہ جو امام نے یہاں بیان فرمایاہے۔
پیغمبر اکرمؐ اور امیر المؤمنینؑ کی زندگی میں اس اصول پر عمل واضح طور پر اور بار بار دکھائی دیتا ہے۔بڑے سے بڑے مخالف اور زیادہ سے زیادہ تکلیفیں پہنچانے والے افراد پر بھی جب غلبہ اور فتح ملی تو عفو و درگزر سے کام لیا۔فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہؐ کے عفو و درگزر کے کردار کا دشمن نے بھی اقرار کیا ہے۔اس لیے امامؑ کے اس اصول پر عمل پیرا ہو کر دشمن سے بھی اپنے اخلاقیات کے کمال کو منوایا جا سکتا ہے۔

137۔ بخشش

وَ لْیُرَ عَلَیْکَ اَثَرُ مَا اَنْعَمَ اللَّهُ بِهٖ عَلَیْکَ۔ (خط 69)
اللہ نے جو انعامات تمھیں بخشے ہیں ان کا اثر تم پرظاہر ہونا چاہیے۔

امیرالمؤمنینؑ نے اس دستور العمل کے اس حصہ میں اللہ کی دی ہوئی نعمات سے استفادے کے طریقے بتائے ہیں۔ دنیا میں جو ملا ہے اس پر شکر بجا لائیں اور دینے والے کو یاد رکھیں، اس میں اسراف کر کے ضائع نہ کریں اور جو نعمات آپ کو ملی ہیں ان کا اثر آپ پر ظاہر ہونا چاہیے۔ بخل و تنگ نظری اور نا شکری سے بچیں ان نعمات کو اپنے لیے بھی استعمال کریں اور دیگر بندگان خدا کو بھی ان سے حصہ ادا کیجئے۔ یعنی اپنی ذات پر استعمال کرنے میں بخل نہ کریں اور دوسروں کے لیے بھی سخاوت سے کام لیں۔قرآن مجید نے بھی اس اصول کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے کہ اللہ نے دنیا میں آپ کو جو حصہ عطا فرمایا ہے اسے اپنے لیے بھی استعمال کریں اور اس عطائے الہی کو بندگانِ خدا کے لیے بھی خرچ کر کے اپنی آخرت کو سنواریں۔

138۔ صحبت کا اثر

وَاحْذَرْ صَحَابَةَ مَنْ يَفِيْلُ رَاْيُهٗ، وَيُنْكَرُ عَمَلُهٗ فَاِنَّ الصَّاحِبَ مُعْتَبِرٌ بِصَاحِبِہٖ۔ (خط 69)
اس آدمی کی صحبت سے بچو جس کی رائے کمزور اور عمل برے ہوں کیونکہ آدمی کا اس کے ساتھی پر قیاس کیا جاتا ہے۔

انسان معاشرتی مخلوق ہے۔ مل جل کر رہنے والی مخلوق ہے۔انسان ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور مدد لیتے ہیں۔ اس فرمان میں آپ ؑنے خبردار کیا ہے کہ جس کی فکر اور رائے ضعیف و کمزور ہو یا جس کے اعمال کمزور اور غلط ہوں اس کی صحبت سے دور رہیں اور وجہ بھی واضح فرمائی کہ انسان کو اپنے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔ یہاں آپ نے کمزور رائے والے کی صحبت سے بچنے کا پہلے ارشاد فرمایا اس لیے کہ اگر کسی کا نظریہ اور سوچ کمزور ہو گی تو اس کے اعمال بھی اسی سوچ کے مطابق ہوں گے جو یقینا کمزور ہوں گے۔کمزور رائے والے آدمی کے ساتھ یا تو اس کی اصلاح و ہدایت کے لیے بیٹھا جائے یا پھر خود کو اس سے الگ رکھا جائے۔غلط اور کمزور سوچ والے آدمی کے ساتھ آپ بیٹھیں گے تو وہ کوشش کرے گا کہ آپ کو بھی اپنا ہم فکر بنا لے۔آپ اگر باربار ایک بات اس سے سنیں گے تو آپ کی صحیح سوچیں کمزور پڑنا شروع ہو جائیں گی۔اسی طرح اگر کسی کا عمل غلط ہے اور آپ کا اور تو اس میں کوئی حصہ نہیں مگر اس غلط عمل کے وقت یا پہلے یا بعد میں آپ اس کے ساتھ بیٹھے ہیں تو آپ کا شمار بھی اسی قسم کے لوگوں میں ہونے لگے گا۔

139۔ با مقصد گفتگو

وَاقْصُرْ رَايَكَ عَلَى مَا يَعْنِيْكَ۔ (خط 69)
صرف مطلب کی باتوں میں اپنی رائے کا اظہار کرو۔

انسان کے قیمتی سرمایوں میں سے ایک وقت ہے۔ بہت سے افراد اس سرمائے کو مختلف طریقوں سے ضائع کر دیتے ہیں۔ وقت کے ضیاع کا ایک بڑا مصداق وہ باتیں ہیں جن کے کہنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ اکثر نقصان ہوتا ہے اور بہت سے لوگ اپنی زندگی کا بڑا حصہ ان باتوں کے صحیح اور غلط ثابت کرنے میں گزار دیتے ہیں جن کے صحیح یا غلط ثابت ہونے پر ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ایسی غیر مربوط باتوں کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان ان امور اور کاموں سے غافل ہو جاتا ہے جن کا جاننا یا جن کا اظہار اس کے لیے لازم ہوتا ہے۔ اس لیے حکماء نے واضح الفاظ میں فرمایاہے کہ جو باتیں آپ سے ربط نہیں رکھتیں ان کے قریب بھی نہ جاؤ۔ ایک سمجھدار آدمی کی پہچان بھی اسی سے ہوگی کہ وہ خود کو بے ربط باتوں میں نہیں الجھائے گا۔

140۔ شکر کا راستہ

وَاَكْثِرْ اَنْ تَنْظُرَ اِلٰی مَنْ فُضِّلْتَ عَلَيْهِ، فَاِنَّ ذَلِكَ مِنْ اَبْوَابِ الشُّكْرِ۔ (خط 69)
جو لوگ تم سے کم حیثیت کے ہیں انہی کو زیادہ دیکھا کرو کیونکہ یہ تمھارے لیے شکر کا ایک راستہ ہے۔

انسان کو جو چیزیں پریشان رکھتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ نہ اپنے پاس موجود نعمات و سہولیات کو یاد کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی نظر اپنے سے نیچے اور محروم لوگوں پر پڑتی ہے بلکہ اکثر لوگ دنیا پرستوں کی دنیا کو دیکھتے ہیں۔ اسی کی گنتی اور حساب میں مشغول رہتے ہیں، جو ان کے پاس ہے اس کا شکر کرنا بھول جاتے ہیں اور جو دوسروں کے پاس ہے اس کو مدنظر رکھ کر اپنی زندگی پر افسوس کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو جتنی دنیا بھی مل جائے اپنی زندگی پر مطمئن نہیں ہوتے اور خود کو بد قسمت سمجھتے رہتے ہیں۔
امیرالمؤمنینؑ نے اس فرمان میں اس عمومی مرض کا علاج بیان فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ دنیاوی طور پر اپنے سے اوپر والوں کے بجائے اپنے سے نیچے والوں کو دیکھیں تو آپ کو اپنے پاس موجود نعمات بہتر نظر آئیں گی۔ یوں شکر کا احساس بیدار ہوگا اور ساتھ ہی اپنے نیچے والوں کی مدد کا جذبہ پیدا ہوگا اور جو نعمات نصیب ہیں ان میں اپنے سے کمزوروں پر خرچ بھی کر سکیں گے۔ یوں آپ کی زندگی میں بھی سکون و اطمینان آئے گا اور آپ کی وجہ سے غریب و کمزور کو بھی آرام و راحت ملے گی۔

141۔ دوستی کا معیار

وَقِّرِ اللهَ وَ اَحْبِبْ اَحِبّاءَهٗ۔ (خط 69)
اللہ کی عظمت کا خیال رکھو اور اس کے دوستوں سے دوستی کرو۔

یہاں جس انسان کامل کے فرامین سے کامیاب زندگی کے اصول بیان کئے جا رہے ہیں اگر اس کی زندگی کی کامیابی کو ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو وہ یہی جملہ ہے جو آپ نے حارث ہمدانی کو تعلیم دیا۔ اور وہ جملہ ہے : اللہ کی عظمت کا خیال” نگاہ میں عظمت خدا رچ بس جائے توپھر اللہ کے علاوہ کائنات کی کسی چیز پرنظر نہیں ٹھہرتی، پھر اللہ کی عظمت کا اظہار اس کے بندے اس طرح کرتے ہیں کہ اللہ ہی کے لئے ان کی محبت ہوتی ہے اور اللہ ہی کے لئے ان کا کسی سے اختلاف و بغض ہوتا ہے۔ اللہ کے محبوب بندوں کی نشانی یہ ہے کہ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے اللہ کی عظمت ذہن میں جاگزیں ہوتی ہے۔ جنھیں اللہ سے محبت ہو جاتی ہے باقی سب محبتیں ان کے دل سے نکل جاتی ہیں اور جب دل میں اللہ کی محبت رچ بس جائے پھر سکون ہی سکون ہے بلکہ پھر وہ سکون بانٹنے والے بن جاتے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ والے سکون ہی تقسیم کرتے ہیں جو انھیں اللہ سے بڑی مقدار میں نصیب ہوا ہوتا ہے۔

142۔ غضب

وَاحْذَرِ الْغَضَبَ، فَاِنَّهٗ جُنْدٌ عَظِيْمٌ مِنْ جُنُوْدِ اِبْلِيْسَ۔ (خط 69)
غصے سے ڈرو کیونکہ یہ شیطان کے لشکروں میں سے ایک بڑا لشکر ہے ۔

حارث ہمدانی کو امیرالمؤمنینؑ نے سعادت مندانہ زندگی کا جو آخری سبق پڑھایا وہ یہ ہے کہ غصے سے بچو ۔ اس کی وجہ بھی واضح فرمائی کہ غصہ شیطان کے لشکروں میں سے بڑا لشکر ہے۔ شیطان جن راہوں سے انسان کو انسانیت سے گرا کر حیوانیت کی پستی میں ڈالتا ہے ان میں سے ایک بڑا ذریعہ غصہ ہے۔ غضب و غصہ انسان کی عقل کو اپنا قیدی بنا لیتا ہے اور جب وہ عقل سے ہٹ کر فیصلے کرتا ہے تو حیوان سے بھی پست تر ہوجاتا ہے۔ غصہ ایک ایسی آگ ہے جو انسان کے اپنے سکون کو جلا کر راکھ بنا دیتا ہے اور جن پر غصہ ہوتا ہے ان کے سکون کو بھی متزلزل کر دیتا ہے۔ چند لحظوں کا غصہ کئی بار انسان کی ساری زندگی کی پشیمانی کا سبب بن جاتا ہے اور پھر انسان ساری زندگی خود کو لعنت و ملامت کرتا رہتا ہے۔ غصہ کا اظہار دوسرے افراد پر مختلف طریقوں سے ہوتا ہے۔ کسی کو گالی تو کسی کو ضرب و شتم ،کسی کی توہین تو کسی کے گھر کی بربادی۔ امیرالمؤمنینؑ غصے کو شیطان کا لشکر اور وہ بھی عظیم کے اضافہ سے، قرار دے رہے ہیں یعنی دوسرے انسانوں سے زیادتی یہ شیطان کے لشکر کا کام ہے۔ کامیاب انسان دوسرے انسان کا احترام کرنے والا ہوتا ہے توہین کرنے والا نہیں۔انسان کبھی ٹھنڈے مزاج سے سوچے اور اس غصہ کے نقصانات پر غور کرے تو وہ اس کے نقصانات سے آگاہ ہو گا اور اسے کنٹرول کرنے کے طریقے اور علاج کو معین کر لے تو اس کے نقصانات سے محفوظ رہے گا۔

143۔ کشادہ روئی

سَعِ النَّاسَ بِوَجْهِكَ۔ (خط 69)
لوگوں سے کشادہ روئی سے پیش آؤ ۔

اخلاقیات میں درجنوں ایسے ذریعے ہیں جن سے انسان دوسرے لوگوں کو کچھ مال و دولت خرچ کئے بغیر خرید سکتا ہے اور اپنا بنا سکتا ہے۔ ان میں سے ایک ذریعہ یہی ہے جسے امامؑ نے ارشاد فرمایا ہے۔ لوگوں سے کھلے چہرے اور مسکراتے لبوں سے ملو۔ یہ پہلا برتاؤ اگر محبت کے اس انداز سے ہوگا تو ملنے والے کے دل میں آپ کی محبت جاگزیں ہو جائے گی اور آپ کے بارے میں اس کی سوچ مثبت ہوگی۔ اب اگر کہیں آپ سے کوئی غلطی بھی ہوگی تو وہ اس کا مثبت پہلو مدنظر رکھے گا۔ پیغمبر اکرمؐ کا مشہور فرمان ہے کہ آپ مال سے ہمیشہ لوگوں کو خود سے راضی نہیں رکھ سکتے کیونکہ مال محدود ہوتا ہے اور لوگوں کی خواہشیں لا محدود ہوتی ہیں لیکن اخلاق اور کشادہ روئی سے انہیں راضی رکھ سکتے ہیں۔ انسان اظہار محبت سے لوگوں کو اپنا بنا لے گا تو دونوں طرف سے زندگی کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ سکے گی۔البتہ یاد رہے کہ یہ مسکراہٹ اور اظہار محبت حقیقی ہو ورنی بناوٹی چیزوں کا اصل بہت جلد سامنے آ جاتا ہے۔

144۔ بد بخت

فَاِنَّ الشَّقِیَّ مَنْ حُرِمَ نَفْعَ مَا اُوْتِيَ مِنَ الْعَقْلِ وَ التَّجْرِبَةِ۔ (خط 69)
یقیناً وہ بد بخت ہے جو عقل و تجربہ کے ہوتے ہوئے اس کے فوائد سے محروم رہے۔

انسان کی زندگی میں بہت سے مواقع آتے ہیں جن سے وہ اپنی زندگی سنوار سکتا ہے اور خود کو کمال انسانی تک پہنچا سکتا ہے۔ کبھی کوئی ایسا مخلص استاد، تو کبھی کوئی خیر خواہ دوست، مگر زندگی میں دو چیزیں سکھانے کا بہترین ذریعہ ہیں،عقل اور تجربہ ۔ بلکہ امیرالمؤمنینؑ نے ایک مقام پر تو تجربہ ہی کو عقل قرار دیا اور ان دونوں کو یوں اکھٹا کیا جا سکتا ہے کہ لوگوں کے سیکھنے کے جو تجربے تاریخ میں ثبت ہیں انھیں سامنے رکھا جائے اور عقل کو استعمال کر کے ان سے سبق لیا جائے۔ دوسروں کے تجربوں سے سیکھنے میں وقت بھی بچے گا اور سیکھنے کی گنجائش بھی زیادہ ہوگی کیونکہ آدمی کئی لوگوں کے تجربات کو سامنے رکھ سکتا ہے۔یوں انسان سعادت مند زندگی اپنا سکتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے عقل و تجربات کی اہمیت ان لفظوں میں واضح فرمائی کہ جو شخص ان سے بھی نہ سیکھے وہ یقیناً بد بخت اور نا کام ہے۔

145۔ لالچ

اَزْرٰى بِنَفْسِهٖ مَنِ اسْتَشْعَرَ الطَّمَعَ۔ (حکمت 2)
جس نے لالچ کو عادت بنا لیا اس نے خود کو پست و حقیر کیا۔

اللہ سبحانہ نے انسان کو عظمت و کرامت سے نوازا اور انسان سے یہی چاہا کہ اس عزت و کرامت کو باقی رکھے۔کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اس کرامت تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتی ہیں یا اس کرامت کے حصول کے بعد اسے نقصان پہنچاتی ہیں۔ اللہ والوں نے ان رکاوٹوں اور نقصان پہنچانے والے افعال سے بچ کر دکھایا بھی اور بتایا بھی۔اس فرمان میں امیرالمومنینؑ نے طمع و حرص کو نفس انسانی کو پست و حقیر کرنے کا سبب قرار دے کر اس خطرے سے آگاہ کیاہے۔ یوں اُس سے بچنے کی ترغیب دلائی ہے۔طمع و حرص: یعنی اپنے حق و ضرورت سے زیادہ کی طلب۔ کسی شخص کا کسی چیز کی یوں خواہش کرنا کہ وہ شی یا ضرورتِ زندگی دوسروں کو ملے یا نہ ملے مجھے ملنی چاہئیں۔ ایسا حریص شخص اپنی من پسند چیز کے حصول کے لئے ہر ذلّت اٹھاتا ہے اور ہر شخص کے سامنے دستِ سوال پھلاتا ہے اور یوں اپنی عزت و کرامت کو ذلت و خواری میں بدل لیتا ہے۔ طمع کے مقابل قناعت کی عادت ہے جس کی اہمیت و عظمت اپنے مقام پر بیان ہوگی۔

146۔ راز داری

رَضِيَ بِالذُّلِّ مَنْ كَشَفَ عَنْ ضُرِّهٖ۔ (حکمت 2)
جس نے ہر کسی کے سامنے اپنے دکھ بیان کیے اس نے خود کو ذلّت پر آمادہ کیا۔

انسانی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ کبھی صحت تو کبھی مرض، کبھی دولت تو کبھی فقر، کبھی خوشی تو کبھی غم۔ اب اگر دکھوں کا بکھیڑا ہر کسی کے سامنے بکھیر دیا جائے تو وہ دوست ہوگا تو غمگین ہو جائےگا اور دشمن ہوگا تو خوش ہوگا مگر ایک چیز دونوں صورتوں میں ہوگی کہ وہ دوسروں کے سامنے کمزور فرد شمار ہوگا۔ اس لیے اپنے ان دکھوں اور کمزوریوں کو ان کے سامنے پیش کریں جو ان کا حل نکال سکتے ہیں۔مرض کا حل طبیب سے پوچھے، حق چھن جانے کا شکوہ قاضی سے کرے، فقر سے نجات کے لیے معاشیات کے ماہر سے مشورہ کرے اور ہر کسی کے سامنے اپنا درد بیان کرکے خود کو حقیر بنانے کے بجائے صبر کو ڈھال بنا کر اپنی عزت و کرامت کو بچائے،یہی عقل کی نشانی ہے۔ اگر دکھ بیان کرنے ہی ہوں تو اس اللہ سے بیان کریں جس کے قبضۂ قدرت میں ان دکھوں کو دور کرنا ہے۔

147۔ زبان پر کنٹرول

هَانَتْ عَلَيْهِ نَفْسُهٗ مَنْ اَمَّرَ عَلَيْهَا لِسَانَهٗ۔ (حکمت 2)
جس نے خود پر زبان کو حاکم بنالیا اُس نے اپنی شخصیت کو ذلیل و رسوا کیا۔

زبان انسان کی خوش بختی کا بھی سبب بنتی ہے اور اسی سے بد بختی کے دروازے کھلتے ہیں۔ جب تک زبان عقل و فکر کے کنٹرول میں رہے انسان سعادت مند رہتا ہے اور جب زبان عقل و فکر کی سرحدوں کو عبور کر جائے، انسان کی زبان پر جو آئے کہتا جائے تو ایسی صورت میں انسان اپنے آپ کو ان خطاؤں میں ڈال لیتا ہے جن کی تلافی ممکن نہیں ہوتی۔ اگر کسی کی زبان سے صاحب عزت و آبرومند افراد کی توہین ہوتی رہتی ہے توجب اس کی زبان کی خود سری سے کسی کی عزت پائمال ہوگی تو خود اس شخص کی عزت بھی ذلت و رسوائی میں بدل جائے گی۔ امیرالمومنینؑ نے زبان کے خطرات سے بارہا الگ الگ انداز سے متنبّہ کیاہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی تعلقات کو بنانے اور بگاڑنے میں زبان کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ نے تاکید فرمائی ہے کہ اس زبان سےکریمانہ انداز سے بات کریں۔

148۔ بخل

اَلْبُخْلُ عَارٌ۔ (حکمت 3)
بخل ننگ و عار ہے۔

اللہ سبحانہ کی نگاہ میں ہر وہ چیز معیوب و قابل مذمت ہے جس میں دوسرے انسانوں کے لئے کوئی نقصان و ضرر ہو اور وہ چیز بارگاہ الہی میں لائق اعتنا نہیں جس میں انسانیت کے لیے کوئی فائدہ نہ ہو۔ انسانیت کا احترام رکھنے والی شخصیات بھی اُن امور سے نفرت کرتی ہیں جو مخلوقِ خدا کے لئے مفید نہ ہوں۔ بخل سے مراد ایسا طرزعمل ہے کہ جس کے مطابق اللہ نے جو دیا ہے اُسے مخلوق کو دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ بخیل کے پاس جتنا ہو وہ دینا نہیں چاہتا اور دوسرے انسانوں کو جتنی بھی ضرورت ہو اسے دینے پر آمادہ نہیں کرتی۔ یوں بخیل قسی القلب ہو جاتا ہے۔ اس کے پاس جتنا مال بھی ہو لوگوں کی نگاہ میں وہ قابل مذمت ہوتا ہے اور لوگ اس سے دوری اختیار کرتے ہیں۔
بخل کے متضاد جود و سخا ہے جس سے سرداری و عزت ملتی ہے اور لوگ سخی سے محبت کرتے ہیں۔ امیرالمومنینؑ نے متعدد مقامات پر مختلف الفاظ میں بخل کی مذمت کی ہے اور عملا ًبھی اس سے دور رہے ہیں۔ایک مقام پر فرماتے ہیں: کیا اتنا کافی ہے کی لوگ مجھے امیرالمومنینؑ کہیں اور میں اُن کی مشکلوں میں اُن کا شریک نہ ہوں۔ (خط ۴۵)

149۔ بزدلی

اَلْجُبْنُ مَنْقَصَةٌ۔ (حکمت 3)
بزدلی نقص و عیب ہے۔

انسان اگر کمال حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے کئی بار جرأت مندانہ فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور شجاعانہ قدم اٹھانے پڑتے ہیں مگر بزدل آدمی قابلیت و استعداد ہونے کے با وجود ڈر کی وجہ سے ان سے استفادہ نہیں کرتا اور نتیجہ میں زندگی میں ترقی نہیں کرسکتا۔ بزدل آدمی ہمیشہ منفی سوچتا ہے اور کسی بلند ہدف کے حصول کی طرف نہیں بڑھتا۔ وہ یوںسوچتا ہے کہ میں نے اگر وہاں پیسہ لگایا تو ڈوب جائے گا، میں نے اگر اس کام میں ہاتھ ڈالا تو ناکام ہو جاؤں گا۔ ایسی سوچیں اس کے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہیں۔ یہ ڈر اور بزدلی اسے ترقی نہیں کرنے دیتی۔ خوف اس کی طاقت کو سلب کر لیتا ہے اور وہ وہم و وسوسہ کی دیواروں میں قید ہو کر رہ جاتا ہے۔

150۔ فقر

اَلْفَقْرُ یُخْرِسُ الْفَطِنَ عَنْ حُجَّتِهٖ۔ (حکمت 3)
فقر و تنگدستی عقلمند کی زبان کو دلائل کی قوت دکھانے سے گونگا بنا دیتی ہے۔

فقر و تنگدستی انسانی زندگی پر بہت منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ امیرالمومنینؑ نے اپنے کلام میں بار بارفقر کی کمزوری بیان کی ہے۔ اس طرح آپؑ فقر سے لڑنے کی ہمت دلاتے ہیں اور محنت و مشقت کی ترغیب دیتےہیں۔ اس فرمان میں آپؑ فرماتے ہیں کہ فقیر و غریب آدمی جتنا بھی ذہین و فطین ہوگا۔ اپنی سچی بات منوانے کے لیے بھی اپنی دلیل نہیں منوا سکے گا۔ اس لیے کہ فقیر اپنے آپ کوکمزور سمجھنے لگتا ہے اور اپنا مدعاپیش ہی نہیں کر سکتا دوسری طرف لوگ بھی اس کی بات کو اہمیت دیتے ہیں جس کے پاس دولت ہو۔فقیر کی حالت میں صحیح بات بھی کوئی نہیں سنتا۔امیرالمومنینؑ ان جملوں میں جہاں فقر کے خلاف جرأت دلانا چاہتے ہیں وہاں فقر کو اللہ سے جوڑ کر کہتے ہیں کہ فقر کے ہوتے ہوئے بھی سچ کہا جا سکتا ہے۔ جیسے حضرت موسیٰؑ نے فقیرانہ لباس میں فرعون کے سامنے سچ کہنے کی جرأت کی۔ قرآن کہتا ہے: اَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ اِلَى اللهَ۔(فاطر ۱۵) جب انسان اپنے آپ کو اللہ کا فقیر سمجھتا ہے تو پھر فقر اس کی حق گوئی میں رکاوٹ نہیں بنتا بلکہ جرأت کا سبب بن جاتا ہے۔

151۔ مفلسی

اَلْمُقِلُّ غَرِيْبٌ فِيْ بَلْدَتِهٖ۔ (حکمت 3)
مفلس اپنے شہر میں رہ کر بھی پردیسی ہوتا ہے۔

فقر و افلاس کا ایک اثر امیرالمومنینؑ نے یہاں بیان فرمایاہے۔ اس مفہوم کے چند جملات آپ ؑسے نقل ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا پرست فقیر و تنگدست سے دور رہتے ہیں چاہے وہ اپنا بھائی اور رشتہ دار ہو اور چاہے اپنا ہمسایہ یا ہم شہری ہو۔ اس لیے غریب یعنی جس کا کوئی دوست و شناسا نہ ہو جسےملنے ملانے والے نہ ہوں لہٰذا آپؑ فرماتے ہیں: مفلسی وطن میں بھی پردیس بنائے رکھتی ہے اور اگر کسی کے پاس دولت ہے تو وہ دوسرے شہروں میں بھی تنہا نہیں۔
مقل: اس فقیر کو کہتے ہیں جو فقر کا اظہار نہیں کرتا بلکہ خود دار بن کر رہتا ہے۔ کسی عرب شاعر کا قول ہے کہ دور والے کو پردیسی نہ سمجھو پردیسی وہ ہے جس کے پاس مال کم ہے۔امیرالمومنینؑ ان جملوں سےفقر کے خلاف جنگ پر آمادہ کر رہے ہیں اور ساتھ اس طرف بھی توجہ دلا رہے ہیں کہ دولت کے نشے میں کوئی ضرورت مند و مفلس کو بھول نہ جائے بلکہ اسے یقین ہو کہ انسان کی اصل اس کی انسانیت ہے نہ کہ مال۔اس لیے کہ مال آنے جانے کی چیز ہے۔

152۔ عاجزی

اَلْعَجْزُ اٰفَةٌ۔ (حکمت 3)
عاجزی و درماندگی مصیبت و آفت ہے۔

کمال کی منزلوں کو طے کرنے کے لئے قدرت و طاقت لازمی ہے تاکہ انسان ان بلند اور مشکل منزلوں اور راہوں کو طے کر سکے۔ اس قدرت کا نہ ہونا عاجزی کہلاتا ہے۔ اب اگر یہ قدرت نہیں تو بڑی مصیبت و آفت ہے کیونکہ اس قدرت کے نہ ہونے یعنی عاجز ہونے کی صورت میں کمال کا حصول ممکن نہ ہوگا۔ اب یہ عدم قدرت و عاجزی جسمانی ہو سکتی ہے، مالی ہو سکتی ہے، علمی ہو سکتی ہے، اور روحانی بھی ہو سکتی ہے، عاجز انسان ہمیشہ ذلیل و خوار ہوگا اور عقب ماندہ ہوگا۔ یہ عجز اکثر انسان کی سستی و کوتاہی کی وجہ سے ہوتا ہے اس لئے اسلام سعی و کوشش کی تاکید کرتا ہے تاکہ عاجز نہ ہو اور اس آفت سے محفوظ رہے۔ اس فرمان میں گویا امیرالمومنینؑ خبردار کر رہے ہیں کہ زندگی میں سستی و بد نظمی سے بچو اس لئے کہ سستی و بدنظمی عاجز بنائے گی اور عجز انسانیت کے لئے مصیبت و آفت ہے۔

153۔ صبر

اَلصَّبْرُ شَجَاعَةٌ۔ (حکمت 3)
صبر و تحمل بہادری و شجاعت ہے۔

انسانی زندگی کی کامیابی کے ایک بہت بڑے ستون کا نام صبر ہے۔ انسان کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اور اس کا حصول اس کے لئے مشکل ہوتا ہے تو اس مشکل کو برادشت کرنا اور اس مشکل کے باوجود کمال کی طرف رواں دواں رہنا صبر کہلاتا ہے۔ کبھی انسان کو کچھ حاصل تھا مگر زمانے نے وہ شے اس سے چھین لی تو اب اس شے کے چھن جانے کے دکھ کو برداشت کرنا صبر کہلائے گا۔ صبر کےمقابلے میں بے تابی و جزع و فزع ہے۔ کمال کے حصول میں مشکلات برداشت نہ کرنے والا کامیاب نہیں ہو سکتا اور تاریخ شاہد ہے کہ کامیاب لوگوں کو سینکڑوں بار ناکامی کا سامنا ہوا مگر وہ حوصلہ و صبر سے محنت میں مگن رہے اور آخر کار انھیں کامیابی ملی۔کسی چیز کے کھو جانے پر انسان روتا رہے تو کامیابی نہیں ملے گی بلکہ اس محرومی کو برداشت کر کے دوبارہ آگے بڑھے گا تو کامیابی حاصل ہوگی اور ان دونوں مراحل میں برداشت و صبر ایک مشکل امر ہے اسے ہر کوئی انجام نہیں دے سکتا۔ اسلام میں صبر کی بہت تعریف کی گئی مگر امامؑ نے اس صبر کی تعریف میں لفظ شجاعت بیان فرما کر ہمت دلائی ہے کہ ناکامیوں پر نہ گھبرانا یہی شجاعت ہے اور شجاع ہی کامیاب ہوتے ہیں۔

154۔ زہد

اَلزُّهْدُ ثَرْوَةٌ۔ (حکمت 3)
دُنیا سے بے تعلقی و بے نیازی بڑی دولت ہے۔

انسان دُنیا میں خوش رہنے اور سکون حاصل کرنے کے لئے مال و دولت اکٹھی کرتا ہے اور مال جتنا جمع ہوتا رہے اتنی ہی اس کی طلب بڑھتی رہتی ہے اور مال جمع ہو جائے تو کبھی اس کے چھن جانے، کبھی چوری ہو جانے، کبھی کم ہو جانے کا خوف رہتا ہے۔ یوں سکون جو اس مال کے حصول کا مقصد تھا وہ حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے مقابلے میں زاہد دنیا کے مال و دولت کو سمیٹنے کے بجائے خرچ میں عافیت سمجھتا ہے۔ اسے جو مال حاصل ہوتا ہے اُس کے حصول پر سکون نہیں بلکہ خرچ پر سکون پاتا ہے۔ اس لیے زہد یہ نہیں کہ کسی کے پاس مال نہ ہو بلکہ زہد یہ ہے کہ مالِ دنیا اُس کا ہدف نہ ہو۔ مال اُس کے قبضہ میں ہووہ مال کے قبضے میں نہ ہو۔یوں زاہد خود کو صرف دوسروں کا محتاج و دست نگر نہیں بناتا بلکہ دوسروں کا دست گیر و حاجت روا بن جاتا ہے اور یوں دنیا سے بے نیاز ہوکر خود سکون پاتا ہے اور دوسرے انسانوں کے سکون کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اور یہی خدمتِ خلق سے حاصل ہونے والا اطمینانِ قلب بڑی دولت ہے۔

155۔ پرہیز گاری

اَلْوَرَعُ جُنَّةٌ۔ (حکمت 3)
تقویٰ و پرہیز گاری ڈھال ہے۔

انسان کا پکا دشمن شیطان ہر حیلہ و بہانہ سے اُسے انسانی کرامت و عزت سے گرانے میں مصروف رہتا ہے۔ یہ دشمن اللہ کی نافرمانی کروا کر اور خلافِ شرفِ انسانی قدم اٹھوا کر اسے مقام انسانیت سے گراتا ہے۔ ادھر انسان کامل کے لئے ایک درجہ وہ ہوتا ہے جس میں وہ ہر اس عمل سے بچتا ہے جو واضح طور پر اس کی شان کے خلاف ہو۔ کسی کو بے جا قتل کرنا، کسی پر ظلم کرنا، کسی کے مال کا غصب کرنا یا کسی کی توہین کرنا ایسے کاموں سے بچنا ہی تقویٰ کہلاتا ہے۔ مگر ورع کا مقام اس سے بلند ہے۔ کسی عمل کے بارے میں انسان کو شک و شبہ بھی ہو کہ یہ میری حیثیت و شان کے خلاف ہے تو اس سے بھی رک جاتا ہے اور یوں اس پرہیزگاری کو اپنے دشمن شیطان کے مقابلے میں ڈھال بنالیتا ہے۔پرہیزگاری کی اس ڈھال سے خود کو اس دنیا کی آفتوں سے بھی بچا لیتا ہے اور آخرت کی کمزوریوں سے بھی محفوظ کر لیتا ہے۔ گویا دل میں خوف خدا کو جاگزین کرکے خواہشات کے تیروں اور شیطانی حیلوں سے اپنے دل کو بچا لیتا ہے۔ دشمنوں کے ان حملوں سے محفوظ انسان ہی کامیاب و کامل انسان ہے۔

156۔ تسلیم و رضا

نِعْمَ الْقَرِینُ الرِّضَی۔ (حکمت 4)
تسلیم و رضا بہترین ساتھی ہے۔

انسان کی زندگی میں دوست اس کی پہچان کا ذریعہ ہوتا ہے اور اچھے دوست کو امیرالمومنینؑ نے بھی بار بار قیمتی الفاظ سے یاد فرمایاہے۔ اس فرمان میں آپ نے تسلیم و رضا کو بہترین دوست کے عنوان سے پیش کیاہے۔ اچھا دوست وہ ہوتا ہے جس سے انسان کو سکون قلب ملے اور وہ مشکلات میں اس کا سہارا بنے اور اس میں روح ِامید کو زندہ رکھے۔
تسلیم و رضا ان تمام صفات کی حامل ہے۔ انسان کو اپنی ضروریات کے حصول کے لئے پوری محنت کرنی چاہیے اور تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر بیٹھ نہیں جانا چاہیے۔ جب انسان اپنی کوشش سے کچھ حاصل کر لے تو اب اس پر راضی رہے اور موقع کا انتظار کرے جب مزید محنت کرکے کچھ بہتر حاصل کر سکے اور جو اس کے بس میں نہیں اس پر آہ و زاری نہ کرے، محنت کے بعد جو حاصل ہو اس پر مطمئن رہے اور جو چیز اسے حاصل نہیں اے کاش ہوتی اور جو حاصل ہے اس پر’’ کاش نہ ہوتی‘‘ میں وقت نہ گزارے۔

157۔ علم

اَلْعِلْمُ وِرَاثَهٌ کَرِیمَهٌ۔ (حکمت 4)
علم و دانائی عظیم وراثت ہے۔

وراثت: یعنی کسی بعد والوں کا پہلے والے سے کچھ پانا یا پہلے والے کا بعد والوں کے لئے کچھ چھوڑ جانا وراثت کہلاتا ہے۔ یہ وراثت مادی بھی ہو سکتی ہے اور روحانی بھی۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں علم کو عظیم میراث قرار دیا ہے۔ یہاں علم کی اہمیت کو بیان کرنا مقصود نہیں اس کا اپنے مقام پر بیان ہوگا، یہاں بہترین میراث کی بات ہو رہی ہے۔ ہم بطور قوم اگر یہ جان لیں کہ ہمیں اپنی بعد والی نسلوں کے لئے کیا جمع کرنا ہے یا جوان نسل یہ جان لے کہ ہمیں ملنے والی قیمتی میراث کیا ہے تو علم کے حصول اور ترقی کا سبب بنے۔ اگر آباء و اجداد علم کو میراث میں چھوڑیں گے تو علم زندگی کی سہولیات خود میسر کرنے میں مدد دے گا لیکن علم سے عاری افراد کے لئے اگر مال و دولت چھوڑی جائے تو یہی میراث غلط استعمال ہوئی تو جانے والے کی بدنامی اور آخرت میں خسارے کا سبب بنے گی۔

158۔ ادب

اَلْآدَابُ حُلَلٌ مُجَدَّدَهٌ۔ (حکمت 4)
آداب و اخلاق نیا اور جدید لباس ہیں۔

آداب: یعنی وہ انسانی صفات و عادات جنہیں عقل مند قابل تعریف جانتے ہیں۔ یہ کسی فرد میں بھی ہو سکتے ہیں اور قوم میں بھی پائے جا سکتے ہیں۔ جیسے سچائی، نظم و ضبط، قوت برداشت ، تواضع، امانت داری، محبت، خوش خلقی، طرز کلام وغیرہ۔
حلل: یعنی وہ لباس جو پورے بدن کو ڈھانپ لے اور بدن کے عیوب کو اپنے اندر چھپا لے ۔ امیرالمومنینؑ کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح نیا لباس انسان کے عیوب پر پردہ ڈالتا ہے اور ساتھ زینت کا سبب بنتا ہے اور سردی گرمی سے بھی بچاتا ہے اسی طرح نیک عادات و آداب انسان کے عیوب پر پردے کا سبب بنتے ہیں اور زینت کا ذریعہ بھی قرار پاتے ہیں۔ بعض حکماء کہتے ہیں کہ جیسے بدن لباس کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح عقل آداب کی محتاج ہوتی ہے اور جیسے کچھ لباس قومی لباس بن جاتے ہیں اسی طرح کچھ آداب قومی آداب بن جاتے ہیں اور قومی آداب شخصی و انفرادی آداب سے زیادہ اہم ہیں۔
انسان اگر کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے ظاہری آداب و اطوار کو سنوارنا چاہیے چونکہ یہ اس کی شخصی یا قومی پہچان ہیں۔ یہاں ضرورت ہے کہ ہر آدمی اپنے آداب کو بہتر سے بہتر بنائے تاکہ اسے یہ نہ کہنا پڑے کہ میرا باپ کیا تھا بلکہ عمل سے خود ظاہر ہو ۔ نہج البلاغہ میں امامؑ نے متعدد آداب کا ذکر کیا ہے جو اپنے مقام پر بیان ہوں گے۔

159۔ فکر

اَلْفِكْرُ مِرْآةٌ صَافِيَةٌ۔ (حکمت 4)
فکر صاف و شفاف آئینہ ہے۔

جس طرح انسان شفاف آئینہ میں اپنی حقیقی شکل دیکھتا ہے اور پھر اُسے سنوارتا ہے اسی طرح انسان کی عملی زندگی میں بھی ایک صاف شفاف آئینہ ضروری ہے تاکہ انسان اپنے آئندہ کے ارادوں کو حقیقی صورت میں دیکھ سکے اور اسی کے مطابق قدم اٹھائے اور اُس کے درکار مقدمات مہیا کرے۔ ظاہری بدن کو دیکھنے کے لئے صاف آئینہ چاہیے تو اعمال کے لئے امیرالمومنینؑ نے فکر کو آئینہ قرار دیا ہے۔
قرآن کریم نے فکر کو بہت اہمیت دی ہے اور بہت سے واقعات بیان کرنے کے بعد انسان کو تدبر و تفکر کی دعوت دی ہے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ فکر کا آئینہ نہ فقط اس وقت کی نیت و ارادہ کی حقیقت کو دیکھتا ہے بلکہ اس آئینۂ فکر میں ماضی کے واقعات بھی سما سکتے ہیں اور مستقبل کی تصویریں بھی آ سکتی ہیں۔ یوں انسان جب کام کو انجام دینا چاہتا ہے مکمل طور پر اس کی حقیقت سے آگاہ ہو سکتا ہے اور جب کسی عمل کی طرف بڑھنے سے پہلے حقائق سامنے ہوں گے تو اس میں کامیابی کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔آپ ؑنے آئینہ کے ساتھ صاف شفاف کی صفت ذکر کی ہے۔ جس طرح آئینہ اگر دھندلا ہو تو حقیقی چیز نہیں دکھاتا اسی طرح فکر بھی بہت سی چیزوں سے دُھندلا جاتی ہے۔ کبھی آباؤ اجداد کی رسومات، کبھی اندھی تقلید، کبھی خود شناسی سے غفلت، اگر ان دھندلکوں کے ساتھ سوچے گا تو حقیقی تصویرِ عمل نظر نہیں آئے گی جس کی وجہ سے انسان ناکام ہوگا۔

160۔ راز داری

صَدْرُ الْعَاقِلِ صُنْدُوْقُ سِرِّهٖ۔ (حکمت 5)
عقلمند کا سینہ اُس کے رازوں کا خزینہ ہوتا ہے۔

انسان زندگی میں ہر اُس چیز کی کوشش کرتا ہے جو اُس کے سکون کا سبب بنے۔ انسانی سکون کو متأثر کرنے والے امور میں سے ایک اُس کے راز کا افشا ہو جانا ہے۔ گزشتہ زندگی کےکچھ حالات و واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ اگر دوسروں کو ان کا علم ہو جائے تو انسان کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہ واقعات جب ہوئے تو ان پر پردہ پڑا رہا اب اگر کسی کے سامنے ان رازوں کو خود افشا کرتا ہے تو یہ ایک نہایت ہی احمقانہ عمل ہوگا کہ اپنی ذلت و رسوائی کا خود سبب بن رہا ہے اس لئے امامؑ رازوں کی حفاظت کی اہمیت بتاتے ہوئے عقل مندکی یہ نشانی بتا رہے ہیں کہ اس کا سینہ رازوں کو یوں محفوظ رکھتا ہے جیسے صندوق خزانے کو۔بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی شخص کو بہت مخلص دوست سمجھ کر اپنے رازوں سے آگاہ کرتا ہے مگر بقول شیخ سعدی اس دوست کے بھی مخلص دوست ہوتے ہیں وہ ان پر اعتماد کرتے ہوئے وہ راز ان کو بتا دیتا ہے اور پھر یہ بات اس پہلے شخص کی رسوائی اور بہت دفعہ بلیک میلنگ کا سبب بن جاتی ہے۔اس لئے عقل کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے رازوں کو محفوظ رکھےاسی طرح کسی کا راز اس کے پاس آ جائے تو اسے بھی امانت سمجھ کر حفاظت کرے۔

161۔ کشادہ روئی

اَلْبَشَاشَةُ حِبَالَةُ الْمَوَدَّةِ۔ (حکمت 5)
کشادہ روئی محبت و دوستی کا پھندا ہے۔

دوسروں کی محبت کو جذب کرنا انسانی کمال تصور ہوتا ہے اور محبت جذب کرنے کے اصولوں پر بڑی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ امیرالمومنینؑ نے مختصر لفظوں میں آسان ترین ذریعہ بیان فرمایا: اگر آپ مسکراتے چہرے سے کسی کو ملیں گے اور اس مسکراہٹ اور بشاشت میں واقعاً خلوص ہوگا تو دور بھاگتے افراد کو بھی شکاری کے جال کی طرح کھینچ لے گی۔ بہت دفعہ انسان میں مالی قوت تو نہیں ہوتی کہ کسی کی مدد کر کے اسے اپنا بنا لے مگر کشادہ روئی پر کچھ خرچ نہیں آتا بلکہ ایک مسکراہٹ خود انسان کے لئے بہت سی ذہنی امراض کا علاج ہوتی ہے البتہ یہ کردار حقیقی ہونا چاہیے ورنہ اندر سےکچھ اور چہرے پر کچھ ہوتو یہ منافقت اور دھوکا حساب ہوگاقرار پائے گا۔ محبت کے جذبے کے بجائے اگر عمل سے اس کے خلاف ظاہر ہوگاتو نفرت پیدا ہوگی۔کسی حکیم نے کیا خوب اس کی وضاحت کی ہے کہ کشادہ روئی، سلام میں سبقت، محفل میں آنے والے کو مناسب جگہ دینا، یہ دلوں میں محبت بھری جگہ بنانے کے ذرائع ہیں۔اور یہ علم نفسیات کا بڑا اصول ہے کہ دوسروں کو عزت دو اور اپنی عزت کماؤ۔

162۔ بردباری

اَلْاِحْتِمَالُ قَبْرُ الْعُيُوبِ۔ (حکمت 5)
تحمل و بردباری عیبوں کا مدفن ہیں۔

انسانی زندگی میں جتنی خطائیں زیادہ ہوتی ہیں اتنا ہی اُس کا مقامِ انسانیت گرتا جاتا ہے اس فرمان میں گناہوں اور خطاؤں کو دفن کر دینے سے مراد یہ ہو سکتی ہے کہ اگر ہو سکے تو گناہوں کو دفن کر دو یعنی گناہ ہو ہی نہیں، دوسرا یہ کہ اگر گناہ ہو تو اس پر پردہ ڈالو۔ انسان جب کسی کی بات یا عمل پر ناراض ہوتا ہے تو غصے میں جرائم کرتا ہے اور اگر غصے کی بجائے تحمل و بردباری کا مظاہرہ کرے تو وہ اس جرم سے بچ جائے گا مثلا کسی نے گالی دی، جواب میں اس نے گالی دی یا تھپڑ مارا اور بات قتل تک پہنچ گئی۔ اس لیے حلم، برداشت اور تحمل سے کام لے تو وہ عیب دفن ہو جائے گا۔دوسرا معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر دوسرے کا قول و عمل آپ کو اچھا نہیں لگا تو اس کی اس بات اور کام کو مثبت معنی دے یعنی آپ نے کسی سے نازیبا الفاظ سنے ہیں تو یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے آپ کو پہچانا نہ ہو۔ یا ممکن ہے وہ آپ سے نہیں کسی اور سے بات کر رہا ہو۔ اس طرح اس احتمال کی وجہ سے اس کے گناہ کو دفن کیا جا سکتا ہے اور احتمال دوسرے کے عیب کے لئے قبر بن سکتا ہے۔

163۔ خود پسندی

مَنْ رَضِيَ عَنْ نَفْسِهٖ كَثُرَ السَّاخِطُ عَلَيْهِ۔ (حکمت 6)
جو شخص خود کو بہت پسند کرتا ہے وہ دوسرے کے لئے ناپسندیدہ ہو جاتا ہے ۔

انسان جب خود پسندی کے مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے تو وہ خود کو دوسرے انسان پر بلند و برتر سمجھتا ہے۔ بات بات میں اپنی برتری کا مظاہرہ کرتا ہے اور دوسروں سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اس کو برتری دیں، دوسرے اس کا احترام کریں، اسے سلام کریں، محفل میں اسے بلند مقام پر جگہ دیں اور اس کی مدح و ستائش کریں اور جب اسے لوگوں کی طرف سے وہ کچھ نہیں ملتا تو یہ ان کو ناپسند کرتا ہے اور نفرت کرتا ہے اور لوگ اس کی خود پسندانہ ذہنیت کو دیکھ کر اسے اتنا بھی سمجھنے کو تیار نہیں ہوتے جتنا کچھ وہ ہے چہ جائیکہ وہ سمجھیں جو یہ منوانا چاہتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں طرف کے دلوں میں نفرت و حقارت پیدا جاتی ہے اور اس کا سبب وہ بنا ہے جو خود کو ایسا منوانا چاہتا ہے جو وہ ہے ہی نہیں۔ اس لئے لوگوں کی ناراضی سے بچنا ہے تو انھیں اہمیت دیں وہ خود آپ کو اہمیت دیں گے۔ابن ابی الحدید المعتزلی جس نے نہج البلاغہ کی مفصل شرح لکھی ہے یہاں ایک واقعہ لکھا ہے کہ کسی مصنف نے ایک کتاب لکھی۔ وہ اس کی بہت تعریف کرتا تھا۔ کسی نے کہا لوگ آپ کی اس کتاب کو اتنی اہمیت نہیں دیتے جتنا آپ قائل ہیں۔ کہنے لگا لوگ جاہل ہیں اس نے کہا تم اکیلے باقی سب لوگوں کو جاہل سمجھتے ہو اور باقی سب لوگ تمہیں جاہل سمجھتے ہیں یعنی خود پسندی نے دوسرے سب لوگوں کی نگاہ میں قابل نفرت بنا دیا۔

164۔ لوگوں سے برتاؤ

خَالِطُوا النَّاسَ مُخَالَطَةً إِنْ مِتُّمْ مَعَهَا بَكَوْا عَلَيْكُمْ وَ اِنْ عِشْتُمْ حَنُّوْا اِلَيْكُمْ۔ (حکمت 9)
لوگوں سے یوں میل جول رکھو کہ اگر مرجاؤ تو تم پر روئیں اور زندہ رہو تو تمھارے ملنے کے مشتاق رہیں۔

انسان کے بہترین معاشرتی کردار کے لیے اس جملے میں جامع اصول موجود ہے۔ جوشخص لوگوں کے ساتھ نرمی اوراچھے اخلاق کا برتاؤ کرتا ہے لوگ اس کی طرف دستِ تعاون بڑھاتے ہیں، اس کی عزت و توقیر کرتے ہیں اور اس کے مرنے کے بعد اس کی یاد میں آنسو بہاتے ہیں۔ لہٰذا انسان کو چاہیے کہ وہ اس طرح مرنجان مرنج زندگی گزارے کہ کسی کو اس سے شکایت پیدا نہ ہو اور نہ اس سے کسی کو گزند پہنچے تاکہ اسے زندگی میں دوسروں کی ہمدردی حاصل ہو اور مرنے کے بعد بھی اسے اچھے لفظوں میں یاد کیا جائے۔

165۔ عفو و درگذشت

اِذَا قَدَرْتَ عَلٰى عَدُوِّكَ، فَاجْعَلِ الْعَفْوَ عَنْهُ شُكْراً لِلْقُدْرَةِ عَلَيْهِ۔ (حکمت 10)
دشمن پر قابو پاؤ تو اس قابو پانے کا شکرانہ اس کو معاف کر دینا قرار دو۔

عفو و درگزر وہی ہوتا ہے جہاں انتقام پر قدرت ہو اور جہاں قدرت ہی نہ ہو وہاں انتقام سے ہاتھ اٹھا لینا مجبوری کا نتیجہ ہوتا ہے جس پر کوئی فضیلت مرتب نہیں ہوتی۔ البتہ قدرت و اختیار کے ہوتے ہوئے عفو و درگزر سے کام لینا فضیلت انسانی کا جوہر اور اللہ کی اس بخشی ہوئی نعمت پر اظہار شکر ہےکیونکہ شکر کا جذبہ اس کا مقتضی ہوتا ہے کہ انسان اللہ کے سامنے تذلّل و انکساری سے جھکے جس سے اس کے دل میں رحم و رافت کے لطیف جذبات پیدا ہوں گے اور غیظ و غضب کے بھڑکتے ہوئے شعلے ٹھنڈے پڑ جائیں گے، جس کے بعد انتقام کا کوئی جذبہ ہی نہیں رہے گا کہ جسے ٹھنڈا کرنا پڑے۔
قدرت مند کا بہترین عمل بخش دینا ہے اور بدترین عمل انتقام لینا ہے۔ ایک شخص دوسرے کو بہت گالیاں دیتا ہے مگر وہ شخص اسے کبھی جواب نہیں دیتا خود گالیاں دینے والا یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ وہ جواب اس لیے نہیں دیتاچونکہ مجھے جواب کے بھی لائق نہیں سمجھتا۔ انتقام اور جواب کی طاقت رکھتا ہےمگر نہ انتقام لیتا ہے نہ جواب دیتا ہے۔

166۔ عاجز انسان

اَعْجَزُ النَّاسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ اكْتِسَابِ الْاِخْوَانِ، وَاَعْجَزُ مِنْهُ مَنْ ضَيَّعَ مَنْ ظَفِرَ بِهٖ مِنْهُمْ۔ (حکمت 11)
لوگوں میں سے سب سے عاجز وہ ہے جو اپنی عمر میں دوست نہ بنا سکے اور اس سے بھی زیادہ عاجز وہ ہے جو بنائے ہوئے کھو دے۔

امیرالمومنینؑ نے اپنے فرامین میں دوستی کو بہت اہمیت دی ہے اور اس حوالے سے ہر پہلو سے گفتگو کی ہے۔ گاہےانسان دوست بنانے کی کوشش نہیں کرتا ہے جب کہ اسے دوستی کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے اور دوستی کی اہمیت کے لئے کسی نے کیا خوب کہاہے کہ ہر شی کی کوئی نہ کوئی زینت ہوتی ہے اور انسان کی زینت اُس سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں۔
علامہ مفتی جعفر حسینؒ اس فرمان کی شرح میں لکھتے ہیں:خوش اخلاقی و خندہ پیشانی سے دوسروں کو اپنی طرف ضذب کرنا اور شیریں کلامی سے غیروں کو اپنانا کوئی دشوار چیز نہیں ہے۔کیونکہ اس کے لیے نہ جسمانی مشقت کی ضرورت اور نہ دماغی کدو و کاوش کی حاجت ہوتی ہے،اور دوست بنانے کے بعد دوستی اور تعلقات کی خوشگواری کو باقی رکھنا تو اس سے بھی زیادہ آسان ہے۔کیونکہ دوستی پیدا کرنے کے لیے پھر بھی کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے مگر اسے باقی رکھنے کے لیے تو کوئی مہم سر کرنا نہیں پڑتی۔لہذا جو شخص ایسی چیز کی بھی نگہداشت نہ کر سکے کہ جسے صرف پیشانی کی سلوٹیں دور کرکے باقی رکھا جا سکتا ہے اس سے زیادہ عاجز و درماندہ کون ہو سکتا ہے۔مقصد یہ ہے کہ انسان کو ہر ایک سے خوش خلقی و خندہ روئی سے پیش آنا چاہیے تاکہ لوگ اس سے وابستگی چاہیں اور اس کی دوستی کی طرف ہاتھ بڑھائیں۔

167۔ درگزر

اَقِيْلُوْا ذَوِي الْمُرُوْءَاتِ عَثَرَاتِهِمْ۔ (حکمت 19)
با مروت لوگوں کی لغزشوں سے درگزر کرو۔

انسان کو زندگی میں مختلف قسم کے لوگوں کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے اور ان لوگوں کی طبیعت کے مطابق ان سے برتاؤ ہونا چاہیے۔ امیرالمؤمنینؑ نے اس فرمان میں با مروت لوگوں کی لغزشوں اور خطاؤں سے درگزر کرنے کی تاکید ہے۔ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ با مروّت شخص سے اگر لغزش سرزد ہوتی ہے تو اللہ اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اٹھا لیتا ہے۔ با مروّت شخص سے مراد وہ ہے جس نے اپنی ساری زندگی خوش اخلاقی، سخاوت، عفت، خدمت خلق، دوسروں کی خطاؤں سے چشم پوشی جیسی صفات میں گزار دی ہو۔ ایسا شخص معاشرے کا ایک مہذب فرد شمار ہوتا ہے مگر اس سے بھی خطا ممکن ہے اور خطا ہو جائے تو اس کے پلٹ آنے کا اور خطا پر توبہ کر لینے کا زیادہ امکان ہوتا ہے اس لیے آپ بھی اس کی لغزش سے درگزر کریں۔معاشرے میں اگر کوئی شریف غلطی کر بیٹھے تو اکثر اس کی غلطی کو زیادہ اچھالا جاتا ہے کہ فلاں نے یہ کیا۔ جبکہ امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں اگر اس کا سابقہ اچھا ہے تو کوشش کریں اس پر حسن ظن باقی رہے۔ انتظامی امور میں بھی یہ اصول بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ کسی ایک غلطی پر کسی شخص کی ماضی کی تمام محنت پر خاک نہیں ڈالنی چاہیے بلکہ اسے اصلاح کا موقع دینا چاہیے۔

168۔ خوف کا نتیجہ

قُرِنَتِ الْهَيْبَةُ بِالْخَيْبَةِ وَ الْحَيَآءُ بِالْحِرْمَانِ۔ (حکمت 20)
خوف کا نتیجہ ناکامی اور شر کا نتیجہ محرومی ہے۔

انسان کو ترقی کی منازل طے کرنے کے لئے عمل کی بلند چوٹیوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ بلند منصوبے بنا کر ان میں پھاندنا پڑتا ہے۔ اب بہت سے کم ہمت افراد ان سختیوں سے خوف زدہ ہوتے ہیں یا نا کامی کے خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو اس قسم کا خوف انہیں بڑے فیصلے کرنے اور بڑا قدم اٹھانے سے روک دیتا ہے۔ ایسے خوف زدہ آدمی کی زندگی ناکامی میں ہی گزر جاتی ہے۔ جو شخص گھڑسواری اس لیے نہیں کرتا کہ گر نہ جاؤں تو وہ کبھی گھڑ سوار نہیں بن سکتا اُسے معلوم ہونا چاہے کہ شہ سوار میدان میں گرتے رہتے ہیں جو بچہ گھٹنوں کے بل چلتا ہے وہ کیا گرے گا۔
بعض اوقات معاشرے میں کچھ چیزیں معیوب تصور کی جاتی ہیں اور انہیں تحقیر آمیز نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے جو حقیقت میں معیوب نہیں ہوتیں۔تو ان کی طرف قدم اٹھانے سے ڈرنا ناکامی کا سبب بنتا ہے۔ فلاں کیا کہے گا، یا اگر میں فیل ہو گیا تو کیا ہوگا، اسے اگر بے جا خوف کہا جائے تو مناسب ہوگا کہ بے جا خوف ناکامی کا اور محرومی کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح بے جا شرمانا بھی ترقی و کامیابی میں رکاوٹ بن جاتا ہے مثلا ایک شخص کی عمر کافی ہو چکی ہے وہ علم حاصل کرنے سے شرماتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے، ایسا شخص علم سے محروم رہے گا۔

169۔ فرصت

اَلْفُرْصَةُ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ فَانْتَهِزُوْا فُرَصَ الْخَيْرِ۔ (حکمت 20)
فرصت کی گھڑیا تیز رفتار بادلوں کی طرح گزر جاتی ہیں لہذا بھلائی کے ملے ہوئے مواقع کو غنیمت جانو۔

فرصت : یعنی کسی کام کے یا کسی شے کے حصول کے اسباب مہیا ہونا۔ مثلا کسی شخص کے لیے حصول علم کے تمام مقدمات فراہم ہوں، جسم بھی سالم ہو، ہوش و حواس بھی رکھتا ہے، استاد بھی سکھانے کے لئے آمادہ ہو اور موسم بھی موافق ہو، یہ فرصت اور موقع ہے۔ یہ سب اسباب مہیا ہوں اور وہ اس سے فائدہ نہ اٹھائے تو یہ فرصت کو ضائع کرنا ہے اور یہ اسباب بہت جلد ختم ہو سکتے ہیں اور یہ مواقع ضائع ہو سکتے ہیں اس لیے ایسے مواقع جوں ہی ملیں ان سے فورا فائدہ اٹھایا جائے اور انہیں کامیابی و ترقی کے لیے استعمال کیا جائے۔ قرآن مجیدنےبھی’’فَاستَبِقُوا الخَیراتِ‘‘اچھائیوں میں جلدی کرو، کا حکم دیا ہے۔ (بقرہ ۱۴۸)
پیغمبر اکرمؐ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’پانچ چیزوں کو غنیمت جانو اور ان سے فائدہ اٹھا لو اس سے پہلے کہ ان کی جگہ دوسری پانچ آ جائیں۔ بڑھاپا آنے سے پہلے جوانی کو غنیمت جانو، اور بڑھاپا آنے سے پہلے جوانی سے فائدہ اٹھالو، بیماری لاحق ہونے سے پہلے صحت کےزمانے سے فائدہ اٹھا لو، فقر کی نوبت آنے سے پہلے دولت سے استفادہ کرو اور اسے غنیمت جانو، مشغول ہونے سے پہلے فراغت کی گھڑیوں کو غنیمت جانو اور فائدہ اٹھا لواور موت سے پہلے زندگی سے فائدہ اٹھا لو‘‘۔ اگر کوئی شخص ترقی کرنا چاہتا ہے تو اسے موقع کی اہمیت کوسمجھنا چاہیے اور فورا ان لمحات سے استفادہ کر لینا چاہیے۔

170۔ کردار

مَنْ اَبْطَاَ بِهٖ عَمَلُهٗ لَمْ يُسْرِعْ بِهٖ نَسَبُهٗ۔ (حکمت 22)
جسے اس کے اعمال پیچھے ہٹادیں اسے نسب آگے نہیں بڑھا سکتا۔

انسان فطرت میں کمال پسند ہے۔ اکثر افراد چونکہ کمال کی راہوں سے آشنا نہیں ہوتے اس لیے اندھیروں میں بھٹک کر اپنی زندگی کا محور حیوانی ضروریات کے حصول کو بنائے رکھتے ہیں۔ ان کمالات کے حصول میں بہترین مددگار بلند مرتبہ خاندان ہوتے ہیں۔ مثلا ایک پڑھے لکھے خاندان کے لئے پڑھنا لکھنا آسان ہوتا ہے اور ایک معنوی و اخلاقی بلندیوں پر فائز شخص کی اولاد ان مدارج کو آسانی سے طے کر سکتی ہے مگر امیرالمومنینؑ یہاں خبردار کرتے ہیں کہ فقط خاندان کی عظمت اور نسل و نسب کمالات کا سبب نہیں بنتے بلکہ عمل ہے جو انسان کو اچھا ئیوں میں نامور بناتا ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ خاندانی شہرت ہی انسان کی بلندیوں میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ آپ کے فرمان کا کسی بزرگ نے بہت خوبصورت معنی کیا ہے کہ ’’آنکھ کا اندھا جو عصا کا سہارا لے کر چلتا ہے اور عقل کا اندھا جو قبر کی ہڈیوں پر سہارا لے کر چلتا ہے ان میں کوئی فرق نہیں‘‘۔ (جواد مغنیہ)
ہماری جوان نسل اگر ترقی کرنا چاہتی ہے تو اسے خاندان کو ذریعہ بنانا چاہیے مگر اصل ترقی کا راز اس کی اپنی محنت و جد و جہد ہوتی ہے اور ہمارے اکثر جوان اس لئے ناکام ہوتے ہیں کہ وہ خاندان کے سہارے جیتے ہیں۔ اپنے عمل کو ہتھیار نہیں بناتے۔ سعدی نے کیا خوب کہا: “دیہاتوں کے دانشور وزارت و بادشاہی تک پہنچ گئے اور وزیروں کے ناقص العقل بیٹے گدائی کے لئے دیہاتوں میں پہنچ گئے”۔علامہ اقبال فرماتے ہیں:
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی،مگر تم کیا ہو

171۔ غمگین کی مدد

مِنْ كَفَّارَاتِ الذُّنُوْبِ الْعِظَامِ اِغَاثَةُ الْمَلْهُوْفِ، وَالتَّنْفِيْسُ عَنِ الْمكْرُوبِ۔ (حکمت 20)
کسی ستم رسیدہ کی فریاد رسی اور مصیبت زدہ کو غم سے نجات دلانا اور تسلی دینا بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ ہے۔

انسان کبھی خوشیوں میں گھرا ہوا ہے تو کبھی غموں کے طوفان میں پھنسا ہوا، کبھی نیکیوں اور اچھائیوں کے سرمائے سے مالا مال ہے، تو کبھی گناہوں اور خطاؤں کے بار تلے دبا ہوا۔ امیرالمومنینؑ انسانیت کی خدمت کو ان خطاؤں کے معاف ہونے اور اس بوجھ سے چھٹکارا پانے کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کوئی مظلوم، مقروض، بیمار، فقیر، قیدی کی ضرورت پوری کر کے اس کی مدد کر دیتا ہے۔ ظلم کرنے والے کا ہاتھ روک دیتا ہے، مقروض کا قرض ادا کر دیتا ہے، فقیر کو کچھ کھلا دیتا ہے، یا قیدی کی رہائی کے اسباب مہیا کردیتا ہے، یا اگر ان کاموں کو انجام نہیں دے سکتا تو ان غموں میں مبتلا شخص کو لفظوں سے تسلی دے دیتا ہے، کسی دل جلے کے دل کو محبت کے چند بولوں سے ٹھنڈک پہنچا دیتا ہےتو ایسے اعمال اس کی اپنی بڑی بڑی غلطیوں کے اللہ کے ہاں اور اللہ کی مخلوق کے نزدیک بخشے جانے کا سبب بن جاتے ہیں۔اس فرمان سے اسلام میں کسی انسان کی مدد کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔

172۔ خواہشوں سے آزادی

مَنِ اشْتَاقَ اِلَى الْجَنَّةِ سَلاَ عَنِ الشَّهَوَاتِ۔ (حکمت 30)
جو جنت کا مشتاق ہوگا وہ خواہشوں کو بھلا دے گا۔

آخرت کی زندگی کے بلند مقام کا نام جنت ہے۔ امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں: جو جنت کا مشتاق ہوگا وہ خواہشوں کا اسیر نہیں رہے گا۔ اکثر انسان وقتی اور عارضی خواہشات کے حصول کے لیے بڑے مقاصد اور عظیم منزلوں کے سفر کو بھول جاتے ہیں ۔یا خواہشوں کو چھوڑنے پر صبر نہیں کر سکتے یا بڑی منزل کے راستے کی مشکلات کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے اس طرح وہ راستے ہی میں رک جاتے ہیں۔ امامؑ نے خواہشوں کے ترک کو صبر کی اقسام میں شمار کیا۔ یعنی بڑے مقامات پر پہنچنے کے لئے خواہ وہ آخرت کا مقام ہو یا دنیا کا بلند مقام، اسے ہدف اور اس مقام پر نظر رکھنی ہوگی۔ راستے کی رکاوٹوں سے اُلجھ کر اپنے مقصد کو نہیں بھولے گا۔ راستے میں کسی نے روکا تو بھی اسے سلام کہ کر گزر جائے گا۔ آپ کا فرمان اس اصول کو واضح کر رہا ہے کہ جنت کے طلبگار کو معنوی یا مادی ترقی و کامیابی کے حصول کے لیے راہ کی رکاوٹیں اور مخالفتیں اسے روکیں گی نہیں، بلکہ وہ انھیں عبور کرکے منزل کی طرف رواں دواں رہے گا۔

173۔ جھگڑے سے دوری

فَمَنْ جَعَلَ‌ الْمِرَآءَ‌ دَيْدَناً لَمْ يُصْبِحْ‌ لَيلُهٗ‌۔ (حکمت 31)
جس نے لڑائی جھگڑے کو اپنا شیوہ بنا لیا اس کی رات کبھی صبح سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔

جو آدمی بات بات میں جھگڑتا ہے۔ دوسروں سے الجھتا رہتا ہے، بے مقصد گفتگو میں لگا رہتا ہے۔ وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا اور اس کے دن روشن نہیں ہوتے۔ دوسروں کی ہر بات میں شک اور اس شک کی بنا پرفیصلے کر کے قدم اٹھانا بس وہ انہی اندھیروں میں ہی گھرا رہتا ہے۔ پھر لوگ بھی اسے شک ہی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، وہ لوگوں میں بھی مقام نہیں پاتا۔
وہ سوچتا ہے کہ کسی سے جھگڑ کر وہ دوسرے کو نقصان پہنچائے گا ،اِسے سکون ہو گا اور فتح ہو گی اور دوسرے کو شکست ہو گی مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔کسی عارف شاعر نے بڑا خوب کہا کہ سفید چادر اگر کانٹوں سے الجھے گی تو کانٹوں کا کچھ نہیں بگڑے گا مگر چادر تار تار ہو جائے گی۔جھگڑ کر آپ کسی سے اپنی بات نہیں منوا سکتے اور نہ ہی کسی کو غلط کہہ کر اس کی اصلاح کر سکتے ہیں۔بحث میں مت پڑیں ،مخالف کی بات کو قبول کریں جب آپ اس کی بات کو اہمیت دیں گے تو اس کے دل میں آپ کا احترام ہو گا اور ایک وقت آئے گا کہ وہ آپ کی بات پر توجہ دے گا۔

174۔ بڑی دولت مندی

اَشْرَفُ الْغِنٰى تَرْكُ الْمُنٰى۔ (حکمت 34)
تمناؤں کو ترک کرنا بہترین دولت مندی یہ ہے ۔

انسان اکثر ایسی توقعات اور آرزوئیں رکھتا ہے جن کا حصول یا نا ممکن ہوتا ہے یا بہت مشکل۔ اکثر ایسی آرزوئیں عقل سے دور ہوتی ہیں۔ ایک تو انسان ان کے حصول کے لئے لاحاصل کوشش کرتا ہے، ہر طرف ہاتھ پاؤں مارتا ہے، ہر شریف و ذلیل کے سامنے دست حاجت دراز کرتا ہے اور فقیربنا رہتا ہے، دوسری طرف ان تمناؤں کا حصول مشکل یا نا ممکن ہوتا ہے اور ان کے حصول تک اس کی روح و فکر پریشانی میں مبتلا رہتی ہے۔ اب ان ساری مشکلات اور نیازمندی کا علاج امیرالمومنینؑ نے ایک جملے میں بیان فرما دیا ہے اور وہ یہ کہ اپنی آرزؤوں سے چھٹکارا حاصل کریں اور حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے جو ممکن ہے اسے حاصل کریں اور پھر اُسی پر صبر کریں اور راضی رہیں یہی طریقہ بہترین دولت اور دوسروں سے بے نیازی سے عبارت ہے۔

175۔ دوسروں کی عزت

مَنْ اَسْرَعَ اِلَى النَّاسِ بِمَا يَكْرَهُوْنَ قَالُوْا فِيْهِ بِمَا لَا يَعْلَمُوْنَ۔ (حکمت 35)
جو لوگوں کے بارے میں فوراً ایسی بات کہہ دیتا ہے جو اُنہیں ناگوار گزرے تو لوگ بھی اس کے لئے ایسی باتیں کہتے ہیں جنہیں وہ جانتے بھی نہیں۔

انسان اپنی عزت و وقار کا خود محافظ ہوتا ہے۔ دوسرے انسانوں سے تعلقات و روابط بھی اس کے اپنے اختیار میں ہوتے ہیں۔ امیرالمومنینؑ نے اس فرمان میں ان دونوں چیزوں کے لئے ایک اہم اصول بیان فرمایا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ جس سے بات کہہ رہے ہیں اس کی سطح فکراورمعیار عقل کو مد نظر رکھیں اور کب، کیسے، کیا کہنا ہے اس کا خیال رکھیں۔ اگر فوراکسی کے لئے ایسی بات کہی جائے جو اس کی طبیعت کو ناگوار گزرے، تو وہ اس کے مقابلے میں اس کی برائیوں کا تذکرہ کرے گا اور اس میں اگر کوئی عیب نہ بھی ظاہر ہو تو بہتان تراشی کرے گا اور وہ عیوب اس سے منسوب ہوں گے جن کا حقیقت سے تعلق نہیں۔ اس لئے دوسروں کے عیب تلاش کرنے یا بیان کرنے سے گریز کیا جائے۔ اگر کسی کی اصلاح کرنا مقصود ہو تو تنہائی میں مہذب انداز سے بات کی جائے۔
یعنی دوسروں کا احترام کریں تاکہ آپ کا احترام کیا جائے۔مزاح کی صورت میں بھی دوسروں کو تکلیف پہنچانے والی گفتگو سے پرہیز کیا جائے ورنہ وہ مقابلے میں مزاح کے طور پر آپ کے لئے بھی ایسی بات کہیں گے جو آپ کو ناگوار گزرے گی۔

176۔ لمبی امیدیں

مَنْ اَطَالَ الْاَمَلَ اَسَآءَ الْعَمَلَ۔ (حکمت 36)
جس نے لمبی امیدیں باندھیں اس نے اپنے اعمال بگاڑ لئے۔

انسان کی زندگی کو متحرک رکھنے والی چیز کا نام امید ہے۔ ان امیدوں کے حصول کے لئے وہ محنت کرتا ہے، مشکلات برداشت کرتا ہے۔مثلاعلم کے حصول کے لیے کئی کئی سال محنت کرتا ہے، تکلیف اٹھاتا ہے تاکہ علمی مقام کو پا سکے۔ مالی مدتوں زمین کو تیار کرتا ہے، بیج بوتا ہے، درخت لگاتا ہے، ان کی حفاظت کرتا ہے تاکہ پھلوں سے فائدہ اٹھائے۔امیرالمومنینؑ نے اس فرمان میں امید کی مذمت نہیں کی بلکہ خیالی اور طویل امیدوں کو عمل میں رکاوٹ اور ان کے بگڑنے کا سبب قرار دیا۔انسان کو جب امیدیں سست کر دیں اور وہ کل پر کام ڈالنے لگے یا امیدیں اتنی طویل ہو جائیں کہ وہ اپنی زندگی کو ہمیشہ کے لئے سمجھ لے تو یہ انسان کو عمل کے لئے متحرک کرنے کے بجائے سست کر دیتی ہے۔ یہی لمبی امیدیں انسان کی ترقی و حرکت میں رکاوٹ بن جاتی ہیں، امیرالمومنینؑ ایسی ہی لمبی امیدوں سے متنبہ کرنا چاہتے ہیں۔

177۔ بڑی دولت

اَغْنَى الْغِنَى الْعَقْلُ۔ (حکمت 38)
سب سے بڑی دولت عقل و دانش ہے۔

مخلص راہنما اپنی کامیابیا ں اپنے یا اپنی اولاد تک محدود نہیں رکھتے بلکہ ہر انسان کو ان میں شامل کرتے ہیں۔ امیرالمومنینؑ نے بھی اس فرمان میں اپنے بیٹے امام حسنؑ کو انسانی کامیابی و سعادت کے اصولوں سے آگاہ فرمایاہے۔ اور اسی تحریر کے ذریعے پوری انسانیت کو سعادت کی راہوں سے آگاہ کیاہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ چار چیزیں لینے کی اور چار چیزیں چھوڑنے کی تلقین کرتا ہوں اور اگر ان کو سمجھ لیا اور ان پر عمل کر لیا تو کبھی زندگی میں گھاٹا نہیں کھاؤ گے۔پہلی چیز جو تمہیں لینی ہے وہ یہ ہے کہ یاد رکھو سب سے بڑی دولت و سرمایہ کا نام عقل ہے۔ عقلمند آدمی معنوی طور پر بھی دولت مند ہے اور اُخروی اعتبار سے بھی کامیاب۔ معنوی طور پر عقل اُسے فضائل اخلاقی سے مزین ہونے میں مدد کرتی ہے ، اچھے اعمال کی ترغیب دیتی ہے اور بُرے کاموں سے روکتی ہے۔ یوں انسان کمال کی طرف گامزن رہتا ہے۔ مادی طور پر عقل مند اچھی تدابیر، صحیح فیصلے، دوسروں سے عقلمندانہ برتاؤ، دوستی و دشمنی کی پہچان، مواقع سے صحیح استفادہ اور زندگی میں نظم و ضبط جیسے اقدام سے ترقی و کامیابی کے ذرائع کو جمع کر لیتا ہے، یوں عقل سے دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کرتا ہے اور اس ساری دولت کے حصول کے ذریعے کا نام عقل ہے۔

178۔ حماقت

اَكْبَرَ الْفَقْرِ الْحُمْقُ۔ (حکمت 38)
سب سے بڑی ناداری حماقت و بے عقلی ہے۔

ناداری و فقیری یعنی جب کوئی انسان زندگی میں کسی چیز سے محروم ہو۔ قبل ازیں آپ پڑھ چکے ہیں کہ امیرالمومنینؑ کا فرمان ہے کہ سب سے بڑی دولت عقل ہے، تو اب عقل کے ہوتے ہوئے اوراس سے سیکھنے کے مواقع کے باوجود انسان ان مواقع کو ضائع کر دے جو اسے ترقی کی طرف لے جا سکتے ہیں ۔ فیصلہ کرنے کا جووقت تھا وہ نہیں کر پایا ساری زندگی محروم رہا ، زمین کے چپے چپے پر اس کے لئے عبرت کے اسباب تھے اس نے نہ سیکھا ، کسی طرف قدم اٹھانے سے پہلے سوچ بچار کے وسائل تھے انھیں استعمال نہ کیا، عارضی دنیا سے ہمیشہ کی زندگی کے لئے بہت کچھ کمانے کا وقت تھا، وہ عارضی فائدوں اور زینتوں میں الجھا رہا اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے کچھ حاصل نہ کرنے والا ہی حقیقت میں سب سے بڑا فقیر ہے۔ اسی ناداری و محرومی کا دوسرا نام حماقت ہے۔ ہونے کے باوجود فائدہ نہ اٹھانا اسے ہی امام ؑ بڑا فقر کہتے ہیں۔فقر کی نشانیاں امیرالمومنینؑ نے متعدد بار بیان فرمائی ہیں۔ احمق کی ایک یہ نشانی ہے کہ وہ خود کو عقل کل سمجھتا ہے اور دوسرے سب انسانوں کو احمق سمجھتا ہے۔ قرآن مجید نے ایسے افراد کو جو اپنی عقل سے استفادہ نہیں کرتے حیوانوں سے بدتر کہا ہے۔

179۔ بڑی وحشت

اَوْحَشَ الْوَحْشَةِ الْعُجْبُ۔ (حکمت 38)
سب سے بڑی وحشت غرور و خود بینی ہے۔

انسان مل جل کر رہنے والی مخلوق ہے اور یہ اجتماعی و معاشرتی زندگی کو اہمیت دیتا ہے اور ایسی زندگی میں اُسے سکون و راحت ملتی ہے۔ اب اُسے کبھی تنہائی میں زندگی گزارنا پڑے تو اُسے خوف و دقت محسوس ہوتی ہے اور کسی کو سزا دینی مقصود ہو تو اسے تنہا کر دیا جاتاہے۔۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں غرور و خود بینی کو وحشت کا بڑا سبب قرار دیا ہے چونکہ غرور انسان کو انسانوں میں رہتے ہوئے بھی اکیلا اور تنہا کر دیتا ہے۔ جو خود کو لوگوں سے بڑا سمجھتا ہے اور خود کو کمالات کا مالک جانتا ہے خواہ حقیقت میں وہ کمالات اس میں ہوں یا نہ ہوں اور دوسروں کو حقیر جانتا ہے۔ دوسرے بھی اس سے نفرت کرتے ہیں اور وہ تنہا ہوجاتا ہے۔ امیرالمومنینؑ اس وحشت و تنہائی کا ذکر کر کے غرور و خود بینی سے بچنے کی تاکید فرما رہے ہیں۔

180۔ ذاتی جوہر

اَكْرَمَ الْحَسَبِ حُسْنُ الْخُلُقِ۔ (حکمت 38)
سب سے بڑا ذاتی جوہر حسنِ خلق ہے ۔

ہر انسان چاہتا ہے کہ لوگ اس سے محبت کریں، اسے عزت دیں، اس کے لئے وہ بہت سے جتن کرتا ہے اورکبھی تو عزت و محبت کے حصول کے لیے مقام ِانسانیت سے گرے ہوئے اعمال انجام دیتا ہے۔امیرالمومنینؑ نے اس کے لیے قیمتی اصول بیان فرمایاہے اوروہ یہ کہ اپنے اندر ایک خصوصیت پیدا کرو جس سے سبب لوگ آپ سے محبت کرنے لگیں۔اس آزمودہ اصول کا نام حسن اخلاق ہے۔ لوگ آپ کو آپ کے بڑے خاندان یا زیادہ مال یا کھانا کھلانے سے نہیں چاہیں گے بلکہ آپ کے حسن سلوک کی وجہ سے آپ کو چاہیں گے۔ حسن خلق کا خلاصہ یہ ہے کہ دوسروں کو دل سے چاہو، اپنے کلام میں مٹھاس پیدا کرو اور چہرے پر حقیقی مسرّت سجاؤ، دوسروں کی بد مزاجی پر صبر کرو، دوسروں کی سختی پر بھی نرمی برتو اور وسعت قلب کے حامل بنو۔ یہ طرز زندگی دوسروں کو آپ کی طرف جذب کرے گی اور مادی و روحانی طور پر آپ کی ترقی کا ذریعہ بنے گی۔ معلم بشریت پیغمبر اکرمؐ کی اس خصوصیت کو اللہ سبحانہ نے قرآن میں بیان کیاہے: وَاِنَّكَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ)القلم(اور بلا شبہ آپ عظیم اخلاق کے درجے پر فائز ہیں

181۔ احمق سے دوستی

اِيَّاكَ وَمُصَادَقَةَ الْاَحْمَقِ۔ (حکمت 38)
بے وقوف سے دوستی نہ کرنا۔

انسانی زندگی پر سب سے زیادہ اثر کرنے والی چیزوں میں سے ایک دوستی ہے۔ یہی دوستی انسان کے کمال کے حصول میں معاون بنتی ہے اور یہی اُسے پستیوں میں ڈال دیتی ہے۔ امیرالمومنینؑ کے کلام میں دوستی کی اہمیت و اثرات کا بار ہا ذکر آیا ہے۔ اس فرمان میں آپؑ نے اپنے بیٹے کو چار قسم کے افراد کی دوستی سے منع کیا ہے اور اس دوستی کے نقصانات سے بھی آگاہ کیا ہے۔ “بیٹا!” بے وقوف سے دوستی نہ کرنا کیونکہ وہ چاہے گا کہ آپ کو فائدہ پہنچائے مگر اپنی حماقت و بیوقوفی کی وجہ سے نقصان پہنچا دے گا۔ بخیل سے دوستی نہ کرنا کیونکہ جب تمھیں اُس کی مدد کی انتہائی ضرورت ہوگی وہ تم سے دور بھاگے گا۔ بدکردار سے دوستی نہ کرنا ورنہ وہ اپنے معمولی فائدے کے لئے تمہیں بیچ ڈالے گا اور جھوٹے سے دوستی مت کرنا کیونکہ وہ تمہیں سراب کی طرح دور کی چیزوں کو قریب اور قریب کی چیزوں کو دور دکھائے گا۔ اگر انسان ان چار کرداروں کو پہچان لے اور خود کو ان سے محفوظ رکھے تو دنیا و آخرت کی بہت سی مشکلوں سے محفوظ رہے گا۔

182۔ زبان کی اہمیت

لِسَانُ الْعَاقِلِ وَرَآءَ قَلْبِهٖ وَ قَلْبُ الْاَحْمَقِ وَرَآءَ لِسَانِهٖ۔ (حکمت 40)
عقل مند کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہے اور بے وقوف کا دل اُس کی زبان کے پیچھے ہے۔

عقلمند اُس وقت زبان کھولتا ہے جب دل میں سوچ بچار اور غور و فکر سے نتیجہ اخذ کر لیتا ہے لیکن بے وقوف بے سوچے سمجھے جو منہ میں آتا ہے کہہ گزرتا ہے۔ اس طرح گویا عقلمند کی زبان اس کے دل کے تابع ہے اور بے وقوف کا دل اس کی زبان کے تابع ہے۔اس فرمان میں بات کرنے سے پہلے غور و فکر کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے۔ زبان عقل کی ترجمان ہوتی ہے اس لئے کہنے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ میری اس بات سے مجھے یا جس کسی کے بارے میں بات کر رہا ہوں اسے کیا فائدہ یا نقصان ہوگا۔ اسی طرح یہ راہنمائی فرمائی کہ جلد بازی میں بات نہیں کرنی چاہیے۔ یوں انسان زبان کی وجہ سے خسارے اور نقصان سے محفوظ رہے گا ۔آپ کے اس فرمان پر عمل کیا جائے تو انسان کوئی ایسی بات نہیں کرے گا جس سے کسی کا دِل دُکھے اور اِسے معذرت کرنی پڑے۔

183۔ غرور

سَيِّئَةٌ تَسُوْءُكَ خَيْرٌ عِنْدَ اللهِ مِنْ حَسَنَةٍ تُعْجِبُكَ۔ (حکمت 46)
وہ غلطی جو تمہیں پشیمان کرے اللہ کے ہاں اُس اچھائی سے بہتر ہے جو تمہیں مغرور کردے۔

خطا کار جب اپنی خطا و کوتاہی پر پشیمان ہوتا ہے تو اس سے توبہ و معافی کی کوشش کرتا ہے اور اپنی غلطی کے ازالے کا سوچتا ہےجب کہ اچھا عمل انجام دے کر جو شخص مغرور ہو جاتا ہے وہ اپنی اچھائی کو بھی ضائع کر بیٹھتا ہے اور غرور کی وجہ سے لوگوں کی نگاہوں میں گر جاتا ہے اور چونکہ اپنے میں کوئی کمی محسوس نہیں کرتا اس لئے اسے برطرف کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتا اور یوں خود کو مقام انسانیت سے گراتا ہی جاتا ہےمثلا ایک شخص نے کسی کی اہانت کی پھر نادم ہوا اُس سے معذرت کرلی یوں اُس کوتاہی کا ازالہ ہو گیا لیکن اگر کسی پر احسان کیا، اس پر فخر کیا ،سامنے والے کو احسان جتایا تو ایک طرف اپنی اچھائی گنوا دی اور دوسری طرف خود پسندی کی وجہ سے لوگوں کی نگاہوں میں حقیر ہو گیا۔ خطا کا اقرار ایک شجاعت ہے اور یوں وہ کمزوری اس کی طاقت بن گئی اور اچھائی پر تکبر کمزوری و پستی کا سبب بن گئی۔

184۔ ہمت

قَدْرُ الرَّجُلِ عَلٰى قَدْرِ هِمَّتِهٖ۔ (حکمت 47)
انسان کی قدر و قیمت اُس کی ہمت کے اعتبار سے ہوتی ہے۔

انسان کی عظمت حقیقت میں اس کے اہداف و مقاصد کی عظمت سے پہچانی جاتی ہے ۔ جو انسان بلند اہداف مقرر کرتا ہے وہ ان کے حصول کے لئے بڑے بڑے فیصلے کر کے ان کے مطابق بڑے بڑے اقدام کرتا ہے۔یعنی بلند اہداف کے حصول کے لئے ا س کا حوصلہ و ہمت بھی بلند ہونا چاہیے۔ مقصد کے حصول کے بعد اسے جو عزت و مقام ملے گا وہ اپنی جگہ مہم ہے مگر امیرالمومنینؑ کے اس فرمان کے مطابق کسی آدمی کو محنت کرتے ہوئے اس کے مقام کو پہچاننا ہے تو اس کی ہمت و حوصلہ کو دیکھیں،وہ نتیجہ تک پہنچ سکے یا نہیں، حقیقت میں ا سکی ہمت و حوصلہ اس کی حیثیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک آدمی اپنی قوم کی آزادی کے لیے۲۰ سال قید میں گزار دیتا ہے، اس قید میں ا س کا حوصلہ و ہمت اس کے مقام کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہمت ہی کی بلندی انسانی کمالات کا ایک جوہر ہے۔اس لیے ہمتیں بلند رہنی چاہیں۔

185۔ دور اندیشی

اَلظَّفَرُ بِالْحَزْمِ۔ (حکمت 48)
کامیابی دور اندیشی سے وابستہ ہے۔

آج بڑی بڑی اور مقبول کتابیں کامیاب زندگی کے موضوع پر لکھی جا رہی ہیں۔ امیرالمومنینؑ نے ان دو لفظوں میں کامیابی کا بنیادی اصول بیان فرمایا دیا ہے۔حزم یعنی دور اندیشی،باریک بینی سے نتائج کا جائزہ لینا اور مستقل مزاجی و احتیاط کے ساتھ منزل مقصود کے لئے کمر بستہ ہوجانا۔یوں آگے بڑھنے والا شخص مادی دنیا میں کامیاب ہوگا اور روحانی اعتبار سے بھی ترقی کرے گا۔ راہ کی رکاوٹیں ایسے افراد کو مقصد سے دور نہیں کرسکتیں۔پست سوچ والے افراد زندگی کے مسائل کا باریک بینی سے جائزہ لے کر فیصلہ نہیں کرتے اور پھر چھوٹی سی رکاوٹ کا سامنا ہو تو مایوس و بد دل ہو جاتے ہیں اور شکست کھا کر بیٹھ جاتے ہیں۔

186۔ انس و محبت

قُلُوْبُ الرِّجَالِ وَحْشِيَّةٌ فَمَنْ تَاَلَّفَهَا اَقْبَلَتْ عَلَيْهِ۔ (حکمت 50)
لوگوں کے دل صحرائی جانوروں کی طرح ہیں جو ان کو سدھائے گا اس کی طرف جھکیں گے۔

امامؑ کا یہ فرمان علم نفسیات کا خوبصورت جملہ ہے جو عر بی کی بہت خوبصورت ضرب المثل بن گیا ہے۔ امیرالمومنینؑ انسانی دلوں کو سدھانے اور انہیں تسخیر کرنے کی راہیں بتاتےہیں۔ یہ دل جسے نہیں جانتا اس سے ڈرتا اور دور رہتا ہے مگر جو اسے رام کرنے کی راہوں سے آگاہ ہو جائے وہ اسے اپنا بنا لیتا ہے،لفظ وحشی کہہ کر اس بات سے بھی خبردار کیا کہ اس سے بد اخلاقی و بد سلوکی کی جائے تو یہ پھر بھڑک جاتا ہے اور اتنا دور پرواز کر جاتا ہے کہ پھر کبھی اس بام پر نہیں بیٹھتا۔
رسولؐ اللہ نے سُدھانے کی تین راہیں بتائیں۔ کشادہ روئی سے ملنا، محفل میں مناسب جگہ دینا، مخاطب کے پسندیدہ نام سے اسے پکارنا۔ یہ وہ گرُ ہیں جو ان معلّمان الہی نے بتائے ہیں۔ دل ان راہوں سے کسی کے وارد ہونے کا منتظر رہتا ہے۔فیض احمد فیض کہتے ہیں:
تمام شب دل وحشی تلاش کرتا ہے ہر اک صدا میں ترے حرف لطف کا آہنگ۔

187۔ طاقت کا شکرانہ

اَوْلَى النَّاسِ بِالْعَفْوِ اَقْدَرُهُمْ عَلَى الْعُقُوبَةِ۔ (حکمت 52)
معاف کرنا سب سے زیادہ اسے زیب دیتا ہے جو سزا دینے پر سب سے زیادہ قدرت رکھتا ہو۔

انسانیت کے معیار کو معراج تک پہنچانے والے اصولوں میں سے ایک معاف کر دینا ہے۔معاف کر دینے کی تاکید و تعریف اللہ سبحانہ نے بھی قرآن میں بار بار فرمائی ہے۔انسان جب بے بس ہوتا ہے اور کسی کو سزا نہیں دے سکتا یا کسی سے انتقام نہیں لے سکتا تو مجبورابرداشت کرتا ہے اور اندر کڑھتا رہتا ہے مگر جب کسی کے پاس طاقت و قدرت ہو، انتقام لے سکتا ہو اور سزا دے سکتا ہو تب اس کے اندر کے انسان کا امتحان ہوتا ہے، ایسے موقع پر اگر وہ دوسروں کو معاف کر دیتا ہے تو اختیار کے با وجود معاف کر دینا ہی انسان کا کمال ہے۔ امیرالمومنینؑ اسےحقیقی معافی قرار دیتے ہیں۔مختصر یہ بڑا انسان وہی ہے جو معاف کرنا جانتا ہے۔

188۔ عقل

لَاغِنٰى كَالْعَقْلِ وَلَافَقْرَ كَالْجَهْلِ۔ (حکمت 54)
عقل سے بڑھ کر کوئی ثروت نہیں اور جہالت سے بڑھ کر کوئی فقر نہیں۔

انسان کو حیوان سے بلند کر نے والی نعمت کا نام عقل ہے۔ عقل ہی انسان کو اعلیٰ مدارج پر پہنچاتی ہے اور اگر اسی طرح اس عقل کو استعمال نہ کیا جائے اور سوچ بچار سے کام نہ لیا جائے تو انسان حیوان کے مقام سے بھی گر جاتا ہے۔ عقل یعنی اشیاء و امور کو ان کی حقیقت کے مطابق جاننا۔
امیرالمومنینؑ یہاں عقل کو بڑی دولت قرار دیتے ہیں کیونکہ اسی عقل و تدبیر سے مال و دولت اور مقام و عہدہ حاصل کیاجا سکتا ہے۔ آرام و سکون اور سعادت مندی و خوش بختی اسی تدبر و تفکر سے حاصل ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سخاوت مال سے اور حکمرانی عقل سے ہوتی ہے۔ عقل علم و مال اور عزت و شرف بلکہ دنیا و آخرت کی ہر اچھائی کا مرکز ہے۔ عقل کے مقابلے میں جہل و نادانی کو بدترین فقر و تنگدستی قرار دیاگیا ہے کیونکہ جاہل و نادان آدمی بنی بنائی دولت اور مقام کو جہالت کی وجہ سے ضائع کر دیتا ہے ۔عقل کی اہمیت و عظمت پر بہت کچھ کہا گیاہے۔ عقل مند کی پہچان کے بارے میں بھی بہت سے اصول بیان کئے گئےہیں۔ مثلا یہ کہ عقلمند لوگوں کی عقل کے مطابق بات کرتا ہے کسی نے بہت خوب کہا، عقل مند وہ بات نہیں کہتا جس کے جھٹلائے جانے کا خوف ہو، اس شخص سے کچھ نہیں طلب کرتا جس کے نہ دینے کا ڈر ہو، اس پر اعتماد نہیں کرتا جس سے دھوکا دینے کا احتمال ہو اوراس سے امید نہیں رکھتا جس پر مکمل بھروسا نہ ہو۔ جس میں یہ باتیں پائی جائیں وہ عقل مند ہے اور سب سے بڑی دولت کا مالک ہے اور جس میں یہ علامات و صفات نہ ہوں وہ جہالت کا حامل ہے اور یہ سب سے بڑا فقر ہے۔

189۔ ادب

لَامِيْرَاثَ كَالْاَدَبِ۔ (حکمت 54)
ادب جیسی کوئی میراث نہیں۔

وہ سرمائے جن کی وجہ سے انسان دنیا و آخرت میں سرخرو ہوتا ہے، اُن میں سے ایک ادب ہے۔ ادب ایسا سرمایہ ہے جو کمایا بھی جا سکتا ہے جس کے لئے استاد کا میسر آنا ضروری ہے اور ممکن ہے حصول ادب کے لئے پوری زندگی خرچ ہو جائے۔ یہاں امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں بہترین میراث جو انسان کو اپنے آباء و اجداد سے اور گزشتہ نسلوں سے مل سکتی ہے، وہ ادب ہے۔
ادب یعنی لوگوں سے اچھا برتاؤ، خود کو اچھے اخلاق سے مزیّن کرنا اس انداز سے کہ یہ اخلاق طبیعت کا حصہ بن جائے۔ با ادب وہ ہے جو بولتا ہے تو دوسروں کے احترام کے ساتھ، اگر کوئی بولتا ہے تو یہ بہترین سننے والا ہوتا ہے کسی سے اختلاف ہو تو بھی احترام ملحوظ خاطررکھتا ہے، غیر سنجیدہ آدمی سے جھگڑے کی نوبت نہیں آنے دیتا ۔ حکماء نے ادب کی درجنوں تعریفیں کیں، امیرالمومنینؑ نے دو لفظوں میں نچوڑ پیش کر دیا۔ کسی عظیم حکیم نے کہاکہ ادب سفر کا ساتھی، تنہائی کا مونس، محفل کی زینت اور حاجت برآوی کا سبب ہے۔ایک اورحکیم کہتے ہیں کہ باپ اولاد کے لئے جو سرمایہ چھوڑ جاتا ہے اس میں سے قیمتی ترین ادب ہے کیونکہ ادب سے باقی چیزوں کو کما سکتا ہے، مال و عزت حاصل کر سکتا ہے لیکن ادب کے بغیر فقط مال چھوڑ جائے گا تو بے ادبی سے سب کچھ کھو دے گا۔ وہی مال جرائم کا سبب بن جائے گا۔ایک حکیم کا کتنا پیارا جملہ ہے کہ کوئی چھوٹی عمر میں اولاد کو ادب سکھا جائے تو اُس نے اُسے بڑا بنا دیا۔

190۔ مشورہ

لَا ظَهِيرَ كَالْمُشَاوَرَةِ۔ (حکمت 54)
مشورے جیسا کوئی مدد گار نہیں۔

انسانی زندگی کی ترقی و کمال کی بہت سی سیڑھیاں ہیں اُن میں ایک معاون و مدد گار سیڑھی مشورہ ہے۔ انسان ایک معاشرتی مخلوق ہے اور دوسرے افراد سے کٹ کر رہنا، یا خود کو دوسروں سے بلند تر سمجھنا اور خود پسندی کی مرض میں مبتلا ہونا اس کے کمال کے لئے رکاوٹ کا سبب ہے۔
امیرالمومنینؑ کے اس فرمان کے مطابق اگر کوئی کمال تک پہنچنا چاہتا ہے تو اسے دوسروں کی آراء و افکار سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اس طرح ایک تو وہ خود کو سب کچھ اور سب سے اعلٰی سمجھنے کی غفلت سے باہر آجائے گا اور دوسرا یہ کہ مشورے سے کئی نئی راہیں اس کے لئے روشن ہوں گی اور وہ کئی خطاؤں سے محفوظ رہے گا۔ایک آدمی جب اپنی طبیعت کے مطابق کسی کام کو انجام دینا چاہتا ہے تو اسے اس کے منفی پہلو بہت کم نظر آتے ہیں اور وہ حقیقت کے مطابق فیصلہ نہیں کر سکتا۔ یوں اسے غلطیوں اور ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ لیکن اگر ان لوگوں سے مشورہ کرے جو اس سے الگ سوچ رکھتے ہیں تو وہ حقیقت کو بہتر انداز سے سمجھ سکتا ہے ۔ انسانی ترقی کے لئے امیرالمومنینؑ نے مشورے کو بار ہا مختلف انداز سے پیش فرمایا ہے، مثلا جس سے مشورہ کیا جائے اس کی شرائط بیان کی ہیں کہ وہ عاقل، سچا، راز دار، حق گو، بہادراور خیر خواہ ہونا چاہیےتاکہ اس کے مشورے کو اطمینان سے قبول کیا جا سکے۔ انسان دوسروں کو مشورے میں شامل کر کے اپنے اشتباہات کو کم کر سکتا ہے اور یوں مشورہ ترقی کی منزلوں کو طے کرنے میں بہترین مددگار قرار پاسکتا ہے۔

191۔ غربت

اَلْغِنٰى فِى الْغُرْبَةِ وَطَنٌ وَ الْفَقْرُ فِى الْوَطَنِ غُرْبَةٌ۔ (حکمت 56)
دولت ہو تو پردیس بھی دیس ہے اور مفلسی ہو تو دیس بھی پردیس ہے۔

انسان جہاں پیدا ہوتا ہے وہاں عزیز و اقارب ہوتے ہیں، جہاں پچپن گزارتا ہے اس جگہ کے ایک ایک حصے سے اُسےآشنائی ہوتی اور محبت ہو جاتی ہے۔ اس طرح وہاں سکون و راحت محسوس کرتا ہے وہاں خود کو قوی جانتا ہےجبکہ پردیس یعنی جہاں سے انسان نا واقف و ناموس ہوتا ہے، نہ پیار کرنے والے ہوتے ہیں، نہ مددگار۔ پردیس میں انسان تنہائی، و وحشت اور خوف و الم محسوس کرتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ یہاں دولت و ثروت اور غربت و ناداری کے اثرات کو بیان فرما رہے ہیں۔ دولت ہے تو انسان جہاں بھی ہوگا وطن والی سہولیات میسّر ہوں گی اور فقیر و نادار ہے تو وطن میں بھی نہ کوئی دوستی کرنے والا ہوگا اور نہ کوئی تعلقات بڑھانا پسند کرے گا۔ آپ غنی و فقر کے اثرات بیان کرکے فقر کو دور کرنے کے لیے متوجہ کر رہے ہیں۔ یعنی محنت کرو، اتنا کماؤ کہ خود کو فقر کی ذلت و رسوائی سے بچا سکو، دوسروں سے بے نیاز ہو جاؤ۔ فقر کو امام ؑنے موت اکبر بھی کہا ہے البتہ دولت کمانے سے مراد فقط سونا چاندی سمیٹنا مراد نہیں بلکہ اسے خرچ کر کے عزیز و اقارب کو جذب کرو اور ضرورت مندوں پر خرچ کر کے ان کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرو۔البتہ بہت سے مقامات پر فقر کی تعریف کی گئی ہے لیکن ایسے مقام پر جہان انسان مال و دولت رکھنے پر اس کا قیدی بن جائے، اسے چاہیے کہ مال کا مالک بنے اور مالک بن کر اپنے خالق کا نیاز مند و فقیر رہے۔

192۔ قناعت

اَلْقَنَاعَةُ مَالٌ لَّا يَنْفَدُ۔ (حکمت 57)
قناعت وہ سرمایہ ہے جو ختم نہیں ہو سکتا۔

انسان دولت و سرمایہ اس لئے حاصل کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعے اپنی حاجات و ضروریات پوری کرے اور سکون و اطمینان حاصل کرے۔ انسانی فطرت ہے کہ ایک ضرورت پوری ہوتی ہے تو دو مزید ضروریات سامنے آ جاتی ہیں اور پھر یہ سلسلہ کہیں نہیں رکتا اور جتنی دولت بڑھتی جاتی ہےخواہشات بھی بڑھتی جاتی ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔بہت سے لوگ سب کچھ ہونے کے با وجود کچھ نہ ہونے کا شکوہ کرتے ہیں اور بڑی بےتابی سے مزید کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں قناعت کو نہ ختم ہونے والا سرمایہ قرار دیا۔ یہ ایسا سرمایہ ہے جو انسان کو مطمئن کر دیتا ہے۔قناعت یعنی اپنی بھرپور محنت سے جو حاصل کر سکے اس پر مطمئن ہو جائے۔ قناعت ایک ایسی کیفیت ہے جس کے ہوتے ہوئے انسان زندگی کی کم سے کم ضروریات پر اکتفا کر لیتا ہے اور دنیا کی رنگینیوں اور سہولیات کا حصول ہی اس کا سارا ہمّ و غم نہیں ہوتا۔ یہ فکر انسان میں پیدا ہو جائے تو ایک دولت بن جاتی ہے جو دوسروں سے بے نیاز کر دیتی ہے اور زندگی میں اطمینان و سکون آ جاتا ہے۔

193۔ سچی راہنمائی

مَنْ حَذَّرَكَ كَمَنْ بَشَّرَكَ۔ (حکمت 59)
جس نے تمہیں برائیوں سے ڈرایا گویا اس نے تمہیں اچھائی کی خوشخبری سنائی۔

انسان زندگی کے کئی کاموں میں دوسروں سے مدد لیتا ہے، اس طرح زندگی میں کئی بار دوسرے شخص کی طرف سے صحیح و غلط کی نشاندہی کی ضرورت پڑتی ہے۔ماں باپ بچوں کو، استاد شاگردوں کو، راہنما عوام کو اور دوست دوست کوصحیح و غلط کی طرف متوجہ کرتے ہیں اور یہ ذمہ داری نبھاہتے رہتے ہیں ۔ یوں انسان دوسروں کے خبردار کرنے پر مشکلات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔امیرالمومنینؑ یہی فرما رہے ہیں کہ جس شخص نے تمہیں خطرات سے آگاہ کیا اس نےتمھیں سرور و فرحت کی خبر سنا دی۔ یعنی تم خطرے اور نقصان سے بچ گئے جو واقعا ایک خوشخبری ہے۔ اب جس کی وجہ سے انسان خطرےسے بچے اسے اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اسلام میں اس عمل کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے عنوان سے فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ امیرالمومنینؑ بار بار اس فریضے کی مختلف الفاظ میں اہمیت بتاتے ہیں۔خطرات سے آگاہ کرنے کا یہ عمل نصیحت بھی کہلاتا ہے، البتہ نصیحت کرنے والے کی پہچان یہ ہوگی کہ وہ تنہائی میں اور خوبصورت الفاظ میں غلطی سے آگاہ کرے گا۔ جو نصیحت کے روپ میں غلط کار ثابت کرنا چاہتا ہے وہ چوراہے پر نصیحت کرے گا اور کسی نے خوب کہا کہ آج کا سوشل میڈیا ایک چوراہا ہے۔

194۔ زبان کے خطرات

اَللِّسَانُ سَبُعٌ اِنْ خُلِّيَ عَنْهُ عَقَرَ۔ (حکمت 60)
زبان ایک ایسا درندہ ہے کہ اگر اُسے کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھاڑ کھائے۔

انسان کی پہچان اُس کی زبان ہے۔ یہی اسے حیوانات سے افضل بنائے ہوئے ہے۔ اللہ سبحانہ نےنعمتوں کے تذکرہ والی سورۃ رحمان میں انسانی خلقت کے ساتھ جس نعمت کو بیان فرمایاہے وہ بیان یا کلام کا علم ہے۔زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کبھی زخمی دلوں کے لیے مرہم بن جاتے ہیں تو کبھی الفاظ ہی زخمی دل پر نمک چھڑک جاتے ہیں۔امیرالمومنینؑ نے مختلف مقامات پر زبان کے خطرات سے آگاہ فرمایاہے۔ یہاں زبان کو درندے کے طور پر پیش کیاگیا ہے کہ اگر اسے کھلا چھوڑ دیا گیا تو درندوں کی طرح چھیڑ پھاڑ کھائے گی۔اس شباہت سے امام علی ؑزبان کے خطرات سے آگاہ فرما رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ تنبیہ کی جا رہی ہے کہ اسے کھلا نہ چھوڑا جائے بلکہ اس پر عقل کا پہرا ہونا چاہیے۔ اس زبان پر عقل کا پہرا ہوگا تو انسان سوچ بچار کے بعد کچھ کہے گا اس طرح زبان اور کلام خوشگوار زندگی کا سبب، لوگوں کو جوڑنے کا ذریعہ، دکھی انسانوں کا سہارا بنےگی اور اگر زبان آزاد ہو جائے تو خود اس شخص کے لئے اور دوسروں کے لئے بھی خطرے کا سبب بن جائے گی۔ اس زبان سے نکلا ہوا ایک جملہ کبھی بڑی بڑی جنگیں کروا دیتا ہے، آگ کے شعلے بھڑکا دیتا ہے، خون کی ندیاں بہا دیتا ہے ۔اور اسی زبان سے نکلے ہوئے جملات فتنہ و فساد کی بھڑکتی ہوئی آگ پر پانی ڈالنے کا کام دیتے ہیں۔

195۔ سلام

اِذَا حُيِّيْتَ بِتَحِيَّةٍ فَحَيِّ بِاَحْسَنَ مِنْهَا۔ (حکمت 56)
جب تم پر سلام کیا جائے تو اُس سے اچھے طریقہ سے جواب دو۔

انسان میں محبت و الفت کے رشتوں کو جوڑنے کے لئے یہ بہترین اصول ہے۔ پھر اُن تعلقات کو مضبوط کرنے لئے بھی مددگار ہے۔سلام: یعنی آپ کی زندگی و سلامتی و خوشی چاہنے کا زبان سے اظہار کرنا۔ آپ اُس اظہار کو بلا جواب نہ چھوڑیں اور دیر بھی نہ کریں اور جس انداز سے اُس نے محبت کا اظہار کیا ہے اُس سے بہتر انداز میں آپ بھی اظہار کریں۔ یہ ایک قرآنی اصول ہے جسے امیرالمومنینؑ نےدہرایا ہے۔آپؑ پھر فرماتے ہیں جب تم پر کوئی احسان کرے یا ہدیہ دے تو اس سے بڑھ چڑھ کر بدلہ دو مگر یاد رکھو شرف و فضیلت اس صورت میں بھی پہل کرنے والے ہی کے لئے ہوگی۔سلام اور ہدیہ دونوں محبت بڑھانے کا ذریعے ہیں اس میں جو پہل کرتا ہے اسے سراہا گیا ہے اور جس پر سلام کیا گیا یا جسے ہدیہ دیا گیا ، اسے تشویق دلائی گئی ہے کہ قبول کرو، رد نہ کرو اور قبول کر کے اسے بدلے کے بغیر نہ چھوڑو بلکہ اس سے بڑھ کر بدلہ دو۔بڑھ کر بدلہ دینے کے با وجود پہلے کو فوقیت کا یہ سبب ہے کہ اُس نے بغیر کسی توقع کے ابتدا کی تھی، اُس سے اچھائی میں پہل کرنے کی اہمیت کوبھی واضح کیا گیا۔

196۔ غفلت

اَهْلُ الدُّنْيَا كَرَكْبٍ یُّسَارُ بِهِمْ وَ هُمْ نِيَامٌ۔ (حکمت 64)
دنیا والے ایسے سواروں کے مانند ہیں جنہیں لے جایا جا رہا ہے اور وہ سو رہے ہیں۔

اس فرمان میں دُنیا کو راہ و سفر سےتشبیہ دی گئی ہےاور دُنیا والوں کو سوار و مسافر قرار دیاگیا ہے۔ مگر ایسے سوار جو غفلت کی نیند سو رہے ہیں جن کو لے جایا جا رہا ہے۔ مگر انہیں نہیں معلوم کہاں لے جایا جا رہا ہے، نہ راہ کا نہ ہمراہ کا، اور نہ ہی راہنما کا علم ہے سب کچھ بھلا کر اور غفلت میں پڑے سو رہے ہیں۔ مگر ان کا سفر جاری ہے اس مفہوم کو نہج البلاغہ کے علاوہ ایک اورمقام پر امام ؑنے یُوں بیان فرمایا: ’’اَلنَّاسُ نِيَامٌ فَاِذَا مَاتُوْا اِنْتَبَهُوْا”. لوگ سوئے ہوئے ہیں جب مریں گے تو جاگیں گے۔ ایک جرمن خاتون )میری شیمل(نے،جو عربی پر عبور رکھتی تھی اور کئی کتابوں کی مصنف تھیں اپنی زندگی میں اپنی قبر کے کتبہ پر یہ فرمان جرمن میں ترجمہ کے ساتھ لکھوایا جو بون(جرمنی) میں اب اُن کی قبر پر آویزاں ہے۔اس فرمان کے ذریعے آپ ؑاہل دنیا کو خواب غفلت سے بیدار کرنا چاہتے ہیں جو بیدار ہوگا وہ زندگی کا مقصد و ہدف خود طے کرے گا اور انہی راہوں پر چلے گاجو اُسے منزل تک پہنچائیں گے۔ مگر جو منزل سے غافل سویا ہوا ہے۔ ٹرینوں کے مسافر کئی دفعہ نیند میں ہوتے ہیں اور وہ اسٹیشن گزر جاتا ہے جہاں انھیں اُترنا ہوتا ہے۔نہیں معلوم کب جاگیں گے اور کیسے واپس جائیں گے اوراس کے لئے انہیں کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن زندگی کا مسافر اگر سو کر اپنی منزل کو کھو بیٹھا تو اسے پھر کبھی پلٹنے کا موقع نہیں ملتا۔
علامہ اقبال کی فارسی کلام میں اس مفہوم کی ایک مکمل نظم ہے۔
از خوابِ گراں،خوابِ گراں،خوابِ گراں خیز
گہری نیند،گہری نیند،گہری نیند سے جاگ

197۔ دوستی کی اہمیت

فَقْدُ الْاَحِبَّةِ غُرْبَةٌ۔ (حکمت 65)
دوستوں کو کھو دینا غریب الوطنی ہے۔

انسان کی فطرت ہے کہ وطن میں جھونپڑی بھی ہو تو مطمئن ہوتا ہے کیونکہ وہاں اُس کے دوست و احباب اور عزیز و اقارب ہوتے ہیں۔ انسان مل کر زندگی گزارنے والی مخلوق ہے۔ معاشرتی و اجتماعی زندگی اُس کے لئے سکون و راحت کا سبب ہوتی ہے۔ اُسے اُس مقام کی مٹی سے بھی انس ہوتا ہے جہاں پرورش پائی ہوتی ہے۔ امیرالمومنینؑ اِس فرمان میں انہی دوست و احباب کی اہمیت کو واضح فرما رہے ہیں۔ پیارے بچھڑ جائیں تو گویا وطن میں بھی غربت ہے، پیاروں کے بغیر زندگی میں سکون نہیں ہوگا۔ ہر طرف اجنبیت و بیگانگی اور خوف و وحشت ہوگی۔ پیاروں کے بچھڑ جانے سے مرادیا تو ان کی موت ہے جس پر انسان خود کو تنہا محسوس کرتا ہے البتہ موت اٹل فیصلہ ہے اس پر صبر سے ہی سکون ملے گا۔ زیادہ احتمال یہ ہے کہ یہاں جدائی سے انسان کی اپنی کوتاہیاں اور بد اخلاقیاں مراد ہیں جن کی وجہ سے یہ تعلقات بکھر اور ٹوٹ جاتے ہیں اور امامؑ اسی برتاؤ کو تبدیل کرنے کی تاکید فرما رہے ہیں۔ پیاروں کی جدائی واقعا بہت دکھی کر دینے والاعمل ہے۔ اس دنیا میں سخت سزاؤں میں سے ایک قید تنہائی ہے یعنی جہاں کوئی ملنے ملانے والا نہ ہو اس لئے انسان کو دوست احباب کو اہمیت دینی چاہیے تاکہ یہ ہم سے چھن نہ جائیں۔ پیاروں سے مل کر حاصل ہونے والے سکون کی حالت میں انسان زندگی کی ترقی کے لئے بہت سے فیصلے کر سکتا ہے اور اپنی بھی اور پیاروں کی ترقی و کامیابی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

198۔ نا اہل سے سوال

فَوْتُ الْحَاجَةِ اَهْوَنُ مِنْ طَلَبِهَا اِلٰى غَيْرِ اَهْلِهَا۔ (حکمت 66)
حاجت و ضرورت کا پورا نہ ہونا نا اہل سے مانگنے سے بہتر ہے۔

انسان کو اپنی عزت خود ہی بنانا ہوتی ہے اور اُس کی حفاظت بھی خود ہی کرنی ہوتی ہے۔ اسے زندگی میں بار ہا دوسروں کی ضرورت پڑتی ہے جیسے دوسرے اس کی مدد کے محتاج ہو سکتے ہیں۔ اس لئے ضرورت پڑنے پر دیکھے کہ کس کے آگے ہاتھ پھیلانا ہے۔ اگر کسی شریف سے ضرورت پوری ہو سکتی ہے تو ٹھیک ورنہ کسی شریر و نا اہل کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بجائے مقصد و ضرورت سے محرومی کو برداشت کر لے مگر نا اہل و پست کا ممنون احسان نہ بنے۔رسول اللہؐ کے سامنے کسی نے دعا مانگی۔ خدایا !مجھے مخلوق کا محتاج نہ بنا۔ آپ نے فرمایا ایسے نہ کہو اس لئے کہ ہر انسان دوسرے کا محتاج ہوتا ہے بلکہ یوں کہو: خدایا! مجھے شریر و پست کا محتاج نہ کر۔ پوچھا گیا: یا رسولؐ اللہ! وہ شریر کون ہے۔ فرمایا: اگر دے گا تو احسان جتائے گا اور احسان جتائے گا تو عیب نکالے گا کہ فلاں بڑا کمزور و حقیر ہے۔حکماء نے پست و نا اہل سے سوال کو موت سے بھی سخت قرار دیا ہے۔ سعدی نے گلستان میں لکھا ہے کہ اگر کہیں بے آبرو ہوکر آب حیات مل رہا ہو تو عقل مند اُس مرض سے مر جائے گا یہ سودا نہیں کرے گا کیونکہ مر جانا ذلّت کے ساتھ زندہ رہنے سے بہتر ہے۔اس فرمان میں جہاں یہ تاکید کی گئی ہے کہ نا اہل سے سوال نہ کرو، ضمنا یہ بھی واضح ہو گیا کہ اگر کبھی کوئی شریف کسی مجبوری کے تحت آپ کے سامنے دست سوال پھیلائے تو آپ نے اس کی عزت و شرافت کو بچانا ہے اور اس کی حاجت پوری کرنی ہے، اس سے آپ کی عزت و شرافت بڑھے گی اور کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے محفوظ رہیں گے۔ میر تقی میر کہتے ہیں:
آگے کسو کے کیا کریں دست طمع دراز

199۔ سخاوت

لَاتَسْتَحِ مِنْ اِعْطَاءِ الْقَلِيلِ فَاِنَّ الْحِرْمَانَ اَقَلُّ مِنْهُ۔ (حکمت 67)
تھوڑا دینے سے شرماؤ نہیں کیونکہ خالی ہاتھوں پھیرنا تو اس سے بھی گری ہوئی بات ہے۔

سخاوت انسانی شرافت کی دلیل ہے۔ اس فرمان میں امیرالمومنینؑ نے بڑے لطیف و خوبصورت انداز میں سخاوت کی ترغیب دلائی ہے۔ بار ہا ایسا ہوتا ہے کہ سائل سوال کرتا ہے اور انسان دینے کی خواہش کے باوجود گنجائش کی کمی کی وجہ سے اس سوال کو پورا نہیں کر سکتا اور کم دینے سے شرماتے ہوئے اسے کچھ نہیں دیتا۔ آپ نے فرمایا کہ بالکل کچھ نہ دینے سے بہتر ہے کہ جو دے سکتے ہیں خواہ کم ہی ہو،دے دیں۔ اس سے ایک تو دینے کی تمنا پوری ہو جائے گی، سائل کی مکمل نہیں تو کچھ مشکل تو حل ہو جائے گی آئندہ دینے کی ہمت بڑھے گی اور یوں سخاوت کی روح پرورش پائے گی۔دوسرا یہ کہ جو اس کے بس میں تھا اس نے دے دیا ، یوں اس کا دل مطمئن ہوگا اور جس مالک کی خوشنودی کے لیے دے رہا ہے اسے معلوم ہے کہ اس کے پاس کتنا ہے تو وہ بھی یقینا اس دینے پر راضی ہوگا۔ارسطو سے پوچھا گیا سخاوت کا کوئی ایسا طریقہ ہے کہ ہر ایک کو دیا جا سکے تو کہا ہاں ہر ایک کے لئے اچھائی اور خیر کی نیت کرو یعنی اگر ہر ایک کو دے نہیں سکتے تو جسےدے سکتے ہو اسے دو اور جسے نہیں دے سکتے نیت کر لو کہ اگر دے سکا تواسے دوں گا۔امیرالمومنینؑ کے اس فرمان میں یہی سکھایا جا رہا ہے کہ جس حد تک دے سکتے ہو دے دو اس طرح آپ کی نیت کا اظہار ہو گیا کہ اگر سائل کے سوال کو پورا کر سکتا ہوتا تو ضرور کرتا۔

200۔ شکست سے مت گھبرائیں

اِذَا لَمْ يَكُنْ مَا تُرِيْدُ فَلَا تُبَلْ مَا كُنْتَ۔ (حکمت 69)
اگر حسب منشا تمہارا کام نہ بن سکے تو پھر جس حالت میں ہو، مصروف رہو۔

انسان ہمیشہ دل میں بے شمار خواہشیں اور آرزوئیں رکھتا ہے اور جب کوئی خواہش پوری نہیں ہوتی تو غمزدہ اور مایوس ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر جس خواہش کی تکمیل کے لئے وقت و مال خرچ کیا ہو وہ حاصل نہ ہو سکے تو بعض افراد خودکشی پر اتر آتے ہیں۔ یہ خلاف عقل کام ہے، جو ہزاروں خواہشیں پوری ہوجاتی ہیں وہ انسان کو یاد ہی نہیں رہتیں اور ایک یا چندایک پوری نہ ہو سکیں تو اس پر مایوسی کا یہ عالم نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی مزید محنت ترک کرنی چاہیے۔امیرالمومنینؑ اس فطرت انسانی کی راہنمائی فرماتے ہیں کہ ایک منزل و مقام کے حصول کی بھرپور کوشش کرو مگر حاصل نہ کر سکو تو مایوس نہ ہو بلکہ اس حال میں خوش رہو۔ اگر اس ہدف کو حاصل نہ کرنے کی وجہ سے زیادہ غمگین ہوگے تو ممکن ہے جو حاصل ہے اسے بھی ضائع کر بیٹھو۔ جو نہیں پایا اس کے غم میں، جو ہے اُسے نہ کھو دو۔غم و حزن سے کوئی چیز پلٹے گی نہیں البتہ جو ہاتھ میں ہے، اس کے ضائع ہونے کا ڈر ہے۔

.201جہالت

لَا تَرَی الْجَاھِلَ اِلَّا مُفْرِطًا اَوْ مُفَرِّطًا (حکمت 70)
جاہل کو حد سے آگے بڑھا ہوا یا اس سے بہت پیچھے پاؤ گے۔

انسان کی پہچان ایک ایسا موضوع ہے جس سے ہر کسی کو واسطہ پڑتا ہے۔کوئی شخص کسی کے ساتھ مختصر وقت گزارنا چاہتا ہے یا ایک مختصر سے سفر پر کسی کے ساتھ جانا چاہتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی پہچاننے والے کا ہم سفر ہو۔انسان کی زندگی کے مختلف پہلو ہوتے ہیں ان میں سے ایک یہ کہ انسان جاہل ہوتا ہے اور عالم ہوتا ہے۔ عالم اور جاہل انسان کی پہنچان مختلف طریقوں سے بیان کی گئی ہے۔امیر المؤمنینؑ نے یہاں جاہل کی پہچان ان الفاظ میں کرائی کہ وہ حد وسط و اعتدال سے یا آگے بڑھ جائے گا یا بہت پیچھے رہ جائے گا۔کسی شخص کی افراط و تفریط کی یہ روش اس کی جہالت کی نشاندہی کرتی ہے۔یہ افراط و تفریط یا کمی و پیشی انسان کی شخصی زندگی میں بھی ہو سکتی ہے اور معاشرتی زندگی میں بھی۔اخلاقیات میں بھی ہو سکتی ہے اور عقائد میں بھی۔مثلا کھانے میں ایک شخص اتنی احتیاط کرنے لگتا ہے کہ اس کا جسم لاغر ہو جاتا ہے اور اس کی صحت متاثر ہونے لگتی ہے اور کبھی کوئی کھانے میں اتنا زیادہ کھاتا ہے کہ اس کا جسم موٹاپے کا شکار ہو جاتا ہے۔یہ غذا میں افراط و تفریط ہے۔
اخلاقیات میں بعض لوگ دوسروں پر اتنا شک کرنے لگتے ہیں کہ اپنی بھی اور دوسروں کی زندگی کو بھی جہنم بنا دیتے ہیں اور بعض لوگ اتنے بے پرواہ ہو جاتے ہیں کہ ہر جائز وناجائز کو انجام دیتے رہتے ہیں ۔ کچھ اچھائی کو برائی اور کچھ برائی کو اچھائی شمار کرنے لگتے ہیں۔عقائد میں بھی یہ چیز عام نظر آتی ہے کہ بعض افراد کچھ لوگوں کو خدا بنا بیٹھتے ہیں اور بعض خدا کو بھی بھلا بیٹھتے ہیں۔امامؑ نے یہاں ایک طرف جاہل کی نشانی بتائی ہے اور دوسری طرف افراط و تفریط کی مذمت بیان کی ہے۔
انسان اگر پرسکون اور کامیاب زندگی بسر کرنا چاہتا ہے تو اسے حد اعتدال کا خیال رکھنا چاہئے۔ممکن ہے وہ بہت تعلیم حاصل کر چکا ہو مگر امامؑ کے اس اصول کو مدنظر نہیں رکھتا تو جاہل و نادان گنا جائے گا۔

202۔ خاموشی

اِذَا تَمَّ الْعَقْلُ نَقَصَ الْكَلَامُ۔ (حکمت 71)
جب عقل پختہ ہوتی ہے تو گفتگو کم ہو جاتی ہے۔

ہر انسان اپنی زندگی میں عزت کا خواہاں ہوتا ہے اور خود کو عقل مند ثابت کرنے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ بہت سے لوگ عزت کا حصول اور عقلمندی کا ثبوت اس میں تلاش کرتے ہیں کہ زیادہ باتیں کریں اور دوسروں کو باتوں میں خاموش کر دیں وہ سمجھتے ہیں کہ یوں ان کی عزت ہوگی۔ امیرالمومنینؑ نے عزت کے حصول کا اور عقل کے ثبوت کا ایک اصول بیان فرمایاہےجس کے مطابق بہت سی باتوں سے عزت نہیں ملتی، تھوڑی مگر اچھی باتوں سے انسان کی عقلمندی ثابت ہوتی ہے۔آپؑ نے واضح فرمایا ہےکہ جب عقل کامل و پختہ ہوتی ہے تو اس کی پختگی اور کمال کا ایک ثبوت یہ ہوتا ہے کہ انسان کی باتیں کم ہو جاتی ہیں۔ عقل حقیقت میں عربوں کی لفظ عقّال سے لیا گیا ہے۔ عقاّل اُس رسی کو کہتے ہیں جس سے اونٹ کا گھٹنہ باندھا جاتا ہے تاکہ وہ مالک کی مرضی کے بغیر اِدھر اُدھر نہ چلا جائے، گم نہ ہو جائے۔ انسانی عقل بھی اس کے اعضاء کے لئے اُسی رسّی کا کام دیتی ہے تاکہ یہ اعضاء مثلاً زبان مالک کی مرضی کےبغیر اِدھر اُدھر کی باتیں نہ کرتی رہے۔ اگر عقل کو استعمال کیا جائے گا توبات کرنے سے پہلے سوچا جائے گا اور وہ کچھ کہا جائے گا جو کہنے والے یا سننے والے یا دیگر معاشرے کے لئے مفید ہو گا اس طرح باتیں خود بخود کم ہو جائیں گی اور جو باتیں ہوں گی مفید ہوں گی مزاح میں بھی غیر مفید باتیں نہیں ہوں گی رسول اللہؐ نے فرمایا: ایک اچھے انسان کی علامت یہ ہوتی ہے کہ جن باتوں کا اس سے تعلق نہیں ہوتا، انہیں نہیں کہتا۔

203۔ راہنما کی ذمہ داریاں

مَنْ نَصَبَ نَفْسَهٗ لِلنَّاسِ إِمَاماً فَلْيَبْدَاْ بِتَعْلِيْمِ نَفْسِهٖ قَبْلَ تَعْلِيْمِ غَيْرِهٖ۔ (حکمت 73)
جو لوگوں کا راہنما بنتا ہے اسے دوسروں کو سکھانے سے پہلے خود سیکھنا چاہیے۔

یہ کسی قوم کا راہنما یا کسی گروہ کا معلم بننے کے خواہشمند کے لیے ایک خوبصورت اصول ہے۔ آج لیڈر شپ کے نام سے بڑے بڑے پروگرام انجام دیے جاتے ہیں جن کا خلاصہ اس فرمان میں آ گیاہے کہ اگر واقعاً راہنما بننا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس راہ کو جانو جس پر دوسروں کو چلانا چاہتے ہیں۔ آدمی راہنمائی کے لیے آگے بڑھے اور خود کو راہ کا پتہ ہی نہیں تو یہ دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا۔ یا کوئی چیز کسی کو سکھانا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ اس فن میں خود مہارت حاصل کرے تب دوسروں کو سکھائے۔ البتہ کچھ چیزیں خاص کر اخلاقیات زبان سے سکھانے کے بجائے اپنے کردار و سیرت سے سکھانا زیادہ مؤثر ہوتا ہے اور جو شخص خود کو مہذب بنا کر اور جس شعبہ والوں کی راہنمائی کر رہا ہے اس شعبہ کا ماہر ہے تو سیکھنے والے بھی اس کاحترام کریں گے اور دوسرے لوگ بھی اس کا احترام کریں گے۔ اپنے اندر کمال پیدا کرنے والے اور سیرت کو اس کمال کے مطابق ڈھالنے والے کا احترام ان لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے جنہیں اس نے سکھایا ہے۔ آج استاد کی وہ عزت و احترام ہی نہیں کیونکہ سکھانے والا مہارت نہیں رکھتا یا خود اپنے علم پر عمل نہیں کرتا۔

204۔ موت کا سفر

نَفَسُ الْمَرْءِ خُطَاهُ اِلٰی اَجَلِهٖ۔ (حکمت 74)
انسان کی ہر سانس ایک قدم ہے جو اسے موت کی طرف بڑھائے لئے جا رہا ہے۔

انسان پیدا ہواتو سانس لینا شروع کیا ،ہر سانس اپنے سے پہلی سانس کی فنا و موت ہے اور یوں جن سانسوں کو ہم زندگی سمجھتے ہیں وہ موت کی طرف ایک ایک قدم ہیں۔
معروف شاعر فانی نےکیا خوب کہا:
ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانیؔ
امیرالمومنینؑ اس فرمان میں جہاں زندگی کی حقیقت اور موت کی طرف تیزی سے بڑھنے کی وضاحت فرما رہے ہیں وہیں جلد سے جلد اور زیادہ سے زیادہ اس موقع سے استفادہ کی تنبیہ بھی ظاہر ہوتی ہے اس مختصر زندگی میں کہیں کسی کے نازک دل کو ٹھیس نہ لگائیں اور کسی کی زندگی کی راہ میں روڑہ نہ بن جائیں۔ گاڑی پیٹرول ختم ہونے کے قریب پہنچے تو سرخ لائٹ روشن ہوتی ہے کہ میرے چلنے کا ذریعہ ختم ہو رہا ہے تو ڈرائیور فورا پیٹرول پمپ تلاش کرتا ہے تاکہ گاڑی رکنے نہ پائے مزید پیٹرول ڈلوا دیا جائے۔اگر زندگی کی سانسوں کو جاری رکھنا ہے تو آپؑ کے اس فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے اسے کسی مرکزِ خیر سے جوڑ دیں اور سانس رکنے سے پہلے دوسروں کی سانس کے چلنے کا سبب بن جائیں اس طرح آپ کی سانس رکے گی نہیں بلکہ صدقہ جاریہ بن کر چلتی رہے گی۔ پانی کا کنواں، تعلیم کا مرکز، غریب کی چھت، یا ہسپتال بنا کر صدقہ جاریہ کا اہتمام کریں۔

205۔ پہچان کا طریقہ

اِنَّ الْاُمُوْرَ اِذَا اشْتَبَهَتْ اُعْتُبِرَ اٰخِرُهَا بِاَوَّلِهَا۔ (حکمت 76)
جب کسی کام میں اچھے برے کی پہچان نہ رہے تو آغاز کو دیکھ کر انجام کو پہچان لینا چاہیے۔

انسان زندگی میں اپنے اور دوسروں کے بارے میں سوچتا ہے کہ ہم جو کام کرنا چاہتے ہیں، دوستی کرنا چاہتے ہیں، تعلق بنانا چاہتے ہیں تو اس کا انجام کیا ہوگا۔ امیرالمؤمنینؑ نے یہاں مختصر الفاظ میں پہچان کا بہترین طریقہ بیان فرما دیا کہ آگے کو جاننے کے لئے پیچھے کو جان لو۔ اختتام معلوم کرنے کے لئے ابتدا ءکے بارے میں معلومات لے لیں۔ایک آدمی کسی کام کی ابتدا بڑی تدبیر سے کرتا ہے، اس پر محنت کرتا ہے، دوسروں سے مشورہ کرلیتا ہے تو اس کا اختتام اچھا ہوگا جب کہ ایک شخص شروع ہی سے سُست ہے، کاموں میں غفلت برتتا ہے تو اختتام اچھا نہیں ہوگا۔ کسی نے فضول خرچی سے زندگی کی ابتدا کی تو نتیجہ دولت کا ضیاع اور فقر ہی ہوگا۔ یوں عقل مند ابتدا کو دیکھ کر انتہا کو جان سکتا ہے۔ دوسروں کی زندگیوں کی طرح اپنی زندگی کے انجام کا بھی اندازہ لگا سکتا ہے البتہ دوسروں کی زندگیوں کی ابتدا و انجام پہچان کر اپنی زندگی کی ابتدا مضبوط بنیادوں پر رکھ کر کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ شاید یہ فرمان دوسروں کی پہچان سے زیادہ اپنی زندگی کو سنوارنے کے لئے اہم ہے۔ اگر زندگی کا اچھا انجام چاہتے ہیں تو بنیادوں پر توجہ دیں، بنیادیں مضبوط کریں تاکہ کامیابی ملے۔ بنیاد ٹھیک نہ ہو سکی تو سارا کام اس شعر کا مصداق ہوگا۔
خشت اول چون نهد معمار کج

206۔ حکمت

اَلْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ فَخُذِ الْحِكْمَةَ وَ لَوْ مِنْ اَهْلِ النِّفَاقِ۔ (حکمت 80)
حکمت مومن ہی کی گمشدہ چیز ہے اسے حاصل کرو اگرچہ منافق سے لینا پڑے۔

علم و دانش، یا اچھائیاں اور حقائقِ اشیاء جہاں سے ملیں انہیں حاصل کر لینا چاہیے۔ یہ امیرالمومنینؑ کے بہت مشہور فرامین میں سے ہے۔ اس میں آپ نے حکمت کو مومن کی گمشدہ چیز قرار دے کر اس میں تلاش کی تڑپ پیدا کی ہے۔ کوئی صاحب ایمان کچھ باتیں سیکھ کر مطمئن نہیں ہوتا بلکہ مزید کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس میں علم و حکمت کی پیاس پیدا کی گئ ہے ہر مومن سے کہا گیا ہے کہ علم تمہاری میراث تھی کہیں کھو گئی ہےتم وارث کی طرح تلاش میں رہیں، جہاں سے ملے اسے حاصل کریں۔ جب پیاس پیدا ہو جائے تو پھر دور دراز کا سفر اور طویل زمانہ رکاوٹ نہیں بنتا کیونکہ اپنی چیز کی تلاش ہر دور میں اور ہر کہیں جاری رکھی جاسکتی ہے۔ اس میں گویا یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کی حفاظت کرنا تیرا ہی فریضہ ہے جو کھوگئی اسے تلاش کرنا تیری ذمہ داری ہے۔ مشہور ہے کہ موتی کبھی ایک کوڑے کے ڈھیر سے بھی مل جاتا ہے جہاں سے ملے لے لو، ایک فارسی حکیم کا مشہور قول ہے کہ میں نے اچھی چیز کتے، بلے اور خنزیر، سے بھی لے لی۔اس سے پوچھا گیا کتے سے تو نے کیا لیا ؟کہا گھر والوں کی محبت و الفت اور مالک کی حفاظت۔ حقیقت میں جو تلاش میں رہتا ہے وہ پا لیتا ہے اور بہتر سے بہتر کی تلاش ہونی چاہیے اور حکمت کی تلاش کا پہلا مرکز اللہ کی کتاب اور حکمت کا پہلا معلم رسول اللہؐ ہیں اور آپؐ فرماتے ہیں: میں حکمت کا گھر اور علیؑ اس کا دروازہ ہیں۔

207۔ انسان کی قیمت

قِيْمَةُ كُلِّ امْرِئٍ مَا يُحْسِنُهٗ۔ (حکمت 81)
ہر شخص کی قیمت وہ ہنر و کمال ہے جو اس میں پایا جائے۔

دنیا میں ہر شے کی قدر وقیمت اُس کی طلب و ضرورت کے مطابق ہوتی ہے جس شے کو عوام زیادہ پسند کرتے ہیں اس کی قیمت زیادہ ہو جاتی ہے ۔سونا بھی بہت سی دھاتوں کی طرح ایک دھات ہے، اسے پسند کیا جانے لگا تو قیمت بھی بڑھتی گئی۔ انسان کی بھی مختلف اعتبار سے قدر و قیمت طے ہوتی رہتی ہے۔ کسی نے قوم و قبیلہ، کسی نے فوج و لشکر، کسی نے مال و دولت، کسی نے جسمانی قوت و طاقت، اور کسی نے کرسی و اقتدار کے اعتبار سے اس کی قدر و قیمت کو طے کیا۔امیرالمومنینؑ نے یہاں ایک جملے میں انسان کی قیمت کا معیار مقرر کیاہے اور یہ مختصر جملہ خود اتنا معیاری اور قیمتی بن گیا کہ نہج البلاغہ کے جامع سید رضیؒ یہ جملہ لکھنے کے بعد تحریر کرتے ہیں :’’یہ ایک ایسا جملہ ہے جس کی کوئی قیمت نہیں لگائی جا سکتی نہ کوئی حکیمانہ بات اس کے ہم وزن ہو سکتی ہے اور نہ کوئی جملہ اس کا ہم پایہ ہو سکتا ہے‘‘۔عرب کے مشہور زمانہ قدیم کے ادیب جاحظ نے اپنی دو جلدی کتاب البیان والتبین میں دوبار اس جملے کو ذکر کیا اور لکھا کہ’’اگر میری پوری کتاب میں فقط یہی ایک جملہ ہوتا تو کتاب کےلئے کافی تھا‘‘اس جملے میں آپ نے انسان کی قدر و قیمت کا معیار اس کے ہنر و کمال اور خیر و خوبی کو قرار دیا جو اس میں پائی جاتی ہے۔ وہ اچھائیاں اور خوبیاں جو دوسرے انسانوں کے نفع و احسان کے لیے بروئے کار لائی جاتی ہیں عقلاء کے نزدیک وہی انسانیت کی سند ہیں۔ ایک انسان عدل و انصاف، سخاوت و شجاعت کو پسند کرتا ہے تو اس کی قدر و قیمت اور ہے جب کہ ظلم و جور اور بخل و بزدلی کی طرف راغب ہے تو اس کا مقام اور ہوگا۔ اس کی پسند عمل میں ڈھلتی ہے تو اس کی قیمت متعین ہوتی ہے۔امیرامومنینؑ اس فرمان کے ذریعہ انسان کے ضمیر کو جگا کر حقیقی کمالات کو پہچاننے کی دعوت دیتے ہیں اور پھر اسے حاصل کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔ اگر کوئی ان کمالات کو دوسرے انسانوں کی خیر خواہی کے لئے استعمال کرتا ہے تو وہ حقیقی طور پرصاحب کمال ہوگا اور یہی اس کی کامیابی ہوگی۔

208۔ لا علمی کا اعتراف

وَ لَا يَسْتَحِيَنَّ اَحَدٌ مِنْكُمْ اِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ اَنْ يَقُوْلَ لَا اَعْلَمُ۔ (حکمت 82)
اگر تم میں سے کسی سے ایسی بات پوچھی جائے کہ جسے وہ نہ جانتا ہو تو یہ کہنے میں نہ شرمائے کہ میں نہیں جانتا۔

انسانی زندگی کو کمال تک پہنچانے کے لئے یہاں پانچ اصول بیان ہوئے ہیں۔ ان کے حصول کے لئے فرمایا کہ اگر اونٹوں کو ایڑ لگا کر تیز ہنکاؤ تو یہ اصول اس قابل ہیں کہ اونٹ دوڑائے جائیں۔ اونٹ دوڑاؤ یعنی زیادہ سے زیادہ کوشش کرو، دور دراز کے سفر طے کرو، جلدی سے جلدی پہنچو، مشکلیں برداشت کرو مگر ان خصوصیات کو حاصل کرو۔ یہ خصوصیات سعادت و سربلندی کی بنیاد ہیں۔ ایک رہبر و راہنما کا منصبی فریضہ ہے کہ وہ عوام کو کمالات کی راہوں سے آشنا کرے اپنی ہدایت کرتے ہوئے ان کی راہوں کے چراغ روشن کرے، قوم کے افراد کو ساتھ لے کر چلے اور انھیں منزل تک پہنچائے۔امیرالمومنینؑ اس ہادی کا فریضہ نبھا رہے ہیں۔ ان پانچ احکام میں سے یہاں تیسرے حکم کو بیان کیا جا رہا ہے جس میں فرمایاکہ اگر کسی چیز کو نہیں جانتے تو ’’نہیں جانتا‘‘کہنے سے نہ شرماؤ۔ اگر اس فرمان کو لے لیا جائے تو ایک تو کبھی اپنے علم پر غرور نہیں ہوگا چونکہ زندگی کے کئی امور سے انسان آگاہ نہیں ہوتا یوں اپنی علمی کمی کا احساس ہوگا تو مزیدسیکھنے کی کوشش کی جائے گی۔دوسرا یہ کہ اگر نہ جاننے کا اقرار نہیں کرے گا تو نہیں جانتا کہنے کے بجائے غلط جواب دے گا تو دوسروں کو گمراہ کرنے کا سبب بنے گا اور کل کسی کے سامنے جہالت ظاہرہوگئی تومزید شرمساری ہوگی اور توہین کا سبب بنے گی۔ اگر غلط بتانے پر کسی نے کچھ غلطی کر دی تو ساری زندگی ذہن میں ایک بے سکونی رہے گی کہ اس کا سبب میں تھا۔

209۔ بوڑھوں کی رائے

رَاْيُ الشَّيْخِ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ جَلَدِ الْغُلَامِ ۔ (حکمت 86)
بوڑھے کی رائے مجھے جوان کی ہمت سے زیادہ پسند ہے۔

زندگی کی بہار کا دور جوانی ہے۔ زندگی کے سفر میں اگر کوئی کمال تک پہنچنا چاہتا ہے تو اُسے جوانی کے زمانے کو استعمال کرنا چاہیے۔جسم میں بھی طاقت اور ہمت بھی جوان۔ جوانی میں کوئی کام بھی شروع کیا جائے گا تو وقت زیادہ ہوگا،ناکام بھی ہوا تو دوبارہ کرنے کا وقت ہوگا مگر امیرالمومنینؑ نے یہاں بوڑھے کے تجربے کو جوان کی ہمت پر ترجیح دی ہے۔ آپؑ کا یہ جملہ عربوں میں مثال بن چکا ہے۔ حقیقت میں یہاں ایک صاحب رائے بوڑھے کے تجربے کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔یہ اصول پوری زندگی پر بھی لاگو ہوتا ہے اور خاص کر جنگ کے ماحول میں اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے جوان اپنی شجاعت و قوت کے غرور میں بغیر کسی منصوبہ کے جنگ میں خود کو جھونک دیتے ہیں دوسری طرف بھی جوانوں کی طاقت موجود ہوتی ہے جب کہ حقیقی فتح منصوبہ بندی کی ہوتی ہے اور منصوبہ بندی تجربات سے ہی بہتر ہو سکتی ہے۔ شیر جیسے طاقتور حیوان کو منصوبہ بندی کے جال سے شکار کیا جاتاہے، طاقت سے نہیں۔اس فرمان میں ایک تو تجربے کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور ساتھ ہی جوانوں کو متوجہ فرمایاگیا ہے کہ جوانی کے غرور میں بزرگوں کو مت بھولیں، ان کا اپنا ایک مقام ہے اور اگر بزرگوں کی رائے اورتجربہ اور جوانوں کی ہمت و قوت جمع ہو جائیں تو یقینا زندگی کامیاب ہوگی۔بزرگوں کو اپنے تجربے جوانوں کے سپرد کرنے چاہئیں اور جوانوں کو اپنی قوت کی بنیاد بزرگوں کے تجربے پر رکھنی چاہیے۔ یوں زندگی کا سفر کامیابی کا سفر بنے گا۔

210۔ حکیمانہ اقوال

اِنَّ هٰذِهِ الْقُلُوبَ تَمَلُّ كَمَا تَمَلُّ الْاَبْدَانُ فَابْتَغُوْا لَهَا طَرَائِفَ الْحِكَمِ۔ (حکمت 91)
یہ دل بھی اسی طرح اکتا جاتےہیں جس طرح بدن اکتا جاتے ہیں لہذا ان کے لئے لطیف حکیمانہ نکات تلاش کرو۔

انسان کی ترقی و کمال میں دل کے سکون و اطمینان کو بہت دخل ہے۔ دل مطمئن ہو تو انسان مقصد کے حصول کے لئے بڑے بڑے قدم اٹھا سکتا ہے اور اعضاء و جوارح میں عمل و کوشش کا جذبہ جواں رہتا ہے۔ دل تھک جائے تو جد و جہد رُک جاتی ہے، بڑی بڑی کمپنیاں اور ادارے اپنے کارندوں کو فعال رکھنے کے لیے، دل خوش رکھنے کے مختلف پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ کھیلوں اور سیر و تفریح کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔امیرالمومنینؑ نے انسانیت کے کمال کے سفر میں دل کی تھکاوٹ دور کرنے کے لئے لطیف حکمتوں کا نسخہ تجویز فرمایاہے۔ یعنی دل کے سامنے وہ امور پیش کئے جائیں جن سے حقائق فطرت سامنے آئیں اور دل کو سکون ملے۔آپ جہاں حکیمانہ کلمات کو بیان فرماتےہیں وہیں کبھی مور کے پروں کے رنگوں کو تو کبھی چیونٹی کے ننھے سے جسم میں مکمل نظام حیات کا ذکر کرتے ہیں، یوں انسان کو خالق کی یاد دلاتے ہیں اور خالق خود فرماتا ہے میری یاد سے دل مطمئن ہو جاتے ہیں۔جسم تھکے تو غذا یا کسی اور پسندیدہ چیز سے راحت مہیا کی جاتی ہے روح اکتا جائے تو فطرت کے مناظر، باغ کے مہکتے پھولوں،ان کی خوشبؤوں، پرندوں کے نغموں اور کامل انسانوں کے با کمال اقوال کو اس کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ اسے سکون ملے اور کمال کا سفر جاری رہے۔

211۔ عمل

اَوْضَعُ الْعِلْمِ مَا وُقِفَ عَلَى اللِّسَانِ وَ اَرْفَعُهٗ مَا ظَهَرَ فِى الْجَوَارِحِ وَ الْارْكَانِ۔ (حکمت 92)
وہ علم بہت بے قدر وقیمت ہےجو زبان تک رہ جائے اور وہ علم بہت بلند مرتبہ ہے جو اعضاء و جوارح سے نمودار ہو۔

انسان کی سربلندی و کمال کا اہم معیار علم ہے۔ امیرالمومنینؑ یہاں علم کے ساتھ عمل کی اہمیت کو اجا گر فرما رہے ہیں۔ آپؑ نے علم کو دو حصوں میں تقسیم کیاہے۔ ایک وہ جو زبان و گفتگو تک منحصر ہے، اسے بے قدر و قیمت قرار دیا اور دوسرا وہ جو عمل میں ظاہر ہوتا ہے، اسے باوقار ٹھہرایا۔علم کی دو قسمیں ہیں تو علم رکھنے والوں کی بھی دو قسمیں ہوں گی۔ ایک وہ جو علم تو رکھتا ہے مگر عمل نہیں کرتا تو علم رکھنے کے با وجود وہ بےتوقیر ہوگا اور حقیقی قدر و قیمت علم پر عمل کرنے سے ہوگی۔ کلمات یاد کرلینا، کسی موضوع کی چند کتابیں پڑھ لینا یا ڈگری حاصل کر لینا معیار نہیں ہوگا۔ یہ تقسیم دنیوی و اخروی دونوں قسم کے علوم پر صادق آئے گی۔ ایک حکیم جانتا ہے کہ یہ زہر ہے اور زہر کے اثر کو بھی جانتا ہے کہ وہ قاتل ہوتی ہے پھر بھی کھا لیتا ہے تو اس کو جاہل سے بھی بدتر تصور کیا جائے گا کہ زہر کے نقصانات کو جانتا تھا پھر بھی اسےکھا لیا۔ اگر نہ جاننے والا کھائے گا تو اس کے لیے کہا جائے گا بیچارہ نہیں جانتا تھا۔ انسانیت کے لئے راہنما علوم بھی اگر جاننے کے باوجود کوئی نہیں اپنائے گا تو یہی کہا جائے گا کہ جانتا تھا پھر بھی عمل نہیں کیا۔ اس لیے اگر کوئی علم رکھتا ہے تو اس سے حلم و صبر کی توقع رکھی جاتی ہے اگر وہ غصہ و بےصبری کرے گا تو کہا جائے گا کہ جانتا بھی تھا مگر اپنایا نہیں۔ جاننے کے باوجود عمل نہ کرنے والوں کے لئے قرآن نے بھی کہاہے:’’ لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۔‘‘ جو کرتے نہیں وہ کہتے کیوں ہو۔کسی حکیم سے کہا جاتاکہ نصیحت کریں تو وہ اکثرفرماتے: جسے جانتے ہو اس پر عمل کر لو۔

212۔ عقل

لَامَالَ اَعْوَدُ مِنَ الْعَقْلِ۔ (حکمت 113)
عقل سے بڑھ کر کوئی مال سود مند نہیں۔

انسان کو حیوانات سے افضل بنانے والی نعمت کا نام عقل ہے۔ انسان مال کماتا ہے تاکہ اسے زندگی میں راحت و سکون اور عزت و احترام ملے۔ مال سے یہ فوائد تبھی حاصل ہوں گے جب مال کے ساتھ عقل کا استعمال ہوگا۔ کئی بار دیکھا گیا ہے کہ کسی کے پاس مال کی فراوانی ہے مگر اس مال کو عقل کے مطابق استعمال نہیں کرتا تو وہی مال اس کے سکون کے چھن جانے اور ذلت و رسوائی کا باعث بنتا ہے۔ مال کا نشہ ایسے کام کروا دیتا ہے کہ ساری زندگی دکھوں میں گھری رہتی ہے۔ ویسے بھی اگر مال ہو اور عقل نہ ہو تو بہت جلد وہ مال ضائع کر دیا جاتا ہے۔ کئی افراد ایسے دیکھے ہیں جنھیں میراث میں بہت بڑی جائیداد ملی مگر اپنی کم عقلی کی وجہ سے اسے جلدی ضائع کر بیٹھے اور فقیروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔ اگر کسی عقل مند کے پاس میراث کا مال نہیں آتا تو وہ اپنے شعور کو استعمال کرکے مالدار بن جاتا ہے۔یہی صورت اخلاقیات میں بھی ہے، مالدار ہے اور مال ہی کی وجہ سے مغرور ہے تو معاشرے میں اس کے لیے کوئی عزت و احترام نہیں ہوگا۔ لوگوں کو اس کے مال سے کوئی سروکار نہیں اور اگر مال نہیں مگر عقل و شعور سے کام لیتا ہے اور اخلاقیات پر عمل پیرا ہے تو اس کے وجود سے لوگوں کو زیادہ سکون و راحت میسر ہے۔ یہ سب عقل ہی کے سود مند ہونے کی نشانی ہے۔امیرالمومنینؑ یہاں مال کا عقل سے تقابل کرکے عقل کی اہمیت اور عقل کے استعمال کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں اگر عقل سے انسان کام نہ لے تو وہ سراسر حیوان ہے اور اگر عقل کو شر و فساد کے لئے استعمال کرے تو یہ بھی قساوت قلبی اور درندگی کے زمرے میں آئے گا۔اس لئے زندگی کی کامیابی کے لئے مال ہو یا نہ ہو عقل کے صحیح استعمال سے کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔

213۔ وحشت ناک تنہائی

لَا وَحْدَةَ اَوْحَشُ مِنَ الْعُجْبِ۔ (حکمت 113)
خود بینی سے بڑھ کر کوئی تنہائی وحشت ناک نہیں ہے۔

بہت سے انسان کسی خوبی کی وجہ سے خود کو بڑا سمجھتے ہیں اور خودبینی کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ بڑا سمجھنے میں فرق نہیں کرتے کہ وہ خوبی حقیقت میں ان کے اندر موجود ہے یا نہیں۔ وہ خوبی موجود ہو بھی تو بڑائی کا اظہار اسے بھی برائی میں بدل دیتا ہے۔جب کوئی خود کو بڑا سمجھتا ہے تو دوسروں کو حقیر و پست سمجھتے ہوئے ان سے دوستی و تعلق قائم نہیں رکھنا چاہتا اور دوسری طرف لوگ جب اس رویے کو دیکھتے ہیں تو وہ بھی اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور یوں دوریاں اور دوریوں سے تنہائیاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ امیرالمومنینؑ اس تنہائی کو وحشت ناک تنہائی قرار دے رہے ہیں کیونکہ ایسا انسان انسانوں میں بیٹھ کر بھی تنہا ہوتا ہے اور اس تنہائی کی وحشت سے آگاہ فرما کر حقیقت میں خود بینی اور بڑائی سے بچنے کی تاکید فرما رہے ہیں تاکہ آپ بھی دیکھیں کیا یہ بیماری آپ کو بھی تو لاحق نہیں ہو چکی اور اگر ایسا ہےتواس کا علاج کرنا چاہیے۔اس کا آسان ترین علاج یہ بتایا گیا ہےکہ جس چیز کو بڑائی کا سبب سمجھتے ہیں مثلا علم و دولت وغیرہ، اسے اللہ کی نعمت سمجھیں اور یاد رکھیں جو دے سکتا ہے وہ لے بھی سکتا ہے۔

214۔ دور اندیشی

لَا عَقْلَ كَالتَّدْبِيْرِ۔ (حکمت 113)
دور اندیشی سے بڑھ کر کوئی عقل کی بات نہیں۔

انسان کو حیوان سے الگ کرنے والی چیز کا نام عقل ہے اور عقل کا بہترین ثبوت تدبر ہے یعنی انسان جب کوئی کام انجام دینا چاہتا ہے تو اس کے آغاز و انجام کو باریک بینی سے جانچے۔دور اندیشی سے اُس کی منصوبہ بندی کرے اور انتہائی سوچ بچار کے بعد قدم اٹھائے۔ یہی دقت انسانیت کا کمال ہے اور ترقی کا ذریعہ ہے اور یہی حسن تدبیر عقل کے معیار کی نشانی ہے۔ یہ قوت ادراک جس سے انسان زندگی کو منظم کر سکتا ہے تجربوں کے بعد حاصل ہوتی ہے اور عقلمندی کاایک ثبوت یہ بھی ہے کہ انسان دوسروں کی فکر اور تجربے سے بھی استفادہ کرے۔

215۔ تقوی

لَا كَرَمَ كَالتَّقْوٰى۔ (حکمت 113)
تقویٰ و پرہیزگاری جیسی کوئی بزرگی نہیں۔

اس فرمان میں انسانی عظمت و شرافت اور بزرگی و کرامت کا معیار تقویٰ کو قرار دیا گیا ہے۔ یہ جملہ پوری انسانیت کے کئی کمالات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور حقیقت میں یہ قرآن کی ترجمانی ہے جہاں ارشاد پروردگار ہے ’’تم میں سے اللہ کے ہاں زیادہ معزّز و مکرم وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار و متقی ہے۔‘‘قرآنی اصطلاح میں تقوی ہر اس عمل کو کہا جاتا ہے جس میں روحِ اخلاص اور نیک و پاکیزہ نیت کو محور بنایا جائے۔ مسئولیت و ذمہ داری کا احساس جس انسان کے وجود پر حکومت کرے وہ متّقی کہلاتا ہے جو نیکی و عدالت کی طرف عمل کے ذریعے دعوت دے اور اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے قدم اٹھائے، وہ پرہیزگار کہلائے گا، اللہ سے ڈرو کہہ کر اس سے دور نہیں بلکہ اس کی مخالفتوں سے بچ کر اس کے قریب ہونے کا ذریعہ تقوی ہے۔انسانوں کی قدر و قیمت کو ناپنے کا یہ معیار قائم کر کے امیرالمومنینؑ اس کرامت کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور اہل تقوی کے امام بن کر ان با عظمت راہوں کو طے کرنے کا سلیقہ سکھا رہے ہیں۔

216۔ بہترین ساتھی

لَا قَرِيْنَ كَحُسْنِ الْخُلُقِ۔ (حکمت 113)
خوش خلقی سے بہتر کوئی ساتھی نہیں۔

انسان اُسی وقت تک انسان کہلانے کے قابل ہے جب تک اُس سے انس و محبت کے جوہر تقسیم ہوتے رہیں۔ جب اس سے یہ صفات ختم ہو جائیں تووہ حیوان سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ انسانوں میں الفت و محبت کے جذبے کو قائم رکھنے کے عمل کا نام حسن خلق ہے۔یہی حسن خلق دوسروں کے دلوں کو جذب کرتا ہے اور اسی سے دوستیاں بنتی ہیں اور یہ طریقہ دوست ساز ہے۔ اس نتیجے کو سامنے رکھتے ہوئے امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں کہ حسن خلق جیسا کوئی دوست نہیں۔حسن خلق یعنی انسان دوسروں سے یوں برتاؤ کرے کہ جس میں ان سے محبت ظاہر ہو۔ اب دوسرا عالم ہو یا جاہل، غنی ہویا فقیراس کے شر و غدر سے محفوظ رہے۔ ایسے حسن خلق کے مالک سے ہر کوئی دوستی کا خواہاں ہوتا ہے مگر بد اخلاق سے اپنے قریبی رشتہ دار بھی دور چلے جاتے ہیں۔قرآن مجید میں رسولؐ اللہ کو ’’ آپ اخلاق عظیم کے مالک ہیں‘‘ کی صفت سے یاد فرما کر دوسرے لوگوں کو اس صفت کی طرف راغب کیاگیا ہے۔ اس لیے اگر کسی انسان کو اپنا مقام انسانیت برقرار رکھنا ہے تو اس کے لیے حسن اخلاق کی صفت کو اپنانا ضروری ہے۔

217۔ ادب

لَامِيْرَاثَ كَالْاَدَبِ۔ (حکمت 113)
ادب جیسی کوئی میراث نہیں۔

ادب: یعنی وہ اخلاق و فضائل جن سے دوسروں کا احترام ظاہر ہو۔ جیسے بات کرنے میں، اٹھنے بیٹھنے میں تواضع سے پیش آنا۔ اور انسانیت سے گرانے والی عادات و رذائل سے بچنا جیسے تکبر۔ انسان جب دوسروں سے ادب و تہذیب اور حفظ مراتب کے ساتھ پیش آتا ہے تو اسے بھی احترام ملتا ہے۔ دوسروں کا ادب و احترام خاندان کے بغیر عزت کا ضامن ہے، اور مال کے بغیر دوست بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ ادب بکھرے ہوئے دلوں کو جوڑ دیتا ہے مالداروں کی عزت کی جاتی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ عزت مال کی وجہ سے ہے مگر مال چلا گیا تو عزت بھی ختم ہو گئی۔ مگر مہذب آدمی کی عزت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ملنے والے کو بڑھ کر مسکراتے چہرے سے سلام کرنا، باہر سے محفل و مجلس میں آنے والے کو کھلے دل سے جگہ دینا، کسی دکھی سے دکھ بانٹ لینا، یہ سب ادب کی مثالیں ہیں۔ امیرالمومنین نے اس جیسے اخلاق کو اور اس طریقہ زندگی و کردار کو بہترین میراث قرار دیا ہے۔ اور اس طرح ایسے اخلاق اپنانے کی ترغییب دلائی ہے۔ کسی حکیم نے خوب کہا: آپ سونا چاندی کمانے سے زیادہ ادب کمانے کے محتاج ہیں۔

218۔ توفیق

لَا قَائِدَ كَالتَّوْفِيْقِ۔ (حکمت 113)
توفیق جیسا کوئی رہنما نہیں۔

توفیق یعنی اللہ کا بندے کی نیک خواہشوں کے موافق نیک اسباب پہنچانا۔توفیق یعنی جو مقصد حاصل کرنا ہے یا جو چیز مطلوب ہے اس کے وسائل و ذرائع مہیا ہو جانا اور جب وہ ذرائع مہیا ہو جاتے ہیں تو حصول مقصد میں آسانی ہو جاتی ہے۔ گویا توفیق اس مقصود کے حصول کی رہنما بن گئی۔ توفیق اللہ کا عطیہ ہوتی ہے اور اسی سے توفیق طلب کی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں بھی واضح کہا گیاہے:’’وَمَا تَوْفِيْقِيْ اِلَّا بِاللّٰهِ‘‘اورمجھے اللہ کے علاوہ توفیق نہیں ہے۔توفیق کے اسباب میں سے سرفہرست سعی و کوشش ہے، بندگان خدا کی خدمت، سب کے لئے اچھائی کا طلب کرنا، راہ خدا میں قدم اٹھانا بھی اسباب توفیق میں سے ہیں۔امیرالمومنینؑ نے توفیق کو قائد و رہنما قرار دے کر اس کی اہمیت سے آگاہ کیاہے اور انسانیت کے کمالات کی راہوں کو روشن کردیاہے، اب اللہ سے توفیق مانگنی چاہیے۔

219۔ عمل صالح

لَا تِجَارَةَ كَالْعَمَلِ الصَّالِحِ وَ لَا رِبْحَ كَالثَّوَابِ۔ (حکمت 113)
اعمال خیر سے بڑھ کر کوئی تجارت نہیں اور ثواب جیسا کوئی نفع نہیں۔

عمل صالح یعنی وہ اچھا کام جو میں کر سکتا ہوں اسے کرنا اور تجارت یعنی اصل سرمائے کو یوں استعمال کرنا کہ وہ محفوظ رہے اور اس میں اضافہ بھی ہو اور جو اضافہ ہوگا وہ نفع کہلائے گا۔اعمال خیر کو تجارت کا اصل مال سمجھ کر اسے جتنا بڑھایا جائے گا اس شخص کو نفع زیادہ ہوگا۔ نفع بعض اوقات عارضی ہوتا ہے اور بعض اوقات دیرپا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے فرمایا ہے:’’وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ‘‘ (سورہ رعد 17)
’’اور جو چیز لوگوں کے لئے مفید و نفع بخش ہے وہ دیر تک زمین میں باقی رہتی ہے۔‘‘اب اعمال کو دیر تک باقی رکھنا ہے، تو وہ لوگوں کے لئے زیادہ نفع بخش ہونے چاہیں ۔مثلاکسی بھٹکے ہوئے انسان کو چراغ علم مہیا کرے تو وہ اپنی زندگی کو روشن کرے گا اس کی زندگی سے اور چراغ روشن ہوں گے یوں یہ عمل پھیلتا جائے گا اور دیر پا ہو جائے گا۔ کسی جگہ انسانی زندگی بچانے کے لئے ہسپتال بنا دیا، پانی کا کنواں لگا دیا، اعمال خیر جتنے زیادہ مفید ہوں گے اتنا ہی اس کا ثواب بھی بڑھتا جائے گا۔امیرالمومنینؑ ترغیب دلا رہے ہیں کہ اعمال خیر بہتر سے بہتر انجام دو اور آپ کے انسانیت کے لئے یہ اعمال جتنے دیر تک مفید رہیں گے ثواب ملتا رہے گا اور ایسے ہی اعمال جن کا ثواب دیر پا رہے وہ صدقہ جاریہ کہلاتے ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے۔“خَيْرُ النَّاسِ اَنْفَعُهُمْ لَلنَّاسِ” بہترین انسان وہ ہے جو لوگوں کے لیے زیادہ مفید ہو۔

220۔ شبہات میں ذمہ داری

لَاوَرَعَ كَالْوُقُوْفِ عِنْدَ الشُّبْهَةِ۔ (حکمت 113)
شبہات میں رُک جانے سے بہتر کوئی ورع و پرہیزگاری نہیں۔

ورع: یعنی خواہشات کی پیروی سے بچنا اور انسانیت کو نقصان و ضرر پہنچانے والے کاموں سے دور رہنا۔ جس عمل کا ضرر واضح ہو اس سے بچنا بھی پرہیزگاری ہی کہلاتا ہے مگر ورع اس پرہیزگاری کو کہتے ہیں کہ شک ہوکہ یہ کام میرے لئے مفید ہے یا نہیں تو اس صورت میں خود کو اس کی انجام دہی سے روک لینا۔فقیر و مسکین کو بھی کھانے اور لباس کی ضرورت ہے، اسےچھوڑ کر خود عیش و عشرت کے لیے اچھے کھانے اور اعلیٰ لباس استعمال کرنا اور سمجھنا کہ یہ میرے لیے صحیح ہے ورع کے تصور کے خلاف ہے۔یہاں خود سے ہاتھ روک کر اس فقیر کا ہاتھ تھام لینا ورع ہے۔نہج البلاغہ میں خط ۴۵ میں اس حقیقت کو مفصل بیان کیا گیا ہے اس خط میں ہے کہ امام علی ؑکا بصرہ کا گورنر کسی دعوت میں جاتا ہے جہاں غریبوں کو نہیں بلایا گیا اور امیروں کے لئے رنگ برنگے کھانے سجائے جاتے ہیں اس پر امامؑ تنبیہ آمیز خط لکھتے ہیں اس میں لکھتے ہیں کہ تم مجھ جیسے تو نہیں بن سکتے مگر پرہیزگاری کے ذریعہ میری مدد تو کر سکتے ہو۔ اس خط میں آپ نے لکھا۔’’جو لقمے چباتے ہو انہیں دیکھ لیا کرو اور جس کے متعلق شک و شبہ ہو اسے پھینک دیا کرو۔‘‘دوسروں کو نقصان پہنچانے یا ان کے حق سے صرف نظر کر کے گزر جانے سے امام ؑ ڈرا رہے ہیں۔ دوسروں کو محروم رکھنا حقیقت میں اپنی انسانیت کو کمال سے گرانے کے برابر ہے۔ اس لیے انسان کو کمال کی خاطر ایسے مشکوک اعمال سے بھی دور رہنا ہوگا جو اس کی انسانیت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

221۔ زہد

لَا زُهْدَ كَالزُّهْدِ فِى الْحَرَامِ۔ (حکمت 113)
حرام سے بے رغبتی سے بڑھ کر کوئی زہد نہیں۔

مجھے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں، یہ اللہ نے بتا دیا ہے۔اب خالق نے جن کاموں سے منع کیا ہے ان کا انجام دینا حرام کہلاتا ہے اور جب منع کیا تو اس سے رک جانا زہد ہے۔اللہ نے جس چیز سے منع کیا ہے اسے انجام دینے میں انسان کا کسی نہ کسی اعتبار سے گھاٹا ہے، اسی لئے منع کیاہے۔ ان منع کی ہوئی چیزوں میں سے بڑی تعداد کا تعلق دوسرے انسانوں سے ہے۔ دوسروں کی بے احترامی سے منع کیا، انھیں نقصان پہنچانے سے منع کیا، ناجائزقتل کرنے سے منع کیا، کسی کا مال لے لینے سے منع کیا۔ اب زہد فقط سادہ لباس پہن لینا اور مخصوص کھانا کھا لینانہیں، انسان حضرت سلیمان نبیؑ کی طرح تخت پر بیٹھ کر بھی زاہد ہو سکتا ہے۔ زہد یہ ہے کہ جس سے اللہ نے منع کیا اس سے رک جائے بلکہ بعض اوقات جس سے اللہ نے نہیں روکا دوسرے انسانوں کی خاطر اس سے رک جانا، یہ کمال زہد و عظمت انسانیت ہے۔قرآن نے کچھ بندوں کی تعریف میں فرمایاہے: ’’وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلىٰ‏ حُبِّهٖ مِسْکِیْنًا وَ یَتِیْمًا وَ اَ سِیْرًا‘‘کھانے کی اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم، اسیر کو کھانا کھلا دیتے ہیں۔ انسان کامل کے لئے خود کھانا اتناباعث مسرت نہیں ہوتا جتنا دوسروں کو کھلانا۔

222۔ تفکر

لَاعِلْمَ كَالتَّفَكُّرِ۔ (حکمت 113)
تفکر و تدبر سے بڑھ کر کوئی علم نہیں۔

انسان کے لئے جو چیزیں باعث فخر و عظمت اور سر بلندی کا سبب ہیں ان میں سر فہرست علم ہے۔ اس علم کی ایک صورت معلوم سے نامعلوم کے جاننے کی کوشش کرنا ہے۔یہی تفکر کہلاتا ہے۔ تفکر یعنی وہ عمل جس کےذریعہ علم حاصل کیا جاتا ہے۔تفکر یعنی وہ علم جو چیزوں کی گہرائی اور حقائق سے آگاہ کرے۔ چند چیزوں کو یاد کر لینا علم نہیں، عبارتیں تو ٹیپ ریکارڈر بہتر محفوظ کر سکتا ہے اللہ کی آیات اور بزرگوں کے کلمات سے حقائق کو کشف کرنا اور پھر اس تفکر و تدبر سے مادی و معنوی زندگی کو سنوارنا، علم ہے۔زمین و آسمان اور مخلوقِ خدا میں غور و فکر کرنا انسان کو اللہ کے قریب لا سکتا ہے۔

223۔ فرائض

لَاعِبَادَةَ كَاَدَاءِ الْفَرَائِضِ۔ (حکمت 113)
ادائے فرائض کی مانند کوئی عبادت نہیں۔

انسان کے لئے جو کام کرنا ضروری ہے وہ فرض کہلاتا ہے۔ اور بہترین عبادت یہ ہے کہ ان فرائض کو ادا کیا جائے۔ ان فرائض کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ انسان کو معلوم ہو کہ میرے فرائض کیا ہیں۔ جب انسان فرائض ادا کرنے کی نیت سے جاننا چاہتا ہے تو یہیں سے عبادت شروع ہو جاتی ہے اور وہ تلاش کرتا ہے کہ میرے لئے کیا کرنا لازمی ہے، یہ کوشش عبادت ہوگی۔فرائض کی تلاش میں دوسروں کے حقوق نظر آئیں گے جنہیں پورا کرنا فریضہ کہلائے گا۔ مجھے جو کام کسی کے لئے کرنا ضروری ہے وہ فرائض ہوں گے ۔ماں باپ کی خدمت، اولاد کی تربیت، کسی سے کئے وعدہ کی وفا وغیرہ اور میرے لئے جو کام کسی کو کرنے ہیں وہ میرا حق کہلاتا ہے۔ اکثر لوگ اپنے حق کی فکر میں ہوتے ہیں اور یہی سوچتے رہتے ہیں کہ میرا یہ حق ہے اور میرا وہ حق ہے مگر امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں بہترین عبادت یہ ہے کہ آپ اپنا فریضہ ادا کریں، دوسرا بھی اپنا فریضہ ادا کرے گا تو آپ کا حق ادا ہو جائے گااگر ہرانسان اپنے فرائض ادا کرتا رہے تو کسی کا حق ضائع نہیں ہوگا اور یہی درس زندگی اس فرمان میں واضح کیا گیا ہے کہ اپنی ذمہ داری ادا کرو آپ کی زندگی کامیاب ہوگی۔

224۔ حیا و صبر

لَا اِيْمَانَ كَالْحَيَاءِ وَ الصَّبْرِ۔ (حکمت 113)
حیا و صبر سے بڑھ کر کوئی ایمان نہیں۔

مذہبی دنیا میں انسانیت کے سب سے بڑے کمال کا نام ایمان ہے اور پھر باقی اعمال کا دار و مدار اسی پر ہے اور ایمان کے کئی درجات بیان کئےگئے ہیں۔امیرالمومنینؑ نے یہاں ایمان کا دو لفظوں میں خلاصہ بیان کر دیا: حیا اور صبر۔
حیا: یعنی وہ عمل یا کردار ادا نہ کرنا یا اس شی کا بیان و اظہار نہ کرنا جو اللہ یا شریف بندوں کو پسند نہ ہو۔ جسے حیا آڑے جائے وہ بہت سی برائیوں سے خود کو روک لیتا ہے ظاہر کو انسان بندوں سے حیا و شرم کی وجہ سے سنوارنے کی کوشش کرتا ہے اور باطن کو اللہ سے شرم و حیا کی وجہ سے پاک رکھتا ہے۔ یوں انسان کا ظاہر و باطن پاک و صاف رہتا ہے۔ اس ظاہر و باطن کو صاف رکھنے کے لئے کچھ چیزیں انجام دینی پڑتی ہیں اور بہت سے اعمال و افعال سے رکنا پڑتا ہے۔ گھٹیا حرکتیں جو خواہش کے مطابق ہیں ان سے رکنا اور کار خیر کی انجام دہی دونوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان مشکلات کو برداشت کرنے کا نام صبر ہے۔ صبر و حیا جمع ہو جائیں تو اندر اور باہر پاک ہوگا اور انسانیت کا کمال یہی ہے کہ کسی کا اندر اورباہر پاک ہو جائے۔

225۔ تواضع

لَاحَسَبَ كَالتَّوَاضُعِ۔ (حکمت 113)
تواضع و انکساری سے بڑھ کر کوئی بزرگواری و سرفرازی نہیں ۔

انسان اکثر جن چیزوں کو اپنے لئے باعث عزت و احترام سمجھتا ہے وہ اس کا حسب و نسب یعنی ماں باپ کا خاندانی سلسلہ ہے۔ عربوں میں یہ چیز حد سے زیادہ تھی۔ قرآن مجید نے بھی اس سوچ کو بدلنے کی تاکید کی۔امیرالمومنینؑ نےیہاں خاندانی شرافت کو بزرگی و بلندی کامعیار قرار دینے کے بجائے تواضع و انکساری کو حسب قرار دیا۔ متعدد بار دیکھا گیا ہے کہ حسب و نسب یعنی یہ سوچ کہ میری ماں اس خاندان سے ہے میرا باپ اس قبیلہ سے ہے، انسان کو متکبر بنا دیتا ہے۔ متکبر شخص معاشرے سے کٹ جاتا ہے۔ امامؑ نے تواضع کو عزت و مقام کا ذریعہ قرار دیا اور تواضع کمزور خاندان سے تعلق رکھنے والوں کو بھی معاشرے میں محبوب شخصیت بنا دیتا ہے۔تواضع: یعنی اپنے مقام کو سمجھنا بغیر بناوٹ اور تصنع کے، خود کو دوسروں سے بڑا نہ سمجھنا اور دوسروں سے یوں عزت و احترام کے ساتھ پیش آنا جیسے وہ چاہتا ہے کہ دوسرے اس سے پیش آئیں۔جب اس کے دل میں دوسروں کا احترام پیدا ہوگا اور اخلاق کے ساتھ لوگوں سے پیش آئے گا تو دوسروں کے دل میں بھی اس کا مقام بنے گا اور احترام بڑھے گا۔

226۔ علم

لَاشَرَفَ كَالْعِلْمِ۔ (حکمت 113)
علم جیسی کوئی بزرگی اور شرف نہیں۔

علم وہ چراغ ہے جو انسان کے لئے بلندیوں کی راہیں روشن کرتا ہے،بھٹکے ہؤوں کی ہدایت کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ اب یہی علم اگر بشریت کی اصلاح،راہنمائی ، نفع اور بھلائی کے لئے استعمال ہوگا تو شرف و بزرگی کا باعث ہوگا۔ اگر انہی معلومات کو کوئی انسان کی تباہی و بربادی کے لئے استعمال کرے گا تو نہ عالم کہلانے کا حقدار ہوگا اور نہ ہی اچھے الفاظ سے یاد کیے جانے کے قابل ہوگا۔ حقیقی علم وہی ہے جس سے انسان اپنی زندگی سنوارے اور دوسروں کی زندگیوں کو سنوارنے کے لئے اسے استعمال کیا کرے۔علم کی فضیلت میں قرآن مجید سمیت کتابیں بھری پڑی ہیں۔ کسی نےلکھا: علم تمام افتخارات اور انسانی عظمتوں کی چابی ہے۔ کسی نے فرمایا ’’میں مقام و شخصیت اور عزت و شرف کی تلاش میں نکلا تو اسےعلم میں پایا‘‘۔ یہ فرمان حقیقت میں علم حاصل کرنے کی اہمیت کو بھی اجا گر کرتا ہے اور اسے انسانیت کی خدمت میں استعمال کرنے کی تاکید بھی کرتا ہے۔

227۔ حِلم

لَاعِزَّ كَالْحِلْمِ۔ (حکمت 113)
حلم کی مانند کوئی عزت نہیں۔

حلم: یعنی کسی سفیہ اور گھٹیا آدمی کے پست کردارکے سامنے اور نازیبا حرکتوں کے سامنے بزرگانہ انداز اپنانا اورنادان و جاہل اور بے ادب لوگوں کے سامنے ان جیسی کمزور حرکتوں سے خود کو دور رکھنا۔ یہی درگزر اور خاموشی اس کی بڑائی کی نشانی ہے۔ البتہ ذاتی امور میں یہ حلم ہوگا۔اگر کہیں فساد فی الارض پھیلایا جا رہا ہے تو ایسی صورت میں خاموشی اور نرمی فساد کو بڑھانے کے مترادف ہے۔حلیم شخص وسعت قلبی اور بلند فکری سے مشکلات کو برداشت کر لیتا ہے اور ان کے حل کی راہیں نکال لیتا ہے اور سخت واقعات کے مقابلے میں بے تاب اور آپے سے باہر سے نہیں ہوتا۔ یہی اس کی عزت کا سبب بنتا ہے۔ جن میں یہ صفت نہیں پائی جاتی وہ چھوٹے چھوٹے مسائل میں خود کو الجھا لیتے ہیں اور ان کی پریشانیاں بڑھتی ہیں اور عزت و احترام جاتا رہتا ہے۔تحمل و برداشت اگر پورے معاشرے میں رائج ہو جائے تو پریشانیوں اور لڑائی جھگڑوں سے نجات مل سکتی ہے۔ اگر ہر شخص کہے کہ میں نے دوسرے کی ہر نازیبا حرکتوں کو برداشت کرنا ہے تو ہر کسی کی عزت بڑھے گی اور یوں پورا معاشرا معزّز بن جائے گا۔ اکثر انسان یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے انسان تحمل سے کام لیں، الٹی سیدھی باتیں سن لیں مگر خود دوسروں کی سیدھی سادی باتیں بھی برداشت کرنے کی ہمت پیدا نہیں کرتے۔

228۔ مشورہ

لا مُظَاهَرَةَ اَوْثَقُ مِنَ المُشَاوَرَةِ ۔ (حکمت 113)
مشورہ سے مضبوط کوئی پشت پناہ نہیں۔

انسان کی ترقی میں دوسرے انسانوں کا ساتھ دینا بہت اہم ہے۔ اکیلا انسان کسی حد تک ترقی کر بھی جائے تو اس کی انفرادی ترقی اتنی اہم نہیں ہوگی جتنی اجتماعی ترقی مہم ہوتی ہے۔ دوسرے لوگوں کو ساتھ ملا کر چلنا معاشرتی ترقی کا اہم اصول ہے اور دوسروں کو ساتھ ملانے کا پہلا قدم مشورہ ہے۔امیرالمومنینؑ اپنے فرامین میں کسی عام فرد کو نصیحت کرتے ہیں یا کسی گورنر کو حکم دیتے ہیں تو بھی مشورے کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اس فرمان میں آپؑ نے مشورے کو مضبوط مددگار اور پشت پناہ قرار دیا ہے۔ کسی کو مشورے میں شریک کر کے انسان نے گویا دوسرے کی عقل کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور اگر اکیلا فیصلہ کرتا تو غلطی و اشتباہ کا جو امکان تھا وہ مشورے کے بعد کئی گنا کم ہو گیاہے۔ البتہ آپ کے فرامین میں مشیر کی بہت سی شرائط ذکر ہوئی ہیں جو اپنی جگہ پر بیان ہوں گی۔اس دور میں گروہ کی صورت میں انجام دئے جانے والے کاموں کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ چند افراد مل کر اپنی عقل اور سوچ کے مطابق فیصلہ کریں اور اسی اجتماعی سوچ کے مطابق مل کر عمل کریں تو زندگی کی راہیں بہتر انداز سے روشن ہو سکتی ہیں اور رکاوٹیں آسانی سے برطرف ہو سکتی ہیں اور مقصد تک پہنچنا آسان ہو سکتا ہے۔ یوں ہر شخص دوسرے کا مددگار اور پشت پناہ بن سکتا ہے۔ ایک شرط جو مشورے میں سب سے اہم ہے، وہ امین ہونا ہے ۔بعض حکماء کہتے ہیں کہ دشمن بھی مشورہ مانگے تو اسے صحیح مشورہ دو۔ اگر تمھاری رائے پر عمل کر کے اسے فائدہ ہوا تو وہ دشمنی کے بجائے محبت کرنے لگے گا اور رائے پر عمل نہ کر کے نقصان اٹھایا تو آپ کی امانت داری کا قائل ہوگا۔

229۔ فرصت

اِضَاعَةُ الْفُرْصَةِ غُصَّةٌ۔ (حکمت 118)
موقع کا ضائع کر دینا غم و اندوہ کا باعث ہوتا ہے۔

انسانی زندگی میں کچھ ایسے مواقع آتے ہیں اور اسباب مہیا ہوتے ہیں کہ جن سےاگر فائدہ اٹھا لیا جائے تو سعادت و عظمت مل جاتی ہے۔ بعض ایسے لمحات بھی آتے ہیں جو زندگی میں ایک بار نصیب ہوتے ہیں اورپھر کبھی حاصل نہیں ہوتے۔ امیرالمومنینؑ اس فرمان میں ایسے ہی مواقع کی اہمیت واضح فرما رہے ہیں اور خبردار کر رہے ہیں کہ انہیں ضائع نہ کرنا، ورنہ غم و اندوہ کا سامنا ہوگا اور غم و اندوہ یا آہ و بکا اس موقع کو کبھی واپس نہیں لاتی، اس لیے ہر موقع کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور یہ سمجھ کر اس سے فائدہ حاصل کیا جائے کہ شاید پھر کبھی نہ ملے۔ بہت سے لوگ ایسے مواقع کو کھو کر پھر باقی ساری زندگی ’’اے کاش‘‘ کہتے گزار دیتے ہیں۔
البتہ اس فرمان میں موقع کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہےمگر اس سے مایوسی کا پہلو بھی نہیں نکلتا کہ ایک بار موقع ہاتھ سے جاتا رہے تو باقی زندگی اے کاش کہہ کر گزاردی جائے۔ پس عقل مند لوگ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور ایسے اسباب کے لئے کوشاں رہتے ہیں، اگر وہ گھڑی پلٹ کر نہیں آتی تو اس کے نزدیک نزدیک کے مدارج کے حصول کی راہیں نکل سکتی ہیں۔ اس لئے گزشتہ کی یاد اور اور افسوس پر آئندہ کی زندگی ضائع نہیں کرنی چاہیے۔

230۔ تواضع

طُوبٰی لِمَنْ ذَلَّ فِي نَفْسِهٖ، وَطَابَ كَسْبُهٗ۔ (حکمت 123)
خوش نصیب ہے وہ جس نے تواضع کو اختیار کیا اور جس کی کمائی پاکیزہ ہے۔

انسان کی سعادت و خوشبختی کے آٹھ اصول امام ؑنے یہاں ارشاد فرمائے جو الگ الگ بھی انسانوں کی خوش نصیبی کا سبب ہوتے ہیں اور با کمال انسان میں یہ سب جمع ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کا تعلق دوسرے انسانوں کے ساتھ ہے۔ اس خوش نصیب کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ متواضع ہوتا ہے، متکبر نہیں۔ تکبر جو بہت سی اخلاقی کمزوریوں کی جڑ ہے، اس سے دور ہوتاہے۔ یہ انسانوں سے ہی متعلق ہے اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو اپنے سے بہتر سمجھتا ہے۔ دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ رزق حلال کماتا ہے۔ اعمال صالح جس حد تک اس کے بس میں ہوتے ہیں اتنے ہی انجام دے سکتا ہے مگر نیت اس کی ہمیشہ نیک ہوتی ہے۔ اپنی ضروریات سے جو مال بچے وہ راہ خدا میں خرچ کرتا ہے۔ بے کار باتوں سے زبان روک کر رکھتا ہے۔ ایک صفت اس کی یہ ہے کہ کوئی ایسا کام نہیں کرتا جس سے دوسرے لوگوں کو کوئی اذیت و تکلیف پہنچے۔
پیغمبر اکرمؐ کی سیرت و سنت کو اپنے لیے زندگی میں اپناتا ہے اور اس پر یہ عمل ناگوار نہیں گزرتا اور اپنی زندگی کے لیے نئے نئے طریقے اور بدعتیں انتخاب نہیں کرتا یعنی سنت ہی کو کافی سمجھتا ہے۔ یہ وہ اوصاف ہیں جو انسان زندگی میں اپنا کر خود کو کمال تک پہنچا سکتا ہے اور اسی کو امیرالمؤمنینؑ نے خوش نصیب کہا ہے۔

231۔ تکبر

عَجِبْتُ لِلْمُتَکَبِّرِ الَّذِیْ کَانَ بِالْاَمْسِ نُطْفَةً وَ یَکُوْنُ غَدًا جِیفَةً۔(حکمت 126)
مجھے تعجب ہے متکبر و مغرور پر جو کل ایک نطفہ تھا اور کل کو مردار ہوگا۔

انسان اتنا بڑا اور صاحب عزت ہے کہ خالق اسے خطاب کر کے فرماتا ہے میں نے اولاد آدم کو بڑی عزت و شرف سے نوازا ۔مگر یہی انسان جب خود کو بھول کر بڑا بننا شروع کر دیتا ہے یا اس بڑے بنانے والے کو فراموش کر کے خود کو بڑا سمجھنے لگتا ہے تو یہی تکبر کہلاتا ہے اور تکبر اسے بڑا بنانے کے بجائے پست کر دیتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے نہج البلاغہ میں تکبر کے مرض کو بار بار دہرایا بلکہ نہج البلاغہ کا طولانی ترین خطبہ قاصعہ اسی تکبر کی مذمت میں بیان فرمایا ہے۔ اس فرمان میں آپ نے تعجب کا اظہار کر کے تکبر کے مرض ہونے کو بیان فرمایا اور پھر اسی جملے میں اس مرض کا علاج بھی بیان کر دیا۔ تکبر ایسی نفسانی و اخلاقی بیماری ہے جس کا سبب انسان کی خود سے غفلت اور نا آشنائی ہے۔ امیرالمؤمنینؑ اس فرمان میں انسان کو اس غفلت سے بیدار کر کے بیماری سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ فرمایا خود کو پہچان، اپنی ابتدا کو دیکھ انتہا کو دیکھ۔ تیرا اول نطفہ تیرا آخر مردار کہ اپنے پیارے بھی جس سے گھبراتے ہیں۔ اگر کوئی زندگی کے دونوں اطراف کو جان لے تو یقیناً وہ تکبر کے مرض سے نجات پا کر بڑا اور کامل انسان بن جائے گا۔ تکبر مرض ہے اور حقیقت شناسی اور اپنی کم مائیگی کی پہچان اس کی دوا ہے۔ تکبر گناہوں اور غلطیوں کی جڑ ہے چونکہ تکبر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے انسان میں سیکھنے اور اپنی انسانیت کو سنوارنے کی طلب نہیں رہتی۔

232۔ عمل میں کوتاہی

مَنْ قَصَّرَ فِي الْعَمَلِ ابْتُلِيَ بِالْهَمِّ۔ (حکمت 127)
جو عمل میں کوتاہی کرتا ہے وہ رنج و اندوہ میں مبتلا رہتا ہے۔

انسان زندگی میں ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ غموں اور دکھوں سے محفوظ رہے۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں غم و حزن کا ایک سبب بیان فرمایا اور یوں واضح فرمایا کہ اس سبب سے بچے رہے تو غم سے بچے رہو گےاور وہ سبب عمل و کوشش میں کوتاہی ہے۔جو افراد عمل کے وقت غفلت کرتے ہیں وہ نتیجے کے وقت غم و اندوہ سے لازمی طور پر دوچار ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ ایک وقت عمل کا ہوتا ہے اور ایک نتیجہ کا۔ فصل کی کاشت کے وقت جو کسان آرام کرتا رہے وہ فصل اٹھانے کے موسم میں محروم ہی ہوگا۔ جو طالب علم پڑھائی کے وقت سستی کرتا ہے وہ نتائج کے دن ناکام ہی ہوگا۔ جوانی میں محنت کے سب اسباب مہیا ہونے کے با وجود کوتاہی کرنے والا بڑھاپے میں غم ہی کھائے گا۔ اس لیے یہاں نتائج بتا کر امیرالمومنینؑ عمل کا شوق دلا رہے ہیں۔ یہاں عمل میں کوتاہی سے مراد دنیا و آخرت دونوں کے اعمال ہیں اور غم سے مراد بھی دونوں غم ہیں۔البتہ اس فرمان کا یہ بھی مفہوم لیا گیا ہے کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن سے عمل میں کمی،کوتاہی اور غلطی ہو جائے تو فورا متوجہ ہو جاتے ہیں اور غمگین ہو جاتے ہیں کہ یہ کوتاہی کیوں ہوئی۔ اس طرح وہ آئندہ کوتاہی سے بچتے ہیں اور گزشتہ کوتاہیوں کو دور کر لیتے ہیں اور یوں زندگی کی کامیابی کی راہوں کو تلاش کر لیتے ہیں۔

233۔ عظمت خدا

عَظُمَ الْخالِقُ فى اَنْفُسِهِمْ، فَصَغُرَ ما دُوْنَهٗ فى اَعْيُنِهِمْ۔ (حکمت 129)
خالق کی عظمت کا احساس انسانوں کی نظروں میں اس کے غیر کو کم ترکر دیتا ہے۔

انسان کی زندگی کی ناکامی کا ایک سبب یہ ہے کہ وہ دنیا کی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں الجھا رہتا ہے اور اسی اُلجھن میں زندگی ختم کر دیتا ہے۔ اگر انسان دل کی آنکھوں سے ان چھوٹی اشیا میں غور وفکر کر ے یا سائنس کے آج کے انکشافات کی وسعت کا اپنی دنیا سے مقابلہ کر کے اس کے چھوٹے ہونے کو سمجھ لے تو یقینا ًاسے وہ ذات سمجھ آئے گی جو ان سب کی خالق ہے اور جب خالق تک پہنچ جائے گا تو دنیا کی ہر چیز حقیر نظر آئے گی۔جب خالق سے ربط ہوگا تو عظیم سے مربوط ہوگا اورمخلوق اس کی نظر میں حقیر ہوجائےگی اور خود بھی عظمت انسانیت کا مالک بن جائےگا ۔ امیرالمومنینؑ نے ایک مقام پر اسی کی طرف اشارہ کر کے فرمایاہے کہ گزشتہ زمانے میں میرا ایک دینی بھائی تھا وہ میری نظروں میں اس وجہ سے عظیم و با عزت تھا کہ دنیا اس کی نظروں میں حقیر تھی۔

234۔ توشۂ سفر

خَيْرُ الزَّادِ التَّقْوٰى۔(حکمت 131)
بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔

انسان کی زندگی ایک طویل سفر اور کٹھن راہ ہے۔ اس سفر کا آخر یہ ہے کہ نہ محلات رہیں گے، نہ مال و دولت اور نہ وہ ازدواجی رشتے جنہیں انسان اپنا سب کچھ سمجھتاہے۔ قبر والوں کو مخصوص انداز میں سلام کر کے امیرالمؤمنینؑ قبر والوں کو ان کے بعد کےحالات سنا رہے تھے اور حقیقت میں امامؑ اپنے ساتھیوں کو دنیا کی حقیقت بتا رہے تھے۔ قبر والوں سے باتیں کرتے کرتے آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اگر انہیں بات کرنے کی اجازت دی جائے تو یہی کہیں گے کہ اس راہ کا بہترین سرمایہ و توشہ تقویٰ ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نےاس حکمت میں قرآن مجید کی آیت کو دہرایا۔ زندگی سفر ہے تو اس سفر کی ضروریات و اخراجات کا نام تقویٰ ہے۔ تقویٰ یعنی خالق کی دی ہوئی زندگی میں اس کی بتائی ہوئی ذمہ داریوں کو نبھانا اوریہ پیش نظررکھناکہ اس مالک کی مخالفت نہ ہو جائے۔ اگر تقویٰ کو زندگی میں اپنایا جائے تو یہ زندگی کے لیے مشعل بنے گا اور اس راہ کو طے کرنے کے لیے چراغ بنے گا۔ اس طرح یہ دنیا بھی روشن ہو جائے گی اور آخرت کے لیے بھی آسانیاں ہوں گی۔

235۔ دنیا اولیاء کی مسجد

اِنَّ الدُّنْیَا مَسْجِدُ اَحِبَّاءِ اللهِ۔ (حکمت 131)
بلا شبہ دنیا اللہ کے محبوب لوگوں کے لیے عبادت کی جگہ ہے۔

انسان دنیا کو کبھی ہدف سمجھتا ہے اور کبھی وسیلہ۔ جب ہدف سمجھتا ہے تو پھر اس دنیا میں کھو جاتا ہے۔ دنیا کی زینتوں کو جمع کرنے میں لگا رہتا ہے ۔نہ یاد خدا رہتی ہے نہ بندگان خدا کی فکر ہوتی ہے۔ اکثر لوگ اسی دنیا کو ہدف سمجھ لیتے ہیں۔ اس لیے امیرالمؤمنینؑ نے اس اکثریت کو غفلت سے جگانے کے لیے اور دنیا کی حقیقت بتانے کے لیے نہج البلاغہ میں اکثر مقامات پر دنیا کی کمزوریاں بیان کیں اور مذمت کی۔ مگراس فرمان میں آپ نے اپنے کمال علمی کو پیش فرمایا۔ وہ شخص جو ساری زندگی دنیا کی مذمت کرتا رہا یہاں اس نے دنیا کے مثبت پہلوؤں کو بیان کیا تو دنیا اور رنگ میں نظر آنے لگی۔ آپ ؑنے فرمایا بلا شبہ دنیا اس شخص کے لیے جو دنیا کی حقیقت کو جانے، سچائی کا گھر ہے، جو دنیا کی باتوں کو سمجھے اس کے لیے امن و عافیت کی جگہ ہے، جو اس سے زاد راہ حاصل کرے اس کے لیے دولت مندی کی منزل ہے جو اس سے نصیحت حاصل کرے اس کے لیے وعظ و نصیحت کا محل ہے۔ وہ اللہ کے محبوب لوگوں کے لیے عبادت کی جگہ ہے، اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کے لیے نماز پڑھنے کا مقام ہے، اللہ تعالیٰ کی وحی کے اترنے کا مقام ہے اور اولیاء اللہ کے لیے تجارت گاہ ہے۔ ہر ایک جملہ دنیا کے فوائد کو واضح کر رہا ہے۔ آپؑ کا یہ فرمان کہ دنیا اللہ تعالیٰ کے محبوب لوگوں کے لیے مسجد ہے، اگر انسان اس فرمان کو مدنظر رکھے اور دنیا کو اس نگاہ سے دیکھے کہ یہ مسجد ہے تو باقی دنیا کے انسان اسے اپنے ساتھ کھڑے نمازی اور سجدہ گزارنظر آئیں گے۔ زمین بھی قابل احترام بن جائے گی۔ انہی سجدہ گزاروں کی خدمت انجام دے کر ان کی مشکلوں کو حل کر کے، ان کے دکھوں کا مداوا کر کے خود کو اس مسجد کا عبادت گزار بنا سکتا ہے۔ اگر دنیا کو مسجد سمجھ کر زندگی گزارے تو کسی کو ضرر کاسوچے گا بھی نہیں اور یوں اس دنیا سے نیک نامی لے کر اور اچھی یادیں چھوڑ کر جائے گا اور آخرت میں بھی نیک اجر پائے گا۔

236۔ دوستی کے فرائض

لَا يَكُوْنُ الصَّدِيقُ صَدِيْقًا حَتّٰى يَحْفَظَ اَخَاهُ فِيْ ثَلَاثٍ: فِيْ نَكْبَتِهٖ، وَ غَيْبَتِهٖ، وَ وَفَاتِهٖ ۔ (حکمت 134)
دوست اس وقت تک دوست نہیں سمجھا جا سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کی تین موقعوں پر نگہداشت نہ کرے: مصیبت کے موقع پر، اس کے پس پشت اور اس کے مرنے کے بعد۔

انسان زندگی گزارنے کے لیے دوسروں کا ضرورت مند بھی ہے اور مددگار بھی۔ کبھی اسے دوسروں کی ضرورت ہوتی ہے اور کبھی دوسروں کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو اپنی ضرورتوں کے لیے دوسروں سے توقع رکھے مگر دوسروں کو ضرورت پڑے تو ان کی توقعات پر پورا نہ اترے تو حقیقت میں یہ اپنی انسانیت کو زیر سوال لانے کا مرحلہ ہے۔ انسانیت کےاس رشتے کے بعد کئی رشتے ہیں اور ان رشتوں کے بہت سے درجات ہیں۔ ان میں سے ایک رشتہ جسے خود انسان انتخاب کرتا ہے اس کا نام دوستی ہے۔ دوستی ایک ایسا موضوع ہے جس پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ’’نہج البلاغہ میں دوستی‘‘ کے عنوان سے بھی کتابیں موجود ہیں۔ امیرالمؤمنینؑ نے یہاں حقیقی دوست کی تین نشانیاں بیان کی ہیں۔ تین مواقع پر دوستی نبھانے والا ہی صحیح دوست ہے اور اگر ان مواقع پر دوستی کے معیار پر پورا نہیں اترتا تو وہ حقیقی دوست نہیں، ملنے ملانے والا ہو سکتا ہے۔ پہلا موقع یہ ہے کہ اگر ایک دوست پر مشکل وقت آئے تو اس کا مددگار ہو، اپنی طاقت کے مطابق اس کا ساتھ دے، مالی یا جسمانی طور پر جو کچھ کر سکتا ہے کرے اور اگر یہ طاقت نہیں رکھتا تو تسلی تو دے سکتا ہے اور غم میں شریک تو ہو سکتا ہے۔ حقیقی دوست مشکل گھڑی میں مدد کرتے وقت یہ امید نہیں رکھتا کہ میں مدد کروں گا تو کل کو میری مدد بھی ہوگی۔ یہ دوستی نہیں، یہ تجارت ہو گی۔ دنیا جب کسی سے پیٹھ پھیر جائے اس وقت جو ساتھ کھڑا رہے وہ دوست ہے۔ دوسری نشانی یہ ہے کہ جب دوست موجود نہیں اس وقت بھی اس کے دل اور زبان پر کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہیے کہ اگر وہ سامنے ہوتا تو نہ ہوتی۔ اس کی عدم موجودگی میں اس کی عزت کا ،اس کے خاندان کا مال و منال کا محافظ بن جائے۔ تیسری نشانی یہ ہے کہ موت کے بعد اس کے خاندان کا خیال رکھے، اس کے لیے نیک کام انجام دے اور اس کے لیے دعا کرے۔اگر آپ نے کسی میں یہ صفات دیکھیں تو اسے دوست بنائیں اور دوست سمجھیں۔

237۔ شکر

مَنْ اُعْطِيَ الشُّکْرَ لَمْ يُحْرَمِ الزِّیَادَۃَ۔ (حکمت 135)
جو شکر کرے وہ اضافہ سے محروم نہیں رہتا۔

انسان کی شرافت کی ایک نشانی یہ ہے کہ کوئی اس کے ساتھ اچھائی کرے تو دل سے اس اچھائی کو محسوس کرے اور زبان و عمل سے اس کا شکریہ ادا کرے۔ یہ احسان اللہ کا ہو تو بھی احساس ضروری ہے اور اللہ کے بندوں کی طرف سے ہو تو بھی احساس ضروری ہے اور مشہور دستور ہے کہ ’’جو بندوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکریہ ادا نہیں کرتا۔‘‘
شکریے کی اہمیت کو متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ اس فرمان میں خود شکر کو عطا اور نعمت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔دنیا میں بہت سے ایسےلوگ موجود ہیں جنہیں دنیا کی بہت سی نعمتیں عطا کی گئیں مگر وہ شکریے کی توفیق اور نعمت سے محروم ہیں، بلکہ کئی تو ایسے ملیں گے جو نعمات کے باوجود شکریے کے بجائے شکوے میں مصروف رہتے ہیں۔ انسان اگر شکریے کی نعمت سے سرفراز ہو تو اسے جو ملا ہے اسے دیکھے گا اور اس کے شکریے میں مشغول ہو کر پر سکون ہو جائے گا۔ پاؤں کے سالم ہونے کا احساس کرے گا اور ان پر شکریہ ادا کرتا رہے گا تو گاڑی نہ ہونے پر شکوہ نہیں کرے گا۔ ہم بطور قوم شکریے کی نعمت سے محروم ہیں اور سب کچھ ہونے کے باوجود شکریے کے طور پر اسے آگے دینے اور تقسیم کرنے میں بھی بخیل ہیں اور جس نے دیا اس کا شکریہ ادا کرنے میں بھی بخیل ہیں۔ انسان میں اگر شکریے کا جذبہ بیدار ہو جائے تو دینے والے کو بھی ترغیب ہو گی اور دینے میں اضافہ کرےگا۔ شکریہ ادا کرنے پر اللہ تعالیٰ نے نعمات میں اضافے کا وعدہ کیا ہے اس لیے اللہ کے اس وعدے پر یقین رکھتے ہوئے شکریہ ادا کرنا شروع کریں تو انسانی تعلقات میں بھی اضافہ ہوگا اور شکر سے مال میں بھی اضافہ ہو گا۔کسی کواچھا دوست ملا اور اس نے اللہ تعالیٰ کا اس دوستی کی عطا پرشکریہ ادا کیا،تو اس دوست کے دل میں دوستی اور مضبوط ہوگی، دوسرے لوگ آپ کی اس اچھی صفت کی وجہ سے آپ کے دوست بنیں گے۔ کسی نے آپ سے عزت بھرا برتاؤ کیاتو شکریے کی وجہ سے آئندہ وہ مزید عزت کرے گا، دوسرے لوگ اس برتاؤ کی وجہ سے آپ کو معزز سمجھیں گے۔ اللہ کی نعمات میں سے ماں باپ کا وجود ہے جن کے ذریعےانسان کو وجود ملا تو ماں باپ کا شکریہ ادا کریں، اللہ کے بندوں کا شکریہ ادا کریں تواللہ تعالیٰ شکریے کی نعمت میں اضافہ فرمائے گا۔

238۔ عورت کا جہاد

جِهَادُ الْمَرْاَةِ حُسْنُ التَّبَعُّلِ‏۔ (حکمت 136)
عورت کا جہاد شوہر کے ساتھ اچھا برتاؤ ہے۔

انسانی زندگی ایک عمارت کے مانند ہے اور میاں بیوی اس کے دو ستون ہیں۔ عمارت میں ہر ستون اپنے حصے کا بوجھ اٹھاتا ہے اور ہر ستون کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ جس طرح ایک ستون کے متزلزل ہونے سے دوسرا ستون بھی اور پوری عمارت بھی ہل جاتی ہے۔ میاں بیوی اس طرح اپنے اپنے حصہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور اگر کسی ایک ستون میں کمزوری پیدا ہو تو نہ فقط وہ خاندان بلکہ پورے معاشرے میں کمزوری پیدا ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے میاں بیوی کے رشتے کو ایک دوسرے کے سکون کا ذریعہ قرار دیا اور اگر ان دو میں سکون ہوگا تو خاندان میں سکون، بچوں کی زندگیوں میں سکون، معاشرے کے ایک بڑے حصہ میں سکون ہوگا اور جب معاشرے میں سکون ہوتا ہے تو انسان بہتر سوچ سکتا ہے اور زیادہ قوت سے ترقی کر سکتا ہے۔اس سارے سکون و ترقی کا راز امیرالمومنینؑ نے ایک جملے میں بیان فرما دیاکہ عورت اگر بہترین طریقے سے شوہرداری کرے تو معاشرہ سکون پا سکتا ہے۔ یہاں شوہر سے اچھے برتاؤ کو جہاد سے تشبیہ دے کر آپ نے پوری زندگی کے لئے ایک پروگرام بیان فرما دیا۔جہاد اسلام میں ایک عظیم عبادت ہے جس میں جان و مال سب کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے۔اسی طرح شوہر داری ایک ہنر ہے جسے سیکھنا پڑتا ہے۔ شوہر داری کو اگر عبادت سمجھ لیا جائے، اس کے لئے زوجہ کوجو خرچ کرنا پڑے کرے بلکہ شوہر سے اگر تکلیفوں کا سامنا ہے اور کبھی حق تلفی بھی ہو جائے، تو اسے برداشت کرے تو اسے جہاد جتنا ثواب ملے گا۔اچھی شوہرداری میں تدبیر منزل، قناعت، شوہر کی اطاعت جیسے سب امور شامل ہوں گے۔ اس کوشش و جدوجہد کو انجام دینے والی خاتون اپنی زندگی میں کامیاب خاتون کہلائے گی اور اس کی اس عمل میں کامیابی بچوں، خاندان اور معاشرے کے بہت سے انسانوں کی کامیابی کا سبب بنے گی۔

239۔ صدقہ

اِسْتَنْزِلُوا الرِّزْقَ بِالصَّدَقَةِ۔ (حکمت 137)
صدقے کے ذریعے رزق و روزی طلب کریں۔

انسان کے اوصاف ِکمال میں سے ایک سخاوت ہے، دردمندی ہے اور دوسروں کا احساس ہے۔ اب کہیں کسی انسان کو ضرورت و احتیاج ہے تو اُس کے حالات اور ضرورت کو مدنظر رکھ کر اُس کی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنا، اُس کی زندگی میں خوشیوں کا لانا، اُس کے دکھوں اور دردوں کا مداوا کرنا، اس میں جینے کی امید اور امنگ زندہ رکھنے کا نام صدقہ ہے۔ یہ صدقہ مادی بھی ہوتا ہے اور روحانی و معنوی بھی۔ امیرالمؤمنینؑ کے اس فرمان میں رزق سے مراد مادی رزق بھی ہو سکتا ہے اور روحانی رزق بھی۔ رزق یعنی جو آپ کو عطا ہوا ہے۔ عطا کرنے والے کی خوشنودی اور اُس کی مخلوق کی خدمت و خوشحالی کے لیے تم بھی عطا کرو تو رزّاق آپ کو اور دے گا۔ اُس نے تمہیں بولنا عطا کیا تو آپ اپنے میٹھے بول سے اور خالصانہ دعا سے کسی کا احساسِ محرومی امید میں بدل دیں تو یہ صدقہ ہو گا۔ اُس نے آپ کو سوچنے کی صلاحیت عطا کی تو ضرورت مندوں کی مدد کے لیے سوچنا صدقہ ہے۔ جو ملا ہے اُسے دو، جو عطا ہوا ہے اُسے عطا کرتے جاؤ توعطا کرنے والا بڑھاتا رہے گا۔ علم ملا ہے تو اسے معاشرے کی تقویت کے لیے استعمال کرو اور دوسروں کو تعلیم دو تو تمھیں اور علم ملے گا۔ مال دیں یا کوئی اور معنوی مدد کریں تو سب سے بڑی عطا جو تمہیں نصیب ہوتی ہے، وہ سکون ہے۔ لہذا کسی ذریعے سے دوسروں کو سکون دو تمہیں سکون ملے گا۔

240۔ سخاوت

مَنْ اَيْقَنَ بِالْخَلَفِ جَادَ بِالْعَطِيَّةِ۔ (حکمت 138)
جسے عوض کے ملنے کا یقین ہو وہ عطیہ دینے میں دریا دلی دکھاتا ہے۔

انسانی فطرت ہے کہ جب وہ کچھ دیتا ہے تو کچھ لینے کی توقع بھی رکھتا ہے۔ بہت کم با کمال ایسے ہوتے ہیں جو عوض کی توقع سے بالا تر ہو کر دیتے ہیں۔ ملنے کی توقع جتنی مضبوط ہوتی ہے دینا اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ امیرالمومنینؑ اسی کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ ملنے کا یقین ہے تو دینے میں دریا دلی ہوتی ہے بلکہ دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ملنے کا یقین کتنا ہے۔ یہاں دینے سے مراد فقط مال و صدقہ ہی نہیں بلکہ ہر وہ شے جو کسی کے پاس ہے اس کے عوض ملنے کا یقین ہے تو خرچ میں اطمینان ہوتا ہے۔ جو قوم کی خدمت کرتا ہے اسے عوض میں قوم کی سرداری ملتی ہے۔ جسے فکر عطا ہوئی ہے وہ اسے تقسیم کرتا ہے تو اس پر کمال کی راہیں کھل جاتی ہیں، اس کا نام زندہ رہتا ہے۔

241۔ میانہ روی

مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ۔ (حکمت 140)
جو میانہ روی اختیار کرتا ہے وہ محتاج نہیں ہوتا۔

انسانی زندگی میں مال کا بہت اثر ہے۔ دین میں دنیا کو محل تجارت اور مقام زراعت قرار دیا گیا ہے۔ انسان کی مالی زندگی اس کے عقل و شعور کا بھی پتہ دیتی ہے۔ البتہ مال کو کمال کے لئے وسیلہ و ذریعہ ٹھہرایا ہے، ہدف و مقصد نہیں۔ اس لئے جہاں مال مقصد ہو وہ قابل مذمت ہے اور جہاں اچھے مقصد کا وسیلہ ہو، وہاں قابل تعریف ہے۔امیرالمومنینؑ نے یہاں دو لفظوں میں مالی زندگی کی بہتری اور اقتصادیات کے علوم کا خلاصہ بیان فرما دیاہے: مالی امور میں میانہ روی و اعتدال کو فقر و تنگدستی سے بچنے کا سبب قرار دیا ہے۔ میانہ روی یہ ہے کہ ضرورت کے مطابق خرچ کیا جائے۔ اگر ضرورت سے زیادہ خرچ ہوگا تو اسراف کہلائے گا جس کو بُرا کہا گیا۔ اگر ضروریات پر بھی خرچ نہ ہو تو وہ بخل کہلاتا ہے، اس کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ آپؑ نے گویا قرآن کے اس اصول کا خلاصہ بیان فرمایا ہےجہاں ارشاد الہی ہے: یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل، بلکہ ان کے درمیان اعتدال رکھتے ہیں۔ سقراط نے کہا کہ اقتصاد یہ ہے کہ فقط مال نہیں بلکہ دنیا و آخرت دونوں کو اپنا اپنا حصہ دو۔ البتہ میانہ روی و اعتدال پسندی کو زندگی کے تمام شعبوں میں سراہا گیا ہے۔ عبادت میں اعتدال، لوگوں سے برتاؤ میں اعتدال۔

242۔ محبت

اَلتَّوَدُّدُ إِلَى النَّاسِ نِصْفُ الْعَقْلِ۔ (حکمت 142)
لوگوں سےمحبت سے پیش آنانصف عقل ہے۔

انسانی تعلقات اور اجتماعی علوم کا اگر خلاصہ دیکھنا ہو تو تین الفاظ کا یہ جملہ ملاحظہ کریں ۔ انسان کی زندگی کے دو مراحل ہیں ایک خود دوسروں سے محبت و مودت اور خوشروئی و خوش کلامی سے پیش آنا اور دوسرا دوسروں کی بدخلقی، و زیادتی اور نا انصافی کو اپنے معیار کے مطابق محبت سے جواب دینا۔ یہ برتاؤ، خوشامد اور بناوٹ کے طور پر نہیں بلکہ دل سے اور خلوص کے ساتھ ہونا چاہیے۔ لوگ انسان کے ظاہر کو دیکھتے ہیں اور ظاہر میں سے بھی زبان کا برتاؤ بہت اہم ہے۔ اس انداز سے برتاؤ لوگوں کی محبت کو جذب کرتا ہے۔ لوگ ایسے شخص کو پسند کرتے ہیں، اس شخص کے عیب پر پردہ پڑا رہتا ہے اور اگر مقابل شخص دلی طور پر محبت نہیں بھی کرے گا تو بھی اس کی زبان خاموش رہے گی۔
یہ اظہارِ محبت جہاں دل اور زبان سے ہونا چاہیے وہاں عملی اقدام سے بھی ہونا چاہیے۔ کسی کو مشکل پڑے تو مددگار بن جائے، دوسروں کے نامناسب رویے پر قدرت کے با وجود معاف کردے۔ اللہ کا سب سے بڑا دشمن شیطان اللہ سے کہتا ہے کچھ مہلت دے دے فرمایا دے دی۔ فرعون دشمن خدا کہتا ہے میں تمہارا ربِ اعلیٰ ہوں تو اللہ موسیؑ و ہارونؑ سے فرماتا ہے کہ اسے میری طرف بلاؤ مگر اس سے بات نرمی سے کرنا۔ یہ اللہ نے اپنی مخلوق سے محبت کا اظہار کیا ہے۔انسان کو بھی انسان سے جو اللہ کی مخلوق ہے، اسی طرح پیش آنا چاہیے۔ ایسا برتاؤ انسانوں کو جوڑ دے گا معاشرے میں سکون ہو گا اور انسان کی زندگی بہتر انداز سے بسر ہوگی۔

243۔ غم

وَالْهَمُّ نِصْفُ الْهَرَمِ۔ (حکمت 143)
غم آدھا بڑھاپا ہے۔

غم و اندوہ کا جسم و روح دونوں پر اثر ہوتا ہے۔ البتہ جسم سے زیادہ فکر و روح پر اثر ہوتا ہے۔ غمگین انسان اپنے ارادوں اور آراء میں بھی کمزور ہو جاتا ہے۔ علم و معرفت اور صبر و ضبط میں بھی بوڑھے شخص کی طرح کمزور ہو جاتا ہے۔ آج کی طب میں بھی یہ بات واضح ہے کہ بہت سے جسمانی و ذہنی امراض کا سبب یہی غم و فکر ہے۔اعصاب، امراض دل، معدہ، ذیابیطس اور بلڈ پریشر جیسے امراض کا سبب بھی اکثر یہی غم ہوتا ہے۔غم کے اسباب مختلف ہوتے ہیں اور انہی کے اعتبار سے علاج ہوتا ہے۔ اکثر غم حقیقی نہیں بلکہ خیالی ہوتے مثلاً یہ خیال کہ فلاں بڑا امیرہے میں بڑا غریب، میرے ساتھ کل کیا ہوگا یا کسی نے کوئی بات کی اسے پریشانی کا سبب بنا لیا، کسی کے محل کو دیکھ کر اپنی جھونپڑی کو حقیر جانا۔ کبھی ماضی کی یادوں اور کبھی مستقبل کے وسوسوں سے خود کو غم میں الجھا لیا۔ پہلے غم کی وجہ تلاش کرکے اسے دور کرنا چاہیے۔جو مثبت چیز اس کے پاس ہے اسےاہمیت دے۔کیادولت سے غم دور جائیں گے؟ آپ کو نہیں معلوم محل نشین کن غموں میں مبتلا ہے۔ شیخ سعدی کے بارے میں مشہور ہے کہ پاؤں میں جوتے نہ ہونے پر غمگین تھے کہ بغیر پاؤں والے کو مطمئن دیکھا تو مطمئن ہوئے کہ پاؤں تو ہیں۔امیرالمومنینؑ نے ایک اصول بتایا:’’اپنے سے کم سہولیات والے کو دیکھو تو جو ہے اس پر شکر ادا کریں۔‘‘ بہت سارے افراد اپنے بہت سے غموں کا مداوا غم زدہ افراد کی مدد کے ذریعے کرتے ہیں۔ کسی کا جوان بیٹا فوت ہو گیا اُس نے چند جوانوں کو بلا کر ضرورت مند افراد کی مدد اور دوسرے جوانوں کی راہنمائی کے وسائل مہیا کرنا شروع کر دیے یوں انسانیت کی خدمت کے ذریعے خود بھی باعزت انسان بن گیا اور دوسروں کو بھی کمال انسانیت کا سبق سکھا دیا ہے۔

244۔ علم و مال میں فرق

وَالْمَالُ تَنْقُصُهُ النَّفَقَةُ، وَالْعِلْمُ يَزْكُوْ عَلَى الْاِنْفَاقِ۔ (حکمت 147)
مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے لیکن علم صرف کرنے سے بڑھتا ہے۔

انسان کے لیے دیر پا ،با عزت اور محفوظ سرمائے کا نام علم ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے اس فرمان میں سات طریقوں سے علم کی اہمیت بتائی ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے مگر علم خرچ کرنے سے بڑھتا ہے۔ تجربات سے ثابت ہے کہ لکھنے پڑھنے سے علم اتنا نہیں بڑھتا جتنا پڑھانے سے بڑھتا ہے۔ پڑھانے سے ایک تو پڑھانے والے کا اپنا علم پختہ ہوتا ہے، اسے پڑھاتے ہوئے نئی نئی چیزیں پتا چلتی ہیں اور دوسرا جن کو سکھاتا ہے وہ شاگرد بھی اس کی وجہ سے صاحب علم ہوئے تو یہ علم بڑھ گیا ۔یوں سیکھنے سکھانے کا طریقہ علم کو بڑھاتا رہے گا شاگردوں کے شاگرد بنتے رہیں گے علم بڑھتا رہے گا۔امیرالمؤمنینؑ نے ان دو جملوں میں علم کو تقسیم کرنے کی تشویق و رغبت دلائی اور یوں آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا دیکھو یہاں علم کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے، کاش اس کے اٹھانے والے مل جاتے۔ اس جملے میں علم حاصل کرنے والوں کو رغبت دلائی کہ کسی کے پاس علم پاؤ تو سیکھو۔ آج بھی اگر معلم سکھانے کو عبادت سمجھے اور سیکھنے والا سیکھنے کی طلب محسوس کرے تو قوموں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ سکھانے والا سکھانے اور شاگردوں کی پرورش کرنے کا پیاسا ہو اور سیکھنے والا ایسے معلم کا قدردان ہو، جہاں دونوں جمع ہوں گے وہ مرکز علم ہوگا۔اب اس علم سے مراد کون سا علم ہے۔ بہت سی آراء بیان ہوئی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ علم جو انسان کو اس کی پہچان کروا دے اور اس کی ضروریات اور وظائف سے آگاہ کر دے، وہ مفید علم ہے۔ وہ علم جو خود انسان کے لیے زندگی کی راہیں روشن کرے اور دوسروں کے لیے چراغ بن جائے۔

245۔ زبان

اَلْمَرْءُ مَخْبُوْءٌ تَحْتَ لِسَانِهٖ۔ (حکمت 148)
انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے۔

انسان کی قدر و قیمت اور اس کی فکرونظر کا اظہار زبان کے ذریعے ہوتا ہے۔ ہر شخص کی گفتگو ا س کی ذہنی و اخلاقی حالت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اس سے اس کے خیالات و جذبات کا بڑی آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے لہذا جب وہ خاموش ہے تو اس کا عیب و ہنر پوشیدہ رہتا ہے اور جب اس کی زبان کھلتی ہے تو اس کی حقیقت نمایاں ہوتی ہے۔زبان ہی کی حرکت سے انسانوں کے دلوں کو بہلایا جاتا ہے اور یہی زبان دلوں کو جلانے کا سبب بھی بن جاتی ہے۔قول ہی سے انسان کا ما فی الضمیر ظاہر ہوگا۔ اس لئے حکماء کہتے ہیں کہ کچھ کہنے سے پہلے عقل و معرفت کے ترازو پر قول کا وزن کریں اگر کہنے کے قابل ہے تو کہیں ورنہ خاموشی بہتر ہے۔حکماء یہ بھی کہتے ہیں اگر آپ کو نہیں معلوم کہ میری بات کرنا فائدہ مند ہے یا نقصان دہ تو بہتر ہے خاموش رہیں۔ البتہ جب کہنے سے کسی انسان کی خدمت ہو سکے تو خاموشی صحیح نہیں۔ شیخ سعدی نے خوب فرمایا: جب تک آدمی بات نہیں کرتا اس کا عیب و کمال مخفی رہتا ہے۔

246۔ خود شناسی

هَلَكَ امْرُؤٌ لَمْ يَعْرِفْ قَدْرَهٗ۔ (حکمت 149)
جو شخص اپنی قدر و منزلت کو نہیں پہچانتا وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔

انسان بعض اوقات اپنی عظمتِ انسانی اور مقام آدمیت کو بھول جاتا ہے۔ قرآن مجید نے اسے کرامت و شرافت کی خوشخبری سنائی ہے مگر وہ اسے فراموش کر دیتا ہے۔ چند پیسوں یا وقتی خواہشوں کے پیچھے جا کراپنے آپ کو اس مقام سے گرا دیتا ہے اور ہوا و ہوس میں غرق ہو کر گھٹیا کام کرتا ہے ۔ امیرالمومنینؑ نے اس فراموشی کو ہلاکت و بربادی قرار دیا ہے۔ امامؑ متوجہ فرما رہے ہیں کہ اپنے انسانی مقام و منزلت قدر و اہمیت کو پہچانیں اور اس کی حفاظت کریں۔اس فرمان کا یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جو کچھ ہے خود کو اس سے بڑا سمجھنے لگتا ہے۔ جوانی کی طاقت آئی یا حکومت کا نشہ لاحق ہوا تو اپنے بچپن کی کمزوری اور بڑھاپے کے ضعف کو فراموش کر دیتا ہے اور خود پسندی میں مبتلا ہو کر اپنے مقام کے خلاف قدم اٹھاتا ہے اوریوں ہلاک ہو جاتا ہے۔دنیاوی زندگی میں بھی مثلا کوئی کسی شعبہ میں مہارت نہیں رکھتا مگر خود کو ماہر سمجھتا ہے۔ طب کی چند کتابیں پڑھ کر خود کو ذہین و حاذق حکیم سمجھنے لگتا ہے تو دوسروں کی جان کو خطرے میں ڈال دیتا ہے اور وہی خطرات اسے بھی لوگوں کی نگاہوں میں گرا دیں گے اور یہ اس کی ہلاکت ہے۔

247۔ عمل کے بغیر امید

لَا تَكُنْ مِمَّنْ يَرْجُو الْاٰخِرَةَ بِغَيْرِ عَمَلٍ۔ (حکمت 150)
ان لوگوں میں سے نہ ہو جو عمل کے بغیر حسنِ انجام کی امید رکھتے ہیں۔

انسان کے لیے دنیا و آخرت کی سعادت و خوشبختی کے لیے کچھ اعمال انجام دینا لازم ہیں تو کچھ اعمال سے بچنا بھی ضروری ہے۔ ہادی و راہنما کا کام اچھے اعمال کی بجاآوری کی تاکید اور برے افعال سے روکنا اور تنبیہ بھی ہے۔ امیرالمؤمنینؑ سے کسی نے ہدایت و راہنمائی کی درخواست کی تو آپ نے تیس ایسے امور سے روکا جو انسان کی دینی و دنیوی ترقی و کمال میں رکاوٹ ہیں۔ آپ کا یہ کلام مختصر اور مکمل دستور العمل ہے۔ سید رضی جامع نہج البلاغہ اس موعظہ کے بیان کے بعد فرماتے ہیں اگر اس کتاب میں صرف ایک یہی کلام ہوتا تو کامیاب موعظہ اور مؤثر حکمت اور چشم بینا رکھنے والے کے لیے بصیرت اور فکر و نظر کرنے والے کی عبرت کے لیے کافی تھا۔اس فرمان کا پہلا جملہ یہ ہے کہ ’’ ان لوگوں میں سے نہ ہو جو عمل کے بغیر اچھے انجام کی امید رکھتے ہیں‘‘ دنیا کے بہت سے افراد کامیابی اور اچھے نتائج کے تو خواہاں ہوتے ہیں مگر اس کے مطابق محنت نہیں کرتے۔ آپؑ نے واضح فرمایا کہ کامیابی خواہ دنیا کی ہو خواہ آخرت کی، امیدوں سے حاصل نہیں ہوتی، محنت اور کوشش سے ملتی ہے۔ آخرت کی کامیابی کے لیے کلمہ پڑھ لینا کافی نہیں بلکہ عمل کا حکم دیا گیا ہے۔ دنیا میں بھی اصول یہی ہے کہ اگر ترقی و کامیابی چاہتے ہو تو محنت سے اسے حاصل کیا جا سکتا ہے امیدوں سے نہیں۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اس فرمان کا ایک ایک جملہ سعادت مند زندگی کے لیے سیڑھی ہے۔ مثلاً فرمایا: ان لوگوں میں سے نہ ہو کہ اگر دنیا انہیں ملے تو سیر نہیں ہوتے اور اگر نہ ملے تو قناعت نہیں کرتے، ان لوگوں میں سے نہ ہو جو انہیں ملا اس پر شکر نہیں کرتے اور جو نہیں ملا اس کے ملنے اور اضافے کے خواہشمند رہتے ہیں، ان لوگوں میں سے نہ ہو کہ اگر مالدار ہوتے ہیں تو تکبر کرنے لگتے ہیں اور فقیر ہو جائیں تو نا امید ہو جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں سے نہ ہو جو دوسروں کے ایسے گناہوں کو بہت بڑا سمجھتے ہیں جس سے بڑے گناہوں کو اپنے لیے چھوٹا سمجھتے ہیں۔یہ مکمل دستور العمل ہے اور اس کا آخری جملہ ہی انسانیت کو سنوارنے کے لیے کافی ہے فرمایا ’’ان لوگوں میں سے نہ ہو جو مخلوقات کے بارے میں پروردگار سے نہیں ڈرتے‘‘یعنی اللہ تعالیٰ نے مخلوق پر احسان کرنے کا اور انہیں اذیت نہ پہنچانے کا حکم دیا ہے اس میں اللہ کی اطاعت نہ کرنے والوں میں سے نہ بنو۔ حقوق انسانی کا خیال رکھو لوگوں کو نقصان پہنچانے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔

248۔ صبرکا پھل

لَا يَعْدَمُ الصَّبُورُ الظَّفَرَ وَاِنْ طَالَ بِهِ الزَّمَانُ۔ (حکمت 153)
صبر کرنے والا کامیابی سے محروم نہیں ہوتا، چاہے اس میں طویل زمانہ لگ جائے۔

انسان اگر ہدف و مقصد کے پانے میں کامیابی چاہتا ہے تو اس کامیابی کی چابی کا نام صبر و استقامت ہے۔ کامیابی کے اصولوں میں سے ایک ہدف کا تعین ہے اور جب ہدف معین کر لیا تو اب اس سفر کے لئے صبر کی سواری لازم ہے۔ صبر: یعنی مقصد تک پہنچنے کی رکاوٹوں پر استقامت، لمبی راہوں کی تھکاوٹ کا برداشت کرنا، رنج و غم اور مخالفتوں کو سہ لینا، جیسی رکاوٹیں ہوں گی اسی قسم کا صبر ہوگا۔علم نفسیات و معاشرت والوں نے استقامت پر الگ کتابیں لکھی ہیں ۔ پھول کے حصول کے لئے موسم بہار کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور سارے سال کے کانٹوں کے ساتھ جینا پڑتا ہے۔ شہد کے حصول کے لئے درجنوں مکھیوں کے ڈنک کی چبھن گوارا کرنی پڑتی ہے۔مقصد کی طرف راہ چلتے ہوئے عارضی چاہتیں رکاوٹ نہ بنیں، راہ میں ملنے والوں کی نفرتیں دلبرداشتہ نہ کریں۔ تاریخ شاہد ہے کہ کسی ہنر و کمال کو پانے اور کامیابی و کامرانی حاصل کرنے کے لیے صبر و استقامت بہترین ساتھی ہے۔

249۔ عبرت

قَدْ بُصِّرْتُمْ اِنْ اَ بْصَرْتُمْ۔ (حکمت 157)
اگر تم دیکھوتو تمھیں دکھایا جا چکا ہے۔

انسان کو خلقت کے ساتھ ساتھ نجات و سعادت کی راہیں بتادی گئیں۔ کبھی فطرت کی صورت میں اور کبھی اللہ کے پیغمبر کے ذریعے اسے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ انسان نے ہوش سنبھالا تو تاریخ کے اوراق نے، قوموں کے حالات نے، عبرتوں کے اسباق نے اُسے بہت کچھ دکھایا، سنایا اور صحیح راستے کا پتا بتایا۔ اس کے باوجود انسان کئی بار غفلت میں پڑا ہوتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے ان جملات سے اسے جگایا ’’اگر تم دیکھو تو تمہیں دکھایا جا چکا ہے اور اگر ہدایت حاصل کرو تو تمہیں ہدایت کی جا چکی ہے اور اگر سننا چاہو تو سنایا جا چکا ہے۔‘‘
آپ نے گزشتگان سے عبرتیں، نصیحتیں اور دلیلیں حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ کامیاب لوگ وہ ہوتے ہیں کہ جس راہ سے گزر کر کوئی منزل پر پہنچ گیا ہو اس سے سیکھ کر اور اسی راہ کو استعمال کر کے منزل پاتے ہیں اگر کہیں سے کوئی ٹھوکر کھا کر گرا تو وہ اس گرنے والے سے سیکھ کر اس ٹھوکر سے خبردار ہو جاتے ہیں اور راہ بدل لیتے ہیں یا احتیاط برت لیتے ہیں۔سیکھنے کے لئے بصیرت افروز آنکھوں سے ٹوٹے ہوئے محلات ،سر پر تاج پہننے والے سروں پر خاک کو دیکھا جا سکتا ہے اور تجربوں سے گزر کر راہ بتانے والوں کی خاموش صداؤں کو سنا جاسکتا ہے۔ قائد اعظم کی صدا ’’کام کام کام‘‘اور علامہ اقبال کی ’’اپنی پہچان اور خودی‘‘جیسی ہدایات کو سنا جا سکتا ہے۔ یہی نظریں اور صدائیں، عبرتیں اور تجربات کامیابی کا ذریعہ ہیں۔

250۔ احسان

عَاتِبْ اَخَاكَ بِالْاِحْسَانِ اِلَيْهِ، وَارْدُدْ شَرَّهٗ بِالاِنْعَامِ عَلَيْهِ۔ (حکمت 158)
اپنے بھائی کو سزا دینی ہو تو اس پر احسان کرو اور اس کے شر سے بچنا چاہو تو اس پر لطف و انعام کرو۔

امامؑ نےانسانی برتاؤ اور علم اخلاق کے طویل باب کا خلاصہ اس فرمان میں بیان فرما دیا ۔حقیقت میں یہ قرآنی اصول کی تفسیر اور پیغمبر اکرمؐ کی سیرت کی تشریح ہے۔ قرآن کہتا ہے۔ ’’بُرائی کو بہترین اچھائی کے ساتھ پلٹا دو‘‘ اور پیغمبر اکرم ؐکا فتح مکہ کےدن کا مشہور فرمان ہے جب آپ کے کانوں تک یہ آواز پہنچی کہ مکہ والے کہہ رہے ہیں ’’آج انتقام کا دن ہے، فرمایا نہیں آج رحمت کا دن ہے۔‘‘حضرت یوسفؑ کے قصے میں کنویں میں ڈالنے والے بھائیوں کو جب آپ کی ضرورت پڑی تو اس قصے کو دہرانا اور بھائیوں کا معافی مانگنا بھی گوارا نہ کیا بلکہ فرمایا چھوڑو ان باتوں کو ۔
انسانی رشتے کو نبھانے کے لئے امیرالمومنینؑ نے بہترین اصول مہیا فرمایا :اگر کسی نے تمہارے ساتھ زیادتی کی اور وہ واقعا سزا کا حقدار ہے تو سزا کے بجائے احسان کرو۔ آپ کو شدت سے قرض کی ضرورت تھی سامنے والے نے مانگنے پر بھی نہ دیا اور کسی وقت آپ کو معلوم ہوا کہ اس کو قرض کی ضرورت ہےتو آپ نے اس کے مانگے بغیر جا کر اسے قرض پیش کر دیا تو اسے گزشتہ کی سزا بھی مل گئی، آئندہ وہ حتی الامکان آپ سے زیادتی بھی نہیں کرے گا اور انسانیت کا رشتہ بھی مضبوط ہو جائے گا۔کسی نے خوب کہا: برائی کا برائی کے ساتھ جواب دینا بڑا آسان ہے تو اگر با کمال ہے تو برائی کرنے والے سے بھلائی کر۔اور کسی حکیم کا کہنا ہے کہ احسان کرنے کا لطف وہاں آتا ہے جہاں سامنے والے کو شکریہ کہنے کا بھی شعور نہ ہو۔

251۔ تہمت

مَنْ وَضَعَ نَفْسَهٗ مَوَاضِعَ التُّهَمَةِ فَلَا يَلُوْمَنَّ مَنْ اَسَاءَ بِهِ الظَّنَّ۔ (حکمت 159)
جو شخص خود کو بدنامی کی جگہوں پر لے جائے تو پھر اُسے بُرا نہ کہے جو اُس سے بدظن ہو۔

انسان کی ایک کمزوری یہ ہے کہ وہ دوسروں سے بدگمانی کرتا ہے۔ قرآن مجید میں بدگمانی کو گناہ قرار دیا گیا اور اس کے مقابلے میں حسن ظن کی تاکید کی گئی ہے۔ مگر بہت سے افراد اس اصول کو نہیں اپناتے۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں بدگمانی سے بچنے کی ایک راہ بیان فرمائی ہےاور وہ یہ کہ انسان کو ان کاموں، باتوں، جگہوں اور افراد سے دور رہنا چاہیے جو اس پر تہمت و بدگمانی کا سبب بن سکتے ہیں۔ شراب خانہ میں جانا خواہ مقصد کوئی ہو، چور کے ساتھ بیٹھنا، خواہ وجہ جو بھی ہو انسان کو متہم کرے گی اور اگر کوئی ایسے تہمت کے مقام پر خود کو لے جائے تو تہمت لگانے والوں کو برا نہ کہے خود کو غلط کہے۔ آپؑ فساد کی جڑ ہی کو کاٹ دینا چاہتے ہیں تاکہ فساد کی شاخ ہی نہ پھوٹے۔ لکھتے ہیں رسولؐ اللہ رات کے وقت مدینہ میں اپنی زوجہ کے ساتھ جا رہے تھے۔ ایک صحابی نے سلام کیا اور جلدی سے گزر گیا پیغمبر اکرمؐ نے اسے روک کر کہا یہ میری زوجہ ہے۔ صحابی نے عرض کی یا رسولؐ اللہ مگر کسی کو آپ سے سوء ظن ہے؟ فرمایا: شیطان انسان کے ساتھ خون کی طرح چلتا ہے۔

252۔ مشورہ

مَنِ اسْتَبَدَّ بِرَاْيِهٖ هَلَكَ، وَمَنْ شَاوَرَ الرِّجَالَ شَارَكَهَا فِيْ عُقُوْلِهَا۔ (حکمت 158)
جو اپنی ہی رائے کو سب کچھ سمجھتا ہے وہ ہلاک ہوگا اور جو لوگوں سے مشورہ کرے گا وہ ان کی عقلوں میں شریک ہو جائے گا۔

انسان کی زندگی کے اہم امور میں سے ایک مشورہ ہے۔ مشورے کی اہمیت، شرائط اور فوائد کو امیرالمومنینؑ نے بار بار بیان کیا ہے۔یہ تکرار خود اس کی اہمیت ظاہر کرتی ہے۔ اسلام بڑے بڑے مسائل میں مشورے کا حکم دیتا ہے اور خود رسولؐ اللہ کو حکم دیا ’’اور معاشرت میں ان سے مشورہ کر لیا کریں‘، یہ کون سے معاملات ہیں اور کب مشورہ کرنے کا حکم ہے ایک الگ موضوع ہے۔ انسانی زندگی کو سنوارنے کے لئے چھوٹے چھوٹے کاموں میں بھی قرآن نے مشورے کا کہاہے مثلاً ماں کو حکم ہے کہ بچے کو دو سال دودھ پلائے مگر پھر فرمایا:’’اگر ماں باپ باہمی رضامندی اور مشورے سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہتے ہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔‘‘امیرالمومنینؑ نے یہاں واضح فرمایا کہ بہت سے لوگ خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں اور اپنی رائے کو بہت بلند سمجھتے ہیں اس لیے کسی کے ساتھ مشورے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے مگر ایسے افراد اپنی خود رائی اور مطلق العنانی کی وجہ سے ہلاک ہوں گے اور ان کے مقابلے میں جو لوگ دوسروں سے مشورہ کرتے ہوں گویا انھوں نے دوسروں کی عقلوں کو اپنے ساتھ ملا لیا اور اب چند عقلیں مل کر فیصلہ کریں گی تو غلطی کا امکان کم ہوگا۔ بعض لوگ مشورے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں ہم کسی سے مشورہ کریں گے تو وہ شخص ہمیں حقیر و کمزور سمجھے گا اور بعض نے مشورے کی مخالفت میں یہ دلیل دی ہے کہ دوسروں سے مشورہ کرنا یعنی اپنے راز دوسروں کو بتانا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر کسی سے مشورے کا حکم ہی نہیں، مشورے کی شرائط میں سے ہے کہ وہ شخص امین، رازدار، تجربہ کار اور وفادار ہونا چاہیے۔ بخیل، بزدل، لالچی اور خوشامدی سے مشورہ نہیں کرنا چاہیے۔ان شرائط کے حامل افراد سے مشورہ ہوگا تو نہ وہ حقارت کے حساب میں آئے گا نہ راز کے افشا میں اس لئے کہ کئی افراد آپ کے تجربات سے ہی تو استفادہ کرنے کے لئے مشورہ کرتے ہیں بلکہ بڑے بڑے حکمران مخصوص شعبوں میں اپنے الگ مشیر مقرر کرتے ہیں۔

253۔ رازداری

مَنْ كَتَمَ سِرَّهٗ كَانَتِ الْخِيَرَةُ بِيَدِهٖ۔ (حکمت 162)
جو اپنے راز کو پوشیدہ رکھے گا اس کا اختیار اس کے ہاتھ میں رہے گا۔

انسان کی زندگی کے وہ مخصوص حالات اور معاملات کہ جن سے اگر دوسرے آگاہ ہو جائیں تو اس کے لئے بہت سی مشکلات بن سکتی ہیں، راز کہلاتے ہیں۔ کوئی شخص کسی خاص مقصد کے لئے کوشاں ہے اور اگر اس کے اہداف ظاہر ہو جائیں تو حاسد رکاوٹیں کھڑی کر دیں گے اور یوں مقصد کا حصول نا ممکن ہو سکتا ہے۔ کسی سے کوئی خطا ہوئی اگر افشا ہو جائے تو ممکن ہے مخالف کی خوشیوں، اپنوں کی شرمساریوں اور اپنے لیے رکاوٹوں کا سبب بن جائے۔ایسے مواقع پر عقل کا تقاضا یہ ہے کہ راز کو راز رہنے دیں۔امیرالمومنینؑ یہاں اسی بات کی اہمیت سے آگاہ فرما رہے ہیں کہ جب تک وہ راز آپ کے سینے میں ہے آپ صاحب اختیار ہیں مگر وہ زبان پر آ گیا تو اب آپ کے اختیار سے باہر ہے۔ اسےظاہر کرنے کا جو نتیجہ ہوگا اب اسے برداشت کرنا پڑے گا۔ کسی حکیم نے خوب کہاکہ آپ کا راز خون کے مانند ہے آپ نے کہہ دیا تو خون کی طرح بہ گیا۔ اس دور میں بہت سے ملکوں میں قانون بن چکے ہیں جن کے مطابق بلیک میلنگ یعنی “راز کے افشا کی دھمکیوں سے کسی سے اپنے مقاصد و منافع حاصل کرنا”جرم ہے۔ بلیک میلنگ کے خوف سے بہت سے افراد تنگ آ کر خودکشیوں تک جاپہنچتے ہیں۔ یہ فرمان انسانی زندگی کی اس مشکل کے حل کا بہترین نسخہ ہے کہ راز کو راز میں رکھ کر کسی قریبی کو بھی نہ بتاؤ کیونکہ اس کے بھی قریبی ہیں، وہ ان کو بتائے گا۔ کئی بار خود قریبی ہی خفا ہو جاتے ہیں تو وہی دور والے ہو جاتے ہیں۔ اس لئے راز کو پوشیدہ رکھو تاکہ کل غم سے محفوظ رہو اور زندگی پر سکون رہے۔

254۔ فقر

الْفَقْرُ الْمَوْتُ الْاَكْبَرُ۔ (حکمت 163)
فقر و تنگدستی سب سے بڑی موت ہے۔

انسانی زندگی میں فقر بے شمار مشکلات و مصائب اور دکھوں اور تکلیفوں کا سبب بنتا ہے۔ فقر انسان کی فکر کو سست، دین کو کمزور اور لوگوں کی طرف سے برتاؤ کو ذلت آمیز بنا دیتا ہے۔ امیرالمومنینؑ بار بار فقر کی مذمت کر کے اور فقر سے خوف دلا کر اس سے بچنے کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔فقیر اپنے فقر کو مٹانے کے لئے انسانی آداب و اخلاق اور اجتماعی قوانین و اصول کو پامال کرنا اپنا حق سمجھتا ہے اور مجرمانہ حرکات سے اپنے مقام انسانیت کو برباد کر دیتا ہے بلکہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے قتل جیسے گھناؤنے جرم کا بھی مرتکب ہو جاتا ہے۔ اسلام نے انسان کو دنیا میں آبرو مندانہ زندگی گزارنے کا حکم دیا اور فقر جو آبرو پر حرف کا سبب بنتا ہے،سے بچنے کے لئے محنت و کوشش کو عبادت شمار فرمایا۔ فقیر کو صدقہ دے کر بھوک سے نجات کے بجائے اسے فقر سے نجات دلانےکو ترجیح دی۔ صدقہ سے زیادہ قرض کو اہمیت دی اور فقیر کو ہنر مند بنانے کی طرف توجہ دلائی۔ ادھر یہ بھی فرمایاکہ جس کے پاس زمین اور پانی ہے وہ فقیر رہے تو گویا رحمت خدا سے دور ہے یعنی مٹی اور پانی سے اپنے رزق کی کوشش کرے اور حکومتوں کو بھی فقر مٹانے کی تلقین کی۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں فقر کو سب سے بڑی موت قرار دیا اس لئے کہ جسمانی موت ایک بار آتی ہے ،مگر فقیر فقر کی تنگی اور تنگدستی کی ذلت سے ہر روز دو چار ہوتا ہے۔ بعض بزرگ دعا مانگتے تھے کہ اے اللہ ہمیں فقر کی ذلت اور مال کے تکبر سے محفوظ رکھ۔

255۔ خود پسندی

اَلْاِعْجَابُ يَمْنَعُ الْاِزْدِيَادَ۔ (حکمت 167)
خود پسندی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہے۔

انسان کی اپنے آپ سے محبت ایک فطری امر ہے مگر جب یہ محبت حد اعتدال سے بڑھ جاتی ہے تو اسے اپنا کوئی عیب دکھائی سنائی نہیں دیتا اور انسان یہ گمان کرنے لگتا ہے کہ وہی سب سے بلند و با کمال ہے۔ بلکہ بعض اوقات یہ محبت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اپنی غلطی کو بھی اچھا سمجھنے لگتا ہے۔ قرآن مجید نے بھی اس مرحلے کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ برے عمل کو بھی اچھا سمجھنے لگا۔ ایسی صورت میں انسان اپنے آپ میں کوئی کمی یا کمزوری محسوس ہی نہیں کرتا کہ اس کی اصلاح کرے۔ وہ اپنے تئیں منزل کمال پر فائز جاننے لگتا ہے تو ترقی کے لئے سعی و کوشش ہی نہیں کرتا اور یوں درجات کے زیادہ ہونے اور ترقی کرنے میں خود ہی رکاوٹ بن جاتا ہے۔اس کمزوری کی طرف امیرالمومنینؑ نے متعدد بار متوجہ کیاہے اور اس کے علاج سے بھی آگاہ فرمایاہے۔ اس مرض سے نجات کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی تنقید کرے تو اسے غور سے سنے کہ وہ کمزوری جس پر تنقید کی جا رہی ہے میرے اندر پائی جاتی ہے یا نہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جب کسی اور میں کوئی عیب دیکھے تو اپنے نفس میں بھی جھانکے کہ وہی چیز میرے اندر تو نہیں پائی جاتی۔ اس طرح شاید اسےاپنی کمزوری کا احساس ہو اور پھر بہتر ی کی کوشش کرے۔جب انسان خود پسندی کی وجہ سے خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے تو اس عمل کی وجہ سے لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور یوں اس کے دوستوں اور ملنے والوں میں بھی اضافہ نہیں ہوتا ۔کسی نے خود پسندی کے لئے کہا:حق کی طرف صرف ہم ہیں دوسرا کوئی نہیں، خود پسندی کی یہ ادنی سی تصویر ہے۔

256۔ جہالت

النَّاسُ أَعْدَاءُ مَا جَهِلُوْا۔ (حکمت 172)
لوگ اس چیز کے دشمن ہوتے ہیں جسے نہیں جانتے۔

جہالت ایک اندھیرا ہے اور اندھیرے میں نا معلوم ڈھانچہ نظر آئے تو وہ کوئی درندہ و خوفناک شے محسوس ہوتی ہے اور انسان اس سے ڈرتا ہے اسی طرح اندھیرے میں کوئی انجان آواز سنائی دے تو وہ گھبراہٹ کا سبب بنتی ہے۔ اس ڈھانچے اور آواز کی عدم شناخت کی وجہ سے اس سے نفرت ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات اپنا قریبی آدمی بھی آ رہا ہو تو چونکہ اندھیرے کی وجہ سے پہچان نہیں ہو رہی ہوتی تو اس سے ڈر لگتا ہے اور جس سے ڈر لگتا ہے فطرتا اس سے نفرت ہوتی ہے۔ امیرالمومنینؑ اسی امر کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ جس شے کو نہیں جانتے اس سے نفرت و دشمنی ہوتی ہے اور اس کا حل یہ ہے کہ اسے جاننے کی کوشش کریں، جان پہچان سے بہت سے گلے شکوے ، ڈر، خوف اور مخالفت و دشمنی ختم ہو جاتی ہے۔
مثلا قرآن مجید نے جناب خضرؑ و موسیؑ کا واقعہ تفصیل سے بیان فرمایا۔ حضرت خضر ؑکشتی میں سوراخ کرتے ہیں، جناب موسیؑ کو حقیقت کا علم نہیں ہوتا اس لیے مخالفت کرتے ہیں مگر آخر میں جناب خضر ؑحقیقت بتاتے ہیں کہ میں نے کشتی میں سوراخ کر کے کشتی کو ظالم کے قبضے میں جانےسے بچا لیا تو حضرت موسیؑ مطمئن ہو جاتے ہیں۔اسی طرح کئی قوموں اور قبیلوں کے مابین ایسی مبہم چیزوں ہی کی وجہ سےجھگڑے چلتے رہتے ہیں۔ اگر حقائق واضح ہو جائیں تو یہ دشمنیاں ختم ہو جائیں۔ دشمنی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انسان جب کسی چیز سے جاہل و نا آشنا ہوتا ہے اوراس چیز کے حامل افراد کی عزت اور ان کے سامنے اپنی کمزوری کو دیکھتا ہے تو وہ اس چیز سے ہی نفرت کرنے لگتا ہے اور اسے بے فائدہ کہنے لگتا ہے۔ اس لیےکوشش ہونی چاہیے کہ جس چیز کو آپ نہیں جانتے اس سے دشمنی و نفرت کے بجائے اسے جاننے کی کوشش کریں اور جس چیز کو نہیں جانتے اسے بے فائدہ مت سمجھیں۔

257۔ آراء کا احترام

مَنِ اسْتَقْبَلَ وُجُوْهَ الْاٰرَاءِ عَرَفَ مَوَاقِعَ الْخَطَإِ۔ (حکمت 173)
جو شخص مختلف آراء کا سامنا کرتا ہے وہ خطاؤں کے مقامات کو پہچان لیتا ہے۔

انسان کی زندگی میں سوچ بچار کے بعد مثبت و منفی پہلوؤں پرغور کر کے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ اہم ہوتا ہے۔ زندگی کی کامیابی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی رائے کے ساتھ دوسروں کی آراء کو بھی شامل کیا جائے۔ غور و فکر کے بعد رائے قائم کرنا اور دوسروں کی آراء کو اپنی رائے کے ساتھ شامل کرنا ہی عقل مندی کی نشانی ہے ۔ امیرالمومنینؑ نے بھی اس شخص کی مذمت کی ہے جو اپنی رائے ہی کو سب کچھ سمجھتا ہے اور فرمایا کہ وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔ البتہ رائے اس اظہار نظر کو کہا جاتا ہے جو اس موضوع کے ماہر سے ہو اور کسی فن کا ماہر ،کسی علمی بنیاد پر ہی اپنی رائے قائم کرے گا، عام آدمی کی بات رائے شمار نہیں ہوگی۔
اگر ایک موضوع پر چند صاحب نظر مل کر اپنی اپنی آراء دیتے ہیں اور پھر انہیں جمع کیا جاتا ہے اور ایک بہتر نتیجہ اخذ کر کے قدم اٹھایا جاتا ہے تو غلطی و خطا کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ عقلمند آدمی گزشتہ افراد کے اقوال اور موجودہ ماہرین کی آراء کو پڑھتا اور سنتا ہے، خود غور کرتا ہے اور آگے بڑھتا ہے تو یوں کامیابیوں کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔طب میں جب کوئی بڑا آپریشن کرتے ہیں تو پہلے ماہرین مل بیٹھ کر اس مرض کے بارے میں اپنی آراء دیتے ہیں۔ فوج کہیں اقدام کرتی ہے تو یہی عمل انجام دیا جاتا ہے بلکہ آج کل تو حکومتوں اور بڑے بڑے اداروں میں ماہرین کے گروپ معین ہوتے ہیں جنھیں ’’تھنک ٹینک‘‘ کہا جاتا ہے جو فیصلے کرتے ہیں۔آج اجتماعی رائے کو جو اہمیت دی جارہی ہے امیرالمومنینؑ چودہ سو سال پہلے اسےاجاگر فرما رہے ہیں۔ اس فرمان پر عمل کر کے انسان اپنی ذاتی زندگی اور اجتماعی زندگی میں فائدہ اٹھا سکتا ہے بلکہ حکومتیں بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔

258۔ خوف میں کودنا

اِذَا هِبْتَ اَمْرًافَقَعْ فِيهِ۔ (حکمت 175)
جب کسی امر سے دہشت محسوس کرو تو اس میں کود پڑو۔

ہر شخص زندگی میں کئی بار خوف اور ڈر کا سامنا کرتا ہے۔ ان میں سے اکثر خوف انسان کے اپنے پیدا کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ مثلا ناکامی کا ڈر، یا یہ ڈر کہ میں یہ کام کروں گا تو لوگ کیا کہیں گے۔ میرے ساتھ لوگ کیا برتاؤ کریں گے، اس کام سے میری آئندہ زندگی پر کیا اثر پڑے گا، ایسا ڈر انسانی ترقی کی راہ میں اٹھنے والے قدموں کی زنجیر بن جاتا ہے۔ ایسے میں انسان قدم اٹھانے کے بجائے ذہنی گھبراہٹ اور اضطراب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا بھی ہے کہ انسان کسی مقصد کے لئے قدم اٹھاتا ہے تو اسے مشکلات اور ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
امیرالمومنینؑ گویا یہ فرما رہے ہیں کہ ایک خوف کا آئندہ سامناہو سکتا ہے مثلا ناکامی ہو سکتی ہے، نقصان ہو سکتا ہے اور ایک خوف اورکھٹکا آپ کے ذہن میں ہے۔ اس پہلے خوف سے نکلو اور دوسرے مرحلے میں پھاند پڑو ۔جو خوف آپ کے ذہن میں تھا ،اس سے آپ کو نجات مل گئی اور جو مرحلہ آئے گا اس میں اگر آپ کاخوف سچ ثابت ہوا تو وہ ایک قسم کے تجربے اور سبق سیکھنے کے بعد گا۔ آپ کی آئندہ فکر کو مضبوط کرے گا اور مستقبل کی منصوبہ بندیوں میں معاون ہوگا۔ اگر آدمی ذہن میں یہ ڈر پختہ کر لے کہ میں اگر اس کشتی میں سوار ہو کر سمندر میں داخل ہوا تو کہیں ڈوب نہ جاؤں اور کنارے پر ہی رہے تو کبھی سمندر کے خزانے اورموتی اس کے ہاتھ میں نہیں آئیں گے۔ میں امتحان میں فیل نہ جاؤں، کا خوف اسے امتحان میں بیٹھنے ہی نہ دے تو کامیابی کہاں سے ملے گی۔ البتہ امیرالمومنینؑ نےیہاں یہ نہیں فرمایا کہ سوچے سمجھے بغیر کود پڑو بلکہ سوچ بچار، مشورہ، رائےاور وسائل کے مہیا کرنے کے بعد، جیسے کہ قرآن کا حکم ہے:’’فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ۔ پھر جب آپ عزم کر لیں تو اللہ پر بھروسا کریں۔‘‘

259۔ سرداری کا راز

اٰلَةُ الرِّيَاسَةِ سَعَةُ الصَّدْرِ۔ (حکمت 176)
سرداری کا ذریعہ سینے کی وسعت ہے۔

انسان جتنا نمایاں ہوتا ہے اورا س کا دائرہ نفوذ زیادہ ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ لوگوں سے اسےواسطہ پڑتا ہے۔ کسی انسان کی ذمہ داری اپنی ذات کو سنوارنے کی ہے تو کوئی خاندان کی تربیت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔کسی کو مختصر قبیلہ کی راہنمائی کرنی ہوتی ہے ،تو کسی کے سپرد پورے ملک کے لوگوں کی کفالت ہوتی ہے۔امیرالمومنینؑ یہاں فرما رہے ہیں کہ جتنا کسی کا عہدہ و ذمہ بڑا ہے اتنا ہی اسے وسعت قلبی کا مظاہرہ زیادہ کرنے کی ضرورت ہے اور جتنا سینہ وسیع ہوگا اتنی اس کی سرداری مضبوط ہوگی۔ ذمہ دار افراد کو کبھی ما تحت کے جھگڑے لڑائیوں کو سامنا کرنا ہوگا تو کبھی کسی کے درمیان صلح و صفائی کروانا ہوگی کسی کے شکوے سننے ہوں گے تو کسی کی مالی ضروریات کو پورا کرنا ہوگا۔ کسی کے دکھوں کا مداوا کرنا ہوگا تو کسی کو ظلم و زیادتی سے روکنا ہوگا۔ ان امور کو نبھانے کے لئے اسی صبر و حوصلہ کی ضرورت ہوتی ہے، تو اسی طرح اسے سخاوت و عطا کا مالک بھی ہونا چاہیے۔ کہیں ہمدرد ہونا ضروری ہے ،تو کہیں شجاعت سے کام لینا پڑتا ہے کہیں خدمت خلق کے جذبے کی احتیاج ہے، تو کہیں دوسروں کا حق دلانے کے لئے مضبوط دل کی ضرورت۔ ان سب اوصاف میں سے سر فہرست وسعت صدرہے۔ رسول اللہؐ کو بھی اس نعمت کی عطا کی یاد دہانی کروائی گئی کہ ’’کیا ہم نے آپ کو شرح صدر سے نہیں نوازا‘‘ گویا امت پر سرداری کے لئے آپ کو یہ نعمت عطا کی گئی۔اس لئے جو شخص نمایاں ہونا چاہتا ہے اس کا ذریعہ فراخی دل اور وسعت قلبی ہے۔بلند حوصلے سے اپنوں کی طرف سے رنج سہتے ہوئے ان کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنا چاہیے اور دوسروں کی دشمنی کا مقابلہ کرنے کے لیے شجاعت کی ضرورت ہوتی ہے۔

260۔ بدکار کی سزا

اُزْجُرِ الْمُسِيْ‏ءَ بِثَوَابِ الْمُحْسِنِ۔ (حکمت 177)
بدکار کو سزا دو نیکوکارکو اچھا بدلا دے کر۔

انسان کو برائی سے روکنے کے لئے بہت سے ذرائع ہوتے ہیں۔ کبھی اسے جرم کی بدنی سزا، کبھی سہولیات سے محرومی، کبھی زندان، کبھی خاندان سے علیحدگی وغیرہ۔امیرالمومنینؑ نے یہاں خطاؤں سے روکنے کا ان سزاؤں کے علاوہ ایک طریقہ بیان فرمایا: ہر انسان خواہ نیک و صالح ہو یا بد و خطا کار، وہ مدح و توصیف اور عزت و احترام چاہتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں اگر نیکو کار کی قدردانی کی جائے، اسے سراہا جائے، انعام و اکرام سے نوازا جائے تو ایک طرف تو نیکیوں اور اچھائیوں کی ترویج ہوگی اور فرد صالح کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ساتھ ہی اس خطا کار کی اندر کی انسانیت کو جگانے اور نیکیوں کے ذریعے قابل داد بننے کی ترغیب ہوگی اور اچھائیوں کا شعور بڑھے گا۔آج محنتی طلاب کو کامیابی پر انعامات و اسناد سے نوازا جاتا ہے تو سست طالب علم بھی محنت کی اہمیت اور فوائد سے آشنا ہوتے ہیں۔ امیرالمومنینؑ کے اس فرمان کے مطابق تربیت کے آداب میں سے ایک اہم ادب یہ ہے کہ جو لوگ فرائض کی انجام دہی میں مشغول ہیں، ان کی تشویق کی جائے تو یہ طریقہ سست و لاپرواہ افراد کے لیے تنقید و سرزنش سے زیادہ مؤثر ہے۔

261۔ کینہ سے دوری

اُحْصُدِ الشَّرَّ مِنْ صَدْرِ غَيْرِكَ بِقَلْعِهٖ مِنْ صَدْرِكَ۔ (حکمت 178)
دوسرے کے دل سے کینہ و شر کو کاٹنے کے لیے پہلے اسے اپنے دل سے نکال پھینکو۔

با کمال انسان وہی ہوتا ہے جو محبتیں بانٹتا ہے اور محبتیں خریدتا ہے۔ اگر کسی کے سینے میں آپ کے بارے میں بغض و عناد اور کینہ و شر جڑیں پکڑ چکا ہے، تو کمال و بزرگی یہ ہے کہ وہاں سے ان کانٹوں کو کاٹ پھینکیں اور محبت کے خوشبو داررنگا رنگ پھول کاشت کریں۔ البتہ محبت کسی کے دل میں زور زبردستی سے نہیں ڈالی جا سکتی اور نہ ہی بغض و کینہ کو کسی کے دل سے طاقت کے ذریعے نکالا جا سکتا۔ پہلے تو یہ ہنر پیدا کریں کہ محسوس کر سکیں کہ کسی کے دل میں آپ کے بارے ناراضی و نفرت تو نہیں، اگر ہے تو اس کا سبب تلاش کریں اور سبب معلوم ہو گیا تو اسے دور کریں۔
امیرالمومنینؑ نے علم نفسیات کا ایک اہم اصول بیان فرمایا ہے کہ اگر آپ محسوس کریں کہ کسی کے دل میں آپ کے بارے نفرت ہے تو اسے وہاں سے نکالنے کے لیے اپنے دل سے اسے نکال دیں اور اپنے دل میں اس کے لئے محبت سجا لیں۔ اب دل میں جو کچھ ہوگا زبان و عمل میں اسی کا اظہار ہوگا۔ آپ کے دل میں اگر دوسرے کے لیےمحبت ہے تو اس محبت کو چہرے کے تاثرات، زبان کے کلمات اور اپنے عمل و حرکات سے ظاہر کریں۔اگر اس انداز سے آپ کے دل کی حقیقت کا اظہار ہوگا تو ایک نہ ایک دن دوسرے کے دل سے بھی آپ سے متعلق کینہ نکل جائے گا۔ کسی سے دل میں محبت ہوگی تو اس کے سامنے تکبر یا بڑائی نہیں ہوگی، بد گمانی نہیں ہوگی۔ یوں دل جڑتے رہیں گے اور دلوں کا جڑنا بہت بڑی نعمت ہے۔ قرآن کے مطابق رسول اللہؐ کے ذریعے دل جڑتے رہے اور ایک دوسرے سے الفت پیدا ہوتی رہی۔

262۔ ضد

اَللَّجَاجَةُ تَسُلُّ الرَّاْيَ۔ (حکمت 179)
ضد انسان کو صحیح فکر اور رائے سے روک دیتی ہے۔

انسانی زندگی کی کامیابی کے رازوں میں سے ایک اہم راز غور و فکر اور سوچ بچار ہے۔ جو چیز بھی سوچ بچار میں رکاوٹ بنتی ہے گویا زندگی کی کامیابی میں رکاوٹ ہے۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں ضد اور ہٹ دھرمی کو صحیح فکر سے دور چلے جانے کا سبب قرار دیا ہے۔ ہٹ دھرم آدمی خود کو سب سے زیادہ سمجھدار اور اپنی رائے کو سب سے اہم سمجھتا ہے اور جہالت و نادانی اسے اجازت نہیں دیتی کہ وہ اس کے منفی و مثبت پہلوؤں پر غور کر کے کوئی صحیح نتیجہ نکالے۔ وہ بغیر دلیل کے اپنی ذات یا قوم و قبیلہ اور عزیز و اقارب کی طرف داری پر اڑ جائے گا۔کسی ایک بات پر اڑ جانے والا آدمی نہ خود سوچتا ہے اور نہ دوسروں کی سوچ اور مشورے سے استفادہ کرتا ہے۔ ضد اسے اندھا و بہرہ کر دیتی ہے۔ نقل کرتے ہیں کہ حضرت خضرؑو موسیؑ جب سیکھنے اور سکھانے کے لمبے سفر ( کہ جس کا ذکر قرآن میں تفصیل سے پایا جاتا ہے) کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہونے لگے تو حضرت موسیؑ نے درخواست کی کہ مجھے نصیحت کریں۔ ایک نصیحت یہ تھی کہ غلطی پر اصرار و ضد سے بچو۔ بعض حکیم کہتے ہیں انسان اگر کامیابی چاہتا ہے تو چار چیزوں سے دور رہے جلدبازی، سستی، ضد، بڑائی۔

263۔ لالچ

اَلطَّمَعُ رِقٌّ مُؤَبَّدٌ۔ (حکمت 180)
لالچ ہمیشہ کی غلامی ہے۔

انسان کی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ انسانیت ہے۔ جو چیز مقام انسانیت کو محفوظ رکھنے اور اسے بلند کرنے میں مدد کرتی ہے وہ انسانیت کے کمال کا ذریعہ کہلاتی ہے مثلا انسانیت کی خدمت، خدمت کرنے والے کے مقام کو بڑھاتی ہے۔ اسی طرح کچھ ایسی گھٹیا حرکات ہوتی ہیں جو انسان کو درجہ انسانیت سے گراتی ہیں ان میں سے ایک طمع و حرص ہے۔ گھٹیا اور کم ہمت لوگ اپنی ذات و قوت پر بھروسا کرنے کے بجائے اپنی ضروریات کے حصول کے لئے دوسروں کے ہاتھوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ یہ گھٹیا حرکت بہت سی برائیوں کی جڑ ہے۔ دوسروں سے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے ان کے سامنے جھکنا، خوشامد کرنا، ذلت و توہین برداشت کرنا، اور جو وہ چاہتے ہیں اسے انجام دیناہے،ان کی خاطر جھوٹ بولنا، خیانت کرنا اور اگر وہ ظلم کرتے ہیں تو ظلم کرنے میں ان کا مددگار بن جانا اس پستی کی علامت ہے۔ یوں جس سے لالچ ہوتا ہے انسان اس کا بغیر زنجیر کے غلام بن جاتا ہے اس کی خواہش اس کے گلے کا طوق بن چکی ہوتی ہے اور جب یہ لالچ عادت بن جائے تو پھر ہمیشہ ساتھ رہتا ہے۔ امیرالمومنینؑ یہی فرما رہے ہیں ’’لالچ ہمیشہ کے لیے غلامی کا طوق پہنا دیتا ہے‘‘اس کا علاج یہ بیان کیا گیا کہ جو لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اس سے امید قطع کر دو اور جو آپ کے ہاتھوں میں طاقت ہے اس سے کماؤ اور جو مل جائے اس پر قانع ہو جاؤ۔ آپ اس طوقِ طمع کی برائی سے آگاہ کر کے اس سے نجات کی ترغیب دے رہے ہیں۔

264۔ دور اندیشی

ثَمَرَةُ التَّفْرِيْطِ النَّدَامَةُ وَ ثَمَرَةُ الْحَزْمِ السَّلَامَةُ۔ (حکمت 181)
کوتاہی کا نتیجہ شرمندگی اور احتیاط و دور اندیشی کا نتیجہ سلامتی ہے۔

انسانی زندگی میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ چھوٹی سی کوتاہی بڑے نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔ انسان کسی کام کو چھوٹا سمجھ کر ترک کر دیتا ہے یا کسی کام کو جسے نہیں کرنا چاہیے چھوٹا سا سمجھ کر انجام دے بیٹھتا ہے اور پھر بعض اوقات ساری زندگی شرمندگی رہتی ہے۔ اس لئے امامؑ فرماتے ہیں کوئی کام خواہ آپ کی نگاہ میں چھوٹا ہی ہو اس میں غور و فکر کر لیں۔ اس کے انجام کے بارے سوچیں، اس کے فوائد و نقصانات کو مد نظر رکھیں اور اس انجام کے لئے اہل تجربہ سے مشورہ کر لیں۔ اگر ان مراحل کو طے کر کے آگے بڑھیں گے تو نتیجے میں مثبت اثرات اور بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔ کسی حاکم سے پوچھا گیا آپ کی حکومت کیسے ختم ہوئی؟ کہا: آج کا کام کل پر چھوڑنے کی وجہ سے اور کئی بار نوبت بڑی بڑی جنگوں پر پہنچ گئی اور کبھی ایک چھوٹا سا جملہ کہہ دیا جو نہ کہا جاتا تو جنگ نہ ہوتی۔ اس لئے کچھ کہتے ہوئے احتیاط کی جائے انسان کو زندگی میں سلامتی نصیب ہوگی اور بہت سی پریشانیوں سے انسان محفوظ رہے گا۔

265۔ خاموشی

لَاخَيْرَ فِى الصَّمْتِ عَنِ الْحُكْمِ كَمَا اَنَّهٗ لَا خَيْرَ فِى الْقَوْلِ بِالْجَهْلِ۔ (حکمت 182)
حکیمانہ بات سے خاموشی اختیار کرنے میں کوئی بھلائی نہیں جس طرح جہالت کی بات میں کوئی اچھائی نہیں۔

انسان کو دی گئی نعمات میں سے ایک نعمت کا نام زبان ہے اور زبان سے جاری ہونے والے کلام سے انسان حیوانوں سے الگ ہوتا ہے۔ اللہ نے بھی خلقت انسانی کے بعد سب سے پہلے بیان کی نعمت کا تذکرہ کیا۔ امیرالمومنینؑ اور دیگر حکماء نے اکثر مقامات پر انسان کی خاموشی و سکوت کی تعریف کی مگر آپ نے یہاں خاموشی کی مخالفت کی اور فرمایا کہ بعض مقامات پر بعض افراد کے لئے چپ رہنا اچھائی نہیں جیسا کہ کچھ افراد کےلیے بعض مقامات پر بولنے میں اچھائی نہیں۔
فرق یہ ہے کہ جب بات میں حکمت و دانائی پائی جائے، وہ کسی کی زندگی کو سنوارنے کا ذریعہ بنے، کسی کے علم میں اضافے کا سبب، کسی کے دکھ کے درد کا مداوا، کسی کے حق کے ثبوت کے لئے سچی گواہی ہو، کسی کو مخلصانہ نصیحت و ہدایت ہو، کسی کو عقلمندانہ مشورہ ہو تو، ایسے مقامات پر خاموشی میں بھلائی نہیں وہاں بولنا لازم ہے اور اگر انسان ایسے مقام پر نہیں بولے گا تو بعض مقامات پر گناہ گار شمار ہوگا۔ اسی طرح اگر باتیں جہالت پر مبنی ہوں، یا کسی کی زندگی میں خلل کا سبب ہوں، جھوٹ، غیبت، تہمت، اہانت، جھوٹی گواہی، بے مقصد و بے ہودہ گفتگوہو تو ایسے مقامات پر چپ بہتر ہے۔ ایسے مقام پر کوئی کلام کرے گا تو بعض کلام گناہ کے حساب میں شمار ہوں گے۔ یعنی بولنا یا چپ رہنا وقت اورمحل کے اعتبار سےاچھائی یا برائی قرار پائے گا۔
البتہ جہاں حکمت ہو، بات کہنا فضیلت ہوگا، تو وہاں ان حکمت آمیز کلمات کو سننا بھی فضیلت ہوگا۔ انسان اگر صاحب فضیلت بننا چاہتا ہے تو اسے امیرالمومنینؑ کے حکمت بھرےاقوال کو سننا چاہئیں۔ انہیں جان کر اور ان پر عمل کرنے سے یقینا زندگی سنورے گی اور کامیابی نصیب ہوگی۔

266۔ بخل

هَذٰا مَا بَخِلَ بِهِ الْبَاخِلُونَ۔ (حکمت 195)
یہ وہ ہے جس کے ساتھ بخل کرنے والوں نے بخل کیا تھا۔

انسان زندگی بھر دنیا کی چیزوں کو اکٹھا کرتا ہے۔ کبھی تو جائز و نا جائز اور حق و نا حق کو بھی مدنظر نہیں رکھتا اور پھر اسے اتنا سنبھال کر رکھتا ہے کہ بخل شمار ہونے لگتا ہے۔ اس ساری جمع پونچی کا اختتام کیا ہے، اسے امیرالمومنینؑ نےاس فرمان میں بیان فرمایاہے۔ اس میں بخل کرنے کی مذمت فرمائی ہے اور اس مال منال کی حقیقت سے آگاہ فرمایا ہے۔ یہ بات آپؑ نے کوڑے کے ڈھیر سے گزرتے ہوئے کی یعنی ساتھیوں کو اس دنیا کی حقیقت بتائی اور دکھائی بھی۔ قیمتی کھانے، اعلیٰ لباس، خوبصورت برتن، عالیشان فرنیچر، سب ٹوٹے ہوئے سامنے ہیں۔ یہاں اگر حقیقت واضح نہ ہو تو امامؑ کبھی ماضی میں ان اشیاء کے جمع کرنے والوں کی حالت دکھانے کے لیے قبرستان لے جاتے ہیں اور ان مالکان کی حقیقت واضح کرتے ہیں اور کبھی ٹوٹے ہوئے محلات جو اس وقت کھنڈرات میں بدل چکے ہیں ان کو دکھاتے ہیں۔ اس فرمان میں امامؑ نے خصوصیت سے فرمایا: یہ سب کچھ وہ ہے جس میں بخل کرتے تھے گویا بخل کے بجائے سخاوت، سے کام لیا جائے خود کھانے اور خود سے مخصوص رکھنے کے بجائےدوسرے انسانوں کی بہتری و سہولت کے لیے استعمال کیا جائے تو سامان ختم بھی جائے گا تو دوسرے انسانوں کے دلوں میں اس تحفے کی یاد اور اس مہربانی کا احساس باقی رہے گا۔
گویا انسان کی کامیابی یہ نہیں کہ اپنے لیے بہت کچھ سمیٹ کے رکھے بلکہ کامیابی یہ ہے کہ سخاوت مندانہ انداز سے دوسروں کی خوشیوں کا ذریعہ بنائے، تو مال و منال دنیا ختم بھی ہو جائے گا تو اسے خرچ کرنے والے کی محبت بھری یاد باقی رہے گی اور انسان کے دل میں انسان کی محبت ہی رہ جانے والا سرمایہ ہے۔ بعض جگہوں پر یوں لکھا ہے کہ آپ نے اس جملے کو یوں بیان فرمایا: ’’یہ وہ ہے جس پر تم کل ایک دوسرے پر رشک کرتے تھے‘‘۔

267۔ عبرت

لَمْ يَذْهَبْ مِنْ مَالِكَ مَا وَعَظَكَ۔ (حکمت 196)
تمہارا وہ مال ضائع نہیں ہوا جو تمہارے لیے عبرت و نصیحت کا باعث بن جائے۔

انسان مالی نقصان پر غمگین و پریشان ہوتا ہے۔ امام ؑاس غم پر تسلی دے رہے ہیں اور اس سے بھی قیمتی سرمائے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ فوائد و نقصانات زندگی کا حصہ ہیں اگر کسی حادثے یا کسی کی زیادتی یا اپنی کوتاہی سے مال ضائع ہو جاتا ہے تو اسے زندگی کا روگ نہیں بنا لینا چاہیے بلکہ اسے سبق سیکھنے اور تجربے کے حصول کا سبب سمجھنا چاہیے۔کامیاب لوگ دوسروں کے نقصانات سے بھی سبق سیکھ لیتے ہیں اور جب اپنا کوئی نقصان ہو تو اس سے تو اور بہتر انداز میں درس لیتے ہیں۔ اس فرمان سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ مال ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں بلکہ آنے جانے والی چیز ہے اور نقصان کے ذریعے یا کہیں اچھی جگہ پر مال خرچ کرنے سے چلا جائے تو وہ گیا نہیں بلکہ اس سے کچھ حاصل ہوا۔بعض اوقات مال کسی کو دوست سمجھ کر دیا جاتا ہے اور وہ قابض ہو جاتا ہے یا غائب ہو جاتا ہے تو یہ مال سکھا گیا کہ ہر ملنے والا قابل اعتماد نہیں ہوتا۔ اگر مال نہ جاتا تو ممکن ہے اس شخص سے کوئی بڑا نقصان ہوتا۔بعض اوقات مال خرچ کرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ کم پڑ گیاہے تو حقیقت میں کم نہیں ہوا انسانیت کی خدمت کی وجہ سے اسے بقا مل گئی ہے۔ کسی حکیم سے دولت چھن گئی اور غنی سے فقیر ہو گیا۔ کسی نے کہا: آپ کے مال کا کیا ہوا؟ کہا: میں نے تجارت کی ہے، مال دیاہے اور تجربہ خریدا ہے، لوگوں کی پہچان ہو گئی ہے،دنیا کی بے وفائی کا یقین ہو گیاہے۔ اگر یہ سارے امور سامنے ہوں تو مال جانے پر غم نہیں ہوگا بلکہ جو تجربات حاصل ہوئے ہیں انھیں سامنے رکھتے ہوئے زیادہ مال حاصل ہوگا۔

268۔ نیکی سے بد دلی

لَا یُزَهِّدَنَّکَ فِی الْمَعْرُوْفِ مَنْ لَا یَشْکُرُهٗ لَکَ۔ (حکمت 204)
کسی شخص کا تمھارے حسنِ سلوک پر شکر گزار نہ ہونا تمہیں نیکی اور بھلائی سے بد دل نہ کر دے۔

انسان کسی پر احسان کرتا ہے تو اسے تین قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ کچھ ایسے محسن شناس ہوتے ہیں کہ احسان کرنے والے کو ساری زندگی یاد رکھتے ہیں۔ کچھ احسان فراموش ہوتے ہیں جو لے کر شکریہ ادا کرنا بھی بھول جاتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو احسان کو احسان سمجھنے کے بجائے اسے اپنا حق سمجھتے ہیں۔ دوسری اور تیسری قسم کے لوگوں کا رویہ بعض اوقات احسان اور بھلائی کرنے والے کے جذبوں کو کمزور کر دیتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے ان احسان کرنے والوں کے جذبات کو زندہ رکھنے اور اچھائی سے بد دل نہ ہونے کے لیے فرمایا کہ اگر یہ شکریہ ادا نہیں کرتے تو آپ کے حسنِ عمل کو دیکھ کر کچھ لوگ آپ کی اس سے بڑھ کر حوصلہ افزائی اور شکر گزاری کریں گے جس کی آپ کو ان سے توقع تھی۔ اس لیے آپ نے یہاں تاکید فرمائی کہ آپ اپنا کام جاری رکھیں، ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کرتے رہیں، کسی سے اچھائی یا شکر گزاری کی توقع نہ رکھیں۔ آپؑ نے کلام کے آخر میں ایک آیت تلاوت کی کہ کوئی شکریہ ادا کرے یا نہ کرے ’’ احسان کرنے والے کو اللہ تعالیٰ دوست و محبوب رکھتا ہے‘‘یعنی جس نے آپ کو دینے کی توفیق دی اس کی محبت میں آپ دیتے جائیں تو اس وجہ سے وہ آپ سے محبت رکھتا ہے۔
کبھی ایسے افراد بھی پیدا ہو جاتے ہیں جو احسان فراموشی سے بھی بڑھ کر محسن کشی پر اتر آتے ہیں۔ استاد نے شاگرد کو محنت سے پڑھااور وہ یا استاد ہی کے مقابلے میں آ گیایا ہنر سکھایا اور وہ سیکھ کر اس ہنر کو سکھانے والے کے خلاف ہی استعمال کرنے لگا مگر امامؑ کی تعلیم یہی ہے کہ اسے اپنا کام کرنےدیں آپ اپنا کام جاری رکھیں اس لیے کہ کوئی شکر ادا کرنے والا نہ ہوا تو آپ کو اس نیک عمل پر اللہ تعالیٰ کی محبت ضرور ملے گی۔

269۔ محاسبہ

مَنْ حَاسَبَ نَفْسَهٗ رَبِحَ وَ مَنْ غَفَلَ عَنْهَا خَسِرَ۔ (حکمت 208)
جو شخص اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے وہ فائدہ اٹھاتا ہے اور جو غفلت کرتا ہے وہ نقصان میں رہتا ہے۔

انسان مادی زندگی میں حساب رکھنے کے فوائد سے آگاہ ہے اور تاجر اس کے عادی ہوتے ہیں۔ چھوٹا سا دکان دار بھی ہوگا تو شام کو اپنے مخصوص طریقے سے دن کے کاروبار کا حساب کرے گا۔ ہر روز حساب کے جدید سے جدید ذرائع ایجاد ہوتے جا رہے ہیں اور حساب کرنے والے ماہرین کی ضرورت و اہمیت واضح ہو رہی ہے۔حساب کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کو مالیات میں فائدے اور نقصان کا علم ہوتا ہے اور نقصان کی صورت میں اس سے بچنے کی راہیں سوچتا ہے اور اس کے لئے ماہرین سے مشورہ کرتا ہے۔ فائدے کی صورت میں اسے بڑھانے کے لئے مزید قدم اٹھاتا ہے۔ جتنی کوئی چیز قیمتی ہوتی ہے اتنا ہی اس کا حساب دقیق اور مفید ہوتا ہے اور اس کے ذرائع بھی اہم ہوتے ہیں۔انسان کے لیے قیمتی ترین چیزوں میں سے اس کی اپنی زندگی اور اپنی ذات ہے۔ اگر ذات کو نقصان سے بچانا ہے تو اس کا محاسبہ ضروری ہے اور محاسبے سے پہلے یہ جاننا لازمی ہے کہ اس میں فائدہ کیا ہے اور نقصان کیا ہے۔ ذات کو نقصان پہنچانے والی چیزوں میں سے سب سے بڑی چیز غفلت ہے جس کا امیرالمومنینؑ نے بھی یہاں ذکر کیا یعنی جو جی چاہے کرے ،اس کی جو خواہشیں ہوں انھیں انجام دے تویہ غفلت و بے حسابی ہے۔انسان کو چاہیے دکاندار کی طرح ہر شام دیکھے مجھ سے کسی کی زندگی کو نقصان تو نہیں ہوا، کسی کا دل تو نہیں دکھا، کسی کو مجھ سے مایوسی تو نہیں ہوئی، زندگی اور نعمات دینے والےکے حکم کی مخالفت تو نہیں ہوئی، اب اگر کہیں یہ امور سرزد ہوئے ہیں توانسانیت کے لئے نقصان دہ ہیں لہٰذا اس کے مداوا کی کوشش کرے۔ جن کا دل دکھایا ان سے معذرت کرے، خالق کی مخالفت کی ہے تو اس کے حضورتوبہ کرے۔ کامیاب شخص وہی ہے جو نفس کو بے لگام نہیں چھوڑتا، اس کی سرکشی پر اسے سرزنش کرتا ہے اور اس کی خواہشوں او ررغبتوں کا حساب رکھتا ہے اور اسے من مانی نہیں کرنے دیتا۔ جوشخص ان چیزوں سے غافل رہا وہ نقصان اور گھاٹے میں رہا۔

270۔ عزت کی محافظ

اَلْجُوْدُ حَارِسُ الْاَعْرَاضِ۔ (حکمت 211)
سخاوت عزت و آبرو کی محافظ و پاسبان ہے۔

علم نفسیات و اخلاق کے ماہرین نے سخاوت کی طاقت جیسے عناوین سے کتابیں تحریر کی ہیں جسے امیرالمومنینؑ نے تین لفظی جملے میں بیان کر دیاہے۔ سخاوت کی فضیلت میں اتنا ہی کافی ہے کہ یہ اللہ کی سنتوں اور طریقوں میں سے ایک ہے۔ کبھی آپ کسی سے سخی کی مذمت نہیں سنیں گے جبکہ بخیل کی کوئی تعریف نہیں کرتا۔ جو شخص مال سے لوگوں پر احسان کرتا ہے، لوگوں کے دلوں میں اس کے لئے محبت پیدا ہوتی ہے اور لوگوں کی زبانیں اس کی تعریف میں کھلتی ہیں اور دلوں میں اس کی محبت بڑھتی ہے اور اس مال سے بہتر کون سا مال ہوگا جو انسان کی عزت بڑھائے اور حفاظت کرے۔ عزت کا معیار مال نہیں ہوتا ورنہ ممکن ہے بخیل کے پاس مال زیادہ ہو مگر وہ مال اس کی عزت کا سبب نہیں ہوتا۔ عزت کا معیار مال کا خرچ کرنا ہے۔ تھوڑا بھی ہو تو دوسروں کے لئے خرچ کرنا مفید ہے۔امیرالمومنینؑ نے اس فرمان میں علم اجتماع کےکئی اصول بیان کئے ہیں جن میں سے کچھ کی وضاحت یہاں کی جا رہی ہے۔ ان میں سے ہر ایک دنیوی و اخروی زندگی کی کامیابی اور انسانی معاشرے کی بہتری کا ذریعہ ہے۔ کسی حکیم نے خوب کہاہے کہ میں کسی سوالی کو خالی نہیں لوٹاتا ۔اگر وہ عزت دار ہے تو میں نے اس کی عزت بچالی اور اگر وہ پست فطرت ہے تو میں نے اپنی عزت بچالی۔

271۔ حلم

وَ الْحِلْمُ فِدَامُ السَّفِيْهِ۔ (حکمت 211)
حلم و بردباری احمق کے منہ کا تسمہ ہے۔

انسان کو منزل کمال تک پہنچانے والے اوصاف میں سے ایک حلم ہے۔ حلم: یعنی مخالف کی نا زیبا حرکتوں یا باتوں کو برداشت کرنا۔ اللہ سبحانہ نے خود کو حلیم کہا ہے اور حضرت ابراہیمؑ کےبارے میں کہا کہ وہ حلیم تھے۔ امیرالمومنینؑ نے اس فرمان میں حلم کو تسمہ کہہ کر جہاں کلام کی فصاحت و بلاغت کا عظیم نمونہ پیش کیا وہیں حلم کی مختصر الفاظ میں بہترین تعریف بیان فرما ئی۔چوپاؤں کو کاٹنے سے روکنے یا ان کو فصل میں منہ مارنے سے منع کرنے کے لئے یا چوپاؤں کے بچوں کو بے وقت ماں کا دودھ پینے سے روکنے کے لیے ان کے منہ پر ایک جالی سی چڑھا دی جاتی ہے جو انہیں ان کاموں سے روکتی ہے۔ اسے چھنکا یا دہاں بند کہا جاتا ہے۔ کسی احمق کے احمقانہ قول یا فعل سے بچنے کے چھینکے کا نام حلم ہے جس کے ذریعے اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کے ضرر و نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید نے بھی فرمایا کہ اگر کسی جاہل کے پاس سے گزرو تو اس سے باتوں میں الجھنے کے بجائے اسے سلام کہہ کر گزر جاؤ، وہ کیا کہتا ہے اس کا جواب دینے کے بجائے اپنے مقام کو مد نظر رکھتے ہوئے مختصر الفاظ میں جس سے آپ کی عزت بھی بچے، جواب دے کر گزر جاؤ ورنہ بعض اوقات احمق و جاہل کے مقابلے میں ایک جملہ کہہ دیا جائے تو وہ دس نا معقول باتیں کرے گا۔ اگر انسان ان کا جواب دینا شروع کرے گا تو ان جیساسمجھا جائےگا۔ کسی حکیم نے بہترین لفظ کہے کہ احمق کا مقابلہ کرنا اور جواب دینا آگ پر ایندھن ڈالنا ہے۔ اس لیے کامیاب لوگ برداشت و بردباری سے کام لیتے ہیں اور زندگی کے سفر میں احمقوں کے ساتھ الجھ کر وقت ضائع نہیں کرتے۔

272۔ درگزر

وَ الْعَفْوُ زَكَاةُ الظَّفَرِ۔ (حکمت 211)
درگزر کرنا کامیابی کی زکاة ہے۔

انسان اگر خود کو با کمال بنانا چاہتا ہے تو اسے با کمال افراد کے اوصاف اپنانے چاہئیں اور اگر ان اوصاف کو مکمل طور نہ بھی اپنا سکے تو اپنی حد تک کوشش کرنی چاہیے۔ معاف کرنے کی صفت کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ خود کو بار بار اس صفت کے ساتھ پیش کرتاہے۔امیرالمومنینؑ نے مختلف مقامات پر مختلف الفاظ میں درگزر کی تعریف کی۔ یہاں اسے کامیابی کی زکاة قرار دیا ہے۔ زکات یعنی جو چیز انسان کو اپنی محنت یا قدرت کی طرف سے عطا ہوتی ہے، اس کا فائدہ دوسروں کو پہنچانا۔ کامیابی بھی ایک عطا ہے اور اس کا دوسروں کو فائدہ پہنچانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ دوسروں سے کوئی خطا ہو جائے تو اس سے درگزر کیا جائے اور دوبارہ موقع دیا جائے۔ زکات جس چیز سے دی جائے اس میں برکت و اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ کامیابی میں اگر مستحقِ سزا کو بخش دیا جائے تو کامیابی میں اضافہ ہوگا۔ آپ کے مخالف نے یا ماتحت نے کوئی خطا کی تو خود کو کامیابی کا مالک سمجھ کر اور دوسروں کو ضرورت مند مستحق سمجھ کر معاف کر دینا کمال ہے۔

273۔ غداری کا بدلا

وَالسُّلُوُّ عِوَضُكَ مِمَّنْ غَدَرَ۔ (حکمت 211)
جو غداری کرے اسے بھول جانا اس کا بدل ہے۔

انسان کی فطرت ہے کہ جب کچھ مدت کسی خاص جگہ یا خاص افراد کے ساتھ زندگی گزارتا ہے تو اس سے علیحدگی پر غمگین ہوتا ہے اور جن سے دوستی کا دعویدار ہوتا ہے ان سے جدائی کو برداشت نہیں کر سکتا۔ دوستی کے روپ میں متعدد افراد بے وفائی و غداری کر جاتے ہیں اور کچھلوگ اس غداری کو بھلا نہیں پاتے۔ امیرالمومنینؑ یہاں زندگی کا ایک اصول واضح فرما رہے ہیں کہ انس و محبت کی اپنی اہمیت ہے مگر جب کسی کی طرف سے دھوکہ، خیانت اور بدعہدی و بے وفائی ہو تو اسے سزا دینا ضروری ہے اور اس کی سزا یہ ہے کہ آپ اس سے بالکل الگ ہو جائیں اور یوں سمجھیں کہ وہ کبھی آپ کی زندگی میں تھا ہی نہیں۔ اس لیے کہ الگ نہیں کریں گے تو کل پھر دھوکا دے سکتا ہے اور اگر الگ کر دیں گے تو خود آپ بھی آئندہ محفوظ رہیں گے اور دوسرے بھی اس کی خیانت سے محفوظ رہیں گے۔ اور الگ کیا تو اس جدائی کو زندگی کا روگ نہ بنائیں بلکہ اسے ایک تجربہ سمجھ کر اس سے سیکھیں۔ البتہ کسی ایک کی خیانت و بے وفائی کی وجہ سے دوسرے لوگوں سے بدظن مت ہوں اور ان سے روابط کے لیے انہیں پرکھیں اور اس قرب کی ایک حد بھی رکھیں۔ اگر ان اصولوں پر عمل کیا جائے تو زندگی میں سکون مل سکتا ہے۔

274۔ مشورہ

اَلْاِسْتِشَارَةُ عَيْنُ الْهِدَايَةِ۔ (حکمت 211)
مشورہ لینا خود صحیح راہ پا لینا ہے۔

زندگی کی منزلوں کو طے کرنے کے لئے جن اقدام کو امیرالمومنینؑ اہم سمجھتے ہیں اور مختلف الفاظ میں اس کی طرف راہنمائی فرماتے ہیں ان میں سے ایک یہی مشورہ کی اہمیت ہے۔ حقیقت میں کسی مدد گار و راہنماکے لطف کا تقاضا یہی ہے کہ جیسے ماں باپ بچے کو چلنا سکھاتے ہیں اور بڑی مدت تک انگلی تھام کر چلاتے ہیں وہ بھی قوم کے افراد کے لیے ماں باپ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس فرمان میں امامؑ نے مشورے کو عین ہدایت قرار دیا جو مشورے کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔ گویا مشورہ ایسا عمل ہے جو حصول ہدایت کے مترادف ہے۔ انسان جب کسی سے مشورہ کرتا ہے تو اس سے پہلے اس کی اہمیت کا قائل ہوتا ہے پھر مشورہ طلب کرتا ہے تو پہلے دل میں محبت و قرب کا ایک جذبہ پیدا ہوتا ہے اور یوں کم از کم دو انسانوں میں ہمکاری کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے اور یہ جذبہ زندگی کو آسان کر دیتا ہے۔ امام نے یہ بھی واضح کیا کہ جو شخص خود کو سب کچھ سمجھتا ہے اور اپنی رائے پر اعتماد کرتے ہوئے دوسروں کی رائے اور مشورے سے خود کو بے نیاز سمجھتا ہے وہ گویا ہلاک ہو جاتا ہے۔

275۔ تجربہ کی حفاظت

مِنَ التَّوْفِيْقِ حِفْظُ التَّجْرِبَةِ۔ (حکمت 211)
تجربہ کی حفاظت اچھائیوں اور کامیابیوں میں سے ہے۔

انسانی زندگی اتنی مختصر اور محدود ہے کہ اگر انسان ہرتجربہ خود کرنے لگے تو زندگی انہی تجربوں میں گزر جائے ۔ اس لیے عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس مختصر عمر میں جو تجربات خود کرتا ہے ان سے فائدہ اٹھائے اور انھیں اپنی زندگی میں اپنائے مگر اصل کمال یہ ہے کہ گزشتگان کے تجربات کو محفوظ کرے اور ان سے اپنی زندگی میں استفادہ کرے۔ اس لیے حقیقی کامیابی یہی ہے کہ دوسروں کے تجربوں سے سیکھے۔ اس لئے بعض حکماء صاحبان تجربہ کو اہل جہاد اور محبوبان خدا شمار کرتے ہیں۔ جو اپنی زندگی اور دولت کا بڑا حصہ خرچ کر کے اور بار بار ایک چیز کا تجربہ کر کے کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں اور اپنا وہ تجربہ معاشرے کے حوالے کر جاتے ہیں۔ ان تجربوں کے نتائج سے انسانیت کی بہتری اور خدمت کی راہیں روشن کر جاتے ہیں۔اب وہ تجربہ کر کے انسانیت کے خدمت گزار بن گئے اور کامیاب قرار پائے ۔ایسے لوگ اپنی بقیہ زندگی میں ان تجربوں سے خود بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں یہی سعادت مند اور کامیاب لوگ ہیں۔ جو دوسروں کے تجربوں سے کچھ نہیں سیکھتا گویا عقل کو ضائع کر دیتا ہے۔ بعض مصنفین جنھوں نے کامیاب زندگی کے عنوان سے کتابیں لکھی ہیں کہتے ہیں کہ ہم نے ہزاروں لوگوں کے حالات زندگی پڑھے، ان کے تجربات کو جانا اور انہیں اپنی زندگی میں اپنایا۔
امیرالمومنینؑ اپنی ایک وصیت میں فرماتے ہیں: ’’اگرچہ میں نے اتنی عمر نہیں پائی جتنی اگلے لوگوں کے لیے ہوا کرتی تھی، پھر بھی میں نے ان کے اعمال کو دیکھا، ان کے حالات و واقعات میں غور کیا ان کے چھوڑے ہوئے نشانات میں چلا پھرا یہاں تک کہ گویا میں بھی ان میں سے ایک شمار ہونے لگا۔‘‘
ایک معنیٰ اس جملے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اچھائی اور کامیابی کے اسباب اور توفیقات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان گزشتگان کے تجربات سے استفادہ کر سکے۔

276۔ تنگ دل پر بھروسا

وَ لَا تَاْمَنَنَّ مَلُوْلًا۔ (حکمت 211)
تنگ دل و رنجیدہ شخص پر اعتماد نہ کرو۔

انسانی زندگی میں تلاطم و طوفان اور اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ جو ان مشکلات سے مقابلے کی ہمت رکھتا ہے وہی دوسروں کی مدد بھی کر سکتا ہے۔ وہ شخص جو خود چھوٹی سی تکلیف میں تنگ دل اور اداس ہو جاتا ہے اور آہ و بکا کرنے لگتا ہے وہ کسی دوسرے کی کیا مدد کرے گا۔ بہت سے افراد سب کچھ ہونے کے باوجود فطرتاً ہر وقت غمگین اور اداس رہتے ہیں، ہر چیز کے فقط منفی پہلو انہیں نظر آتے ہیں۔ ان کی زندگی میں کبھی خوشی و نشاط نہیں ہوتی۔ وہ سست مزاج ہوتے ہیں۔ ہر مشکل کام سے بھاگنے کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔ کوئی کام شروع کرتے ہیں، معمولی سی رکاوٹ کا سامنا ہوا تو ان میں استقامت و تسلسل نہیں رہتا اور کام چھوڑ دیتے ہیں۔ایسے لوگ کسی کی مدد کے قابل نہیں ہوتے اور نہ ہی ان سے مشورہ لینا صحیح ہے کیونکہ یہ دوسروں کو بھی محنت طلب کام سے ڈرائیں گے اور بھاگنے کی راہیں بتائیں گے۔ ایسے لوگ کم ہمت ہوتے ہیں جو ان پر اعتماد و اطمینان کرے گا اسے بھی کم ہمت بنادیتے ہیں۔ہر وقت ملول اور اداس رہنے والے افراد کسی کا سہارا نہیں بن سکتے بلکہ انہیں با کمال افراد کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے جو انہیں افسردگی اور اداسی سے نکالیں اور انہیں زندگی کے کسی عظیم مقصد کی راہ پر لگائیں۔ امیر المؤمنینؑان ملول و افسردہ افراد کی کمزوری کی طرف متوجہ کر کے کمال کی ایک راہ واضح فرما رہے ہیں کہ افسردگی کمال کی رکاوٹ ہے، اس سے دور رہیں اور یقین و اطمینان کہ دولت سے سرشار لوگوں کو نمونہ بنائیں اور ان پر اعتماد کریں ۔خود امامؑ آخری وقت زخم کھا کر بھی اتنے مطمئن ہیں کہ فرماتے ہیں ’’رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا‘‘۔

277۔ خود پسندی

عُجْبُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهٖ اَحَدُ حُسَّادِ عَقْلِهٖ۔ (حکمت 212)
انسان کی خود پسندی اس کے عقل کے حاسدوں میں سے ہے۔

انسان کو جو عادات بلندی سے پستی کی طرف گراتی ہیں ان میں سے ایک عادت خود کو بلند سمجھنا ہے۔ جسے خود پسندی و خود بینی کہا گیا ہے۔ امیرالمومنینؑ نے خود پسندی کی متعدد مقامات پر مذمت کی ہے اس فرمان میں امام نے خود پسندی کو عقل کا حاسد کہا ہے۔عقل انسان کو کمال کی راہیں دکھاتی اور انسانیت کی راہ کو روشن کرتی ہے۔ حاسد وہ ہے جو کسی کمال کو برداشت نہ کر سکے اور ان کمالات و عطا کی گئی نعمات کے زوال کی آرزو کرے۔ حاسد نعمت پانے والے کی مخالفت میں ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ معاشرے میں اسے بدنام کرتا ہے اور اس کے عیب ظاہر کرتا ہے۔ افواہوں کے ذریعے لوگوں کو اس سے دور کرتا ہے اور یہ دشمنی اس با کمال کے خاندان تک بڑھا دیتا ہے اور اگر اس کے بس میں ہو تو سب کمالات فورا اس سے چھین لے۔
امیرالمومنینؑ نےیہاں عُجب و خود پسندی کو عقل کا حاسد قرار دیا ہے یعنی وہی کام جو حاسد کسی با کمال کے لئے انجام دیتا ہے خود پسندی عقل کے لئے وہی کردار ادا کرتی ہے۔یعنی عقل کو اچھائیوں سے روک دیتی ہے اور اسے کمال تک پہنچانے والے افکار میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ خود پسندی عقل کی نورانیت کے لئے سیاہ بادل بن جاتی ہے اور عقل کی نورانیت سے روشن ہونے والی راہوں کو وحشت و خوف میں بدل دیتی ہے۔ خود پسندی حسد کی طرح بہت سی دوسری بیماریوں کی بنیاد بن جاتی ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑسے منقول ہےکہ فرمایا: میں نے اللہ کے اذن سے لا علاج مریضوں کو صحت یاب کیا حتی کہ مردوں کو بھی زندہ کیا مگر مجھ سے احمق کا علاج نہ ہو سکا۔ سوال ہوا کہ احمق کون ہے تو فرمایا : اس کی سب سے بڑی نشانی خود پسندی ہے، جو سب فضائل اپنے لئے مخصوص سمجھتا ہے اور تمام حقوق کا خود ہی کومستحق ٹھہراتا ہے اور دوسروں کے کسی حق کا قائل نہیں ہوتا، یہ ہے وہ احمق جس کے علاج کی میرے پاس کوئی راہ نہیں۔

278۔ تکلیف سےچشم پوشی

أَغْضِ عَلَى الْقَذٰى وَ اِلَّا لَمْ تَرْضَ اَبَدًا۔ (حکمت 213)
تکلیف سے چشم پوشی کرو ورنہ کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔

زندگی کی بڑی کامیابی مال و دولت اورجاہ و جلال نہیں بلکہ اطمینان و سکون ہے۔ کئی بار ساری جائیداد خرچ کر کے انسان سکون و اطمینان خریدنا چاہتا ہے اور میسر نہیں آتا۔ دنیا میں انسان کو ہر موڑ پر اس کی طبیعت کے خلاف اور اس کی خواہش کے بر عکس امور کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس پر اسے دکھ ہوتا ہے۔ زندگی انہی ناراحتیوں اور غموں سےگھری پڑی ہے۔ کوئی شخص مشکلوں سے محفوظ نہیں۔ بچے کی پیدائش پر ماں کی تکلیف کو تو قرآن نے بھی بیان کیاہے اور تکلیفوں کا یہ سلسلہ وہاں سے شروع ہوتا ہے۔ اگر انسان ہر دکھ پر بے تاب ہو جائے، آہ و بکا کرنے لگے تو یہ دنیا ماتم کدہ بن جائے۔ امیرالمومنینؑ نے زندگی میں آرام و سکون کے حصول کی ایک راہ بیان فرمائی ہے کہ دنیا کی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں سے چشم پوشی کرو، اگر بڑی مصیبتیں بھی آ جائیں تو صبر و تحمل سے سہ لو۔ جو نعمات عطا ہوئی ہیں ان پر راضی رہو۔ جو لے لیا گیا یا جو آپ سے روک لیا گیا اس کو بہت بڑا نہ سمجھو ورنہ جو ہے وہ بھول جائے گا اور جو نہیں ملا اس کی یاد ستاتی رہے گی اس طرح زندگی کا قیمتی سرمایہ یعنی اطمینان و سکون کبھی نہیں ملے گا۔

279۔ نرم مزاجی

مَنْ لَانَ عُوْدُهٗ كَثُفَتْ اَغْصَانُهٗ۔ (حکمت 214)
جس درخت کی لکڑی نرم ہو اس کی شاخیں گھنی ہوتی ہیں۔

اس فرما ن میں امام ؑنے انسانی زندگی کی خوبصورت اور حسین تصویر کشی فرمائی ہے۔ انسان کو درخت سے تشبیہ دی ہےاور فرمایا ہے کہ جس درخت کا تنا نرم ہو اس کی شاخیں زیادہ اور گھنی ہوتی ہیں۔ بہت سے لوگ اس کے سائے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انسان بھی اگر درخت کے تنے کی طرح نرم ہوگا، متواضع اور منکسر المزاج ہوگا، خوش اخلاق و شیریں کلام ہوگا اورلوگوں کے لئے سایہ مہیا کرے گا تو لوگ اس کے اردگرد شاخوں کی طرح موجود رہیں گے اور گزرنے والے لوگ بھی اس سے زیادہ استفادہ کریں گے۔
امیرالمومنینؑ اس تشبیہ سے نرم مزاجی کی ترغیب دلانا چاہتے ہیں اور یوں انسان کی اپنی زندگی کو کامیاب و مفید بنانے کے لیے راہنمائی فرماتے ہیں۔ جس کا اخلاق اچھا ہوگا اس کے چاہنے والے اور مددگار زیادہ ہوں گے اور وہ اپنے مقاصد کو ان معاونین کے ذریعے جلد حاصل کر سکے گا۔ اگر سخت مزاج و تند خو ہوگا تو قریبی بھی چھوڑ جائیں گے۔ رسول اللہؐ کی نرم مزاجی ہی کو قرآن نے آپ کے گرد لوگوں کے اجتماع کی وجہ بتایا ہے’’تمہیں تکلیف میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے وہ تمھاری بھلائی کا نہایت ہی خواہاں ہے‘‘۔) توبہ۱۲۸)

280۔ مردانگی

فِى تَقَلُّبِ الْاَحْوَالِ عِلْمُ جَوَاهِرِ الرِّجَالِ۔ (حکمت 217)
حالات کے پلٹوں ہی میں مردوں کے جوہر کھلتے ہیں۔

زندگی میں مختلف لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اور انسان کو زندگی میں ترقی کے لئے دوسروں کی ضرورت رہتی ہے۔ دوسرے لوگوں کے بارے میں جتنی پہچان ہوگی اسی اعتبار سے ان پر بھروسا کیا جائے گ۔ لوگوں کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ ہوا کرتا ہے. امیرالمومنینؑ نےیہاں حالات کے پلٹوں، زمانے کے انقلاب، زندگی کے اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز کو انسان کے باطن کی پہچان کا ترازو قرار دیاہے۔
گردش حالات جیسے تونگری و تنگدستی بیماری و تندرستی، مقام ومنصب انسان کے حقیقی عیب و ہنر کو ظاہر کرتے ہیں۔ کبھی کسی کو آپ کی ضروت اور کبھی آپ کو کسی کی ضرورت کے ذریعے ہی سے انسان کا مقام ظاہر ہوتا ہے۔ متعدد بار دیکھا گیاہے کہ لوگ ظاہری طور پر بڑے درد مند، پاک دامن، زاہد، بہادر اور محبت کرنے والے ہوتے ہیں مگرحالات بدلتے ہیں تو ان کا کردار بھی بدل جاتا ہے اور ظاہر کے بالکل الٹ سامنے آ تا ہے۔ غربت ہے تونرم مزاج، دولت آ گئی تو متکبر، کسی کے ماتحت ہے تو محبت کا طالب، کوئی اس کا ما تحت بن گیا تو یہ قسی القلب ہو گیا۔ لوگ سونے اور چاندی کی طرح ہیں گرم بھٹی میں ڈالیں گے تو حقیقت کا علم ہوگا کہ سونا ہے یا چاندی ۔
امیرالمومنینؑ نے یہاں پہچان کا ترازو بتایا تاکہ پہچان ہو تو ویسی ہی توقع و امید رکھی جائے اور یہ پہچان زندگی کے سفر کے لئے ضروری ہے مگر آپ نے ایک اور مقام پر واضح فرمایاہے کہ ہرکسی کا برتاؤ اس کے باطن کے مطابق ہوتا ہے۔ ہر کسی کو کوشش کرنی چاہیے کہ خوشنما ظاہر کے مطابق باطن کو بھی خوشنما بنانے کی کوشش کرے تاکہ ظاہر ہمیشہ ہی خوشنما رہے۔

281۔ دوستی کی خامی

حَسَدُ الصَّدِيْقِ مِنْ سُقْمِ الْمَوَدَّةِ۔ (حکمت 218)
دوست کا حسد کرنا محبت و دوستی کی خامی ہے۔

انسانی زندگی پرمثبت اور منفی اثر کرنے والی چیزوں میں سے ایک دوستی ہے۔ کامیاب زندگی کے لئے دوست بہت بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس لیے حقیقی دوست کی پہچان ضروری ہے۔ حقیقی دوست وہ ہے جو دوست کے لیے وہی چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے اور جسے اپنے لیے نہیں چاہتا اسے دوست کے لئے بھی نہ چاہے۔ حقیقی دوست وہ ہے جو دوست کو کمال تک پہنچانے کے لئے اپنا کندھا پیش کرے۔ حقیقی دوست وہ ہے جو کسی مجبوری کی وجہ سے خود ایک منزل تک نہیں پہنچ سکا تو دوست کو اس منزل کی راہیں بتائے،حقیقی دوست وہ ہے جسے دوست کو اپنی ضرورتیں بتانا نہ پڑیں وہ خود جانتا ہو۔ حقیقی دوست وہ ہے کہ اگر کسی بلند مقام تک پہنچ گیا تو دوست کا ہاتھ تھام کر اسے بھی وہاں پہنچائے۔ دوستی کے موضوع کو امیرالمومنینؑ نے بار بار بیان کیاہے مگر یہاں دوستی میں خلل ڈالنے اور اسے کمزور کرنے والی چیز حسد کا ذکر فرمایا۔ حسد یعنی جو دوسروں کے پاس ہے وہ اس سے چھن جائےخواہ حاسد کو ملے یا نہ ملے۔ حسد عام اخلاقی کمزوریوں میں سر فہرست ہے مگر دوستی کے لیے تو ایک خطرناک بیماری ہے جو دوستی کو کھا جاتی ہے۔ اس لئے کہ دوست کا مقام اپنی ذات کا سا ہے اور اپنی ذات سے نعمات کے چھن جانے کا کوئی خواہاں نہیں ہوتا۔ امیرالمومنینؑ حسد کے خطرات سے آگاہ فرما کر اس سے بچنے کی تاکید فرما رہے ہیں اور یوں دوستوں کی مدد سے انسان کو کامیاب زندگی کی راہیں بتا رہے ہیں۔

282۔ حرص کی بجلیاں

أَكْثَرُ مَصَارِعِ الْعُقُوْلِ تَحْتَ بُرُوْقِ الْمَطَامِعِ۔(حکمت 219)
اکثر عقلوں کا ٹھوکر کھاکر گرنا طمع و حرص کی بجلیاں چمکنے پر ہوتا ہے۔

انسان کو عقل کی نعمت سے نوازا گیا جو اسے کمال کی راہیں بتاتی ہے۔ عقل انسان کے لئے حق و باطل اور نیک و بد کی پہچان کا ذریعہ ہے۔ مگر یہی عقل بعض اوقات ٹھوکر کھا کر گر جاتی ہے۔ روشنی عطا کرنے والی عقل پر بھی اندھیرے کے پردے پڑ جاتے ہیں۔ عقل کی حقیقت شناس آنکھ چندھیا جاتی ہے اور کچھ دیکھ نہیں پاتی۔ امیرالمومنینؑ نے اس فرمان میں انہی پردوں اور ٹھوکر کھانےکے مقامات کی نشاندہی فرمائی ہے تاکہ انسان اس خطرے سے محفوظ رہ سکے۔ طمع اور لالچ یعنی اس چیز کی خواہش جو اپنی دسترس میں نہیں یا اس پر اپنا حق نہیں۔ امیرالمومنینؑ نے نہایت بلیغ الفاظ میں لالچ کو چمکتی ہوئی آسمانی بجلی سے تعبیر فرمایاہے۔ آسمانی بجلی ایک لحظہ کی لیے چمک کر ہر جگہ کو روشن کرتی ہے، عارضی طور پر کسی کے لئے راہ چلنے کا ذریعہ بھی بنتی ہے مگر ایک مختصر چمک کے بعد جہاں گرتی ہے وہاں آگ بن کر ہر شی کو راکھ میں بدل دیتی ہے۔ عقل پر بھی جب لالچ کی بجلی کی چمک پڑتی ہے تو اسے صحیح و غلط کی پہچان سے روک دیتی ہے اور وقتی طور پر اسے اس راہ پر لگا دیتی ہے جس کا انجام خود اس لالچی کے لیے بلکہ گاہے دوسرے افراد کے لیے بھی تباہی و بربادی کی صورت میں نکلتا ہے۔تخت کے حصول کے جھگڑے اور طاقت و قوت کے اظہار نے کتنی جنگیں کرائیں اور کتنے انسان مروائے، اس سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ جب یہ چمک ختم ہوتی ہے تو لالچ کرنے والا ہی خو د کو برا بھلا کہتا ہے اور اپنے آپ سے پوچھتا ہے کہ میں نے یہ کیا کیا، میں نےیہ کیوں کیا۔ امیرالمومنینؑ نے لالچ کے ذلت آمیز اور رسوائی خیز نتائج کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اس سے بچنے کی ترغیب دلائی ہے۔ لالچ کی مذمت میں آپ کے بہت سے فرامین نقل ہوئے ہیں۔ لالچ ایک ایسا جہنم ہے جس میں جتنا کچھ ڈالا جائے اس کی طلب ختم نہیں ہوتی۔

283۔ بد گمانی

لَيْسَ مِنَ الْعَدْلِ الْقَضَاءُ عَلَى الثِّقَةِ بِالظَّنِّ۔ (حکمت 220)
قابل اعتماد لوگوں کے بارے میں بد گمانی کی بنیاد پر فیصلہ کرنا انصاف نہیں۔

انسانی رابطوں اور اجتماعی زندگی میں ایک اہم اصول اعتماد ہے۔ آپ کسی پر اعتماد کریں گے اور کوئی آپ پر اعتماد کرے گا تو زندگی پُرسکون رہے گی۔ کسی شخص کی زندگی کا بڑا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ معاشرے میں قابل وثوق و اعتماد ہو اور لوگوں کی نگاہوں میں امین ہو۔ بہت سے لوگ اپنی زندگی کا بڑا حصہ خرچ کر کے اس اعتماد کو حاصل کرتے ہیں اور اسی کو اپنی زندگی کا سرمایہ سمجھتے ہیں۔ امیر المومنینؑ یہاں اسے ثقہ کہہ رہے ہیں اور ارشاد فرما رہے ہیں کہ ایسے قابل وثوق شخص کے بارے میں بد گُمانی کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہ کریں، ایسا فیصلہ ظلم اور نا انصافی ہے۔ کسی عام شخص پر بھی بد گمانی کرنا اچھا نہیں چہ جائیکہ جس کے اعتماد کو آپ خود جانچ چکے ہوں اور زمانہ بھی اس کا گواہ ہو۔ ایسے شخص سے بد گمانی اس کی دل شکنی کا باعث ہوتی ہے۔
بہت سے لوگ طبعاً بد گمان ہوتے ہیں اور اس بد گمانی کی وجہ سے کسی پر اعتماد نہیں کرتے اور اسی عادت کی وجہ سے لوگ بھی ان پر اعتماد نہیں کرتے۔ یہ روش سب کی زندگیوں کو مشکل بنا دیتی ہے اور سکون چھین لیتی ہے۔ ہر کسی کو چور کی نگاہ سے اور خائن کی نظر سے دیکھیں گے تو جینا دو بھر ہو جائے گا۔ البتہ کچھ لوگوں کا ماضی اچھا نہیں ہوتا اور ظاہر بھی قابل اعتماد نہیں ہوتا تو وہ امامؑ کے اس فرمان میں داخل نہیں ہیں مگر بغیر کسی دلیل و ثبوت کے ایسے افراد کو بھی متہم نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان سے محتاط اور خبردار رہنا چاہیے۔ امامؑ نے اس فرمان میں بد گمانی اور وہ بھی قابل وثوق افراد پر بدگمانی کی مذمت کی ہے اور یوں زندگی سے سکون چھیننے والے ایک خطرے سے آگاہ کر دیا ہے۔

284۔ بد ترین توشہ

بِئْسَ الزَّادُ اِلَى الْمَعَادِ الْعُدْوَانُ عَلَى الْعِبَادِ۔ (حکمت 221)
آخرت کے لئے بدترین توشہ و سامان بندوں پر ظلم و تعدی ہے۔

انسان سے زندگی میں جو خطائیں سرزد ہوتی ہیں ان میں سے بعض کا تعلق اس کی اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ ایسی خطاؤں کی بخشش کا تعلق خدا سے ہے اور اللہ نے توبہ پر انہیں معاف کرنے کا وعدہ کیاہے، مثلا ترک نماز۔ جبکہ بعض خطاؤں کا تعلق دوسرے انسانوں سے ہوتا ہے، جیسے کسی کا مال چوری کرنا، قتل وغیرہ۔ یہ حقوق الناس کہلاتے ہیں۔ انہیں اللہ بھی تب معاف کرتا ہے جب وہ بندہ جس سے ظلم و زیادتی ہو،وہ معاف کرے۔
امیرالمومنینؑ نے یہاں حقوق الناس یعنی انسان کے انسان سے تعلق کی اہمیت کو واضح کیاہے۔ اگر کسی شخص نے کسی بندے کا حق ضائع کیا تویہ ظلم ہے اور اس پر اللہ کو راضی کرنے سے پہلے، اس بندے کو راضی کرنا ہوگا۔ انسان کی اہمیت اور دوسرے انسان سے تعلق کے لئے یہ بہت فصیح فرمان ہے۔ اور اگر اس اہمیت کو مد نظر رکھا جائے تو ہر انسان دوسرے کی عزت و احترام کو ملحوظ رکھے، ہر ظلم و زیادتی سے پرہیز کرے ۔ یہاں یہ قید بھی نہیں کہ کسی نیک و پارسا بندے سے زیادتی نہ کی جائے بلکہ ہر انسان قابل احترام ہے۔ آپؑ نے فرمایا: آخرت کا بدترین توشہ ظلم و زیادتی ہے تو مقصد یہی ہوگا کہ اگر کوئی بہترین توشہ لے جانا چاہتا ہے تو وہ دوسرے انسانوں کی خدمت کرے۔ قرآن مجید نے کہاہے آخرت کے لئے بہترین زاد راہ تقوی ہے۔ امیرالمومنینؑ کے اس فرمان کو مد نظر رکھتے ہوئے تقوی کا بہترین مصداق خدمت خلق ہوگی۔

285۔ درگزر

مِنْ اَشْرَفِ اَعْمَالِ الْكَرِيْمِ غَفْلَتُهٗ عَمَّا يَعْلَمُ۔ (حکمت 222)
بلند انسان کے بہترین اعمال میں سے یہ ہے کہ وہ دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کرتا ہے۔

ہر کسی سے غلطی و خطا ہوتی ہے، کسی سے چھوٹی تو کسی سے بڑی۔ کسی سے ایک تو کسی سے متعدد۔ دوست سے، اولاد سے، عزیز و رشتہ دار سے سب سے غلطی ہوتی ہے۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں آداب زندگی میں سے ایک اہم نکتہ بیان فرمایا ہے اور بلند مرتبہ انسان کی نشانی یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ دوسروں کی غلطیوں کو دیکھتا اور جانتا ہے مگر ضرورت نہ ہو تو غلطی کرنے والے کو بھی احساس نہیں ہونے دیتا کہ اسے اس کا علم ہے۔ وہ خود غلطی کرنے والے کو محسوس نہیں ہونے دیتا چہ جائیکہ اس کی غلطی دوسروں کو بتائےجب کہ بدتر وہ ہے جو دوسروں کی غلطیاں تلاش کرتا رہتا ہے۔ بلند کردار افراد دوسروں کی غلطیوں پر پردہ ڈالتے ہیں اور یہ سنت الہی ہے کہ وہ ستار ہے اور اس کے اولیاء اسی روش کو اپناتے ہیں۔ ماں بچے سے پیار کرتی ہے، اس کی غلطیاں اس کے باپ سے بھی چھپاتی ہے۔ اسلام نے غیبت کو بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے یعنی کسی کی غلطیوں کو ایسے شخص کے سامنے بیان کرنا جو ا س کی ان غلطیوں کو نہیں جانتا۔
دوسروں کی غلطیوں پر پردہ ڈالیں گے تو آپ کی غلطیاں بھی پردے میں رہیں گی۔ کسی خطاکار کی عزت بچانے کے لیے اس کی کمزوری کو نظر انداز کریں گے تو معاشرے میں لوگوں کی عزتیں محفوظ رہیں گی اور معاشرہ پر سکون و خوشگوار رہے گا۔ خوشگوار اور پر سکون ماحول میں با کمال لوگ پرورش پاتے ہیں ۔

286۔ حیا کا پردہ

مَنْ كَسَاهُ الْحَيَاءُ ثَوْبَهٗ لَمْ يَرَ النَّاسُ عَيْبَهٗ۔ (حکمت 223)
جسے حیا نے اپنا لباس اوڑھا دیا لوگوں سے اس کے عیب پوشیدہ رہیں گے۔

انسان زندگی میں جس کام کو برا اور معیوب سمجھتا ہے اسے انجام نہیں دیتا یا دوسروں سے چھپا کر انجام دیتا ہے۔ یہ ذہنی کیفیت شرم و حیا کہلاتی ہے۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں حیا کوایک لباس سے تعبیر کیا ہےکہ جس میں یہ کیفیت پیدا ہوگی یا تو وہ اس حیا کی وجہ سے اس برائی کو ترک کرے گا۔ جب برائی و عیب ہی نہ ہوتو لوگ اس سے آگاہ بھی نہیں ہوتے اوراگر کوئی جرأت کر کے برائی پر آمادہ ہو تو لوگوں سے شرم و حیا کی وجہ سے اسےچھپا کر انجام دے گا اور انجام دینے کے بعد بھی اسے چھپائے گا یوں بھی اس کے عیب پوشیدہ رہیں گے۔اس لئے حیا کی اخلاقیات میں بہت تعریف کی گئی۔
جس طرح حیا کی وجہ سے معیوب کاموں سے بچا جاتا ہے اسی طرح حیا ہی کی خاطر بہت سے اچھے اعمال انجام دیے جاتے ہیں مثلا ایک آدمی ماں باپ کی خدمت کے لئے ویسے تو آمادہ نہیں ہوتا مگر لوگوں سے شرم و حیا کی وجہ سے ان کی عزت کرتا ہے۔ یوں حیا نے اس کا ایک عیب چھپا لیا۔ اگر حیا ختم ہو جائے تو انسان غلطیوں پر جری ہو جاتا ہے اور ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے کہ وہ کھلے عام گناہ کرنے لگتا ہے اور حیا کی وجہ سے معیوب کاموں سے رک جائے گا تو بھی عزت باقی رہے گی۔ اگر پوشیدہ رکھے گا تو آئندہ ایسے برے کاموں سے بچنے کی کوشش بھی کرے گا۔ یوں معاشرے میں ایک دوسرے کی عزت باقی رہے گی اور برائیوں میں بھی کمی واقع ہوگی۔

287۔ خاموشی

بِكَثْرَةِ الصَّمْتِ تَكُوْنُ الْهَيْبَةُ۔ (حکمت 224)
زیادہ خاموشی رعب و ہیبت کا باعث ہوتی ہے۔

انسان معاشرے میں اپنی عزت و وقار اور رعب و دبدبہ کو قائم کرنے کے لئے بہت سے امور انجام دیتا ہے۔ امیرالمومنینؑ نے ایک مختصر سے جملے میں اس ہیبت و رعب کے لئے ایک اصول بیان فرمایا ہے کہ زیادہ وقت چپ رہو گے تو رعب و دبدبہ رہے گا۔ خاموشی کی اہمیت کو آپ نے متعدد مقام پر مختلف الفاظ میں بیان فرمایاہے۔ عقل مند انسان بولنے سے پہلے سوچتا ہے اور پھر جہاں جتنی بات کی ضرورت ہوتی ہے اتنی ہی بات کرتا ہے۔ یوں خاموشی عقلمندی کی نشانی قرار دی جاتی ہے اور عقل مند صاحب عزت و وقار شمار ہوتا ہے۔ زبان کی تین بڑی خطائیں بیان کی گئی ہیں۔ جو انسان زیادہ خاموش رہے گا،زبان سے ہونے والی خطاؤں سے محفوظ رہے گا۔ جن لوگوں کو زیادہ بولنے کی عادت ہوتی ہے ایک تو ان کی زبان سے غلطیاں زیادہ سرزد ہوں گی اور دوسرا یہ کہ لوگ بھی ان سے تنگ ہوں گے، البتہ جہاں بولنا مفید ہے وہاں خاموشی قابل تعریف نہیں بلکہ قابل مذمت ہوگی۔

288۔ انصاف

بِالنَّصَفَةِ يَكْثُرُ الْمُوَاصِلُونَ۔ (حکمت 224)
انصاف سے دوستوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

انسان زندگی میں کوشش کرتا ہے کہ اس کے چاہنے والے اور محبت کرنے والے زیادہ ہوں۔ دوستوں اور ملنے ملانے والوں کا دائرہ وسیع ہو۔ انسان کی یہ ایک پسندیدہ خواہش ہے۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں ایک اصول بیان فرمایاہےکہ اگر دوستوں اور چاہنے والوں میں اضافہ چاہتے ہو تو دوسروں سے انصاف کرو۔ انصاف کا اکثر معنی یہ کیا جاتا ہے کہ کوئی شخص دوسرے دو افراد میں کوئی فیصلہ کرے یا کچھ دینا ہو تو برابری و مساوات سے کام لے، یہ بھی ایک بہت اچھی فضیلت ہے مگر اس سے اہم یہ ہے کہ انسان اپنے اور دوسروں کے درمیان انصاف سے کام لے یعنی کسی کے حق کو غصب نہ کرے اور نہ کسی کے حق سے محرومیت کا سبب بنے۔ اپنے فائدے کے لئے کوئی ایسی بات یا کام نہ کرے جس سے دوسرے کا نقصان ہو اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے جس سے دوسرے کا حق ضائع ہو۔ ہر وقت دوسرے کے حقوق کا خیال رکھے۔ وہ افراد جو اپنا حق ہی نہیں جانتے اور اپنے حق کے لیے کبھی آواز نہیں اٹھاتے انھیں بھی مطلع کرے کہ آپ کا حق کیا ہے اور اس حق کو ادا کرے۔ غریب کا بیٹا سمجھتا ہے کہ شاید میرا حق یہی ہے کہ دوسروں کا خدمت گزار رہوں، ایسی صورت میں اس کا حق اسے بتائے،اسے خود اس کا حق ادا کرے اور دوسروں سے دلوائے۔اپنے اور دوسرے کے حقوق کو ایک نگاہ سے دیکھے۔پیغمبر اکرمؐ نے انصاف کی یوں تعریف بیان فرمائی کہ سب سے بڑا صاحب انصاف وہ ہے جو لوگوں کے لیے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لیے کرتا ہے اور دوسروں کے لیے وہ نہیں چاہتا جو اپنے لیے نہیں چاہتا۔یا آپ نے فرمایا: جیسا چاہتے ہو کہ لوگ تم سے برتاؤ کریں تم اُن سے ویسا ہی برتاؤکرو۔ کسی کا ایسا منصفانہ کردار ہوگا تو یقیناً اس کے چاہنے والوں میں اضافہ ہوگا۔ البتہ کچھ لوگ اس انصاف سے بڑھ کر ایثار کے مالک ہوتے ہیں یعنی اپنی خواہشوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ امیرالمومنینؑ کا فقط یہ قول ہی نہیں بلکہ عمل بھی ایسا ہی تھایہی وجہ ہے کہ ایک مسیحی مورخ ادیب نے آپ کی زندگی پر کتاب لکھی اور اُس کا نام ’’علی انسانی عدالت کی آواز‘‘ رکھا۔

289۔ لطف و کرم

بِالْاِفْضَالِ تَعْظُمُ الْاَقْدَارُ۔ (حکمت 224)
لطف و کرم سے قدر و منزلت بلند ہوتی ہے۔

انسان محنت کرتا ہے تو اس کا پھل پاتا ہے۔ مزدوری کرتا ہے تو اس کا اجر ملتا ہے مگر معمول سے اور مقرر شدہ سے زیادہ مل جائے تو اسے فضل کہتے ہیں۔ اب حق و استعداد سے جتنا زیادہ ملتا ہے اتنا وہ فضل زیادہ ہے۔ اللہ کی یہ سنت ہے کہ وہ مانگنے سے پہلے ضرورت کو جان کر دے دیتا ہے یہ اس کا فضل ہے اور جب کوئی اچھا کام کرتا ہے تو کئی گنا زیادہ دیتا ہے۔ امیرالمومنینؑؑ انسان کی کامیابی کے لیے اسے اس فضل کی عظمت بتا رہے ہیں اور واضح فرمارہے ہیں کہ اگر انسان بھی دوسرے انسانوں پر فضل کرنا شروع کر دے تو انسانوں میں اس کی قدر و عظمت بڑھے گی۔ علم نفسیات کا ایک مشہور اصول ہے کہ آپ کے پاس جو ہے اسے بانٹ دیں۔ یوں لوگوں کے دل آپ کی طرف جذب ہوں گے اور لوگوں کی محبت کا چشمہ آپ کی طرف موجزن ہوگا۔ یہی چیز انسان کی عظمت و شخصیت کا سبب بنے گی ،اسی احسان و انعام سے تعظیم سے گردنیں جھکیں گی اور اگر محسن میں کچھ عیب بھی ہوں گے تو احسان ان عیبوں کے لیے پردہ بن جائے گا۔ یہ احسان و انعام اور یہ عطا و بخشش فقط مال سے نہیں ہوتی بلکہ جو کسی کے غموں اور دکھوں کو کم کر دے، لوگوں کے کندھوں سے مشکلات کے بار کو اٹھانے میں مدد گار بن جائے، تو یہ بھی احسان ہے۔ امیرالمومنینؑ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ مجھے تعجب ہوتا ہے ان لوگوں پر جو مال سے جاگیریں تو خرید لیتے ہیں ،مگر نیکیوں سے لوگوں کے دل نہیں خریدتے۔

290۔ تواضع

بِالتَّوَاضُعِ تَتِمُّ النِّعْمَةُ۔ (حکمت 224)
تواضع و انکساری سے نعمت تمام ہوتی ہے۔

انسان کو جب زندگی کی سہولیات و نعمات ملتی ہیں تو عموما خود کو صاحب حیثیت و مقام سمجھ کر دوسروں کے سامنے بڑائی کا اظہار کرنے لگتا ہے۔ یہ بڑائی اسے یہ بھی فراموش کرا دیتی ہے کہ جو نعمت دینے والا ہے۔ وہ لے بھی سکتا ہے اور جس نے نعمات دی ہیں اس نے ان کے استعمال کے طریقے بھی بتائے ہیں۔ جب نعمت پا کر یہ چیزیں بھول جاتی ہیں تو انسان متکبر بن جاتا ہے اور پھر قارون کی طرح کہہ اٹھتا ہے ’’یہ سب مجھے اس علم و مہارت کی وجہ سے ملا ہے جو مجھے حاصل ہے‘‘اور اگر اُسے نعمت دینے والا یاد رہے تو پھر دنیا کے عظیم حکمران حضرت سلیمانؑ کا نمونہ سامنے ہوتا ہے کہ جب تخت بلقیس کو اپنے قدموں میں دیکھا تو کہنے لگے ’’یہ میرے پروردگار کا فضل ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت‘‘اب جو نعمت پا کر شکر کرتا ہے اس کے لئے نعمات میں کئی گنا اضافہ ہوتا ہے۔ اسی کردار کا نام تواضع ہے کہ نعمت متکبر نہ بنائے بلکہ فضل خدا سمجھ کر دوسروں سے حصہ بٹائے اور مخلوق خدا کو اس میں شامل کرے۔ نعمات کی فراوانی اسے خاردار جھاڑی کے کردار میں نہ بدلے بلکہ پھلدار پودے کی طرح بنا دے جس پر پھل لگتا ہے تو اس کی شاخیں جھکنے لگتی ہیں۔ گویا کہہ رہی ہیں کہ ہمیں پھل ملا ہے آپ کے لیے بھی حاضر ہے۔ یوں تواضع شکر کی ایک صورت کا نام ہے اور شکر ہی سے نعمات تمام ہوں گی۔
امیرالمومنینؑ ان الفاظ سے انسان میں روحِ تواضع کی پرورش کر رہے ہیں اور بار ہا آپ نے مختلف انداز میں تواضع کی اہمیت سے آگاہ کیاہے۔ ملائکہ کا پہلے انسان کے سامنے سجدہ اسی تواضع کی بنیاد تھی اور وہ بھی ایک انسان کے سامنے۔ اس لئے انسان انسان کے سامنے متواضع رہے گا تو نعمت تمام ہوگی اور یہ عمل عبادت بھی شمار ہوگیا بلکہ پیغمبر اکرمؐ کا فرمان ہے ’’تواضع عبادت کی مٹھاس کا نام ہے۔‘‘

291۔ سرداری کا راز

بِاحْتِمَالِ الْمُؤَنِ يَجِبُ السُّؤْدُدُ۔ (حکمت 224)
دوسروں کا بوجھ بٹانے سے لازماً سرداری حاصل ہوتی ہے۔

ہمیشہ مشکلات و محنت ہی سے آسانیاں ملتی ہیں اور جتنا کسی کا مقصد و ہدف بلند ہوگا اتنا ہی اسے زیادہ مشکلات برداشت کرنا پڑیں گی اور زیادہ محنت کرنی ہوگی۔ ناز پرور لوگ کبھی بلندیوں کو نہیں پا سکتے۔ جو محنت کرتے ہیں انھیں سرداری ضرور ملتی ہے اور سرداری کا ایک اصول امیرالمومنینؑ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ جو دوسروں کی مشکلوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھاتا ہے گویا لوگ اسے اپنے سروں پر بٹھاتے ہیں اور اسے سرداری و سربراہی کے لائق سمجھتے ہیں اور جن سے لوگوں کو کوئی اچھائی نہیں ملتی لوگ انہیں بے فائدہ چیز حساب کر کے کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے جو لوگوں کی آسانیوں کے لئے خود دکھ سہہ لیتا ہے جو لوگوں کی حاجتوں کو اپنی حاجت سمجھ کر پوری کرے وہ لوگ بھی اسے قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ قوموں میں دلوں پر راج کرنے والے سردار وہی ہوتے ہیں جو دل سے قوم کی اچھائی چاہتے ہیں۔ سردار قوم کے لیے چھتری کے مانند ہوتا ہے جو خود بارش یا دھوپ برداشت کرتا ہے اور قوم کو محفوظ رکھتا ہے۔ قوم کے دکھ خود برداشت کرنے والا ہی حقیقت میں سردار ہے اور ایسا ہی شخص سرداری کا حقدار ہے۔کوئی قوم کی سرداری چاہتا ہے تو اسے امامؑ کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کر کے یہ سرداری نصیب ہو سکتی ہے۔

292۔ خوش رفتاری

بِالسِّيْرَةِ الْعَادِلَةِ يُقْهَرُ الْمُنَاوِئُ۔ (حکمت 224)
خوش رفتاری سے کینہ ور دُشمن مغلوب ہوجاتا ہے۔

انسان کو زندگی میں کئی قسم کے مخالفین کا سامنا ہوتا ہے اور مختلف طریقوں سے وہ دُشمنی و مخالفت کرتے ہیں۔ لوگ ان دشمنوں کو شکست دینے کے لئے بہت کچھ خرچ کرتے ہیں اور اکثر تو انسان کی جان تک اس میں چلی جاتی ہے ۔ امیرالمومنینؑ اس فرمان میں دشمن پر غلبہ کا اصول بیان فرما رہے ہیں۔ وہ کامیاب انسان کے لئے بڑا مضبوط ہتھیار ہے۔ یہ ہتھیار کوئی بندوق یا زخم لگانے والا آلہ نہیں بلکہ فرمایا: دشمن کے ساتھ عدالت و حسن سلوک سے اور انصاف و خوش اخلاقی سے پیش آؤ اسے یقینا شکست ہوگی۔خوش رفتاری سے یا تو دشمن اگر عقل رکھتا ہے تو خود متأثر ہوگا کہ جس سے میں دشمنی کر رہا ہوں وہ مجھ سے اتنے انصاف سے برتاؤ کر رہا ہے اس طرح وہ دشمنی چھوڑ دے گایا عام افراد سے عدل و انصاف کا برتاؤ ہوگا تو ان کے دل اس کی طرف راغب ہوں گے اور اس سے ان کی دوستی بڑھے گی اور یوں مخالف تنہا رہ جائے گا اور یہ اس کی شکست ہے۔ غالب ہونے کی ایک خوبی یہ بھی سمجھی جاتی ہے کہ غلبہ پانے والا غلبہ پا کر سکون و اطمینان حاصل کرتا ہے مگر امامؑ کے اس اصول کے مطابق عادل ظاہری طور پر مغلوب بھی ہو تو وہ مطمئن و پر سکون ہوتا ہے کہ اس نے کوئی کام خلاف عقل نہیں کیا۔ یہ سکون حقیقی غلبہ ہے اس لئے دشمن کو شکست دو حق کی اچھے انداز سے ادائیگی سے اور حسن سیرت و کردار سے۔

293۔ حلم

بِالْحِلْمِ عَنِ السَّفِيْهِ تَكْثُرُ الْاَنْصَارُ عَلَيْهِ۔ (حکمت 224)
احمق کے مقابلے میں حلم و بردباری کرنے سے طرفدار بڑھتے ہیں۔

انسان کامل کی زندگی کے حسن و جمال میں سے ایک حلم و بردباری ہے۔ زندگی کے اکثر مراحل میں انسان کا جاہل و نادان لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ جتنا کسی کا مقام بلند ہوگا اتنا ہی مختلف لوگوں سے اس کا واسطہ زیادہ پڑے گا۔ اگر کسی احمق سے واسطہ پڑے تو امیرالمومنینؑ نے اس سے برتاؤ کے لئے تحمل و برداشت کی ترغیب دی ہے۔ کسی کی احمقانہ حرکتوں سے انسان کا مقام کم نہیں ہوتا بلکہ وہ سزا کی طاقت رکھتے ہوئے اگر بردباری سے کام لیتا ہے تو اس عظیم کردار پر سمجھدار لوگ اس کے طرفدار و مددگار ہو جائیں گے۔
احمق افراد کی حماقتوں پر ان سے الجھنا اور سزا و انتقام کے در پے ہونا، با عظمت انسان کی شخصیت کو کمزور کرے گا اور احمق کی جرأت و جسارت بڑھے گی اس لئے ایسے افراد کے مقابلے کے لئے بہترین روش بردباری و تحمل اور ان کے احمقانہ عمل سے بے اعتنائی ہے۔پیغمبر اکرمؐ کی سیرت میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں کہ لوگوں نے آپ ؐسے نا زیبا سلوک کیا بلکہ بعض آپ سے الجھتے بھی رہے مگر آپ تحمل سے پیش آتے اور ان کی ہدایت کے لیے دعا کرتے اور ان افراد کی مشکلوں کو حل کرنے کی کوشش کرتے۔ با کمال انسان حلم کے ذریعےاپنے کمال کو اور بڑھاتے ہیں۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ کسی با کمال اور مشہور شخص سے نماز کی صفوں میں ایک فقیر نے سوال کیا، اس کے پاس دینے کو کچھ نہیں تھااس نے معذرت کی تو فقیر نے اس کے منہ پر تھوک دیا۔ اس نے اپنا دامن پھیلا کر لوگوں سے مال کا سوال کیا اور جو کچھ ملا اس فقیر سے معذرت کر کے اس کے حوالے کردیا۔ فقیراس کا گرویدہ ہو گیا اور دیکھنے والے اُس کی عظمت کے قائل ہو گئے۔

294۔ ذلت کے قیدی

اَلطَّامِعُ فِى وِثَاقِ الذُّلِّ۔ (حکمت 226)
لالچی ہمیشہ ذلّت کی زنجیروں میں جکڑا رہتا ہے۔

انسان کی کمال کی راہوں کی ایک رکاوٹ لالچ ہے۔ لالچی خود کو ذلیل تصور کرتا ہے اور حقیر و فقیر سمجھتا ہے اور جو خود کو پست سمجھنے لگے وہ کبھی کمال کو نہیں پا سکتا۔ علاوہ ازیں لالچی ہر کسی کے سامنے اپنی حقارت و ذلت کا اظہار کرتا ہے کہ شاید اس طرح کوئی اس کے حال پر رحم کرے اور یوں اس کے مقصد کے حصول کی راہ ہموار ہو۔
امیرالمومنینؑ نے اس فرمان میں لالچ کو اُس زنجیر سے تشبیہ دی ہے جس سے قیدی یا حیوان کو باندھا جاتا ہے۔ یا وہ زنجیر اس کے گلے میں ڈالی جاتی ہے اور اسے جس طرف لے جانا ہو کھینچ کر لے جایا جا سکتا ہے۔ آپؑ نے اپنے کلام میں متعدد مقامات پر لالچ کی مذمت کی ہے۔لالچ: یعنی کوئی شخص اپنے حق سے زیادہ کی شدید طلب رکھتا ہو اور دوسروں کے پاس جو چیز ہے اس کی تمنا کرتا ہو۔ اس طلب و تمنا میں وہ خود کو دوسروں کے سامنے جھکاتا اور ذلیل کرتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے ذلت کی زنجیر اپنی گردن میں ڈال لیتا ہے۔ گویا لالچ دیکھی نہ جانے والی وہ رسی ہے جو لالچی اپنی گردن میں ڈال کر اس کا دوسرا سرا اس کے ہاتھوں میں دے دیتا ہے جس کے پاس اس کی مطلوبہ چیز ہوتی ہے۔ اب وہ اپنی مرضی سے اسے کھینچے لیے پھرتا ہے۔ اس قیدِ حرص سے آزادی کی راہ قناعت ہے جو انسان کو سب سے بے نیاز کر دیتی ہے اور عزت و کرامت کی حفاظت کرتی ہے۔

295۔ دنیا کا غم

مَنْ اَصْبَحَ عَلَى الدُّنْیَا حَزِیْنًا فَقَدْ اَصْبَحَ لِقَضَاءِ اللهِ سَاخِطاً۔ (حکمت 228)
جو دنیا کے لیے غمگین ہوتا ہے وہ اللہ کے فیصلوں سے ناراض ہے۔

بعض لوگوں کا مزاج ایسا بن جاتا ہے کہ دنیا کی سہولیات اور مال و منال انھیں ملتا رہے تو وہ خود کو خوش نصیب سمجھتے ہیں اور مطمئن رہتے ہیں اور اگر دنیا کی سہولیات میں سے کچھ نہ ملے تو اللہ سے بھی شکوے کرنے لگتے ہیں۔ امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں ایسے افراد حقیقت میں اللہ کے فیصلوں سے ناراض ہیں۔ انسان کے لیے کیا مفید اور کیا مضر ہے اسےاللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اگر انسان کو اللہ کی رحمت اور لطف کا یقین ہے تو اس کے فیصلوں پر غم کے بجائے سکون اختیار کرے گا اور ان فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کرے گا اور جب وہ اللہ کی رحمت کی بنا پر اس کے فیصلوں کو تسلیم کرے گا تو پھر بڑے بڑے مصائب اسےمتزلزل نہیں کر سکیں گے بلکہ حضرت ابراہیم ؑو حضرت اسماعیل ؑکی طرح بڑی سے بڑی قربانی کے لیے تیار ہو جائے گا اور کہے گا کہ میں تیرے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں ۔ یہ تسلیم اسے سکون کامل عطا کرے گی اور ان فیصلوں کو تسلیم کرنے کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ کچھ لیے جانے پر انسان مایوس نہیں ہوگا۔ اس لیے اگر اطمینان بخش زندگی گزارنی ہے تو یقین کرے کہ اللہ کے جو فیصلے ہوتے ہیں وہ انسان کے لیے بہتر ہی ہوتے ہیں۔ اب اللہ بہتر جانتا ہے مجھے کیا دینا ہے، کتنا دینا ہے اور کیا نہیں دینا۔ انسان کو چاہیے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے اسے اللہ کا سمجھے تو اس میں سے کچھ لے لینے پر اس کا اطمینان بڑھے گا کیونکہ اس کی کوئی چیز میرے پاس تھی، ڈر تھا کہیں ضائع نہ ہو جائے کہیں ٹوٹ نہ جائے اب دینے والے نے لے لی تو مطمئن ہوجائے کہ میری ذمہ داری ختم ہو گئی۔ یہ سکون و اطمینان حقیقت میں اللہ کے فیصلوں پر راضی ہونے کی بنا پر ہوتا ہے۔

296۔ بڑی سلطنت و بڑی نعمت

كَفٰى بِالْقَنَاعَةِ مُلْكًا وَ بِحُسْنِ الْخُلُقِ نَعِیْمًا۔ (حکمت 229)
قناعت سے بڑی کوئی سلطنت اور حُسن اخلاق سے بہتر کوئی نعمت نہیں ہے۔

انسان جن چیزوں سے منزل کمال کو پا سکتا ہے اُس کا نچوڑ ان دو جملوں میں موجود ہے۔ قناعت کو سلطنت قرار دیاگیا ہے۔ سلطنت و بادشاہی انسان کو دوسروں سے بی نیاز کرتی ہے بلکہ دوسروں کو حکمرانوں کا محتاج بناتی ہے۔ حکمرانی سے انسان کو اطمینان و سکون ملتا ہے۔ امیرالمومنینؑ نے قناعت اور حسن خلق کی فضیلت کو بار ہا ذکر فرمایاہے۔
قناعت: یعنی ایک انسان جو اپنی محنت سے حاصل کرتا ہے اسی کو اپنے لئے کافی سمجھتا ہے اور راضی رہتا ہے اور جن خواہشوں کا حصول اس کے بس سے باہر ہوتا ہے اس پر صبر کرتا ہے۔ وہ سب چیزیں جو مملکت و حکومت سے ملتی ہیں اس سے زیادہ قناعت سے میسر آتی ہیں۔ قناعت پسند خود کو کسی کا محتاج نہیں سمجھتا اور جو مل جاتا ہے اس پر مطمئن و راضی ہوتا ہے بلکہ جو اسے نہیں ملتا اس پر بھی راضی رہتا ہے۔ سلطنت کے حصول کے لئے تو تلوار اور اسلحے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی حفاظت کے لئے بھی فوج و سپاہ لازم ہوتی ہے مگر قناعت خود انسان کی حفاظت کرتی ہے۔ اس کے حصول کے لیے اسلحہ درکار ہوتا ہے اور نہ اس کی حفاظت کے لیے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: سب سے بڑا غنی و مالدار وہ ہے جو اس پر بھروسا کرتا ہے جو اللہ کے پاس ہے نہ کہ لوگوں کے پاس ۔
حسن خلق کتنی بڑی نعمت ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ نے نبی اکرم ؐکی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’بلا شبہ آپ عظیم اخلاق کے مقام پر فائز ہیں۔‘‘حسن خلق سے انسان دوسروں کے دلوں میں اپنی جگہ بناتا ہے یوں اپنے اردگرد کے ماحول کو خوشگوار بنا لیتا ہے اور یہی انسان کی زندگی کا حسن و جمال ہے۔ قناعت کے ذریعے سکون و اطمینان اور حسن خلق کے ذریعے دوسروں کی محبت ملتی ہے اور یہی چیزیں انسانی زندگی کا کمال ہیں۔

297۔ سخاوت

مَنْ يُعْطِ بِالْيَدِ الْقَصِيْرَةِ يُعْطَ بِالْيَدِ الطَّوِيْلَةِ۔ (حکمت 232)
جو عاجز و قاصر ہاتھ سے دیتا ہے اُسے با اقتدار ہاتھ سے ملتا ہے۔

انسان کی عقل اگر دُنیاوی گرد و غبار سے محفوظ رہے توفطری طور پر وہ اچھائی کی تلاش میں رہتی ہے مگر بہت سے افراد خود کو کمزور، اکیلا یا غریب سمجھ کر کار خیر کی طرف قدم نہیں بڑھاتے۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں ایسے افراد کو اچھے کاموں کی ہمت دلانے کے لیے فرمایا: آپ اپنے اچھے کاموں کو چھوٹا نہ سمجھیں، اس لیے کہ ہر کسی کو اجر و انعام اس کی طاقت و وسائل کے مطابق ملے گا۔ اس کی ذمہ داری بھی وہی ہوگی جو اس کے اختیار میں ہے۔ کئی بڑے بڑے کاموں کی اگر آپ بنیاد دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس کام کے پیچھے کسی شخص کے حوصلہ افزائی کے لئے کہے ہوئے دو مثبت جملے ہیں جو اتنے بڑے کام کی وجہ بن گئے۔ اس لیے کسی کو اپنے چھوٹے سے کام، کوشش یا صدقے کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ آپ اپنی طاقت کے مطابق کوشش کریں گے تو اللہ آپ کو کئی گنا اور بعض اوقات بے شمار انعامات دے گا۔قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق اصحاب کہف معمولی سی تعداد میں ایک مشن کو لے کر اٹھے تھے اور آج تک قرآن میں موجود ان کا قصہ بہت سوں کی حوصلہ افزائی کا ذریعہ بن رہا ہے۔ کوئی اپنے ایک ہاتھ سے کسی کی مدد کرے تو وہی ہاتھ ایک ایک کر کے ایک بڑی خلق خدا بن جائے گا اور یہ خلق خدا اس کے لئے دُعا کرے گی۔اس کی ضرورت پر اس کی مددگار بن جائے گی۔

298۔ عقل مندی

هُوَ الَّذِى يَضَعُ الشَّيْ‏ءَ مَوَاضِعَهُ۔ (حکمت 235)
عقل مند وہ ہے جو ہر چیز کو اُس کے موقع و محل پر رکھے۔

انسان کو باقی مخلوق سے بلند کرنے والے عطیہ و نعمت کا نام عقل ہے۔ اس فرمان میں امیرالمومنینؑ سے پوچھا گیا کہ عقلمند کون ہے تو آپ نے فرمایا: جو ہر شی کو اس کے موقع و محل پر رکھے۔ پھر سوال کیا گیا جاہل کون ہے تو فرمایا میں نے بتا دیا ہے۔ ہر شی کو اس کے موقع و محل پر رکھنا حقیقت میں زندگی کی ترتیب کا نام ہے۔ منظم و مرتب زندگی کامیابی و کامرانی کی ضامن ہوتی ہے، عقلمند کہیں بیٹھا ہے تو پہلے موقع و محل دیکھتا ہے۔ کسی راہ پر قدم رکھتا ہے تو پہلے اس کا جائزہ لیتا ہے۔ کچھ کہنا ہوتا ہے تو پہلے سوچتا ہے کہ کیاکہنا ہے اور کہاں کہنا ہے۔کسی ادارے کا سربراہ ہے تو دیکھے گا کسی کو کس عہدے پر بٹھانا ہے۔ ہر کسی کو اس کی صلاحیت کے مطابق مقام دیتا ہے۔ جہاں نرمی ضروری ہو وہاں نرمی سے اور جہاں سختی درکار ہو وہاں سختی سے کام لیتا ہے۔ مالیات میں بھی دیکھتا ہے کہ کہاں خرچ کرنا ہے اور کتنا خرچ کرنا ہے۔ کسی سے وعدہ کیا ہے تو اسے کیسے نبھانا ہے یہ سب عقلمندی کی نشانیاں ہیں اور عقل مند ہی کامیاب زندگی گزار سکتا ہے۔

299۔ سستی

مَنْ اَطَاعَ التَّوَانِيَ ضَيَّعَ الْحُقُوْقَ۔ (حکمت 239)
جو شخص سستی و کاہلی کرتا ہے وہ حقوق کو ضائع و برباد کرتا ہے۔

کامیابی کے راستے کی ایک بڑی رکاوٹ انسان کی سستی و کاہلی ہے۔ جس کام کو جس وقت پرانجام دینا ہے، بغیر کسی عذر و مجبوری کے اُس میں تاخیر کرناسستی کہلاتا ہے۔ آج کے کام کو کل پر چھوڑ دینا۔ کام کے دوران میں خود کو تھکا ہوا محسوس کر کے اُسے ادھورا چھوڑ دینا۔ یہ سب سستی و کاہلی کی نشانیاں ہیں۔ جو شخص وقت جیسی قیمتی دولت کو جان بوجھ کر ضائع کرتا ہے وہ یقینا ناکام ہوتا ہے اور ہر کوئی اس کی مذمت کرتا ہے۔ موقع و مناسبت پر تھوڑی سی لا پرواہی کرے گا تو تھوڑے تھوڑے چھوڑے ہوئے کام جمع ہو کر بہت زیادہ ہوجائیں گے پھر اگر کرنا بھی چاہے تو ممکن ہے انجام نہ دے سکے۔ یوں اس سستی و کاہلی کی وجہ سے دوسروں کے لیے جو حقوق ادا کرنا تھے انھیں ضائع کر بیٹھتا ہے اور نتیجے میں اس کے اپنے حقوق ضائع ہو جاتے ہیں۔ کوئی ملازم اپنی ذمہ داری میں سستی کرتا ہے تو مالک کا جو حق تھا اسےاس نے ضائع کیا اور یہی سستی سبب بن سکتی ہے کہ کل اسے اپنی تنخواہ کے حق سے محروم ہونا پڑے۔
امیرالمومنینؑ اس فرمان میں سستی و کوتاہی کی کمزوری اور نقصان کی طرف متوجہ فرما رہے ہیں تاکہ ہر شخص اس بری عادت سے بچنے کی کوشش کرے۔ البتہ سست آدمی کو اِس مرض سے نجات کے لیے کسی مدد گار کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کے سامنے زندگی کا کوئی بڑا مقصد رکھ کر اسے متحرک کر سکے اور اُس میں ہمت پیدا کر سکے۔ امیرالمومنینؑ وہی مدد گار ہیں جو اُنسان کو خواب غفلت سے جگا رہے ہیں۔

300۔ چغل خوری

مَنْ اَطَاعَ الْوَاشِيَ ضَيَّعَ الصَّدِيْقَ۔ (حکمت 239)
جو چغل خور کی بات پر اعتماد کر لیتا ہے وہ دوستوں کو کھو بیٹھتا ہے۔

سکون و اطمینان اور ترقی و کامیابی کے لیے دوسروں پر اعتماد بہت اہم ہے۔ اجتماعی زندگی میں اگر دوسروں پر اعتماد نہ کیا جائے تو انسان زندگی ہی نہیں گزار سکتا۔ ڈاکٹر کے مشورہ پر اعتماد ہوگا تو ہی صحت کے لیے اس کی تجویز کردہ دوا کو استعمال کیا جائے گا۔ گاڑی کے ڈرائیور پر گاڑی چلا سکنے کا اعتماد ہوگا تبھی اس کے ساتھ سفر کرے گا مگر یہ اعتماد آنکھیں بند کر کے بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اعتماد کی بھی شرطیں ہوتی ہیں۔ امیرالمومنیؑن یہاں فرماتے ہیں کہ چغل خور کبھی قابل اعتماد نہیں ہوتا، اس پر مت اعتماد کریں اس لئے کہ اگر چغل خور کی باتوں پر اعتماد کیا جائے تو کوئی آپ کا اپنا نہیں رہے گا، کوئی آپ کا دوست نہیں رہے گا۔چغل خور یعنی وہ جو ایک دوست سے کہتا ہے کہ آپ کا فلاں دوست یا فلاں شخص آپ کے بارے میں یہ غلط بات کہہ رہا تھا، آپ کی یہ کمزوری بیان کر رہا تھا ،آپ کو برا بھلا کہ رہا تھا۔یہ الگ بات ہے کہ اس نے کہا تھا کہ نہیں مگر اس دوسرے کی طرف سے اسے برا ثابت کرتا ہے۔ایسا اکثر حسد کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یوں یہ شخص اپنے دوسرے دوست سے متنفرہو جاتا ہے۔ چغل خور کی بات پر اعتماد کر کے اپنے قابل اعتماد دوست کو کھو دیتا ہے۔ قرآن مجید نے بھی چغل خور کی مذمت کی ہےاور رسول اللہؐ نے اسے بد ترین شخص اور دوستوں میں جدائی ڈالنے والا فرد قرار دیا۔ تعلقات و دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ چغل خور کے بجائے دوست پر اعتماد کیا جائے اور اس بات کی تحقیق کے بجائے درگزر سے کام لیا جائے۔ چغل خور سے ہوشیار رہا جائے جو کسی کی بات آپ تک پہنچا سکتا ہے وہ یقینا آپ کی بات بھی دوسروں کو خوش کرنےکے لئے ان تک پہنچاتا ہے۔

301۔ کرم و مہربانی

اَلْكَرَمُ اَعْطَفُ مِنَ الرَّحِمِ۔ (حکمت 247)
کرم و مہربانی کا جذبہ رشتہ داری سے زیادہ لطف و مہربانی کا سبب ہوتا ہے۔

با کمال انسان دوسروں سے لطف و مہربانی کو اپنی زندگی کا ہدف سمجھتے ہیں اور کریم اُس شخص کو کہتے ہیں جو کسی کے مانگے بغیر یا مانگنے سے پہلے عطا کرے اور وہ اپنی ضرورت پردوسروں کی ضرورتوں کو ترجیح دے، جسے ایثار کہتے ہیں۔ کریم کسی سے توقع کی بنا پر نہیں بلکہ اپنی طبیعت و شرافت کی بنا پر دوسروں سے اچھائی کرتا ہے۔
امیرالمومنینؑ یہاں کرم کی ترغیب و تشویق دلا رہے ہیں اور فرماتے ہیں کچھ لوگ رشتہ داری و قرابت داری کی وجہ سے اپنے رشتہ داروں سے اچھائی کرتے ہیں جو خود ایک اچھی بات ہے اور قرآن کے مطابق ایک فریضہ ہے مگر رشتہ داری کی بنا پر اچھائی میں دوسرے پہلو بھی مد نظر ہوتے ہیں کہ آج ہم رشتہ دار سے اچھائی کریں گےتو کل کووہ بھی کرے گا یا اگر ہم کسی رشتہ دار کی ضرورت پوری نہیں کریں گے تو معاشرہ کیا کہے گا۔ اگر کوئی اس انداز سے کسی سے مہربانی کرے تو وہ اسے اپنے سگے بہن بھائیوں بلکہ کبھی ماں باپ سے زیادہ مہربان سمجھتا ہے۔ البتہ کریمانہ برتاؤ اگر رشتہ داروں سے ہو تو اس کا درجہ بہت ہی بلند ہوگا۔ تقاضائے کریمی بھی پورا ہوگا اور فریضہ قرابت بھی ادا ہوگا اور ایسا انسان یقیناً کامیاب انسان کہلانے کا حقدار ہوگا۔

302۔ حسن ظن

مَنْ ظَنَّ بِكَ خَيْرًا فَصَدِّقْ ظَنَّهٗ۔ (حکمت 248)
جو تم میں سے نیک گمان رکھے اُس کے گمان کو سچا ثابت کرو۔

لوگوں کا حسن ظن اور اعتماد حاصل کرنا انسان کے لیے بڑی کامیابی ہے لوگوں کا یہ اعتماد انسان کو ان کے دلوں میں محبوب و معزز بنا دیتا ہے۔ اس لیے کامیاب انسان کی ایک کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ ایسے کار خیر انجام دے جو اسے لوگوں کی نگاہوں بلکہ دلوں میں ایسا بنا دیں کہ لوگ اپنی مشکلوں میں اس سے حل کی توقع و امید رکھیں اور ضرورت پڑنے پر اس کی طرف رجوع کریں۔ امیرالمومنینؑ اس فرمان میں اگلے مرحلے کو بیان فرما رہے ہیں کہ جب آپ نے ایک بار یہ سعادت حاصل کرلی کہ لوگ آپ سے حسن ظن رکھنے لگیں تو اب اس مقام کی حفاظت کی بھرپور کوشش کریں۔ اگر کوئی آپ سے امید رکھ کر آپ سے اپنی مشکل کا حل چاہے تو آپ کوشش کریں کہ اس کی امید پر پورا اتریں،خواہ وہ مالی حوالے سے ہو یا مشورہ و راہنمائی ہو یا منصفانہ فیصلہ ہو یا امانت کی بات ہو ۔ سعی کریں کہ آنے والے کے حسن ظن کو حقیقت و واقعیت کا لباس پہنا دیں۔ عملاًان کے نیک گمان کو پورا کرنا بدگمانی کرنے والوں کے اذہان کو بھی بدل دے گا اور یوں انسان کا مقام و مرتبہ بلند ہوتا رہے گا۔ کسی نے خوب کہا کہ کوئی شخص مجھ سے توقع رکھتے ہوئے میرے پاس آیا، کبھی شرم سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور کبھی میرے ٹھکرا دینے کے خوف سے رخ زرد ہو جاتا ،اب مجھے حیا آنی چاہیےتھی کہ اسے خالی نہ پلٹا دوں۔ اگر اس کی حاجت پوری نہیں بھی کر سکتے تو اس سے معذرت ضرور کرنی چاہیے۔

303۔ غصہ

اَلْحِدَّةُ ضَرْبٌ مِنَ الْجُنُوْنِ۔ (حکمت 255)
غصہ ایک قسم کی دیوانگی ہے۔

راہ حیات میں جو چیزیں پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہیں ان میں سے ایک غصےکا بے قابو ہو جانا ہے۔ یہی غصہ انسان کو انسانیت کی بلندیوں سے گرا کر پستی کے گڑھوں میں پھینک دیتا ہے۔امیرالمومنینؑ نے غصے کو یہاں مرض نہیں بلکہ دیوانگی سے تشبیہ دی ہے۔ دیوانہ جب کوئی کام کر رہا ہوتا ہے تو اسے صحیح سمجھ کر ہی انجام دیتا ہے۔ غصہ حقیقت میں انسان کی عقل پر غالب آجاتا ہے اور سوچنے کی طاقت کو سلب کر لیتا ہے اور انسان وہ کام کر بیٹھتا ہے جو عقلاء سے بعید ہوتے ہیں ۔ایسے میں زبان اس کے قابو میں رہتی ہے نہ ہاتھ۔ جو زبان پر آتا ہے کہہ جاتا ہے اورجو بس میں ہوتا ہے کر بیٹھتا ہے۔ اکثر خونی حادثات غصے کی وجہ سے ہوتے ہیں اور اسی طرح طلاق اور جدائی کا سبب بھی زیادہ تر غصہ ہوتا ہے۔ آپ نے اگلا مرحلہ یہ بیان فرمایا کہ یہ دیوانگی کے مانند ہے۔ دیوانے کو جب دیوانگی سے افاقہ ہوتا ہے تو خود پشیمان ہوتا ہے کہ میں نے کیا کیا، کیوں کیا اور غصہ بھی جب ٹھنڈا ہوتا ہے تو انسان اپنے کیے پر پشیمان ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو کئی کئی سال اپنے کیے پر پشیمانی میں گزر جاتے ہیں بلکہ کبھی باقی ساری زندگی پشیمانی میں گزرتی ہے مگر اس کیے کا کوئی ازالہ نہیں ہوتا۔ اگر پشیمان نہیں ہوتا تو گویا اس کی دیوانگی پختہ ہو چکی ہے، اسے افاقہ ہی نہیں ہوتا۔ اس کمزوری کا علاج اپنے مقام پر بیان ہوگا۔ مگر ایک نسخہ با کمال لوگوں نے یہ بتایا ہے کہ جب غصہ آئے تو اپنی جگہ کو بدل لیں، کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیں۔ ایک چیز سوچ لیں مجھ سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں جب مجھ سے غلطیاں ہوتی ہیں تو میں چاہتا ہوں دوسرا مجھے معاف کر دے تو دوسرے سے غلطی ہو تو مجھے چاہیے کہ معاف کر دوں۔

304 ۔ اچھائی کی کمائی

مُرْ اَهْلَكَ اَنْ يَرُوْحُوْا فِي كَسْبِ الْمَكَارِمِ، وَ يُدْلِجُوْا فِي حَاجَةِ مَنْ هُوَ نَائِمٌ۔ (حکمت 257)
اپنے عزیز و اقارب کو ہدایت کرو کہ اچھی خصلتوں کو حاصل کرنے کے لیے دن کے وقت نکلیں اور رات کو سو جانے والے کی حاجت روائی کو چل کھڑے ہوں۔

انسان کامل کا ایک نمونہ امیرالمؤمنینؑ کے شاگرد جناب کمیل بن زیاد نخعی ہیں۔ آپؑ نے کمیل سے فرمایا کہ اپنے عزیز و اقارب سے کہو۔ گویا کمیل کے کمال کا حصہ ہے کہ وہ عزیز و اقارب کو حکم دیں کہ وہ بھی اچھے اخلاق کے حصول کی کوشش کریں۔ یعنی گھر کے سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ دوسروں کو بھی کمال کی راہ بتائے اور پھر عزیز و اقارب سے یہ بھی کہو کہ وہ سوئے ہؤوں کی حاجت روائی کریں۔ یعنی عزیز و اقارب کے لیے ایک اچھائی یہ ہے کہ وہ دوسروں کی حاجت روائی کریں یعنی خود سازی کے بعد ذمہ داری ہے کہ دوسروں کی بھی راہنمائی کریں۔ دوسروں کی مدد اور مشکلات حل کرناانسانی کمال کا حصہ ہے۔ پیغمبر اکرم ؐسے پوچھا گیا کہ مکارم الاخلاق کیا ہیں تو فرمایا: مہمان کی عزت، یتیم سے حسنِ سلوک اور ہمسائے کی عزت۔ اسی طرح جن روایات میں مکارم الاخلاق کی تفصیل بیان کی گئی ان میں بھی سچائی، لوگوں سے امید کے بجائے اللہ سے امید، ادائے امانت، صلہ رحمی، مہمان نوازی، بھوکوں کو سیر کرنا، لوگوں کو نیکی کا بدلہ دینا، ہمسایوں کا خیال رکھنا اور دوستوں کی بہتری چاہنا اور ان سب میں سرفہرست حیا ہے۔ ان فضائل میں سے اکثر کا تعلق انسان کی خدمت سے ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے دوسروں کی حاجت روائی کے لیے فرمایاکہ رات کو نکلیں جب وہ سوئے ہوئے ہوں، آپ سے سوال نہ کیا ہو آپ انہیں تلاش کریں، آپ اپنی پہچان نہ کروائیں اور پھر آپ ؑنے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کی سننے کی طاقت تمام آوازوں پر حاوی ہے! جس کسی نے بھی کسی کے دل کو خوش کیا تو اللہ اس کے لیے اس سرور سے ایک خاص لطف خلق کرے گا کہ جب بھی اس پر کوئی مصیبت نازل ہو تو وہ لطف نشیب میں بہنے والے پانی کی طرح تیزی سے بڑھے گا اور مصیبت کو دور کر دے گا۔

305۔ کل کا بوجھ

لَا تَحْمِلْ هَمَّ يَوْمِكَ الَّذِي لَمْ يَاْتِكَ عَلٰی يَوْمِكَ الَّذِيْ قَدْ اَتَاكَ۔(حکمت 267)
اس دن کے غم و فکر کا بوجھ جو ابھی آیا نہیں آج کے دن پر نہ ڈال جو آ چکا ہے۔

انسان خوشیاں چاہتا ہے اور ان خوشیوں کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کرتا ہے اور محنت و مشقت کرتا ہے۔ اب اگر اسے وہ دن نصیب ہوجس دن کو خوش گزارنے کے لیے اتنی محنت کی تھی تو اس دن کو خوشی کے ساتھ گزارنا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ خوشی کے اس دن آنے والے کل کی فکرمیں پڑ جاتے ہیں۔ کل یہ نہ ہو جائے، وہ نہ ہو جائے کی فکر میں آج ہی پریشان ہو جاتے ہیں۔ امیرالمؤمنینؑ نے انسان کی خوشی کا ایک نسخہ بتایا ہے کہ کل کے لیے منصوبہ بنائیں، تدبیرکریں مگر منفی سوچ کے باعث کل کے دن کا بوجھ اس دن پر مت ڈالیں جو آ چکا ہے۔ کل ایک چیز ہونی ہے آپ اس کے بارے میں سوچ کر غمزدہ ہو جاتے ہیں، ممکن ہے ایسا نہ ہو جیسا آپ سوچ رہے ہیں۔ آج آپ سکون سے کل کی تدبیر کریں گے تو بہتر ہو گا۔گھر کا سربراہ اور قوم کا حاکم آنے والے زمانے کے لیے منصوبہ بندی کرے گا اور وہ منصوبہ بندی معاشی بھی ہوگی، تعلیمی بھی ہوگی، تربیتی بھی ہوگی۔ یہاں یہ مقصد نہیں کہ کل کا سوچیں نہیں۔ جو لوگ آنے والے زمانے کے لیے جو طویل مدتی منصوبہ بناتے ہیں وہ کامیاب ہوتے ہیں مگر کل کا سوچ کر حرص میں مبتلا ہو جانا کہ کل کے لیے یہ بچا رکھیں اور کل کے لیے یہ جمع کر رکھیں،صحیح نہیں ہے۔ بعض لوگ اس فرمان سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو آج ملا ہے کھا لو کل کا رزق آجائے گا، یہ سوچ بھی صحیح نہیں ہے کل کا رزق آج کی کوشش سے ملے گا، کل کے لیے آج کوشش کریں، غم نہیں۔

306۔ دوستی و دشمنی میں توازن

اَحْبِبْ حَبِيبَكَ هَوْنًا مَا عَسٰى اَنْ يَكُوْنَ بَغِيضَكَ يَوْمًا مَا وَ اَبْغِضْ بَغِيْضَكَ هَوْنًا مَا عَسٰى اَنْ يَكُوْنَ حَبِيْبَكَ يَوْمًا مَا۔ (حکمت 268)
اپنے دوست سےبس ایک حد تک محبت کرو ، شاید کسی دن وہ تمہارہ دشمن ہو جائے، اور دشمن کی دشمنی بس ایک حد میں رکھو، ہو سکتا ہے کسی دن وہ تمہارا دوست ہو جائے۔

انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ اور تغیر و تبدل آتے رہتے ہیں۔ دشمنیاں دوستی اور دوستیاں عداوت و دشمنی میں بدلتی رہتی ہیں۔ یہ حقیقی دوستی کی بات ہے ورنہ بہت سی دوستیاں تو حقیقت میں دوستیاں ہوتی ہی نہیں بلکہ مفاد پرستیاں ہوتی ہیں۔ شاعری میں دوستوں کی بے وفائی ایک عام موضوع ہے جو بناوٹی اورحقیقی دونوں قسم کے دوستوں کے لیےبیان کی جاتی ہے۔ امیرالمومنینؑ نے جہاں بار ہا دوستی کی اہمیت کو بیان فرمایا وہاں دوستی اور دشمنی کی حدود کو بھی بیان فرمایاہے: دوستی کی حد یہ ہے کہ آپ زندگی کے فقط وہ پہلو دوست کو بتائیں جو آپ کے دشمن کو بھی معلوم ہو جائیں تو آپ کی زندگی میں پریشانی نہ آئے اور کبھی یہی دوست دشمن بن جائے تو آپ کومشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ دوستی کے وقت سب راز بتا دیے جاتے ہیں اور جب اختلاف ہوتا ہےتو یہی راز آج کی زبان میں بلیک میلنگ کا سبب بنتے ہیں اور زندگیاں برباد کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس لیے دوستی میں حد رہے گی تو بلیک میلنگ سے محفوظ رہا جا سکے گا۔ اسی طرح زمانہ رخ بدل سکتا ہے اور دشمن بھی قریب آ سکتا ہے اور دشمنی دوستی میں بدل سکتی ہے مگر دشمنی کے وقت حد نہ رکھی گئی تو یا کل کا دشمن قریب نہ آ سکے گا اور اگر دوست بن بھی گیا تو ہمیشہ ماضی یاد آنے پر شرمساری ہوگی۔
دوستوں کی بے وفائی کے اکثر گلے کا سبب دوستی کی حدود ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے ہوتے ہیں اور حد سے زیادہ اعتماد اور بھروسے کی بنا پر ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دوستی نبھانے کے بھی طریقے ہیں اور دشمنی کرنے کے بھی ڈھنگ ہوتے ہیں۔ آپؑ انہی کو دوستی و دشمنی کی حد اعتدال سے تعبیر فرما رہے ہیں۔

307۔ علم و یقین

لَا تَجْعَلُوْا عِلْمَكُمْ جَهْلًا وَ يَقِيْنَكُمْ شَكًّا اِذَا عَلِمْتُمْ فَاعْمَلُوا وَ اِذَا تَيَقَّنْتُمْ فاََقْدِمُوْا۔ (حکمت 274)
اپنے علم کو جہل اور یقین کو شک نہ بناؤ۔ جب جان لو تو عمل کرو اور جب یقین پیدا ہو جائے تو قدم بڑھاؤ۔

علم و یقین کا تقاضا یہ ہے کہ اُس کے مطابق عمل کیا جائے اور اگر اس کے مطابق عمل نہیں تو حقیقت میں یہ جہالت ہے بلکہ جہالت سے بھی بدتر ہے چونکہ جاہل کے پاس عذر ہوگا مگر علم کے با وجود عمل نہ کرنے پر کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔ اسی طرح اگر یقین ہے مگر اس کے مطابق قدم نہیں اٹھایا جاتا تو وہ یقین حقیقت میں شک کے مانند ہے بلکہ شک سے بھی پست ہے۔امیرالمومنینؑ یہی فرماتے ہیں کہ اپنے علم کو جہالت اور یقین کو شک نہ بناؤ بلکہ علم و یقین کے مطابق عمل کرو تاکہ تمھارے علم و یقین کی تصدیق ہو۔ علم ویقین کی اصالت کردار و عمل سے ہوگی۔اس لئے امامؑ نے فرمایاکہ جب علم حاصل ہو تو عمل کرو یقین حاصل ہو تو قدم بڑھاؤ۔ اس فرمان میں درحقیقت عالم بے عمل کی مذمت ہے اور عمل نہ کرنے پر اسے جاہل قرار دیا۔ جیسا کہ قرآن مجید نے حقائق نہ سمجھنے والوں کو آنکھ اور کان رکھنے کے با وجود اندھا اوربہرہ کہاہے۔دوسرا یہ کہ بہت سے لوگ اپنی زندگی علم و یقین کے حصول میں صرف کر دیتے ہیں اور عمل کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اس لیے جو جانتے ہو اس پر عمل کرو۔ گویا علم پر عمل کی اہمیت کو روشن کیا جا رہا ہے۔ علم کی بہت اہمیت ہے مگر حقیقی علم وہی ہے جس کا اثر عمل و کردار میں نظر آئے۔ جب معلوم ہے کہ انسانیت کمال تک تب پہنچتی ہے جب کوئی انسانیت کی خدمت کرے پھر بھی انسان انسانیت کی خدمت نہ کرے تو گویا اُسے انسانیت کی خدمت کی اہمیت ہی نہیں معلوم۔

308۔ ظاہر و باطن

اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ تُحَسِّنَ فِيْ لَامِعَةِ الْعُيُوْنِ (حکمت 276)
خدایا میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ میرا ظاہر لوگوں کی ظاہر بین آنکھوں میں بہتر ہو اور جو میں باطن میں چھپائے ہوئے ہوں، وہ تیری نظروں میں برا ہو۔

انسان کے اعمال کا گہرا تعلق اس کی نیت اور سوچ سے ہے۔ عمل کا معیار بھی اسی سوچ کے مطابق بنتا ہے۔ اگر ایک شخص کام کو خلوص کے ساتھ انجام دے رہا ہے، جو ظاہر کر رہا ہے وہی حقیقت و باطن ہے تو وہ عمل باعث عزت و اجر ہوگا ۔ اگر انسان کسی کی خدمت کر رہا ہے، مدد کر رہا ہے اور اس کے ذہن میں یہ ہے کہ اس طرح میری شہرت ہوگی، لوگ مجھے اچھا کہیں گے یا مثلاً بعض اوقات لوگوں سے داد یا ووٹ لینا چاہتا ہے، اس لیے خدمت خلق کر رہا ہے تو یہ عمل ریا اور دکھاوا کہلائے گا اور اخلاقیات میں یہ بہت قابل نفرت کردار ہے۔ اسے منافقت کہا جائے گا یعنی اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ۔ لوگ ریا اور دکھاوا کر کے اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں جبکہ ریا کار کی حقیقت جلد واضح ہو جاتی ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی نے دکھاوے کے لیے عمل انجام دیا، کسی پر احسان کیا، اس نے شکر گزاری نہیں کی تو ناراض ہو جاتا ہے۔کبھی یوں ہوتا ہے کہ جس مقصد کے لیے دکھاوا کر رہا تھا وہ مقصد حاصل ہو گیا تو اس کا کردار بدل جاتاہے اور لوگ نئے کردار کو دیکھ کر محبت کرنے کے بجائے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اس لیے جو شخص لوگوں میں عزت چاہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اجر چاہتا ہے تو اس کا ظاہر و باطن ایک ہونا چاہیے۔ اس فرمان میں آپ ؑاخلاص ہی کی دعا مانگ رہے ہیں اور اخلاص ہی اعمال کو زینت بخشتا ہے۔

309۔ ثابت قدمی

قَلِيْلٌ تَدُوْمُ عَلَيْهِ اَرْجٰى مِنْ كَثِيْرٍ مَمْلُوْلٍ مِنْهُ۔ (حکمت 278)
وہ تھوڑا عمل جو پابندی سے بجا لایا جائے اُس کثیر عمل سے زیادہ مفید ہے جس سے دل اُکتا جائے۔

انسانی زندگی میں استقلال و ثابت قدمی کا اہم کردار ہے۔ جو لوگ کسی کام کے فوائد و نقصانات کو سمجھ کر اور اپنی طاقت و استعداد کو دیکھ کر کام شروع کرتے ہیں وہ مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں اور جو لوگ کسی کام کی اہمیت و فوائد سنتے ہیں اور اپنی استطاعت و قوت کو جانچے بغیر اور کسی منصوبہ و ترتیب کو مد نظر رکھے بغیر تیزی سے وہ کام شروع کر دیتے ہیں،شروع میں ہی ایک ساتھ بڑی مقدار میں کام انجام دیتے ہیں اور پھر ان کی طاقت جواب دے جاتی ہے یا دلچسپی ختم ہو جاتی اور تھک کر کام ادھورا چھوڑ دیتے ہیں۔ یا بد دلی کی وجہ سے اس کی رفتار اتنی کم کر دیتے ہیں کہ وہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اگر اسی کام کو سوچ بچار کے ساتھ اور منظّم طریقے سے آہستہ آہستہ انجام دیتے تو یہ کام دیر سے سہی مگر مکمل ہوتا۔والدین یا اساتذہ اکثر یہی غلطی اپنے بچوں یا شاگردوں کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔مختصر سے وقت میں وہ بہت سا کام ان سے لینا چاہتے ہیں وہ شاید چند دن تو برداشت کر لیں مگر مستقل طور پر کام کو جاری نہیں رکھ سکتے اور تھک کر اسے ترک کر دیتے ہیں۔امیرالمومنینؑ نے یہاں استقلال سے تھوڑے کام کو اس کام پر ترجیح دی ہے جو اُکتاہٹ کا سبب بنے۔

310۔ سفر کی تیاری

مَنْ تَذَكَّرَ بُعْدَ السَّفَرِ اسْتَعَدَّ۔ (حکمت 280)
جو سفر کی دوری کو پیش نظر رکھتا ہے وہ کمر بستہ و آمادہ رہتا ہے۔

زندگی ایک طویل سفر ہے اور اس مسافر کی منزل خدا ہے۔ اب جن کی منزل و مقصود بلند ہے ان کے سفر کٹھن اور دور کے ہوتے ہیں، لمبے سفروں میں مشکلات اور رکاوٹیں زیادہ ہوتی ہیں۔ اور ایسے سفر کے لئے راہ کا خرچ اور تیاری زیادہ کرنی ہوتی ہے۔ امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں کہ جو یہ جان لے کہ میرا سفر طویل ہے وہ اس مسافت کے اعتبار سے تیاری کرتا ہے، اس کے لئے ہمراہی بھی ایسے تلاش کرتا ہے جو اسی منزل کے راہی ہوں۔زندگی کے طولانی سفر میں کئی موڑ، بے شمار رکاوٹیں اور کتنی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے مگر مسافر تیار ہو تو صبر و حوصلہ سے ان رکاوٹوں کو عبور کر جاتا ہے۔ طویل سفروں میں کئی مسافر بیٹھ جاتے ہیں، بہت سے تھک کر گر جاتے ہیں، منزل سے مایوس ہو جاتے ہیں، اس حالت میں کامیاب شخص وہ ہے جو نہ فقط خود سفر جاری رکھتا ہے بلکہ راہ میں تھک جانے والوں کو سہارا دے کر منزل کی طرف لے جانے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور ان کے لئے رہنما بن جاتا ہے۔ تھک کر بیٹھ جانے والوں میں امید پیدا کرنا یہ اس کی کامیابی و کامرانی ہوتی ہے اور دوسروں کے لیے سفر جاری رکھنے کے لیے اپنا کندھا پیش کرنا ہی اس کی قوت کی نشانی ہے البتہ بلند منزلوں والے لوگ جتنی مدت بھی راہ میں گزار دیں راہ کو راہ سمجھتے ہیں، منزل نہیں، خود کو مسافر جانتے ہیں مقیم نہیں۔ ایسے ہی پختہ ارادے والے لوگ منزل کو پائیں گے۔

311۔ پیٹ کی حکومت

كَانَ لِيْ فِيْمَا مَضٰى اَخٌ فِي اللَّهِ، وَ كَانَ يُعْظِمُهٗ فِيْ عَيْنِيْ صِغَرُ الدُّنْيَا فِيْ عَيْنِهٖ، وَ كَانَ خَارِجًا مِنْ سُلْطَانِ بَطْنِهٖ۔ (حکمت 289)
زمانہ گزشتہ میں راہ خدمت میں میرا ایک بھائی تھا جو پیٹ کی حکمرانی سے آزاد تھا۔

اولیاء اللہ کی محبت بھی اللہ کے لیے ہوتی ہے اور کسی سے دوری بھی اللہ ہی کی خاطر۔ کسی حقیقی ولی کامحبوب بھی یقیناً با کمال اور صاحب عظمت ہوگا۔ اس فرمان میں امیرالمؤمنینؑ اپنے کسی محبوب کا ذکر فرماتے ہیں۔ اس کا نام نہیں لیااس کے اوصاف بیان فرمائے ہیں اور اسے اپنا بھائی کہاہے۔ وہ کون سے عظیم اوصاف ہیں جو کسی کو علیؑ کے بھائی چارے کے لائق بنا دیتے ہیں، ان میں سے پہلی تعریف یہ بیان فرمائی کہ میری نظر میں وہ اس وجہ سے با عزت تھا چونکہ دنیا اس کی نگاہوں میں پست و حقیر تھی ۔دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ پیٹ کی حکمرانی سے آزاد تھا۔ پیٹ کی حکمرانی آپ کا بہت خوبصورت جملہ ہے یعنی کھانے کی خاطر خود کو کسی کا غلام نہیں بناتا تھا۔ کچھ لوگ اپنا پیٹ بھرنے کی خاطر یوں مشغول ہو جاتے ہیں کہ دوسروں کی بھوک پیاس انہیں یاد نہیں رہتی جبکہ امیرالمؤمنینؑ وصیت 45 میں فرماتے ہیں کہ کیا یہ بیماری کم ہے کہ میں پیٹ بھر کر کھا لوں اور میرے اردگرد بھوکے پیٹ ایک ایک لقمے کو ترس رہے ہوں۔ ایک ساتھی سے فرماتے ہیں کہ جو لقمہ کھاتے ہواسے اچھی طرح دیکھ لیا کرو، جس لقمے کے متعلق شبہ ہو اسے چھوڑ دیا کرو اور جس کے پاک پاکیزہ طریقے سے حاصل ہونے کا یقین ہو اسےکھایا کرو۔
اپنا پیٹ بھرنے کی تمنا حیوانوں کی عادت ہے، دوسروں کے پیٹ بھرنے کا سوچنا یہ انسان کا کمال ہے۔ کسی حکیم نے کیا خوبصورت جملہ کہا کہ ہم جینے کے لیے کھاتے ہیں کھانے کے لیے نہیں جیتے۔ اگر علیؑ سے بھائی چارہ قائم کرنا ہے تو پیٹ کی حکومت سے آزاد ہو کر اسے عادی کرنا پڑے گا کہ ایک روٹی اور نمک زندگی کی خوراک بن جائے اور پیٹ پر اور دل پر اللہ کی حکومت قائم ہو۔

312۔ کچھ ہی سہی

فَاعْلَمُوْا اَنَّ اَخْذَ الْقَلِيْلِ خَيْرٌ مِنْ تَرْكِ الْكَثِيْرِ۔ (حکمت 289)
واضح رہے کہ تھوڑی سی چیز حاصل کر لینا پورے کو چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔

ایک حقیقی رہبر و راہنما اپنی پوری کوشش کرتا ہے کہ اپنے ما تحت افراد کو بھی راہ کمال تک پہنچائے۔ امیرالمؤمنینؑ نے اس فرمان میں سب سے پہلے بھائی کہہ کر ان گیارہ اوصاف کے حامل کی تعریف کی۔ یعنی صاحب فضیلت کی تعریف کر کے دوسروں کو فضائل کے حصول کی تشویق کی۔ پھر گیارہ صفات بیان کیں اور انہیں اپنانے کی اور سیکھنے کی تاکید فرمائی مثلاً ایک وصف یہ بیان فرمایا کہ وہ بھائی بولنے سے زیادہ سننے کا خواہش مند رہتا تھا۔ اس صفت میں واضح فرمایا کہ ہر صاحب فضیلت و سعادت سننے کی خواہش رکھتا تھا اس لیے کہ سننا سیکھنے کا بہترین ذریعہ ہے اس لیے جو سیکھنے کے طلب گار ہوتے ہیں وہ سننے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس دستور العمل کے آخر میں آپ فرماتے ہیں کہ ان فضائل و اوصاف کو حاصل کرو، ان پر عمل کرو، ان کے خواہشمند رہو اگر ان تمام کو حاصل کرنا تمہاری قدرت و طاقت میں نہیں تو اس بات کو جان لو کہ تھوڑی سی چیز حاصل کرنا پوری کو چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔ اس آخری حصے میں امیرالمؤمنینؑ نے خصوصیت کے ساتھ بتلائے ہوئے اوصاف کے حصول کی ہمت بندھائی ہے۔ تمام صفات کو اپنا نہیں سکتے تو کچھ کو تو اپنا لو، ایک وصف کو مکمل نہیں تو اپنی طاقت کے مطابق کچھ اختیار کرلو اور آخری جملے میں فرمایاکہ سب نہیں تو کچھ تو پا لو گے۔ اکثر لوگ کسی بڑے کام کو خواہ مادی ہو یا معنوی شروع کرنے سے ڈرتے اور گھبراتے ہیں۔ سوچتے ہیں کہ بڑا مشکل ہے نہیں ہو سکے گا۔ حقیقی معلم یہاں ہمت بندھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سب نہ ملا تو کچھ تو ملے گا اور کچھ مل جائے تو وہ سب کو چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔ اس ہمت کے بعد اگر کوئی قدم اٹھاتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خوف برطرف ہو جاتا ہے، مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں اور کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ اگر کوئی ڈر سے قدم ہی نہ اٹھائے تو کچھ بھی حاصل نہیں کر سکے گا۔

313۔ شکر نعمت

لَوْ لَمْ يَتَوَعَّدِ اللهُ عَلٰی مَعْصِيَتِهٖ، لَكَانَ يَجِبُ اَلَّا يُعْصٰى شُكْرًا لِنِعَمِهٖ۔ (حکمت 290)
اگر خدا نے نا فرمانی کے عذاب سے نہ ڈرایا ہوتا تب بھی اس کی نعمتوں پر شکر کا تقاضا یہ تھا کہ اس کی معصیت و نا فرمانی نہ کی جائے۔

انسان کی جتنی معرفتِ پروردگار ہوتی ہے اسی معیار کا اس کا عمل ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اللہ کی نا فرمانی سے دوسرے لوگوں سے حیا کی وجہ سے پرہیز کرتے ہیں۔ کچھ اس کی جہنم کے خوف سے ایسا کرتے ہیں مگر امیرالمؤمنینؑ یہاں عقل کے ایک اہم مسئلے کو سامنے رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر عذاب درمیان میں نہ بھی ہوتا تو عطا کرنے والے کے شکریے کا تقاضا تھا کہ نا فرمانی نہ کی جائے۔ خود امیرالمؤمنینؑ ایک مقام پر فرماتے ہیں نعمت کا کم از کم حق یہ ہے کہ اسے اللہ کی مخالفت میں استعمال نہ کیا جائے۔ اس نعمت کو منعم و عطا کرنے والے کی اطاعت میں استعمال کیا جائے۔ جن کو ان نعمات سے محروم رکھا گیا ہے انھیں اللہ کی دی ہوئی نعمات سے فائدہ پہنچایا جائے۔ بقول کسی بزرگ کے ’’ دیے ہوئے سے دیا جائے‘‘نابینا کا ہاتھ تھام کر منزل تک پہنچانا آنکھوں جیسی نعمت کا حقیقی شکریہ ہے۔ فکری صلاحیت توفیق الہی اور نعمت پروردگار ہے اس سے دوسروں کی بہتری کا سوچیں اور اپنے وقت کو دوسروں کی زندگیاں سنوارنے کے لیے استعمال کریں۔

314۔ عبرت

مَا اَكْثَرَ الْعِبَرَ وَ اَقَلَّ الْاِعْتِبَارَ۔ (حکمت 297)
عبرتیں کتنی زیادہ ہیں اور اُن سے سیکھنے والے کتنے کم ہیں۔

زندگی کے حقائق تاریخ کے اوراق، عالی شان محلوں کے کھنڈرات اور قبروں کی خاموشی سے واضح ہوتے ہے۔ ایک شخص کل کیا تھا اور آج کیا ہے ایسی سوچ انسان کے لیے وعظ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان واقعات و قصص سے صاحبان عقل جو درس و نصیحت لیتے ہیں وہ عبرت کہلاتا ہے۔ قرآن مجید قصوں کو بیان کر کے فرماتا ہے: صاحبان عقل و بصیرت کے لیے ان میں عبرتیں اور نصیحتیں ہیں۔
امیرالمومنینؑ تاکید فرماتے ہیں کہ یہ عبرتیں تو ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں مگر ان سے سیکھنے والے بہت کم ہیں۔ گویا امام علیؑ انسانی زندگی کی بہتری کے لئے ان عبرتوں سے سیکھنے کو بہت اہم سمجھتے ہیں اور کامیاب زندگی سب تجربات خود کرنے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ کامیاب زندگی گزار کر چلے جانے والوں کے تجربوں سے استفادہ بھی لازمی ہے۔ البتہ جہالت و خواہشات ان اسباق کے حصول میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔دنیا کی محبت اور اس کا نشہ حقائق کے دیکھنے سے غافل کر دیتا ہے ۔
انسان اگر عبرت حاصل کرنا چاہے تو ہمارے سامنے موجود ہر ایک شی قابل عبرت ہے۔ ہوا میں زرد رنگ کا اڑتا ہوا پتہ، جو کبھی درخت کی زینت تھا، دوسروں کے سر پر سایہ تھا، درخت سے جڑا ہوا ہونے وجہ سے آندھیوں کا مقابلہ کر لیتا تھا آج اپنی اصل سے الگ ہوا تو لوگوں کے پاؤں تلے پامال ہو رہا ہے اور ہلکی سی ہوا بھی اُسے اِدھر سے اُدھر اڑا کر لے جا رہی ہے۔ انسان کی زندگی یوں ہی بدلتی رہتی ہے۔ اس لیے کامیاب لوگ اصل سے خود کو جوڑ کر رکھتے ہیں اور یُوں طوفانوں کا مقابلہ کر لیتے ہیں۔

315۔ مسکین اللہ کا نمائندہ

اِنَّ الْمِسْكِيْنَ رَسُولُ اللهِ فَمَنْ مَنَعَهٗ فَقَدْ مَنَعَ اللَّهَ وَ مَنْ اَعْطَاهُ فَقَدْ أَعْطَى اللَّهَ۔ (حکمت 304)
غریب و مسکین اللہ کا بھیجا ہوا ہوتا ہے جس نے اس سے اپنا ہاتھ روکا اس نے خدا سے ہاتھ روکا اور جس نے اسے کچھ دیا اس نے خدا کو دیا۔

انسان غربت و فقر کے امتحان سے دو چار ہو تو بہت سے قریبی اسے دور کر دیتے ہیں۔ اپنے پرائے بن جاتے ہیں اور سب اسے گھٹیا سمجھنے لگتے ہیں۔ اس فرمان میں امیرالمؤمنینؑؑ نے مال سے محروم انسان کی جو عظمت بیان کی وہ آپؑ ہی بیان کر سکتے ہیں اور یہ بھی اس سے واضح ہوتا ہے کہ انسانیت ہر حال میں عظیم ہے۔ دولت و فقر کے بدلنے سے اس کا مقام و مرتبہ نہیں بدلنا چاہیے۔ آپؑ نے غریب و مسکین کو اللہ تعالیٰ کا رسول یعنی بھیجا ہوا قرار دیا۔ گویا جس نےاسے نہ دیا اس نے ایک انسان کا ہاتھ خالی نہیں پلٹایا بلکہ اللہ تعالیٰ کو خالی پلٹایا ہے اور جس نے مسکین کے ہاتھ کو اہمیت دی اور اپنی استطاعت و توفیق کے مطابق اسے دیا گویا اس نے بندے کو نہیں اس کے خالق کو دیا۔ ایک غریب و مسکین کے ہاتھ کی اس اہمیت کو کوئی جان لے تو کبھی کسی ضرورت مند کو نہ جھٹرکے گا بلکہ ضرورت مند کے ہاتھ کو تھامے گااور یہی سمجھے گا کہ اس نے گویا اللہ کے ہاتھ کو تھاما۔ یہ انسانی ہاتھ کا مقام ہے اور ضرورت و حاجت کسی قسم کی بھی ہو سکتی ہے۔اگر غریب و مسکین اپنے اس مقام کو سمجھے تو وہ ہر کسی کے سامنے اپنا یہ عظیم ہاتھ پھیلائے گا ہی نہیں اور اگر کبھی زمانہ اسے واقعا مجبور کر دے تو کوئی اسے خالی نہیں پلٹائے گا اور دونوں طرف کا یہ عمل انسان کی زندگی کی زینت بن جائے گا اور انسانیت کا وقار بلند ہوگا۔
اس فرمان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فقیر و مسکین کی عزت کو کم نہ سمجھیں، اس کی ہلکی سی بھی اہانت نہ ہو۔ اگر آپ مدد کرتے ہیں تو اس کا احترام مدنظر رہے اور کچھ نہ دے سکیں تو معذرت ضرور کریں۔ اللہ سبحانہ نے قرآن مجید میں اسی دینے کو اللہ تعالیٰ کے لیے قرض سے تعبیر کیاہے۔ امام سجاد ؑجب کسی فقیر کو کچھ دیتے تھے تو اس کا ہاتھ چومتے تھے۔

316۔ موت محافظ

كَفٰى بِالْاَجَلِ حَارِسًا۔ (حکمت 306)
موت سے بہتر کوئی محافظ نہیں ہے۔

انسان کے ذہن میں جب کوئی شدید خوف پیدا ہوتا ہے تو اس کی عقل آزادی سے کچھ سوچ نہیں سکتی۔ مثلاً کچھ لوگوں کے ذہن میں کاروبار میں گھاٹے کا خوف پیدا ہوتا ہے تو اس خوف کی وجہ سے کاروبار کرتے ہی نہیں یا کرتے ہیں تو یہی خوف ان کے گھاٹے کا سبب بن جاتا ہے۔ بہت سے ذہین اور محنتی طالب علم دیکھے ہیں جن کے ذہن میں امتحان میں ناکامی کا خوف یوں سرایت کر جاتا ہے کہ وہ کمرہ امتحان میں سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے انسانوں کے دماغ میں موت کا خوف چھایا رہتا ہے اور اس خوف کی وجہ سے وہ زندگی کے کسی بڑے فیصلے کی قوت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ امیر المؤمنینؑ اس فرمان میں زندگی کی مشکلات و حوادث پر خوف زدہ ہونے کے بجائے صبر و شجاعت کی ترغیب دے رہے ہیں۔ہر کسی نے ایک ہی دن مرنا ہے، بار بار نہیں اور جس دن مرنا ہے وہ دن ٹل بھی نہیں سکتا، ڈرنے سے زندگی بڑھ جائے گی نہ موت ٹل جائے گی تو کیوں نہ زندگی کو اطمینان و سکون سے گزاریں۔امام حسنؑ فرماتے ہیں کہ دنیا میں زندہ رہو تو یوں کہ ہمیشہ رہنا ہے اور آخرت کے لئے تیار رہو تو ایسے جیسے ابھی جانا ہے، یعنی یہ نہیں کہ مرنے کے خیال سے سب کچھ چھوڑ کر بیٹھ جائیں، یوں توزندگی برباد ہوجاتی ہے۔با کمال لوگ زندگی میں اپنے لیے بھی جیتے ہیں اور اس زندگی کو اختتام نہیں سمجھتے بلکہ اس زندگی میں دوسروں کے لیے ایسی اچھائیوں کی بنیاد رکھ جاتے ہیں جو انھیں زندہ جاوید بنا دیتی ہے۔ ایسے لوگ سکون سے زندہ رہتے ہیں اور جو سکون سے زندگی گزارتے ہیں وہ زندگی میں بڑے بڑے کام کر جاتے ہیں اور اپنی پر سکون زندگی سے دوسروں کی پریشان زندگیوں کو بھی پر سکون بنا دیتے ہیں۔ اگر چھوٹے چھوٹے حادثات کے خوف سے انسان سہم جائے تو زندگی رک جاتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ فرمان اپنی جان کی حفاظت سے نہیں روک رہا اور نہ ہلاکت میں کود پڑنے کی ترغیب ہے بلکہ ہر وقت کے موت کے خوف سے نجات دلائی جا رہی ہے ۔اس فرمان کے تحت لکھا گیاہے کہ لاکھ آسمان کی بجلیاں کڑکیں، حوادث کے طوفان آئیں، زمین میں زلزلے آئیں اور پہاڑ آپس میں ٹکراجائیں اگر زندگی باقی رہے تو موت کے ایک مقررہ وقت تک کوئی چیز سلسلہ حیات کو ختم نہیں کر سکتی اس لحاظ سے بلاشبہ موت خود زندگی کی محافظ و نگہبان ہے۔
موت کہتے ہیں جسے ہے پاسبان زندگی۔

317۔ کامیابی کا معیار

مَا ظَفِرَ مَنْ ظَفِرَ الْاِثْمُ بِهٖ وَ الْغَالِبُ بِالشَّرِّ مَغْلُوبٌ۔ (حکمت 327)
جو گناہ سے کامیاب ہوتا ہے وہ کامیاب نہیں ہے اور جو ظلم و شر سے غالب آئے وہ حقیقت میں مغلوب ہے۔

ہر انسان خود کو کامیاب اور فاتح بنانا چاہتا ہے۔ اپنی کامیابی و فتح کے لئے ہر وسیلہ و ذریعہ استعمال کرتا ہے۔ کوئی کامیاب تاجر بننا چاہتا ہے تووہ یہ نہیں سوچتا کہ میری آمدنی کے بڑھنے سے کسی سےلقمہ تو نہیں چھینا جا رہااور حکومت و سلطنت کا طالب یہ نہیں سوچتا کہ کامیابی کے لیے حصول کے لئے کسی کا ناحق خون تو نہیں بہایا جا رہا۔ اگر اس قسم کے وسائل استعمال کر کے اپنی کامیابی کی خواہش کو پورا کیا گیا تو یہ کامیابی نہیں بلکہ یہ اس ظلم و گناہ کی کامیابی ہے جسے اس نے استعمال کیا۔ شر و فساد سے اور لاکھوں جانوں کے قتل اور خون کا دریا بہنے سے کوئی غالب آگیا یہ غلبہ نہیں بلکہ انسان ہونے کے ناتے وہ شکست کھا گیا اور حقیقت میں خواہشوں سے مغلوب ہو گیا۔ حقیقت میں کامیاب وہ نہیں جو لوگوں کے جسموں کو غلام بنا لے اور اسیر کرلے بلکہ کامیاب وہ ہوگا جو ایسے ذرائع استعمال کرے جن سے لوگوں کے دلوں کو جیت لے اور انھیں اپنا بنا لے۔ لوگوں کے دل اسلحہ و بارود سے نہیں احسان اور بھلائی سے غلام بنائے جا سکتے ہیں۔ با کمال لوگ اپنے بلند اہداف ہی کو مد نظر نہیں رکھتے بلکہ ان اہداف تک پہنچنے کے ذرائع بھی خلاف انسانیت نہیں ہونے چاہئیں، تب وہ کامیاب کہلاتے ہیں۔ جھوٹ اور ظلم سے ظاہری مقصد حاصل ہو بھی گیا تو حقیقت میں وہ شکست کھا گیا۔ امیرالمومنینؑ ایک مقام پر فرماتے ہیں ’’کیا میں ظلم کر کے نصرت و کامیابی حاصل کروں ،نہیں ہرگز نہیں۔‘‘

318۔ عذر سے بے نیازی

اَلْاِسْتِغْنَاءُ عَنِ الْعُذْرِ اَعَزُّ مِنَ الصِّدْقِ بِهٖ۔ (حکمت 329)
سچا عذر پیش کرنے سے زیادہ بہتر ہے کہ عذر کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

انسان سے زندگی میں کئی بار غلطیاں ہوتی ہیں۔ کسی کو غلطی کا بعد میں احساس ہوتا ہے اور کچھ کو تو احساس بھی نہیں ہوتا۔ جنھیں غلطی کا احساس ہوتا ہے وہ اس پر معذرت کرتا ہے اور یہ معذرت بھی ہمت چاہتی ہے اور ایک اچھا عمل ہے۔ امیرالمومنینؑ ؑانسان کو اس سے بھی بلند اور با ہمت دیکھنا چاہتے ہیں اور اس فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ معذرت میں بھی ایک احساس ندامت و ذلت ہوتا ہے اس لئے انسان کو کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی ایسا کام ہی نہ کرے جس پر اسے سچی معذرت کرنی پڑے۔سچی معذرت یعنی انسان نے سوچ بچار نہیں کی یا جلد بازی کی یا کسی مشکل میں گھر گیا مثلا کسی سے وعدہ کیا اور واقعا بھول گیا تو اس وعدہ پورا نہ کرنے پر جو معذرت ہوگی وہ سچی معذرت ہوگی۔مگرکچھ لوگوں کی عادت بن جاتی ہے کہ غلطی کی اور پھر معذرت کرلی، وہ جان بوجھ کر غلطیاں کیے جاتے ہیں اور پھر اس عادت ہی کے طور پر معذرت کر لیتے ہیں۔ کسی سے وعدہ کیا اور جان بوجھ کر پورا نہیں کیا اور معذرت کی تو یہ جھوٹی معذرت ہوگی۔ امیرالمومنینؑ نے فرمایاکہ ایسا کام نہ کرو کہ سچی معذرت بھی کرنی پڑے، یہ خود آپ کی ایک کمزوری ہے۔ وہ بات نہ کہو جس پر معذرت کرنی پڑے اس جگہ نہ جائیں جہاں جانے پر معذرت کرنی پڑے۔

319۔ اللہ کا حق

اَقَلُّ مَا يَلْزَمُكُمْ لِلّٰهِ اَلَّا تَسْتَعِينُوْا بِنِعَمِهٖ عَلٰی مَعَاصِيهِ۔ (حکمت 330)
اللہ کا کم سے کم حق جو تم پر عائد ہوتا ہے یہ ہے کہ اس کی نعمتوں سے گناہوں میں مدد نہ لو۔

انسان کو کمال کی راہیں بتانے کے لیے اور اس کے اندر کی سوئی ہوئی شرافت و فضلیت کو جگانے کے لئے یہ عظیم فرمان ہے۔ اس میں عظیم سبق یہ ہے کہ انسان جو خطا بھی کرے سوچ لے وہ آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پاؤں، فکر، طاقت و قدرت جس سے بھی کرے گا یہ سب تو اللہ نے دی ہیں پھر اسے چاہیے کہ اللہ کی مخالفت میں انھیں استعمال نہ کرے اور اس کی معصیت و مخالفت سے خود کو دور رکھے۔دوسرا سبق یہ ہے کہ اگرانسان کومال، مقام، اولاداور ہمت ملی ہے تو اللہ کے جو بندے اس سے محروم ہیں انھیں حقیر نہ سمجھے، ان نعمات کو اللہ کی مخلوق کی خدمت کے لئے استعمال کرے۔ ان کے سامنے ان نعمات کی وجہ سے متکبر نہ بنے، دینے والے کو یاد کر کے متواضع رہے تاکہ اللہ کے فضل و انعام میں اضافہ ہوتارہے۔امیرالمومنینؑ ؑکے اس فرمان سے ہر محسن کے احسانات کو یاد رکھنے اور کم از کم اس کے احسانات کو اس کے خلاف استعمال نہ کرنے کا حکم واضح ہوتا ہے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس سے گھٹیا کوئی نہیں۔تاریخ میں ایسے کئی احسان فراموش ملتے ہیں کہ حکمران نے یا سربراہ نے انھیں سب کچھ دیا، جھنڈے ان کے، نوکر ان کے، سواریاں ان کی، جسم پر لباس ان کا اور ہاتھ میں اسلحہ بھی انہی کا دیا ہوا، مگر یہ سب کچھ اسی حاکم کے خلاف بغاوت میں استعمال ہوا۔ اس فرمان میں احسان فراموشی اور محسن کشی کی شدید مذمت ہے۔ اس فرمان میں کفران نعمت سے بھی منع کیا گیاہے اس فرمان کے حاشیے میں علامہ مفتی جعفر حسینؒ لکھتے ہیں:کفرانِ نعمت و ناسپاسی کے چند درجے ہیں:
پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان نعمت ہی کی تشخیص نہ کر سکے۔جیسے آنکھوں کی روشنی،زبان کی گویائی،کانوں کی شنوائی اور ہاتھپیروں کی حرکت۔یہ سب اللہ کی بخشی ہوئی نعمتیں ہیں ،مگر بہت سے لوگوں کو ان کے نعمت ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان میں شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہو۔
دوسرا درجہ یہ ہے کہنعمت کو دیکھے اور سمجھے،مگر اس کے مقابلہ میں شکر بجا نہ لائے۔
تیسرا درجہ یہ ہے کہ نعمت بخشنے والے کی مخالفت و نافرمانی کرے۔
چوتھا درجہ یہ ہے کہ اسی کی دی ہوئی نعمتوں کو اطاعت وبندگی میں صرف کرنے کے بجائے اس کی معصیت و نافرمانی میں صرف کرے۔یہ کفرانِ نعمت کا سب سے بڑا درجہ ہے۔

320۔ بے عملی

اَلدَّاعِىْ بِلَا عَمَلٍ كَالرَّامِىْ بِلَا وَتَرٍ۔ (حکمت 337)
بغیر عمل کے دوسروں کو دعوت دینے والا ایسا ہے جیسے بغیر چلہ کمان کے تیر چلانے والا۔

انسان کی زندگی کی پہلی کامیابی یہ ہے کہ وہ خود کو سنوار لے، زندگی کے کسی نہ کسی شعبے میں خود کو کمال تک پہنچائے۔ انسانیت کے اصولوں کو مکمل طور پر اپنائے۔ جب انسان خود کو کسی مقام پر پہنچا لیتا ہے تو اس کی کامیابی کی زکات یہ ہے کہ وہ دوسروں کی ترقی اور بہتری کا سوچے۔ جیسے خود کا سنوارنا زندگی کا فریضہ ہے دوسروں کا ہاتھ تھام کر انھیں منزل تک پہنچانا بھی ویسے ہی لازمی ہے۔ قرآن مجید نے واضح فرمایا کہ گھاٹے سے وہی انسان بچے گا جو خود کی اصلاح کر کے دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے اور سچائی و صبر کی وصیت کرتا ہے۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں دوسرے مرحلے کی اہمیت بھی بتائی ہے اور اس اصلاح کی کوشش کا ایک اہم اصول بھی واضح فرمایا کہ دوسروں کو بُلانا ہے تو مہم طریقہ عمل کے ذریعے بُلانا ہے۔ اگر کسی کا اپنا عمل صحیح نہ ہوگا اور وہ دوسروں کو دعوت دے گا تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اس فرمان میں ماں باپ کی صورت میں مربّی ہوں یا استاذ ومذہبی مبلّغ ہوں یا دنیاوی امور کی طرف راہنمائی کرنے والے ،سب کی بات کو تہ دل سے اسی صورت میں قبول کیا جائے گاجب وہ خود اس شعبہ میں متخصص و کامیاب ہوں گے۔ فقیر اگر اقتصادیات کا درس دینا شروع کر دے تو کوئی نہیں سنے گا اور ماں باپ اگر خود زندگی میں منظم نہیں ہوں گے تو نظم کی نصیحتیں اولاد پر اثر نہیں کریں گی۔ استاد اگر خود وقت کا پابند نہیں ہوگا تو شاگرد وقت کے بارے میں استاد کی تاکید قبول نہیں کریں گے۔
امیرالمومنینؑ خود نہج البلاغہ میں ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم میں تمھیں کسی اطاعت کا حکم نہیں دیتا جب تک تم سے پہلے اسے خود انجام نہیں دیتا اور کسی شے سے نہیں روکتا جب تک خود اس سے دور نہیں رہتا۔

321۔ پاک دامنی

الْعَفَافُ زِينَةُ الْفَقْرِ وَ الشُّكْرُ زِينَةُ الْغِنَى۔ (حکمت 340)
عفت و پاکدانی فقر کی زینت اور شکر دولت مندی کی زینت ہے۔

انسان کی زندگی میں اسے کبھی فقر کا سامنا ہوتا ہے اور کبھی عیش و عشرت میسر آتی ہے۔ ان دونوں متضاد حالتوں میں انسان خود کو کیسے عزت و آبرو سے رکھے اسےیہاں بیان کیا گیا ہے۔اگر کوئی شخص مال سے محروم ہے تو بھی اسے اپنی انسانیت کی فضیلت کی حفاظت کرنی ہے اور اس حفاظت کو امامؑ نے عفت سے تعبیر کیاہے یعنی خواہشات کا جو تقاضا ہوتا ہے عقل اس کی اجازت نہیں دیتی۔ خواہش کہتی ہے میرا وسیع دسترخوان ہو لیکن حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ عقل کہتی ہے خشک روٹی نصیب ہے تو اسی پر اکتفا کر لو، کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاؤ، حرام طریقے سے حاصل نہ کرو اور جہاں ضروریات پوری کرنے کے لیے کسی کے سامنے سوال کرنا ہی پڑے تو کسی شریف کو دیکھو اور کم سے کم پر خود کو مطمئن کر لو۔ دولت مند کے سامنے سر نہ جھکاؤ، اور اپنی ضروریات ہر کسی کو مت بتاتے پھرو۔یہی چیز عرف میں عفت کہلاتی ہے اور امیرالمومنینؑ نے اسی کو فقر کی زینت قرار دیا ہے ۔ قرآن مجید نے ایسے افراد کی تعریف کی ہے کہ ان کی عفت و خود داری کی وجہ سے لوگ انھیں غنی سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف جسے مال ملا ہے اس کی دولت مندی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی ضروریات کے مطابق خرچ کرے اور باقی میں دوسروں کو شامل کرے، بخل نہ کرے، غرور و تکبر میں مبتلا نہ ہو بلکہ امیرالمومنینؑ نہج البلاغہ میں ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ حقیقی سخاوت یہی ہے کہ سوال کرنے سے پہلے دیا جائے، سوال کرنے پر دینا تو شرمساری سے بچنے کے لیےہے۔ دولت ملے اور مخلوق خدا کی بہتری اوربھلائی کے لئے عملی قدم اٹھائے تو یہی شکر ہے اور اسی شکر کو آپ نے دولت کی زینت قرار دیا ہے۔ فقیر سوال نہ کرے اوردولت مند محتاج کے سوال کا انتظار نہ کرے تو یوں دونوں کے ذریعے سے انسانیت کو زینت ملے گی۔ فقیر فقر چھپائے امیر دینے کا فخر چھپائے یہی فقر و دولت کی زینت ہے۔علامہ اقبالؒ نے اس کا نسخہ یوں پیش کیاہے۔
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے

322۔ بڑی دولت مندی

اَلْغِنَى الْاَكْبَرُ الْيَاْسُ عَمَّا فِىْ اَيْدِى النَّاسِ۔ (حکمت 342)
سب سے بڑ ی دولت مندی یہ ہے کہ دوسروں کے ہاتھوں میں جو ہے اُس کی آس نہ رکھی جائے۔

انسان کی عظمت و فضیلت کی حفاظت کا یہ بہترین نسخہ و اصول ہے۔ جس کی نظر دوسروں کے مال و دولت پر ہوتی ہے وہ کبھی سیر نہیں ہوتا اور اگر پوری دنیا بھی اسے دے دی جائے تو آنکھوں کی حرص اسے مطمئن نہیں بیٹھنے دیتی۔ ایسے لوگ سب کچھ ہونے کے با وجود بخل کی وجہ سے کسی کو کچھ نہیں دیتے بلکہ کبھی تو خود بھی جی بھر کر اس دولت سے مستفید نہیں ہوتے۔ مزید کی یوں لالچ کرتے ہیں جیسے ان کے پاس کچھ ہے ہی نہیں۔ ان کے برخلاف وہ لوگ جن کے پاس اپنا مختصر سا مال ہے وہ اپنی سادہ زندگی پر مطمئن ہوتے ہیں۔ اور جو کچھ ان کے پاس ہے اس میں سے دوسروں کو بھی کھلاتے ہیں، یوں حریص بہت کچھ ہونے کے با وجود فقیر ہوتاہے اور فقیر کچھ نہ ہونے کے با وجود ذہنی طور پر پر امید ہوتا ہے۔ جہاں انسان غربت کے با وجود دوسروں کی دولت کی طرف مڑ کر نہیں دیکھتا اور یہ سمجھتا ہے کہ فقر و فاقہ جسم کی کمزوری کا سبب ہوتا ہے مگر کسی کی طرف حرص سے دیکھنا نفس میں ذلت و حقارت کا احساس پیدا کرتا ہے تو وہ جسم کے فاقہ کو دوسروں کی طرف حرص سے دیکھنے یا دست سوال دراز کرنے پر ترجیح دیتا ہے۔ اس فرمان کا مفہوم یہ ہوا کہ سب سے بڑا دولت مند وہ ہے جولوگوں کے ہاتھوں کے بجائے اللہ کے وعدوں پر بھروسا کرتا ہے۔اور اللہ کا دیا ہوا جو اس کے پاس ہے وہی سب سے بڑا سرمایہ ہے۔

323۔ خوشامد و حسد

اَلثَّنَاءُ بِاَكْثَرَ مِنَ الْاِسْتِحْقَاقِ مَلَقٌ وَ التَّقْصِيْرُ عَنِ الْاِسْتِحْقَاقِ عِيٌّ أَوْ حَسَدٌ۔ (حکمت 347)
کسی کو اُس کے حق سے زیادہ سراہنا خوشامد ہے اور جس تعریف کا حقدار ہے اُس میں کمی کوتاہ بیانی و حسد ہے۔

معاشرے میں اچھائیوں کی طرف راغب کرنے کا ایک ذریعہ اچھے کام کرنے والوں کی تعریف کرنا ہے۔ کوئی شخص اچھا کام کرتا ہے تو اس کی تعریف خود ایک اچھا اور پسندیدہ عمل ہے۔ اس طرح اچھائی کرنے والے کی تشویق ہوگی اور اس کی ہمت بڑھے گی کہ کار خیر کے قدردان موجود ہیں ور اس کے اچھائی کے جذبے میں اضافہ ہوگا اور اس راہ میں مشکلات کو برداشت کرنے کی طاقت پیدا ہوگی۔ دوسرا یہ کہ عام لوگ دیکھیں گے کہ اچھے کام کرنے والے اور نیک صفات لوگوں کی تعریف اور عزت ہوتی ہے تو انھیں بھی اچھے کاموں کا شوق پیدا ہوگا۔ اور یہی چیز معاشرے میں اچھائیوں میں اضافے کا سبب بنے گی۔ اس لیے آج کل اچھے کام کرنے والوں کو انعامات و القابات سے نوازا جاتا ہے اور ان کے اعزاز میں اجلاس اور کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں۔یہ معاشرے کی حق شناسی و جذبہ قدر دانی کی نشانی ہے۔ البتہ جو اچھے کام کرتے ہیں انھیں تعریف و توصیف اور انعام واکرام سے بالاتر ہو کر کام کرنے چاہئیں۔ ان کا مقصد خدمت ہوگا تو تعریف نہ کرنے یا بعض اوقات مذمت کرنے پربھی ان کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔ اگر کوئی کسی کے قابل تعریف و ستائش ہونے پر تعریف نہیں کرتا تو اُس نے کم ظرفی کا ثبوت دیا ہے۔ اب یہ تعریف نہ کرنا بعض اوقات اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اسے اچھے کام کی اہمیت کا احساس ہی نہیں یا خود تعریف کے اثر سے نا آشنا ہے یا پھر تعریف نہ کرنے کی وجہ حسد و کینہ ہوتی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں تعریف نہ کرنے والی کی مذمت کی گئی ہے۔ امیر المومنینؑ نے اس فرمان میں تعریف کی حدود بیان کی ہیں کہ نہ بڑھاؤ اور نہ گھٹاؤ۔ حد سے بڑھ کر تعریف کو خوشامد و چاپلوسی کہا ہے اور اس کے بہت سے نقصانات ہوتے ہیں۔ آدمی مغرور ہو جاتا ہے، ہر کسی سے تعریف کی امید رکھتا ہے اور اگر کسی عہدے پر ہے تو تعریف کو اپنا حق سمجھتا ہے اور تعریف نہ کرنے پر ما تحتوں سے نا انصافی کرتا ہے۔

324۔ بڑا گناہ

اَشَدُّ الذُّنُوْبِ مَا اسْتَهَانَ بِهٖ صَاحِبُهٗ۔ (حکمت 348)
سب سے سخت گناہ وہ ہے جسے انجام دینے والا معمولی سمجھے۔

انسان کی زندگی میں غلطی و خطا کا ہر وقت امکان رہتا ہے مگر شرافت انسانی کا تقاضا ہے کہ اس سے کوئی خطا سرزد ہو تو اسے گناہ و خطا سمجھے اور اس کی تلافی کرے۔ اگر انسان اس خطا و قصور کو معمولی اور ہلکا سمجھے گا تو نہ اس کی تلافی و معافی کا سوچے گا اور نہ آئندہ اس سے بچنے کی طرف متوجہ ہوگا۔ یوں چھوٹی چھوٹی خطاؤں کا ایک پہاڑ کھڑا ہو جائے گا۔ کسی کے بارے ایک نازیبا لفظ اس کا دل توڑ سکتا ہے۔ اگر کہنے والا اسے ایک لفظ سمجھ کر اپنی غلطی کا احساس نہیں کرے گا تو نہ معلوم ایسے الفاظ سے کتنوں کے دلوں کو دکھی کرے گا ۔ اس لیے کسی چھوٹی غلطی کو چھوٹا نہ سمجھیں بلکہ دیکھیں ایک چھوٹی سی دیا سلائی نے کتنی آگ بھڑکائی اور کتنے گھروں کو راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا۔ جن گناہوں کو انسان چھوٹا سمجھتا ہے وہ اُسے بڑے جرائم کا عادی بنا دیتے ہیں اور غلطیوں سے بے پرواہ کر دیتے ہیں۔ ماں نے گرم موسم میں پانی مانگا بیٹے نے چھوٹی سی بات سمجھ کر توجہ نہ کی تو یہ چھوٹی بات نہیں اس لیے کہ بڑی ہستی کی طلب کو معمولی سمجھا۔ اسی طرح اللہ نے کوئی حکم دیاہے اور ہم نے اسے چھوٹا سمجھا تو حقیقت میں اللہ کی عظمت کو مدنظر نہیں رکھا ۔ بندوں کے اکثر حقوق انھیں چھوٹا سمجھ کر ضائع کر دیے جاتے ہیں۔ حقیقت میں انسان کی خدمت ایک بڑا شرف اور فضیلت ہے۔ انسان اگر چھوٹی سی غلطی کو بھی بڑا سمجھے اور اپنے مقامِ انسانی سے کم تر سمجھے تو انسانی معاشرے میں بہت بہتری آ سکتی ہے۔

325۔ عیب جوئی کا علاج

مَنْ نَظَرَ فِى عَيْبِ نَفْسِهِ اشْتَغَلَ عَنْ عَيْبِ غَيْرِهٖ۔ (حکمت 349)
جو اپنے عیوب پر نظر رکھے گا اسے دوسرے کے عیب تلاش کرنے کی فرصت ہی نہیں ملے گی۔

ہر شخص میں کچھ کمزوریاں پائی جاتی ہیں، کچھ میں کم تو کچھ میں زیادہ۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ دوسروں کے عیب تلاش کرنے کے بجائے اپنے عیوب کی اصلاح کرے ۔ جو اپنی اصلاح کے در پے ہوتا ہے اسے دوسرے کے عیب تلاش کرنے کی فرصت ہی نہیں رہتی، فرصت ہو بھی تو اسے شرم آتی ہے کہ میرے اپنے اندر اتنے عیب ہیں، میں دوسروں کے عیب کی تلاش میں کیوں رہوں۔ یعنی عیب تلاش کرنے سے یا کسی کے عیب سامنے آئیں تو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے اور ہر کسی کو بتانے سے منع کیا گیا ہے۔ انسان دوسروں کی ہر غلطی شمار کرتا ہے جب کہ خود کو کامل سمجھتا ہے۔ اسے چاہیے کہ پہلے اپنی اصلاح کرے پھر دوسروں کی۔ امیر المؤمنینؑ ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ عقل مند ترین آدمی وہ ہے جو اپنے عیبوں پر نظر رکھتا ہے اور دوسروں کے عیبوں سے آنکھ بند رکھتا ہے۔بہادر شاہ ظفر نے اس مفہوم کو یوں پیش کیا:
نہ تھی حال کی جب اپنی ہمیں خبر،
پڑی اپنی برائیوں پر جونظر،

326۔ رضا

مَنْ رَضِيَ بِرِزْقِ اللّٰہِ لَمْ يَحْزَنْ عَلَى مَا فَاتَهٗ۔ (حکمت 349)
جو اللہ کے دیے ہوئے رزق پر راضی رہے گا وہ نہ ملنے والی چیز پر غمزدہ نہیں ہوگا۔

انسانی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ سکون ہے اور اس فرمان میں سکون کا سبب بیان فرمایا ہے۔رضا یعنی کسی کے فیصلوں پر مطمئن و خوش ہونا۔ اس کے فیصلے یا حکم پر دل میں کوئی اعتراض نہ کرنا۔ اس مقام رضا کو حاصل کرنے میں زحمات بھی اٹھانی پڑیں تو اس کی اہمیت مد نظر رکھتے ہوئے تکلیف برداشت کرنا۔ اب اگر کوئی اللہ کی نعمات و عطا پر جو اسے ملی ہیں مطمئن و راضی ہو جائے تو جو اسے نہیں ملا یا دے کر اس سے لے لیا گیاہے اس پر غمزدہ نہیں ہوگا کیونکہ اسے یقین ہے کہ میرا حصہ اتنا ہی تھا۔ملے تو خوش، نہ ملے تو بھی خوش چونکہ اس کے فیصلے پر راضی ہے۔ اب کوئی اللہ سے اس انداز میں راضی ہو تو اللہ بھی اس سے راضی اور یہ نفس مطمئنہ کا مصداق بن جائے گا جس نفس مطمئنہ کو دعوت دی گئی ہے کہ اپنے رب کی طرف لوٹ آؤ اس حالت میں کہ آپ اللہ سے راضی اور اللہ آپ سے راضی ۔ کچھ لوگوں کو بہت کچھ ملا ہوا ہوتا ہے مگر تھوڑا سا نہ ملنے پر غمگین رہتے ہیں۔ یعنی دیے جانے والی چیز پر مطمئن نہیں ہوتے اور نہ دی جانے والی کی فکرمیں رہتے ہیں۔

327۔ موجوں سے مقابلہ

مَنِ اقْتَحَمَ اللُّجَجَ غَرِقَ۔ (حکمت 349)
جو اٹھتی ہوئی موجوں میں پھلانگتا ہے وہ ڈوبتا ہے۔

انسان کو کسی کام میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اپنی طاقت و تجربہ کو دیکھ لینا چاہیےاور جس چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے تقاضوں کو سمجھ لینا چاہیے۔ دریا نورد کبھی موجوں سے ٹکرا کر سفر طےنہیں کرتے بلکہ وہ کچھ دیر موجوں کے ساتھ چلتے ہیں اور کچھ فاصلے پر جا کر کنارے لگتے ہیں جو موجوں سے یعنی مشکلات سے بغیر سوچے سمجھے ٹکراتا ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا ہے۔ بے جا شجاعت کے مظاہرے کرنا اور بغیر غور و فکر کے کسی کام میں داخل ہونا فائدے کے بجائے نقصان کا سبب ہوتا ہے۔ اجتماعی، سیاسی اوراقتصادی مسائل میں اس اصول کو مدنظر رکھنا لازمی ہے۔ عاقل وہ ہے جو مشکل راہوں کو طے کرنے کے لیے پہلے غور و فکر کرتا ہے اور راستہ کو معین کر کے پھر ہمت و شجاعت سے آگے بڑھتا ہے۔

328۔ بدنامی

مَنْ دَخَلَ مَدَاخِلَ السُّوْءِ اتُّهِمَ۔ (حکمت 349)
جو بدنامی کی جگہوں پر جائے گا وہ بدنام ہوگا۔

انسان کو اپنی عزت و وقار کے حصول کے لیے جہاں محنت و مشقت کرنا پڑتی ہے وہیں اس کی حفاظت بھی بہت ضروری ہے۔ عزت کی حفاظت کا ایک مقام یہ ہے کہ بدنام مقامات سے اور بدنام لوگوں سے خود کو دور رکھے۔ اس لئے کہ تہمت کی جگہوں پر قدم رکھنا خود کو تہمت زدہ کرنا ہے۔ جو آدمی شراب خانے میں کسی بھی مقصد کے لیے جائے گا دیکھنے والا اسے گناہ گار ہی سمجھے گا۔ خود کو ایسی حالت سے بچانا چاہیے کہ لوگ بدگمانی کریں مثلاً رات کی تاریکی میں کسی ایسی جگہ جانا جہاں چوری کا الزام لگ سکتا ہے۔ ایسے مقام سے خود کو بچانا اپنی عزت کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔

329۔ زیادہ بولنا

مَنْ كَثُرَ كَلَامُهُ كَثُرَ خَطَؤُهُ۔ (حکمت 349)
جو زیادہ بولے گا وہ زیادہ غلطیاں کرے گا۔

امیر المؤمنینؑ نے متعدد بار اور مختلف الفاظ میں زیادہ اور بے مقصد باتیں کرنے سے منع کیا ہے۔ اس لیے کہ آدمی زیادہ باتیں کرتا ہے تو اُسے سوچ کر بات کرنے کا موقع نہیں ملتا وہ بے سوچے باتیں کرتا چلا جاتا ہے۔ یوں غلط باتیں کر جاتا ہے۔ اس فرمان میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ جب غلطیاں زیادہ ہونے لگتی ہیں تو پھر غلط کام کی شرم و حیابھی ختم ہو جاتی ہے اور جب شرم و حیا ختم ہو جائے تو پھر تقوی و پرہیز گاری ختم ہو جائے گی اور جب تقوی و پرہیز گاری ختم ہو جائے گی تو دل مردہ ہو جاتا ہے۔ دل مردہ ہو جائے تو پھر رب کے سامنے مسئولیت و ذمہ داری کا احساس ختم ہو جائے گا اور یوں جس کا دل مردہ ہوگیا وہ جہنم کا حقدار قرار پائے گا۔ اس لیے زبان پر کنٹرول انجام کار کی سعادت کے لیے ضروری ہے ۔اور اپنی عزت کی حفاظت کے لیے زبان کی حفاظت ضروری ہے۔

330۔ احمق

مَنْ نَظَرَ فِىْ عُيُوْبِ النَّاسِ فاََنْكَرَهَا ثُمَّ رَضِيَهَا لِنَفْسِهٖ فَذٰلِكَ الْاَحْمَقُ بِعَيْنِهٖ۔ (حکمت 349)
جو لوگوں کے عیب دیکھ کر ناک بھوں چڑھائے اور پھر انھیں اپنے لیے چاہے وہ سراسر احمق ہے۔

وہ شخص جو ایک چیز کو عیب اور برائی سمجھتا ہے اور اس سے نفرت کا اظہار کرتا ہے اور دوسری طرف وہی عمل اپنی زندگی میں انجام دیتا ہے یعنی اس کام کو اچھا سمجھتا ہے تو یہ حماقت کی نشانی ہے کہ ایک ہی کام دوسرے میں ہے تو غلط اور خود میں ہے تو اچھا تصور کرے۔ اس چیز کی احمق سے ہی توقع کی جا سکتی ہے۔ کوئی جھوٹ بولے تو اسے برا لگے اور پھر خود جھوٹ بولے تویہ تضاد ہے جو حماقت کی نشانی ہے۔ امامؑ کےبیان کردہ اصول زندگی کے مطابق عاقل وہ ہے جس کی زندگی میں تضاد نہ ہو۔ جو غلط ہے وہ سب کے لیے غلط ہے اور جو اچھا ہے وہ سب کے لیے اچھا ہونا چاہیے۔

331۔ موت کی یاد

مَنْ اَکْثَرَ مِنْ ذِكْرِ الْمَوْتِ رَضِيَ مِنَ الدُّنْيَا بِالْيَسِيْرِ۔ (حکمت 349)
جو موت کو زیادہ یاد رکھتا ہے وہ تھوڑی سی دنیا پر خوش رہتا ہے۔

انسانی زندگی کی ایک حد ہے، جتنا بھی جیئے آخر میں اس زندگی کو ختم ہو جانا ہے۔ جب انسان اس اختتام کو بھول جائے اور خود کو ہمیشہ کے لیے یہاں رہنے والا سمجھ بیٹھے تو دنیا سے جتنا بھی ملے گااسے کم سمجھے گا جب کہ موت کو یاد رکھنے والا یہ جانتا ہے کہ اِس دنیا سے اُس دنیا میں ساتھ کچھ نہیں لے جانا۔ بلکہ قیمتی زمینوں کے مالک کے پاس بھی کل چھ فٹ زمین رہے گی۔ اور دولت جتنی بھی جمع کرلے بغیر سلے لباس کے چند ٹکڑے اس کے ساتھ ہوں گے۔ ایسے شخص کو جوکچھ ملا ہے اس پر راضی رہتا ہے اور اس دنیا میں رہ کر موت کے بعد کی دنیا کی فکر کرتا ہے اور وہاں کام آنے والی چیزوں کے حصول کے لیے کوشش کرتا ہے۔اور اپنے جانے سے پہلے وہاں کے لیے جو بھیج سکتا ہے وہ بھیجتا رہتا ہے۔کبھی ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کر کے وہ مال اپنے سے پہلے آخرت کے لئے بھیجتا ہے تو کبھی کسی نیک کام کی بنیاد ڈال دیتا ہے جو اس کے جانے کے بعد بھی اس کے کام آتی رہتی ہے۔

332۔ قول و عمل

مَنْ عَلِمَ اَنَّ كَلَامَهُ مِنْ عَمَلِهٖ قَلَّ كَلَامُهٗ اِلَّا فِيْمَا يَعْنِيْهٖ۔ (حکمت 349)
جو جانتا ہے کہ قول اس کے عمل کا حصہ ہے وہ مطلب کی بات کے علاوہ بات نہیں کرتا۔

امیر المؤمنینؑ کا یہ فرمان گیارہ اہم نکات پر مشتمل ہے اور ان میں سے یہ آخری نکتہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے قول و کلام کو بھی عمل کا حصہ شمار کرے۔ جیسے ہاتھوں کا اٹھنا، قدم کا بڑھنا، کام ہیں اسی طرح آنکھ کا دیکھنا اور زبان کا کہنا بھی عمل ہے اور جب انسان اسے عمل سمجھے گا تو اس پر جواب دہ ہونے کا تصور کرتے ہوئے اسے غلطیوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اگر قول کو عمل تصور کرے گا تو پھر اس کا کلام بہت کم ہو جائے گا اور وہی بات کہے گا جس کا اس سے تعلق ہوگا یا کسی دوسرے کو اس قول کا فائدہ ہوگا۔ زبان خوش بختی کی بھی چابی ہے اور بد بختی کا بھی ذریعہ ہے۔ قول کی اہمیت پر امام ؑکے ایک اور فرمان میں وضاحت ہوگی۔ قول و کلام ہی سے انسان دوسرے انسانوں کو اپنی طرف جذب کر تا ہے اور زبان ہی سے انسان دوسروں کو خود سے متنفر کرتا ہے۔امامؑ کا یہ فرمان ایسا نسخہ ہے جس سے اپنی سعادت کو شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس ایک موضوع پر پوری پوری کتابیں لکھی گئیں ہیں۔ مثلاً ’’میٹھے بول میں جادو‘‘۔امامؑ نے اس اصول کا ایک جملے میں خلاصہ کر دیاہے کہ کسی کی بہتری کے لیے اور مفید بات پر زبان کھولنی چاہیے ورنہ خاموشی بہتر ہے۔

333۔ بڑا عیب

اَكْبَرُ الْعَيْبِ اَنْ تَعِيْبَ مَا فِيْكَ مِثْلُهٗ۔ (حکمت 353)
سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ اس عیب کو برا کہو جس کے مانند خود تمھارے اندر موجود ہو۔

ہر انسان میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور ایک کامیاب انسان ہمیشہ ان کمزوریوں کو دور کر کے کمال کی طرف گامزن رہتا ہے۔ کوئی شخص کمزوریاں دور کرنے کی کوشش تبھی کرے گا جب انھیں عیب و کمزوری سمجھے گا مگر بہت سے افراد اپنی کمزوریوں اور عیبوں کو یا دیکھتے نہیں اور اگر دیکھتے ہیں تو انھیں عیب نہیں سمجھتے بلکہ بعض اوقات تو اسے اپنے لیے فخر سمجھتے ہیں مثلاً بد زبانی ایک عیب ہے اور کچھ لوگ اپنی بد زبانی سے دوسروں کو خاموش کر تے ہیں اور اسے اپنے لیے فخر سمجھتے ہیں۔ اب یہی لوگ اگر ایسی ہی برائی و کمزوری دوسروں میں دیکھتے ہیں تو اسے برا بھلا کہتے ہیں اور مذمت کرتے ہیں۔ عجیب ہے کہ ایک غلطی و عیب خود میں ہو تو وہ قابل فخر ہے دوسرے میں ہو تو قابل مذمت۔ اس متضاد سوچ کی وجہ سے وہ اپنی اصلاح نہیں کرتے۔ دوسروں کے عیب و گناہ پر نظر اور اپنے عیب و گناہ سے غفلت یہی سب سے بڑی غلطی و عیب ہے۔

334۔ بد گمانی سے پرہیز

لَاتَظُنَّنَّ بِكَلِمَةٍ خَرَجَتْ مِنْ اَحَدٍ سُوءاً وَ اَنْتَ تَجِدُ لَهَا فِى الْخَيْرِ مُحْتَمَلًا۔ (حکمت 360)
کسی کے منہ سے نکلنے والی بات میں اگر اچھائی کا پہلو نکل سکتا ہو تو اس کے بارے میں بد گُمانی نہ کرو۔

انسانی معاشرے کا قیمتی سرمایہ ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ہے۔ امیر المؤمنینؑ اس اعتماد کو مضبوط و محفوظ کرنے کا اہم اصول بیان فرما رہے ہیں۔ کوئی شخص کوئی کلام یا کام کرتا ہے تو اس کی بات یا عمل میں جب تک کوئی مثبت پہلو نکلتا ہے تو نکالنا چاہیے اور اس کی بات یا کام کو اچھائی اور نیکی پرمحمول کرنا چاہیے۔ اس کی بات یا عمل کی برائی اور بری نیت کی جب تک دلیل نہیں ملتی اس وقت تک حسن ظن رکھنا چاہیے۔ اگر سماج اس تعلیم کو اختیار کرلےتو اسے بہت سے مفاسد سے نجات مل جائے اور دنیا میں فتنہ و فساد کے اکثر راستے بند ہو جائیں۔ مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا اور ہرشخص دوسرے کے بیان میں سے غلط پہلو ہی تلاش کرتا ہے۔ حسنِ ظن سے لوگوں میں اعتماد بڑھے گا، محبت و دوستی میں اضافہ ہوگا۔ گلے شکوے اور نفرتیں ختم ہوں گی۔ یوں اچھے کاموں کو اچھے لوگ مل کر آگے بڑھائیں گے اور پورا معاشرہ اس کی برکتوں سے مستفید ہوگا۔ اس کے بر عکس جو لوگ بدگمانی کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں وہ زندگی میں ہمیشہ ناکام ہوتے ہیں کیونکہ ان کے اس طریقۂ زندگی سے لوگ ان سے دور ہوں گے اور یہ لوگوں سے دور جائیں گے۔ ایسے بد گمان لوگ ہر کسی کو اپنے خلاف سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ طریقہ ان سے آرام اور سکون چھین لیتا ہے اور سختیوں او ر مشکلوں میں دوسروں کی مدد سے محروم ہو جاتے ہیں۔

335۔ جھگڑے سے پرہیز

مَنْ ضَنَّ بِعِرْضِهٖ فَلْيَدَعِ الْمِرَاءَ۔ (حکمت 362)
جو اپنی عزت بچانا چاہتا ہے اُسے چاہیے کہ جھگڑے سے پرہیز کرے۔

انسان کی اجتماعی زندگی اور علم نفسیات کا ایک اہم نکتہ اس فرمان میں بیان ہواہے۔ کوئی شخص زندگی کا بڑا حصہ خرچ کر کے عزت و آبرو حاصل کرتا ہے۔ وہ جس طرح محنت سے یہ شرف و بزرگی حاصل کرتا ہے اس سے بڑھ کر اس کی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔ معاشرے میں مقام و منزلت کے حصول اور کامیابی کے اصول بڑی وضاحت کے ساتھ امیر المؤمنینؑ نے بیان فرمائے ہیں۔اس فرمان میں آپ نے اس کی حفاظت کا طریقہ بیان فرمایاہے کہ اگر اپنی عزت بچانا چاہتے ہو اور اچھا نام باقی رکھنا چاہتے ہو تو کسی کے جھگڑے سے دور رہو۔ جھگڑے میں مد مقابل تمھیں جھوٹا اور غلط ثابت کرنے کے لیےتمھارے عیب بیان کرے گا اگر نہیں ہوں گے تو اپنے پاس سے آپ کے عیب بنالے گا اور جائز و نا جائز ہر طریقے سےتمھیں خاموش کرنے کی کوشش کرے گا۔ اپنی کمزور سی دلیل کو مضبوط دلیل کے طور پر بیان کرے گا اور مد مقابل کی مضبوط ترین دلیل کو بھی کم اہمیت جانے گا۔ ایک مقام پر امیر المؤمنینؑ فرماتے ہیں کہ حقیقت ِایمان تب مکمل ہوتی ہے جب انسان جھگڑے سے دور رہے، خواہ حق اسی کا ہو۔ جہاں بات جھگڑے پر پہنچے وہاں اپنی بات کو خود کاٹ لے اور بحث کو چھوڑ دے۔ قرآن مجید کے فرمان کے مطابق سلام کہہ کر گزر جائے۔

336۔ جلد بازی و سستی

مِنَ الْخُرْقِ الْمُعَاجَلَةُ قَبْلَ الْاِمْكَانِ، وَالْاَ نَاةُ بَعْدَ الْفُرْصَةِ۔ (حکمت 363)
امکان پیدا ہونے سے پہلے کسی کام میں جلدی کرنا اور موقع آنے پر دیر کرنا دونوں حماقت میں داخل ہیں۔

انسان کی زندگی میں کامیابی کے مواقع نصیب ہونا غنیمت ہے۔ بہت سے لوگ کامیابی کے بنیادی مراحل پر عمر کا بڑا حصہ خرچ کرتے ہیں اور موقع آنے پر ان بنیادوں پر کامیابی کی عمارت کھڑی کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص بنیاد ہی مضبوط کیے بغیر یا اسی عمارت کے کھڑا کرنے کا وقت آنے سے پہلے کوئی قدم اٹھائے گا تو فائدے کے بجائے نقصان ہوگا اور اگر وقت آنے پر اسے بلند نہیں کرے گا تو بھی وقت ضائع کر کے کامیابی کو خود سے دور کر دے گا۔ امیر المؤمنینؑ اس فرمان میں وقت سے پہلے قدم اٹھانےیا موقع میسر ہونے پر قدم نہ اٹھانے کو حماقت قرار دیتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی ترقی و کامیابی کے لیے وقت و موقع کو کتنی اہمیت حاصل ہے اور عقل مند و دانا وہی ہے جو ہر کام کو اپنے وقت پر کرتا ہے۔ پھل پکنے سے پہلے اسے اتارنا بھی نقصان کا باعث ہوتا ہے اور پھل کے پک جانے پر اسے اتار کر استعمال نہ کرنے پر بھی پکا ہوا پھل گر کر ضائع ہو جائے گا۔ اس لیے ایک عظیم حکیم نے کہا ہے کہ کامیاب انسان وہ ہے جسے معلوم ہو کہ کس چیز سے کب فائدہ اٹھانا ہے۔

337۔ عبرت

اَلْاِعْتِبَارُ مُنْذِرٌ۔ (حکمت 365)
عبرت ناک حوادث ڈرانے اور نصیحت کرنے والے ہوتے ہیں۔

انسان زندگی گزارنے کے طریقے اور کامیاب زندگی کے سلیقے سیکھنے کے لئے استاد تلاش کرتا ہے، پیسہ خرچ کرتا ہےاور وقت صرف کرتا ہے۔ اس فرمان میں امام ؑنے زندگی میں سلیقے کا ایک آسان ذریعہ بیان فرمایاہے اور وہ ہے عبرت آموز واقعات و حادثات سے سیکھنا۔ اس سیکھنے میں کسی خاص معلم کی بات نہیں آپ کی آنکھوں کے سامنے کئی محلات کھنڈر بن چکے ہوں گے، انھیں دیکھیں، ان سے پوچھیں تمھیں بنانے والے کہاں گئے۔ کئی محلات آباد ہوں گے ان سے پوچھیں پہلے تم میں رہنے والے کہاں گئے تو کھنڈرات و محلات تو جواب نہیں دیں گے یہاں عقل جواب دے گی کہ وہ چلے گئے، ہر کسی کو چلے جانا ہے۔ جب انسان کو یقین ہو جائے کہ کوئی ہمیشہ یہاں نہیں رہتا تو پھر کوشش کرے کہ کوئی ایسا کام کر جائے جو اس کے بعد بھی باقی رہے اور یہی کام انسان کو کامیاب انسان بنا جائے گا۔ ان عبرت آموز واقعات میں ظلم و ستم کرنے والوں کا انجام ڈرائے گا اور بھلائیاں اور انصاف کرنے والوں کے واقعات و انجام خوش خبری سنائے گے۔ انسانی زندگی میں گزشتہ یا موجودہ واقعات خاموش واعظ ہوتے ہیں۔ ان سے چشم بینا اور فکر رسا رکھنے والا ذہن بہت کچھ سیکھ کر اپنی زندگی کو سنوار سکتا ہے۔

338۔ بہترین ادب

كَفٰی اَدَباً لِنَفْسِكَ تَجَنُّبُكَ مَا كَرِهْتَهٗ لِغَيْرِكَ۔ (حکمت 365)
تمھارے نفس کی اصلاح و آراستگی کے لئے یہی کافی ہے کہ جن چیزوں کو دوسروں کے لئے برا سمجھتے ہو ان سے خود بھی بچ کر رہو۔

کوئی شخص اس وقت تک کمال تک نہیں پہنچ سکتا جب تک اپنی ذات کے عیبوں کی اصلاح نہ کرلے اور اپنی ذات کی اصلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اُسے اپنے عیبوں کی شناخت نہ ہو۔ ہر انسان کو اپنی ذات سے محبت ہوتی ہے اور یہ محبت بہت سے کام بھی کرواتی ہے۔ انسان علم حاصل کرتا ہے چونکہ یہ کمال ذات ہے۔ اسی طرح اگر اولاد سے محبت ختم ہو جائے تو زندگی کی خوشیاں ختم ہو جائیں۔ مگر یہ محبت حد سے بڑھ جائے تو بہت بڑا عیب بن جاتی ہے۔ خود پسندی و خود خواہی دوسروں کی اچھائیاں بھلا دیتی ہے۔ اور اپنے لیےدوسروں سے بے جا توقعات پیدا کر دیتی ہے اور اپنی کمزوریوں اور عیبوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ یوں انسان دوسروں کی کمزوریوں کو بڑی توجہ سے دیکھتاہے اور ان پرتنقید کرتا ہے مگر اپنے عیب اسے نظر نہیں آتے بلکہ بعض اوقات انہی عیبوں کو اپنے لیے اچھائی اور قابل فخر سمجھتا ہے۔ دوسرا جھوٹ بولے تو غلط خود بولے تو صحیح، دوسرا ظلم کرے تو عیب اور خود کرے تو صحیح ہے۔ امیر المؤمنینؑ نے انسان کی اصلاح اور نفس کو انسانیت سے مزیّن کرنے کے لئے یہ اصول بیان فرما دیا کہ اپنے عیبوں کو پہچاننے کے لیے دوسروں کے عیبوں کو آئینہ بنا لو۔ جن کاموں اور عادتوں کو دوسروں میں دیکھتے ہو اور عیب شمار کرتے ہو انھیں اپنی ذات میں تلاش کرو کہ وہ عادتیں تمھارے اندر تو موجود نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پہلے انھیں خود سے دور کرو یہی اصلاحِ ذات ہوگی اور یہی انسان کی زندگی کی کامیابی کا سبب ہوگا۔

339۔ بڑا شرف

لَا شَرَفَ اَعْلَى مِنَ الْاِسْلَامِ۔ (حکمت 371)
اسلام سے بلندتر کوئی شرف نہیں۔

ہر انسان اپنی زندگی میں بزرگی و برتری اور بلندی و افتخار کا طلبگار ہوتا ہے۔ وہ ہر اس چیزکو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اسے صاحب فضیلت و شرف بنائے اور ہر اس کام کو خواہ مشکل بھی ہو انجام دیتا ہے جس سے اسے مقام و منزلت ملے۔ امیر المؤمنینؑ نے انسانیت کی تمام عزت و وقار کو ایک لفظ میں بیان کردیا اور وہ ہے’’اسلام۔‘‘
اسلام تین چیزوں کا مجموعہ ہے: اول نظریہ کی وہ پختگی جسے کوئی شے ہلا نہ سکے اور اسے عقیدہ کہا جاتا ہے، دوم عقیدے کی بنیادوں پر عمل کی دیوار جس سے عقیدہ کی پہچان ہو اورتیسرا مخلوق سے برتاؤ جو اس کے عقیدےاورعمل کی زینت ہے، جسے اخلاق کہتے ہیں۔ اسلام کے ان اصولوں میں انسان کی سعادت کے تمام وسائل و ذرائع موجود ہیں۔ان اصولوں پر استوار، اس دنیا میں کامل نمونے انبیاء کی صورت میں بھیجے گئے اور ان اصولوں میں ڈھلے ہوئے انسانِ کامل کاایک واضح نمونہ امیر المؤمنینؑ کی ذات ہے۔ امیر المؤمنینؑ نے نہج البلاغہ میں ایک مقام پر خود اسلام کی یوں وضاحت فرمائی: اسلام سلامتی کا نام اور عزت انسانی کا سرمایہ ہے، اس میں نعمتوں کی بارشیں اور تاریکیوں کے چراغ ہیں۔ اس کی کنجیوں سے نیکیوں کے دروازے کھلتے ہیں اور اس کے چراغوں سے سب تاریکیوں سے نجات ملتی ہے)خطبہ ۱۵۰(۔حدیث میں ہے کہ ’’اسلام ایسا بلند ہے کہ اس سے کوئی شے بلند نہیں جو اس کے دستور العمل کو اپنائے گا اسے بھی کمال و بلندی نصیب ہوں گی۔‘‘

340۔ عزت و بزرگی

لَا عِزَّ اَعَزُّ مِنَ التَّقْوٰى۔ (حکمت 371)
تقویٰ و پرہیز گاری سے زیادہ با وقار کوئی عزت و بزرگی نہیں۔

انسان کو زندگی میں کیا کرنا ہے، کونسا عمل اس کے لیے مفید اور کون سی چیز نقصان دہ ہے، یہ امور اسے جاننے کی ضرورت ہے۔ انسان بہت کچھ ماں باپ سے سیکھتا ہے۔ ایک عمر میں اساتذہ اس کی راہنمائی کرتے ہیں۔ باقی زندگی معاشرے سے یاد کرتا ہے۔ اگر انسان خود میں غور کرے کہ جب زندگی کسی کی عطا ہے تو جس نے عطا کی اس نے اسے بسر کرنے کا کوئی طریقہ بھی بتایا ہےیا نہیں۔ یوں عقل یقیناً یہ بتائے گی کہ اس نے زندگی کا سلیقہ سکھایا ہے اور وہ دستور قرآن کی صورت میں آج بھی موجود ہے ۔ اس کتاب کے مطابق زندگی گزارنا تقویٰ کہلاتا ہے۔ تقویٰ انسان کو خواہشات اور بری سوچوں کی قید سے آزاد کر کے اس کا کنٹرول اس کے ہاتھ میں دیتا ہے۔ انسان اگر عقل سے راہنمائی حاصل کرے گا تو یہ کہے گی کہ اپنے مالک کی خوشی و رضا کو مدنظر رکھو۔ جب مالک راضی و خوش ہوگا تو یہی بہت بڑی عزت ہے، اس سے بڑھ کر کوئی عزت نہیں۔

341۔ اسباب ِ گناہ

اَلْحِرْصُ وَ الْكِبْرُ وَ الْحَسَدُ دَوَاعٍ اِلَى التَّقَحُّمِ فِي الذُّنُوْبِ۔ (حکمت 371)
حرص، تکبر اور حسد گناہوں میں کود پڑنے کے اسباب ہیں۔

انسان کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے جہاں رہنما راہوں کو آسان اور روشن کرتے ہیں وہیں راہ کی رکاوٹوں سے آگاہ و خبر دار کرتے ہیں اور ان رکاوٹوں کو عبور کرنے کے طریقوں سے بھی مطلع کرتے ہیں۔ اس فرمان میں امیر المؤمنینؑ نے کمال ِانسانی میں حائل ہونے والی تین رکاوٹوں کا ذکر کیا۔یہ فقط رکاوٹیں ہی نہیں بلکہ بلندی پر پہنچنے کے بعد اگر کوئی انسان ان تینوں میں سے کسی ایک سے ٹھوکر کھائے تو وہ پستی میں گر جاتا ہے۔ یہ رکاوٹیں پھر دوسری رکاوٹوں کا سبب بنتی ہے۔ ان تینوں کمزوریوں کا تذکرہ الگ الگ بھی ہو چکا ہے مگر یہاں انھیں ایک ساتھ بیان کیاگیا۔ اگر کوئی ان میں سے کسی ایک سے دو چار ہو تو وہ پستی میں گر جاتا ہے اور اگر کہیں تینوں جمع ہو جائیں تو وہ شخص یقیناً انسانیت کی منزل کو کھو دے گا۔
حرص یعنی مزید کی طلب چاہے جیسے بھی حاصل ہو،اس کے لیے کتنی ہی غلطیاں کرنی پڑیں۔ حسد یعنی کوئی اچھی شے کسی اور کے پاس نہ ہو، چاہے اِسے ملے یا نہ ملے اور یہ خواہش کئی اور برائیوں کا سبب بنتی ہے۔ تکبر یعنی بغیر حق کے خود کو دوسروں سے بڑا سمجھنا اور یہ مرض انسان کو شیطان بنا دیتی ہے۔

342۔ بخل

اَلبُخْلُ جَامِعُ مَسَاوِئِ الْعُيُوْبِ۔ (حکمت 378)
بخل تمام برے عیوب کا مجموعہ ہے۔

انسان جتنا دوسرے انسانوں کے لیے مددگار و فائدہ رساں ہو اتنا ہی اس کا مقام انسانیت بلند ہوتا ہے۔ جتنی اس کی قوت و بساط ہو اس کے مطابق اسے دوسروں کی خدمت کرنی چاہیے۔ بخل ایک ایسی کمزوری و عیب ہے جو انسان کے پاس جو کچھ ہے اسے دوسروں کے فائدے کے لئے استعمال نہیں کرنے دیتا بلکہ بعض اوقات بخل اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے اس سے خود بھی فائدہ نہیں اٹھاتا اور اپنے کسی قریبی پر یہاں تک کہ بیوی بچوں پر بھی خرچ نہیں کرتا۔ امیر المؤمنینؑ نے یہاں بخل کو سب برائیوں کا مجموعہ قرار دیا ہے یعنی یہ دوسری برائیوں کی جڑ بن جاتا ہے۔ اللہ کے حقوق اس کے ذمہ ہیں، اس میں مال خرچ ہوتا ہے تو وہ ان حقوق کو ادا نہیں کرے گا اور ان واجبات کو بجا نہیں لائے گا۔ یوں بخل اسے خدا کی نا فرمانی پر آمادہ کر لیتا ہے۔ دوسرے انسانوں کے جو حقوق ہیں ان پر خرچ آتاہے تو ان میں لا پرواہی کرتا ہے یوں رشتہ داروں سے تعلق توڑ لیتا ہے اور اچھا برتاؤ نہیں کرتا جو خود بہت بڑا گناہ ہے۔ یتیموں کی سسکیاں اور فقیروں کی آہیں اس پر اثر نہیں کرتیں۔ سخت دل بن جاتا ہے اور سخت دلی خود ایک بڑا عیب ہے۔ ساتھ ہی مال کے لالچ میں دھوکہ بازی، سود خوری اور ضرورت مندوں کی درخواست پر جھوٹ جیسے گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ بخل مال میں بھی ہوتا ہے، علم میں بھی ہوتا ہے، عہدے میں بھی ہوتا ہے اور افکار میں بھی ہوتا ہے۔ بخیل نہیں چاہتا کہ دوسرے اس کی ان چیزوں سے فائدہ اٹھائیں۔ امیر المؤمنینؑ نے یہ بھی فرمایا ’’بخل ایسی مہار ہے جس سے ہر برائی کی طرف کھنچ کر جایا جا سکتا ہے۔‘‘ رسول اللہ نے فرمایا: ’’بخل آگ کے درختوں میں سے ایک درخت ہے جو اس کی کسی شاخ کو پکڑے گا وہ اسے آگ میں لے جائے گی۔‘‘

343۔ زبان کی حفاظت

فَاخْزُنْ لِسَانَكَ، كَمَا تَخْزُنُ ذَهَبَكَ۔ (حکمت 381)
اپنی زبان کی اسی طرح حفاظت کرو جس طرح اپنے سونے چاندی کی کرتے ہو۔

انسان کی زندگی میں الفاظ ہی ہیں جو اس کے اندر کی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ الفاظ وہ اہم ذریعہ ہیں جن سے محبت و نفرت کا اظہار ہوتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے متعدد مقامات پر مختلف انداز سے زبان کی حفاظت کی تاکید اور اس کے خطرات کی نشاندہی کی ہے۔ اس فرمان میں تین جملوں میں الگ الگ لفظوں میں زبان سے نکلنے والے الفاظ کی اہمیت بتلائی گئی ہے۔ پہلے جملے کا مفہوم یہ ہے کہ جب تک آپ نے کچھ کہا نہیں اور چپ رہے تو بات آپ کے قابو اور قید و بند میں ہے اور جب کچھ کہہ دیا تو اب آپ اس کلام کی قید میں ہیں، اپنی کی ہوئی بات کی کئی جگہ سچائی ثابت کرنی ہوگی اور کئی مقامات پر آپ کے کہے ہوئے جملے آپ کے خلاف استعمال ہوں گے۔
دوسرا جملہ جو یہاں پیش کیا گیاہے اس میں آپ نے زبان سے نکلے الفاظ کی اہمیت و قیمت بتاتے ہوئے مادی دنیا میں سے قیمتی ترین چیز سونے سے تشبیہ دی اور واضح فرمایاہے کہ اس کی حفاظت کرو سونے کی طرح اور تیسرے جملے کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کی کہی ہوئی کوئی بات کسی بڑی نعمت کے چھن جانے کا سبب بن سکتی ہے اور بڑی مصیبت کو نازل کر سکتی ہے۔ انسان کے لیے سکون ایک عظیم نعمت ہے اور بار ہا دیکھا ہے کہ ایک جملے نے گھروں کا سکون برباد کر دیا۔اسی طرح ایک ہی جملہ کبھی محبت بھری طویل زندگی کو دشمنیوں میں بدل دیتا ہے اور ایک ہی جملے سے نوبت قتل تک جاپہنچتی ہے۔ اس لیے زندگی کو حقیقی طور پر پر سکون زندگی بنانے کے لیے زبان کو قابو میں رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔

344۔ گفتگو میں احتیاط

لَا تَقُلْ مَا لَا تَعْلَمُ، بَلْ لَا تَقُلْ كُلَّ مَا تَعْلَمُ۔ (حکمت 386)
جو نہیں جانتے اسے نہ کہو، بلکہ جو جانتے ہو وہ بھی سب کا سب نہ کہو۔

اس مقام پر امیرالمومنینؑ نے انسان کی عزت و وقار اور دوسرے کے ساتھ تعظیم و تکریم سے زندگی گزارنے کے دو اہم اصول بیان فرمائے ہیں۔ ایک یہ کہ اگر کسی بات کو نہیں جانتے تو اس کے بارے میں کچھ نہ بولو کیونکہ اس بات میں جھوٹ کا احتمال ہے اور اگر بات جھوٹ ہوگی تو آپ کی سبکی ہوگی، کل آپ کو وہ بات کہنے پر معذرت کرنی پڑے گی اور عقل مند کبھی ایسی بات نہیں کرتا جس پر اسے معذرت کرنی پڑے۔ آج کل سوشل میڈیا پر اس بات کو خصوصیت سے مد نظر رکھنا چاہیے۔ بار ہا دیکھا گیا ہے کہ کچھ افراد کسی میسج کو بغیر تحقیق کے آگے بڑھا دیتے ہیں اور یوں فیک یا جھوٹی بات کی ترویج کا سبب بن جاتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ ہروہ بات جس کا آپ کو علم ہے وہ بھی ضروری نہیں کہ ہر کسی کو اور ہر جگہ بتاتے پھریں۔مثلا کسی کی کوئی بری بات آپ کو معلوم ہوئی تو اب اس کا آگے بتانا ایک بڑا جرم ہے جسے غیبت کہتے ہیں۔ کسی کا کوئی راز پتہ چل گیا تو اسے بتانا بھی غلط ہے۔ ایسی چیزیں کبھی کسی کی اہانت کا اور کبھی اختلاف کا سبب بنتی ہیں۔ بعض اوقات آپ جن لوگوں کو وہ بات بتا رہے ہیں ان کی اتنی استعداد نہیں ہوتی کہ وہ اسے سمجھ سکیں اور یوں وہ گمراہ ہوسکتے ہیں۔ یعنی اگر موقع و محل نہیں ہے تو بات نہیں کرنی چاہیے۔ ان دونوں فرامین پر عمل کے لیے کم گوئی کو اپنایا جائے تو انسان بہت سی خطاؤں سے محفوظ ہو جائے گا۔

345۔ پرکھے بغیربھروسا

اَلطُّمَاْنِيْنَةُ اِلٰى كُلِّ اَحَدٍ قَبْلَ الْاِخْتِبَارِ لَهٗ عَجْزٌ۔ (حکمت 384)
پرکھے بغیر ہر ایک پر بھروسا کر لینا عجز و کمزوری ہے۔

انسان کا زندگی میں دوسروں کے ساتھ چلنا لازمی ہے اور اگر چلنا ہے تو ان پر اعتماد ضروری ہے۔ امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں اگر آپ کسی کو آزمائے اور پرکھے بغیراس پر اعتماد کر لیتے ہیں تو یہ آپ کی عقل و فکر کی کمزوری ہے۔ کیونکہ عقل مند کسی چیز کو پرکھے بغیراسے نہیں اپناتا۔ کسی کی حقیقت کو جانے بغیر اس کے ظاہر پر بھروسا کر لینا جہالت و حماقت ہے۔ اس فرمان سے دوستی کی اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے اور دوست کے انتخاب کا طریقہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ انسان کے لیے دوست کا ہونا بہت ضروری ہے مگر ہر ہاتھ ملا نے والے کو دوست بنا لینا بےوقوفی ہے۔ اس دور میں اس فرمان کی اہمیت اور واضح ہے کیونکہ آدمیوں کی شکل میں شیطان اور خدمت گزاروں کے روپ میں خائن بہت زیادہ ہیں۔البتہ عمومی افراد پر اتنا اعتماد کیا جا سکتا ہے جتنا ان سے متعلق کام ہے مگر کسی کو زندگی کا شریک بناناہے یا دوستی جیسے رشتہ میں پرونا ہے یا دین و دنیا کے کاموں میں اس پر اعتماد کرنا ہے، تو امتحان ضرور کریں۔ آپ نے مختلف مقامات پر ہر امتحان کے طریقے بھی بتائے ہیں مثلا ایک یہ کہ اسے ناراض کر کے دیکھو اس کا برتاؤ آپ سے کیسا ہے۔ ہاں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کئی تجربات سے کامیاب ہونے والے بھی کبھی دھوکہ دے جاتے ہیں تو اس قسم کے خوف کی وجہ سے انسان ہر کسی پر بداعتمادی بھی نہیں کر سکتا ورنہ زندگی ہی مشکل ہو جائے گی۔

346۔ سچی طلب

مَنْ طَلَبَ شَيْئاً، نَالَهٗ اَوْ بَعْضَهٗ۔ (حکمت 386)
جو شخص کسی چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہے وہ سب یا کچھ پا لے گا ۔

انسان کی زندگی میں سعی و کوشش ہی سے بلند منزلیں ملتی ہیں اور جو کوشش کرتا ہے اور کسی چیز کو واقعا چاہتا ہے وہ مکمل نہیں تو کچھ ضرور حاصل کرلے گا۔ امیرالمومنینؑ اس فرمان میں محنت کی طرف راغب فرما رہے ہیں۔ سچی طلب کی نشانی ہی محنت و کوشش ہے بہت سے افراد کچھ چاہتے تو ہیں مگر اس کے لئے قدم نہیں اٹھاتے تو یہ حقیقی طور پر چاہتے ہی نہیں ۔ آپؑ نے فرمایا ایسا شخص یا سب یا کچھ پا لے گا یعنی جتنی اس کی کوشش ہوگی اتنا اسے حاصل ہوگا اور کوشش میں صبر و استقامت ضروری ہے۔ کچھ کاموں میں دوسرے افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔پس جیسے یہ وسائل اور افراد ملیں گے ایسا ہی وہ مقصد حاصل ہوگا۔ ہاں لازم نہیں کہ ہر کوشش کا مکمل یا کچھ نتیجہ ملے۔ کئی مواقع ایسے ہوتے ہیں کہ کوشش کے با وجود انسان ناکام رہتا ہے اور تاریخ میں بہت سے ایسے واقعات درج ہیں مگر ان سے تجربہ ضرور حاصل ہوتا ہے اور ایک بار نہیں تو دوسری بار کامیابی ہوگی اس لیے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔

347۔ شخصی کردار

مَنْ فَاتَہٗ حَسَبُ نَفْسِہٖ لَمْ یَنْفَعْہُ حَسَبُ اٰبَآئِہٖ (حکمت 389)
جسے ذاتی شرف و منزلت حاصل نہ ہو اسے آباؤ اجداد کی منزلت کچھ فائدہ نہیں دیتی۔

ہر انسان زندگی میں کسی نہ کسی چیز کو اپنے لیے فخر کا سبب جانتا ہے۔ بعض اس قابل فخر شے کا اظہار کرتے ہیں اور بعض نہیں۔ کچھ چیزیں حقیقت میں قابل فخر ہوتی ہیں اور کچھ نہیں۔ امیر المؤمنینؑ نے یہاں عمل کو اور ذاتی خوبیوں کو فخر کا حقیقی ذریعہ قرار دے کر عمل کی ترغیب دی اور ساتھ ہی اس مطلب کو بھی واضح فرمایاہے کہ بہت سے لوگ جب اپنے اندر کسی ہنر و عمل کی وجہ سے قابل فخر شے نہیں پاتے تو وہ اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرتے ہیں مگر کسی کے اپنے اندر کمال نہ ہو تو آباؤاجداد کے کمالات گننے سے انسان خود صاحب ِکمال نہیں بن جاتا۔بلکہ حکماء نے کہاہے کہ زمانہ بھی کتنا عجیب ہو گیاہے کہ زندہ شخص مردوں کو اپنے لیے بزرگی کا سبب اور بوسیدہ ہڈیوں کو اپنے لیے باعث فخر جانتا ہے۔ بہت سے حکماء آباؤاجداد پر فخر کو عیب و عار سمجھتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہےکہ کسی کے لیےیہ عار کافی ہے کہ وہ دوسروں کے ذریعے خود کو قابل فخر جانے بلکہ یہ فخر تو آباؤ اجداد کے لیے بھی باعث ندامت ہے کہ وہ اپنی اولاد میں کمال پیدا نہ کر سکے۔اگر کسی کے آباؤ اجداد با کمال ہوں تو اس کے لیے کمال کی منزلیں طے کرنا آسان ہوتا ہے مگر پھر بھی کمال تک نہ پہنچے تو اس کے لیے کمزوری سمجھی جائے گی۔ پڑھے لکھے باپ کا بیٹا جاہل ہو اور یوں کہے کہ میرا باپ اتنا پڑھا ہوا تھا تو یہ دگنا عیب ہے کہ اتنے پڑھے لکھے باپ کا بیٹا ہو کر بھی جاہل ہے۔ ہاں با کمال لوگ آباؤ اجداد کا ذکر کریں تو یہ حقیقی کمال ہوگا، بیان کرنے والے کا بھی اور جس کا کمال بیان کیا جا رہا ہے اس کا بھی۔ جیسے نہج البلاغہ کے جامع اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرتے ہیں جبکہ خود بھی ایک صاحب کمال ہیں۔

348۔ کلام سے پہچان

تَكَلَّمُوْا تُعْرَفُوْا، فَاِنَّ الْمَرْءَ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِهٖ۔ (حکمت 392)
بات کرو تاکہ پہچانے جاؤ، کیونکہ آدمی اپنی زباں کے نیچے چھپا ہوتا ہے۔

انسان کے لیے خلقت کے بعد جس نعمت کو خصوصیت سے قرآن مجید نے بیان کیا وہ بات کرنا اور بیان ہے۔ امیر المؤمنینؑ کے زبان اور گفتگو پر متعدد فرامین موجود ہیں۔ یہاں آپ ؑنے فرمایا کہ بولو گے تو تمہاری پہچان ہوگی۔ اس لیے کہ کلام عقل کا ترجمان ہوتا ہے اور انسان زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے یعنی جب تک زبان نہیں ہلے گی اس کی حقیقت پوشیدہ رہے گی اگرچہ کسی کے اٹھنے بیٹھنے سے اندازہ ہو سکتا ہے مگر گفتگو پہچان کا بڑا ذریعہ ہے۔ آپ فون پر کسی سے بات کرتے ہیں، اسے دیکھا نہیں ہوتا مگر اس کے مقام و معیار کو بات سے سمجھ سکتے ہیں۔ کلام کی اہمیت کا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امیر المؤمنینؑ سے سوال کیا گیا بہترین چیز کون سی ہے فرمایا کلام ۔ پوچھا گیا بد ترین چیز کون سی ہے فرمایا کلام۔ یہ اس لیے کہ کلام ہی سے انسان کو عزت و آبرو ملتی ہے اور کلام ہی ذلت و شرمندگی کا سبب بنتا ہے۔ یعنی چپ رہنا یا بولنا خود کوئی اچھائی یا برائی کا معیار نہیں اگرچہ زیادہ بولنے سے منع کیا گیا ہےمگر بولنے کی موقع پر چپ رہنے کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ آپ صاحب علم و ہنر ہیں مگر آپ چپ ہیں تو یہ اس ذخیرہ اندوز کے مانند ہے جو غلے کے ڈھیر رکھتا ہے مگر اس سے مستفید نہیں ہو رہا۔ اس فرمان کا یہ مفہوم بھی لیا جا سکتا ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ معاشرے میں آپ کی پہچان ہو تو بولیں، اپنے اندر کے فضل و کمال کو دوسروں میں بانٹیں، لوگ آپ کی باتوں سے فائدہ اٹھائیں گے تو معاشرے میں آپ کا مقام بنے گا۔ آپ کی زبان میں لکنت ہے آپ کو زبان کے پورے قواعد کا علم نہیں ہے مگر زبان سے آپ دوسروں کے دلوں کی تسلی والے الفاظ یا دوسروں کی زندگی کو سنوارنے والے کلمات کہتے ہیں تو اس سے آپ کی ایک عظیم انسان کے طور پر پہچان ہوگی۔ کلام کا سلیقہ سیکھنا بہت اہم ہے۔ امام علیؑ سے بہتر کون ہوگا جو اپنے بارے میں فرماتے ہیں ’’ہم کلام کے امیر و فرمانروا ہیں۔‘‘

349۔ بات کا اثر

رُبَّ قَوْلٍ اَنْفَذُ مِنْ صَوْلٍ۔ (حکمت 394)
بہت سے کلمے حملے سے زیادہ اثر رکھتے ہیں۔

انسان کی زندگی کو بگاڑنے یا سنوارنے میں زبان کا بہت اثر ہے۔ کہنے والا بعض اوقات ایک جملہ کہنے کی وجہ سے عزت و احترام کی بلندیوں تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی ایک جملہ ہی اسے ذلت و پستی کے گڑھے میں دھکیل سکتا ہے۔ اسی طرح کسی کے لیے کہا ہوا ایک جملہ اس کی زندگی کو سنوار سکتا ہے اور ایک جملہ ہی اسے ذلیل و خوار کر سکتا ہے۔ امیرالمومنینؑ اس فرمان میں اسی بات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ ایک کلمہ کا انسانی زندگی پر کتنا اثر ہوتا ہے۔ ایک کلمہ اگر مثبت ہو اور عاقلانہ انداز میں کہا گیا ہو تو وہ اچھائی و سلامتی کی راہیں ہموار کر دیتا ہے اور مدتوں کی بھڑکی ہوئی جنگ کے شعلوں کو ٹھنڈا کر سکتا ہے اور ایسا ہی ایک جملہ اگر منفی طور پر استعمال ہو تو وہ آگ کے شعلے بھڑکا کر شہروں اور ملکوں کو ویران کر سکتا ہے۔ تاریخ میں کتنے خون ہیں جو ایک جملہ کی وجہ سے بہے اور کتنے ہی ایسے مثبت جملے ہیں جنھوں نے دشمن کو دوست بنا دیا۔ خاندانی اور گھریلو چپقلش اکثر انہی جملوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس لیے آپؑ نے فرمایا کہ جملے کا اثر حملے سے زیادہ ہے۔ کہا گیا ہے کہ تلوار کا زخم کبھی بھر جاتا ہے مگر زبان کا زخم نہیں بھرتا۔ تیر کبھی خطا کر جاتا ہے مگر زبان کا وار خطا نہیں کرتا۔ تیر جسم کے کسی حصے کو بھی زخم کر سکتا ہے مثلاً ٹانگ پر لگا تو جان محفوظ رہی مگر زبان کا زخم دل پر ہی اثر کرتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ کلمے کی اہمیت اجاگر کر کے منفی کلمات سے پرہیز اور مثبت کلمات سے زندگیوں کو پر سکون بنانے کی راہنمائی فرما رہے ہیں۔

350۔ دو دن کی دنیا

وَ الدَّهْرُ يَوْمَانِ، يَوْمٌ لَكَ وَ يَوْمٌ عَلَيْكَ، فَإِذَا كَانَ لَكَ فَلَا تَبْطَرْ، وَ اِذَا كَانَ عَلَيْكَ فَاصْبِرْ۔ (حکمت 396)
زمانہ دو دنوں پرمنقسم ہے۔ ایک دن تمہارے موافق ایک دن تمہارے مخالف۔ جب موافق ہو تو اتراؤ نہیں اور جب مخالف ہو تو صبر کرو۔

زندگی کو حالات کی دو متضاد کیفیتوں میں ایسی تقسیم کلام امیرالمومنینؑ کی عظمت کا ایک نمونہ ہے۔ زندگی کے دو مختلف پہلوؤں کے بیان سے آپ نے مختصر ترین الفاظ میں اسے گزارنے کا طریقہ بتا دیا۔ زندگی کا کبھی کسی کے موافق اور کبھی خواہش کے برخلاف ہونا انسان کے بس میں نہیں مگر دونوں حالتوں میں زندگی کیسے بسر کرنی ہے، یہ انسان کا اپنا اختیار ہے۔ زندگی میں جب خوشیاں اور کامیابیاں بٹ رہی ہوں اور زندگی انسان کی مرضی و خواہش کے مطابق مٹھاس تقسیم کر رہی ہو یا آپ کے فرمان کے مطابق زندگی آپ کی بن چکی ہو تو فخر و تکبر سے بچ کر گزارو اور جب زندگی تلخیوں، ناکامیوں، شکستوں اور دکھوں سے بھر چکی ہو تو اسے نا امیدی سے بچا کر صبر سے بسر کرو۔ دو متضاد اوقات و حالات سے گزرتے ہوئے یقین رکھنا چاہیے کہ یہ زندگی ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی۔ اس لیے آپ کے حق میں ہو تو دھوکہ مت کھاؤ کہ ایسی ہی رہے گی ۔بڑے بڑے جب مطمئن ہوئے تو دنیا نے انہیں گرا کر حوادثات کے پاؤں تلے پامال کر دیا اور مشکلوں میں گھرے ہوؤں نے صبر و حوصلہ سے کام لیا تو زندگی نے انھیں تخت پر بٹھا دیا۔ زندگی میں نعمات کی فراوانی ہو تو انھیں دیر تک باقی رکھنے کا نسخہ قرآن مجید نے بتایا کہ شکر کرو تو نہ فقط باقی رہیں گی بلکہ نعمات بڑھیں گی۔ شکر کا طریقہ یہ ہے کہ جو دنیا کے دکھوں میں گھرے ہوئےہیں ان نعمات سے ان کے دکھ دور کرو اور جب دنیا کے دکھ غلبہ کر لیں تو شکست نہ کھاؤ بلکہ یقین رکھو کہ دنیا کے حالات بدلتے رہتے ہیں۔ انسان اگر حوصلہ و صبر سے کام لے کر اپنے اعصاب کو مضبوط کر کے ماہر پیراک کی طرح کچھ وقت کے لیے دنیا کے رخ کے ساتھ چلے تو جلد کنارہ پا لے گا۔ زندگی کا اتار چڑھاؤ مردوں کا امتحان ہوتا ہے کامیاب وہی ہوتا ہے جو بھولے نہیں، حقائق دنیا کو سمجھ لے تو غرور و نا امیدی سے محفوظ رہے گا اور دونوں صورتوں میں کامیابی اسی کی ہوگی۔

351۔ تکبر

ضَعْ فَخْرَکَ، وَ احْطُطْ کِبْرَکَ، وَاذْکُرْ قَبْرَکَ۔ (حکمت 398)
فخر کو چھوڑو، تکبر کو مٹاؤ اور قبر کو یاد رکھو۔

انسان کمال تک پہنچنے میں جن رکاوٹوں سے دو چار ہوتا ہے ان کی ایک طویل فہرست ہے اور کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو کمال تک پہنچے ہوئے انسان کو بلندی سے گرا بھی سکتی ہیں۔ ان گرانے والی چیزوں میں سے دو کا ذکر اس فرمان میں آیا ہے۔ ایک فخر اور دوسرا تکبر۔ کئی انسانوں میں بہت سے ایسے اوصاف و امتیازات ہوتے ہیں جو واقعا قابل فخر ہوتے ہیں مثلاً صاحب علم و دانش، متقی و زاہد، سخی و دردمند ہونا قابل فخر ہے مگر انہی اوصاف پر اگر کوئی خود فخر کرنے لگے یعنی خود کو دوسروں سے بڑا سمجھنے لگے اور دوسروں کو خود سے حقیر جاننے لگے تویہ زوال کا سبب بن جاتا ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی زبان سے تو فخر نہ کرے مگر اپنے حقیقی یا خیالی کارناموں کی وجہ سے عمل میں تکبر کرنے لگے مثلاً عبادت کے غرور میں گناہگاروں اور خطاکاروں کو قابل بخشش نہ سمجھے اور ان کے قریب جا کر انھیں عبادت کی طرف راغب کرنے کے بجائے ان سے دوری اختیار کرے۔ مال پر زبان سے تو فخر نہ کرے مگر کسی غریب کے ساتھ بیٹھنا اپنے لیے توہین سمجھے۔ خاندان میں کوئی بھائی غریب ہے تو مال کے غرور میں اسے سلام کرنے سے کترائے بلکہ یہ چاہے کہ وہ اسے سلام کرے اور اگر وہ غریب اسے سلام نہ کرے تو اس کا حق اسے نہ دے۔ یہ عملی غرور بھی انسان کو کمال سے گرا دیتا ہے۔ تیسرے حصہ میں امیرالمؤمنینؑ نے ان دو بیماریوں کا علاج بیان فرمایا کہ اگر مال و دولت یا مقام و منزلت اور قدرت و قوت کی وجہ سے دوسروں پر برتری کا خیال پیدا ہو تو قبر کو یاد کرے۔ جہاں مال و دولت وغیرہ میں سے کچھ نہیں ہوگا ۔قبر کی یاد کے ذریعہ فخر و تکبر کے مرض سے چھٹکارا پا سکتا ہے۔ وہاں اپنی بے بسی کو یاد کر کے یہاں کے بے بس اور غریب و نادار اور مظلوم کی مدد کر کے ان کی محبت و الفت حاصل کر سکتا ہے، جو اس کی اس دنیا میں نیک نامی اور آخرت میں اچھے اجر کا سبب بن سکتی ہے۔

352۔ اخلاق کا سردار

اَلتُّقٰى رَئِيْسُ الْاَخْلَاقِ۔ (حکمت 410)
تقویٰ تمام خصلتوں کا سرتاج ہے۔

انسان کو اللہ نے خلق فرمایا اور اشرف المخلوقات بنایا ،ساتھ ہی اسے زندگی گزارنے کے طریقوں سے آگاہ فرمایا۔ کچھ چیزیں کرنا لازم قرار دیں جنہیں واجب کہا گیا اور بعض چیزوں سے منع کیا جنہیں حرام کہتے ہیں۔ جو شخص اللہ کے بنائے ہوئے زندگی کے طریقوں کو اپنائے، جس کا حکم دیا بجا لائے، جس سے منع کیا اس سے رک جائے تو یہی تقویٰ ہے۔ یعنی اپنے اندر اس جذبہ و ذمہ داری کو پیدا کرنا جو انسان کو خطاؤں اور خدا کی نافرمانیوں سے محفوظ رکھے اور اطاعت پر آمادہ کرے تقویٰ کہلاتا ہے۔ انسان کے باطنی اوصاف جیسے سخاوت، حلم، ہمدردی، شجاعت وغیرہ کو اخلاق کہتے ہیں۔ ان اوصاف کا اظہار اللہ کے لیے ہوتو یہی تقویٰ کہلائے گا۔ کہیں بخل کو چھوڑ رہا ہے، ظلم کو ترک کر رہا ہے، جھوٹ سے بچ رہا ہے ،دوسروں کی مدد کر رہا ہے، جود و سخا سے کام لے رہا ہے اور ان سب اعمال میں اس کے مدنظر اللہ کی خوشنودی ہے تو یہ مرحلہ اخلاقیات کا سرتاج بن جائے گا۔

353۔ حِلم

اَلْحِلْمُ عَشِيرَْةٌ۔ (حکمت 418)
حلم و تحمل ایک پورا قبیلہ ہے۔

انسان زندگی میں جتنی بلندیوں پر فائز ہوتا ہے اتنی ہی مخالفت کی تند و تیز ہواؤں سے اسے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ جاہل و نادان لوگوں کی جہالت و نادانی کی وجہ سے سخت و توہین آمیز باتیں اور برتاؤ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کبھی حسد کی وجہ سے اور کبھی ان کی بات نہ ماننے کی وجہ سے وہ مخالفت کرتے ہیں۔ یہاں واقعا بلند آدمی وہی ہوگا جو حوصلہ و بردباری سے ان کے آزار سہ لے اور خاموشی و بزرگواری سے اپنے سفر کو جاری رکھے اور یہی قرآن کا حکم ہے کہ عقل مند لوگوں کا جب جاہل سے واسطہ پڑتا ہے تو سلام کہہ کر گزر جاتے ہیں۔
امیرالمؤمنینؑ کا دو لفظوں کا یہ جملہ حلم کی اہمیت کو واضح کر رہا ہے اور اسی جملے سے خاندان کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ خاندان میں دو چیزیں سرفہرست ہوتی ہیں۔ خاندان کے دوسرے افراد سے محبت اور خاندان کے کسی شخص سے زیادتی ہو تو دوسرے افراد اس کا دفاع اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ بردبار و حلیم شخص بھی اگر خاموش رہے تو لوگ اس کے کردار کی وجہ سے جاہل کے مقابلے میں اس سے محبت کریں گے اور اسی محبت کی وجہ سے اس کا دفاع بھی کریں گے۔
انسان اگر برا بھلا کہنے والے کے سامنے بردباری سے کام لے گا تو ممکن ہے اہانت کرنے والا خود بھی شرمندہ ہو مگر جاہل و نادان کا مقابلہ کیا جائے تو جاہل کی بھڑکائی ہوئی آگ بجھنے کے بجائے اور بھڑکے گی۔بعض لوگ حلم کو کمزوری کی نشانی سمجھتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ حلم ایک طاقت ہے۔ غضب و غصہ پر کنٹرول کر کے نادان و متجاوز کے مقابلے میں عقل کے تقاضوں کے مطابق خاموش رہنا اس طاقت میں اضافہ کرتا ہے۔ حلم کے بہت سے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ اسے علم کے بعد بہترین صفت قرار دیا گیا ہے بلکہ حلم کے بغیر علم کا بھی کوئی معیار نہیں۔

354۔ نیکی کو کم نہ سمجھو

اِفْعَلُوا الْخَيْرَ وَ لَا تَحْقِرُوْا مِنْهُ شَيْئاً۔ (حکمت 422)
اچھے کام کرو اور تھوڑی سی بھلائی کو بھی حقیر مت سمجھو۔

انسان کوئی ایسا عمل انجام دے جس سے مخلوق خداکو فائدہ ہو اور اسے خوشی حاصل ہو اچھائی اور خیر کہلاتا ہے۔ لازم نہیں کہ یہ کوئی بڑا فائدہ ہو، کسی کو تھوڑی سی دوا کی ضرورت ہے اسی سے اسے صحت حاصل ہوجائے تو یہی بڑی خیر اور اچھائی ہے، اسے چھوٹا نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس لیے جتنی بھلائی کی قدرت ہو اسے چھوٹا سمجھ کر ترک نہیں کرنا چاہیے۔ چھوٹی چھوٹی اچھائیاں ہی بڑی بنتی ہیں۔ یہی چھوٹے چھوٹے اچھے کام زندگیوں کو بدلنے کا سبب بنتے ہیں۔ اگر کسی اچھائی کو چھوٹا سمجھ کر چھوڑ دیا جائے تو پھر اچھائیوں کا سلسلہ شروع ہی نہ ہوسکے۔ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ کسی اچھائی کو یہ کہہ کر مت چھوڑو کہ کوئی دوسرا کر لے گا، اس طرح اچھائی تو دوسرے کی ذریعہ انجام پاجائے گی مگر آپ محروم رہ جائیں گے۔ امیرالمومنینؑ حقیقت میں لوگوں کو اچھائیوں کی تشویق دلا رہے ہیں تاکہ معاشرے میں اچھائیاں عام ہوں۔ اور انھیں دوسروں پر ڈال کر کوئی خود کو محروم نہ کرے۔

355۔ اصلاح باطن

مَنْ اَصْلَحَ سَرِيْرَتَهٗ، اَصْلَحَ اللّٰهُ عَلَانِيَتَهٗ۔ (حکمت 423)
جو اپنے باطن کی اصلاح کر لیتا ہے اللہ اس کے ظاہر کو درست کر دیتا ہے۔

انسان کا دل و دماغ بدن کا امیر ہے اور باقی اعضا اس کی رعایا کا مقام رکھتے ہیں۔ رعایا امیر کے تابع ہوتی ہے۔ جو اپنے دل و دماغ کو فضائل و کمالات سے سجا لیتا ہے اس کے دماغ میں علم ، عدل ، سخاوت اور رحم جیسے اوصاف سجے ہوئے ہوں اور وہ اس کی طبیعت کا حصہ بن چکے ہوں تو ان صفات کا اظہار اس کے قول و عمل سے ضرور ہوگا اور لوگوں کے ساتھ اس کا برتاؤ انہی صفات سے مزیّن ہوگا۔ دل میں رحم ہو تو لوگوں سے رحمت بھرا برتاؤ ہی ہوگا اور اگر باطن میں خباثت ہوگی تو لوگوں سے بغض و نفرت کا برتاؤ ہوگا۔ اس لیے اگر کوئی ظاہر کو سنوارنا چاہتا ہے تو پہلے اپنے باطن کی اصلاح کرنی ہوگی۔یوں اللہ بھی اس کے ظاہر کو بہتر کرنے میں مدد فرمائے گا۔

356۔ عہدہ و حکومت

اَلْوِلَايَاتُ مَضَامِيْرُ الرِّجَالِ۔ (حکمت 440)
عہدہ و حکومت لوگوں کے لیے آزمائش کا میدان ہے۔

انسان کو زندگی میں کئی امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے اور امتحان کامیابیوں اور نا کامیوں سے مطلع ہونے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس فرمان میں امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں کہ حکومت یا کوئی حکومتی عہدہ یا کسی کی سرپرستی انسان کی امتحان گاہ ہے اور آپ نے تشبیہ دی کہ جیسے گھوڑے کی آزمائش اس میدان میں ہوتی ہے جہاں اسے دوڑایا جاتا ہے۔ اسی طرح لوگوں کی آزمائش عہدوں سے ہوتی ہے۔ اس فرمان کے دو پہلو ہیں ایک تو یہ کہ کسی کو صدارت و وزارت ملے تو اپنے برتاؤ میں اور اخلاق میں خود کو مغرور و متکبر اور ظالم و ستم گر بنا کر پیش نہ کرے،حسنِ اخلاق کا تاج سر پر پہن کر اپنی حکومت کو لوگوں کے امن و سکون کا گہوارہ بنائے۔ بہت سے ایسے انسان گزرے ہیں جو نیک و پارسا اور دوستوں اور عزیزوں سے محبت کرنے والے تھے مگر کوئی عہدہ ملا تو جیسے کسی سے آشنائی ہی نہ تھی۔ ایسا شخص اس میدان مقابلہ میں گویا شکست کھا گیا، مسند حکومت پر بیٹھ کر خود کو فاتح سمجھنے لگا۔ اس میدان حکومت کے فاتح اور اس امتحان گاہ میں کامیاب افراد کا عظیم نمونہ خود علیؑ کی ذات ہے جو اپنے دور حکومت میں کہتے ہیں کہ اگر عدل و انصاف کا قیام مدنظر نہ ہو تو آپ پر یہ حکومت میرے ٹوٹے ہوئے جوتے سے بھی کم قیمت ہے۔ اس میدان حکومت کا دوسرا امتحان اس شخص کے تدبر و رائے اور عزم و ہمت کا امتحان ہے۔ مسند حکومت پر بیٹھا یا کسی عہدہ کو سنبھالا تو وہ اسے کس حسن تدبیر سے آگے بڑھاتا ہے اور اپنے ما تحتوں کو کیسے فائدہ پہنچاتا ہے۔ اس فرمان کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی عہدے پر فائز شخص یا جس کی سرپرستی میں چند لوگ ہوں وہ اپنے برتاؤ کو سنوارنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے متوجہ کیا ہےکہ آپ کے اختیارات کیا ہیں اور انھیں آپ نے کیسے استعمال کرنا ہے۔ اس پر غور کریں اور کوئی عہدہ آپ کو آپ کے ما تحتوں کی خدمت کرنے میں رکاوٹ نہ بنے بلکہ عہدہ خدمت خلق کا ذریعہ بنے۔ امام علیؑ کے دور حکومت میں بصرہ کے والی عثمان بن حنیف کسی ایسی دعوت میں چلے گئے تھے جہاں سے غریبوں اور یتیموں کو دور رکھا گیا تو نہج البلاغہ کا تلخ ترین خط آپ نے انھیں لکھا کہ آپ اپنے عہدہ کی ذمہ داریاں بھول گئے۔

357۔ پاکیزہ خصلت

اِذَا كَانَ فِيْ رَجُلٍ خَلَّةٌ رَائِقَةٌ، فَانْتَظِرُوا اَخَوَاتِهَا۔ (حکمت 445)
اگر کسی آدمی میں ایک پاکیزہ خصلت ہو تو ویسی ہی دوسری خصلتوں کی بھی توقع رکھو۔

انسان کی پہچان یا معرفتِ انسان ایک اہم موضوع ہے۔ کسی سے آپ کو کوئی تعلق جوڑنا ہے تو اس کی پہچان لازمی ہے تاکہ اس کے مطابق برتاؤ کیا جائے۔ امیرالمومنینؑ نے انسان کی پہچان کا ایک آسان سا طریقہ بتا دیا ہے کہ کسی شخص کے ایک عمل یا کردار کو ،ایک عادت و خصلت کو دیکھ کر اس کی کافی پہچان ہو جاتی ہے۔ جیسے ایک درخت پر لگے بے شمار پھلوں میں سے ایک دانہ چکھ کر دوسرے تمام پھلوں کا ذائقہ جانا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انسان کی ایک عادت کو دیکھ کر باقی عادات کابھی اندازہ ہو جاتا ہے۔ کہیں آپ کو زمین کھودنے پر قیمتی پتھر ملے تو آپ اسی زمین میں ویسے ہی قیمتی پتھروں کی توقع کر سکتے ہیں اور کہیں کوئلہ نکلے تو باقی بھی کوئلے ہی کی امید کی جا سکتی ہے۔ انسان کا عمل اس کے باطن کی نشاندہی کرتا ہے اور جب باطن سے اچھائی ظاہر ہو رہی ہے تو مقصد یہ ہے کہ باطن میں اچھائی پائی جاتی ہے۔ ایک اچھائی ظاہر ہو تو باقی بھی اچھائیاں ہوں گی اور اگر اندر پلید ہو تو باقی عمل میں بھی وہی پلیدی نظر آئے گی۔امیرالمومنینؑ نے یہاں ایک کلیہ و قاعدہ بتایا ہے، بعض مقامات اس سے مستثنی اور الگ بھی ہو سکتے ہیں مگر بہت کم۔ اس فرمان سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ بعض خطائیں دوسرے کئی گناہوں کی بنیاد ہوتی ہیں۔ جیسے بخل بہت سے دوسری بیماریوں کی بنیاد ہے تو جس میں بخل نظر آیا گویا کئی دوسری بری عادتیں اس میں موجود ہیں اور زہد بہت سی خوبیوں کی چابی ہے جس میں زہد نظر آئے گا گویا اس میں کئی اچھائیوں کی بنیاد قائم ہے۔

358۔ نا شکری

مَنْ عَظَّمَ صِغَارَ الْمَصَائِبِ، ابْتَلَاهُ اللّٰهُ بِكِبَارِهَا۔ (حکمت 448)
جو شخص ذرا سی مصیبت کو بڑی اہمیت دیتا ہے اللہ اسے بڑی مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔

دنیا میں کسی انسان کی زندگی مصائب و مشکلات سے خالی نہیں ہوتی۔ کسی کے لیے یہ مشکلات کم تو کسی کے لیے زیادہ ہوتی ہیں، کبھی یہ تکالیف چھوٹی اور کبھی بڑی ہوتی ہیں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی آدمی ساری زندگی دکھ نہ دیکھے۔ کبھی مرض تو کبھی قرض، کبھی پیاروں کی جدائی تو کبھی اپنوں کی زیادتیاں، کبھی قحط سالی کا سامنا تو کبھی زلزلے اور سیلاب۔ انسان اگر ان مصائب کے دیکھتے ہی شکوہ و شکایت اور نالہ وفریاد کرنا شروع کر دے تو نہ مشکلیں حل ہوں گی اور نہ مصیبتوں سے چھٹکارا ہوگا۔
انسان کو چاہیے کہ خود کو حقائق سے ہم آہنگ کرے اور جو پریشانیاں لاحق ہوں انھیں زندگی کا حصہ سمجھ کر برداشت کرے ۔ بڑا انسان وہی ہوتا ہے جو بڑی بڑی مشکلیں سہ جاتا ہے چہ جائیکہ چھوٹی چھوٹی پریشانیوں پر شکایت کرے۔ اگرکسی نے چھوٹی چھوٹی مشکلات پر پریشان ہونا شروع کر دیا اور چیخ پکار کرنے لگا تو پریشانی کئی بیماریوں کا سبب بن جاتی ہے۔ آج سائنس واضح کر چکی ہے کہ شوگر اور بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کا اہم سبب یہی پریشانی ہے۔ خود امیرالمومنینؑ نے فرمایا: کہ ’’غم آدھا بڑھاپا ہے‘‘چھوٹی مشکلیں بڑی مشکلوں کا سبب بن جاتی ہیں۔

359۔ عزت نفس

مَنْ كَرُمَتْ عَلَيْهِ نَفْسُهٗ، هَانَتْ عَلَيْهِ شَهَوَاتُهٗ۔ (حکمت 449)
جس کی نظر میں خود اپنے نفس کی عزت ہوگی وہ اپنی نفسانی خواہشوں کو بے وقعت سمجھے گا۔

انسان عزت و کرامت کی راہیں دین و عقل کی راہنمائی سے طے کرتا ہے۔نفس کی خواہشات انسان کی عقل کے لیے زنجیر راہ بن جاتی ہیں۔ خواہش پرست انسان خواہشوں کا ایسا قیدی بن جاتا ہے کہ جس سے آزادی مشکل ہو جاتی ہے۔ اس لیے کسی حکیم سے پوچھا گیا کہ اس دنیا میں آپ کی بڑی خواہش کیا ہے تو جواب دیا کہ بس خواہش یہی ہے کہ کسی چیز کی خواہش پیدا نہ ہو۔
اپنے نفس و ذات کو ان بے جا خواہشوں سے پاک رکھنا اتنا اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں قسمیں کھا کر فرماتا ہے کہ جس نے نفس کو پاک کر لیا وہ فلاح پا گیا اور کامیاب ہو گیا۔ نفس ہر وقت کوئی نہ کوئی خواہش رکھتا ہے کبھی جائز تو کبھی ناجائز۔ کبھی اس کے تقاضے انسانیت کی فطرت کے مطابق ہوتے ہیں اور کبھی دوسرے انسانوں کے نقصان کا سبب ہوتے ہیں۔ امیر المؤمنینؑ نے ان خواہشات کا ذکر کیا ہے جو جائز ہیں جیسے لذیز کھانے کی طلب، عمدہ لباس، زیادہ آرام کی تمنا۔آپ کے فرمان کے مطابق یہ چیزیں بھی بزرگ شخصیات کو پسند نہیں تھیں۔ امیرالمؤمنینؑ کا نہج البلاغہ میں یہ کہنا کہ میں نے دو روٹیوں اور دو چادروں پر وقت گزارا ہے۔ یہ انہی جائز خواہشوں سے دوری کا اعلان ہے۔ اگر جائز خواہشات بزرگی کی رکاوٹ ہوتی ہیں تو ناجائز خواہشیں کتنی قابل مذمت ہوں گی۔ امیرالمؤمنینؑ یہاں فرما رہے ہیں کہ جو اپنی شخصیت اور بزرگی کی حفاظت کرتا ہے خواہشات اس کے لیے گھٹیا اور حقیر چیز بن جاتی ہیں اور وہ ان سے دور ہو رہتا ہے ۔ان خواہشات سے نجات اور عزت و کرامت کو بچانے کے لیے صبر و تحمل کی ضرورت ہوتی ہے جو بزرگ صفت لوگوں میں یقیناً موجود ہوتا ہے۔ وہ اسی کے سہارے سے خواہشوں کو شکست دے کر بزرگی پا لیتے ہیں۔

360۔ مذاق کا نقصان

مَا مَزَحَ امْرُؤٌ مَزْحَةً، اِلَّا مَجَّ مِنْ عَقْلِهٖ مَجَّةً۔ (حکمت 450)
کوئی شخص ہنسی مذاق نہیں کرتا مگر یہ کہ اسی قدر اپنی عقل کا ایک حصہ الگ کر دیتا ہے۔

انسان جب کسی دوسرے انسان کی خوشی و مسرت کا سبب بنتا ہے تو وہ قابل تعریف ہو جاتا ہے اور اگر کسی کا دل دکھائے تو وہی قابل مذمت ہوتا ہے۔ مزاح ایک ایسا عمل ہے جس سے دوسرے انسانوں کی ہنسی کا ذریعہ نکالا جا سکتا ہے ایسی صورت میں یہ مزاح قابل تعریف ہے اور رسول اللہؐ سے بھی اس قسم کا مزاح منقول ہے مگر مزاح ہی کے نام سے بارہا دوسروں کی دلشکنی ہوتی ہے آزار و ایذاء کا سبب بنتی ہے۔ انتقام کی بو آتی ہے اور کبھی مزاح کے نام سے بات غیبت و تہمت تک پہنچ جاتی ہے۔ گھٹیا قسم کے مسائل درمیان میں لائے جاتے ہیں۔ اردگرد کے لوگ ممکن ہے ہنسیں مگر جس سے مزاح کیا جا رہا ہے اس کے دل دکھنے کا سبب بنتا ہے۔ امیر المؤمنینؑ اسےخلاف عقل فرما رہے ہیں یعنی مزاح مزاح ہی کی حد تک ہو، اس میں توہین و تکلیف کا پہلو نہ ہو تو اچھی چیز ہے اور حد سے زیادہ ہو تو قابل مذمت ہے اور کئی بار کسی کی ہلاکت و بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔
مزاح کے انداز میں اگر دہشت پھیلائی جا رہی ہو، جیسے اپریل فول کا تصور ہے تو یہ صحیح نہیں۔ بعض اوقات مزاح سے خود انسان کی توہین ہو جاتی ہے۔ بڑا آدمی مثلاًاستاد شاگرد سے مزاح کرتا ہے تو ایک وقت شاگرد کی بھی زبان سے ہتک آمیز الفاظ مزاح ہی کے انداز میں نکل سکتے ہیں۔ بعض حکماء نے کہا ہے کہ مزاح نہ کرو ورنہ سامنے والا آپ سے جسارت کرے گا، بے باک ہو جائے گا اور توہین کا سبب آپ خود ہوں گے۔

361۔ غیبت

اَلْغِيْبَةُ جُهْدُ الْعَاجِزِ۔ (حکمت 461)
پیٹھ پیچھے برائی کرنا کمزور کی آخری کوشش ہوتی ہے۔

غیبت یعنی کسی کی پیٹھ پیچھے اس کی وہ کمزوریاں اور برائیاں بیان کرنا جنھیں وہ مخفی رکھنا چاہتا ہے اور اس کے ان عیبوں کو اگر اس کے سامنے بیان کیا جائے تو اسے برا لگے۔ مثلاً کسی نے چوری کی اب اس کی سزا اسے عدالت دے گی اور عدالت اگر گواہ کے طور پر بلائے تو چوری کی اطلاع رکھنے والے کو گواہی دینی چاہیے۔ مگر اسے چوری کی سزا مل گئی یا جن کی چوری کی تھی ان سے معاملہ طے ہو گیا، اب اگر اس کی عدم موجودگی میں اطلاع رکھنے والا اسے چور کہہ کر پکارتا ہے تو یہ غیبت ہوگی۔ قرآن مجید میں اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔امیر المؤمنینؑ نے غیبت کرنے والے کو عاجز و پست شخص قرار دیا ہے۔ اس فرمان سے انسان کی عزت و مقام کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ آپ کے مطابق ایسا عمل و قول جس سے کسی خطاکار کی عدم موجودگی میں توہین ہو رہی ہو، یہ حقیقت میں غیبت کرنے والے کی اپنی کمزوری کا اور گھٹیا پن کا اظہار ہے۔ غیبت اکثر وہی لوگ کرتے ہیں جو کسی سے حسد یا انتقام کی وجہ سے اس کی عزت کو قبول نہیں کرتے اور نہ اس مقام کو اپنی محنت سے پا سکتے ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس کے عیبوں کو دوسروں کے سامنے بیان کریں تاکہ ان کا مقام لوگوں کی نگاہ میں گرے ۔سمجھدار آدمی غیبت کرنے والے کی پستی سے آگاہ ہوگا۔اسلام کسی خطاکار کو پیٹھ پیچھے خطاکار کہنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ انسانی حقوق و احترام کی اہمیت کا بیّن ثبوت ہے۔ یہ دوسرے انسان کے حق کی پامالی ہے اب جب تک وہ انسان اس عیب بیان کرنے کو یعنی غیبت کو معاف نہیں کرے گا، اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں کرے گا۔ یہ اس صورت میں ہے جب مذکورہ شخص میں عیب پایا جاتا ہے اور اسے بیان کیا جائے اور اگر وہ عیب جو اس پر لگایا جا رہا ہے وہ اس میں نہ ہو تو یہ تہمت و بہتان ہے، جو الگ گناہ ہے۔ غیبت کا معاشرتی نقصان بھی ہوگا کہ لوگوں کا ایک دوسرے پر اعتماد ختم ہوگا اور اخوت و دوستی میں خلل واقع ہوگا اور یُوں اجتماعی معاملات سست روی کا شکار ہوں گے۔

362۔ خود فریبی

رُبَّ مَفْتُوْنٍ بِحُسْنِ الْقَوْلِ فِيْهِ۔ (حکمت 462)
بہت سے لوگ اپنے بارے میں تعریف سے فریب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

با کمال لوگ دوسروں کی چھوٹی چھوٹی چیزوں اور کاموں کی تعریف کر کے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ کسی بزرگ کا تشویق و تعریف کا ایک جملہ سامنے والے کی کئی گنا ہمت بڑھا دیتا ہے۔ یوں کسی کی تعریف سے معاشرے میں اچھائیوں میں پیشرفت ہوتی ہے۔ البتہ بہت سے لوگوں کے لیے یہی تعریف فریب و فتنہ کا سبب بن جاتی ہے۔ خاص کر اگر یہ تعریف کسی ما تحت یا ضرورت مند کی طرف سے ہو تو یہ انسان کو متکبر و مغرور بنا دیتی ہے۔ ایسا انسان پھر ہر کسی سے احترام اور تعریف کی توقع رکھتا ہے اور اگر کوئی ما تحت یا چھوٹا اس کی تعریف نہیں کرے گا تو ممکن ہے اس کا حق بھی مکمل نہ دے۔زیادہ تعریف کا یہ بھی نقصان ہوتا ہے کہ جس کی تعریف کی جا رہی ہے وہ خود کو کامل سمجھنے لگتا ہے اور پھر آگے بڑھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ تعریف اگر حقیقی بھی ہو تو قابل تعریف آدمی کے حاسد پیدا کر دیتی ہے اور کچھ لوگ حسد کی وجہ سے ان سے دشمنی پر اتر آتے ہیں اور ہر طریقے سے اسے کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے تعریف کرنے میں نہ بخل کرنا چاہیے نہ حد سے بڑھنا چاہیے۔ امیر المؤمنینؑ نے)خطبہ 191 (میں انسان کامل کی تعریف میں فرمایا۔ “جب ان میں سے کسی ایک کو سراہا جاتا ہے تو وہ اپنے حق میں کہی ہوئی باتوں سے لرز جاتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ میں دوسروں سے زیادہ اپنے نفس کو جانتا ہوں اور میرا پروردگار مجھ سے بھی زیادہ میرے نفس کو جانتا ہے”۔ امیر المومنینؑ نے گویا فرمایا کہ ’’تعریف انسان کو فریب دے سکتی ہے اس لیے اس سے ہوشیار رہیں۔‘‘

363۔ اہل علم کی ذمہ داری

مَا اَخَذَ اللهُ عَلٰى اَهْلِ الْجَهْلِ اَنْ يَتَعَلَّمُوْا، حَتّٰى اَخَذَ عَلٰی اَهْلِ الْعِلْمِ اَنْ يُعَلِّمُوْا۔ (حکمت 478)
اللہ نے جاہلوں سے اس وقت تک سیکھنے کا عہد نہیں لیا جب تک جاننے والوں سے سکھانے کا عہد نہیں لے لیا۔

انسان کی زندگی میں ہرشخص کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں اگر ہر کوئی اپنی ذمہ داریاں ادا کرے تو افراد کی زندگی بھی اور اقوام کی زندگیاں بھی کامیابی اور سکون سے گزریں گی۔ اکثر ناکامیوں کا سبب یہ ہوتا ہے کہ افراد اپنی ذمہ داریاں دوسروں کے کندھوں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ امیرالمؤمنینؑ نے یہاں جاننے اور نہ جاننے والوں کی ذمہ داریاں معین کی ہیں۔ فرمایا پہلی ذمہ داری عالم یا جاننے والے کی ہے کہ وہ دوسروں کو سکھائے اور پھر نہ جاننے والے کا فریضہ ہے کہ وہ سیکھے۔ یہاں علم و عالم سے مراد فقط دین کے مسائل جاننے والا نہیں بلکہ دین کے ساتھ ساتھ معاشرے کی ضروریات پوری کرنے والے ہر جاننے والے کو شامل ہے ۔ڈاکٹر، معمار، کاشتکار، تاجر، سیاست دان سب کو شامل ہے۔ ہر استاد اور شاگرد کے لیے یہ کلیہ بہت واضح ہے۔ کوئی صاحب ہنر اگر اس ہنر کو نعمت سمجھ کر اپنے فریضے کے طور پر دوسروں تک پہنچائے۔ بلکہ بعض بزرگان کے بقول استاددوسروں میں علم کی پیاس اور سیکھنے کی تڑپ پیدا کرےتو یہ ایک کمال ہو گا اور اس ذمہ داری کی ادائگی ہو گی۔پھر شاگرد پیاس محسوس کر کے ہنر مند کے پاس سیکھے تو یہ شاگرد کی ذمہ داری کی ادائگی ہو گی۔ امیرالمؤمنینؑ نہج البلاغہ میں ایک جگہ پر پیغمبر اکرمؐ کا تعارف اس طبیب کے طور پر کراتے ہیں جو اپنے طب کے اوزار اٹھائے ہوئے مریضوں کی تلاش میں ہے۔ اگر صاحبان علم و ہنر میں سکھانے کا یہ جذبہ پیدا ہوجائےاور اللہ نے سکھانے کا جو عہد ان سے لیا ہے وہ پورا کریں تو معاشرہ بدل سکتا ہے۔
ایک مقام پر امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں: دین اور دنیا کی مضبوطی چار قسم کے آدمیوں کی وجہ سے ہے: عالم جو اپنے علم کو استعمال کرتا اور کام میں لاتا ہے اور جاہل جو علم حاصل کرنے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ جب عالم اپنے علم کو استعمال میں نہیں لائے گا اور ضائع کرے گا تو جاہل اس علم کو سیکھنے میں عار محسوس کرے گا۔ یعنی ہر طرف سے ذمہ داریاں ادا ہوں گی تو زندگی کامیاب اور پر سکون ہوگی اور قوم ترقی کرے گی۔

364۔ برا بھائی

شَرُّ الْاِخْوَانِ مَنْ تُكُلِّفَ لَهٗ۔ (حکمت 479)
بدترین بھائی وہ ہے جس کے لیے زحمت اٹھانا پڑے۔

انسان کی زندگی کا ایک قیمتی سرمایہ اس کے دوست ہوتے ہیں۔ حقیقی دوست کی اہمیت، دوست کی پہچان، دوستی کی حد، دوستی کا اثر جیسے موضوعات امیر المؤمنینؑ نے مختلف الفاظ میں بیان فرمائے ہیں۔ اس فرمان میں سچے دوست کی ایک پہچان بیان فرمائی ہے۔ سچا دوست وہ ہے جس کی دوستی نبھانے کے لئے مشقت و تکلف نہ کرنا پڑے بلکہ اس کی دوستی سکون و آرام کا ذریعہ ہو۔ حقیقی دوست وہ ہے جو دوسروں کے غم اور بوجھ کو کم کرے ۔ اگر کوئی شخص دوست کی پریشانی میں اضافہ اور بوجھ کا سبب بنتا ہے تو اس دوستی کا معیار محبت و خلوص نہیں مصلحت و مطلب پرستی ہے۔سچا دوست جانتا ہے کہ میرے دوست کے گھر میں کیا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ جو ہے اسے پیش کرنے میں کوتاہی نہیں کرے گا۔ اس لیے جو اسے پیش کیا گیا اسے کم نہیں سمجھے گا۔ نہ میزبان شرمائے کہ میں کچھ پیش نہیں کر سکا نہ مہمان دوست محسوس کرے کہ مجھے دیا کم گیا ہے۔ دوستی میں تکلفات، دوستی میں خلل کا سبب بنتے ہیں۔ تکلفات کی صورت میں غریب دوست دوسرے دوستوں کی ملاقات سے محروم رہے گا اگر خاطر خواہ خدمت نہ کر سکا تو شرمندہ ہوگا اور یوں تکلفات کی وجہ سے دوستوں میں دوری ہو جائے گی۔ محبت و خلوص کی دوستی یہ ہے کہ جو نہیں ہے اس کے لئے تکلف نہ کرنا پڑے اور جو گھر میں ہے اسے خرچ کرنے اور پیش کرنے میں دریغ نہ کیا جائے۔

365۔ دوستی کی حفاظت

اِذَا احْتَشَمَ الْمُؤْمِنُ اِخَاهُ، فَقَدْ فَارَقَهٗ۔ (حکمت 480)
جب مومن اپنے کسی بھائی کو شرمندہ کرے تو یہ اس سے جدائی کا سبب ہوگا۔

انسان کی زندگی ایک دوسرے کے سہارے سے آگے بڑھتی ہے۔ کسی شخص کی زندگی کی کامیابی اور سکون میں دوسرے انسانوں کا بہت اثر ہوتا ہے۔ خونی رشتے کے بعد اساتذہ اور ان کے بعد دوست زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دوستی کی اہمیت ایک اہم موضوع ہے جس پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور امیر المؤمنینؑ کے بیان بھی بار ہا اس سلسلہ میں ذکر ہو چکے ہیں اور ان کے حقوق و فرائض کی وضاحت ہو چکی ہے ۔اس فرمان میں آپ دوستی کی حفاظت کے لیے ایک راہ واضح فرماتے ہوئے متوجہ کرتے ہیں کہ جدائی کے اسباب کو جانو تاکہ دوستی کو بچا سکو۔ آپؑ نے دوسرے بھائی یا دوست کو غضب ناک کرنے، شرمندہ کرنے اور خود کو اس سے برتر جاننے کو جدائی کا سبب قرار دیا ہے۔ دوست ملنے کی خواہش رکھتا ہے اور انسان کہے کہ میرے پاس وقت نہیں، دوست کی ضرورت ہے اورآدمی اس سے بے اعتنائی کرے، دوست سے کوئی غلطی ہوگئی اسے بار بار وہ غلطی یاد دلا کر شرمندہ کیا جائے، دوست کسی چیز سے نفرت کرتا ہے اور وہی چیز بار بار دہرا کر اسے غصہ دلایا جائے یہ وہ سب اسباب ہیں جو کبھی نہ کبھی دوستوں میں جدائی ڈلوا دیں گے۔ امیر المؤمنینؑ اس خطرے سے متنبہ کر کے دوستی کی حفاظت کے اصول بیان فرما رہے ہیں۔ البتہ کچھ دوست حقیقی ہوتے ہیں جن سے اعتماد اور بھروسا کا برتاؤ ہونا چاہیے اور کچھ ظاہری اٹھنے بیٹھنے اور ایک ساتھ کھانا کھا لینے یا سفر کر لینے والے ہوتے ہیں جنھیں ہاتھ ملانے والے دوست کہا جا سکتا ہے، ان سے اور قسم کا برتاؤ ہوگا۔ اس لیے دوست کو پہچانیں اور جب حقیقی دوست مل جائے تو اس دوستی کو مقدس رشتہ سمجھ کر نبھانے کی کوشش کریں۔