مطبوعات

نہج البلاغہ اور اردو شعراء

مرکز افکار اسلامی

جہاں سے پلتی تھی اقبالؔ روح قنبر کی

مجھے بھی ملتی ہے روزی اسی خزینے سے

امیر المومنین امام علی علیہ السلام جو خود کو ”علمِ الٰہی کا مخزن“ (1) اور ”علم کا معدن“ (2) قرار دیتے ہیں، ایک مقام پر فرماتے ہیں : یَنْحَدِرُ عَنِّی السَّیْلُ، وَ لَا یَرْقٰى اِلَیَّ الطَّیْرُ میں وہ (کوہ بلند) ہوں جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گر جاتا ہے اور مجھ تک پرندہ پر نہیں مار سکتا۔ (3) کبھی فرماتے ہیں: بَلِ انْدَمَجْتُ عَلٰى مَكْنُوْنِ عِلْمٍ ایک علمِ پوشیدہ میرے سینے کی تہوں میں لپٹا ہوا ہے۔ (4)

علمِ الٰہی و انعامات پروردگار سے سرفراز ذات علی بن ان ابی طالب علیہ السلام کو نبی اکرم ﷺ درِ علم ٹھہراتے ہیں اور علی علیہ السلام وہ سخی ہیں کہ اِن علمی خزانوں کو لٹانے کی یوں صدائیں دے رہے ہیں: اَیُّهَا النَّاسُ! سَلُوْنِیْ قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُوْنِیْ، فَلَاَنَا بِطُرُقِ السَّمَآءِ اَعْلَمُ مِنِّیْ بِطُرُقِ الْاَرْضِ ”اے لوگو! مجھے کھو دینے سے پہلے مجھ سے پوچھ لو اور میں زمین کی راہوں سے زیادہ آسمان کے راستوں سے واقف ہوں“۔ (5)

علی علیہ السلام کے علوم و معارف کے ایک خزانے کا نام ”نہج البلاغہ“ ہے۔ اس دفترِ علم سے بڑے بڑے ادیبوں نے اپنے دامن بھرے اور ادبی کمالات کی معراج تک پہنچے ۔ دورِ عباسیہ کے یگانۂ روزگار کاتب عبد الحميد يحییٰ متوفیٰ 132ھ کہتا ہے: ”میں نے 70 خطبے علی بن ابی طالب علیہ السلام کے ازبر کیے، جن کے فیوض و برکات میرے یہاں نمایاں ہیں“۔ (6) ابن مقفع متوفیٰ 142ھ کہتے ہیں: ”میں نے خطبوں کے چشمے سے سیراب ہو کر پیا ہے اور اسے کسی ایک طریقے میں محدود نہیں رکھا ہے تو اس چشمے کے برکات بڑھے اور ہمیشہ بڑھتے رہے“۔ (7) عربی ادب میں کلام امام کا کیا مقام ہے اس کے لیے علامہ سید مرتضیٰ حسین فاضل کا مقالہ ”کلام علیؑ کا عربی ادب پر اثر“ قابل مطالعہ ہے۔ علامہ سید عقیل الغروی نے کیا خوب فرمایا:

بے جان سا تھا ساز و سامانِ ادب

انشائے علیؑ نے زندگی بخشی ہے

اردو کے نثری ادب میں علامہ مفتی جعفر حسینؒ کا ترجمۂ نہج البلاغہ ایک اچھا اضافہ ہے مگر اردو کا شعری ادب کماحقہ ”نہج البلاغہ“ کے علمی و ادبی پہلو سے مستفید نہیں دکھائی دیتا۔ بڑے بڑے شعراء کے کلام کو دیکھا اور مشہور شعراء سے پوچھا مگر کوئی خاطر خواہ کلام نہیں ملا جبکہ عرب شعراء نے نہج البلاغہ کے جمع ہونے والی صدی میں ہی کلام کہا۔ یعقوب ابن احمد نیشاپوری متوفیٰ 474ھ اور اُن کے بیٹے حسن بن یعقوب نیشاپوری متوفیٰ 517ھ اور ان کے شاگرد علی بن احمد الفنجکردی متوفیٰ 513ھ کا کلام اس کتاب کے اختتام پر درج کیا گیا ہے۔

فارسی میں بھی نہج البلاغہ پر کلام کہا گیا ۔ ہمیں جو قدیمی کلام مل سکا وہ کامل اوحدی متوفیٰ 738ھ کا ہے اور کچھ فارسی کلام کتاب کے آخر میں شامل کیا گیا ہے۔ فارسی زبان لوگوں میں نہج البلاغہ کو متعارف کرانے والی شخصیت آقای محمد دشتی کی سرپرستی میں اُن کے ہمکار افراد نے بارہ سال کی محنت سے ایک سو پچاس فارسی شعراء کے دیوانوں سے نہج البلاغہ کے مفاہیم اکٹھےکیے اور دو جلدوں میں کتاب مرتب کی ”فرہنگِ شعر شاعران در نہج البلاغہ“ اس کتاب میں علامہ اقبال سے بہت سا کلام لیا گیا ہے۔

اردو نظم میں شاعرِ نہج البلاغہ حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سلمان عابدی دام عزہ کا نہج البلاغہ کا منظوم ترجمہ ایک شاندار کام ہے، نمونے کے طور پر دوسرے خطبے کے ترجمے کا کچھ حصہ اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔

نہج البلاغہ اور اردو شعراءجناب پروفسیر تنویر حیدر نے نام ”علی علیہ السلام“ کے اعداد کے مطابق 110 کلمات قصار کا منظوم ترجمہ کیا ہے اور ان کی کتاب شائع ہو چکی ہے۔ موصوف کا کلام اِس کتاب میں شامل ہے۔ مولانا ڈاکٹر شہوار حسین نقوی نے اپنی کتاب ”شارحین نہج البلاغہ“ (برصغیر) میں سید علی عباد نیساں اکبر آبادی کے نہج البلاغہ کے مختلف خطبات کے منظوم ترجمہ کا ذکر کیا ہے۔ کافی کوشش کے باوجود یہ کتاب ہمیں حاصل نہ ہو سکی۔ پنجابی کے مشہور شاعر محترم خورشید کمال نے کلماتِ قصار کا منظوم پنجابی ترجمہ کیا ہے اور ان کی یہ کتاب بازار میں دستیاب ہے۔

”مرکز افکار اسلامی“ دو دہایوں سے کلام امیر المومنینؑ ”نہج البلاغہ“ کو اردو زبان میں متعارف کرانے کی سعی کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے علامہ مفتی جعفر حسینؒ کے ترجمہ ”نہج البلاغہ“ کو نئے انداز سے مرتب کر کے اور دیدہ زیب کاغذ و جلد میں شائع کیا گیا ۔ متعدد ممالک میں نہج البلاغہ کانفرنسیں منعقد کرائی گئیں۔ نہج البلاغہ سے متعلق موضوعات پر چالیس کے قریب کتب و رسائل چاپ ہوئے۔ مقالہ نویسی کے کئی انعامی مقابلے کرائے۔ مطالعہ نہج البلاغہ اور حفظ نہج البلاغہ کے پروگرام کرائے۔ اردو کے شعری ادب میں نہج البلاغہ کے افکار و ادبیات کو رائج کرنے کے لیے طرحی مشاعرے کرائے گے اور موجودہ طرحی مقاصدہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔

دنیا بھر کے اردو زبان شعرائے کرام سے مصرعِ طرح پر اور کسی بھی ہیئت میں کلام کی گزارش کی گئی اور الحمد للہ ایک سو پچیس کلام موصول ہوئے۔ ہم تمام شعرائے کرام کے شکر گزار ہیں۔

شعرائے کرام کے کلام پر مبنی کتاب ترتیب دی گئی اور اس کا نام ”نہج البلاغہ اور اردو شعراء“ تجویز ہوا۔ اس کتاب میں مرکز افکار اسلامی کے گزشتہ مشاعروں میں موصول ہونے والا کلام بھی شامل کیا گیا۔ مرکز کے پروگراموں کے علاوہ بھی جو تین کلام مل سکے اور جن چند اشعار تک رسائی ہوئی وہ بھی کتاب میں شامل کیے گئے۔

بعض شعراء کے کلام طویل ہونے کی وجہ سے یا موضوع سے مربوط نہ ہونے کی وجہ سے یا کتاب کے صفحات کی وجہ سے شائع نہیں ہو سکے جن سے معذرت خواہ ہیں اور کوشش ہو گی کہ اُن کا کلام مرکز افکار اسلامی کی ویب سائٹ پر شائع کر دیا جائے۔ کتاب کے آخری حصے میں عربی اور فارسی کلام کو اردو ترجمے کے ساتھ شامل کیا گیا تا کہ نئے اردو شعراء کے لیے ایک نمونہ بن سکے۔

اس کتاب کے لیے آیت اللہ علامہ سید عقیل الغروی دام ظلہ نے خصوصی طور پر نام ”علی علیہ السلام“ کے اعداد کے مطابق 110 رباعیاں کہیں جنہیں کتاب کی زینت بنایا جا رہا ہے۔ یہ رباعیاں ”کعبۂ افکار قبلۂ ایماں“ کے نام سے الگ بھی شائع کی جائیں گی۔ علامہ غروری نے نہ فقط کلام عطا کیا بلکہ مرکز افکار اسلامی کے اس پروگرام کی ابتداء سے آخر تک ہر موڑ پر اپنے مفید مشوروں سے رہنمائی بھی فرمائی۔ ہم آپ کے بے حد شکر گزار ہیں۔

مرکزِ افکار اسلامی کے نہج البلاغہ کی ترویج و تفہیم کے پروگراموں میں کئی سالوں سے درجنوں احباب کی کوششیں اور معاونت شامل ہے جس پر ہم سب کے فرداً فرداً شکر گزار ہیں اور خصوصیت کے ساتھ ”تعلیماتِ نہج البلاغہ“ کے اس ادبی و شعری پروگرام میں ساتھ دینے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

دعا و تمنا ہے کہ یہ ادبی قدم کلامِ امامؑ کو عام کرنے کا ایک سبب بنے اور شعرائے کرام اس نئی جہت کی طرف متوجہ ہوں۔ مدحت و تعلیماتِ نہج البلاغہ میں اپنے منظوم کلام کو یوں پیش کرتے رہیں اور مرکز افکار اسلامی ان پھولوں کی مالا بنا کر قوم تک پہنچاتا رہے۔ یوں امیرِ کلام و بیان علی علیہ السلام کی حسرت پوری ہوتی رہے گی کہ ”کاش مجھ سے علم لینے والا کوئی مل جاتا۔“ (8)

والسلام
مقبول حسین علوی
مرکز ِافکار اسلامی
19 ستمبر 2025

آن لائن پڑھیں

ڈاؤن لوڈ کریں

nahjul-balagha aor urdu shuara [1] نہج البلاغہ خطبہ 187
[2] نہج البلاغہ خطبہ 107
[3] نہج البلاغہ خطبہ 3
[4] نہج البلاغہ خطبہ 5
[5] نہج البلاغہ خطبہ 187
[6] شرح ابن ابی الحدید ج 1، ص 24
[7] مقدمہ نہج البلاغہ، علامہ علی نقی النقویؒ
[8] نہج البلاغہ حکمت 147

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button