نہج البلاغہ مقالات

عورت کا مقام

مقالہ نگار: زیبا زہرا زیدی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آئین اسلام میں عورتوں کا خاص احترام کیا گیا ہے اور اسلام عورتوں کے متعلق بہت محبت و شفقت آمیز نظریہ رکھتا ہے حتی یہ کہ تمام دستورات و احکام اسلامی بھی اس بات کی حمایت کرتے ہیں۔ البتہ بعض لوگوں کا دعویٰ یہ ہے کہ عورتوں کو مرد سے زیادہ پست مایہ سے خلق کیا گیا ہے یا بعض دوسرے لوگوں کا گمان یہ ہے کہ عورت ایک طفیلی اور عارضی موجود ہے۔

اسلام کی تشبیہ و تعبیر عورت کے بارے میں ایک پھول جیسی ہے کہ اس کی خوشحالی اور شادابی دوسروں کو خوشحال کرتی ہے اور اس کی اچھی خوشبو انسان کو معطر کرتی ہے اسلام ان اقوام و ادیان کے برخلاف (کہ جن کی کوشش یہ رہی ہے کہ عورتوں کو بری تشبیہ وتعبیر سے یاد کریں) عورتوں کی بہت اچھی تشبیہ بیان کرتا ہے۔

کبھی قرآن عورتوں کو دو بہت ہی زیادہ گرانبھا گوہر یعنی یاقوت و مرجان سے تعبیر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ کانھن الیاقون والمرجان [1] اور کبھی عفت کے غلاف میں چھپی عورتوں کی موتی سے تشبیہ دیتا ہے کہ جو اپنے صدف میں چھپی ہوئی ہیں کامثال اللولئو والمکنون [2] اسی طرح بہشت کی حوروں کی توصیف میں بھی ان کو پاکدامن عورتوں سے تشبیہ دی جاتی ہے جیسا کہ نہج البلاغہ میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ امام علیؑ نے عورتوں کو پھول سے تعبیر کیا ہے فان المرأۃ ریحانۃ [3] عورت ایک پھول کی مانند ہے۔

خلاصہ یہ کہ عورتوں کی شان کے بر خلاف ہے کہ اگر وہ خود کو یاقوت و مرجان یا موتی ہونے کی حالت سے خارج کر کے بے پردہ معاشرے کے سامنے پھرے کیونکہ یاقوت و مرجان کا اپنے خزانے میں ہونا یا موتی کا اپنے صدف میں ہونا ان کی اہمیت کو کم نہیں کرتا بلکہ ان کی اہمیت میں اضافہ کرتا ہے۔

البتہ جہاں اسلام میں عورتوں کی تعریف کی گئی ہے اور ان کیلئے اچھی تشبہ اور اچھے کنایہ کا استعمال کیا گیا ہے وہیں بری اور بدکردار عورتوں کی مذمت بھی بیانکی گئی ہے البتہ وہ مذمت ایک کلی مذمت نہیں ہے بلکہ در حقیقت وہ کسی خاص چیز کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ امام علیؑ نے 79 خطبہ میں ارشاد فرمایا ہے کہ و من کلام لہ بعد فراغہ من الجمل فی ذم النساء معاشر الناس ان النساء نواقص الایمان [4] جنگ جمل سے فراغت کے بعد عورتوں کی مذمت کے بارے میں فرمایا ”لوگوں! یاد رکھو کہ عورتیں ایمان کے اعتبار سے ناقص ہوتی ہیں“۔

استاد علامہ جعفری اس کالم کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہاں پر اس نقص سے مراد کہ جس کو امامؑ نے اپنے جملات میں بیان کیا ہے انسانی ارزش کا کم ہونا نہیں ہے بلکہ یہاں پرنقص سے مراد نقص کمی ہے نہ نقص کیفی کہ جس طرح مرد بھی اپنی خلقت میں عورتوں کے مقابلے میں بہت سی چیزوں سے محروم و ناقص ہیں۔ پس ایمان کا نصف اس بنا پر نہیں ہے کہ عورتیں ایام حیض میں نماز و روزہ ترک کرتی ہیں۔

البتہ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ نماز و روزہ کا ترک کرنا ایمان کی ضعیفی کا سبب ہے لیکن اس جگہ پر جہاں انسان مالک کے حکم سے سر پیچی کریں، البتہ اگر خود مالک نے ترک نماز و روزہ کا حکم دیا ہو تو اس جگہ پر نماز و روزہ کا ترک کرنا ہی عین عبادت ہے اور اسی طرح فرائض اسلامیہ بھی مردوں سے 6 سال پہلے عورتوں پر عائد ہوتے ہیں کہ یہ عورتوں کے نقص ایمان کا جبران [5] کرتا ہے اور اسی طرح اس خطبہ میں آگے امام علیؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ نواقص الحظوظ یعنی عورتیں میراث کے اعتبار سے ناقص ہیں اور در حقیقت میراث میں نقص کا مسئلہ صرف بہن بھائی کی میراث تک محدود ہے کہ مرنے کے بعد اولاد میں بھائی کا حصہ بہن سے زیادہ ہوتا ہے، ورنہ دوسرے مسائل میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے اور بعض اوقات کوئی قانون نہیں ہے حتیٰ بعض اوقات تو عورت کا حصہ مرد سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔ [6]

اسی خطبہ میں ہی امام فرماتے ہیں نواقص العقول کہ در حقیقت عورتوں کی عقل ناقص ہوتی ہے۔

عورتوں کا ناقص العقل ہونا ہی مردوں کے مقابلے میں ہے۔ لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ نقص سے مراد یہاں ارزش کا کم ہونا نہیں ہے کہ جس طرح سے حاملگی میں عائد ہونے والے بعض شرائط عورتوں کی ارزش کو کم نہیں کرتے ہیں اس مطلب کے اثبات کیلئے ہم قرآن سے دلیل پیش کریں گے کہ سورہ بقرہ کی آیت 282 میں خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ: اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ بناؤ اور اگر مرد نہ ہو تو ایک مرد اور دو عورتیں ایک بہکنے لگے تو دوسری یاد دلائے۔

اس آیہ کریمہ میں اصل مسئلہ عورتوں کے متعلق یاد آوری کا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلائے اور چونکہ عورتوں کے مزاج میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے جذبات کو واقعات کے بیان میں شامل کر لیتی ہیں اور یہی چیز گواہی میں نقص پیدا کردیتی ہے، ورنہ درک و شعور کے اعتبار سے وہ ناقص نہیں ہوتی، اس کا نقص عقل پر جذبات کے غلبہ سے ظاہر ہوتا ہے اور یہی وہ چیز ہے کہ جو مرد کو بھی ناقص العقل بنا سکتی ہے کہ اگر وہ اپنے فسق کی بنا پر شہادت دینے سے محروم ہوجائے تو بھی ناقص العقل ہوں گے۔ [7] کیونکہ فسق کی تعلیم جذبات نے دی ہے نہ کہ عقل نے۔

اس خطبے میں اس نکتہ پر نظر رکھنا ضروری ہے کہ یہ جنگ جمل کے بعد ارشاد فرمایا گیا ہے یعنی اس خطبہ کے مفاہیم پر جس طرح کلیات کا اثر ہے ویسے ہی تجربات اور صورت حال کا اثر بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ لازم نہیں ہے کہ اس خطبے کے مفاہیم کا اطلاق مطلقاً ہر عورت پر ہو۔ کیونکہ دنیا میں ایسی عورت بھی ہو سکتی ہے کہ جس پر نسوانی عوارض کا غلبہ نہ ہو اور وہ ان سے پاک ہو تو وہ نص قرآن کے اعتبار سے تنھا گواہی بھی دے سکتی ہے اور اپنے باپ کی تنہا وارث بھی بن سکتی ہے جیسے جناب فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیہا اور ایسی عورت بھی ہو سکتی ہے کہ جس میں سارے نقائص پائے جاتے ہوں۔

تو یہاں پر قوانین کا دارو و مدار نہ قسم اول پر ہے اور نہ ہی قسم دوم پر بلکہ جس میں کسی طرح کا امتیاز نہ پایا جاتا ہو اور فطرت نسوانی کی کارفرمائی ہو اور مولا علیؑ نے بھی اسی قسم کے بارے میں فرمایا ہے اور یہ کلام امام تنہا غیض و غضب کی بنا پر نہیں ہے ورنہ ان مردوں کے بارے میں بھی ارشاد فرماتے کہ جنھوں نے ام المومنین کی پیروی کی اور اس کو بھڑکایا درحالیکہ امام علیؑ معصومین میں سے ہیں اور جذبات سے کلام نہیں کرتے۔ البتہ یہ کہنا مناسب ہے کہ درست موقع آنے پر عورت کی پیروی کے نتائج سے باخبر کیا اور اسی طرح امیر المومنینؑ اپنے دوسرے خطبہ نمبر31 میں ارشاد فرماتے ہیں:

’’خبردار عورتوں سے مشورہ نہ کرنا کہ ان کی رائے کمزور اور ان کا ارادہ سست ہوتا ہے انہیں پردے میں رکھ کر ان کی نگاہوں کو تاک جھانک سے محفوظ رکھو کہ پردے کی سختی ان کی عزت وآبرو کو باقی رکھنے والی ہے، اور ان کا گھر سے نکل جانا غیر معتبر افراد کے اپنے گھر میں داخل کرنے سے زیادہ خطرناک نہیں ہے،طاگر ممکن ہو کہ وہ تمہارے علاوہ کسی کو نہ پہچانیں تو ایسا ہی کرو اور خبردار انہیں ان کے ذاتی مسائل سے زیادہ اختیارات نہ دو۔ اس لئے کہ عورت ایک پھول ہے اور حاکم و متصرف نہیں ہے اس کے پاس و لحاظ کو اسکی ذات سے آگے نہ بڑھاؤ اور اس میں دوسروں کی سفارش کا حوصلہ پیدا ہونے دو۔ دیکھو خبردار غیرت کے مواقع کے علاوہ غیرت کا اظہار مت کرنا کہ اس طرح، اچھی عورت بھی برائی کے راستے پر چلی جائے گی اور بے عیب بھی مشکوک ہو جائے گی“۔ [8]

مولاؑ کے اس کلام میں مختلف احتمالات پائے جاتے ہیں [9]

پہلا احتمال: یہ ہے کہ یہ اس دور کے حالات کی طرف اشارہ ہے کہ جب عورتیں 99 فیصد جاہل ہوا کرتی تھیں اور ظاہر ہے پڑھے لکھے انسان جاہل سے مشورہ کرنا نادانی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

دوسرا احتمال: یہ ہے کہ اس میں عورت کی جذباتی فطرت کی طرف اشارہ ہے کہ اس کے مشورہ میں جذبات کی کارفرمائی کا خطرہ زیادہ ہے لہذا اگر کوئی عورت اس نقص سے بلند تر ہو جائے تو اس سے مشورہ کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔

تیسرا احتمال:یہ ہے کہ اس میں ان مخصوص عورتوں کی طرف اشارہ ہے کہ جن کی رائے پر عمل کرنے سے عالم اسلام کا ایک بڑا حصہ تباہی کے گھاٹ اتر گیا ہے اور آج تک اس تباہی کے اثرات دیکھے جارہے ہیں۔ [10]

اور امامؑ نے جو اپنے قول میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ’’المرأۃ ریحانۃ‘‘ اس معنی میں استعمال ہوا ہے کہ عورت ایک خوشبو کی گھاس (ریحان) کے مانند ہے اور شاید عورت کو ریحان سے تعبیر کرنا عربستانی عورتوں کی طرف کنایہ ہو کہ جو بہت زیادہ عطر استعمال کرتی ہیں اور تھیں۔ عورت ایک نرم و نازک موجود ہے اس کا خیال رکھنا ضروری ہے اور دوسری طرف یہ کہ عورت ایک قیمتی جنس ہے کہ جو لوگوں کے حملہ سے محفوظ نہیں ہے اور اسی بنا پر امامؑ نے اس کے پردے کے بارے میں بہت تاکید کی ہے کہ اس طرح اجتماع میں بھی محفوظ رہے گی اور گھر میں بھی ان افراد سے رابطہ نہ رکھے کہ جو مورد اطمینان نہیں ہیں۔ کیونکہ ممکن ہے کہ شیطانی چنگل میں پھنس جائے کیونکہ شیطان کا پہلا جال ہی نامحرم کی نگاہ ہے۔ [11]

امامؑ نے جس کی طرف حجاب کی تاکید کے ذریعہ توجہ فرمائی ہے اسلام مخلوط زندگی کی اجازت نہیں دیتا کہ رسول خدا ﷺ نے مسجد میں ایک دروازہ عورتوں کے خارج ہونے کیلئے معین کیا تھا اور فرمایا تھا کہ نماز کے بعد پہلے عورتیں نکلیں۔ تمام باتوں کے بعد اصلیت و حقیقت یہی ہے کہ عورتوں کی شرافت پر آنچ نہ آئے۔ [12]

اسی طرح مولا علیؑ عورتوں کی صفات بیان کرتے ہوئے خطبہ 79 میں ارشاد فرماتے ہیں: (عارضی صفات یعنی وہ صفات کہ جو انسان کی ذات کا جز نہیں ہیں بلکہ الگ سے کبھی کبھی انسان پر عارض ہوتی ہیں اور اس کے ذیل میں امام علیؑ عورتوں کی تین عارضی صفات کو بیان کرتے ہیں) کم فکری، ایمان کی کمی، اور مال سے استفادہ کی کمی (جیسا کہ پہلے ہی اس مطلب کی طرف اشارہ ہو چکا ہے) اور یہ صفات عورت کی ذات میں نہیں ہے بلکہ مدرسہ، گھر، وغیرہ جیسے ماحول سے یہ صفات عورت میں ظاہر ہوتی ہیں اور یہ صفات عام نہیں ہیں کیونکہ ذاتی نہیں ہے اس لئے ضروری نہیں ہے کہ یہ صفات دنیا کی ساری عورتوں میں پائی جائے۔

البتہ امام خود آگے کے خطبہ میں ان صفات کو اپنے سے دور کرنے کی راہوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ”عورتوں والی فکر نے پھر اس کو اپنی گرفت میں لے لیا‘‘ یعنی اگر عورتیں اپنے نفس کی مراقبت و محافظت نہ کریں تو یہ صفات دوبارہ اس میں واپس آجائیں گی اور نفس کی حفاظت کرنے پر یہ بری صفات دور ہوجائیں گی۔ اور دوسری جگہ مولاؑ عورتوں کی ذاتی صفات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ: عورتوں کی بہترین صفت مردوں کی بد ترین عادت ہے: تکبر، ڈر و کنجوسی، کیونکہ اگر عورت متکبر ہو تو ہرگز کسی کو خود پر تجاوز کی اجازت نہیں دے گی اور اگر کنجوس ہوگی تو اپنے اور اپنے شوہر کے مال کی حفاظت کرے گی اور اگر ڈرپوک ہوگی تو اپنے اوپر عارض ہونے والی چیزوں (بلا آفت) سے ڈرے گی۔

تکبر وہ صفت ہے کہ جس کی اجازت خدا نے اپنے علاوہ صرف اور صرف عورتوں کو دی ہے ۔اور وہ بھی صرف نامحرم مردوں کے سامنے۔ [13]

اور دوسری جگہ امام علیؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ: المرأۃ عقرب حلوۃ اللسبۃ [14] عورت ایک بچھو ہے کہ جس کا ڈسنا بھی شیریں ہے۔

آخر کس وجہ سے مولا نے عورتوں کو بچھو سے تعبیر کیا؟ تو شاید وجہ یہ رہی ہو کہ جب ہم کسی چیز کو کسی چیز سے تشبیہ دیتے ہیں تو در حقیقت اس خاص وجہ سے تشبیہ دیتے ہیں کہ جو اس میں (جس کی طرف تشبیہ دی ہے) پائی جاتی ہے مثلاً اگر ہم کہیں زید شیر کی طرح ہے تو شیر میں بہت سی صفات پائی جاتی ہیں اور ان میں سے ایک صفت شجاعت ہے اور تشبیہ دینے سے ہمارا مقصد اسی صفت کی طرف نسبت دینا ہے اور اسی طرح یہ مثال کہ عورت بچھو کے مانند ہے؟ بچھو میں بھی بہت سی صفات پائی جاتی ہیں لیکن در حقیقت اس کا غصہ ہے کہ جو عورتوں کی صفات سے مشابہ ہے اور یہاں پر مقصد تشبیہ دینے سے وہی بچھو کا غصہ ہے کہ غصہ کے عالم میں وہ ڈنک مارنا شروع کر دیتا ہے اسی طرح عورت بھی ہے: البتہ ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ جس شخص میں بھی اس طرح کی صفت پائی جاتی ہوں اس پر یہ کلمہ صادق آتا ہے [15]

بہرحال ہم نے مولاؑ کے ان تمام کلام میں ملاحظہ کیا کہ بعض جگہوں پر آپؑ نے عورتوں کی مذمت (کسی خاص وجہ سے) کی ہے اور بعض جگہوں پر ان کی تعریف فرمائی۔

منابع

1:۔ قرآن
2:۔ نہج البلاغہ، تالیف سید رضی، ترجمہ: علامہ ذیشان حیدر جوادی
3:۔ حیات زن در اندیشہ اسلامی، دکتر قائمی
4:۔ زن از دیدگاہ نہج البلاغہ، فاطمہ علائی رحمانی
5:۔ علویہ ہمایونی ج ۲ زن مظہر خلاقیت اللہ
6:۔ شرح نہج البلاغہ ابن میثم ج ۵
7:۔ زن، عقل، ایمان، مشورت، دکتر علی خز آیت اللھی
8:۔ ترجمہ و شرح نہج البلاغہ، مصطفی زمانی ج ۳

حوالہ جات

[1]:۔ سورہ رحمن آیت ۵۷
[2]:۔ سورہ واقعہ آیت:۲۳
[3]:۔ نہج البلاغہ خطبہ ۳۱
[4]:۔ دکتر علی قائمی ،حیات زن در اندیشہ اسلامی ص۲۱۳
[5]:۔ فاطمہ علائی رحمانی زن از دیدگاہ نہج البلاغہ ص۸۷
[6]:۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی ص
[7]:۔ علویہ ہمایونی ج۱۔۲ زن مظہر خلاقیت اللہ ص۲۳۵
[8]:۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی،ص۵۴
[9]:۔ ایضا ص۵۴
[10]:۔ ایضا ص۵۴
[11]:۔ شرح نہج البلاغہ ابن میثم ج۵ص۷۶۶
[12]:۔ دکتر علی قا ئمی،حیات زن در اندیشہ اسلامی ص۳۷۰
[13]:۔ دکتر کبری ،خز علی/سیمیند خت بہزاد پور زھرا آیت اللہی زن ،عقل،ایمان ،مشورت ،ص۱۳۱،۱۳۵،۱۳۷
[14]:۔ نہج البلاغہ حکمت ۵۸
[15]:۔ ترجمہ و شرح نہج البلاغہ مصطفی زمانی ج۳ ص۳۰۸

مقالہ نگار

زیبا زہرا زیدی
جامعۃ الزھراء سلام اللہ علیہا، قم مقدس (ایران)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button