نہج البلاغہ مقالات

امر بالمعروف نہی از منکر کی اہمیت

مقالہ نگار: سید سجاد نقوی

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

مقدمہ:

مولا علی علیہ السّلام نے فرمایا: لا تترکُوالامرا بالمعروف ِو النھی عن المنکر فیولّیٰ علیکم شرارُکم ثُمّ تدعون َفلا یستجابُ لکم۔ (۱)
ترجمہ: امر بالمعروف و نہی از منکر کو ترک نہ کرو کیونکہ (امر بالمعروف و نہی از منکر کو ترک کرنے کی صورت میں) شریر ترین لوگ تم پر مسلط ہو جائے گے پھر تم جو دعا بھی کرو گے مستجاب نہیں ہو گی۔

زندگی کے اجتماعی اور خوبصورت گلستان کو ہرا بھرا اور مہکتا ہوا رکھنا چاہیے تاکہ انسانوں کی نفسیات اور عواطف پاک اور سالم فضا میں پرورش پا سکیں اور اس مقصد کے لیے مختلف اور مفید طریقوں اور آلات کی مدد سے ایک طرف خوبصورت اور خوشبو دار پھول کاشت کیے جائیں اور ان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور دوسری طرف کانٹے دار جھاڑیوں اور اضافی جڑی بوٹیوں سے باغ کے ماحول کو صاف رکھا جائے اور اس اہم کام کو تمام مصلحان اور جامعہ بشری کے بارے میں اچھی فکر رکھنے والے افراد نے اچھی طرح سے درک کیا ہے اور اس سلسلے میں بہت سارے ماہرین نفسیات اور دانشمندان علوم تربیتی نے جو کاوشیں کی ہے وہ اسی دعویٰ کی تائید کرتی ہے کہ معاشرے کے لیے امر بالمعروف و نہی از منکر بہت ضروری ہے۔

البتہ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ جس متفکر اور مصلح نے دستوراتِ الھی سے ہٹ کر صرف اور صرف اپنی عقل پر اعتماد کرتے ہوئے جامعہ بشری میں اصلاح کی کوشش کی ہے وہ اپنے ابتدائی مراحل میں ہی ناکام ہو ہے چونکہ پھولوں کو لگانا اور کانٹو ں کو اکھاڑنا با الفاظ دیگر امر بخوبیھا اور نہی از بدیھا اور سرے سے خوب اور بد کے مصداق کی تعیین کرنا ایک ایسی عقل و فکر کا محتاج ہے کہ جو عام انسانی فکر سے بہت بالاتر ہو تاکہ انسان کے وجود میں تمام ابعاد اور جھات کو مد نظر رکھتے ہوے امر و نہی کے مصداق کو معین کرئے۔ ادیان الہٰی میں اور خاص طور پر اسلام میں یہ اہم کام امر بالمعروف و نہی از منکر کے عنوان کے تحت مشخص شدہ ہے اور معروف اور منکر کو بھی شارع مقدس نے معین کر دیا ہے یعنی معاشرہ کے افراد پر ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو ان اچھائیوں کی کے جن کا شارع نے امر کیا ہے تلقین کریں اور ان برائیوں سے کہ شارع نے جن کے بارے میں نہی کی ہے منع کریں۔

یہ فریضہ معاشرے کی فضا کو سالم اور پاک رکھنے اور نیک اور مہذب انسان تربیت کرنے کے لیے ایک مضبوط ستون کی حیثیت رکھتا ہے اسی وجہ سے ہمارے مذہبی پیشوائوں نے اس واجب الہیٰ کو بہت اہمیت دی ہے اور اپنے قول و فعل نے اس پر بہت زیادہ تاکید کی ہے یہاں تک کہ امیرالمومنین علی علیہ السلام ان دو فرائض اسلامی کو جھاد اور تمام نیک اعمال سے بالاتر قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’وما اعمال البّرِ کُلُّھا والجھادُ فی سبیل اﷲ عند الامر بامروف و النھی عن المنکر الّا کنفثتِِ فی بحرِِ لجّیِِ‘‘ (۲)
ترجمہ: اعمال نیک حتیٰ جھاد در راہ خداامر بالمعروف و نہی از منکرکے مقابلے میں ایک وسیع و عریض سمندر کے مقابلے میں ایک قطرے کی مانند ہیں۔

چونکہ در حقیقت امر بالمعروف و نہی از منکر انسان کے اپنے مکتب سے عشق کی علامت ہے امر بالمعروف معاشرے کی سلامتی سے متعلق انسان کی ہمدردی وفاداری اور دلچسپی کی علامت ہے امر بالمعروف تمام واجبات کے نفاذ کی ضمانت ہے اور نہی از منکر تمام محرمات کے ترک کی ضمانت ہے امر بالمعروف جاہل انسانوں کو متوجہ کرنا اور نہی از منکر بدکرداروں کا قافیہ حیات تنگ کرنا ہے خاموش معاشرہ ایک مردہ معاشرہ ہے اور خاموش انسان ایک سانس لینے والے جماد کی مانند ہے۔ اس واجب کے بارے میں تاکید درجہ اوّل میں کتاب خدا اور اس کے بعد کلام رسول خدا ﷺ اور اس کے بعد دوسرے معصومین علیہم السّلام کے کلاموں میں شدّت کے ساتھ نظر آتی ہے البتہ چونکہ اس مقالے کا عنوان امر بالمعروف و نہی از منکرکی اہمیت حضرت علی علیہ السّلام کی نگاہ میں ہے لھٰذا فقط کلمہ معروف و منکر کی مختصر تشریح اور قرآن میں اس واجب سے متعلق موجود آیات کی طرف اشارہ کرتے ہوے کلام امام علیؑ کی روشنی میں اس فریضے کی اہمیت کو جانچنے کی کوشش کی جائے گی۔

کلمہ معروف اور منکر کے بارے میں تحقیق:

معروف کا معنی راغب اصفہانی کے قول کے مطابق ہر وہ کام جس کی اچھائی عقل و شرع کے وسیلے سے معلوم اور مشخص ہو اور یہ کلمہ قرآن میں بھی استعمال ہوا ہیں ’’قول معروف ومغفرۃ خیرمن صدقۃِِ یتبعُھا اذی ً ‘‘ (۳)
ترجمہ: نرم کلامی اور در گذر کرنا اس خیرات سے بہتر ہیں جس کے بعد خیرات لینے والے کو اذیت دی جا ئے۔

مرحوم علامہ طباطبائیؒ تفسیر المیزان میں فرماتے ہیں کہ ’’معروف وہ ہے جسے لوگ رائج زندگی اجتماعی سے حاصل شدہ ذوق کے ذریعہ سے اچھا سمجھیں‘‘۔
منکر: منکر زشت اور بد کے معنی میں ہے، یا ہر وہ چیز جس کو عقل او ر شرع نے مذموم شمار کیا ہے وہ منکر کہلاتی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں بھی آیا ہے ’’یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر‘‘ (۴)
ترجمہ: نیک کاموں کاحکم دیتے ہیں اور برے کاموں سے منع کرتے ہیں۔

پس بطور خلاصہ معروف کا معنی ایسی چیز کہ جس کو عقل اور فطرت پاک نے نیک شمار کیا ہو اور منکر کا معنی وہ چیز جسے عقل اور فطرت پاک نے بد شمار کیا ہو۔
امر بالمعروف و نہی از منکرکی اہمیت قرآن کی رو سے: قرآن کریم کی متعدد آیات خصوصاً امر بالمعروف و نہی از منکرکے لئے آئی ہیں۔

ان آیات میں غور کرنے سے پتاچلتا ہے کہ اس اہم فریضہ کو شریعت مقدسہ میں قرار دینے کے لئے خاص ترتیب اور سیر تدریجی کا لحاظ رکھا گیا ہے جیسا کہ بہت سارے اہم احکام کہ جو خدا نے پیامبر اکرم ﷺ پر نازل فرمائے ہیں اسی تدریجی روش کو اپنایا ہے یعنی اس موضوع سے متعلق آخری حکم فوراً پہلی ہی آیت میں بیان نہیں ہوتا بلکہ پہلے زمینہ سازی کی جاتی ہے اور افکار عمومی کو اس حکم کے لئے آمادہ کیا جاتا ہے اور پھر آخری حکم نازل ہوتا ہے جیسا کہ حرمت شراب اور اسی طرح کے دیگر مسائل میں اسی روش سے استفادہ ہوا ہے۔

امر بالمعروف و نہی از منکر بھی قرآن میں اسی روش اور ترتیب تدریجی کے ساتھ بیان ہوا ہے یہاں اختصار کے ساتھ اس روش کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

اس سلسلہ میں آیات کو دو دستوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
دستہء اوّل: وہ آیات جو مکّہ میں نازل ہوئی ہیں اور اس اہم فریضہ کے لئے زمینہ سازی کا کام کرتی ہیں جیسا کہ سورئہ والعصر جو مکّہ میں آغاز بعثت کے وقت نازل ہوا اسی مطلب پر دلیل ہے جس میں خدا فرما رہا ہے قسم ہے عصر کی کہ انسان خسارے میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کرتے رہے اس سورئہ مبارکہ میں حق اور صبر کی وصیّت کرنا اسی فریضہ کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ تفسیر مجمع البیان میں شیخ طبرسیؒ نے فرمایا ہے کہ: ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنے کا وجوب امر بالمعروف و نہی از منکر کی طرف اشارہ ہے۔ (۵)

یا ایک اور آیت جو مکہ میں نازل ہوئی: خذ العفو و امر بالعرف و اعرض عن الجاھلین۔ (۶)
ترجمہ: (اے محمدﷺ) در گذر سے کام لیں نیک کاموں کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جائیں۔

دستہء دوم: وہ آیات کہ جو صراحتاً امر بالمعروف و نہی از منکر کو مسلمانوں پر واجب قرار دیتی ہیں جیسا کہ آیت:

ولتکن منکم امّتٌیدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر و اولئٰک ھم المفلحون (۷)
ترجمہ: اور تم سے ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہئے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔

مفسّرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی اور دو جہت سے امر بالمعروف و نہی از منکر پر دلالت کرتی ہے۔

۱۔ کلمہ ولِتَکْن امر ہے جو وجوب پر دلالت کرتا ہے۔
۲۔ اولئٰک ھم المفلحون دلالت کرتا ہے کہ کامیابی اسی کام میں منحصر ہے۔

اسی طرح آیت: کنتم خیر امّتِِ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر و تومنون باللہ (۸)
ترجمہ: تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی اصلاح کے لئے پیدا کئے گئے ہو تم نیکی کا حکم دیتے اور برائیو ں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

الغرض قرآن مجید میں امربالمعروف و نھی از منکر کو بہت زیادہ اہمیّت کا حامل فریضہ قرار دیا گیا ہے۔

امر بالمعروف و نہی از منکرکی اہمیت علی علیہ السّلام کی نگاہ میں:

امیر المئومنینؑ کے کلام میں مر بالمعروف و نہی از منکر کی بہت زیادہ اہمیت بیان ہوئی ہے۔
حضرت علی علیہ السّلام خطبہ قاصعہ میں فرماتے ہیں کہ خدا نے گزشتہ امّتوں پر اسی وجہ سے لعنت بھیجی کہ انھوں نے امر بالمعروف و نہی از منکر کو ترک دیا تھا۔ (۹)

اسی طرح امیر المئومنینؑ کا وہ فرمان جو سر مقالہ میں ذکر کیا گیا ہے بخوبی امر بالمعروف کی اہمیت کو واضع کرتا ہے فرمایا: اگر تم لوگ امر بالمعروف و نہی از منکر کو ترک کر دو گے تو بُرے لوگ تم پر مسلط ہو جائیں گے اور پھر تمہاری آہ و فریاد کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ (۱۰)

اس مضمون کی بہت ساری دیگر روایات بھی ملتی ہیں کہ جن میں آیا ہے کہ امر بالمعروف و نہی از منکر انجام دیتے رہو تاکہ یہ دو واجب باقی رہیں چونکہ اگر امر بالمعروف و نہی از منکر (معاشرے میں) موجود نہ ہوں تو بدکار اور بُرے لوگ تم پر مسلط ہو جائیں گے اور پھر تمہاری طلب کا جواب نہیں دیا جائے گا۔ یا بعض لوگ اس طرح معنی کرتے ہیں کہ بدکردار لوگوں کے مسلط ہونے کے بعد تمہارے نیک لوگ درگاہ خدا میں دعا و راز و نیاز کریں گے اور خدا ان کی دعا قبول نہیں کرے گا۔

پس ان احادیث سے پتا چلتا ہے کہ وہ قوم و ملّت کہ جو امر بالمعروف کو چھوڑ دیتی ہے اور اپنی کام سے کام رکھتی ہے اس کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ خداوند بھی ان کو اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے اور اس عظیم گناہ کے سبب وہ خدا کے حضور میں جتنی دعا بھی کرے ان کی دعا مستجاب نہیں ہوتی اور وہ گمراہی کے اندھیروں میں بٹھکتے رہتے ہیں۔ امام غزالیؒ نے اس جملہ (فیدعوا خیارکم فلا یستجابُ لھم) کا ایک لطیف اور ظریف معنی کیا ہے۔

وہ فرماتے ہیں کہ ’’مراد یہ نہیں ہے کہ وہ خدا سے دعا کریں گے اور خدا ان کی دعا قبول نہیں کرے گا بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب لوگ امر بالمعروف و نہی از منکر کو چھوڑ دیں گے تو وہ اس قدر پست ہو جائیں گے اور ان سے عزت و کرامت اس قدر ختم ہوجائے گی کہ جب وہ ان ہی ستم کاروں (جو ان پر مسلط ہوں گے) کی بارگاہ میں جائیں گے اور ان کے سامنے جتنی فریاد و آہ و بکا کریں گے وہ ان سے بے اعتنائی برتیں گے‘‘۔

اسی لیے پیامبر اکرم ﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ ’’اگر چاہتے ہو کہ تمہاری عزت اور شرف برقرار رہے اور دوسرے تمہاری ارزش اور احترام کے قائل ہوں تو امر بالمعروف و نہی از منکر کو نہ چھوڑو (چونکہ ) اگر امر بالمعروف و نہی از منکر کو انجام نہیں دو گے تو اس کی پہلی خصوصیت تمہاری کمزوری اور خواری کی صورت میں ظاہر ہوگی اور تمہارے لیے ارزش و احترام نہیں ہوگا اس وقت ایک غلام و عبد کی طرح جتنی بھی التماس کرو گے تمہیں جواب نہیں دیا جائے گا‘‘۔

امر بالمعروف و نہی از منکر کی اہمیت کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ در حقیقت یہ فریضہ مہم تمام انبیاءؑ کی بعثت کا ہدف اور مقصد اصلی تھا اور یہ فریضہ تمام ادیان اور مذاہب میں چکی کے کیل کی حیثیت رکھتا ہے اور تمام امور اسی کے گرد گردش کرتے ہے اور اس فریضہ سے غفلت اور سستی کی صورت میں ملتیں اور امتیں نابود ہو جاتی ہیں اور صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں اور ان کا فقط نام باقی رہ جاتا ہے۔

طول تاریخ میں ہر زمانے اور ہر دور میں مصلحان اور خیر اندیشان اس فریضہ کو انجام دینے کے لیے قیام کرتے رہے ہیں اور اس کی عمدہ مثال نہضت امام حسین علیہ السلام ہے کہ امام نے جامعہ اسلامی میں منکرات کے رواج پانے اور واجبات کے ترک کرنے کے خطرے کے سبب قیام کیا اور اس اہم کام کے لیے اپنا سب کچھ خرچ کر دیا۔

شرائط امر بالمعروف و نہی از منکر:

ان دو فریضہ الہیٰ کے قیام کے لیے چند شرائط ہے جو فقہی کتابوں میں درج ہیں لیکن یہاں امیرالمئومنین علیہ السلام کے کلام کی روشنی میں ان دو فرائض کی شرائط بیان کی جائیں گی۔

(۱) علم و آگاہی: اس میں شک نہیں ہے کہ کسی بھی حکم شرعی کا امر کرنے یا نہی کرنے کے لیے علم و آگاہی شرط اوّل ہے چونکہ علم و آگاہی کے بغیر امر و نہی کرنا نہ صرف ہدایت کا موجب نہیں بنتا بلکہ الٹا گمراہی کا سبب بنتا ہے امام علیؑ اس شرط کے بارے میں فرماتے ہیں۔ ’’الیٰ اللہ اشکوا من معشر یعیشون جہالا ًویموتون ضلالًا لیس فیہم سلعۃابور منَ الکتاب اذا تلی حقّ تلاوتہ ولا سلعۃ انفق بیعًا ولا اغلیٰ ثمناً من الکتاب اذا حرّف عن مواضعہ ولاعند ہم انکر من المعروفِ ولااعرفُ من الْمنکر‘‘ (۱۱)
ترجمہ: خدا کی بار گاہ میں ان لوگوں سے شکوہ کرتا ہوں جو زندہ رہتے ہیں تو جہالت کے ساتھ اور مرتے ہیإ توگمراہی کے ساتھ ان کے نزدیک کوئی متا ع کتاب خدا سے زیادہ بے قیمت نہیں ہے اگر اسکی واقعی تلاوت کی جاے اور کو ئی متاع اس کتاب سے زیادہ قیمتی نہیں ہے اگر اس کے مفاہیم میں تحریف کردی جاے ان کے لیے کوئی چیز معروف سے زیا دہ نا شناختہ اور بد نہیں ہے اورکوئی چیز منکر سے زیا دہ آشنا تر اور پسندیدہ نہیں ہے۔

(۲) ہماہنگی حرف و عمل: امر بالمعروف و نہی از منکر کی ایک شرط انسان کے قول و فعل میں ھماھنگی ہونا ہے۔ وہ لوگ جو دوسروں کو نیکیوں کا امر اور بُرایئوں سے منع کرتے ہیں ان کی بات اس وقت زیادہ مؤثر ہے جب وہ خود بھی جو کچھ کہتے ہیں عمل کرتے ہیں۔

امامؑ نہج البلاغہ کی مختلف جگہوں میں فرماتے ہیں کہ ’’و انہوا عن المنکر و تناہو اعنہ فانّما امرتم با لنہی بعدالتناہی‘‘۔ (۱۲)
ترجمہ۔ دوسروں کو منکر (برے کاموں) سے روکو اورخود بھی اسے دوری اختیار کرو۔ چونکہ نہی از منکر اس وقت انجام دے سکتے ہو جب خود اس منکر سے دوری اختیار کرو۔

دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ ’’لعن اللہُ الآمرین بالمعروف التارکین لہ والناہین عن المنکرالعاملین بہ‘‘۔ (۱۳)
ترجمہ۔خداکی لعنت ان لوگوں پر کہ جو امر بالمعروف تو کرتے ہیں لیکن خود بجا نہیں لاتے اور نہی از منکر تو کرتے ہیں لیکن خود انجام دیتے ہیں۔

(۳) نامناسب محیط: بہت سارے لوگ مومن ہوتے ہیں لیکن ایک خاص محیط اور ماحول کے زیر اثر اپنے عقائد اور اعمال اس ماحول کے مطابق ڈھال دیتے ہیں اگرچہ معروف و منکرکو اچھی طرح جانتے ہیں لیکن دوسروں کی طرف سے ملامت کے ڈر سے ان کو امر و نہی نہیں کرتے۔

امام علیؑ معروف و منکر انجام دینے والوں کو متوجہ فرما رہے ہیں کہ ماحول نامناسب ہونے کے باوجود امر بالمعروف و نہی از منکر سے کنارہ کشی اختیار نہ کرو۔ فرمایا کہ امر بالمعروف کرو تاکہ ناگزیر اھل امر باالمعروف ہو جاؤ اور اپنے ہاتھ اور زبان کے ذریعے نہی از منکرکی راہ میں کوشش کرو اور اپنی سخت محنت کے ذریعے جو منکر کو انجام دے اس سے دوری اختیار کرؤ اور راہ خدا میں اس طرح سے جہاد کرو کہ جیسا جہاد کرنے کا حق ہے اور راہ خدا میں ملامت کرنے والے کی ملامت تم پر اثر نہ کے۔ (۱۴)

امر بالمعروف و نہی از منکر کے درجات: یہ بات تو مسلم ہے کہ امربالمعروف و نہی از منکر مکان و زمان اور افراد کے لحاظ سے مختلف درجات رکھتے ہیں کبھی ضروری ہوتا ہے کہ جنگ اور مبارزہ کے ساتھ امر بالمعروف و نہی از منکر کیا جائے اور کبھی ہاتھ اور زبان سے اور کبھی صرف دلی نفرت کے ذریعہ اقدام کیا جائے امامؑ فرماتے ہیں کہ اپنے ہاتھ اور زبان کے ذریعہ نہی از منکر کرو۔ (۱۵)

ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگ اپنے ہاتھ و زبان اور دل کے ذریعہ سے منکرات کا انکار کرتے ہیں ایسے لوگ خیر کے تمام شعبوں کے مالک ہے اور بعض لوگ صرف زبان اور دل سے انکار کرتے ہیں اور ہاتھ سے روک تھام نہیں کرتے ایسے لوگ نیکی کی دو خصلتوں کو حاصل کرتے ہیں اور ایک خصلت کو ضائع کرتے ہیں اور ایک تیسرا گروہ صرف کے ذریعہ نہی از منکر کرتے ہیں اور ہاتھ و زبان کو استعمال میں نہیں لاتے ان لوگوں نے دو اچھی اور اہم ترین خصوصیات کو ضائع کیا ہے اور صرف ایک خصوصیت پر اکتفا کیا ہے اور ان کے درمیان ایک ایسا گروہ بھی ہے جو ہاتھ، زبان اور دل کسی سے بھی برائیوں کا انکار نہیں کرتے یہ لوگ چلتے پھرتے مردہ ہیں کہ جن کی زندگی کا کوئی فائد ہ نہیں ہے۔ (۱۶)

نتیجہ:
الغرض امر بالمعروف کی اہمیت کے لیے اتناہی کافی ہے کہ علماء نے اس کی عملی اہمیت اور واجبات میں سے ہونے کی بناء پر اسے فروع دین میں سے شمار کیا ہے ۔شہید ثانیؒ فرماتے ہیں کہ ’’امر باالمعروف و نہی از منکر کے بارے میں آیات و روایات اتنی زیادہ ہیں کہ کمر شکن ہیں‘‘۔(۱۷)

امر باالمعروف و نہی از منکر کے ذریعے معاشرہ کے اندرونی مشکلات کو حل کر کے بیرونی دشمن کے ساتھ مقابلہ کیا جا سکتا ہے حقیقت میں اگر ہم لوگ اپنے آپ سے چوکس اور ہوشیار رہیں اور لوگ باہر سے ہمارے بارے میں محتاط رہیں اور مجموعی طور سے ایک فعال سیاسی نظام لوگوں کی خوبیوں اور نیک اعمال کی حوصلہ افزائی اور برے کاموں سے روکنے کی ذمہ داری سنبھالے تو ہم سے اچھی امت بن سکتے ہیں۔

خدا ہمیں امر با المعروف و نہی از منکر کرنے والوں میں سے قرار دے آمین۔

حوالہ جات

۱:۔ نہج البلاغہ۔ نامہ ۴۷
۲:۔ نہج البلاغہ کلمات قصار ۳۷۴
۳:۔ سورہ بقرہ آیہ ۲۶۳
۴:۔ سورہ توبہ آیت ۷۱
۵:۔ تفسیر مجمع البیان جلد ۱۰صفحہ ۵۳۶
۶:۔ سورہ اعراف آیہ۱۹۹
۷:۔ سورہ آل عمران آیہ ۱۰۴
۸:۔ سورہ آلِ عمران آیہ ۱۱۰
۹:۔ نہج البلاغہ خطبہ ۹۳
۱۰:۔ نہج البلاغہ خط ۴۷
۱۱:۔ نہج البلاغہ خطبہ۷
۱۲:۔ نہج البلاغہ خطبہ۱۰۵
۱۳:۔ نہج البلاغہ خطبہ۱۲۹
۱۴:۔ نہج البلاغہ نامہ۳۱
۱۵:۔ نہج البلاغہ نامہ۳۱
۱۶:۔ نہج البلاغہ کلمات قصار ۳۷۴
۱۷ـ:۔ گفتار ماہ صفحہ ۸۰

سید سجاد نقوی (پاکستانی)
مدرسہ علمیہ امام خمینیؒ قم المقدسہ ایران

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button