نہج البلاغہ مقالات

مولا علی علیہ السلام


فِی سُحْرَةِ الْيَوْمِ الَّذِی ضُرِبَ فِيهِ
مَلَكَتْنِیْ عَیْنِیْ وَ اَنَا جَالِسٌ، فَسَنَحَ لِیْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللهِ! مَاذَا لَقِیْتُ مِنْ اُمَّتِكَ مِنَ الْاَوَدِ وَ اللَّدَدِ؟ فَقَالَ: ”ادْعُ عَلَیْهِمْ“ فَقُلْتُ: اَبْدَلَنِی اللهُ بِهِمْ خَیْرًا مِّنْهُمْ، وَ اَبْدَلَهُمْ بِیْ شَرًّا لَّهُمْ مِنِّیْ. یَعْنِیْ ”بِالْاَوَدِ“: الْاِعْوِجَاجَ، وَ ”بِاللَّدَدِ“: الْخِصَامَ.وَهٰذَا مِنْ اَفْصَحِ الْكَلَامِ.
آپؑ نے یہ کلام شبِ ضربت کی سحر کو فرمایا:
میں بیٹھا ہوا تھا کہ میری آنکھ لگ گئی۔ اتنے میں رسول اللہﷺ میرے سامنے جلوہ فرما ہوئے۔ میں نے کہا: یا رسول اللہؐ! مجھے آپؐ کی اُمت کے ہاتھوں کیسی کیسی کجرویوں اور دشمنیوں سے دو چار ہونا پڑا ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ”تم ان کیلئے بد دُعا کرو“، تو میں نے (صرف اتنا) کہا کہ: اللہ مجھے ان کے بدلے میں ان سے اچھے لوگ عطا کرے اور ان کو میرے بدلے میں کوئی بُرا (امیر) دے۔ سید رضیؒ کہتے ہیں کہ: ” اَوَد“ کے معنی ٹیڑھا پن اور ”لَدَد“ کے معنی دشمنی و عناد کے ہیں اور یہ بہت فصیح کلام ہے۔ [1]


ماہِ رمضان قرآن مجید کے نزول کا مہینہ اورکتابِ خدا کاموسمِ بہار ہے اور الحمد للہ ہر مسجد و گھر اور ہر پیرو پسر اس موسم بہار میں قرآن مجید کی روحانی خوشبو سے معطّر ہوتے ہیں۔اسی ماہ میں قرآن کے مفسّرو معلّم اور ساتھی و ترجمان ولی خدا ا میرا لمؤ منین علی علیہ السلام کی شہادت کا موسم ہے۔ قرآن اور امیرالمؤمنینؑ کے تعلق کو نہج البلاغہ میں امامؑ نے مختلف طریقوں سے پیش کیا ۔ ایک مقام پر فرمایا۔

وَ اِنَّ الْكِتَابَ لَمَعِیْ، مَا فَارَقْتُهٗ مُذْ صَحِبْتُهٗ۔
اور کتاب خدا یقیناً میرے ساتھ ہے اور جب سے میرا اس کا ساتھ ہوا ہے میں اس سے الگ نہیں ہوا۔ [2]

جہاں عظمت میں علی علیہ السلام اور قرآن ساتھی ہیں وہیں مظلومیت میں بھی ایک جیسے ہیں۔ ایک مقام پر امامؑ نے فرمایا۔

فَالْكِتَابُ یَوْمَئِذٍ وَّ اَهْلُهٗ مَنْفِیَّانِ طَرِیْدَانِ، وَ صَاحِبَانِ مُصْطَحِبَانِ فِیْ طَرِیْقٍ وَّاحِدٍ لَّا یُؤْوِیْهِمَا مُؤْوٍ، فَالْكِتَابُ وَ اَهْلُهٗ فِیْ ذٰلِكَ الزَّمَانِ فِی النَّاسِ وَ لَیْسَا فِیْهِمْ، وَ مَعَهُمْ وَ لَیْسَا مَعَهُمْ! لِاَنَّ الضَّلَالَةَ لَا تُوَافِقُ الْهُدٰی وَ اِنِ اجْتَمَعَا.
قرآن اور قرآن والے (اہلبیت علیہم السلام) بے گھر اور بے در ہوں گے اور ایک ہی راہ میں ایک دوسرے کے ساتھی ہوں گے۔ انہیں کوئی پناہ دینے والا نہ ہوگا۔ وہ (بظاہر) لوگوں میں ہوں گے مگر ان سے الگ تھلگ۔ ان کے ساتھ ہوں گے مگر بے تعلق۔ اس لئے کہ گمراہی ہدایت سے سازگار نہیں ہو سکتی اگرچہ وہ یک جا ہوں۔ [3]

فضائل و عظمتوں کے مالک امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام نہج البلاغہ میں اپنے فضائل بیان فرماتے ہیں۔مثلاً فرمایا۔

وَ لَوْ لَا مَا نَهَی اللهُ عَنْهُ مِنْ تَزْكِیَةِ الْمَرْءِ نَفْسَهٗ، لَذَكَرَ ذَاكِرٌ فَضَآئِلَ جَمَّةً، تَعْرِفُهَا قُلُوْبُ الْمُؤْمِنِیْنَ، وَ لَا تَمُجُّهَا اٰذَانُ السَّامِعِیْنَ.
اور اگر خداوند عالم نے خود ستائی سے اور اپنی تعریف آپ بیان کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو بیان کرنے والا (خود امیرالمؤمنینؑ) اپنے وہ بے شمار فضائل بیان کرتا جن فضائل کا مومنوں کے دل اعتراف کرتے ہیں اور جن فضائل کے سننے سے سننے والوں کے کان الگ اور بیزار نہیں ہوتے۔ [4]

پھر انہی فضائل کو اللہ کی نعمت قرار دے کر قرآن مجید کی اس آیت کو بطور استدلال پیش کیا۔

﴿وَ اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ﴾
اور اپنے رب کی نعمت کو بیان کریں۔ [5]

اور فرمایا۔

اَلَا تَرٰی غَیْرَ مُخْبِرٍ لَّكَ وَ لٰكِنْۢ بِنِعْمَةِ اللهِ اُحَدِّثُ۔
میں آپ کو اپنے فضائل نہیں سنا رہا اور کوئی اطلاع نہیں دے رہا بلکہ اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ کر رہا ہوں۔ [6]

یہی صاحبِ فضلیت امامؑ اپنے غموں اور دکھوں، حق کی پامالیوں اور مظلومیتوں کو درجنوں مرتبہ نہج البلاغہ میں بیان فرماتے ہیں جنہیں سامنے رکھ کر نہج البلاغہ کے شارح علامہ محمد تقی جعفری لکھتے ہیں۔

”نہج البلاغہ شروع سے آخر تک فریادوں سے بھرا پڑا ہے۔“ [7]

امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہما السلام نے نہج البلاغہ کے مذکورہ بالا خطبہ میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے اپنے دردوں کو بیان کیا۔

امیرالمؤمنینؑ نے شب ضربت سحری کے وقت اور ضربت لگنے سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا اور اُسے ضربت کے بعد امام حسن علیہ السلام اور دیگر افراد کے سامنے بیان فرمایا۔ سید رضیؒ سے پہلے شیخ مفیدؒ اور دیگر علماء نے اسے بیان کیا ہے۔

امامؑ کا یہ خواب آپؑ کے دکھوں اور مظلومیت اور امت کے ظلم و زیادتی کو واضح کرتا ہے۔ نہج البلاغہ میں متعدد مقامات پر امامؑ کے ایسے شکوے موجود ہیں۔ اس ولی خدا کو پیغمبرؐ کے بعد ساری زندگی کن دُشمنیوں، سرکشیوں، جھگڑوں، جنگوں اور عہد شکنیوں کا سامنا کرنا پڑا وہ ان الفاظ سے واضح ہے۔

پہلے 25 سال کی مدت میں ہر شی سے یوں ایک طرف کر دیا گیا گویا اسلام سے ان کا کوئی تعلق ہی نہیں اور اس زمانے کے شکوے کئی مقامات پر بیان فرمائے۔

رحلتِ رسول اکرمﷺ کے بعد بہت جلد جناب زھراء سلام اللہ علیہا کے دفن کے وقت ایسا ہی شکوہ کیا۔

وَ سَتُنَبِّئُكَ ابْنَتُكَ بِتَضَافُرِ اُمَّتِكَ عَلٰی هَضْمِهَا، فَاَحْفِهَا السُّؤَالَ، وَ اسْتَخْبِرْهَا الْحَالَ، هٰذَا وَ لَمْ یَطُلِ الْعَهْدُ، وَ لَمْ یَخْلُ مِنْكَ الذِّكْرُ.
وہ وقت آگیا کہ آپؐ کی بیٹی آپؐ کو بتائیں کہ کس طرح آپؐ کی اُمت نے ان پر ظلم ڈھانے کیلئے ایکا کر لیا۔ آپؐ ان سے پورے طور پر پوچھیں اور تمام احوال و واردات دریافت کریں۔ یہ ساری مصیبتیں ان پر بیت گئیں، حالانکہ آپؐ کو گزرے ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہو اتھا اور نہ آپؐ کے تذکروں سے زبانیں بند ہوئی تھیں۔ [8]

ایک اور مقام پرار شاد فرماتے ہیں۔

فَقَدْ قَطَعُوْا رَحِمِیْ، وَ سَلَبُوْنِیْ سُلْطَانَ ابْنِ اُمِّیْ.
انہوں نے میرے رشتے کا کوئی لحاظ نہ کیا اور میرے ماں جائے (رسول اللہؐ)کی حکومت مجھ سے چھین لی۔ [9]

شبِّ ضربت حضرت محمد نبی ﷺ سے علیؑ کی شکایت

امیرالمؤ منینؑ نے اپنی داستانِ مظلومیت بیان فرمائی تورحمۃ للعالین نے جواب میں فرمایا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم ان کے لیے بد دُعا کرو۔
رحمۃ للعالمین پیغمبرؐ نے کیوں بددُعا کا کہا ہے خود علی علیہ السلام کی مظلومیت کا اظہار ہے۔ گویا علی علیہ السلام کے ساتھ لوگوں کی ناانصافیاں اس حد تک بڑھ گئی تھیں کہ نبی اکرم ﷺ اُن کے لیے بد دُعا کا فرما رہے ہیں۔ وہ نبی ﷺ جو حضرت حمزہؒ کے قاتل سے بھی انتقام نہیں لیتے وہ بد دُعا کا کہہ رہے ہیں۔ ایسی ذات گرامی سے بد دُعا کا کہنا قرآن کی روش کے مطابق ہے۔

قرآن مجید میں رب کریم جو رحمۃ للعالمین کے لیے بھی ارحم الراحمین ہے عذاب اور سزا کا حکم فرماتا ہے اور عذاب دیتا ہے  اور جب صبر و حوصلے کی انتہا ہو جائے تو انبیاء علیہم السلام بھی بد دُعا کرتے ہیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اُن کی بد دُعاؤں کو قرآن کا حصہ بنا دیا حضرت نوح علیہ السلام کی وہ ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ اور امت کی ہدایت کی کوششوں کے باوجود آخر میں بد دُعا فرمائی۔

﴿وَ قَالَ نُوۡحٌ رَّبِّ لَا تَذَرۡ عَلَی الۡاَرۡضِ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ دَیَّارًا﴾
اور نوح نے کہا: میرے رب! روئے زمین پر بسنے والے کفار میں سے ایک کو بھی باقی نہ چھوڑ۔ [10]

اسی بد دُعا کے نتیجہ میں طوفان آیا اور زمین سے کافروں کا صفایا کر دیا۔

وہ علی علیہ السلام جو قاتل کوبھی معاف کر دینے کی وصیتیں کر رہے ہیں وہ بد دُعا کیسے کر سکتے ہیں۔ جو امامؑ اپنے گورنروں کو لطف و محبت کی تاکید فرماتے ہیں وہ امامؑ جو مالک اشتر کو لکھے گئے خط میں فرماتے ہیں:

وَ اَشْعِرْ قَلْبَكَ الرَّحْمَةَ لِلرَّعِیَّةِ وَ الْمَحَبَّةَ لَهُمْ وَ اللُّطْفَ بِهِمْ، وَ لَا تَكُوْنَنَّ عَلَیْهِمْ سَبُعًا ضَارِیًا تَغْتَنِمُ اَكْلَهُمْ، فَاِنَّهُمْ صِنْفَانِ: اِمَّا اَخٌ لَّكَ فِی الدِّیْنِ وَ اِمَّا نَظِیْرٌ لَّكَ فِی الْخَلْقِ، یَفْرُطُ مِنْهُمُ الزَّلَلُ، وَ تَعْرِضُ لَهُمُ الْعِلَلُ، وَ یُؤْتٰى عَلٰۤى اَیْدِیْهِمْ فِی الْعَمْدِ وَ الْخَطَاِ، فَاَعْطِهِمْ مِنْ عَفْوِكَ وَ صَفْحِكَ مِثْلَ الَّذِیْ تُحِبُّ اَنْ یُّعْطِیَكَ اللّٰهُ مِنْ عَفْوِهٖ وَ صَفْحِهٖ، فَاِنَّكَ فَوْقَهُمْ، وَ وَالِی الْاَمْرِ عَلَیْكَ فَوْقَكَ، وَ اللّٰهُ فَوْقَ مَنْ وَّلَّاكَ، وَ قَدِ اسْتَكْفَاكَ اَمْرَهُمْ، وَ ابْتَلَاكَ بِهِمْ.
رعایا کیلئے اپنے دل کے اندر رحم و رافت اور لطف و محبت کو جگہ دو۔ ان کیلئے پھاڑ کھانے والا درندہ نہ بن جاؤ کہ انہیں نگل جانا غنیمت سمجھتے ہو۔ اس لئے کہ رعایا میں دو قسم کے لوگ ہیں: ایک تو تمہارے دینی بھائی اور دوسرے تمہارے جیسی مخلوقِ خدا۔ ان سے لغزشیں بھی ہوں گی، خطاؤں سے بھی انہیں سابقہ پڑے گا اور ان کے ہاتھوں سے جان بوجھ کر یا بھولے چوکے سے غلطیاں بھی ہوں گی۔ تم ان سے اسی طرح عفو و در گزر سے کام لینا جس طرح اللہ سے اپنے لئے عفو و درگزر کو پسند کرتے ہو۔ اس لئے کہ تم ان پر حاکم ہو، اور تمہارے اوپر تمہارا امام حاکم ہے، اور جس (امام) نے تمہیں والی بنایا ہے اس کے اوپر اللہ ہے، اور اس نے تم سے ان لوگوں کے معاملات کی انجا م دہی چاہی ہے اور ان کے ذریعہ تمہاری آزمائش کی ہے۔ [11]

ایسے مہربان امامؑ کی بد دُعا آپؑ کی مظلومیت کی گواہ ہے۔ اور بد دُعا کے الفاظ سے بھی مظلومیت کُھل کر سامنے آتی ہے۔

امامؑ نے بد دُعا میں دو جملے کہے۔ پہلا جملہ یہ ہے ۔
”خدایا مجھے ان کے بدلے میں اِن سے اچھے لوگ عطا فرما ۔“

علی علیہ السلام کے ہمراہ افراد میں تین قسم کے لوگ تھے جن میں مخلص افراد کم تھے جیسے مالک اشتر، عمار یاسر، جیسے افراد۔ ایک بڑی تعداد نادان و نافہم افراد کی تھی جو حالاتِ زمانہ اور اسلام کی مشکلات کا درک نہیں رکھتے تھے اور تیسرا گروہ مالی مفاد کی خاطر ساتھ تھا ۔ علی علیہ السلام اکثریتی گروہ پر اکثر مقامات پر گلہ و شکوہ کرتے رہے۔

بد دُعا کا دوسرا جملہ یہ ہے فرمایا:
”اور ان کو میرے بدلے میں بُرا امیر دے۔“

امامؑ نے اس جملے میں گویا اپنی موت طلب کی کہ ان پر میری جگہ کسی اور کو مسلط فرما۔ علی علیہ السلام جیسا ولی خدا اس حد تک دکھوں میں گھر جائے کہ اپنی موت طلب کرے یہ علی علیہ السلام کی مظلومیت کی ایک اور نشانی ہے۔

امامؑ کی یہ بد دُعا بہت جلد قبول ہو گئی بہت مختصر وقت میں محراب مسجد میں مقام شہادت تک پہنچ گئے اور امت کے مظالم سے نجات پا کر جوار رحمت پروردگار پا لیا اور آپ کے بعد امت ہر ایسے ایسے حکمران آئے کہ تاریخ کے اوراق اُن کے مظالم سے سرخ ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کی رحمت کو مدنظر رکھ کر بد دُعا کا کہنا قابل دقّت ہے۔ اور پھر امیرالمؤمنینؑ کا رسول اللہ ﷺ کی اجازت کے بعد بد دُعا کرنا بھی قابل غور ہے۔


حوالہ جات

1۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۶۸، ص ۲۴۴، مطبوعہ مرکز افکار اسلامی

2۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۱۲۰، ص ۳۶۶، مطبوعہ مرکز افکار اسلامی
3۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۱۴۵، ص۴۱۶، مطبوعہ مرکز افکار اسلامی
4۔ نہج البلاغہ، خط ۲۸،ص ۷۰۳، مطبوعہ مرکز افکار اسلامی
5۔ سورۂ الضحیٰ، آیہ ۱۱
6۔ نہج البلاغہ، خط ۲۸، ص ۷۰۳، مطبوعہ مرکز افکار اسلامی
7۔ ترجمہ و تفسیر نہج البلاغہ، علامہ تقی جعفری، ج ۹، ص ۱۵، شرح خطبہ۳۴
8۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۲۰۰، ص۵۹۱، مطبوعہ مرکز افکار اسلامی
9۔ نہج البلاغہ، خط ۳۶،ص ۷۳۵، مطبوعہ مرکز افکار اسلامی
10۔ سورۂ نوح، آیہ ۲۶
11۔ نہج البلاغہ، خط ۵۳، ص ۷۶۵، مطبوعہ افکار اسلامی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button