شمع زندگی

334۔ بد گمانی سے پرہیز

لَاتَظُنَّنَّ بِكَلِمَةٍ خَرَجَتْ مِنْ اَحَدٍ سُوءاً وَ اَنْتَ تَجِدُ لَهَا فِى الْخَيْرِ مُحْتَمَلًا۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۶۰)
کسی کے منہ سے نکلنے والی بات میں اگر اچھائی کا پہلو نکل سکتا ہو تو اس کے بارے میں بد گُمانی نہ کرو۔

انسانی معاشرے کا قیمتی سرمایہ ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ہے۔ امیر المؤمنینؑ اس اعتماد کو مضبوط و محفوظ کرنے کا اہم اصول بیان فرما رہے ہیں۔ کوئی شخص کوئی کلام یا کام کرتا ہے تو اس کی بات یا عمل میں جب تک کوئی مثبت پہلو نکلتا ہے تو نکالنا چاہیے اور اس کی بات یا کام کو اچھائی اور نیکی پرمحمول کرنا چاہیے۔ اس کی بات یا عمل کی برائی اور بری نیت کی جب تک دلیل نہیں ملتی اس وقت تک حسن ظن رکھنا چاہیے۔

اگر سماج اس تعلیم کو اختیار کرلے تو اسے بہت سے مفاسد سے نجات مل جائے اور دنیا میں فتنہ و فساد کے اکثر راستے بند ہو جائیں۔ مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا اور ہر شخص دوسرے کے بیان میں سے غلط پہلو ہی تلاش کرتا ہے۔ حسنِ ظن سے لوگوں میں اعتماد بڑھے گا، محبت و دوستی میں اضافہ ہوگا۔ گلے شکوے اور نفرتیں ختم ہوں گی۔ یوں اچھے کاموں کو اچھے لوگ مل کر آگے بڑھائیں گے اور پورا معاشرہ اس کی برکتوں سے مستفید ہوگا۔

اس کے بر عکس جو لوگ بدگمانی کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں وہ زندگی میں ہمیشہ ناکام ہوتے ہیں کیونکہ ان کے اس طریقۂ زندگی سے لوگ ان سے دور ہوں گے اور یہ لوگوں سے دور جائیں گے۔ ایسے بد گمان لوگ ہر کسی کو اپنے خلاف سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ طریقہ ان سے آرام اور سکون چھین لیتا ہے اور سختیوں او ر مشکلوں میں دوسروں کی مدد سے محروم ہو جاتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button