امام زمانہ (عج) نہج البلاغہ کے آئینہ میں
﷽
تمہید:
دنیا میں پھیلا ہوا ظلم و ستم ہر طرف تباہی اور بربادی، انائیت کا بول بالا اور دوسری طرف نیکیوں کی پامالی سے تنگ آکر آخر وہ کون سا انسان ہے جو اپنے معبود کی بارگاہ میں دست دعا بلند نہ کرتا ہو اور کسی منجی کے ظہور کا انتظار نہ کرتا ہو۔ ہر قوم اور ہر مذہب کسی نہ کسی منجی بشریت کے منتظر ہیں، اور اس کے آنے کی راہیں دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اجمال کے اعتبار سے کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن جب ہم ان مطالب کی گہرائیوں میں اترتے ہیں تو پھر ہمیں مختلف افکار نظر آتے ہیں جو اپنے اپنے اعتبار سے اس مفہوم کی تحلیل کرتے ہیں اور اپنے اپنے بیان سے اس کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں۔
امام زمانہ عجّل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف اور ان کی غیبت:
ہمارے پاس مستند احادیث اور معتبر روایات کے ذریعہ یہ مسلّم ہے کہ ہادیوں میں سے ایک ہادی کافی عرصہ تک لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہنے کے بعد ظہور کریں گے جن کا نام رسول کے نام پر ہوگا اور جن کی سیرت بھی رسول کریمؐ کی سیرت ہوگی وہ اس وقت ظہور کریں گے جب یہ دنیا ظلم و جور سے بھری ہوگی اور اس وقت آپ اسے عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ جیسا کہ حذیفہ روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں ’’اگرچہ دنیا کے تمام ہونے میں ایک ہی دن باقی کیوں نہ ہو، خدا اسی روز کو اتنا طولانی کر دے گا یہاں تک کہ خدا میری اولاد میں سے ایک مرد کو بھیجے گا، جس کا نام میرا نام ہوگا‘‘۔
جناب سلمان نے دریافت کیا۔ اے رسول خدا! وہ آپ کے کون سے بیٹے کی نسل سے ہوں گے، آپ نے امام حسینؑ کے شانے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا ’’ان کی نسل سے‘‘۔ [۱] امیر المومنین حضرت علیؑ، امام آخرؑ کے بارے میں فرماتے ہیں ’’تم لوگ یہ جان لو کہ حضرت مہدی فرجہ الشریف طولانی عرصہ تک لوگوں سے پوشیدہ طور پر اس طرح زندگی بسر کریں گے کہ ماہرین افراد بھی ان کے آثار تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ اگرچہ وہ اس راہ میں بے پناہ کوشش کر ڈ الیں۔ [۲] عقل و خرد رکھنے والا ہر آدمی اس حقیقت کو ضرور تسلیم کرے گا کہ زمانہ دن بہ دن، روز بہ روز خراب سے خراب تر اور بد سے بد تر ہوتا جا رہا ہے، ملتیں اسیر ہو رہی ہیں، تہذیبیں برباد ہو رہی ہیں، اچھا اخلاق رخصت ہو رہا ہے، عوام بھوکوں مر رہی ہے۔ اور قومیں نا امنی کی زندگی گزار رہی ہیں، ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف مکاتب فکر نے انسان کے لئے منجی بشریت کا نظریہ پیش کیا ہے، لیکن دین اسلام نے اس مسئلہ کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے اور اسلام کے احکام کا دوسرا گراں قدر منبع (احادیث) منجی بشریت کے ظہور کے نوید سے مالا مال ہے اور ہمارے پاس اس کی دلیل موجود ہے جو قرآن سے بھی ثابت ہے اور قول رسولؐ سے بھی۔ ہمارے مذہب کا بھی یہ ماننا ہے کہ ایک روشن زمانہ آئے گا جب کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور سب ہی امن و چین کی زندگی گذاریں گے، خدائے واحد کی پرستش کریں گے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں کریں گے۔ جیسا کہ امیر المومنین علیؑ فرماتے ہیں کہ ’’وہ پیغمبر اسلامؑ اور ائمہؑ کی روش پر عمل کریں گے، یہاں تک کہ پریشانیاں دور ہو جائیں گی، وہ غلام اور اسیر ملتوں کو آزاد کریں گے، گمراہ اور ظالم لوگوں کو تتر بتر اور حق کے متلاشی لوگوں کو ایک جگہ جمع کردیں گے۔ [۳]
امامؑ اور آپؑ کی اصول پسندی:
کائنات میں جتنی بھی چیزیں موجود ہیں، سب خداوند عالم نے انسان کے فائدہ اٹھانے کے لئے بنائی ہیں جیسا کہ خود قرآن مجید میں بھی اس مطلب کی طرف مختلف جگہوں پر اشارہ ملتا ہے۔ لیکن یہ ہم انسانوں کی کم ظرفی ہے کہ جس کی وجہ سے پوری طرح ان نعمتوں سے استفادہ نہیں کر پاتے ہیں، اور بعض کا استعمال خود اپنے ہی ضرر میں کر لیتے ہیں۔ دوسری چیزوں کا کیا ذکر کیا جائے جب کہ قرآن میں واضح طور سے خود قرآن کے ہی متعلق خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے یضلّ بہ کثیراً و یھدی بہ کثیراً [۴] اللہ اس (قرآن) کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور اسی کے ذریعہ بہت سے لوگوں کی ہدایت کرتا ہے۔
تو پتہ چلا کہ تمام موجودات انسان کے فائدہ کے لئے ہیں یہ انسان ہے کہ جو غلط طریقہ سے ان چیزوں کا استعمال کر کے انہیں اپنے لئے مضر بنا لیتا ہے۔ اس کی ایک واضح اور روشن مثال خود انسان کی توانائی، قدرت اور صلاحیت ہے۔ خداوند عالم نے راہ ہدایت میں ترقی اور تکامل کے لئے انسان کو اس کے بدن کے مختلف اعضاء و جوارح کی صورت میں بیش بہا تحفے دئے ہیں، معنوی صلاحیتوں سے نوازا ہے اور امیر المو منینؑ کے قول کے مطابق انسان ہی میں ایک بڑا عالم ہے لیکن یہ بڑا عالم جسے خداوند عالم نے رشد و ہدایت کے لئے بنایا ہے اور جسے عظمتوں کی چوٹیوں کو پانے کے لئے خلق کیا ہے جب وہ اپنی توانائیوں اور قدرتوں کو غلط طریقہ سے بروئے کار لاتا ہے تو نہ صرف یہ کہ فائدہ نہیں ہوتا بلکہ سنگین نقصان سے اسے روبرو ہونا پڑتا ہے۔ یہ ضرر اس وقت تک فا ئدہ میں تبدیل نہیں ہو سکتے ہیں جب تک کہ اس کے استعمال کے لئے کوئی اصول نہ بنایا جائے، اور چونکہ اسلام کے اصول سب سے کامیاب اصول ہیں، اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے اصول پر اگر عمل نہ کیا گیا تو رحمتیں زحمت بن جا ئیں گی اور جنت میں لے جا نے کا وسیلہ ہی جہنم میں داخل ہو نے کا سبب بن جائے گا۔
امام زمانہؑ کی ذمہ داریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپؑ اسلام کے اصولوں کے خود بھی پابند ہوں گے اور اسی اصول کو دنیا میں رائج بھی کریں گے۔ جیسا کہ خود امیر المو منین علیؑ فرماتے ہیں کہ: وہ (امام زمانہؑ) دل کی آرزوؤں اور خواہشوں کو ہدایت اور راہنمائی کے را ستہ پر چلائیں گے جب کہ اس زمانہ میں لوگ ہدایت اور راہنمائی کو اپنے پیروں تلے کچل رہے ہوں گے اور جس زمانے میں تفسیر کے نام پر مختلف (خود ساختہ) نظریوں کو قرآن پر تھوپا جا رہا ہو گا، وہ نظریوں اور فکروں کو قرآن کے مطابق ڈھال دیں گے۔ [۵]
ہمیں تاریخ سے عبرت لینی چا ہئے:
اگر ہم حقیقی طور سے اس دنیا کے ذریعہ کامیابی اور نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سب سے کامیاب نسخہ یہ ہے کہ سیرت رسول اکرمؐ جو کہ خود اسلام کے اصول و ضوابط کا بنیادی رکن ہے، پر عمل کریں۔ صرف اور صرف یہی نجات کا راستہ ہے۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں رسول اکرمؐ اور ان کے ارشادات کی اہمیت کا پتہ چلے گا۔ جب تک مسلمان پیغمبر اسلامؐ کی اتباع اور پیروی کرتے رہے، تب تک انہیں کامیابی اور فتح ملتی رہی اور اسلام بھی پھیلتا رہا لیکن جہاں مسلمانوں نے پیغمبر اسلامؐ کی سیرت کو چھوڑ کر اپنی خواہشوں کی پیروی کی وہاں وہاں انہیں شکست اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، اگر نمونہ کے طور پر جنگ احد کو دیکھا جائے تو یہ ہماری عبرت کے لئے کافی ہو گی۔ اس کے باوجود کہ مسلمانوں کا لشکر کم اور کفار و مشرکین کی تعداد کافی زیادہ تھی لیکن جس طریقہ سے پیغمبرؐ اسلام نے مسلمانوں کو مختلف جگہوں پر معین کردیا تھا وہ چھوٹی سی فوج بھی کامیابی کی طرف مسلسل گامزن تھی، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب کفار و مشرکین کے پیر میدان جنگ سے اکھڑ گئے اور وہ اپنی جان بچا بچا کر بھا گنے لگے۔ لیکن اس کامیابی کو دیکھ کر کچھ مسلمانوں نے اپنی وہ جگہیں چھوڑ دیں جہاں پیغمبر اسلامؐ نے انہیں رکھا تھا اور اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے غنائم جنگی لوٹنے کے لئے دوڑ پڑے۔ بس اتنا سا ہی موقع اسلام دشمنوں کے لئے کافی تھا، انہوں نے اسی طرف سے حملہ کر دیا اور پھر حالت یہ ہو گئی کہ مسلمانوں کی کامیابی شکست میں تبدیل ہو گئی۔ اس ہونے والی کامیابی کا شکست میں تبدیل ہو جانا، یہ کس وجہ سے ہوا تھا؟ ہم جتنا بھی اس بارے میں فکر کر لیں نتیجہ صرف یہی نکلے گا کہ رسولؐ کے حکم کو نہ مانا، ادھر آپؐ کا قول فراموش ہوا اور ادھر شکست نے بڑھ کر گلے سے لگا لیا۔ دین اسلام جس طرح اوائل میں تیزی سے پھیل رہا تھا، اگر اس میں کسی طرح کا فرق نہ آتا تو آج پوری دنیا کا صرف ایک اکیلا مذہب اسلام ہوتا، لیکن کیا سبب ہے کہ رسولؐ کے زمانہ میں ترقی کرنے والا اسلام پچھڑتا چلا گیا؟ وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ مذہب کا نام تو رہ گیا لیکن خود مسلمانوں نے رسول اکرمؐ، اور دین و شریعت کی پیروی چھوڑ کر اپنے خیال اور وہم کی پیروی کرنے لگے۔
امیر المومنینؑ فرماتے ہیں کہ: وہ (امام زمانہؑ) دل کی آرزؤں اور خواہشوں کو ہدایت کے راستے پر چلائیں گے جب کہ اس زمانہ میں لوگ ہوس کی پیروی کر رہے ہوں گے اور ہدا یت اور نصیحت پر توجہ نہ دیتے ہوں گے [۶]۔ اور اگر تاریخ سے عبرت لی جائے تو اس وقت پتہ چلے گا کہ ہدایت کے اعتبار سے لوگوں کو چلانا ہی اسلام کی سب سے بڑی فتح ہے۔
اسلام کی نئی زندگی:
کسی بھی پودے کے رشد کرنے کے لئے یہ ضروری ہو تا ہے کہ اس کی جڑوں کو مٹی میں چھپا دیا جائے لیکن جڑ کا چھپ جانا اس کے رشد کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ اسے سورج کی روشنی بھی چاہیئے، مناسب اندازہ سے پانی بھی چا ہیئے۔ اسی طرح اگر پودا لگانے والا کچھ دن تک اس کا خیال رکھے تو یہ تھوڑے دن کی محنت اس کی سلامتی کے لئے کافی نہیں ہوتی۔ چونکہ اس کی رشد اور سلامتی کے ساتھ ساتھ دوسرے مضر عوامل سے اس کی حفاظت بھی ضروری ہوتی ہے۔ یہی حال اسلام کے پودے کے ساتھ بھی ہوا، پیغمبر اسلامؐ نے اس پودے کو لگایا، اس کی جڑیں بھی مضبوط کر دیں اور تاحیات اس کی خبر گیری بھی کرتے رہے اس وجہ سے جب تک پیغمبر اسلامؐ حیات رہے شجر اسلام پر ہمیشہ بہار نظر آئی، لیکن آپؐ کے بعد جب محسن اسلام پر بھی پابندیاں لگ گئیں تو اسلام کی ترقیاں بھی رک گئیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جس طرح درخت کے رشد و نمو کے عوامل ہوتے ہیں اسی طرح دین اسلام کے رشد کے بھی مختلف عوامل ہیں، جس میں قرآن پر عمل، اور سنت و سیرت پیغمبرؐ کی اتباع کا ایک اہم کردار ہے، جیسا کہ پیغمبرؐ اسلام نے کئی موقعوں پر ان کی محوریت کا اعلان کیا ’’انی تارک فیکم الثقلین‘‘ کا جملہ اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن لوگوں نے نہ قرآن پر عمل کیا اور نہ ہی سنت پیغمبرؐ کی اتباع کی اور تو اور اسلام کے حاکموں نے ہی الگ اپنا راستہ ڈھونڈ لیا تو پھر اسلام کیسے ترقی کرتا؟ یہ تو ہمارے ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کی جاںفشانی کا نتیجہ ہے جو اسلام زندہ ہے۔ ورنہ اسلام بھی دوسرے تحریف شدہ ادیان کی فہرست میں شامل ہو چکا ہوتا۔
قرآن و سنّت کا احیاء:
چونکہ اسلام کو زندہ کرنے، اور زندہ رکھنے کے دو ہی عوامل ہیں، (۱) قرآن کو زندہ رکھنا اور (۲) سنت پیغمبر اسلامؐ پر عمل کرنا، لہٰذا امام زمانہؑ ظہور کے بعد جن طریقوں پر اعتبار کر کے عمل کر یں گے ان میں بنیاد اور اصالت، قرآن کی اتباع کرنا ہے جیسا کہ امیرالمو منینؑ فرماتے ہیں کہ ’’جب لوگ اپنے نظریہ کو قرآن پر تھوپ رہے ہوں گے، اس وقت وہ (امام زمانہؑ) نظریوں اور افکار کو قرآن کے تابع کریں گے،[۷] یعنی پھر کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اپنے خیال اور اپنی فکر کے اعتبار سے عمل کرے بلکہ سب کے لئے ضروری یہ ہو گا کہ قرآن کے اعتبار سے عمل کریں اور اسی طرح ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: ’’وہ حقیقی اور واقعی حکومت میں عادلانہ روش کو ظاہر کریں گے اور کتاب خدا اور سنت پیغمبر اکرمؐ جنہیں اس وقت تک ترک کر دیا گیا ہو گا اسے زندہ کریں گے‘‘ [۸] جو کہ پیغمبر اسلامؐ کی وصیت بھی ہے اور اسلام کی کامیابی و کامرانی کا راز بھی ہے۔ جیسا کہ پیغمبر اسلامؐ فرماتے ہیں (انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی و انھما لن تفترقا حتیٰ یردا علیّ الحوض)۔ [۹] بیشک میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک کتاب خدا اور دوسرے میری عترت ہیں، اور یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں‘‘۔
اللہ آپؑ کے ذریعہ ہدایت کرے گا:
رسول کریمؐ کے مبعوث بہ رسالت ہونے سے پہلے پوری دنیا چونکہ وحی سے دور تھی لہٰذا جاہلیت کی زندگی بسر کر رہی تھی۔ اس زمانہ کے لوگوں کی یہ حالت تھی کہ حرام اور حلال میں کسی امتیاز کے قائل نہیں تھے، ان کے نزدیک سارے حرام، حلال ہو چکے تھے اور ان میں بدی اور خوبی کی شناخت دم توڑ چکی تھی، جب ظلم و جور اور ضلالت و گمراہی پوری زمین پر حکم فرما تھی خداوند عالم نے قرآنی وحی کا رسول اکرمؐ پر آغاز کیا اور پھر دنیا میں نور کا سلسلہ چل پڑا، تاریکی چھٹنے لگی، گمراہیاں ہدایت میں تبدیل ہونے لگیں، ظلم و جور کی جگہ عدالت نے لے لی، شیطان پریشان ہو کر چیختا رہا، لیکن اب ایمان کی چمک دمک مومنین کے چہروں سے جھلکنے لگی تھی اور ہدایت کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ ظاہری طور سے تو یہ رسول خداؐ تھے جو لوگوں تک پیغام حق کو پہنچا رہے تھے۔ لیکن در اصل خداوند عالم آپؐ کے ذریعہ وحی کو وسیلہ بنا کر لوگوں کو صحیح راستہ کی طرف متوجہ کررہا تھا۔ ترسٹھ سال کی مختصر سی زندگی کے بعد جب پیغمبر اسلامؐ نے رحلت کی ،تو یہ ہدایت کی ذمہ داری آپ ﷺ کے بعد مسلسل ایک کے بعد ایک ائمہ علیہم السلام نے سنبھالی اور انہی کے ذریعہ خداوند عالم نے ہدایت کی، لیکن گیارہوں امامؑ کی شہادت کے بعد جب امام زمانہؑ نے غیبت اختیار کرلی، تو یہ سلسلہ گویا کہ منقطع ہو گیا جو پوری امت کے لئے بہت بڑی مشکل اور پریشانی بن گئی اور دوران جاہلیت کی جہالتیں گویا کہ پھر سے پلٹنے لگیں اس وجہ سے واقعی طور پر پھر سے اسی ہدایت کی ضرورت آ گئی جس کی بنا پر لوگوں نے ہدایت پائی تھی، جس طریقہ سے خدا نے پہلی بار اپنی ہدایت کے ذریعہ رہنمائی کی تھی اسی طرح ایک بار پھر خدا نے امام زمانہؑ کو ہدایت کا وسیلہ بنایا، جیسا کہ مو لائے کائناتؑ فرماتے ہیں کہ: ’’یہ جان لو کہ وہ جو ہم سے ہے (امام مہدیؑ) آئندہ فتنہ کے وقت موجود ہوگا وہ روشن چراغ کے ذریعہ اس میں قدم رکھے گا، اور گتھیوں کو سلجھانے کے لئے اسی راہ اور اسی اصول پر عمل کرے گا جس پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور ائمہ علیہم السلام عمل کر تے تھے۔‘‘ [۱۰]
وجود حضرت حجّتؑ قرآن و احادیث کی روشنی میں:
اللہ نے دنیا کا نظام کچھ اس طرح رکھا ہے کہ یہ دنیا کبھی بھی حجت خدا کے وجود سے خالی نہیں رہ سکتی ہے جیسا کہ احمد بن حنبل رسول اکرمؐ سے روایت کرتے ہیں ’’یہ زمانہ اور یہ ایام نہیں گزریں گے یہاں تک کہ ایک (اہل) عرب کے ہاتھو ں میں اقتدار آجائے۔ [۱۱]
اس کے علاوہ قرآن مجید نے بھی اپنی تمام عظمتوں کے ساتھ امام زمانہؑ کا مختلف انداز میں تعارف کروایا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ ’’خداوند عالم نے ایسے لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل انجام دیتے ہیں کہ انہیں آئندہ زمانہ میں ضرور زمین پر اپنا جانشین بنائے گا‘‘ [۱۲] اور ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے’’ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ ہمارے لا ئق بندے ہی زمین کے وارث ہوں گے‘‘ [۱۳] اس کے علاوہ روایات میں بھی ہم پڑھتے ہیں کہ ’’لولا الحجۃ لساخت الارض باہلھا‘‘ [۱۴] اگر خدا کی حجت نہ ہوتی تو زمین تمام چیزوں کے ساتھ فنا ہو جاتی اس بناء پر خود اس دنیا کا باقی رہنا اس دعوے کی بہترین دلیل ہے کہ ابھی بھی حجت خدا باقی اور موجود ہے۔
استقرار حکومت اور عدل الٰہی:
یہ مسلم ہے کہ صحیح معنوں میں اسلامی حکومت جب بھی تشکیل پائے گی تو عدالت اسلامی کی بھی پابندی ہو جائے گی۔ ہم تاریخ میں بخوبی مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ اسلام کے نام پر بہت سے حاکم بنے، بہت سی حکومتیں بنیں، انتقام خون حسینؑ کے نام پر کتنی جنگیں لڑی گئیں اور کتنے حاکموں سے ان کی حکومت چھین لی گئی، المختصر یہ کہ اگرچہ اسلام کے نام پر حکومتیں بنی لیکن چونکہ وہاں عدالت اسلامی کا خیال نہ رکھا گیا لہٰذا انہیں حقیقی معنوں میں اسلامی حکومت نہیں کہا جا سکتا۔ حکو مت اسلامی، فساد پھیلانے والی جنگ کے نتیجہ میں ہاتھ آئی حکومت کا نام نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو آپس میں صلح و صفائی اور امنیت و امان کی ضامن ہے، جیسا کہ ہمیں رسول کریمؐ کی حیات طیبہ کے متعلق ملتا ہے کہ ’’مدینہ میں رہنے والے تمام قبائل آپس میں اختلافات اور جھگڑوں میں ہی دن بسر کرتے تھے اور ان اختلافات کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے یہودی، سیاسی طور پر ان پر مسلط ہو گئے تھے۔ پیغمبر اکرمؐ نے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد لوگوں کی رہبری قبول کرکے ان کے درمیان پیمان اخوت (بھائی چارگی) کے ذریعہ ان کے درمیان آپسی میل و محبت کو قائم کر دیا۔ [۱۵]
’’ہیکل‘‘ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ اگر یہ فکر کی جائے کہ منافقوں نے اوس و خزرج اور مہاجر و انصار کو آپس میں لڑانے کے لئے اور ان کے درمیان تفرقہ اور دشمنی پھیلانے کے لئے کتنی کوششیں کیں تو ہم خود ہی متوجہ ہوں گے کہ اس طرف سے کتنی دقت نظر اور حسن تشخیص اور دور اندیشی سے استفادہ کیا گیا ہے۔[۱۶] اور اس طرح آپؑ نے لوگوں کو فتنہ سے بچا لیا۔
اگر ہم اسی طرح سیرت سے سیرت ملائیں تو دیکھیں گے کہ نبی اکرمؐ کی رحلت کے بعد ایک بڑا اختلاف امت میں ظاہر ہوا، لیکن امام علیؑ نے بلند ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، خلافت ظاہری سے بھی بلند ذمہ داری کو سنبھال لیا اور بجائے اس کے کہ جنگ و جدال کی باتیں کریں، یا خود کو مسلمانوں سے کنار کر لیں اور سازش کرنے والوں سے مقابلہ کریں آپؑ نے خدا کے تقویٰ کے ذریعہ لوگوں کو تفرقہ سے اتحاد کی طرف بلایا اور جو افراد جا نتے بوجھتے ہوئے یا بغیر سمجھے ہوئے بیعت کر بیٹھے تھے انہیں نصیحت کی کہ کشتیٔ نجات کے ذریعہ فتنہ کا مقابلہ کریں۔ (اور اس طرح پیغمبراکرمؐ کی معروف حدیث کی طرف اشارہ کیا کہ اہل بیتؑ کی مثال کشتیٔ نوحؑ کی طرح ہے) پھر آپؑ نے ایک جملہ ارشاد فرمایا کہ (فتنہ کے ایسے ماحول میں) جو تمام قوتیں رکھتے ہوئے قیام کرے وہ کامیاب ہو گا، اور جو بحد کافی قوت نہ رکھنے کے سبب کنارہ کشی کرلے وہ مومنین کو آرام پہنچائے گا [۱۷] اور اس طرح آپؑ نے قیام کی موقعیت کو پوری دنیا کے سامنے واضح کر دیا، صلح کے موقعوں کو بھی واضح کر دیا، جنگ کے موقعوں کو بھی روشن کر دیا۔ یہیں سے ہم امام زمانہؑ کے قیام کا فلسفہ سمجھ سکتے ہیں۔ چونکہ زمانہ بھی فتنہ کا رہے گا اور آپؑ کے ناصروں کی تعداد بھی کامل رہے گی، اس وجہ سے آپ قیام کریں گے اور کامیابی کے بعد پوری دنیا پر حکو مت کریں گے۔ جیسا کہ امیر المومنینؑ فرماتے ہیں کہ ’’جب وہ وقت آئے گا تو دین کا رہبر قیام کرے گا تو مسلمان آپؑ کے گرد (آپ کی نصرت کے لئے) خزاں کے بادلوں کی طرح جمع ہو جا ئیں گے‘‘ [۱۸] اس وقت کے حالات بیان کرتے ہو ئے مولا امیر المومنینؑ فرماتے ہیں ’’کل کا وہ آنے والا دن جس کی تمہیں کو ئی پہچان نہیں ہے، اس وقت زمامداری، حاکمیت کی صورت اپنا لے گی جو آج کل کے حکو متی خاندانوں سے الگ ہے وہ مزدوری اور حکومت کا کام کرنے والوں کو ان کے غلط کاموں پر سزا دیں گے، زمین اپنے تمام خزانے ان کے لئے ظاہر کردے گی اور اس کے مالک بھی آپؑ ہی ہوں گے وہ حقیقی حکو مت کی عادلانہ روش تمہارے درمیان ظاہر کریں گے اور کتاب خدا اور سنت پیغمبرؐ کو زندہ کریں گے [۱۹] ایک اور مقام پر آپؑ کے قیام کا ذکر فرماتے ہیں کہ: پھر فتنوں کو نابود کرنے کے لئے ایک گروہ اٹھے گا، ان کی تلواریں صیقل کی ہوئی ہوں گی۔ ان کی آنکھیں قرآن کے نور سے منور ہوں گی اور ان کے کانوں میں قرآن کی تفسیریں رچی بسی ہوں گی اور پھر صبح و شام حکمت کا ماحول رہے گا۔ [۲۰]
ظہور امام علیہ السلام سے قبل خوفناک حالات :
جیسا کہ رسول اکرمؐ فرماتے ہیں ’’مہدی میری اولاد میں سے ہیں وہ غیبت اختیار کریں گے اور جب وہ ظہور کریں گے تو زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح وہ پہلے ظلم و جور سے بھری ہوئی تھی۔ [۲۱] اس حدیث کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ وہ زمانہ جب امامؑ کا ظہور قریب ہو گا تو کس حد تک ظلم و جور سے بھرا ہوا ہو گا۔ اس زمانہ کا اگر مزید جائزہ لینا ہو تو مولائے کائنات کے اس کلام سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس میں آپؑ فرماتے ہیں: یہ ایسے ایام ہیں جن میں مومن کے لئے تلوار کا وار (برداشت کرنا) حلال چیز حاصل کرنے سے آسان ہے۔ جس میں لینے والے کا اجر دینے والے کے اجر سے زیادہ ہے اور شراب پیئے بغیر ہی لوگ مست ہو جائیں گے، نعمتوں کی فراوانی کے باوجود بغیر کسی زبردستی کے قسم کھاؤ گے اور بغیر بے چارگی کے جھوٹ بولو گے یہ ایسے دن ہیں کہ جب بلائیں تمہیں ڈسیں گی، جس طریقہ سے پالان اونٹوں کو زخمی کر دیتے ہیں۔ آہ! وہ رنج اور اندوہ کتنا طولانی اور کشائیش کی امید کتنی دور ہے۔ [۲۲]
ساتھ دینے کی وصیت:
جب تک کوئی قوم خود سے کوئی تبدیلی نہ چاہے اور خود کو تبدیل نہ کرے اللہ بھی اس کی حا لت نہیں بدلتا ہے۔ [۲۳] لہٰذا اس سنت خدا کی روشنی میں ہم آسانی سے اس نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں کہ اگر ہم واقعی طور پر اس زمانہ کو بدلنا چاہتے ہیں اور بد بختیوں کو خوش قسمتی میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی کچھ کرنا ہو گا، چونکہ یہ ہماری ذمہ داری ہے، اور اگر ہم لا پرواہ اور تماشائی کی حیثیت سے کھڑے صرف تماشا دیکھتے رہے تو پھر اس گھٹا ٹوپ اندھیر زمانہ کا شر لگا تار پھیلتا ہی چلا جائے گا اور اس کے ذمہ دار ہم بھی ہوں گے۔
لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیئے جس کی وجہ سے خدا وند عالم اپنے اس خاص نمائندہ کے ذریعہ ہماری رہنمائی اور رہبری کرے؟ حضرت سید الاوصیاؑ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ: ’’اے لوگوں! گناہوں کے بوجھ سے پرہیز کرو اور اپنے امامؑ کو تنہا نہ چھوڑ دو کہ جس کے سبب تمہیں اپنی ملامت کرنی پڑے، فتنوں سے دور رہو اور سیدھے راستے پر چلو اور وہ راستے جو فتنوں کی طرف کھینچتے ہیں ان سے اجتناب کرو۔ میری جان کی قسم! مومن فتنہ کی آگ میں پڑ کر نابود ہو جائے گا، لیکن اسلام کا جھوٹا دم بھرنے والے امان میں رہیں گے۔ اور بے شک میں تمہارے درمیان اس چراغ کی مانند ہوں جو تاریکیوں میں روشن رہتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رخ کرتا ہے وہ اس کے نور سے فائدہ اٹھاتا ہے (اور پھر آپؑ نے فرمایا) اے لوگوں! میری باتیں سن لو، اور اچھے سے یاد کرلو، اپنے دل کے کانوں کو کھول لو تا کہ میری کہی بات سمجھ سکو۔ [۲۴]
پرہیز گاری کی سفارش:
پھر امامؑ زہد کی جانب متوجّہ ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں ’’اے لوگو! تمہیں پرہیز گاری اور نعمتوں، خداداد تحفوں اور ان احسانوں کی بہ نسبت جو تمہیں حاصل ہوئے ہیں، بے حساب شکر بجا لانے کی وصیت کرتا ہوں، تم نے اپنے عیبوں (کمیوں) کو ظاہر کیا اور اس نے پردہ پوشی کی، تم نے خود کو عذاب پانے والا بنا دیا اور اس نے تمہیں مہلت دی ہے۔‘‘ [۲۵]
موت یاد رکھنے کی اہمیت:
انسان اکثر اس بنا ء پر گناہ کا مرتکب ہوتا ہے کہ وہ موت کو بھول چکا ہوتا ہے، اور اسے اپنا انجام یاد نہیں ہوتا۔ اس بناء پر موت کو یاد رکھنا انسان کو بہت سے گناہوں سے بچا سکتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے ’’وہ کہ جس نے موت و حیات کو اس لئے خلق کیا ہے تاکہ وہ تمہارا امتحان لے سکے (اورجان سکے) کہ تم میں سے کون نیک عمل انجام دینے والاہے [۲۶] اور اس طرح دوسری آیات بھی، موت و حیات کا وجود اور اس کا فلسفہ بیان کرتی ہیں جو انسان کی نصیحت اور اسے بیدار کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس بناء پر مولائےکائناتؑ نے بھی لوگوں کو اس حقیقت کی یاد دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’لوگو! میں تمہیں موت کو یاد رکھنے کی سفارش کرتا ہوں، موت سے بہت کم غفلت کرو۔(تعجب ہے) تم موت کو کیسے بھول جاتے ہو حالانکہ وہ تو تمہیں نہیں بھولتی ہے؟ اور کس طرح تم لالچ کرتے ہو حالانکہ وہ مہلت بھی نہیں دیتی ہے؟ اسلاف کی اموات تمہارے لئے کافی ہیں اور وہ جن چیزوں میں مشغول تھے سب چھوٹ گیئں۔ اب ان کے پاس نہ قدرت ہے کہ برے اعمال سے دوری اختیار کریں اور نہ ہی وہ نیک کاموں میں اضافہ کر سکتے ہیں وہ دنیا سے مانوس ہونا چاہتے تھے، جس نے انہیں مغرور کر دیا۔ وہ اس پر پورا اطمینان کرتے تھے آخر کار اس نے مغلوب کر دیا۔ [۲۷]
نیکیوں میں جلدی کرنا:
چونکہ موت کا ایک وقت معین ہے، لہٰذا وہ اپنے وقت پر ہی آتی ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی تاخیر نہیں ہے، وہ لازم اور ضروری ہے، لہٰذا ٹل بھی نہیں سکتی ہے، وہ مخفی ہے لہٰذا اس کا وقت بھی معلوم نہیں ہوتا ہے، ایک حدیث میں سرور کائنات ارشاد فرماتے ہیں ’’من مات علیٰ شی ء بعثہ اللہ علیہ‘‘ [۲۸] جو جس حالت پر مرتا ہے خدا اسی حالت میں اسے محشور کرتا ہے۔ اس وجہ سے ہمیں اور زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت گذر جائے، تو اس وقت کفِ افسوس ملنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کارِ خیر میں مشغول رہنا چاہئے اور نصیحت کرنے والے کی نصیحت سننا چاہئے کیونکہ کون سا لمحہ انسان کا آخری لمحہ ہے، اس کا علم اسے بھی نہیں ہے۔
اسی مطلب کی طرف مولا امیر المومنینؑ اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’خدا تم پر رحمتیں نازل کرے! اپنی اس منزل کی طرف جانے میں سبقت کرو جسے بسانے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ صبر و استقامت سے خدا کی نعمتیں حاصل کرو اور بغاوت اور نافرمانی نہ کرو چونکہ آنے والا کل، آج سے بہت نزدیک ہے‘‘ … [۲۹]
اور اگر ہم ان تمام نصیحتوں پر عمل کر یں اسی صورت میں ہم امام زمانہ ؑکے ظہور کے صحیح انتظار کرنے والوں میں شمار ہو سکتے ہیں۔
اللہم ارزقنا توفیق الطاعۃ و بعدالمعصیہ و صدق النیۃ
و الحمد للہ رب العالمین
سید فرحت عباس رضوی
(۱) ذخائر العقبیٰ:ص،۱۳۶، بحوالہ ٔ فضائل الخمسۃ فی الصحاح الستۃ ج۳ ص۳۸۹
(۲) نہج البلاغہ، خطبہ، ۱۵۰، ۴ (۳) خطبہ، ۱۵۰
(۴) بقرہ، ۲۶ ( ۵)خطبہ، ۱۳۸ /۱
(۶) نہج البلاغہ ،خطبہ، ۱۳۸، ۱) (۷) نہج البلاغہ، خطبہ، ۱۳۸، ۱
(۸) خطبہ ۱۳۸، ۳ (۹) نقل از جامع ترمذی، طبق نقل ینابیع المودۃ ،۳۷
(۱۰) خطبہ،۱۵۰، ۳
(۱۱) مسند احمد بن حنبل ،ج ۱، ص ۳۷۶
(۱۲) نور، ۵۵
(۱۳) انبیاء، ۱۰۵
(۱۴) اصول کا فی، ج ۱، باب الحجۃ
(۱۵) السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج ۱ ص۵۰۱
(۱۶) زندگی پیامبرؐ، ص ۱۷۷
(۱۷) نہج البلاغہ، خطبہ ۵
(۱۸) نہج البلاغہ، غریب الکلام /۱
(۱۹) خطبہ ، ۱۳۸/۲
(۲۰) خطبہ ، ۱۵۰/۲
(۲۱) منتخب الاثر ۱، ۲۴۹، ۸
(۲۲) خطبہ، ۱۸۸، ۱
(۲۳) رعد؍۱۱
۲۴) خطبہ / ۱۸۸
(۲۵) خطبہ/ ۱۸۸
۲۶) الملک / ۲
(۲۷) خطبہ / ۱۸۸
(۲۸) کنز العمّال ۴۲۷۲۱
(۲۹) خطبہ، ۱۸۸