نہج البلاغہ مقالات

امام علی علیہ السلام وقت شہادت بھی فکرِ ہدایت

خطبہ 147 اور وصیت 23

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

امیرالمؤمنین علیہ السلام نے زخمی حالت میں بسترِ شہادت پر جو وصیتیں بیان فرمائیں اُن میں سےایک وصیت کو سید رضیؒ نے نہج البلاغہ میں دو الگ حصوں میں بیان فرمایا۔ کچھ حصہ نہج البلاغہ کے خطبہ ۱۴۷ میں بیان ہوا اور کچھ حصہ وصیت ۲۳ کےتحت درج ہے۔ اُن دونوں حصوں کو یہاں پیش کیا گیا ہے۔

خطبہ ۱۴۷ شہادت سے پہلے فرمایا:

قَبْلَ مَوْتِهٖ:
اَیُّهَا النَّاسُ! كُلُّ امْرِئٍ لَّاقٍ مَّا یَفِرُّ مِنْهُ فِیْ فِرَارِهٖ، وَ الْاَجَلُ مَسَاقُ النَّفْسِ، وَ الْهَرَبُ مِنْهُ مُوَافَاتُهٗ. كَمْ اَطْرَدْتُّ الْاَیَّامَ اَبْحَثُهَا عَنْ مَّكْنُوْنِ هٰذَا الْاَمْرِ، فَاَبَی اللهُ اِلَّاۤ اِخْفَآءَهٗ، هَیْهَاتَ! عِلْمٌ مَّخْزُوْنٌ!.

شہادت سے پہلے فرمایا:
اے لوگو! ہر شخض اسی چیز کا سامنا کرنے والا ہے جس سے وہ راہِ فرار اختیار کئے ہوئے ہے اور جہاں زندگی کا سفر کھینچ کر لے جاتا ہے وہی حیات کی منزل منتہا ہے۔ موت ۱سے بھاگنا اسے پا لینا ہے۔ میں نے اس موت کے چھپے ہوئے بھیدوں کی جستجو میں کتنا ہی زمانہ گزارا مگر مشیت ایزدی یہی رہی کہ اس کی (تفصیلات) بے نقاب نہ ہوں۔ اس کی منزل تک رسائی کہاں وہ تو ایک پوشیدہ علم ہے۔

اَمَّا وَصِیَّتِیْ: فَاللهُ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا، وَ مُحَمَّدٌ ﷺ فَلَا تُضَیِّعُوْا سُنَّتَهٗ، اَقِیْمُوْا هٰذَیْنِ الْعَمُوْدَیْنِ، وَ اَوْقِدُوْا هٰذَیْنِ الْمِصْبَاحَیْنِ، وَ خَلَاكُمْ ذَمٌّ مَّالَمْ تَشْرُدُوْا. حُمِّلَ كُلُّ امْرِئٍ مَّجْهُوْدَهٗ، وَ خُفِّفَ عَنِ الْجَهَلَةِ، رَبٌّ رَّحِیْمٌ، وَ دِیْنٌ قَوِیْمٌ، وَ اِمَامٌ عَلِیْمٌ.

تو ہاں میری وصیت یہ ہے کہ اللہ کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤ اور محمد ﷺ کی سنت کو ضائع و برباد نہ کرو۔ ان دونوں ستونوں کو قائم و برقرار رکھو اور ان دونوں چراغوں کو روشن کئے رہو۔ جب تک منتشر و پراگندہ نہیں ہوتے تم میں کوئی برائی۲ نہیں آئے گی۔ تم میں سے ہر شخص اپنی وسعت بھر بوجھ اٹھائے۔ نہ جاننے والوں کا بوجھ بھی ہلکا رکھا گیا ہے۔ (کیونکہ) اللہ رحم کرنے والا،دین سیدھا (کہ جس میں کوئی الجھاؤ نہیں) اور پیغمبرؐ عالم و دانا ہے۔

اَنَا بِالْاَمْسِ صَاحِبُكُمْ، وَ اَنَا الْیَوْمَ عِبْرَةٌ لَّكُمْ، وَ غَدًا مُّفَارِقُكُمْ! غَفَرَ اللهُ لِیْ وَ لَكُمْ! اِنْ تَثْبُتِ الْوَطْاَةُ فِیْ هٰذِهِ الْمَزَلَّةِ فَذَاكَ، وَ اِنْ تَدْحَضِ الْقَدَمُ فَاِنَّا كُنَّا فِیْۤ اَفْیَآءِ اَغْصَانٍ، وَ مَهَابِّ رِیَاحٍ، وَ تَحْتَ ظِلِّ غَمَامٍ، اضْمَحَلَّ فِی الْجَوِّ مُتَلَفِّقُهَا، وَ عَفَا فِی الْاَرْضِ مَخَطُّهَا.

میں کل تمہارا ساتھی تھا اور آج تمہارے لئے عبرت بنا ہوا ہوں اور کل تم سے چھوٹ جاؤں گا۔خدامجھے اور تمہیں مغفرت عطا کرے۔ اگر اس پھسلنے کی جگہ پر قدم جمے رہے تو خیر اور اگر قدموں کا جماؤ اکھڑ گیا تو ہم بھی انہی (گھنی) شاخوں کی چھاؤں، ہوا کی گزرگاہوں اور چھائے ہوئے ابر کے سایوں میں تھے، (لیکن) اس کے تہ بہ تہ جمے ہوئے لکے چھٹ گئے اور ہوا کے نشانات مٹ مٹا گئے۔

وَ اِنَّمَا كُنْتُ جَارًا جَاوَرَكُمْ بَدَنِیْۤ اَیَّامًا، وَ سَتُعْقَبُوْنَ مِنِّیْ جُثَّةً خَلَآءً: سَاكِنَةً بَعْدَ حَرَاكٍ، وَ صَامِتَةً بَعْدَ نُطْقٍ، لِیَعِظْكُمْ هُدُوِّیْ، وَ خُفُوْتُ اِطْرَاقِیْ، وَ سُكُوْنُ اَطْرَافِیْ، فَاِنَّهٗ اَوْعَظُ لِلْمُعْتَبِرِیْنَ مِنَ الْمَنْطِقِ الْبَلِیْغِ وَ الْقَوْلِ الْمَسْمُوْعِ، وَ دَاعِیْكُمْ وَدَاعُ امْرِئٍ مُّرْصِدٍ لِّلتَّلَاقِیْ! غَدًا تَرَوْنَ اَیَّامِیْ، وَ یُكْشَفُ لَكُمْ عَنْ سَرَآئِرِیْ، وَ تَعْرِفُوْنَنِیْ بَعْدَ خُلُوِّ مَكَانِیْ وَ قِیَامِ غَیْرِیْ مَقَامِیْ.

میں تمہارا ہمسایہ تھا کہ میرا جسم چند دن تمہارے پڑوس میں رہا اور میرے مرنے کے بعد مجھے جسد ِبے روح پاؤ گے کہ جو حرکت کرنے کے بعد تھم گیا اور بولنے کے بعد خاموش ہو گیا، تاکہ میرا یہ سکون اور ٹھہراؤ اور آنکھوں کا مندھ جانا اور ہاتھ پیروں کا بے حس و حرکت ہو جانا تمہیں پند و نصیحت کرے۳، کیونکہ عبرت حاصل کرنے والوں کیلئے یہ (منظر) بلیغ کلموں اور کان میں پڑنے والی باتوں سے زیادہ موعظت و عبرت دلانے والا ہوتا ہے۔ میں تم سےاس طرح رخصت ہو رہا ہوں جیسے کوئی شخص (کسی کی) ملاقات کیلئے چشم براہ ہو۔ کل تم میرے اس دور کو یاد کرو گے اور میری نیتیں کھل کر تمہارے سامنے آجائیں گی اور میری جگہ کے خالی ہونے اور دوسروں کے اس مقام پر آنے سے تمہیں میری قدر و منزلت کی پہچان ہوگی۔

اس وصیت کا کچھ حصہ نہج البلاغہ کے دوسرے حصہ میں درج ہوا ہے اور سید رضیؒ نے خود لکھا ہے کہ

قَالَهٗ قُبَیْلَ مَوْتِهٖ عَلٰى سَبِیْلِ الْوَصِیَّةِ لَمَّا ضَرَبَهُ ابْنُ مُلْجَمٍ لَعَنَهُ اللّٰهُ:
وَصِیَّتِیْ لَكُمْ: اَنْ لَّا تُشْرِكُوْا بِاللهِ شَیْئًا، وَ مُحَمَّدٌ -صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَ اٰلِهٖ- فَلَا تُضَیِّعُوْا سُنَّتَهٗ، اَقِیْمُوْا هٰذَیْنِ الْعَمُوْدَیْنِ، وَ اَوْقِدُوْا هٰذَیْنِ الْمِصْبَاحَیْنِ وَ خَلَاكُمْ ذَمٌّ.

جب ابن ملجم نے آپؑ کے سر اقدس پر ضربت لگائی تو انتقال سے کچھ پہلے آپؑ نے بطور وصیت ارشاد فرمایا:
تم لوگوں سے میری وصیت ہے کہ کسی کو اللہ کا شریک نہ بنانا اور محمدﷺ کی سنت کو ضائع و برباد نہ کرنا۔ ان دونوں ستونوں کو قائم کئے رہنا اور ان دونوں چراغوں کو روشن رکھنا۔ بس پھر برائیوں نے تمہارا پیچھا چھوڑدیا۔

اَنَا بِالْاَمْسِ صَاحِبُكُمْ، وَ الْیَوْمَ عِبْرَةٌ لَّكُمْ، وَ غَدًا مُّفَارِقُكُمْ، اِنْ اَبْقَ فَاَنَا وَلِیُّ دَمِیْ، وَ اِنْ اَفْنَ فَالْفَنَآءُ مِیْعَادِیْ، وَاِنْ اَعْفُ فَالْعَفْوُ لِیْ قُرْبَةٌ، وَ هُوَ لَكُمْ حَسَنَةٌ، فَاعْفُوْا، ﴿اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ ؕ﴾ .

میں کل تمہارا ساتھی تھا اور آج تمہارے لئے (سراپا) عبرت ہوں اور کل کو تمہارا ساتھ چھوڑ دوںگا۔ اگر میں زندہ رہا تو مجھے اپنے خون کا اختیار ہو گا اور اگر مر جاؤں تو موت میری وعدہ گاہ ہے۔ اگر معاف کر دوں تو یہ میرے لئے رضائے الٰہی کا باعث ہے اور وہ تمہارے لئے بھی نیکی ہو گی۔ ”کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں بخش دے“۔

وَ اللهِ مَا فَجَئَنِیْ مِنَ الْمَوْتِ وَارِدٌ كَرِهْتُهٗ، وَ لَا طَالِعٌ اَنْكَرْتُهٗ، وَ مَا كُنْتُ اِلَّا كَقَارِبٍ وَّرَدَ، وَ طَالِبٍ وَّجَدَ، ﴿وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِ﴾.

خد اکی قسم! یہ موت کاناگہانی حادثہ ایسا نہیں ہے کہ میں اسے نا پسند جانتا ہوں اور نہ یہ ایسا سانحہ ہے کہ میں اسے برا جانتا ہوں۔ میر ی مثال بس اس شخص کی سی ہے جو رات بھر پانی کی تلاش میں چلے اور صبح ہوتے ہی چشمہ پر پہنچ جائے اور اس ڈھونڈنے والے کی مانند ہوں جو مقصد کو پالے، ”اور جو اللہ کے یہاں ہے وہی نیکو کاروں کیلئے بہتر ہے“۔

اَقُوْلُ: وَ قَدْ مَضٰی بَعْضُ هٰذَا الْكَلَامِ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنَ الْخُطَبِ، اِلَّاۤ اَنَّ فِیْهِ هٰهُنَا زِیَادَةً اَوْجَبَتْ تَكْرِیْرَهٗ.

سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ اس کلام کا کچھ حصہ خطبات میں گزرچکا ہے، مگر یہاں کچھ اضافہ تھا جس کی وجہ سے دوبار ہ درج کرنا ضروری ہوا۔

موت کو سامنے دیکھ کر بھی امیرالمؤمنین علیہ السلام امت مصطفیٰ ﷺ کی ہدایت و رہنمائی کی فکر میں ہیں۔ وہ امام جوامّت کی بھلائی اور اسلام کی عزت کی بقاء کے لیے ۲۵ سال کے دور میں بظاہر چپ رہے اور اپنے حقوق کی پامالی پر صبر کیا اور ظاہری حکومت سنبھالی تو جنگوں میں الجھائے رکھنے کے باوجود امامؑ کا اصل مشن ہدایتِ امت ہی رہا۔

امامؑ اہل بیت علیہم السلام کے تعارف میں فرماتے ہیں۔

بِنَا اهْتَدَيْتُمْ فِی الظَّلْمَآءِ، وَ تَسَنَّمْتُمُ الْعَلْيَآءِ، وَ بِنَا انْفَجَرْتُمْ عَنِ الْسَّرَارِ.
ہماری وجہ سے تم نے (گمراہی) کی تیرگیوں میں ہدایت کی روشنی پائی اور رفعت و بلندی کی چوٹیوں پر قدم رکھا اور ہمارے سبب سے اندھیری راتوں کو اندھیاریوں سے صبح (ہدایت) کے اجالوں میں آگئے۔

(نہج البلاغہ، خطبہ۴، ص۱۲۹، مطبوعہ افکار اسلامی)

اسی طرح ایک اور مقام پر امامؑ فرماتے ہیں۔

اَیْنَ الَّذِیْنَ زَعَمُوْۤا اَنَّهُمُ ﴿الرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ﴾ دُوْنَنَا، كَذِبًا وَّ بَغْیًا عَلَیْنَا، اَنْ رَّفَعَنَا اللهُ وَ وَضَعَهُمْ، وَ اَعْطَانَا وَ حَرَمَهُمْ، وَ اَدْخَلَنَا وَ اَخْرَجَهُمْ. بِنَا یُسْتَعْطَی الْهُدٰی، وَ یُسْتَجْلَی الْعَمٰی.

کہاں ہیں وہ لوگ کہ جو جھوٹ بولتے ہوئے اور ہم پر ستم روا رکھتے ہوئے یہ ادّعا کرتے ہیں کہ وہ راسخون فی العلم ہیں نہ ہم؟

چونکہ اللہ نے ہم کو بلند کیا ہے اور انہیں گرایا ہے اور ہمیں (منصبِ امامت) دیا ہے اور انہیں محروم رکھا ہے اور ہمیں (منزلِ علم میں) داخل کیا ہے اور انہیں دور کر دیا ہے۔ ہم ہی سے ہدایت کی طلب اور گمراہی کی تاریکیوں کو چھانٹنے کی خواہش کی جا سکتی ہے۔

(نہج البلاغہ، خطبہ ۱۴۲، ص ۴۰۹، مطبوعہ افکار اسلامی)

صفین کے میدان میں پہنچ کر بھی امامؑ کو اُس بھٹکی ہوئی قوم کی ہدایت کی فکر تھی۔ ہدایت کی محبت کے درج ذیل خطبہ ملاحطہ فرمائیں۔

وَ قَدِ اسْتَبْطَاَ اَصْحَابُهٗ اِذْنَهٗ لَهُمْ فِی الْقِتَالِ بِصِفِّيْنَ:
صفین میں حضرت (ع) کے اصحاب نے جب اِذنِ جہاد دینے میں تاخیر پر بے چینی کا اظہار کیا، تو آپؑ نے ارشاد فرمایا:

اَمَّا قَوْلُكُمْ: اَ كُلُّ ذٰلِكَ كَرَاهِیَةَ الْمَوْتِ؟ فَوَاللهِ! مَاۤ اُبَالِیْ دَخَلْتُ اِلَی الْمَوْتِ اَوْ خَرَجَ الْمَوْتُ اِلَیَّ.
تم لوگوں کا یہ کہنا :یہ پس و پیش کیا اس لئے ہے کہ میں موت کو ناخوش جانتا ہوں اور اس سے بھاگتا ہوں، تو خدا کی قسم! مجھے ذرا پروا نہیں کہ مَیں موت کی طرف بڑھوں یا موت میری طرف بڑھے۔

وَ اَمَّا قَوْلُكُمْ: شَكًّا فِیْ اَهْلِ الشَّامِ! فَوَاللهِ! مَا دَفَعْتُ الْحَرْبَ یَوْمًا اِلَّا وَ اَنَا اَطْمَعُ اَنْ تَلْحَقَ بِیْ طَآئِفَةٌ فَتَهْتَدِیَ بِیْ، وَ تَعْشُوَ اِلٰی ضَوْئِیْ، وَ ذٰلِكَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ اَقْتُلَهَا عَلٰی ضَلَالِهَا، وَ اِنْ كَانَتْ تَبُوْٓءُ بِاٰثَامِهَا.

اور اس طرح تم لوگوں کا یہ کہنا کہ مجھے اہل شام سے جہاد کرنے کے جواز میں کچھ شبہ ہے تو خدا کی قسم! میں نے جنگ کو ایک دن کیلئے بھی التوا میں نہیں ڈالا، مگر اس خیال سے کہ ان میں سے شاید کوئی گروہ مجھ سے آکر مل جائے اور میری وجہ سے ہدایت پا جائے اور اپنی چندھیائی ہوئی آنکھوں سے میری روشنی کو بھی دیکھ لے اور مجھے یہ چیز گمراہی کی حالت میں انہیں قتل کر دینے سے کہیں زیادہ پسند ہے۔ اگرچہ اپنے گناہوں کے ذمہ دار بہرحال یہ خود ہوں گے۔

(نہج البلاغہ ،خطبہ ۵۵، ص۲۲۵، مطبوعہ افکار اسلامی)

ہدایتِ امت کے عاشق امامؑ اور اسے اپنا فریضہ سمجھنے والی ذات گرامی شہادت کو سامنے دیکھ کر بھی اپنے دردوں کو نہیں قیامت تک قوم کی ہدایت کا نسخہ لکھوا رہے ہیں۔

وصیت کے ان دو حصوں میں امیرالمؤمنینؑ نے جن درج ذیل اہم چیزوں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔

(۱) موت کا یقینی ہونا: انسان موت سے بچنے کے لیے جتنے ہاتھ پیر مارتا ہے اس سے بھاگ نہیں سکتا ۔ جب علی علیہ السلام خود اُن کے سامنے قریب المرگ ہیں تو اور کون بچ سکتا ہے بعد امامؑ فرماتے ہیں میں علیؑ آپ کے سامنے بطور عبرت موجود ہوں۔

(۲) شرک سے بچنے کی تاکید: امام علیہ السلام روشِ قرآنی کے مطابق اپنی اولاد اور چاہنے والوں کو شرک سے بچنے کی تاکید فرماتے ہیں۔

قرآن مجید نے جیسے حضرت لقمان علیہ السلام کی بیٹے کو نصیحت بیان کی اور وہاں پہلا موعظہ یہی ہے کہ کسی کو اللہ کا شریک قرار نہ دینا۔ اسی طرح امیرالمؤمنین علیہ السلام کی آخری وقت کی دصیتیں دیکھیں یا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو وصیت دیکھیں تو سب سے مہم وصیت شرک سے بچنا ہے۔

(۳) سنت رسولؐ کی حفاظت: امام علیہ السلام توحید اورسنت رسول اللہ ﷺ کو دین کے دوستون اور دو چراغ قرار دے رہے ہیں۔

توحید کی نمائندگی قرآن کرتا ہے اور سنت کی وضاحت اہل بیت علیہم السلام کرتے ہیں اور یہی ثقلین ہیں جن سے تمسک کا حکم اور تمسک کی صورت میں نجات کی ضمانت رسولؐ دے گئے ہیں۔

(۴) ہر شخص کی ذمہ داری: امامؑ نے ہر شخص کی ذمہ داری اُس کی طاقت اور علم کے مطابق قرار دی۔ ہر کوئی اپنی وسعت کے مطابق بوجھ اُٹھائے گا۔

(۵) بہترین موعظہ خود علی علیہ السلام یہ ہیں: امامؑ نے اس حصہ میں مختلف لفظوں میں خود کو اور اپنی حالت کو دیکھنے والوں کے لیے موعظہ وعبرت کا سامان قرار دیا۔ عمومی طور پر بھی امامؑ میت کو موعظہ قرار دیتے ہیں اور یہاں خود موت کی آغوش میں جانے کے لیے تیار ہیں اس لیے خود کو عبرت کاسبب قرار دے رہے ہیں۔

(۶) مجھے یاد کرو گے: امامؑ نے یہاں حسرت کا اظہار کیا کہ میری زندگی میں میری حقیقت کو بہت سے لوگ نہیں جان سکے۔ اور میرے جانے کے بعد انہیں میرے مقام کی پہچان ہوگی۔

(۷) قاتل کے بارے احکام : علی علیہ السلام وہ عادل امام ہیں کہ اپنے جانے کے بعد اپنے قاتل کے لیے بھی ہدایات جاری فرما رہے ہیں۔ وصیت ۴۷ میں قاتل کے بارے میں احکامات کو مزید وضاحت سے بیان فرمایا۔

(۸) وصیت کے آخری حصے میں امامؑ نے موت کی چاہت کا اظہار فرمایا: اس سے امامؑ کی مظلومیت کا بھی اظہار ہوتا ہے اور اس دُنیا میں آپؑ کو نہ پہچانے جانے کا شکوہ بھی۔

پروردگار ہمیں امامؑ کی چاہتوں کو سمجھنے اور اپنی زندگیاں اُن کے مطابق ڈھالنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button