مقالاتنہج البلاغہ مقالات

امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف

مقالہ نگار: سید منہال حیدر زیدی (ہندوستان)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمہ
نہج البلاغہ کی عظمت و اہمیت قطعاً محتاج بیان نہیں ہے یہ وہ کتاب ہے کہ جس پر زمانہ کی گردشیں اثر انداز نہیں ہوسکیں بلکہ زمانہ کے گذرنے کے ساتھ ساتھ جدید اور روشن سے روشن افکار و نظریات مسلسل اسکی قدر و قیمت اور اہمیت میں اضافہ کرتے رہے اسکی فصاحت و بلاغت کا یہ عالم ہے کہ خود ابن ابی الحدید حضرت علیؑ کے ایک قول کے سلسلے میں کہتا ہے کہ اگر سارے فصحائے عرب ایک مجلس میں جمع ہو جائیں اور ان پر یہ کلام تلاوت کیا جائے تو انہیں چاہئے کہ وہ اس کلام کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں۔

آپ کی فصاحت و بلاغت کا اعتراف تو خود دشمن نے بھی کیا ہے کہ جب محقن ابن ابی محقن حضرت علیؑ کو چھوڑ کر معاویہ سے مل گیا اور صرف معاویہ کے دل کو خوش کرنے کے لئے کہ جو کینہ علی سے لبریز تھا، کہنے لگا:

’’میں ایک گنگ ترین شخص کو چھوڑ کر تمہارے پاس آیا ہوں۔‘‘ یہ چاپلوسی اتنی منفور تھی کہ خود معاویہ نے اس کو پھٹکارتے ہوئے کہا’’ وائے ہو تجھ پر !تو علیؑ کو گنگ ترین شخص کہتا ہے جبکہ قریش علیؑ سے پہلے فصاحت سے واقف نہ تھے، علی ہی نے قریش کو درس فصاحت دیا ہے۔

اس کی سند کے معتبر ہونے کے سلسلہ میں علمائے اہل سنت کے علاوہ عیسائی مفکرین نے بھی اقرار و اظہار کیا ہے۔
اگر اس کو تحت کلام الخالق فوق کلام المخلوق کہا جاتا ہے تو جس طرح قرآن کا دعویٰ ہے کہ لارطب و لایابس الا فی کتاب مبین کہ کوئی خشک و تر ایسا موجود نہیں جو اس کتاب میں موجود نہ ہو، تو نہج البلاغہ کے سلسلہ میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ وہ کتاب ہے کہ جس میں ہر چیز کا ذکر موجود ہے اور ہر موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

امامت و رہبری
امامت و رہبری (نہج البلاغہ میں جسکا تذکرہ تقریباً ۷۵ مقامات پر ہوا ہے) ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا جاننا ہم سب پر فرض ہے اور اپنے امام کی معرفت ہر انسان پر لازم و ضروری ہے جیسا کہ رسول اسلامؐ نے فرمایا ہے: ’’من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاہلیۃ۔‘‘

جو انسان اپنے امام کو پہچانے بغیر اس دنیا سے چلا جائے اسکی موت جاہلیت کی موت ہے۔ اس حدیث کو شیعوں کے علاوہ ۲۵ سے زائد معروف و مشہور اہل سنت راویوں نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے (جس کی تفصیل کو اس مختصر مقالہ میں ذکر کرنا ممکن نہیں) اس کے باوجود یہ حضرات اس عقیدہ پر باقی ہیں کہ امام پردہ غیب میں نہیں ہیں اور ان کی ابھی ولادت نہیں ہوئی ہے۔

مہدویت
مسئلہ مہدویت بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اس سلسلہ میں شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ولادت ہو چکی ہے اور آپؑ پردہ غیبت میں ہیں، ایک دن آئے گا جب آپ ظہور کرین گے اور ظلم و جور کا خاتمہ کرکے دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے لیکن بعض اہل سنت حضرات کا عقیدہ و نظریہ یہ ہے کہ آپ کی ولادت ابھی نہیں ہوئی ہے بلکہ ایک زمانہ آئے گا جب آپ کی ولادت ہوگی اور پوری دنیا میں اسلامی حکومت قائم ہوگی جبکہ تقریباً سو سے زائد اہل سنت علماء، شیعوں کے عقیدے کے معترف ہیں جیسے سبط بن جوزی، ابن خلدون، فخر رازی شافعی، عارف عبد الوہاب شعرانی حنفی، ابو الفتح محمد بن عبد الکریم شہرستانی، علامہ میر خواند، نورالدین ابن صباغ مالکی، ابو عبد اللہ یاقوت حموی وغیرہ نے اپنی اپنی کتب میں اس عقیدے کا اقرار کیا ہے کہ آپؑ کی ولادت ۱۵ شعبان المعظم ۲۵۵ھ میں ہو چکی ہے اور بعض نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ آپ امام حسن عسکریؑ کے فرزند ہیں مثلاً عبد الوہاب شعرانی حنفی کہتا ہے کہ آخری زمانہ میں امام مہدیؑ کے خروج کی امید ہے اور آپؑ امام حسن عسکریؑ کی اولاد میں سے ہیں، آپؑ کی ولادت نیمہ شعبان ۲۵۵ھ میں ہوئی ابھی تک آپ با حیات ہیں یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ کے ساتھ جمع ہوں گے اور آپ کی عمر اس زمانہ میں ۷۰۶ سالہ ہے (جبکہ اس وقت آپؑ کی عمر مبارک ۱۱۷۲ سال ہے) اس کی خبر مجھے شیخ حسن عراقی نے دی ہے۔‘‘
(الیواقیت والجواہر ج/۲ ص/۱۲۷)

بعض افراد کا کہنا ہے کہ اس دور میں مہدویت کی بحث کرنے سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ بحث آئندہ سے مربوط ہے جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس بحث کے بہت سے فوائد ہیں مثلاً آپ کے ظہور کے اسباب میں سے بعض ایسے سبب ہیں جو کہ خود انسان کے ذریعہ حاصل ہونے والے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ ہم معلوم کریں کہ ہمارا فریضہ کیا ہے تاکہ ہم جلد از جلد آپؑ سے نزدیک ہو سکیں اور آپ کا دیدار کر سکیں یا ہمارا عقیدہ ہے کہ ہمارا امام ہمارے تمام امور کا ناظر ہے لہٰذا اس پر ہمارا عقیدہ ہوگا تو ہم گناہوں سے بچ سکتے ہیں یا اس کے علاوہ بہت سے اسباب اور علتیں بھی بیان کی گئیں ہیں۔
اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اس مسئلہ کو نہج البلاغہ میں کس حد تک بیان کیا گیا ہے اور آپ کے سلسلہ میں مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے کیا کیا پیشنگوئیاں فرمائی ہیں۔

امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف

نہج البلاغہ کے آئینے میں خطبہ/ ۱۰۰ میں ارشاد ہوتا ہے: ’’۔۔۔و خلف فینا رایۃ الحق من تقدمھا مرق۔۔۔ولاتیأسوا من مدبر۔۔۔‘‘
’’۔۔۔ اور ہمارے درمیان ایک ایسا پرچم حق چھوڑ گئے کہ جو اس سے آگے بڑھ جائے وہ دین سے نکل گیا ۔۔۔۔۔

قیام اطمنان سے کرتا ہے لیکن قیام کے بعد پھر تیزی سے کام کرتا ہے جب تم اس کے لئے اپنی گردنیں جھکا دو گے اور ہر مسئلہ میں اس کی طرف اشارہ کرنے لگو گے تو اسے موت آجائے گی اور اسے لے کر چلی جائی پھر جب تک خدا چاہے گا تمہیں اسی حال میں رہنا پڑے گا یہاں تک کہ وہ اس شخص کو منظر عام پر لے آئے جو تمہیں ایک مقام پر جمع کر دے اور تمہارے انتشار کو دور کر دے تو دیکھو جو آنے والا ہے اس کے علاوہ کسی کی طمع نہ کرو جو جارہا ہے اس سے مایوس نہ ہو جاؤ۔۔۔۔‘‘۔

پرچم حق سے مراد خود امام علیؑ ہیں پھر اہلیبتؑ جن میں مستقبل قریب میں امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کا دور تھا جس کی طرف دنیا نے رجوع کیا اور انکی سیاسی عظمت کا احساس بھی کیا اور مستقبل بعید میں امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا دور ہوگا اور اسلام پلٹ کر اپنے مرکزپر آجائے گا اور ظلم و جور کا خاتمہ ہوگا اور عدل و انصاف کا نظام قائم ہو جائے گا۔

اسی طرح ابن ابی الحدید اپنی شرح میں لکھتا ہے کہ یہاں پر امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے سلسلہ میں پیشنگوئی کی گئی ہے کہ وہ اہل بیت میں سے ہیں اور ہمارے (اہل تسنن) نزدیک وہ آئندہ پیدا ہوں گے لیکن امامیہ کے نزدیک دور حاضر میں موجود ہیں۔ (شرح نہج البلاغہ ج/۷ص/۹۴-۹۵)

یہ جملہ کہ ’’ولا تیأسوا من مدبر‘‘ جو کہ آپ کی غیبت کی طرف اشارہ ہے کہ جس کے سلسلہ میں اسنے تحریر کیا ہے کہ جب امام مہدی کی وفات ہو جائے تو مایوس نہ ہونا کہ شاید ہم ابھی تک غلطی پر تھے۔
ایک دوسرے خطبہ میں ارشاد ہوتا ہے:

’’۔۔۔و یعطف الرأی علی القرآن اذا عطفوا القرآن علی الرّای الا و فی غد۔۔۔۔۔۔و تخرج لہ الارض افالیذ کبدھا و تلقی الیہ ۔۔۔‘‘ (خطبہ /۱۳۸)
’’۔۔۔وہ رائے کو قرآن کی طرف جھکا دے گا جب لوگ قرآن کو رائے کی طرف جھکا رہے ہوں گے ۔۔۔۔۔

یاد رکھو کل اور کل بہت جلد وہ حالات لے کر آنے والا ہے جس کا تمہیں اندازہ نہیں ہے۔ اس جماعت سے باہر کا والی تمام اعمال کی بد اعمالیوں کا محاسبہ کرے گا اور زمین تمام جگر کے ٹکڑوں کو نکال دے گی اور نہایت آسانی کے ساتھ اپنی کنجیاں اس کے حوالے کر دے گی اور پھر وہ تمہیں دکھلائے گاک ہ عادلانہ سیرت کیا ہوتی ہے اور مردہ کتاب و سنت کو کس طرح زندہ کیا جاتا ہے ۔۔۔۔‘‘

اس کے شروع کے جملے میں ہی امام علیؑ نے اشارہ کیا ہے کہ وہ رائے کو قرآن کی طرف جھکا دے گا جبکہ لوگ اس کو رائے کی طرف جھکا رہے ہوں گے یہاں پر مراد اہل تسنن ہیں جو قیاس اور رائے کے ذریعہ حکم فقہی کا استنباط کرتے ہیں جبکہ یہ صحیح نہیں ہے۔ اس کے بعد آپؑ نے امام مہدی کے ظہور کے وقت کی منظر کشی کی ہے جس کے لئے انسانیت سراپا انتظار ہے کہ جب عدل و انصاف قائم ہوگا اور زمین اپنے سارے خزانے اگل دے گی جیسا کہ قرآن نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے:

’’و اخرجت الارض اثقالھا ‘‘ (زلزال/۲)
’’اور وہ سارے خزانے نکال دے گی‘‘۔

یا اسی کے ضمن میں امام صادقؑ کی یہ حدیث کہ
’’جس وقت ہمارا قائم قیام کرے گا زمین (امام کی تدبیر اور لوگوں کی سچی سعی و کوشش کی بنا پر) اپنے تمام قیمتی خزانے ظاہر کر دے گی تاکہ لوگ خود اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کر لیں (اس طرح کہ لوگ ظاہری اور معنوی اعتبار سے بے نیاز ہو جائیں گے) کہ اکے بعد کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا جو تمہارے ہدیہ یا زکات کے مال کو قبول کر لے اس طرح تمام لوگ خدا کے فضل سے بے نیاز ہو جائیں گے۔‘‘ (بحار الانوار ،ج/۵۲ص/۲۳۷)

اس حدیث اور دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تمام افراد کے اقتصادی حالات بھی عروج پر ہوں گے اور یہ صرف اور صرف مومنین کے تقوی اورر پرہیز گاری کی بنیاد پر ہوگا۔ پروردگار عالم کی تمام نعمتیں ظاہر ہوجائیں گی، آسمان سے جیسے بارش ہونا چاہئے بارش ہوگی، چاروں طرف ماحول سر سبز و شاداب ہوگا نیز بقول خود مولائے کائناتؑ کہ اگر ایک عورت عراق سے شام جانا چاہے گی تو اس کا پیر صرف ہری بھری گھاس کے علاوہ کہیں اور نہ پڑے گا۔

علم بھی اپنے کمال پر ہوگا۔ امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ علم کے ۲۵ حروف ہیں جس میں وہ علم صرف دو حرف سے زیادہ نہ تھا جس کو تمام پیغمبران الٰہی نے لوگوں کے سامنے پیش کیا لیکن آپ (امام مہدیؑ) کے دور میں بقیہ ۲۵ حروف بھی لوگوں کے سامنے ظاہر ہو جائیں گے۔

آپؑ نے ایک مقام پر فرمایامہے:
’’۔۔۔۔یا قوم ھذا ابان ورد کل موعود ۔۔۔۔۔۔۔فی سترۃ عن الناس لا یبصر القائف اثرہ ،ولو تابع نظرہ ۔۔۔‘‘ (خطبہ/۱۵۰)
’’لوگو! یہ ہر وعدہ کے ورود اور ہر اس چیز کے قربت کا وقت ہے جسے تم نہیں پہچانتے ہو ۔۔۔ لوگوں سے یوں مخفی رہے کہ قیافہ شناس بھی اس کے نقش قدم کو تاحد نظر نہ پا سکیں ۔۔۔‘‘

اس خطبہ میں بھی آپ نے امامؑ کی غیبت اور ظہور کا تذکرہ فرمایا ہے اور یہ واضح کر دیا کہ زمانہ بہر حال حجت خدا سے خالی نہ رہے گا۔ اب تمہارا فرض ہے کہ اس کے ذریعہ آگے قدم بڑھاؤ۔

یہ بات قابل غور ہے کہ یہاں پر ابن ابی الحدید نے اپنی شرح، جلد /۹،صفحہ /۱۲۸ پر تحریر کیا ہے کہ اس سے مراد آپ کی غیبت ہے جو کہ شیعوں کا عقیدہ ہے پھر اس عقیدہ کا انکار کرنے کے بعد خود ہی تحریر کیا ہے کہ ممکن ہے امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کو خداوند عالم پیدا کرنے کے بعد کچھ دن لوگوں سے مخفی رکھے اور دوسروں کے ذریعہ روابط قائم رہیں۔

اسی طرح آپ نے سلسلہ امامت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مستقبل کے حالات کا ذکر کیا ہے:
’’الا بابی و امی ھم من عدّۃ اسماؤھم فی السماء معروفۃ فی الارض مجھولۃ۔۔۔‘‘ (خطبہ /۱۸۷)
’’میرے ماں باپ ان چند افراد پر قربان ہو جائیں جن کے نام آسمان پر معروف اور زمین میں مجہول ہیں ۔۔۔۔‘‘

یہاں پر ’’عدۃ ‘‘ کی شرح میں شیعوں کے قول کو نقل کرتے ہوئے ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ امامیہ یہ کہتے ہیں کہ عدۃ سے مراد گیارہ امام ہیں جو کہ آپؑ کی نسل سے ہیں اور دوسرے افراد اس کا مقصود اولیائے خدا کو بیان کرتے ہیں ۔ لیکن اس نے اپنا نظریہ بیان نہیں کیا کہ عدہ سے مراد کیا ہے جبکہ اسکے علاوہ خود اہلسنت کی کتابوں میں نہ جانے کتنی صحیح احادیث میں سلسلہ امامت کا ذکر ہوا ہے۔ مثلاً جابر بن حمزہ نے رسول اسلامؐ سے روایت نقل کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’لا یزال الاسلام عزیزاً الیٰ اثنیٰ عشر خلیفۃ ثم قال کلمتہ لم افھمھا ،فقلت لابی ما قال؟فقال :کلھم من قریش‘‘ (صحیح مسلم ج/۶ ص/۳)

’’اسلام ہمیشہ سے پسندیدہ رہا ہے یہاں تک کہ اسپر بارہ خلیفہ حاکم ہوں۔ اسی وقت آپ نے کچھ فرمایا جس کو میں سمجھ نہ سکا۔ میں نے اپنے والد سے دریافت کیا کہ پیغمبرؐ نے کیا فرمایا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ سب کے سب قریش سے ہیں‘‘۔

نہج البلاغہ میں کلمات قصار کے ضمن میں ایک واقعہ نقل ہوا ہے کہ کمیل بن زیاد نخعی فرماتے ہیں: امیر المومنینؑ نے (اپنے زمانہؑ خلافت میں قیام کوفہ کے دوران) مجھے ساتھ لیا۔ ہم لوگ شہر سے باہر قبرستان کی طرف نکل گئے۔ جب شہر سے دور سناٹے میں پہنچے تو امام نے ایک آہ سرد بھری اور گفتگو کا سلسلہ شروع کیا۔ اپنی گفتگو کی ابتدا میں فرمایا کہ اے کمیل! لوگوں کے دل ظرف کے مانند ہیں اور بہترین ظرف وہی ہے جو اپنے بہترین مظروف کی اچھی طرح حفاظت کر سکے پس جو کچھ میں بیان کر رہا ہوں اسے محفوظ کر لو۔

مولائے کائناتؑ نے اپنی اس گفتگو میں جو تھوڑی مفصل بھی ہے فرمایا کہ راہ حق کی پیروی کرنے والے انسان تین طرح کے ہوتے ہیں اور اس کے بعد آپ نے اپنی تپش دل اور گھٹن کا شکوہ ان الفاظ میں فرمایا کہ آج ایسے افراد نہیں ہیں کہ میں اس سینہ میں محفوظ رموز و اسرار کے عظیم ذخیرہ ان افراد کے حوالہ کر سکوں لیکن اختتام گفتگو میں فرماتے ہیں کہ البتہ ایسا نہیں کہ علیؑ جن کی آرزو رکھتا ہے زمین ان افراد سے بالکل خالی ہو گئی ہے، نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے، ہر عہد میں ایسے افراد رہے ہیں اگرچہ ان کی تعداد کم ہی رہی ہو، پھر آپ نے ارشاد فرمایا:

’’اللھم بلی! لا تخلو الارض من قائم اللہ بحجۃ اما ظاہر مشھوراً و اما خائفا مغمورا ۔۔۔‘‘ (حکمت /۱۴۷)
’’اس کے بعد بھی زمین ایسے شخص سے خالی نہیں ہوتی ہے جو حجت خدا کے ساتھ قیام کرتا ہے چاہے وہ ظاہر ہو اور مشہور یا خائف اور پوشیدہ، تاکہ پروردگار کی دلیلیں اور اسکی نشانیاں مٹنے نہ پائیں لیکن یہ ہیں ہی کتنے اور کہاں ہیں؟ واللہ ان کے عدد بہت کم ہیں لیکن ان کی قدر و منزلت بہت عظیم ہے۔ یہی روئے زمین پر اللہ کے خلیفہ اور اس کے دین کے داعی ہیں  ہائے مجھے ان کے دیدار کا کس قدر اشتیاق ہے‘‘۔

اتمام حجت بہر حال ایک اہم اور ضروری مسئلہ ہے لہٰذا ہر دور میں ایک حجت خدا کا رہنا ضروری ہے چاہے ظاہر بظاہر منظر عام پر ہو یا پردہ ٔ غیبت میں کہ اتمام حجت کے لئے اس کا وجود ہی کافی ہے اس کے ظہور کی شرط نہیں ہے اور حضرت علیؑ کا اس بیان کے سلسلہ میں اتنا اہتمام اس کی اہمیت کو اور بڑھا دیتا ہے۔

اس کو یقوبی نے تاریخ یعقوبی میں جلد /۲،صفحہ /۴۰۰ پر یا بیہقی نے ’’المحاسن و المساوی ‘‘میں صفحہ /۴۰ پر اور اسکے علاوہ اکثر اہل سنت نے اپنی اپنی کتب میں ذکر کیا ہے۔

خود ابن ابی الحدید نے اس جملہ کی شرح میں اس طرح تحریر کیا ہے :
’’یہ جملہ بطور صراحت شیعوں کے عقیدۂ امامت سے نزدیک ہے‘‘۔
جبکہ خود اس کا عقیدہ اس پر نہیں تھا اور یہ حق پر باطل کا لبادہ چڑ ھانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے جیسا کہ خود قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

’’ولا تلبسوا الحق بالباطل و تکتموا لحق و انتم تعلمون‘‘ (بقرہ /۴۲)
’’حق کو باطل سے مخلوط نہ کرو اور جان بوجھ کر حق کی پردہ پوشی نہ کرو‘‘

یا دوسری آیت میں اس طرح خطاب ہوتا ہے:

’’یا اہل الکتاب لم تلبسون الحق بالباطل و تکتمون الحق و انتم تعلمون ‘‘ (آل عمران/۷۱)
’’اے اہل کتاب، کیوں حق کو باطل سے مشتبہ کرتے ہو اور جانتے ہوئے حق کی پردہ پوشی کرتے ہو ‘‘۔

جبکہ دیگر مقامات پر بھی مولائے کائنات ؑ نے امامت و رہبری اور خلافت کو لوگوں پر واضح کر دیاتھا لیکن یہ تمام چیزوں کا علم رکھتے ہوئے بدیہیات کا انکار کرتے ہیں اور یہ واقعاً افسوس کا مقام ہے کہ ایک عالم ادیب ،مورخ ،متکلم ،حدیث شناس،تاریخ اسلام سے آشنا انسان فقط اپنے مذہب کے اعتراف اور شیعوں کی مخالفت کی بنا پر اسکو قبول نہیں کرتا اور آپ ؑ کے قول کا مسخرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہاں آنحضرت ؑ کا مقصود کچھ اور ہے ۔ایسے ہی افراد کے لئے قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:

’’و جحدوا بھا واستقنتھا افسھم ظلماو علوا۔۔۔‘‘ (نمل/۱۴)
’’ان لوگوں نے ظلم اور غرور کے جذبہ کی بنا پر انکار کردیا تھا ورنہ ان کے دل کو بالکل یقین تھا ۔۔۔‘‘

ایک مقام پر آپؑ نے آئندہ کے حالات بیان کرتے ہوئے قرآن کی آیت تلاوت فرمائی:

’’لتعطفن الدنیا علینا بعد شماسھا ۔۔۔و نرید ان نمن علی الذین ۔۔۔‘‘ (حکمت /۲۰۹)
’’یہ منہ زوری دکھلانے کے بعد ایک دن ہماری طرف بہر حال جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی کو اپنے بچے پر رحم آجاتا ہے (اس کے بعد آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی)’’ ہم چاہتے ہیں کہ ان بندوں پر احسان کریں جنہیں روئے زمین پر کمزور بنا دیا ہے‘‘۔

ہر شارح نے اس کی شرح اپنے اپنے انداز میں کی ہے لیکن ابن ابی الحدید نے اس سلسلہ میں شیعوں کے قول کو نقل کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ یہ صرف امام مہدی موعود سے مخصوص نہیں بلکہ یہ ایک امام سے مربوط ہے جو کہ زمین کا صاحب اختیار ہوگا اور پوری دنیا پر حکومت کرے گا۔

بعض احادیث اور اقوال جو کہ نہج البلاغہ میں ذکر نہیں ہوئے ہیں ان میں بھی مولائے کائنات ؑ نے امام زمانہ کا تذکرہ فرمایاہے جیسا کہ آپ نے صراحتاً فرمایا:

’’اذا نادیٰ مناد من السماء’’ ان الحق فی آل محمد‘‘ فعند ذالک یظھر المہدی علی افواہ الناس و یشربون حبہ فلا یکون لھم ذکر غیرہ‘‘
’’اس وقت جب آواز دینے والا آسمان سے آواز دے گا کہ ’’حق اہلبیت کے ساتھ ہے‘‘ تو اس وقت لوگوں کی زبان پر مہدی کا نام ہوگا اور ان کے دل آپ کی محبت سے لبریز ہوں گے اور زبان پر صرف آپ کا ہی ذکر ہوگا‘‘۔

ان تمام ارشادات و فرامین کی روشنی میں چند نکات خلاصۃ پیش کئے جا سکتے ہیں:

۱- امام مہدی کا ظہور ایک امر مسلم اور وقوع پذیر ہے۔
۲- آپ کا ظہور ایک قیام کی شکل میں ہوگا اور آپ کی حکومت پوری دنیا پر ہوگی۔
۳- آپ کی حیثیت ایک مرکزی حیثیت ہوگی اور آپ ساری دنیا کے رہبرو امام قرار پائیں گے۔
۴- آپ کے ظہور کے وقت پوری دنیا سے لوگ آپ کے ارد گرد جمع ہوں گے۔
۵- آپ کو بغیر کسی فتنہ و فساد کے کامیابی حاصل ہوگی۔
۶- آپ ظہور کے بعد قرآن اور سیرت کو زندہ کریں گے اور ظلم و جور سے بھری ہوئے دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔
۷- وقت ظہور زمین اپنے خزانے اگل دے گی۔
۸- علم اپنے عروج پر ہوگا۔

اب آخر میں ہم یہی دعا کرتے ہیں کہ اللھم انا نشکو الیک فقد نبیناو غیبۃ امامنا ،ففرج ذالک اللھم بعدل تظھرہ و امام حق نعرفہ۔ (مستدرک الوسائل ج/۴ ص/۴۰۴)
و اصلح لنا امامنا۔۔۔اللھم املأ الارض بہ عدلا و قسطا ۔۔۔۔و اجعلنی من خیار موالیہ و سبقتہ ۔۔۔وارزقنی الشھادۃ بین یدیہ۔ (مصباح المتجھد ص/۶۹۸)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button