مقالات

بعثت انبیاء علیہم السلام کے مقاصد نہج البلاغہ کی روشنی میں

تحریر: الشیخ دیدار علی اکبری المشہدی

آغاز سخن کلام مولا سے
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للّہ والصلاة والسلام علی رسول اللّہ وآلہ آل اللّہ۔امّا بعد:
امام الفصحاء والبلغاء، سید العرب والعجم، صاحب لواء رسول اللّٰہ، امام البررہ، قاتل الفجرہ، صاحب الرّایہ، مقیم الحجہ، اسد اللّٰہ، حجة اللّہ، ولی اللّٰہ، صفوة اللّٰہ، باب اللّٰہ، وجہ اللّہ، عین اللّٰہ، وارث علم رسول اللّٰہ، خلیفة اللّٰہ، منارالایمان، امام الولیاء حضرت علی مرتضیٰ روحی لہ الفداء فرماتے ہیں:

”فَإِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ لَمْ يَخْلُقْكُمْ عَبَثاً وَ لَمْ يَتْرُكْكُمْ سُدًى وَ لَمْ يَدَعْكُمْ فِي جَهَالَةٍ وَ لَا عَمًى۔۔۔۔ وَ اتَّخَذَ عَلَيْكُمُ الْحُجَّةَ وَ قَدَّمَ إِلَيْكُمْ بِالْوَعِيدِ وَ أَنْذَرَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذابٍ شَدِيدٍ“. (1)
بتحقیق اللہ سبحانہ نے تمہیں بے کار اور فضول پیدا نہیں کیا اور نہ اس نے تمہیں بے قید و بند جہالت و گمراہی میں کھلا چھوڑ دیا ہے۔۔۔ اور تم پر اپنی حجت پوری کر دی ہے اور پہلے سے ڈرا دھمکا دیا اور سامنے آنے والے سخت عذاب سے خبردار کردیا۔

دوسرے مقام پر فرمایا:
”لم یرسل النبیائ لعباً ولم ےُنزل الکتاب للعباد عبثاً۔۔۔“ (2)
ترجمہ: اور اس نے انبیاء علیہم السلام کو بطور تفریح نہیں بھیجا اور بندوں کیلئے کتابیں بے فائدہ نہیں اتاری ہیں۔

اور فرمایا:
”ولم یخل اللّہُ سبحانہ خلقہُ من نبیٍّ مُرسلٍ، و کتابٍ منزلٍ، و حُجّةٍ لازمةٍ، و محجّةٍ قائمةٍ: رُسُل لاتقصّرُبھم قلّةُ عددھم، و لاکژةُ المکذّبین لھم۔۔۔۔“۔ (3)
ترجمہ: اور اللہ سبحانہ نے اپنی مخلوق کو بغیر کسی فرستادہ پیغمبر یا آسمانی کتاب یا دلیل قطعی یا طریق روشن کے کبھی یوں ہی نہیں چھوڑا، ایسے رسول جنہیں تعداد کی کمی اور جھٹلانے والوں کی کثرت درماندہ و عاجز نہیں کرتی تھی۔۔۔۔۔

اب حقیر عرض پرواز ہے کہ ہمارا یہ مضمون ”بعثت انبیاء کے مقاصد“ کے عنوان سے مربوط ہے، یہ ایک مقدمہ اور ایک گفتار اور تین بنیادی محوروں پر مشتمل ہے اور ہر محور چند فصول پر مشتمل ہے۔

مقدمہ

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذات انسان کو اپنی دوسری مخلوق سے افضل و اشرف قرار دیا ہے، اس لئے کہ مخلوق کی دو قسمیں ہیں:

1۔ مخلوق ذی حیات
2۔ مخلوق فاقد حیات

اور یہ ایک بدیہی امر ہے کہ وہ مخلوق جو حیات کی نعمت سے سرفراز ہے وہ برتر ہے اس مخلوق سے جو نعمت حیات سے محروم ہے، وہ مخلوق جو نعمت حیات سے محروم ہے اسے جمادات کہا جاتا ہے۔ و ہ مخلوق جو واجد حیات ہے اس کی تین قسمیں ہیں:

1۔ نباتات
2۔حیوانات
3۔ انسان

نباتات کے بارے میں یہاں فقط اشارہ کافی ہے وہ یہ کہ نباتات کی تین خصوصیات ہیں:

1۔ خوراک: پانی، روشنی، ہوا اور خاک سے نباتات اپنی غذا اور خوراک حاصل کرتے ہیں اور طاقت و نیرو جذب کرلیتے ہیں۔
اپنی غذائیت کے طفیل نشوونما اور رشد پاتے ہیں۔
3۔ تولید مثل: نباتات تولید اور پیدائش مثل میں منفرد ہیں۔ گندم کے ایک دانہ کو لیجئے کہ وہ سات سو یا اس سے بھی زیادہ دانے پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح حیوانات مذکورہ تین خصوصیات کے علاوہ حس لذت و الم اور ایک جگہ سے دوسری جگہ انتقال کی توانائی اور قدرت بھی رکھتے ہیں۔

بہرحال حیوانات کی جمادات اورنباتات پربرتری ایک عیاں چیزہے۔ انسان کو حیوانات پر ظاہری شکل و شمائل والی برتری حاصل ہے۔ اس برتری کے علاوہ اللہ نے اسے نور عقل، فہم، فکر، نطق، قلم اور ارادہ جیسی بے مثال نعمتیں عطاء فرمائی ہیں ۔

انسان اسی نور عقل کی روشنی میں حقائق اشیاء اور ان میں موجود اسرار اور رموز کو درک کرنے کی صلاحیت اور قدرت رکھتا ہے۔ اس سے بالاتر کہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی نسبی معرفت پربھی قادر ہے۔

عقل بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کی اہمیت کو ہر عقل مند درک کرتا ہے۔ ہر مکتب میں اس کی ثناء کی جاتی ہے۔ اسلام نے اس کو معیار تکلیف قرار دیا ہے۔ اور عقل کی بدولت اساس دین ثابت ہوتا ہے۔ یہ اشیاء کے حسن و قبیح کو بھی درک کرتی ہے۔

امیرالمومنین امام علی بن ابی طالبؑ نے عقل و نطق کو انسان کی دو فضیلتیں قرار دیتے ہوئے فرمایا:

لل نسان فضیلتان عقل و منطق فبالعقل ےستفےْدُ و بالنُّطق ےُفیدُ۔ (4)
عقل و منطق انسان کیلئے دو فضیلتیں ہیں۔ پس انسان عقل کے ذریعے فائدہ حاصل کرتا ہے اور نطق و بیان کے ذریعہ دوسروں کو فائدہ دیتا ہے۔

حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب نے عقل کو بے مثال ثروت قرار دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ”نّغنی الغنیٰ العقل ُ“ (5)
یعنی سب سے بڑی ثروت عقل ہے

اور فرمایا: ”لاغنیٰ کالعقل“۔ (6)
ترجمہ: عقل سے بڑھ کر کوئی توانگری اور ثروت نہیں ہے۔

عقل اور حلم کے متعلق فرماتے ہیں :
”الحلم غطآء ساتر، والعقل حُسام قاطع فاسْتُرخلل خُلُقک بحلمک، و قاتلْ ھواک بعقْلک۔“ (7)
ترجمہ: حلم ڈھانکنے والا پردہ اور عقل کانٹے والی تلوار ہے پس انسان اپنے اخلاق کے کمزور پہلو کو حلم و بردباری سے چھپاؤ، اپنی عقل سے خواہش نفسانی کا مقابلہ کرو۔

کتنی عقل کافی ہے؟
اس سوال کا جواب میرے مولا علی روحی لہ الفداء نے ان الفاظ میں دیا ہے:
”کفاک من ْعقْلک ما وضح لک سُبُل غےّک منْ رُشْدک“۔ (8)
ترجمہ: اتنی عقل تمہارے لئے کافی ہے کہ جو گمراہی کی راہوں کو ہدایت کے راستوں سے الگ کرکے تمہیں دکھا دے۔

ہاں یقیناً عقل سے بڑھ کر کوئی مال سود مند نہیں ہے اسی وجہ سے میرے مولا علی نے: ”لا مال عْودُ من العقل“۔ (9) فرمایا۔
لیکن جب بھی عقل سو جائے تو کیا کرنا چاہیے؟

حضرت علی بن ابی طالبؑ اس حقیقت سے ان الفاظ کے ذریعہ پردہ اٹھاتے ہیں:
”نعوذُ باللّہ منْ سُبات العقل“۔ (10 )
ترجمہ: ہم عقل کے خواب غفلت میں پڑ جانے سے خدا کے دامن میں پناہ لیتے ہیں۔

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ عقل بھی سو جاتی ہے اور جب عقل کی یہ صورتحال ہو تو اس وقت اسے خواب غفلت سے بیدار کرنے کیلئے ظاہری حجت خدا کا ہونا ضروری ہے۔ اور اسی طرح جب عقل خواہش نفسانی کے ماتحت ہو جائے تو بھی اسے ایک تذکر دینے والے کی ضرورت ہے۔
بہر حال حقائق کائنات کو تین چیزوں کے ذریعہ پہچانا جا سکتاہے، وہ یہ ہیں:

1۔ حس
2۔ عقل
3۔ وحی

بحکم عقل اللہ تعالیٰ کوئی فعل قبیح انجام نہیں دیتا اور اس کی ذات فعل لغو اور عبث انجام دینے سے ُمبرّا و منزہ ہے اور اس کے ہر فعل میں ضرور حکمت ہوتی ہے۔ چاہے انسان اس کو درک نہ کرے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی خلقت میں کون سی حکمت ہے؟ انسان کو کس مقصد کیلئے پیدا کیا گیا ہے؟
اسلامی نصوص میں اس خلقت کے مقصد کو مختلف الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ لیکن ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے اس لئے کہ ہر ایک کو ایک خاص جہت کے پیش نظر بیان کیا گیا ہے۔

قرآن میں جن و انس کی خلقت کا مقصد اللہ کی عبادت قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہو رہا ہے:

و ما خلقْتُ الجنّ والانس لاّ لےعبُدون (11)
ترجمہ: اور میں نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا سوائے اس کے کہ وہ میری عبادت کریں۔

حضرت امیر المومنین روحی لہ الفداء نے بھی یہی مقصد ان الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا ہے: ”الذی خلق الخلق لعبادتہ“ (12)
پس جب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ انسان کو عبث و لغو خلق نہیں کیا گیا بلکہ اسے اللہ کی عبادت کیلئے خلق کیا گیا ہے۔ تو اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس عبادت کا طریقہ کیا ہے؟ اللہ کی عبادت کس طرح کی جائے؟

کیا عقل اس عبادت خدا کے طریقہ اور اس کی کیفیت کو درک کر سکتی ہے؟
ہر گز نہیں عقل میں اتنی مجال کہاں کہ وہ کیفیت عبادت کو بیان کرے، عقل صرف وجوب شکر منعم کا حکم لگا سکتی ہے اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کہہ سکتی۔ عقل تو حقیقت عالم آخرت کو بیان کرنے سے عاجز ہے۔ عقل تو کیفیت ثواب و عقاب کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔

عقل عالم آخرت کے دوسرے تمام حالات بیان کرنے سے ناتواں ہے۔ پس کیفیت عبادت بھی اللہ تعالیٰ ہی اپنی حجج کے ذریعہ بیان فرماتا ہے لٰہذا یہاں اصل وجوب بعثت انبیاء علیہم السلام بھی ثابت ہو رہا ہے۔ اس کی قدرے تفصیلی بحث ایک مستقل عنوان ”گفتار“ کے ضمن میں کی جائے گی۔

یہاں بہت زیادہ سوالات پیدا ہو رہے ہیں ان سب کا جواب فقط ایک کلمہ”نہیں“ ہے۔
کیا عقل اللہ کی رضا اور اس کی ناراضگی کے مقامات کو بیان کرنے میں مستقل ہے؟
کیا عقل راہ سعادت طے کرنے میں مستقل ہے؟
کیا عقل ہدایت کو ضلالت سے اور سعادت کو شقاوت سے اور خیر کو شر سے اور فضیلت کو زذیلت سے اور کمال کو نقص سے، مدح و ثناء کو تملق و چاپلوسی سے، فراست و ذکاوت کو شیطنت سے، شقاوت کو ہلاکت سے، عفت کو آلودگی سے اور وفا کو جفا سے اور شکران نعمت کو کفران نعمت سے اور انصاف کو بے انصافی سے تشخیص دینے میں مستقل ہے؟

پس جب عقل مذکورہ امور اور اسی طرح کے دوسرے امور میں مستقل نہیں ہے تو یقیناً اسے ایک مددگار کی ضرورت ہے چاہے وہ نبی ہو یا امام معصوم؛
لہذا براھمہ کا بعثت انبیاء کو لغو سمجھنا غلط ثابت ہوا۔

ہمارے اس مضمون کا اصلی ہدف اس طرح کے خیال باطل کو براہین قطعیہ سے مردود قرار دینا ہے۔

ان شاء اللہ ہم اس قول یا زعم بے جا کے رخ سے نقاب ہٹا کر پورے عالم کو حق و حقیقت سے آشنا کریں گے۔

گفتار

ہماری یہ گفتار دلائل وجوب بعثت انبیاء علیہم السلام پر مشتمل ہے۔ علماء اور بزرگان دین نے وجوب بعثت انبیاء علیہم السلام پر کافی عقلی دلائل ذکر کیے ہیں لیکن ہم اختصار کے پیش نظر فقط تین ادلہ پر اکتفا کرتے ہیں۔

پہلی دلیل:
قاعدہ لطف مقتضی ارسال رسل و بعثت انبیاءؑ ہے، اس لئے کہ نبیؑ بندگان خدا کو اللہ کی اطاعت کے قریب اور انہیں معصیت پروردگار سے دور کرتا ہے۔ اس لئے کہ خلقت انسان کا مقصد معرفت اور عبادت ہے اور یہ مقصد موقوف ہے اس پر کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان ایک ایسا واسطہ ہو جو انہیں معرفت اور عبادت خدا کی تعلیم دے۔ کیونکہ افاضہ اور استفاضہ بغیر واسطہ کے محال ہے۔ اور یہ اس لیے کہ نور اور ظلمت کے درمیان کوئی واسطہ اور نسبت نہیں ہے۔ پس بحکم عقل خالق و مخلوق کے درمیان ایک واسطہ کا ہونا ضروری ہے۔

دوسری دلیل:
عدل الٰہی کی اقتضا یہ ہے کہ فرمانبرداروں اور نیکو کاروں کو اجر جزیل اور نافرمانوں اور فاسقوں کو عذاب شدید دینا چاہیے لہذا ضروری کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی حجت تمام کرے اور ان کے عذر کو قطع کر دے اور یہ ارسال رسل، و انزال کتب اور نصب ائمہ اور تبیین حلال و حرام کے علاوہ ممکن نہیں ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد رب العزت ہے: و ما کُنّا مُعذّبین حتی نبعث رسولاً۔ ( 13 )
ترجمہ: اور جب تک ہم کسی رسول کو مبعوث نہ کریں عذاب دینے والے نہیں ہیں۔

لیہْلک منْ ہلک عنْ بیّنةٍ ویحْیا منْ حیّ عنْ بیّنةٍ (14)
ترجمہ: تاکہ ہلاک ہونے والا واضح دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور زندہ رہنے والا واضح دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔

قُلْ فللّہ الْحُجّةُ الْبالغةُ فلوْ شائ لہداکُمْ آجْمعین۔ (15 )
ترجمہ: کہہ دیجئے اللہ کیلئے حجت بالغہ ہے، پس اگر وہ چاہتا تو تم سب کو (جبری طور پر) ہدایت کرتا۔

تیسری دلیل:
انسان مدنی الطبع ہے، یعنی ضروریات زندگی کے پورا کرنے میں بنی نوع کے تعاون کا محتاج ہے۔
ضروریات زندگی کی فراہمی کیلئے اسے اجتماع کی ضرورت ہے، اجتماعی زندگی کیلئے ایک ایسے قانون کا ہونا واجب ہے جو انسان کے تمام طبقات کے حقوق کا محافظ ہو اور ایک دوسرے پر تعدی و تجاوز، ظلم و ستم سے منع کرے۔ اور عقل انسان مصالح و مفاسد امور کی تمام جہتوں کو درک کرنے سے عاجز ہے اور عقل ایسے قانون بنائے جو انسان کی دنیاوی اور اخروی سعادت کا ضامن ہو اور ایسے قانون پر پابندی کو عمل کرنے کیلئے مکلف قرار دے اور یقینا ایسے قانون کا ابلاغ کرنا اور اسے نافذ کرنا بعثت انبیاء علیہم السلام کے علاوہ ممکن نہیں ہے۔

محور اول: انسان

انسان اور اس میں موجود صلاحیتوں اور اس کے ابزار کا صحیح تعارف کروانا اور اس کی مدد کرنا انبیاء علیہم السلام کی ذمہ داری ہے۔
یہ محور چند فصول پر مشتمل ہے:

پہلی فصل: الٰہی عہد و پیمان کی یاد دہانی کرنا۔ (فطرت کو بیدار کرنا)
حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی نظر میں انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد اور ہدف فطری اور الہی عہد وپیمان کی یاد دہانی کرنا ہے۔ ا س سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں:

”واصطفیٰ سبحانہ من ولدہ انبیاء خذ علی الوحی میشاقھم، و علی تبلیغ الرسالة امانتھم۔۔۔۔ فبعث فیھم رسلہ و و ترلیھم نبیاء ہ، یست دوا میثاق فطرتہ۔“ (16)
ترجمہ: اور اللہ سبحانہ نے اس (آدمؑ) کی اولاد سے بعض کو بعنوان انبیاءؑ چن لیا، وحی پر ان سے عہد اکید لیا اور تبلیغ رسالتؐ کا انہیں امیں بنایا۔۔۔۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان میں سے اپنے رسولوں کو بھیجا اور مسلسل ایک دوسرے کے پیچھے انبیاءؑ بھیجے تاکہ ان سے اللہ کی فطرت کے عہد و پیمان پورا کرنے کو طلب کریں اور چاہیں۔
مختصر تشریح: بحکم عقل اللہ تعالیٰ حکیم ہے اس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا اور وہ فعل لغو اور عبث انجام نہیں دیتا۔

اللہ تعالیٰ نے انسان ذات کی رہنمائی کیلئے انبیاءؑ بھیجے۔ پس تمام انسانوں کو صراط مستقیم اور راہ حق و حقیقت کی طرف رہنمائی فرماتے رہے۔ اور احسن طریقہ سے اپنی تبلغ رسالت والی ذمہ داری نبھائی۔

فطرت لغت کے لحاظ سے ایک قسم کی خلقت اور سرشت کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے:
”فقمْ وجْہک للدّین حنیفًا فطْرة اﷲ الّتی فطر النّاس علیْہا لاتبْدیل لخلْق اﷲ ذلک الدّینُ الْقیّم۔“ (17)
ترجمہ: تم باطل سے کترا کر اپنا رخ دین کی طرف کیے رہو، یہی خدا کی خلقت و بناوٹ ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، خدا کی (درست کی ہوئی) بناوٹ میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ یہی مضبوط اور سیدھا دین ہے۔

انسان فطری طور پر دین دار ہے اور ہر بچہ فطرت توحید اور فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن سوسائٹی، تربیت اور دوسرے مختلف عوامل کی وجہ سے اس فطرت کا نور کم یا وہ بالکل بجھ جاتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں وہ انسان اپنے فطری راستے سے منحرف ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس نور فطرت کو روشن رکھنے کیلئے بندوبست فرمایا ہے۔ لہٰذا انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے منجملہ مقاصد میں سے ایک اسی نور فطرت کی حفاظت اور نگہبانی ہے تاکہ یہ نور فطرت مکمل طور پرنہ بجھ جائے۔

”کل مولودٍ یولد علی الفطرة حتی یکون بواہ یھودانہ اوینصرانہ“ ( 18)
ترجمہ: ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔

پس اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو اس لئے بھیجا تاکہ وہ لوگوں سے میثاق فطرت طلب کریں۔
علامہ حبیب اللہ خوئی اسی جملہ”یستدوا میثاق فطرتہ“ کی شرح میں لکھتے ہیں:
”المراد من میثاق الفطرة ہو التوحید والنبوة والولایة“ (19)
اس مطلب کو ثابت کرنے کیلئے انہوں نے تین روایات کو بعنوان شاہد ذکر کیا ہے۔ ہم اختصار کے پیش نظر فقط اور فقط ایک روایت کو تیمناً و تبرکاً کتاب”التوحید“ سے ذکر کرتے ہیں:
”عن عبدالرحمن بن کثیر مولی بی عبداللہ فی قول اللہ عزوجل: فطرت اللہ التی فطرالناس علیھا قال: التوحید و محمد رسول اللہ وعلی امیرالمؤمنین“۔ (20)
حضرت امام صادق علیہ السلام کا غلام عبدالرحمن کہتا ہے کہ ابو عبداللہ امام صادق علیہ السلام سے اسی آیت کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اس فطرت سے مراد توحید اور حضرت محمد ﷺ کی نبوت و رسالت اور علیؑ کی امارت و امامت ہے۔
نوٹ: التوحید (12) میں مرحوم صدوق نے اسی باب میں ٹوٹل دس روایات ذکر کی ہیں۔
خواہشمند حضرات مزید تفصیل کیلئے مذکورہ کتاب کی جانب رجوع فرمائیں۔

دوسری فصل: عقل کی شکوفائی یا عقل کی پوشیدہ صلاحیتوں کو ابھارنا

حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب ”روحی لہ الفداء“ نے بعثت انبیاء علیہم السلام کا ایک مقصد عقل کی شکوفائی یا عقل کی مخفی صلاحتوں کو ابھارنا قرار دیا ہے۔ آپ اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
و یثی روا لھم دفائن العقول (22)
ترجمہ: اور تاکہ وہ لوگوں کیلئے عقل کے دفینوں کو ابھاریں۔
مختصر تشریح: بیشک عقل بڑی نعمت ہے۔ اسلام میں عقل کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس کے متعلق کچھ مقدمہ میں عرض کیا گیا ہے لیکن ہم یہاں فضیلت عقل سے بحث نہیں کرنا چاہتے لیکن اتنا ضرور عرض کریں گے کہ عقل بھی اللہ کی جانب سے حجت ہے اور اسے حجت باطنی کہا جاتا ہے۔
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں:
”ن للّہ علی الناس حجتین حجة ظاہرة و حجة باطنة اما الظاھرة فا لانبیاء والرسل والائمة و ما الباطنة فالعقول“ (23)
ترجمہ: اللہ کیلئے لوگوں پر دو حجتیں ہیں: ظاہری اور باطنی حجت، رہا مسلہ حجت ظاہری کا تو وہ انبیاء، رسول اور ائمہ ہیں اورحجت باطنی عقول ہیں۔

کسی بھی پیغمبر کو اس لئے نہیں بھیجا گیا کہ وہ لوگوں سے کہے کہ یعنی اپنی عقلوں کو پہلے مرخص کردو پھر میرا اتباع کرو۔

یہی عقل ہے جو اس حقیقت کو درک کرتی ہے کہ ہر معلول کے لئے علت کا ہونا ضروری ہے اور ہر حادث کیلئے محدث کا ہونا لازمی ہے۔ اور ہر سبب کیلئے مسبب کا ہونا واجب ہے۔ بہرحال یہ ایک قانون ہے جسے بدیہی طور پر عقل درک کرتی ہے۔ اور اس سے وجود خدا کو ثابت کیا جاتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام ہمیشہ لوگوں کی عقلوں کو ابھارتے رہے اور لوگوں کو یہ حکم دیتے رہے کہ ”فکرو ا فی خلق السموات و الارض، فکر وا فی نفسکم، فکر و ا فی مخلوقات اللہ وفی ترکیبھا، ودقة صُنعھا۔۔۔ فکروا بعقو لکم“۔

حقائق عالم کو جن چیزوں کے ساتھ درک کیا جاتا ہے ان میں سے ایک عقل ہے جیسا کہ یہ مطلب مقدمہ میں گزر چکا ہے۔

بہرحال عقل میں کافی صلاحتیں موجود ہیں لیکن تنہا عقل کافی نہیں ہے اس لئے کہ عقل کی سرحد محدود ہے۔ وہ اپنی سرحد سے باہر نکلنے کی جرائت نہیں کرتی اور اپنی سرحد کے باہر کوئی سرگرمی نہیں دکھا سکتی اور حس بھی عالم محسوس تک محدود ہے اور یہ دونوں دھوکا کھا جاتی ہیں اور اشتباہ کرتی ہیں۔ اور خواب غفلت مین سو جاتی ہیں۔ لہذا جب یہ دونوں نفس کے تابع ہوں یا اشبتاہ کرنے لگ جائیں، یا خواب غفلت میں سو جا ئیں تو ایک مذکر (تذکر دینے والا) کی ضرورت ہے۔ اور حجت ظاہری آکر اسے ہوائے نفس کی زنجیر سے آزادی دلا سکتی ہے اور اللہ کی عبادت اور اطاعت کی جانب دعوت دے کر اسے پرستش شیطان اور اس کی پیروی اور بتوں کی پوجا سے نجات دینے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ اور وہ ظاہری حجت نبی، رسول اور امام ہی ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اس بے مثال فرمان کے ذریعہ سے استقلال عقل کی نفی فرمائی ہے اور اسے ایک رہنما کا محتاج قرار دیا ہے۔ حضرت امیرالمومنین امام علی روحی لہ الفداء نے اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ عقل نفسانی خواہش کی غلامی بھی اختیار کر لیتی ہے آپ اس حقیقت کو ان الفاظ کے ساتھ بیان فرماتے ہیں:
”کم من عقل سیر تحت ھوی میرٍ“۔ ( 24 )
ترجمہ: بہت سی غلام عقلیں ہوا و ہوس کی فرمانروائی میں دبی ہوئیں ہیں۔

ظاہری بات ہے کہ جب عقل پر ہوائے نفس غالب آجائے تو اس وقت عقل کو اس غلامی سے رہائی کیلئے ایک منجی اور مذکر کی ضرورت ہے جو آکر اس غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر عقل کو ایک نئی زندگی عطا کرے۔ پس عقل کافی نہیں ہے۔

عقل میں موجود مخفی اور پوشیدہ صلاحیتیں بہت ہوتی ہیں اور وہ تمام صلاحیتیں بالقوۃ موجود ہیں ان کو قوت سے فعلیت تک پہنچانے کیلئے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا گیا یعنی بعثت انبیاء کا ایک مقصد انسانی عقلوں میں بالقوۃ صلاحیتوں کو بالفعل میں تبدیل کرنا ہے۔

لہٰذا عقل تمام امور میں مستقل نہیں ہے اس لئے کہ اس کی بالقوة صلاحیتوں کو بالفعل میں تبدیل کرنے کیلئے ایک ہادی اور رہنما کی ضرورت ہے۔

تیسری فصل: بھولی ہوئی نعمتوں کو یاد دلانا

بے شک اللہ تعالیٰ انسانوں کو لامحدود نعمتوں سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو انسان ہرگز شمار نہیں کر سکتا کیونکہ خود ارشاد خداوند متعال ہے کہ: ”انْ تعُدُّوا نعْمة اﷲ لاتُحْصُوہا“ (25)
ترجمہ: اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہ کرسکو گے۔

بہر حال اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہر وہ نعمت عطا فرمائی ہے جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ انسان شکر نعمت کے بجائے کفران نعمت کرتا ہے۔ اور اس دنیا میں اتنا تو مست ہو جاتا ہے کہ اپنے خالق کی عطا کردہ نعمتوں کو بھی بھول جاتا ہے۔ جب وہ بھول جائے تو اللہ اسے یاد دلانے کا بندوبست بعثت انبیاءؑ کے ذریعے کرتا ہے۔ اور یہی بعثت انبیاءؑ کا ایک ہدف میرے مولا نے بھی قرار دیا ہے آپ فرماتے ہیں:

”و یذکر وھم منسی نعمتہ“۔ (26)
ترجمہ: اور تاکہ وہ اللہ کی بھولی ہوئی نعمتیں یاد دلائیں۔
مختصر تشریح: جیساکہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ انسان ہرگز اللہ کی نعمتوں کو شمار نہیں کرسکتا بھلا نعمت ہدایت سے بڑھ کر کوئی نعمت ہو سکتی ہے؟

قرآن کریم کی متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرنے کا حکم ہوا ہے۔

ارشاد ہو رہا ہے: واذْکُرُوا نعْمة اﷲ علیْکُمْ۔۔۔۔۔ (27)
اور اللہ تعالیٰ نے شکر نعمت کا حکم بھی خود قرآن میں ان الفاظ کے ساتھ دیا ہے:

واشْکُرُوا نعْمة اﷲ نْ کُنْتُمْ یّاہُ تعْبُدُون (28)
ترجمہ: اور اللہ کی نعمت کا شکر کر و اگرتم فقط اس کی عبادت کرتے ہو۔

ہمارے رسول حضرت محمد ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی نعمت بیان کرنے کا دستور ان الفاظ کے ساتھ ہوا:
”ومّا بنعْمة ربّک فحدّثْ“۔ (29)
ترجمہ: اور تو اپنے رب کی نعمت کو بیان کر۔

اور جب ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے حکم خدا سے اپنے خلفاء کا تعارف کروایا اور اپنا سب سے پہلا خلیفہ حضرت امیرالمومنین امام علی بن ابی طالب کو قرار دیا یعنی غدیر میں نبی اکرم ﷺ نے اللہ کی سب سے بڑی نعمت کا تعارف کروایا اور سب کو اس نعمت عظمیٰ کی تعظیم و تکریم کی غرض سے مبارک باد دینے کا حکم دیا تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی:

”الْیوْم کْملْتُ لکُمْ دینکُمْ وتْممْتُ علیْکُمْ نعْمتی۔۔۔“۔ ( 30)
آج میں نے تمہارے لئے تمہار دین کامل کر دیا اوراپنی نعمت تم پر پوری کردی۔

بہرحال حضرت خاتم الانبیاء ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت عظمیٰ کے بارے میں بڑی وصیتیں اور سفارشیں کیں لیکن امت نے ان تمام نصیحتوں، وصیتوں اور سفارشوں کو اس طرح بھلا دیا گویا کہ آنحضرت ﷺ نے کچھ فرمایا ہی نہیں تھا۔

خاص مطلب یہ ہے کہ بعثت انبیاءؑ کے مقاصد میں سے ایک مقصد اللہ کی نعمتوں کی یاد دہانی ہے جو فراموش کی جا چکی ہیں اور ہمارے رسول ﷺ نے بھی ہر جگہ ان نعمتوں کو متعارف کروایا اور ان کے بارے میں تذکر دیتے رہے اور یاد دلاتے رہے۔

علامہ حبیب اللہ خوئی نے اس جملہ (و یذکر و ھم منسیی نعمتہ) میں دو احتمال ذکر کیے ہیں:

1۔ وہ نعمت ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کو عالم ذر اور میثاق میں بطور احسان عطا عطا فرمایا ہے۔
2۔ تمام وہ نعمتیں جن سے غفلت برتی گئی ہے اور انہیں فراموش کیا گیا ہے۔

ان دو احتمالوں میں سے احتمال اوّل کو قوی اور راجح قرار دیتے ہیں۔ ان کی نص عبارت یہ ہے: ”ما لنعمة التی من بھاعلی العباد فی عالم الذرّ و المیثاق حسبا مرّ، و جمیع النعم المغفول عنھا، والاول ھو الظاھر نظرا ً لی ظاھر لفظ النسیان“۔ (31)

چوتھی فصل: شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا

حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی نظر میں مقاصد بعثت انبیاء علیہم السلام میں سے ایک مقصد اور ہدف شکوک اور شبہات کا ازالہ کرنا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

”اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ رسولہ بالدین المشھور۔۔۔۔۔ زاحةً للشبھات“۔ (32)
ترجمہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس (اللہ) کے عبد اور رسول ہیں جنہیں مشہور و معروف دین کے ساتھ بھیجا تاکہ شکوک و شبہات کا ازالہ کیا جائے

پانچویں فصل: ایفائے عہد اورگمراہی و جہالت سے نجات

امام فصاحت و بلاغت، حامل اسرار الھیہ، وارث علوم انبیاء علی علیہ آلاف التحیات والثناء اس سلسلہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

”لی ن بعث اللّہ محمد رسول اللّہ ﷺ لنجاز عدتہ واتمام نُبوّتہ، م خوذاً علی النبیین میثاقہ، مشھورةً سماتُہ، کریما ً میلادہ، وھل ال رض یومئذٍ ملل متفرقة و ھوائ منتشرة، وطرائق متشتة بین مشبة للّہ بخلقہ، و ملحدٍ فی سمہ، ومشیرٍ لی غیرہ، فھداھم بہ من الضلالة، ونقذھم بمکانہ من الجھالة“۔ (35)
ترجمہ: یہاں تک کہ اللہ نے اپنے رسول محمد ﷺ کو ایفائے عہد و اتمام نبوت کیلئے مبعوث فرمایا۔ جن کے متعلق انبیاء سے عہد و پیمان لیا جا چکا تھا، جس کی نشانیاں مشہور و معروف تھیں۔ اور محل ولادت مبارک و مسعود تھا، اس وقت زمین پر بسنے والوں کے مسلک جدا جدا خواہشیں متفرق اور راہیں الگ الگ تھیں یوں کہ کچھ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دیتے اور کچھ ان کے ناموں کو بگاڑ دیتے اور بعض اسے چھوڑ کر اوروں کی طرف اشارہ کرتے تھے۔

اللہ نے آپؐ کی وجہ سے انہیں گمراہی سے ہدایت کی راہ پر لگایا اور آپ کے وجود سے انہیں جہالت سے نجات دی۔

مختصر تشریح: اللہ تبارک و تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کیلئے انبیاءؑ کو مسلسل اور ایک دوسرے کے پیچھے بھیجتا رہا اور ان تمام انبیاء علیہم السلام سے حضرت محمد ﷺ کی نبوت و رسالت کا عہد و پیمان لیتارہا اور ان سے یہ وعدہ کیا کہ لوگوں کو راہ حق و حقیقت اور صراط مستقیم کی ہدایت کیلئے اسے آخر میں بھیجوں گا۔

بہر حال اللہ نے مؤمنین پرحضرت محمد ﷺ کو بعنوان رسول اور خاتم النبیین بھیجا اور اپنا وعدہ پورا فرمایا۔ قرآن میں ارشاد ہے: ”لقدْ منّ اﷲُ علی الْمُؤْمنین ذْ بعث فیہمْ رسُولًا منْ نْفُسہمْ یتْلُوا علیْہمْ آیاتہ ویُزکّیہمْ ویُعلّمُہُمْ الْکتاب والْحکْمة ونْ کانُوا منْ قبْلُ لفی ضلالٍ مُبین“۔ (36)

رسول اللہ ﷺ کی علامات گزشتہ آسمانی کتب میں مرقوم تھیں: ”الّذین یتّبعُون الرّسُول النّبیّ الُْمّیّ الّذی یجدُونہُ مکْتُوبًا عنْدہُمْ فی التّوْراة والْنجیل“۔ (37)

اہل کتاب نبی اکرم ﷺ کو اپنے بیٹوں کی طرح جانتے اور پہنچانتے تھے۔ ”الّذین آتیْناہُمْ الْکتاب یعْرفُونہُ کما یعْرفُون بْنائہُمْ“۔ (38) بہرحال آنحضرت ﷺ کے وجود سے اللہ لوگوں کو ظلم و جہل، کفر و شرک اور گمراہی سے نجات عطا فرمائی اور نور ایمان و معرفت سے سرفراز فرمایا۔

محور دوم: دنیا

دنیا انسان کے لئے عارضی گھر ہے اس گھر سے آگاہ کرنا اور اسکی حقیقت کو عیاں کرنا اور اس کے نقصانات وغیرہ سے باخبر کرنا انبیاءؑ کا کام ہے۔
محور چند فصل پر مشتمل ہے:

پہلی فصل: دنیا کی حقیقت کو بے نقاب کرنا

صاحب علم لدنی حضرت علی ابن ابی طالب روحی لہ الفداء نے بعثت انبیاءؑ کا ایک مقصد ”کشف الغطا ء عن الدنیا” قرار دیا ہے چنانچہ فرمایا:

”و ھو الذی اسکن الدنیا خلقہ و بعث الی الجن و الانس رسلہ لیکشفوا لھم عن غطائھا“۔ (39)
تر جمہ: اور وہ اللہ جس نے دنیا میں اپنی مخلوق کو ٹہرایا اور آباد کیا اور اپنے رسولوں کو جن و انس کی جانب مبعوث کیا تا کہ وہ ان کیلئے دنیا سے پر دہ اٹھائیں ۔
مختصر تشریح: سید الموحدین حضرت علی علیہ السلام نے مذکورہ تین جملوں سے قبل اللہ تعالیٰ کی صفات بیان فرمائی ہیں جن میں سے دو کا تعلق صفات جلال سے ہے وہ یہ ہیں:

1۔ نفی رؤیت حسیّ
2۔ نفی تعب و الم

یہ دونوں ممکن الوجود کی صفات ہیں اور اللہ ان صفات سے منزہ اور مبری ہے اللہ تعالی لا محدود ہے اور اگر فرض کیا جائے کہ آنکھ سے دکھائی دیتا ہے تو یقیناً محدود ہو جائے گا۔ اگر رؤیت حسی کو قبول کیا جائے تو اللہ کے لئے جسم ماننا پڑے گا اور اللہ تعالیٰ جسم و جسمانیت سے مقدس اور مبری ہے۔

اور اسی طرح رنج و الم بھی ممکن الوجود کی خاصیت ہے اور اگر اسے اللہ کیلئے قبول کیا جائے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کیلئے جسم ماننا پڑے گا وللّہُ تعالٰی عن ذالک علواّ کبیرا۔ باقی کا تعلق صفات جمال سے ہے۔
چونکہ اللہ نے دنیا میں اپنی مخلوق کو آباد فرمایا اور ان کی ہدایت کا بندوبست کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی دو طرح سے ہدایت فرمائی:

1۔ ہدایت تکوینی
2۔ ہدایت تشریعی

ہدایت تکوینی:
جبلی و فطری ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہدایت تشریعی کیلئے ارسال رسل، انزال کتب، نصب آئمہ علیھم السلام کا بندوبست فرمایا ہے۔ ہدایت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کی ہے چنانچہ یہ مطلب آیہ ذیل سے واضح ہے بہرحال جب حضرت موسیٰ سے فرعون ملعون نے سوال کیا کہ تم دونوں کا پروردگار کون ہے؟ تو فرمایا: ”ربُّنا الّذی عْطی کُلّ شیْئٍ خلْقہُ ثُمّ ہدی“۔ (40)
ترجمہ: ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت عطا کی پھر ہدایت دی۔

حضرت امیرالمومنین روحی و ارواح العالمین لہ الفداء، بعثت انبیاءؑ کے متعلق فرماتے ہیں ”بعث الی الجن و الانس ر سلہ“۔ (41)
تر جمہ: اس اللہ نے جن و انس کی طرف اپنے رسولوں کو بھیجا۔

اس بعثت کا مقصد کیا تھا؟
میرے مولا سید الموحدین علی ابن ابی طالبؑ نے اس بعثت کا مقصد اور ہدف یہ بیان فرمایا ہے۔
”لیکشفوا لھم عن غطائھا“۔
تر جمہ: تاکہ وہ انسانوں کیلئے دنیا سے پردہ اٹھائیں۔

یہ لام تعلیل ہے اسکے بعد ان مقدر ہے جو فعل مضارع کو نصب دے رہا ہے اور یہ فعل جمع مذکر غائب ہے۔ لھم، میں ”ھم“ کی ضمیر جن و انس کی طرف لوٹ رہی ہے اور یہ ضمیر مجرور متصل ہے اور غطائھا میں ضمیر مجرور متصل جو کہ مونث کی ضمیر ہے اسکا مرجع، الدنیا، ہے جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے اور دنیا مؤنث مجازی ہے۔

بہرحال انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کیا تاکہ دنیا کی حقیقت کو آشکار کریں لوگوں کو دنیا کا حقیقی اور صحیح تعارف کروائیں اور دنیا سے پردہ اور غطاء اٹھائیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ دنیا کو ہدف نہیں سمجھیں گے بلکہ اسے ابدی زندگی کیلئے وسیلہ قرار دیں گے اور ”الدنیا مزرعة الآخرة“ کا مقصد بھی یہی ہے کہ دنیا ہدف نہیں ذریعہ ہے ابدی زندگی کیلئے اس حقیقت کو میرے آقا اور مولا امیرالمومنین علیہ السلام نے ان الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا ہے:
”و اعلم یا بنی نک انما خلقت للآخرة لا للدنیا و للفناء لا للبقاء، وللموت،لا للحیاة،و انک فی قلعة و دار بلغة، و طریق الی الآخرة“۔ (43)
ترجمہ: اے فرزند، جان لو کہ تجھے فقط اور فقط آخرت کیلئے پیدا کیا گیا ہے نہ کہ دنیا کیلئے۔ تم فناء کیلئے خلق کیے گئے ہو نہ دنیا میں ہمیشہ رہنے کیلئے، موت کیلئے نہ دنیا میں دائمی زند گی کیلئے اور با تحقیق تو ایک ایسی منزل میں کہ ہر لحظہ ممکن ہے و ہاں سے کوچ کرے اور تم ایک ایسے گھر میں ہو جو آخرت کا ساز و سامان مہیا کرنے کیلئے اور آخرت کی گز رگاہ ہے۔

واضح ہونا چاہئے کہ انما حصر کیلئے ہے اس کلمہ حصر کو استعمال کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اے انسان تجھے صرف اور صرف آخرت کی دائمی زندگی کیلئے خلق کیا گیا ہے اور یہ دنیا آخرت کا را ستہ ہے ”فخذ وا من ممرکم لمقرکم“ (44) اپنی گزرگاہ سے مقر دائمی کیلئے لے جاؤ۔

دو سری فصل: دنیا کے مضرات سے لوگوں کو ڈرانا

اس خطبہ میں بعثت انبیاءؑ کا دوسرا مقصد دنیا کے مضرات سے لو گوں کو ڈرانا دھمکانا ہے۔
امیر المومنین امام علی علیہ السلام اس مقصد کو اپنے ان نورانی الفاظ کے ساتھ واضح فرما رہے ہیں: ”و لیحذرو ھم من ضرائھا“۔ (45)
تر جمہ: اور اسکے مضرات اور نقصانات سے لوگوں کو ڈرائیں دھمکائیں۔
مختصر تشریح: ”ضرائھا“ کی ضمیر دنیا کی طرف لوٹ رہی ہے اور الضرائ لغت میں شدت کے معنی میں ہے انسان اس دنیا میں مال و متاع، مقام و منصب، اور کرسی و اقتدار کی وجہ سے زمین خدا پر اکڑ کر چلتا ہے اور غرور کی وجہ سے سرحد اخلاق سے گزر جاتا ہے اور خود کو سب سے اعلیٰ و افضل سمجھتا ہے دوسروں کو گری ہوئی نظروں سے دیکھتا ہے اور اس بیچارے انسان کا خیال ہوتا ہے کہ ہمیشہ اس دنیا میں اسی طرح رہنا ہے لیکن اچانک حالات اسے بھکاری بنا دیتے ہیں اور ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب یہ دنیا کی ہر چیز یہیں چھوڑ کر اپنے اعمال کو لیے ہوئے چلا جاتا ہے۔

بہرحال انسان جب سب چیز دنیا کے مال و متاع کو تصور کرنے لگے تو اس صورت میں ایک ایسے معصوم شخص کا ہونا ضروری ہے جو دنیا کے مضرات سے آگاہ کرے اور اس کے نقصانات سے ڈرائے اس لئے کہ جب تک کسی چیز کے نقصانات سے انسان آگاہ نہ ہو تب تک اس سے پرہیز بھی نہیں کرے گا عاقل انسان ضرر متحمل سے پرہیز کرتا ہے اور دفع ضرر محتمل عقلاً واجب ہے اور ضرر یقینی کا دفع بدرجہ اولیٰ واجب اور ضروری ہے۔

تیسری فصل: دنیا کی بے و فائی کی مثالیں بیان کرنا

سید الفصحاء و البلغاء، ابو طالب علیہ السلام کے عظیم فرزند حضرت علی ”رو حی لہ الفداء“ نے بعثت انبیاء علیہم السلام کا ایک مقصد دنیا کی بے وفائی کی مثالیں بیان کرنا قرار دیا ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں: ”و لیضر بوا لھم امثالھا“ اور تاکہ وہ لوگوں کیلئے دنیا کی مثالیں بیان کریں۔

مختصر و ضاحت

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں ضرب المثل کو استعمال فرمایا ہے اور اس مسئلہ کو قرآن کریم میں بے انتہاء اہمیت حاصل ہے حتیٰ کہ فرمایا:

”انّ اللّٰہ لایسْتحْیی انْ یضْرب مثلًا ما بعُوضةً فما فوْقہا“ (47)
اور اللہ تبارک و تعالی نے دنیوی زندگی کو پانی کے مثل قرار دیا ہے جیسا کہ فر مایا:

”انّما مثلُ الْحیاة الدُّنْیا کمائٍ نْزلْناہُ منْ السّمائ فاخْتلط بہ نباتُ الْرْض“ (48)
ترجمہ: دنیاوی زندگی کی مثال یقیناً اس پانی کی سی ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا جس سے زمین کی نباتات گھنی ہو گئیں۔

اور پروردگار عالم نے اپنے حبیب محمد مصطفیٰ ﷺ کو ضرب المثل بیان کرنے کا حکم یوں فرمایا:

”واضْربْ لہُمْ مثل الْحیاة الدُّنْیا کمائٍ نزلْناہُ منْ السّمائ“۔ (49)
ترجمہ: اور ان کیلئے دنیاوی زندگی کی یہ مثال پیش کریں : یہ زندگی اس پانی کی مانند ہے جسے ہم نے آسمان سے اتارا (بر سایا)۔

اور اللہ تعالی نے اس قرآن میں ہر طر ح کی ضرب المثل کو استعمال کیا ہے جیسا کہ ارشاد فر مایا:

”ولقدْ صرّفْنا للنّاس فی ہذا الْقُرْآن منْ کُلّ مثل“۔ (50)
ترجمہ: اور بتحقیق ہم نے اس قرآن میں انسانوں کیلئے ہر مثل کو بیان فرمایا ہے۔

بہرحال ضرب المثل کے ذریعہ انسان جلدی سے کسی حقیقت کو درک کرتا ہے اور اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور ظاہری بات ہے کہ جس دنیا میں ہم زندگی گزار رہے ہیں اس کو اگر مختلف چیزوں کے ساتھ مثال دے کر سمجھایا جائے تو یقیناً دنیا کے ساتھ وہ لگاؤ نہیں رہے گا۔ قرآن میں دنیاوی زندگی کو بارش کے ساتھ مثال دے کر بتایا کہ یہ دائمی نہیں ہے حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے اسی وجہ سے بعثت انبیاء علیہم السلام کا مقصد دنیا کی بے وفائی اور غداری کی مثالیں بیان کرنا قرار دیا ہے۔

چو تھی فصل: دنیا کے عیوب سے مطلع کرنا

حضرت امیر المو منین امام علی علیہ السلام نے بعثت انبیاء علیہم السلام کا ایک اور ہدف دنیا کے عیوب کو آشکار کرنا قرار دیا۔ آپؑ نے فرمایا:

”و لیبصروھم عیوبھا“۔ (51)
ترجمہ: اور تاکہ وہ انہیں دنیا کے عیبوں سے باخبر اور بابصیرت بنائیں (تاکہ وہ لوگوں کو اس (دنیا) کے عیوب سے با خبر اور آگاہ کریں۔
مختصر تشریح: انسان جس دنیا میں رہتا ہے اس میں ہمیشہ بے عیب چیزوں کا خواہاں رہتا ہے اور اس سے محبت کر تا ہے اور عیب والی چیز کو اپنے استعمال میں لانے سے گریزاں ہوتا ہے اور اس سے نفرت کرتا ہے جب اسی انسان کیلئے اس دنیا کے عیب عیاں و آشکار ہو جائیں تو دنیا سے قطعاً پیار و محبت نہیں کرے گا اور اس سے گریزاں ہوگا۔

انبیاء علیہم السلام کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ انسانوں کو دنیا کے عیوب سے آگاہ کریں۔ اس دنیا نے گزشتہ نسلوں کے ساتھ کیا کیا ہے۔ یہ کسی کو معاف نہیں کرتی، یہ عارضی ہے کسی کیلئے بھی دائمی اور ابدی نہیں ہے چاہے کوئی فقیر ہو یا غنی، عادل ہو یا فاسق، مومن ہو یا منافق، کافر و مشرک ہو یا مسلمان۔

پانچویں فصل: کامل عبرت دلانے کا سامان مہیا کرنا

امیر کلام علی ابن ابیطالب علیہ السلام رو حی لہ الفداء، انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا ایک اور مقصد ان الفاظ کے ساتھ بیان فرما رہے ہیں:
”و لیھجمو ا علیھم بمعتبر من تصرف مصاحھا و اسقامھا و حلالھا و حرا مھا وما اعد اللہ للمطیعین منھم و العصاة من جنة و نار و کرامة و ھوان“۔ (52)
اور تاکہ وہ اس کی صحت و بیماری کے تغیرات سے ایک دم انہیں پوری پوری عبرت دلانے کا سامان مہیا کر دیں اور اس کے حلال و حرام کو بیان کر دیں اور اللہ نے جو ان میں سے فرماں برداروں اور نا فرمانوں کیلئے جنت و جہنم اور عزت و ذلت کا سامان مہیا کیا ہے انہیں دکھلائیں۔

مختصر تشریح: شارح محمد عبدہ نے اس جملہ کی تشریح میں لکھا ہے:
”ھجم علیہ“ کا مطلب کسی کا اچانک کسی پر داخل ہونا ہے اور یہ باب ”نصر“ سے ہے المعتبر مصدر میمی ہے جس کے معنی الاعتبار و الاتعاظ کے ہیں اور تصرف تبدل کے معنی میں ہے اور مصاح مصحة (بکسر الصاد و فتحھا) کی جمع ہے اس کے معنی صحت و عافیت کے ہیں گویا انسان اپنے بدن پر تعاقب صحت و بیماری کے راز سے غفلت میں ہے انبیاءؑ نے انہیں غفلت سے متنبہ کیا اور ان پر اس حقیقت کو واضح اور عیاں کیا کہ یہ ان کیلئے الٰہی امتحان ہے تاکہ انسان اپنی عاجزی اور بے بسی کو جان لے اور یہ یقین کرلے کہ اس کا امر اس کے خالق کے ہاتھ میں ہے۔ (53)

انبیاء الٰہی علیہم السلام دنیا کے مختلف و متغیر اور بدلنے والے حالات کے ساتھ لوگوں کے پاس آئے تاکہ انسانوں کو خیر و فلاح، سعادت ابدی اور حیات جاودانی کی طرف رہنمائی کریں اور انہیں دنیا کے بدلتے حالات کی طرف متوجہ کریں اور انہیں دنیا کے صحیح حالات سے مریض و بیمار حالات میں تبدیل ہونے سے متعلق تذکر اور یاد دہانی کرائیں اور انہیں دنیاوی حلال و حرام سے آگاہ کریں اور تذکر دیں کہ نیک افعال کو بجا لانا ضروری ہے اور جن افعال سے پرہیز واجب ہے ان کے متعلق انہیں مکمل علم و آگاہی دیں۔ اسی طرح فرماں بر داروں کو اس حقیقت سے آشنا کریں کہ تمہارے لئے بہت اجر ہے، اللہ نے تمہارے لئے جنت قرار دی ہے اور اللہ کے حضور تمہارا مر تبہ اعلیٰ ہے۔

اسی طرح اللہ کے نا فرمانوں کو بھی واضح انداز میں اس نا فرمانی کی سزا سنائیں کہ تمہارے لئے عذاب جہنم کو واجب قرار دیا ہے اور ایسے لوگ ہمیشہ اسی ذلت و خواری والے ٹھکانے میں رہیں گے۔

مخفی نہ رہے کہ (بمعتبر) میں ”باء“ استعانت کیلئے ہے اور (من تصرف) میں من بیانیہ ہے اور (ما اعد اللہ) میں ما موصولہ ہے اور اعد اللہ المطیعین منھم و العصاة۔۔۔۔ صلہ ہے لیکن عائد فضلہ ہونے کی وجہ سے حذف کیا گیا ہے اور ”من جنة و نار و کرا مة و ھوان“ میں بھی”من“ بیانیہ ہے یعنی جو چیز اللہ نے مطیعین اور عاصین کیلئے مہیا فرمائی ہے وہ جنت اور جہنم ہے۔

اگر مضمون کے طولانی ہو نے کا خوف نہ ہوتا تو توفیق الہی اور عنایت علوی کے سایہ میں کچھ اور ادبی نکات بیان کرتے بہر حال ”و للعاقل تکفیہ الارشارةُ“۔

چھٹی فصل: قدرت کی نشانیاں دکھلانا

حضرت سید الاوصیاء علی ابن ابیطالب علیہ السلام بعثت انبیاء علیہم السلام کے مقاصد میں سے ایک مقصد قدرت کی نشانیاں دکھلانا بیان فرماتے ہیں آپ کا ارشاد گرامی ہے:

”و یروھم الآیات المقدرة من سقف فوقھم مرفوعٍ و مھادٍ تحتھم موضوع و معایش تحییھم وآجال تفنیھم و اوصاب تُھرمُھُم و احداث تتابع علیھم“۔ (54)
ترجمہ: تاکہ وہ انہیں قدرت کی نشانیاں دکھلائیں یہ ان کے سروں پر بلند بام آسمان اور ان کے نیچے بچھا ہوا فرش زمین اور وہ ذرائع معاش جو انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں اور آجال جو انہیں فنا کر دیتی ہیں اور وہ بیماریاں جو انہیں بو ڑھا کر دیتی ہیں اور ایسے حوادث جو ان پر پے در پے آتے ہیں۔
مختصر تشریح: حضرت امام علیؑ نے بعثت انبیاءؑ کا ہدف آیات عظمت الٰہی کا دکھانا قرار دیا ہے اور آپ نے چھ آیات و علامات کا ذکر فرمایا ہے:

پہلی نشانی: ”سقف فو قھم مر فوع“ ہے۔ اس سے مراد وہی آسمان ہے جسے ہم سب دیکھتے رہتے ہیں اس میں ستارے، سیارے، کواکب، شمس و قمر، ہیں جن میں غور و فکر کرنے سے انسان عظمت حق کے سامنے سر بسجود ہو جاتا ہے قرآن کریم نے اس کی یوں قسم کھائی ہے۔

”والسّقْف الْمرْفُوع“۔ (55)
”والسّمائ وما بناہا“۔ (56)

دوسری نشانی: ”مھاد تحتھم موضوع“ ہے۔ قرآن میں اللہ فرماتا ہے: ”لمْ نجْعلْ الْرْض مہادًا“۔ (57)
تیسری نشانی: ”معایش تحییھم“ ہے۔ اللہ نے اس انسان کیلئے ہر طرح کے وسائل معیشی قرار دیے ہیں۔
چوتھی نشانی: ”آجال تفنیھم“ ہے۔ بہرحال جب اللہ کی طرف سے بلاوا آ جاتا ہے اور عمر پوری ہو جاتی ہے تو وہ اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ لہذا دوسرے کی موت سے عبرت لینی چاہئے۔
پانچویں نشانی: ”اوصاب تھرمھم“ ہے۔ انسان پر اسی دنیا میں آلام، امراض، اسقام، العاب وغیرہ آتی رہتی ہیں کوئی بھی انسان ان سے خالی نہیں ہے بھلا بتائیے کون سا انسان ہے جو بیمار نہیں ہوا؟
چھٹی نشانی: ”احداث تتابع علیھم“ ہے۔ حوادث زمانہ، حالات وقت، مصائب دھر حد سے بڑھ کر ہیں لہذا کہا جاتا ہے کہ: ”مصائب الدھر اکثرُ من نبات الارض“ کیا واقعا کبھی ہم نے ان پر غور و فکر کیا ہے؟

محور سوم: دین

حقیقت میں دار دنیا دار تکلیف ہے اس گھر میں رہنے کے کچھ قواعد و ضوابط ہیں لہٰذا زندگی گزارنے کا دستور العمل بیان کرنا انبیاءؑ کی ذمہ داری ہے یہ محور بھی چند فصل پر مشتمل ہے:

پہلی فصل: لوگوں کو بتوں کی پوجا سے نکال کر اللہ کی عبادت کی طرف لے جانا۔
نفس رسول، زوج بتول، ابو الآئمہ کی نظر میں بعثت انبیاءؑ کا ایک مقصد انسانوں کو بتوں کی پرستش سے نکال کر اللہ کی عبادت کی جانب لے جانا ہے آپؑ اس سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں:

”فبعث اللہ محمدا ﷺ با لحق لیخرج عبادہ من عبادة الاوثان الی عبادتہ و من طاعة الشیطان الی طاعتہ بقرآن قد بینہ و احکمہ لیعلم العباد ربھم اذ جھلوہ و لیقروا بہ بعد اذ جحدوہ و لیثبتوہ اذ انکروہ“۔ (58)
ترجمہ: پس اللہ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس کے بندو ں کو محکم اور واضح قرآن کے ذریعہ بتوں کی پوجا سے اللہ کی اطاعت کی طرف نکال لے جائیں تاکہ بندے اپنے پروردگار سے جاہل رہنے کے بعد اسے جان لیں اور ان کا رکے بعد اس کا اقرار کریں اور جحد و انکار کے بعد اس کے وجود کا یقین حاصل کر لیں۔
مختصر تشریح: اس مختصر پیرا گراف میں چند حقائق بیان کئے گئے ہیں۔

1۔ اللہ تعالی نے حضرت محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا۔
2۔ آپ ﷺ کو اس مقصد کیلئے بھیجا گیا تاکہ آپ ﷺ بندوں کو بتوں کی پرستش سے نجات دیں ۔
3۔ اللہ نے نبی کریم ﷺ کو اس لئے مبعوث فرمایا تاکہ بندو ں کو اللہ کی عبادت کا حکم دیں اور اس کا طریقہ کار بتائیں۔
4۔ رسول اکرم ﷺ کو اس لئے بھیجا گیا تاکہ لو گ شیطان کی پیروی اور اطاعت سے آزاد کئے جائیں۔
5۔ آپ ﷺ اس لئے مبعوث بر سالت ہوئے تاکہ لوگوں کو اللہ کی عبادت کی دعوت دیں۔
6۔ مذکورہ پانچ مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے قرآن کو وسیلہ قرار دیا گیا ہے۔
7۔ یہ سب اس لئے کہ لوگ اللہ کی معرفت حاصل کریں اور اس کے وجود کا اقرار کریں۔

ہم سے قلم نے کچھ دیر کیلئے ر خصت طلب کی کیو نکہ قلم پو ری رات اپنے جو لان دکھاتا رہا لیکن اب اس میں کو ئی طا قت نہیں رہی ہم بھی چو نکہ پو ری رات قلم کے جو لان کا تماشا کر تے رہے اور وقت عبادت بھی آگیا اور دل مکمل طور پر نظر یاتی عبادت سے عملیاتی عبادت کی طرف مائل ہو گیا اس لئے قلم کو رخصت عطا کی تا کہ وہ کچھ وقت کیلئے آرا م کرے اور ہم بھی عبادت سے فا رغ ہو کر دو تین گھنٹے لیٹ جائیں تا کہ دن میں جو لان قلم دیکھنے کی طا قت میسر ہو سکے۔

دوسری فصل: حقائق آئین الٰہی کی تشریح کرنا

حضرت امیرالمومنین اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:
”اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ المجتبی من خلائقہ المعتام لشرح حقائقہ“۔
تر جمہ: میں گواہی دیتا ہوں کی بیشک محمد ﷺ اس کے عبد اور رسول ہیں اور مخلوق میں چنے اور انتخاب کئے گئے اور حقائق آئین الٰہی کی تشریح کیلئے منتخب ہیں ۔
مختصر تشریح: سید عباس علی موسوی اسی خطبہ میں (اللغة) کے عنوان میں (المعتام) کے معنی (المختار) کے ذکر کئے ہیں اور پھر عنوان (الشرح) میں اسی جملہ کو یوں واضح کیا ہے۔
”انہ المعتام لشرح حقائہ: اختارہ اللّہ من اجل ان یشرح حقائق العقائد و اصول الشرائع و ھذہ صفة النبی“۔
ترجمہ: اللہ تبارک و تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کا انتخاب اس لئے کیا اور اختیار فرمایا تاکہ آپ ﷺ اعتقادات کے حقائق اور اصول و شرائع و احکام کو تشریح سے بیان فرمائیں اور یہی نبی کی صفت ہے۔

تیسری فصل: دعوت حق

حضرت امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے بعثت انبیاءؑ کا ایک مقصد دعوت حق قرار دیا ہے اور فرماتے ہیں:
”ارسلہ داعیا الی الحق و شا ھدا علی الخلق فبلغ رسالات ربہ غیر وان ولا مقصر و جاھد فی اللہ اعدا ئہ غیر واھن و لا معذر“۔ (59)
ترجمہ: اس (اللہ) نے آپ کو حق کی طرف بلانے والا اور مخلوق پر گواہ و شاہد بنا کر بھیجا چنانچہ آپ ﷺ نے اپنے پروردگار کے پیغامات کو پہنچایا نہ اس میں کوئی سستی و کاہلی کی نہ کوتاہی اور اللہ کی راہ میں اس کے دشمنوں سے جہاد کیا اس میں نہ کمزوری دکھائی اور نہ عذر پیش کیا۔
مختصر تشریح: حضرت علی ”آلاف التحیة و الثناء“ نے حضرت خاتم الانبیاء فخر موجودات حضرت محمد ﷺ ”الوف آلاف التحیة و لثناء“ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ:

اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو حق کی طرف بلانے والا اور مخلوق پر گواہ بنا کر بھیجا حضرت محمد مصطفی ﷺ یقیناً تمام انبیاءؑ سے افضل و اشرف و اعلیٰ ہیں۔ آپؐ کی بعثت کا مقصد مکارم اخلاق کو کمال تک پہنچانا ہے اور اسی طر ح حق اور حقیقت کی جانب دعوت دینا اور بلانا بھی آپ کی بعثت کا مقصد ہے بہرحال چو نکہ حضرت محمد ﷺ بھی انبیاء علیہم السلام میں سے ایک نبی ہیں بلکہ سب سے افضل نبی ہیں لہٰذا من باب تنقیح ا لمناط تمام انبیاءؑ کی بعثت کا مقصد دعوت حق ہے۔

چوتھی فصل: تبشیر و انداز

بعثت انبیاء علیہم السلام کا ایک مقصد اللہ تعالیٰ کے فرمانبرداروں، نیک بندوں اور پرہیزگار انسانوں کو ان کے عمل کی جزا سننا انبیاءؑ کی ذمہ داری ہے۔ کیوں انسان اپنے عمل کے نتیجہ کا منتظر ہوتا ہے۔ لہذا جب انبیاء اسے اس کے عمل کی خوشخبری دیں گے تو اچھے کاموں میں اس کو زیادہ دل لگے گا اور وہ قرب الہیٰ کے حصول کیلئے زیادہ کوشاں رہے گا۔

اسی طرح برے اعمال انجام دینے والوں، بدکاروں، منافقوں، کافروں، مشرکوں اور فاسقوں، فاجروں کو بھی ان کے اعمال کی سزا سے آگاہ کرنا انبیاء کی بعثت کا ہدف ہے اور اس طریقہ سے برائیوں میں بھی کمی واقع ہوگی اور لوگ برے اعمال سے ہاتھ اٹھائیں گے اور معاشرہ میں عدل و انصاف کی فضا حاکم ہوگی۔ مطلب یہ کہ انسان کی تربیت میں ان دونوں کا اہم کردار ہے۔

خلاصہ یہ کہ: بعثت انبیاء علیہم السلام کا ایک مقصد اللہ کے فرماں برداروں کو جنت اور اس کی دائمی نعمات کی خوشخبری دینا اور اس کے نافرمانوں کو جہنم اور اس کے درد ناک عذاب سے ڈرانا دھمکانا ہے۔ تبشیر یعنی بشارت دینا، خوشخبری سنانا اور انداز یعنی ڈرانا دھمکانا ہے۔

اس سلسلہ میں حضرت ابو الائمہ علیہ السلام فرماتے ہیں:

”حتی بعث اللہ محمد اً ﷺ شھیدا ً و بشیرا ً و نذیرا ً“۔ ( 60)
ترجمہ: یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو گواہی دینے والا اور بشارت دینے والا اور ڈرانے دھمکانے والا نبی ﷺ بنا کر بھیجا۔

اس سلسلہ میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

”وما رْسلْناک لاّ مُبشّرًا ونذیرًا“۔ (61)
اورفرمایا: ”وما رْسلْناک لاّ کافّةً للنّاس بشیرًا ونذیرًا ولکنّ کْثر النّاس لایعْلمُون“۔ (62)

حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے دوسروں مقام پہ فرمایا:

”بلغ عن ربہ معذرا ً، و نصح المتہ منذر اً، و دعالی الجنة مبشرا“۔ (63)
انہوں نے عذر تمام کرتے ہوئے اپنے پروردگار کا پیغام پہنچا دیا اور ڈراتے ہوئے اپنی امت کو نصیحت کی اور خوشخبری سناتے ہوئے جنت کی طرف دعوت دی۔

اور دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

”فان اللّہ جعل محمداً ﷺ علماً للساعة و مبشرا ً بالجنة و منذرا ً بالعقوبة“۔ (64)
ترجمہ: پس بتحقیق اللہ نے حضرت محمد ﷺ کو قیامت کی نشانی اور جنت کی خوشخبری سنانے والا اور عذاب سے ڈرانے والا قرار دیا ہے۔

میرے مولا اسی سلسلہ میں دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں :

”ان اللہ بعث محمداً ْﷺ نذیراً للعالمین“۔ (65)
ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو عالمین کیلئے نذیر اورڈرانے دھمکانے والا بنا کر بھیجا۔
نوٹ: ہم اپنے قارئین کرام سے ادب و احترام کے ساتھ تشریح بیان کرنے سے معذرت چاہتے ہیں ۔

پانچویں فصل: پیغام الہٰی کو امانت کے ساتھ ابلاغ کرنا

بعثت انبیاءؑ کاایک مقصد الہیٰ پیغام کو امانتداری کے ساتھ ابلاغ کرنا ہے اس سلسلہ میں اخ الرسول ﷺ، زوج البتول ابوالحسن علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

”واصطفیٰ سبحانہ من ولدہ انبیاء خذ علی الوحی میثاقھم و علی تبلیغ الرسالة مانتھم“۔ (66)
ترجمہ: اللہ سبحانہ نے اس کی اولاد سے انبیاء چنے، وحی پر ان سے عہد اکبر لیا اور تبلیغ رسالت کا انہیں امین بنایا۔

دوسرے مقام پر اسی سلسلہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

”ان اللّہ بعث محمد اً صلی اللہ علیہ وآلہ نذیراً للعالمین و میناً علی التنزیل“۔ ( 67)
ترجمہ: بتحقیق اللہ نے محمد ﷺ کو عالمین کیلئے نذیر اور اپنی وحی کا امین بنا کر بھیجا۔
نوٹ: تشریح و توضیح کی معافی چاہتے ہیں۔

چھٹی فصل: احکام خدا کو نافذ کرنا

اس سلسلے میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

”اشھدن محمداً عبدہ و رسولہ، رسلہ لنفاذمرہ“۔ (68)
ترجمہ: اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے عبد اور رسول ہیں، جنہیں اللہ نے اپنے احکام کو نافذ کرنے کی غرض سے بھیجا ہے۔
نوٹ: وضاحت کی معافی چاہتے ہیں ۔

ساتویں فصل: گواہ بر خلق

اس سلسلہ میں امیر بیان حضرت علی بن ابی طالب ”روحی لہ الفداء“ فرماتے ہیں:
”ارسلہ داعیاً الی الحق و شاھدًا علی الخلق“۔ (69)
ترجمہ: اس نے حضرت محمد ﷺ کو حق کی طرف بلانے والا اور مخلوق پر گواہ بنا کر بھیجا۔
مختصر تشریح: بے شک رسول اکرم ﷺ گواہ بر خلق ہیں۔ قرآن میں اللہ نے آنحضرت ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

”یایُّہا النّبیُّ نّا رْسلْناک شاہدًا ومُبشّرًا ونذیرًا“۔ (70)
ترجمہ: اے نبیؐ بتحقیق ہم نے آپ کو (لوگوں پر) گواہ اور خوشخبری دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔
اس کے بعد میں آنے والی آیت میں نبی مکرم ﷺ کو داعی الی اللہ کہا گیا ہے۔ ارشاد ہو رہا ہے:

”وداعیًا لی اﷲ بذْنہ وسراجًا مُنیرًا“۔ (71)
ترجمہ: اور اللہ کی طرف اسی کے حکم سے بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا۔
بہرحال قرآن و نہج البلاغہ کی روشنی میں بعثت انبیاء علیہم السلام کے مقاصد میں سے”گواہ بر خلق“ اور ”بشارت“ اور نذار اور ”دعوت حق“ ہے۔

آٹھویں فصل: دعوت حکمت و موعظہ حسنہ

قرآن مجسم، نبا عظیم، سراللہ فی العالمین، خلیفة اللہ، باب اللہ، حجة اللہ علی العالمین علی علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں:

”بعثہ والناس ظُلال فی حیرةٍ۔۔۔۔ فبالغ ﷺ فی النصیحة و مضی علی الطریقة و دعالی الحکمة و الموعظة الحسنة“ (72) اس نے پیغمبر ﷺ کو اس وقت بھیجا کہ لوگ حیرت اور پریشانی کے عالم میں گم کردہ راہ تھے۔ پس نبی کریم ﷺ نے انہیں سمجھانے اور نصیحت کرنے کا پورا حق ادا کیا اور سیدھے راستے پر جمے رہے اور حکمت اور دانائی اور اچھی نصیحتوں کی طرف انہیں بلاتے رہے۔

عرض حقیر

ہمارے دل نے قلم سے کہا: کیا تجھے معلوم ہے جس وادی میں تو نے قدم رکھا ہے وہ بہت عمیق و گہری ہے؟ جان لے کہ یہ وہ وادی ہے کہ جس میں داخل ہونے سے ہر صاحب شعور گھبراتا اور لرزتا ہے۔ لہٰذا میری خواہش یہی ہے کہ اپنی رفتار کو اپنے قبضہ اور کنٹرول میں رکھ، اس لئے کہ مجھے تیرے ڈوب جانے کا خطرہ ہے یا کم از کم مجھے تیری نوک کے ٹوٹنے کا اندیشہ ضرور ہے۔

جب میرے دل کی یہ صدا میرے قلم نے سنی تو روتے ہوئے کہنے لگا۔ آخر میں کیا کروں میں اپنے بس میں نہیں ہوں اس لئے کہ آپ مجھ سے اس شخص کا نورانی کلام لکھوانا چاہتے ہیں۔ جس کا کلام بھی اسی کی مانند علی ہے۔ تجھے کیا معلوم کہ علی علیہ السلام کون ہے اور اس کا کلام کتنا عظیم ہے؟

کیا تو بھول چکا ہے کہ یہ اس کا کلام ہے جو پوری رات اپنے شاگرد ابن عباس کیلئے بائے بسم اللہ کی تفسیر بیان کرتا رہا۔ یہ اس کا کلام ہے عالم امکان میں اس سے بڑھ کر کوئی سخنور نہیں ہے۔ یہ صاحب سلونی کا کلام ہے، یہ صاحب گفتار، ”ینحدر عنی السیل ولایرقی الی الطیر“ کا کلام ہے، یہ باب مدینۃ العلم کا کلام ہے، یہ اس کا کلام ہے جس سے فصاحت و بلاغت نے اپنی رونق کیلئے بھیک مانگی، یہ صاحب گفتار، ”ان ھھنا لعلماً جمّاً“ کا کلام ہے، و۔۔۔۔۔

جب قلم نے گڑگڑاتے، بلبلاتے اور سسکیوں کے ساتھ اپنا یہ درد دل بیان کیا، میں فوراً سمجھ گیا کہ قلم جولان کیلئے میدان مانگ رہا ہے۔ لیکن قلم کی اس ادائیگی نے میری بھی آنکھیں نم کر دیں۔ رخساروں پر اشک رواں ہو گئے، جب قلم میری طرف متوجہ ہوا تو مجھ پر اور میرے حال پر ترس کھاتے ہوئے رک گیا اور تشریح بیان کرنے سے معذرت کرلی۔

نویں فصل: حجت تمام کرنا

حجت خدا حضرت امام علی علیہ السلام نے بعثت انبیاء علیہم السلام کا ایک ہدف اور مقصد اتمام حجت قراردیا ہے، آپ اس بارے میں فرماتے ہیں:

”ویحتجو ا علیھم بالتبلیغ“۔ (73)
ترجمہ: اور تاکہ وہ لوگوں تک پیغام ربانی پہنچا کر حجت تمام کریں ۔

اور دوسری جگہ مولائے کائنات حضرت امام علی بن ابی طالب فرماتے ہیں:
”و لیقیم الحجة بہ علی عبادہ، ولم یخلھم بعد ن قبضہ، مما یؤلد علیھم حجة ربوبیتہ،ویصل بینھم وبین معرفتہ، بل تعاھدھم بالحجج علی لسن الخیرة من نبیائہ ومتحملی وداع رسالاتہ، قرنا ًفقرنا ً، حتی تمت بیننا محمد ﷺ حجتہ وبلغ المقطع عُذرُہ و نُذُرُہ“۔ (74)
ترجمہ: اور تاکہ ان کے ذریعہ اپنے بندوں پر حجت قائم فرمائے اور اللہ نے اس (آدمؑ) کو اٹھا لینے کے بعد بھی اپنی مخلوق کو ایسی چیزوں اسے خالی نہیں رکھا جو اس کی ربوبیت کی دلیلوں کو مضبوط کرتی رہیں اور بندوں کیلئے اس کی معرفت کا ذریعہ بنی رہیں اور یکے بعد دیگرے ہر دور میں وہ اپنے برگزیدہ نبیوں اور رسالت کے امانت داروں کی زبانوں سے حجت کے پہنچانے کی تجدید کرتا رہا یہاں تک کہ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ اس کی حجت تمام ہو گئی اورحجت پورا کرنا اور ڈرایا جانا اپنے نقطہ اختتام کو پہنچ گیا۔

اور حجت بالغہ الٰہی اسی سلسلے میں دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

”بعث اللّہ رسلہ بماخصّھم بہ من وحیہ و جعلھم حجة لہ علی خلقہ، لئلاتجب الحجة لھم بترک العذارلیھم“۔ ( 75)
ترجمہ: اللہ نے اپنے رسولوں کو وحی کے امتیازات کے ساتھ بھیجا اور انہیں اپنی مخلوق پر حجت ٹھہرایا تاکہ وہ یہ عذر نہ کر سکیں کہ ان پر حجت تمام نہیں ہوئی۔

اور اسی سلسلہ میں مولا علی کا یہ فرمان بھی ہے:

”رسلہ لنفاذمرہ، ونھاء عذرہ و تقدیم نذرہ“۔ (76)
ترجمہ: اس کو اللہ نے اپنے احکام کے نفاذ اور حجت کے اتمام اور عبرت ناک واقعات پیش کرکے پہلے سے متبہ کر دینے کیلئے بھیجا۔

اسی سلسلہ میں آپ نے فرمایا: ”۔۔۔۔ رسلہُ حتجاجاً بالبیّنات“۔ ( 77)
ترجمہ: اللہ نے اسے بھیجا تاکہ دلائل کے زور سے حجت تمام کی جائے۔

حقیر عرض پرواز ہے: قلم نے اشک بار ہو کر اور عقل نے میری حالت پر احساس کھا کر کہا: تو پہلے ہی دل کا مریض ہے کچھ تو خیال کر، ہم آپ کی چند راتوں کی مسلسل شب بیداری کو غور سے دیکھ رہے ہیں۔ آج تو آپ دعائے ندبہ سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔۔۔۔ میں نے غور کرتے ہوئے کہا: حق آپ کے ساتھ ہے، زحمت کی معافی۔

والسلام
شیخ دیدار علی الاکبری المشہدی

حوالہ جات

[1] نہج البلاغہ، خ86،ص 33، نسخة المعجم المفہرس، مؤسسة النشر الاسلامی، 1417ھ، طبع 5، قم
[2] نہج البلاغہ، ق78، ص157
[3] نہج البلاغہ، خ1،ص3
[4] آمدی، عبدالواحد، غررالحکم، ج2،ص 122،فصل71،ح39، طبعہ اولیٰ، 1407ھ،1987ع، مؤسسة الاعلمی، بیروت لبنان
[5] نہج البلاغہ، ق38،ص 153
[6] نہج البلاغہ، ق54،ص 155
[7] نہج البلاغہ، ق424،ص 188
[8] نہج البلاغہ، ق421،ص 187
[9] المصدر،ق113،ص160
[10] المصدر،خ224،ص 110
[11] الذاریات، 56
[12] میر جہانی، مصباح البلاغہ، ج2، ص95، سال طبع 1388، صدوق، ابو جعفر محمد بن علی، التوحید، ص32، تصحیح و تعلیق: سید ہاشم حسینی طہرانی، مؤسسة النشر الاسلامی، قم المشرفہ
[13] الاسراء، 15
[14] الانفال، 42
[15] الانعام، 149
[16] نہج البلاغہ، خ1، ص 3
[17] الروم، 30
[18] مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج3، ص 281، باب 11،طبعہ دوم، 1403ھ، مؤسسة الوفاء، بیروت، لبنان،
نمازی، شاہرودی، علی، مستدرک سفینة البحار، ج8،ص 238، تحقیق:شیخ حسن بن علی نمازی، 1419، مؤسسة النشر الاسلامی قم
[19] خوئی، حبیب اللہ، منھاج البراعہ، ج2،ص 150، مکتبہ الاسلامیہ، تہران، 1386قمری، طبعہ 3
[20] صدوق، ابو جعفر محمدبن علی، التوحید، ص320 باب 53، مؤسسة النشرالاسلامی، 1427ھ، طبعہ 9،قم
[21] صدوق، ابو جعفر محمدبن علی، التوحید، ص323 باب 53، مؤسسة النشرالاسلامی، 1427ھ، طبعہ 9، قم
[22] نہج البلاغہ، خ1 ص3
[23] کلینی، محمد بن یعقوب، ج ص 60،کتاب العقل الجھل، ح12، تصحیح و تعلیق: محمد جعفر شمس الدین، 1419ھ۔ 1998ع، دارالعارف، بیروت، لبنان۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج1، ص 112، باب4،ح 29، طبعہ اولیٰ، 1423ھ۔ 2001ع، دارالتعارف، بیروت، لبنان،
[24] نہج البلاغہ، ق211،ص169
[25] النحل، 18
[26] نہج البلاغہ خ1ص3
[27] الاحزاب، 9
[28] النحل، 114
[29] الضحیٰ، 11
[30] المائدہ، 3
[31] خوئی، حبیب اللہ، منھاج البراعہ، ج 2،ص 150، مکتبہ الاسلامیہ، تہران، 1386 قمری طبعہ 3
[32] نہج البلاغہ، خ 2،ص 4
[33] مذکورہ حوالہ
[34] موسوی، عباس علی، شرح نہج البلاغہ، ج 3 ص 159۔
[35] نہج البلاغہ، خ1، ص 3
[36] آل عمران، 164
[37] الاعراف، 157
[38] البقرہ، 146
[39] نہج البلاغہ، خ 183، ص 83
[40] طہٰ، 50
[41] نہج البلاغہ، خ 183، ص 83
[42] نہج البلاغہ، خ 183، ص 83
[43] نہج البلاغہ، ک 31، ص 127
[44] نہج البلاغہ، خ 203، ص 101
[45] نہج البلاغہ، خ 183، ص 83
[46] نہج البلاغہ، خ 183، ص 83
[47] البقرہ، 26
[48] یونس، 24
[49] الکھف، 45
[50] الاسراء، 89
[51] نہج البلاغہ، خ183، ص83
[52] نہج البلاغہ، خ183، ص83
[53] محمد عبدہ، شرح نہج البلاغہ، خ181،ص370، انتشارات لقاء، طبعہ اول، 1383،قم
[54] نہج البلاغہ، خ1 ص 3
[55] الطور، 5
[56] الشمس،5
[57] النباء، 6
[58] نہج البلاغہ، خ147، ص63
[59] نہج البلاغہ، خ116، ص53
[60] نہج البلاغہ، خ105، ص46
[61] الاسراء، 105 و الفرقان، 56
[62] سب، 28
[63] نہج البلاغہ، خ109، ص49
[64] نہج البلاغہ، خ160، ص81
[65] نہج البلاغہ، خ26، ص12
[66] نہج البلاغہ، خ1، ص3
[67] نہج البلاغہ، خ83، ص 28 (خطبہ الغراء)
[68] نہج البلاغہ، خ116، ص53
[69] الاحزاب، 45
[70] الاحزاب،46
71] نہج البلاغہ، خ95، ص42
[72] نہج البلاغہ، خ1، ص3
[73] نہج البلاغہ، خ91 (خطبہ اشباح)، ص39
[74] نہج البلاغہ، خ144، ص62
[75] نہج البلاغہ، خ83، ص 28
[76] نہج البلاغہ، خ2، ص4

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button