مقالات

علی علیہ السلام اور دنیا

فخرالدین حجازی (ملک سجاد عباس)

دنیا اور خوبصورت کائنات خدا وند متعال کی پسندیدہ اور نعمتوں سے بھر پور تخلیق ہے۔ جنہیں خدا نے اپنی محبوبیت اور فضل و کرم کے تحت بنایا ہے۔ انسان دنیا کا فرزند ہے جو اس کے بابرکت دامن سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اس سے محبت و الفت کرتا ہے۔ انسان کا دنیا کے ساتھ ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہے اور یہ کائنات خدا سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ خوبصورت، منظم اور پُرفیض کائنات خدا کی عظمت، وحدانیت اور مہربانی کی نشانی ہے۔

آسمان، زمین، سمندر، پہاڑ، بادل، بارش، پودے اور یادگاریں سب خدا کی نشانیوں میں سے ہیں۔ خدا کی خوبصورتی کے جلوے گلاب کی پنکھڑیوں، چشموں، ندیوں، جنگلوں، پرندوں اور چرندوں کے حسین جسم، سمندری مچھلیوں، ستاروں کی چمک، سورج کی روشنی اور صاف و شفاف ہوا میں جھلکتے ہیں اور بالآخر یہ جلوے انسان کے روپ میں ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ تمام خوبصورتیاں خدا کی طرف سے ہیں اور اس کی نشانیاں ہیں۔

ہم پر فرض ہے کہ ہم اس دنیا اور اس کی وسعتوں اور اس اٹھائے جانے والے فائدوں کی قدر دانی کریں اور اس کی بار برکت اور بے پناہ نعمتوں سے استفادہ کریں اور پاک و پاکیزہ اور آرام دہ زندگی کو اپنے لئے فراہم کریں۔

اپنے حصے کو دنیا میں سے نہ بھولو اور جیسے خدا نے تم پر احسان کیا ہے۔ تم بھی لوگوں پر احسان کرو اور زمین میں فساد نہ کرو، کیونکہ خدا فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

پس ہمیں چاہیے کہ دنیا سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے فائدوں سے دوسروں کو رہنمائی اور فیض پہنچائیں اور ہرگز اس پاکیزہ،سادہ اور معصوم دنیا کو تباہی کی طرف نہ لے جائیں۔ اس کے قوانین اور سنتوں کو پامال نہ کریں اور دنیا کے لوگوں کو جو اس کے فرزند ہیں پر ظلم نہ کریں اور نہ ہی دوستی و محبت کے رشتوں کو اپنے سے دور کریں۔

قرآن مجید ان لوگوں کے مدّ مقابل جو خود کو دنیا کی نعمتوں سے محروم رکھتے ہیں اور اس کے فضل و برکت سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں حکم دیتا ہے کہ انسانوں کو چاہیے کہ وہ دنیا کی خوبصورتیوں اور نعمتوں سے فائدہ اٹھائیں کیونکہ یہ تمام جلوے اور نعمتیں خاص طور پر ایمان والوں کے لیے ہیں۔ قرآن مجید فرماتا ہے:

کہہ دو؛ کس نے ان زینتوں کو حرام کیا ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہیں اور ان پاکیزہ روزیوں کو جو اس نے ان کے لیے فراہم کی ہیں؟یہ نعمتیں ایمان لانے والوں کے لیے ہیں۔
اور مزید فرماتا ہے:

اور کھاؤ ان چیزوں کو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال اور پاکیزہ بنائی ہیں اور اس خدا کی نافرمانی سے بچو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔

لہٰذا دنیا کی نعمتیں ہمارے لیے ہیں، ہماری خاطر ہیں اور یہ دنیا عزیز اور خوبصورت ہے اور ہمارے اختیار میں دی گئی ہے۔ ہمیں یوگیوں اور راہبوں کی طرح دنیا سے فرار اختیار نہیں کرنا چاہیے، نہ ہی کسی گوشے میں بےبس و بےعمل ہو کر چھپنا چاہیے، اور نہ فقیرانہ انداز میں کاسۂ گدائی ہاتھ میں لے کر محنت و کوشش سے باز رہنا چاہیے۔ ہمیں ان بےشمار قدرتی خزائن کو، جو انسان کے لیے تخلیق کیے گئے ہیں، ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔

بلکہ ہمیں چاہیے کہ اس دنیا سے جو قوت حاصل کریں، اسے تمام انسانوں کی بہتری کے لیے استعمال کریں۔ وہ توانائی جو ہم قدرت سے حاصل کرتے ہیں، اسے خدا کے راستے میں خرچ کریں، یعنی تعاون، ترقی، انسانیت کی خدمت، اور خدا کی عبادت میں صرف کریں۔ خدا تک پہنچنے اور انسانی مقاصد کی تکمیل کا یہی تقویٰ ہے، ورنہ تباہی، ظلم، اور گناہ جنم لیں گے، اور یہ قوتیں مخلوق کے خلاف استعمال ہوں گی، اور یگانگت و ہم آہنگی بیگانگی اور فساد میں بدل جائے گی۔

نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں: "دنیا آخرت کی کھیتی ہے” کیونکہ اس دنیا میں ہمارے اعمال ہی ہماری آخرت کی زندگی کا سرمایہ بنتے ہیں اور دنیا ہماری آخرت کی چوٹی تک پہنچنے کی سیڑھی اور ابدی زندگی کے وسیع میدان تک پہنچنے کا پل ہے۔ جب تک ہم یہاں سے اچھے اعمال کا زادِ راہ نہ لیں اور اس دنیا میں شایستہ عمل کے ذریعے آخرت کی ابدی زندگی کے لیے کوشش نہ کریں، ہم بے مقصدی اور فضولیت کا شکار ہو جائیں گے۔ آخرت کی محبت اور دنیا سے فرار ایک خطرناک انحرافی رویہ ہے، جو انسان کو کچے پھل کی طرح یا سقط جنین کی مانند بے کار کر دیتا ہے اور نہ اسے مٹھاس بخشتا ہے اور نہ ہی حقیقی زندگی عطا کرتا ہے۔

صوفیانہ اشعار اور درویشوں کے نعرے ایسی شیطانی نعمتیں ہیں جو انسان کو ترقی کی راہ سے ہٹا دیتی ہیں۔ یہ انسان کو قدرت کی گود سے نکال کر تباہی، بربادی اور بدقسمتی کی طرف لے جاتی ہیں اور اسے ظالموں کا آسان شکار بنا دیتی ہیں۔

علی علیہ السلام ان باتوں کے برخلاف جو نکمے، مفت خور بھکاری، معاشرے کے بوجھ، "حق علی” کا نعرہ لگانے والے جھوٹے متکدی اور کھردرے لباس والے درویش یا بعض گمراہ صوفی ان سے منسوب کرتے ہیں اور جھوٹ بول کر انہیں فقیر اور دنیا سے بے نیاز ظاہر کرتے ہیں درحقیقت ایسے مرد ہیں جو دنیا، قدرت اور اس کائنات سے محبت رکھتے ہیں۔ علی کو قدرت کے خوبصورت مناظر جو سب خدا کی نشانیاں ہیں بہت عزیز ہیں۔

علی علیہ السلام کو ستاروں، چشموں، کھجور کے باغات اور کھیتوں سے دلی لگاؤ تھا۔یہاں تک کہ وہ کنویں کے ساتھ اپنے راز بانٹتے تھے۔ وہ کھجور کے بیجوں کا تھیلا لے کر مدینہ سے باہر نکلتے اور جب ان سے پوچھا جاتا کہ یہ کیا ہے؟ تو جواب دیتے:یہ کھجور کے درخت ہیں، ان شاء اللہ۔پھر وہ ان بیجوں کو بوتے، وہ عربستان کے گہرے کنوؤں سے پانی نکالتے اور ان کی آبپاشی کرتے اور سرسبز کھیت بناتے۔ وہ کھیتوں میں بیلچہ چلاتے، خود کنویں کھودتے اور زیر زمین نہر پیدا کرتے۔

علی علیہ السلام مال و دولت کے معاملے میں بہت حساس تھے۔ خلافت کے دوران، وہ اپنا آدھے سے زیادہ وقت بیت المال میں گزارتے، خود حساب کتاب کرتے اور مکمل احتیاط برتتے کہ کوئی ایک درہم یا گندم کا دانہ بھی اضافی نہ دیا جائے۔ اگر کوئی بیت المال سے رقم ہڑپ کر لیتا، تو علی اسے سختی سے لکھتے کہ "اگر رقم واپس نہ کی تو اپنی تلوار سے تجھے سزا دوں گا۔” جو لوگ دنیا کی برائی کرتے، علی انہیں ڈانٹتے اور دنیا کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے کہ دنیا کی خوبصورتی اور اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔

یہ دنیا ان لوگوں کے لیے صداقت کا مسکن ہے جو اپنے قول پر یقین رکھتے ہیں۔ان کے لیےتندرستی کا گھر ہے جو اس کی حقیقت کو سمجھتے ہیں اوران کے لیےبے نیازی کی جگہ ہے جو یہاں سے زادِ راہ لے کر چلتے ہیں۔یہ نصیحت کا گھر ہے ان لوگوں کے لیے جو نصیحت قبول کرتے ہیں۔یہ دنیا خدا کے دوستوں کے لیے عبادت گاہ ہے،فرشتوں کے لیے نماز کی جگہ ہے،خدا کے الہام کے نزول کی جگہ ہے اور خدا کے دوستوں کے لیے ایک ایسا بازار ہے جہاں سے وہ خدا کی رحمت حاصل کرتے ہیں اور جنتِ جاوداں کو اپنے لیے چن لیتے ہیں۔پھر بھلا کون ہے جو اس دنیا کی مذمت کرے؟!(38)

پس دنیا آخرت کا پیش خیمہ ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہو سکتے۔ جب تک ہم دنیا میں محنت نہ کریں اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کوشش نہ کریں اور تکمیل کی جانب نہ بڑھیں، ہم اگلی زندگی میں کوئی فائدہ یاحقیقی زندگی نصیب نہ ہو گی۔

دنیا ایک امتحان گاہ ہے جو اوجِ کمال اور ابدیت تک پہنچنے کے لیے ترقی کا مقام ہے اور پاکیزگی، سکون، اور آرام کے معراج تک پہنچنے کے لئے زینہ ہے اور روحانی بلندیوں تک پرواز کرنے کا ذریعہ ہے ۔

دنیا ایک بازار ہے جہاں مؤمنین اپنی اصلی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر، علم و ایمان کے ذریعہ اور اپنے مادی، فکری اور روحانی وسائل کو استعمال میں لا کر اعلیٰ ترین انسانی مرتبہ پر فائز ہوتے ہیں۔

وہ انسان دوستی، خدمت گزاری، قربانی،عدل وانصاف کے فروغ، پاکیزگی، شرافت اور عزت و قار کے ذریعہ ایک اعلیٰ معاشرہ تشکیل دیتے ہیں جو ایک خوشبخت،برابری اور بھائی چارہ پر مشتمل ہوتا ہے۔

اور دنیا کی تمام توانائیوں اور خزانوں کو انسانی فلاح و بہبود کے لیے، مادی زندگی کی پاکیزگی کے لیے اور روحانی و معنوی ترقی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن۔۔۔۔

لیکن یہ دنیا اس وقت عزیز، محترم، قابل قدر اور محبوب ہوتی ہے جب یہ انسانوں کی خدمت، عدل و انصاف کے فروغ، آزادی اور امن کے استحکام، مساوات، صلح ، ہم آہنگی اور یکجہتی کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا وسیلہ بنے اور اگلی دنیا میں ابدی زندگی کے لئے تربیت کا میدان فراہم کرے۔

لیکن اگر یہ دنیا خود مقصد بن جائے اور آخرت، خدا اور انسانیت کے خلاف کھڑی ہو جائے اور انسانوں کی معبود اور محبوب بن جائے اور اگر یہ انسانی تکامل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن جائے اور ایک گھر برباد کرنے والی آگ اور لوگوں کو جلا دینے والی اور ظلم و تباہی کا ذریعہ بن جائے، ایسا کہ اس نے تمام اعلیٰ انسانی مقاصد کو کچل کر الٹ دیا اور اس کی دولت، مقام، خوبصورتی اور لذت پسندی نے تمام انسانی فضائل کو تباہ کر دیا اور یاد خدا کو بھلا دیا اور خلق خدا کو موت، اسیری، قتل اور لوٹ مار کی طرف دھکیل دیا اور تمام آسمانی تعلیمات،انسانی جذبات اور سماجی ذمہ داریوں، خود غرضی، برتری طلبی،طاغوتیت، خود پسندی،تجاوز، زخیرہ اندوزی،دنیا پرستی،جنگ و جدال،تباہی ،شہوت اور گناہ کے شعلوں میں جلا دیا۔اس وقت یہ دنیا بری، ناپسند، پست، بے وقعت، زہر، درد، عار، بدبختی اور تاریک زندگی بن جاتی ہے۔

اگر ہم دنیا کو لوگوں کے لیے اچھا چاہیں تو یہ نیک اور مفید ہے اور اگر اپنے لیے چاہیں تو یہ بُری اور ناپاک ہے۔ اگر دنیا کو آخرت کا پیش خیمہ سمجھیں تو قیمتی اور محبوب ہے لیکن اگر ہم معاد، اخلاق، خدا کی عبادت، انسان دوستی،فضائل اور انسانی برتریوں کواس کی خاطر قربان کریں تو یہ شیطانی ناپاک، اور ایک اژدھا بن جاتی ہےاور وہ ایک ایسی بوڑھی عورت ہے جو ہزاروں دامادوں کی دلہن ہےاور ہر داماد کو اپنی بدبو دار اور تاریک حجله میں شقاوت کی قبر میں سرنگوں کر دیا ہے۔

یہی وہ دنیا ہے جس کا علی علیہ السلام مقابلہ کرتے ہیں اور بدصورتی کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ کبھی اسے ایک ایسے سانپ سے تشبیہ دی ہے کہ جو بظاہر نرم اور خوبصورت ہے لیکن اس کے دانتوں کے نیچے مہلک زہر ہوتا ہے۔
اور کبھی فرمایا:کہ دنیا میرے نزدیک خنزیر کی اس ہڈی سے بھی زیادہ پست تر ہے جو ایک جذامی آدمی کے ہاتھ میں ہو اور یہ یا تو بکری کی ناک کے پانی سے بھی زیادہ بے وقعت ہے یا ٹڈی کے منہ میں بے قیمت پتّے کی مانند ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں علی علیہ السلام کی دنیا کے ساتھ مسلسل جدوجہد شروع ہوتی ہے،نمرودوں، فرعونوں، ابو سفیانوں اور معاویوں کی دنیا کے ساتھ نہ کہ ابراہیمؑ، مسیح ؑ،حضرت محمد ﷺ، علی علیہ السلام اور ابوذر کی دنیا کے ساتھ۔

وہ دنیا جو انسان کو خدا سے جدا کر دے، انسانیت سے دور کر کے اسے شیطانیت کی طرف لے جائے، ایسی دنیا علی علیہ السلام کے نزدیک مردود اور مطرود ہے اور اس کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:

اے دنیا! مجھ سے دور ہو جا، میں نے تیری لگام کو تیرے گردن میں ڈال کر تجھے چھوڑ دیا ہےاور میں نے تیرے پنجوں سے نجات حاصل کی اور تیری بھاری زنجیروں سے آزاد ہو گیااور میں نے تیرے پھسلنے کی جگہوں سے دوری اختیار کر لی۔کہاں ہیں وہ لوگ جنہیں تم نے کھیل تماشہ میں لگا دیا اور وہ قومیں جنہیں تم نے اپنی زینتوں سے دھوکہ دیا؟!اگر میں تجھے مجسم پاتا تو تجھ پر خدائی سزا نافذ کرتا۔سوائے اس کے کہ تُو نے خدا کے بندوں کولمبی امیدوں سے فریفتہ کیا اور لوگوں کو گمراہی کی کھائیوں میں دھکیل دیا، حکمرانوں کو تباہی کی طرف لے گیا اور انہیں سختیوں اور مصیبتوں میں مبتلا کر دیا،اس طرح کہ ان کے لئے آگے اور پیچھے کوہ راستہ باقی نہ رہا۔

یہ دور ہے کہ میں تمہاری طرف رجوع کروں کیونکہ جو بھی تمہاری کی لغزش گاہوں میں قدم رکھے گا وہ گرجائے گا اور جو کوئی تمہاری کی خروشاں لہروں میں پھنس گیا وہ غرق ہوجائے گااور جو کوئی دنیا کے بندھنوں سے آزاد ہوا وہ کامیاب ہوا اور جو دنیا کے خطرے سے محفوظ رہا اس کو زندگی کی تنگی کی کوئی پرواہ نہیں رہی اور دنیا اس کے سامنے ایسے تھی جیسے بیابان پہنچ گیا ہو اورمجھ سے دور ہو جاؤ خدا کی قسم میں تمہہارے سامنے جھکنے والا نہیں ہوں کہ تم مجھے ذلیل کرو، اور میں تمہاری فرمانبرداری نہیں کروں گا کہ تم مجھ پر قابو پا سکو۔

امام کے قول کے مطابق دنیا ایک لغزشگاہ ہے جو انسان کو خدا اور کمال کی راہ سے ہٹا دیتی ہےاور اس کی کھیل تماشے اور فریب دینے والی چیزیں انسان کو اپنے میں مشغول کر دیتی ہیں اور یہ دنیا انسان کو خدا اور اس کے آنے والے دن سے غافل کر دیتی ہےیہاں تک کہ وہ تمام حدود کو توڑ دیتا ہے اور تمام قوانین اور فضائل کوپس پشت ڈال دیتا ہے اور ایک آدم خور اور جابر دیو بن جاتا ہے۔

امام خوفناک انتباہ کے ذریعہ لوگوں کو دنیا کی غلامی سے روکتے ہیں اور آخرکار دنیا کی حقیقت کو جو ایک ہولناک موت اور دردناک سزا ہے انسانوں کے سامنے آشکار کرتے ہیں اور دنیا کی ناپائیداری کے بارے میں بات کرتے ہیں اور سوئے ہوئے دلوں کو بیدار کرتے ہیں اورقاطع انداز میں یوں فرماتے ہیں:

اے خدا کے بندو؛ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ دنیا کو چھوڑ دو کیونکہ وہ تمہیں چھوڑ دے گی چاہے تم اس کی دوری کو ناپسند ہی کیوں نہ کرو اور تمہارے جسموں کو گلا (کھا جائے گی، ریزا ریزا کر دے گی،خاک بنا دے گی) دے گی۔ اگرچہ تم چاہو کہ ہمیشہ تروتازہ رہو، تم ایک مسافر کی مانند ہو جو ایک راہ پر گامزن ہے اور گمان کرتا ہے کہ وہ اپنے اختتام منزل تک پہنچ جائے گا اور اپنے مقصد کو پا لے گا۔ لیکن اسی کوشش میں اچانک موت پا لیتا ہے۔

پس دنیاوی کامیابیوں اور فخر پر دل نہ لگاؤاور اس کی زینتوں اور عارضی فائدوں پر خوش نہ ہوجانا اور اس کی مشکلات اور ناخشگوار حالات پر فریاد و گلہ شکوہ نہ کرو۔کیونکہ اس کی برتری اور عروج ختم ہو جاتا ہے۔ اس کی خوبصورتی اور نعمتیں (پائیدار)دائمی نہیں رہتیں اور اس کی سختیاں اور دکھ بھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتے۔ اس دنیا میں ہر دور عارضی ہے اور ہر جاندار فنا ہونے والا ہے۔ کیا گذشتہ قوموں کے آثار آپ کے لیے کسی گہری نصیحت کا حامل نہیں ہیں؟اور کیا آپ کے آبا و اجداد کی انجام آپ کے لیے کوئی سبق،عبرت یا بصیرت فراہم نہیں کرتی؟ اگر آپ غور کریں اور خود کو فکر میں ڈالیں تو کیا یہ نہیں دیکھتے کہ گذشتہ لوگ واپس نہیں لوٹے اور موجودہ لوگ باقی نہیں رہیں گے؟! کیا آپ نہیں دیکھتے کہ دنیا کے لوگ رات اور دن مختلف حالتوں میں گزار رہے ہیں؟کچھ مر جاتے ہیں اور کچھ ان پر روتے ہیں،کچھ بیمار ہیں اور کچھ عبادت میں مصروف ہیں اور کچھ موت کے بستر پر زندگی کی بازی ہار رہے ہیں، لوگ دنیا کی تلاش میں ہیں جبکہ موت ان کے پیچھے ہے۔

لوگ اپنی تقدیر سے بے خبر ہیں لیکن خدا ان کے کاموں سے بے خبر نہیں ہے اور آئندہ آنے والے لوگ اپنےسے پہلے گزر جانے والوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔خبردار؛جب تم کسی برے کام کا ارادہ کرو تو موت کو یاد کرو جو لذتوں کوتباہ کرنے والی،شہوتوں کو کچلنے والی اور آرزوؤں کو محدود کرنے والی ہے۔خدا سے مدد مانگو تاکہ اس کے احکامات پر عمل کر سکواور اسکی بے شمار نعمتوں کا شکر ادا کرو۔

امام یہاں پر دنیا کے تغیرات کی بات کرتے ہیں،

وہ فتح و شکست، برکت و مصیبت، صحت و بیماری، موت و زندگی، سختی اور آسائش کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ مادی دنیا کا فلسفہ اور فطرت ہے جو کبھی یکساں نہیں رہتی اور انسان اس بدلتی دنیا پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔اس گردش کرنے والی دنیا پر انحصار کرتے ہوئے انسان کو چاہیے کہ ایک بلند، ثابت اور غیر متزلزل سہارے کی تلاش کرے اور روحانیت کی طرف مائل ہواور چونکہ تخلیق کے قانون کے مطابق ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے اور موت ردّ عمل کا آغاز ہے اس لئے انسان کو موت کو یاد رکھنا چاہیے۔برے کاموں اور تباہی سے بچنا چاہیے اور اللہ تعالی سے پاکیزگی اور سچائی کے لئے مدد طلب کرنا چاہیے۔

امام دنیا کی حقیقی صورت کی تصویر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:دنیا کا سرچشمہ اور اس کی طوفانی نہر گدلی اور میلی ہے۔یہ دنیا کم فہم لوگوں کو حیرت میں ڈالتی ہے اور آزمائے ہوئے لوگوں کو بربادی کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ ایک دھوکہ دینے والی عارضی چیز ہے کہ اس کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے اور اس کا سایہ ختم ہو جاتا ہےاور یہ ایک ایسا سہارا جو جلد ہی تباہ ہو جاتا ہے اور جو بھی اس کی لپکتا ہے اور اس کی ظاہری فریبی شکلوں پر اعتماد کرتا ہے تو یہ دنیا اسے ٹھوکر مارتی ہے۔اپنے تیر اس کی طرف پھینکتی ہےاور اپنی رسیاں مردوں کے گلہ میں ڈال دیتی ہے یہاں تک کہ انہیں قبر کی تنگی کی طرف لے جاتی ہے۔ اس خوفناک گھر میں جہاں ان کے نیک اور برے اعمال کا حساب لیا جاتا ہے۔ آنے والے بھی پچھلوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور موت انہیں آ دبوچتی ہے اور ان کی بنیا کو مٹا یتی ہے۔

یہ سب مادی تاریک راہیں اور کثافت کی شکلیں ہیں کہ جب انسانی روحانیت کے مقابلہ میں آتی ہیں تو اس کی انسانی جدوجہد اور حرکت کو روک دیتی ہیں تو انسان بے اختیار دنیا کے اس کثیف اور گدلی دلدل میں دھنس جاتا ہے۔ اس کا وجود ساکن (جم)جاتا ہے اور وہ حرکت سے محروم ہو جاتا ہے آخر کار وہ بد قسمتی کی قبر میں گر جاتا ہےوہ کثافت اور گندگی سے پیدا ہوتا ہے اور اسی میں پروان چڑھتا ہے اور پھر اس کے لئے کوئی پرواز یا بلندی باقی نہیں رہتی۔

یہ دنیا غیر مستحکم اور عارضی ہے کہ جس کی فریب دینے والی روشنیاں تیزی سے ماند پڑ جاتی ہیں اور لوگوں پر پھیلنے والا سایہ جلد ختم ہو جاتا ہے۔ یہ ایک تباہ حال سہارا ہے جو انسان کا معاون نہیں بن سکتا اور یہ ایک بےلگام جانور کی مانند ہے جو کسی کو سواری کی اجازت نہیں دیتا۔بلکہ یہ ٹھوکر مارتی ہے اور ایک ماہر تیر انداز کی طرح ہے جو طاقتور ترین انسانوں کو بھی زمین پر گرا دیتی ہے۔اپنی سیاہ جادوئی رسیوں سے سب کو کھینچ کر قبر کی ڈھلان کی طرف لے جاتی ہے۔

عظیم عالمی طاقتیں جیسے سیزرز، فونیقین، اکاڈین، آرامی، ایڈیسز اور ہٹائٹس، رمیسس، اٹیلا، نیفرٹیٹی، جرمن، سیکسنز، الیگزینڈر وغیرہ جو اپنے دور کے سرور اور حکمران تھے، جلد ہی تاریکی اور خاموشی میں ڈوب گئے اور دنیا کی ٹھوکروں سے نابودی میں چلے گئے لیکن ابدیت کے وہ فرزند جنہوں نے دنیا کی غلامی قبول نہیں کیا وہ ہمیشہ زندہ و جاوید رہے۔ اور امام کے نصیحت آموز الفاظ سے کلام کرتے ہوئے دنیا دوستوں کو دھوکے و فریب سے بھرے اس گھر کی پرستش سے روکتی ہوئے یوں کہتے ہیں:

دنیا کو ایسے دیکھو جیسے نیک لوگ اسے دیکھتے ہیں اور اس سے منہ پھیر لیا کیونکہ خدا کی قسم! جلد ہی اپنی مکینوں کو بے دخل کر دے گی اور خوشباش لوگوں کو سختی اور درد میں مبتلاء کر دے گی۔دنیا سے جو جوانی اور طاقت گزر گئی وہ پھر کبھی واپس نہیں آئے گی اور اس کا مستقبل نامعلوم اور مبھم ہے اور مردوں کی طاقت کمزوری اور ناتوانی کی طرف مائل ہو رہی ہے۔پس اس کے بے شمار فوائد تمہیں دھوکہ نہ دیں کیونکہ تمہیں اس سے صرف تھوڑا سا حصہ نصیب ہو گا۔خدا کی رحمت ہو اس پر جو دنیا کے بارے میں غور کرے، عبرت حاصل کرے اور بصیرت حاصل کرے۔کیونکہ دنیا کی ہر چیز جلد فنا ہونے والی ہے اور جو کچھ آخرت میں ہے وہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔زندگی کے محدود لمحات ختم ہو جاتےہیں اور جو کچھ انتظار میں ہوتا ہے وہ آ کر رہتا ہےاور ہر مستقبل چاہے کتنا بھی دور نظر آئے ،قریب نظر آتا ہے۔

لہذا دنیا کو متقی اور پرہیزگاروں کے نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے، جیسے سقراط جو ننگے پاؤں ایتھنز (Athens) کی گلیوں سے گزرتا تھا اور دیوژن (Diogenes) جس نے سکندر سے کہا:میرے سامنے سے ہٹ جاؤ تاکہ سورج مجھ پر چمک سکےاور سب سے بڑھ کرتمام انبیاء جو دنیا کے راستے سے گزرے لیکن اپنے دامن کو اس کی آلودگیوں سے پاک رکھ، جیسے حضرت محمد ﷺ کہ جن کا کوئی مستقل گھر نہیں تھا اور جن کی پیٹھ اور پہلو پر کھردری چٹائیوں کے نشانات پڑ جاتے تھے اور کئی مہینے بیت جاتے تھے کہ ان کے گھر کے چولہے سے دھواں تک نہیں اٹھتا تھا اور علی علیہ السلام جو کئی دن تک جو کی ایک پوری روٹی نہیں کھاتے تھےاور فاطمہ علیہا السلام اپنی کرباسی قمیص(کھدر کی قمیص)کو کھجور کے پتوں سے پیوند کرتی تھیں اور امام سجاد علیہ السلام ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ کوئی ایسا دن نہ گزرا جب ان کے لئے دسترخواں بچھایا گیا ہو اور نہ ہی کوئی ایسی رات آئی جب ان کے لئے کوئی بستر بچھایا گیا ہو؟!

یہ دنیا کے پرہیز گار لوگ تھے جنہوں نے دنیاوی عیش و عشرت اور دھوکہ دینے والی زیب و زینت سے منہ موڑ لیا تھا اور انہوں نے مٹی کے کچے گھر،کرباسی لباس (کھدر کے لباس) اور نہایت ہی سادہ کھانے پر اکتفاء کیا اور انہوں نے دنیا کو اپنے لئے طلب نہیں کیا اور نہ اس کے لئے کسی معصیت کا ارتکاب کیا اور ان کی نگاہیں بلند اور برتر تھی اور وہ ابدیت کے اعلیٰ افق پر نظر رکھتے تھے اور وہ دنیا کے عارضی پردہ کے پیچھے سے وہ ابدی خوبصورتی کے منظر کو دیکھتے تھے اور علی علیہ السلام لوگوں کو اسی اعلیٰ منظر کی طرف متوجہ کراتے تھے اور آخرت اگرچہ بظاہر دور نظر آتی تھی لیکن وہ اسے قریب جانتے تھے اور امام علیہ السلام دوبارہ دنیا کہ دلدادہ لوگوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہیں اور فرماتے ہیں:میں تمہیں دنیا سے خبردار کرتا ہوں کیونکہ یہ دنیا پرستوں کے لیے منہ میں میٹھی اور ان کی نظروں کے سامنے بہت خوشنما ہے۔یہ خواہشات میں لت پت ہے اور اپنے عارضی فائدوں سے دوستی کرتی ہے اور اس کی چمک دمک بہت تھوڑی ہوتی ہے۔اور یہ خوبصورت خواہشات کو نظروں کے سامنے لاتی ہے اور اپنے مکر و فریب سے خود کو مزین کرتی ہے۔ اس کی خوشیاں پائیدار نہیں ہوتی اورکوئی بھی اس کی ناخوشگواریوں سے محفوظ نہیں، یہ ایک دھوکہ دینے والی چرب زبان ہے۔یہ فانی، ناپائیدار، تباہ ہونے والی اور غیر مستحکم ہے، ایک ایسا حریض وجود ہے جو جسموں کو کھا کر اپنے اندر سمو لیتے ہے۔

اگر ہم دنیا کو علی علیہ السلام کی نظر سےسمجھنا چاہیں تو ایک طویل اور مشکل راستہ ہمارے سامنے ہوگا کیونکہ علی علیہ السلام کی جاوید کتاب دنیا کی نا ہمواری اور اس کی ناپائیداری کی بات کرتی ہے اور اس کے بارے میں کتابیں لکھی جانی چاہییں اور علی علیہ السلام کا طرز عمل ہمارے لئے سب سے بڑا سبق ہے تاکہ مال و دولت اور جاہ و مقام سے متأثر نہ ہو جائیں اور فرعون، ہامان اور قارون کے راستے پر نہ چلیں بلکہ علی علیہ السلام کی طرح زندگی گزاریں اور کہیں:اے دنیا!کسی اور کو دھوکہ دے میں تین بار(تین بار طلاق) تمہیں چھوڑ چکا ہوں کہ جس کے بعد رجوع کی کوئی گجائش نہیں۔

——————

مرکز افکار اسلامی کے شائع کردہ چند نہج البلاغہ

نہج البلاغہ اردو ترجمہ و حواشی
نہج البلاغہ اردو ترجمہ
نہج البلاغہ انگریزی ترجمہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button