مقالات

دین و سیاست نہج البلاغہ کی روشنی میں( حصه اول)

تمہید

دین اور سیاست یہ دو ایسے الفاظ ہیں جو ہمارے معاشرے میں بہت مانوس اور را ئج ہیں ،تقریبا ہر انسان ان سے آشنا ہے اور روزانہ اس کا استعمال بھی عام ہے ،لیکن جب سیاست کو دین کے ساتھ جوڑ کر استعمال کیا جا تا ہے تو بہت سے لوگ اس بات کو بالکل ہی نہیں 
ما نتے ہیں کہ دین و سیاست میں کو ئی رابطہ بھی ہے ،بلکہ وہ کہتے ہیں کہ دین اور سیاست دو بالکل ہی الگ الگ چیزوں کا نام ہے ان کو ایک ساتھ نہ ملا ئیں، تو دوسری طرف ایسے بھی لوگ ہیں کہ جو مخالفت تو نہیں کرتے لیکن اس کو قبول کر نے سے گریز کرتے ہیں کہ دین و سیاست ایک ساتھ جمع بھی ہو سکتے ہیں ۔
اس طرح کی مخالفتیں غلط فہمی کی بنیادپر ہی وجود میں آتی ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو اسلامی سیاست کے صحیح معنی ومفہوم معلوم ہی نہیں ہیں جس کی بنا پر اس سے غافل ہیں،اور دوسری طرف یہ کہ لوگوں کہ ذہن میں جس سیاست کا مفہوم ہے وہ موجودہ اور رائج سیاست کے تناظر میں ہی ہے وہ اسی اعتبار سے سوچتے ہیں،اور دنیا میں رائج سیاست ہی کو اصلی سیاست سمجھتے ہیں تب ہی جب دین کو سیاست سے جوڑا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ دین کا سیاست سے کیا رابطہ ہے؟۔
یقیناًوہ سیاست کہ جو پوری دنیا میں رائج ہے یعنی موجودہ سیاست ،تو اس کا دین اسلام سے کو ئی لینا دینا نہیں ہے،کوئی رابطہ نہیں ہے ،بلکہ دین اس طرح کی سیاست کا مخالف بھی ہے اور دین اس کو تو سیاست سمجھتا ہی نہیں ہے ۔کیونکہ دین کی نظر میں سب سے اہم چیز امن و امان ،سکون و آشتی ہے، اسلام ہر ایک کا خیال رکھتا ہے اور ہر ایک کے حقوق کو ادا کرنے کا پا بند ہے ،اسلام کی نظر میں ہر کا اپنا ایک حق ہے اور ہر حاکم کی ایک ذمہ داری ہے ،ہر ایک ذمہ دار کو اپنے فرا ئض پو ری ایمان داری سے انجام دینے ہیں چنانچہ مولا ئے کا ئناتؑ اسی مطلب کی طرف اشارہ فرماتے ہو ئے جناب مالک اشتر کو جب حکومت کا دستور العمل دیتے ہیں تو اس میں فرما تے ہیں کہ لوگ دو طرح کے ہو تے ہیں ’’ اما اخ لک فی الدین او نظیر لک فی الخلق‘‘۱؂ مخلوق خدا کی دو قسم ہیں جن میں بعض تمہارے دینی بھا ئی ہیں اور بعض خلقت میں تمہا رے جیسے بشر ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام لوگوں کا خیال رکھنا حاکم اسلامی کی ذمہ داری ہے اور تمام رعایا کے حقوق ادا کرنا بھی اسی حاکم کا فرض ہے ،یہ اسلامی نظام کا امتیازی نکتہ ہے ،اس نظام میں مذہبی تعصب سے کام نہیں لیاجاتا ہے بلکہ ہر شخص کو برابر کے حقوق دئے جا تے ہیں ، مسلما نوں کا احترام اور ان کے حقوق کا خیال ان کے اسلام کی بنا پر ہو تا ہے اور غیر مسلموں کا خیال اور ان کے حقوق کی ادا ئیگی حقوق انسانی کے تحت ہو تی ہے، اس طرح تمام رعایا کو ان کا حق ملنا چا ہیئے۔ اسلام کی یہ سیاست ہے ،تو پھر وہ کس طرح دنیا میں را ئج اس گندی سیاست کی حمایت کر سکتا ہے ؟جہاں حقوق کا پامال ہو نا عام بات ہو،سماج کی مصلحت کے بجا ئے حکمرانوں کی مصلحت ملحوظ خاطر ہو،جہاں بس اپنا کام نکالنا مقصد ہو،،، نہیں ! اسلام ہرگز ایسی سیاست کا حامی نہیں ہے بلکہ اسلام خود سیاست کا اپنا ایک معنی و مفہوم رکھتا ہے اور وہی صحیح ہے اور بشریت کو اسی کی ضرورت ہے ،انسانیت اور سماج کو اسی پر عمل کر کے تر قی مل سکتی ہے ۔
موجودہ دور کی سیاست لفظ سیاست کا غلط استعمال ہے ،آج کے دور میں جو جتنا مکار ہو اور اپنی پالیسیاں اتنی چالاکی سے انجام دے کہ کوئی بھی اسے پکڑ نہ پائے،جو جتنا لوگوں کو بیوقوف بنائے،جو جتنا لوگوں کو دھوکہ دے ، قوم و مملکت سے جتنا کھلواڑ کرے میڈیا اس کو اتنا بڑا سیاست داں بنا کر پیش کرتا ہے ،آج کی دنیا آزادی بشر ،حقوق بشر ،اور حفاظت حقوق بشر کی آڑ ھ میں صرف اپنے مفادات حاصل کر رہی ہے ظالم استکباری طاقتیں کہ جواپنی دولت بڑھانے اور اپنے اقتدار کو بچا نے کے لئے کسی بھی طرح کام سے دریغ نہیں کرتے ہیں صحیح غلط سب کام کرتے ہیں وہ اپنے اسی مقصد کی تکمیل کے لئے مسلمانوں کا قتل عام خود مسلمانوں ہی کے ذریعہ کروا رہی ہے ،اس پرستم یہ کہ مظلوموں کو ہی ظالم بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جبکہ ظالم اپنے آقاؤں کی مکاری اور عیاری کے سائے میں معصومیت کا لباس پہنے پوری دنیا کو بیوقوف بنا رہا ہے۔
تاریخ بشریت ایسے سیاست دانوں سے بھری ہو ئی ہے،اور دنیا میں اسی کو سیاست کے نام سے پیش کیا جاتا رہا ہے اور آج بھی اسی کو سیاست سمجھا جا تا ہے ،جبکہ اسلام اس کو سیاست سمجھتا ہی نہیں ہے اور نہ ہی ایسے لوگوں کو عقلمند اور سمجھدار مانتا ہے ،تخت حکومت پر بیٹھ کر مکاری کرنے والوں کو اسلام نے عقلمند جانا ہی نہیں ہے، اقتدار حاصل کرکے مکاری کرنے کو معصوم ؑ نے عقلمندی سے نہیں بلکہ شیطنت سے تعبیر کیا ہے۔جس سے بات واضح ہو جا تی ہے کہ تخت حکومت پر بیٹھ کر مکاری کرنا عقلمندی ،سیاست ، یا مہارت نہیں بلکہ شیطنت ہے۔ یہاں ہم یہ گفتگو کریں گے کہ اسلام میں سیاست کا اپناایک خاص معنیٰ ہے اور اسی معنی والی سیاست اسلام میں ایک ضروری اور اہم عنصر کی حیثیت رکھتی ہے ۔اور اسی سیاست کا دین سے براہ راست رابطہ بھی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بھی ہیں ۔اسی لئے بات شروع کرنے سے پہلے ہم سیاست کے معنی پر روشنی ڈالیں گے تاکہ بات مکمل طور پر واضح ہو جا ئے کہ اسلام جس سیاست کا حامی ہے وہ دنیا میں رائج سیاست جیسی نہیں ہے بلکہ اس سے کا فی الگ ہے اور پوری طرح پاک و صاف سیاست ہے ۔
سیاست کے معنیٰ 

سیاست عربی زبان کا لفظ ہے جو مادہ ’’السوس‘‘ سے لیا گیا ہے ،اہل لغت اس کی اس طرح تعریف کرتے ہیں : ’’السیاسۃ :القیام علی الشی ء بما یصلحہ‘‘۲؂ مصلحت کے مطابق مناسب کام کو انجام دینا سیاست ہے ۔ حاکم کو سیاست داں اسی لئے کہا جا تا ہے چونکہ وہ عوام الناس کی مصلحت کو سمجھ کر اس کے حل کے لئے مناسب اقدامات کرتا ہے ۔یہ تھے سیاست کے لغوی معنی جس سے بات روشن ہو گئی کہ سیاست حسن تدبیر کو کہتے ہیں اسلام بھی سیاست کا یہی معنی کرتا ہے اور اسے ہی قبول کرتا ہے ۔یہاں اسی معنی کے تحت گفتگو کریں گے ۔
سیاست کے اصطلاحی معنی کے طور پر کئی معانی پا ئے جاتے ہیں ،لیکن کو ئی بھی نظریہ ایسا نہیں ہے کہ جو سیاست کی صحیح طریقہ سے ترجمانی کرسکے، کچھ نظریوں میں حاکم کی مرضی اور اس کی من مانی کو ہی سیاست کہا جا تا ہے ،تو کہیں اپنے مفادات حاصل کرنے کا نام سیاست ہے، کہیں صرف لوگوں سے حکومت کے روابط کے مضبوط ہو نے کا نام ہی سیاست ہے،۳؂ لیکن کہیں بھی الہی نظریہ نہیں پا یا جا تا ہے اور نہ ہی کہیں ایسا نظریہ پایا جا تا ہے کہ جس میں عوام کی ہی مصلحت کی بات ہو ، یہ امتیاز صرف اسلام کا ہی ہے اور صرف معصومین ؑ ہی کے کلام میں ایسے معانی ملیں گے کہ جن میں سیاست کا صحیح معنی پا یا جا ئے جہان سیاست کا محور اور مرکز تو حید الہی ہو اور منزل کمال تک پہنچنے کا حوصلہ ہو، یہاں ہم جناب امیر ؑ کے کلام کی روشنی میں گفتگو کررہے ہیں تو صرف آپ ؑ ہی کے کلام پر اکتفا کرتے ہیں ۔
سیاست کے معنی میں لوگوں کا اختلاف ،نظریات کے مختلف ہو نے اور مکتب فکر کے الگ ہو نے کی بنا پر ہے کیونکہ جتنے بھی معنی بیان
ہو ئے ہیں وہ سب دنیاوی دانشوروں کے ہیں جنہوں نے اپنے خیال اور اپنی فکری رسائی کے اعتبار سے معنی بیان کئے ہیں ، یا کسی خاص مقصد اور ہدف تک رسائی کے لئے معنی بیان کئے گئے ہیں،جہاں مقصد صرف ظواہری فائدوں کا ہی حصول ہے جہاں آخرت اور دنیا کے بعد کا کو ئی تصور ہی نہیں ہے جہاں دنیاوی کمال ہی سب کچھ ہے ، لیکن ادھر چونکہ محور خدا ہے اور اس تک رسائی ہے مقصد حیات ہے اسی لئے مولائے کائنات ؑ کا نظریہ الہی نظر یہ ہے کہ جس میں سب سے اہم شی ء خدا وند عالم کی خوشنودی ہے اور اس کے ساتھ عوام الناس کی خوشحالی ملحوظ خاطر ہے۔اسی بنا پر مولائے کائناتؑ کا نظریہ کسی بھی دنیاوی سیاست داں سے میل نہیں کھاتا ہے ۔مولا ئے کا ئنات ؑ کی نظر میں خدا وند عالم دنیا کا حاکم مطلق ہے اور تمام کا ئنات اس کی ہی مخلوق ہیں ،اسی نے لوگوں کی ہدایت کے سلسلے بنا ئے ہیں اور ہر لحا ظ سے لوگوں کی ہدایت کا انتظا م کیا ہے اور اسی انتظام کی ایک صورت یہ ہے کہ ان کے لئے ایک ایسا معاشرہ اور سماج ہو کہ جس میں وہ سکون اور آرام سے رہے سکیں۔چنانچہ اطاعت کے سلسلہ میں آپ ؑ فرما تے ہیں:’’و لکنہ سبحانہ جعل حقہ علی العباد ان یطیعوہ و جعل جزاءھم علیہ مضاعفۃالثواب تفضلا منہ‘‘ ۔۴؂ ’’خدا کا حق یہ ہے کہ بندے اس کی اطاعت کریں اور وہ کئی برابر اس کا بدلہ دے ‘‘۔اور ایسا معاشرہ ولایت ہی کے ذریعہ ممکن ہے کہ جس میں معاشرے کی سر پرستی بھی ہو اور عوامی سطح اور رعایا کی ترقی کے لئے بھی مناسب اقدامات کئے جا ئیں ۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب حاکم اسلامی موجود ہو اور اسلامی اصول اور طرز پر ایک حکومت ہو کہ جس کے تحت یہ سارے مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہوں ۔اسی سلسلے میں آپ ؑ فرما تے ہیں:’’و الامامۃ نظاما للامۃو الطاعۃ تعظیما للامامۃ‘‘ ۵؂ (خدا وند عالم نے) امامت کو امت کی سرپرستی کے لئے اور امام ؑ کی اطاعت کو اس کی اہمیت کے لئے وا جب قرار دیا ہے۔ یعنی امام کا کا م ہے کہ امت کی سرپرستی کریں ان کی رہنما ئی فرما ئیں ،اور امت کا کام یہ ہے کہ امام کی اس اہمیت مقام اور مرتبہ کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے امام کی بسر و چشم اطاعت کرے۔حضرت علی ؑ کی نظر میں سیاست کا مطلب صرف لوگوں کی اقتصادی اور سماجی مشکلات میں ہی ان کی رہنمائی نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام گو شوں پر اور ہر لحاظ اور تمام جہتوں سے عوام کی رہنمائی اور اس کی دیکھ بھال ہے۔جس طریقہ سے ایک باپ اپنی اولاد کاہر لحاظ سے خیال رکھتا ہے، اس کی زندگی کی ہر چھوٹی سی چھوٹی ضرورت اور مشکلات پر نظر رکھتا ہے اور اس کا مناسب حل نکالتا ہے ، اسی طرح ایک حاکم اسلامی ،اور امام کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کا خیال رکھیں اور لوگوں پر ان کی ہر لحاظ اور ہر اعتبار سے اتباع اور پیروی کرنا ضروری و لازم ہے۔ حاکم اسلامی کی اہمیت اور اس کی ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے آپؑ فرما تے ہیں ’’اذا تغیر السلطان تغیر الزمان‘‘ ۶؂ حاکم کے متزلزل ہو نے سے پوری مملکت میں اضطراب پیدا ہو جا تا ہے ۔امام کی سیاست کا مقصد اسلامی معاشرے کی ترقی اور راہ توحید پر اس کا منزل کمال تک پہنچنا ہے۔
اسلام کی نظر میں سیاست حسن تدبیر، انتظام امورمملکت اور مناسب موقع پر مناسب حکمت عملی کو کہتے ہیں،مولا ئے کا ئناتؑ فرماتے ہیں’’ الملک سیاسۃ‘‘ ۷؂ مملکت داری ہی سیاست ہے ۔دینی معیار پر معاشرے کی سرپرستی کرنا سیاست ہے ۔فرد، سماج ،معاشرہ اور مملکت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے حاکم یا ذمہ دار جس حکمت عملی کا انتخاب کرتا ہے اور معاشرے کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے جن تدبیروں کو بروئے کار لاتا ہے اسے ہی اسلام کی نظر میں سیاست کہا جا تا ہے ۔اسی معنی کے پیش نظر سیاست اسلامی معاشرے کے لئے ایک اہم عنصر ہے۔جس کے ذریعہ اسلامی معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے کام کیا جا تا ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ ایک کامیاب معاشرے کے لئے اس معاشرے کے تمام افراد کو اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔اور ایسا بھی نا ممکن ہے کہ ایک شخص تمام ذمہ داریاں اپنے سر لے لے ، تو بہترین و مناسب راستہ یہی ہے کہ ہر ایک اپنی دلچسپی اور صلاحیت کے اعتبار سے کچھ ذمہ داری لے اور اسے ادا کرے ،ان تمام ذمہ داریوں اور حکمت عملی پر نظر رکھنے کے لئے کسی ایک کا حاکم ہو نا ضروری ہے جو کہ تمام امور پر نظر رکھے۔تو یہ حاکم اگر صرف ظاہری حکومت کر رہا ہو تو وہ صرف حاکم ہو گا ۔ لیکن اگر خدا کی طرف سے منصوص ہو گا توحاکمیت کی تمام شرائط اس میں بدرجہ اتم موجود ہوں گی تو ایسے حاکم کو اسلام حاکم شرع کہتا ہے۔حاکم اسلامی کا کام یہ ہے کہ وہ امور مملکت کو سنبھالے اور ترقیاتی حکمت عملی کا خیال رکھے اسے ہی سیاست کہا جا تا ہے جس میں مملکت کی تمام ذمہ داریا ں شامل ہیں۔

سیاست کی ضرورت

سیاست اور امور مملکت ایسی چیزیں ہیں جن سے بچنا ممکن نہیں ہے اور اس کی ہمیشہ ضرورت ہے ، اور انسان ہر حال میں حکومت کا محتاج ہے،اسے مناسب حکمت عملی اور حسن تدبیر کی ضرورت ہے ، اس لئے کہ اسلامی معاشرے کی قیادت کے لئے ہر وقت کسی نہ کسی حاکم کا ہو نا ضروری ہے اب چا ہے وہ عادل ہو یا ظالم لیکن امور مملکت کا کو ئی چلانے والا ہو۔ چنانچہ خالق نہج البلاغہ حضرت علی ؑ فرماتے ہیں :’’و انہ لا بد للناس من امیر بر او فاجریعمل فی امرتہ المومن و یستمتع فیھا الکافرو یبلّغ اللہ فیھا الاجل، و یجمع بہ الفیءُ و یُقاتل بہ العدو،و تامن بہ السبل، و یو خذ بہ للضعیف من القوی حتیٰ یستریح بَرٌّ و یستریح من فاجر‘‘ ۸؂ کھلی ہو ئی بات ہے کہ نطام انسانیت کے لئے ایک حاکم کا ہو نا بہر حال ضروری ہے چاہے نیک کردار ہو یا فاسق ہو ،کہ حکومت کے زیر سایہ ہی مومن کو کام کرنے کا موقع مل سکتا ہے اور اس سے کا فر بھی مزے اڑا سکتا ہے ،اور اللہ ہر چیز کو اس کی آ خری حد تک پہنچا دیتا ہے ،اور مال غنیمت اور خراج و غیرہ بھی جمع کیا جا تا ہے ،دشمنوں سے جنگ کی جا تی ہے، راستوں کا تحفظ کیا جا تا ہے ،اور طاقتوروں سے کمزوروں کا حق لیا جاتا ہے،تاکہ نیک کردار انسان کو راحت ملے اور وہ بد کردار انسانوں سے بھی محفوظ رہیں ۔اس حدیث سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ ایک حاکم کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہ امور مملکت کو سنبھا لے اور مومنین اپنے حصے کی ذمہ داریاں ادا کریں ، اگر چہ وہ حاکم اسلامی نہ بھی ہو لیکن کم سے کم وہ لوگو ں کی روزانہ کی ذمہ داری تو ادا کررہا ہے اور مو منین اس کی حکومت کے سا ئے میں سکون و اطمینان سے تو رہ رہے ہیں، دشمنوں سے محفوظ تو ہیں ،اس سے معلوم ہو تا ہے کہ سیاست ہمارے لئے بہت ضروری ہے اور زندگی کے ہر مر حلہ میں اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ مو لا ئے کائنا ت ؑ فرما تے ہیں :’’لا مال اعود من العقل و لا عقل کالتدبیر‘‘۹؂ عقل مندی سے بہتر کو ئی مال نہیں ہے اور عقلمندی تدبیر و دور اندیشی کے بغیر نہیں ہو سکتی ہے ۔

سیاست کا دین سے تعلق

جیسا کہ عرض ہوا کہ دین کے اجتماعی قوانین کے نفاذ، اور اسلامی معاشرے کے تحفظ کے لئے ایک مذہبی حکومت کی ضرورت ہے اور اس حکومت میں اسلامی سیاست یعنی مناسب حکمت عملی کا ہونا نہایت ضروری ہے ۔جب حکومت مذہبی ہو گی تو اس کے اصول اور قوانین بھی اسلامی ہوں گے ، جب معاشرہ اسلامی ہو گا تو اس کے قوانین اور اس میں رہنے والے افرا د بھی اسلامی اصول زندگی پر عمل پیرا ہوں گے تو یہی اسلامی سیاست ہے ۔اسلامی سیاست صرف اسلامی حکومت میں ہی محدود نہیں ہے بلکہ جہاں بھی ہم اسلامی معاشرے کی ترقی کے لئے قدم اٹھا ئیں گے اور اس راہ میں جس حکمت عملی کوبھی عمل میں لا ئیں گے وہ سب اسلامی سیاست کے ہی دا ئرے میں آئے گی۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک نظریہ ہے کہ دین اور سیاست بالکل الگ الگ چیزوں کا نام ہے اور ان دونوں کا آپس میں کو ئی رابطہ نہیں ہے تو یہ نظریہ ’’سیکولرازم ‘‘’’Secularism‘‘کا ہے ،جسے اسلام باطل قرار دیتا ہے ،اس کے بر خلاف اسلام تھئیوکراسی ’’ Theocracy ‘‘یعنی مذہبی حکومت کاقا ئل ہے ،۱۰؂۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی نظر میں حکومت کا حق دیندار لوگوں کو ہے کہ جو اسلامی معیار پر حکومت کریں اور یہ ایک الہی فریضہ بھی ہے خود مولا ئے کائنات ؑ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔آپ ؑ نے زمام حکومت سنبھالنے کو ایک الہی فریضہ قرار دیا ہے ۔ لہذا جس وقت دنیا دوبارہ در علی ؑ پر آکر جھکی اور ہر شخص کی یہی آرزو اور خواہش تھی کہ حضرت علی ؑ ہی زمام حکومت کو سنبھال لیں تو آپ ؑ نے اس وقت حکومت کی ذمہ داری کو صرف اسی لئے سنبھا لہ کہ آپؑ حکومت کو ایک الہی فریضہ سمجھتے تھے اورا تمام حجت کے بعد آپ ؑ کی نظر میں اس کا قبول کر نا ہی مناسب تھا جس کی طرف خود آپ ؑ نے اشارہ فرمایا ہے کہ میں نے حکومت کو کسی دنیاوی لالچ یا لوگوں کے اصرار پر قبول نہیں کیا ہے، بلکہ اس وقت کا تقاضہ اور دینی فریضہ تھا اس لئے علی ؑ نے زمام حکومت کو سنبھالا ہے۔ چنانچہ آپ ؑ ارشاد فرماتے ہیں:’’اما و الذِی فلق الحبۃ و برا النسمۃ لو لا حضور الحاضِرِ و قِیام الحجۃِ بِوجودِ الناصِرِ و ما اخذ اللہ علی العلماِ ء الا یقاروا علیِ کظۃِ ظالِم و لا سغبِ مظلوم لالقیت حبلہا علی غارِبِہا و لسقیت آخِرہا بکاِسِ اولِہا و لالفیتم دنیاکم ہذِہِ ازہد عِندِی مِن عفطۃِ عنز۔۱۱؂ آگاہ ہو جا ؤ کہ وہ خدا کہ جس نے دا نہ کو شگافتہ کیا ہے ،اور ذی روح کوپیدا کیا ہے ، کہ اگر حاضرین کی موجودگی اور انصار کے وجود سے حجت تمام نہ ہو گئی ہوتی اور خداکا اہل علم سے یہ عہد نہ ہو تاکہ خبر دار ظالم کی شکم پری اور مظلوم کے فاقوں پر چین سے نہ بیٹھنا، تو میں آج بھی اس خلافت کی رسی کو اسی کی گردن پر ڈال کرہنکا دیتا اور اس کے آخر کو اول ہی کے کانسے سے سیراب کرتا۔ اور تم دیکھ لیتے کہ تمہاری دنیا میری نظر میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے قیمت ہے۔
علامہ جوادی ؒ فرماتے ہیں کہ اس میں مو لا ئے کا ئنات ؑ نے دو حقائق کی طرف اشارہ کیا ہے ،
۱۔ زمام حکومت کو سنبھالنا چونکہ ضروری امر اور حکم خدا وندی تھا اس لئے امور مملکت کو سنبھالا ، اور جس وقت چھوڑا تھا اس وقت بھی مصلحت یہی تھی اس لئے چھوڑ دیا ، اور آج چونکہ اتمام حجت ہو گیا ہے اور اب شرعی ذمہ داری آگئی ہے، تو خدا کے حکم کی اطاعت کرتے ہو ئے ’’علی ‘‘ نے زمام حکومت کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔
حضرت علی ؑ نے اسلامی حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کوایک عہد الہی ،اور شرعی ذمہ داری سے تعبیر کیا ہے اس لئے اسے پورا کر نے کے لئے حکومت کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اسلام مذہبی حکومت کا قائل ہے جس میں سیاست بھی اسی معنی میں استعمال ہو گی جو اسلام پیش کرتا ہے ،یعنی جب حکومت مذہبی ہو گی تب حکمت عملی بھی مذہبی معیار پر ہو گی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دین اور سیاست ایک دوسرے سے جدا ہونے وا لے نہیں ہیں، بلکہ مکمل طور پر ایک دوسرے سے مرتبط ہیں۔
۲۔ فرماتے ہیں کہ حکومت میری نگاہ مین زرہ برابر بھی اہمیت نہیں رکھتی ہے ، اور کبھی مجھے اس سے دلچسپی تھی ہی نہیںآج بھی جو امور مملکت کو سنبھالا ہے وہ صرف ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے ہے ۔ 
مولا ئے کا ئنات ؑ نے خلافت ظاہری اور امور مملکت کو الہی عہدے سے تعبیر کرتے ہو ئے امور مملکت کو سنبھالنے کو ایک دینی فریضہ کا رخ دیا ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت سنبھالنا بھی دین کا ایک حصہ ہے لیکن وہی حکومت کہ جو دینی معیار پر ہو۔

حوالہ جات:

۱۔نہج البلاغہ، عہد نامہ مالک اشتر ،نامہ ۵۳
۲۔ابن منظور ،لسان العرب،ج۶،ص۱۰۷ 
۳۔ امام علی ؑ مظلوم تاریخ ص ۴۵۵
۴۔نہج البلاغہ، خطبہ،۲۱۶
۵۔نہج البلاغہ ،حکمت۲۵۲
۶۔نہج البلاغہ خطبہ ،۳۱
۷۔غرر الحکم،۱۷
۸۔ نہج البلاغہ، خطبہ،۴۰
۹ ۔نہج البلاغہ ،حکمت، ۱۱۳
۱۰نہج البلاغہ تر جمہ الہی قمشہ ای ،خطبہ شقشقیہ
۱۱۔خطبۂ شقشقیہ ،ص ۴۲۔ترجمہ علامہ جوادی 
تحریر : سید محمد مجتبیٰ علی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button