جامعہ جعفریہ اٹک

جامعہ جعفریہ جنڈ کا 1986ء سے اب تک کا سفر

الْعِلْمُ وِرَاثَةٌ كَرِيمَةٌ
علم، عظیم ترین میراث ہے۔
(نہج البلاغہ حکمت: 4)

انسانی زندگی کا وہ سرمایہ جو دنیا و آخرت میں کام آتا ہے، وہ علم ہے اور کتنے عظیم ہیں وہ لوگ جو اس قیمتی میراث و سرمایہ کو محنت و لگن کے ساتھ حاصل کرتے ہیں اور پھر اسے دوسروں میں تقسیم کرتے ہیں کہ ان کا یہ عمل انہیں باب العلم علی ابن ابی طالبؑ کے اس فرمان کا مصداق بنا دیتا ہے:

الْعُلَمَآءُ بَاقُوْنَ مَا بَقِیَ الدَّهْرُ
علم حاصل کرنے والے رہتی دنیا تک باقی رہتے ہیں۔
(نہج البلاغہ حکمت: 147)

قوم کے ان عظیم محسنوں میں سے ایک محسنِ ملت حضرت علامہ سید صفدر حسین نجفیؒ ہیں۔ جنہوں نے قوم میں علوم محمد و آل محمدؐ کا سرمایہ تقسیم کرنے کے لیے پاکستان بھر میں دینی مدارس کا جال بچھانے کا ارادہ کیا اور الحمدللہ بڑی حد تک اس میں قوم نے بھی آپ کا ساتھ دیا اور مدارس قائم کیے۔

ان مدارس میں سے ایک جنڈ شہر، ضلع اٹک میں قائم ہونے والا واحد دینی ادارہ "جامعہ جعفریہ جنڈ” ہے۔
علامہ صفدر حسینؒ کے توجہ دلانے پر جنڈ کے مقامی جوانوں اور مقامی عالم دین مولانا ملک ذوالفقار علی صاحب نے قومی جذبے کا ثبوت دیتے ہوئے قدم بڑھایا اور جنڈ کے ایک بڑے زمیندار اور متقی و پرہیزگار مؤمن جناب ملک محمد امیر خانؒ نے اپنی قیمتی اراضی میں سے 12 کنال زمین مدرسہ کے نام وقف کی۔

اس موقوفہ زمین پر 21 مارچ 1986ء کو ایک عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا۔ جس پر علامہ سید صفدر حسینؒ، قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینیؒ، قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی، علامہ سید محمد تقی نقوی، سیٹھ نوازش علی اور دیگر علماء کے ہاتھوں مدرسہ جعفریہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔

مقامی طور پر مولانا ملک ذوالفقار علی صاحب نے مدرسہ کی تعمیرات کا کام شروع کرایا اور چار کمروں اور چاردیواری پر مشتمل پہلا مرحلہ مکمل کیا۔

تعلیمی افتتاح

مدرسہ کے تعلیمی سلسلہ کو شروع کرنے کے لیے مولانا ملک ذوالفقار علی صاحب نے 1990ء میں ایران کے اپنے زیارتی سفر کے دوران قم المقدسہ میں اپنے علاقے کے فاضل عالم دین مولانا مقبول حسین علوی صاحب کو مدرسہ میں بطورِ پرنسپل آنے اور مدرسہ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی دعوت دی۔

مولانا مقبول حسین علوی صاحب نے حوزہ علمیہ قم سے جنڈ شہر منتقل ہو کر مدرسہ جعفریہ کے انتظامات سنبھالے اور 18 مئی 1990ء کو باقاعدہ تعلیمی سلسلے کا افتتاح کیا۔

مدرسہ کے افتتاحی پروگرام میں علامہ سید گلاب علی شاہؒ، قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی، علامہ سید شیر علی شاہؒ، علامہ یعقوب توسلیؒ، علامہ ملک اعجاز حسین، علامہ سید محمد تقی نقوی، علامہ سید افتخار حسین نقوی اور متعدد علماء اور دانشور حضرات نے شرکت کی۔

مدرسہ جعفریہ میں 2 سالہ کامیاب دینی خدمات کے بعد مولانا مقبول حسین علوی اکتوبر 1992ء میں مولانا ظفر عباس ملک صاحب کی دعوت پر دینی و مذہبی خدمات کی انجام دہی کے لئے برطانیہ چلے گئے اور اپنی جگہ پر مولانا سید فرحت عباس ہمدانی کو مدرسہ کا پرنسپل مقرر کیا۔

مولانا علوی کی سرپرستی اور مولانا ذوالفقار علی کی خصوصی دلچسپی سے مدرسہ کا تعلیمی سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ یہاں تک کہ قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی کے فرمان پر عالم باعمل جناب علامہ سید رضی عباس ہمدانی 1994ء میں جامعہ جعفریہ میں بطور پرنسپل تشریف لائے۔

کچھ مدت بعد ہمدانی صاحب کی معاونت کے لیے مولانا علوی نے علاقہ کے ہی فاضل عالم دین مولانا عارف حسین واحدی کو مدرسے میں دعوت دی جو کافی وقت مدرسے میں قابل قدر خدمات انجام دیتے رہے۔ غرض اسی طرح مختلف ادوار میں مختلف علماء مدرسہ جعفریہ میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔

علامہ سید رضی عباس ہمدانیؒ نے اپنی زندگی جامعہ جعفریہ کے لیے وقف کر رکھی تھی بلکہ اپنی اولاد میں سے جوان عالم دین بیٹے جناب مولانا سید حیدر سعید حیدر ہمدانی کو بھی مدرسہ کے لیے گویا وقف کر دیا۔

سید بزرگوار کی محنتوں، دعاؤں اور ذاتی مالی تعاون اور مولانا مقبول حسین علوی کی معاونت سے جامعہ جعفریہ جنڈ اس وقت ملک کے بہترین مدارس میں سے شمار ہوتا ہے۔

قبلہ سید رضی عباس ہمدانیؒ اپنی زندگی کے آخری لمحات یعنی فروری 2024ء تک جامعہ جعفریہ میں خدمات انجام دیتے رہے۔ ہمدانی صاحب کو مدرسہ کی خدمات کی انجام دہی میں ان کے شاگرد اور فرزند مولانا سید سعید حیدر ہمدانی اور آپ کے شاگرد خاص مولانا لیاقت علی اعوان کا بھرپور تعاون حاصل رہا۔

مدرسہ کی موجودہ صورتحال

الحمد للہ، اس وقت یعنی اکتوبر 2025ء میں قبلہ ہمدانی صاحب کی دعاؤں اور آپ کے شاگردوں، مدرسین کی زحمات اور مولانا مقبول علوی صاحب کے خصوصی تعاون سے مدرسہ جعفریہ میں اس وقت 78 طلبہ علوم محمد و آل محمد (ص) کے حصول میں مشغول ہیں اور اسی طرح 60 سے زائد طلبہ اس مادر علمی سے فارغ التحصیل ہو کر حوزہ علمیہ قم، مشہد اور نجف اشرف میں اعلی دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

جامعہ جعفریہ کے سابقہ طالب علم جناب مولانا میثم طہٰ صاحب، جو حوزہ علمیہ قم میں اعلی دینی تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ ایک مدرس کے عنوان سے خدمات انجام دیتے رہے، حال ہی میں بطورِ مدرس جامعہ جعفریہ تشریف لائے ہیں۔
الحمدللہ جامعہ میں اب مولانا نذیر حسین ناصری، مولانا لیاقت حیات رانجھا، مولانا طیب شہزاد اور مولانا سید مجتبیٰ حیدر سمیت چھ مدرسین تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

اسی طرح جامعہ جعفریہ کے ہونہار طلاب حوزہ علمیہ قم میں اپنی تعلیمی کارکردگی کی بنیاد پر خاصا مقام رکھتے ہیں۔ جامعہ جعفریہ ہی کے فاضل طالب علم جناب مولانا سید عقیل عباس نقوی، قم کی ایک فعال اور معروف شخصیت ہیں۔ نقوی صاحب قم میں مرکز افکار اسلامی کے مدیر بھی ہیں۔

جامعہ کی علاقائی دینی خدمات کو دیکھا جائے تو علاقہ بھر کے مختلف دینی مراسم میں علماء و مبلغین کی فعال موجودگی کے علاوہ جامعہ جعفریہ کے 10 سے زیادہ طلاب علاقہ کی مساجد میں امام جمعہ والجماعت کے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ مقامی مساجد میں قرآن سینٹر چلا رہے ہیں۔

بحمداللہ جامعہ جعفریہ جنڈ، ضلع اٹک کی دینی اور مذہبی ذمہ داریوں کو بھرپور اندازمیں نبھا رہا ہے اور علاقے کے مؤمنین بھی اسی انداز سے بھرپور انداز میں دامے درہمے سخنے تعاون فرما رہے ہیں۔

الحمد للہ اس دوران مدرسہ کے تعلیمی مراحل میں پیشرفت کے ساتھ ساتھ بڑی مقدار میں تعمیراتی کام بھی انجام پائے۔ جس میں جامعہ جعفریہ میں موجود عالیشان مسجد جو علامہ سید عاشق حسین نقوی صاحب کے تعاون سے تعمیر کی گئی۔ اس کے علاوہ طلبہ کے رہائشی 18 کمرے، دفاتر، مدرسہ کے عملہ کے کمرے، مہمان خانے، لائبریری، دارالقرآن، کلاس رومز، کمپیوٹر لیب، علماء کرام کے رہائشی گھر، اسٹور، ڈائننگ ہال، مختلف پروگرامز کے انعقاد کے لئے ہال اور مدرسہ کی مالی معاونت کے لئے 10 عدد دکانوں کی تعمیر بھی شامل ہے۔

جامعہ کا 21 مارچ 1986ء سے اب تک کا سفر، تصاویر میں

Back to top button