مقالات

بیہودگی کا احساس

 انسان بیہودگی کا احساس کرنا اپنی زندگی میں یہ روانی اختلالات کی وجہ سے یا حقایق کو درک کرنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ جو اتنی گستردہ انسان کی آنکھوں کے سامنے سے گذرتی ہے۔
خداوند عالم ایسے لوگوں کو سمجھانے کے لیے فرماتے ہیں:
’’انّہم یرونہ بعیداً و نراہ قریباً‘‘
ہاں! وہ لوگ جو اپنے  آپ کو کشش زمان میں ڈبو دیا ہے اور زمان کا جز بنا ہے۔ یہ لوگ فقط قیامت، بہشت و دوزخ کو بہت بہت ہی دور سمجھتے ہیں۔ ’’ و ما اظن الساعۃ قائمۃ‘‘ ، گمان نہیں کرتا ہوں قیامت برپا ہو۔
امّا وہ لوگ جو رشد فکری رکھتے ہیں، کامل موفق ہواہے۔ جو اپنے آپ کو زمان سے جدا کیا۔ اور تمام واقعیات کو زنجیر کی طرح تمام علل و عوامل اور عمل و عکس العمل کو اپنی نظر سے دیکھا، تو ان کی نظر میں موت، قیامت، بہشت و جہنم کو بہت نزدیک دیکھا۔ ایسے لوگ متقین میں سے ہے جن کی صفت مولای کائنات نے صفات متقین میں فرمایا:
ان کی گفتگو بے ہدف و لغو نہیں۔ ان چیزوں سے آنکھ بند کرتے جن کو خدا نے ان کے لیے حرام قرار دیا۔ کان دھرتے ہیں ان علم پر جو ان کے لیے منافع بخش ہے۔ جب ان پر بلا نازل ہوتے ہیں ،تو بھی اس طرح رہتے ہیں ،گویا در حال آرام و راحت میں ہوتی۔خداوند کی عظمت ان کی دلوں میں بیٹھی ہے اور جنّت کی نعمتوں سے سرافراز ہو رہا ہے۔
’’و تحدوا بالموت جیرانَھا۔۔۔‘‘
امام (ع) خطبہ ۵۲ میں کلاً تین بخش سے صحبت فرماتے ہیں:
  اوّل: اس بخش میں زہد اور ارزش زہد، یعنی وابستہ نہ ہونا دنیا سے، اور توجہ اس سے کہ یہ دنیا جلدہی گذر جانے والی ہے۔ اور انسان متقی اپنی زندگی کو ا
ایک بہت بڑی اور طولانی پایان نیافتنی کے لیے آمادہ کرنا۔ اور راہ طولانی کیلئے اعمال صالح کا ذخیرہ کرنا۔
  بخش دوم : پاداش اور ثواب بی پایان جو زاہد ان کے منتظر ہے بیان فرماتے ہیں۔
بخش سوم: اس بخش میں ایسے واقعیت کو بیان فرماتے ہیں کہ انسان اصلاًقدرت نہیں رکھتا کہ شکر منعم کریں۔ شکر نعمتوں جو خداوند عالم نے انسان کی وجود کو مملو کیا ہوا ہے، مخصوصاً بالاترین نعمت ایمان کا۔
خلاصہ ترجمہ: آگاہ ہو جاؤ دنیا کی انتہاء کا اعلام کیا ہے۔ اس کی خوبصورتی اور بدی بہت جلد ہی ختم ہوجائیگی ۔ شاید کہیں بھی افراد عاقل نہیں ملتا، جو یہ سوچے کہ دنیا جاویدان اور ابدی ہے اور مرگ و موت کی نام کی کوئی چیز نہیں۔ بلکہ سب جانتے ہیں کہ دنیا فانی ہونے والی چیز ہے۔ تمام أنبیاء الہی و تمام آسمانی کتابوں میں احادیث اور مخصوصاً کتاب مقدس نہج البلاغہ میں امام (ع) فرمایا ہے: انسان کی حیاۃ اور زوال دنیا کی علت کیاہے؟
اساسی ترین علت یہ اسرار اور تأکید و تذکر قطعاً توضیح کی ضرورت نہیں، بلکہ ایک بہت بڑی حکمت منظورہے۔ کہ دنیا کی وجود اس حکمت بغیر تصور ممکن نہیں۔
مطلب کو بیان کرنے سے پہلے ایک مقدمہ بیان کرتاہوں۔ تمام انسان اس بات کو قبول کرتے ہیں، کہ یہ زندگی جاویدانی نہیں ،بلکہ یہ زمین جس پر ہم چلتے ہیںکل کو اس کے اندر بصورت کی صورت میں وہ ہمارے لیے لباس اور آرامگاہ ہوگی۔ اور ایک ایسا وقت آئیگی کہ ہمارا بدن خاک میں تبدیل ہوگا۔ اس کے باوجود انسان اس دنیا کی ظاہری اور جلدہی گذرنے والی اشیاء کو دیکھکر موت کو بھول جاتے ہیں۔ انسان اپنی زندگی میں یقین اور محکم ترین موجود کا انکار کرتے ہیں۔
’’ما أشبہ الیقین بالشک، کیا یقین جو شبہ بہ شک‘‘
جب تک انسان کی آنکھ پر حیات کی عینک ہوگی تو، فقط دنیا اور دنیا کی رنگین زندگی ہی کاتصور ذہن میں رہتاہے۔ جب قبرستان سے گذرتے ہیں تو ایک حالت روانی پیدا ہوتی ہے۔ اس حالت پر دقت کروگے تو بڑی آسانی سے سمجھوگے کہ تمہاری وہ نگاہ جو فقط حیات کی تھی تبدیل ہوگئی ہے۔
بلکہ دوسری نگاہ میں دنیا کو تصور کررہے ہو۔ کیونکہ مطلق خاموشی اور خاک میں دفن ہونے والوں کی حالت ظاہری ایک جیسے ہے۔ اور یہ حالت، حالت حیات کو کم رنگ بلکہ نہ ہونے کے برابر کردیتی ہے۔ دل سے ٹھنڈک آہ نکلتی ہے اوردل و عقل کسی اور سوچ میں مبتلا ہوتے ہیں۔
سوچنے میں مجبور ہوتے ہیں کہ یہ زندگی کتنی بی اعتبار و بی اساس اور سست ہے۔ واقعاً یہ دنیا کتنی بی وفا و بی رحم ہے۔ اما جیسے ہی قبرستان سے باہر نکل آؤگے یا ایک احضار ہونے والے شخص کے سرانے سے اٹھ جاوگے، دوبارہ زندگی عادی میں پلٹ آتے ہیں۔ اور وہی عینک عادی آنکھ پر لگا کر دوبارہ مرنااور فناہونے کو بھلا دیتے ہو۔
امّا بہت ساری حکمت آمیز جو موجب اصرار شدید قرآن و نہج البلاغہ اور دوسری احادیث معتبرہ میں مرنے کی یاد تازہ کردیتی ہے۔ بہت ساری مسائل کو بیان کی ہے۔ یہاں پر چند کو مختصراً بیان کرتے ہیں:
۱۔ ایک واقعیت ہے کہ تمام فرزندان آدم کوموت کا ذائقہ چکناہے، ’’کلّ نفس ذائقۃ الموت‘‘۔ اس میں سُوی کے برابر بھی تفاوت نہیں۔ سب کو اس وسیع وعریض زمین پر دومیٹرکی زمین نصیب ہوگی۔ اور دنیامیں ہمیشہ رہنے والی عقیدہ فقط خواب اور خیال تھا اور اپنی پوری زندگی کو ہوسرانی اور لذت میں گذاردی، یہ اشتباہ تھا۔
۲۔ انسان جب سوچتے ہیں کہ یہ زندگی گذر جانے والی ہے اور یہ مال و دولت ،مقام و منزلت، سب فنا ہونے والی چیز ہے ۔ اس کی نصیب مال و منال دنیا میں محدود ہے، جتنا بھی دولت و مقام وہ حاصل کروگے۔ بالآخرہ ایک دن ہاتھ سے جانا ہے فقط و فقط دو گز میٹر کپڑا اس کی قسمت میں ہوگا۔
یہ حکمت عالی اصرار اور توجہ کے ساتھ انسان عاقل کیلئے بس، کہ یہ دنیاانقراض ہونے والی شیء ہے اور اعتبار نہیں رکھتی۔
۳۔ امّا شخص عاقل کی یہ کوشش ہوتی ہے، جتنا بھی ہوسکے اس دنیای فانی سے زیادہ سے زیادہ آخرت کے لیے کسب و جمع کی جائے۔جب انسان جان لیے کہ یہ دنیامحدود ہے اورواپسی بھی نہیں، تو مسامحہ کے بغیر فرصت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اور ہرگز اپنی عمر کو رایگان جنے نہیں دیتا۔
’’وقد أمر فیھا ماکان حلوا و کدر منھا ما کان صفواً‘‘
’’دنیانے اپنی میٹھاس کو کڑوا اور صاف کو دُھندلا بنادی ہے‘‘
’’اوصیکم بتقوی اللہ۔۔۔ أو لدفع الموت سبیلاً لکان ذلک سلیمان بن داودؑ‘‘
خطبہ ۱۸۱
امام (ع) اس خطبہ میں دنیا کی بی ارزش کی طرف توجہ دے رہے ہیں ۔قدرت ہاتھ سے اور عظمت نابود ہو جائیگی۔ امام (ع) ہمیں قبول وانے کے لیے مثال دے رہے ہیں۔ دنیا کی قدرتمندترین شخص جہان حضرت سلیمان بن داودؑ تھے امّا پھر بھی موت کی منہ سے اپنے آپ کو نہ بچاسکا۔
جب کہ اپنی قدرت کو اسلام دین اور حکم خدا کے خلاف استعمال نہیں کرتے تھے، پھر بھی موت نے ان کو آلیا۔ قدرت کا اندازہ اس سے کرسکتے ہوو حتّیٰ جنیّاں بھی خدا کی حکم سے حضرت سلیمان کے لیے کام کرتے تھے، عبادتگاہ بناتے تھے،اور دوسری ساختمان۔ امّا پھر بھی اتنی قدرت نہ تھی کہ موت کو آنے سے روک لے سلیمانؑ اور ان کے تمام نوکر اور کارگزار سب موت کی منہ میں چلے گئے۔ حتّیٰ حضرت سلیمانؑ اپنے محل کے چھت پر عصا کو ٹیک لگاکر حکم خدا سے لبیّک کہہ چکے تھے۔ امّا حضرت کے کارگزاروں کو معلوم نہ تھا پھر بھی ان کی اطاعت کرتے تھے ۔ کسی کی جرأت نہ تھی ان کے حکم کی خلاف عمل کریں۔ یہاں تک کہ موریانہ نے عصا کو کھائی تو حضرت سلیمانؑ گِرپڑے۔ تو سمجھے کہ سلیمان نبیؑ پر موت آچکی۔
ابن ابی الحدید، عمالقہ کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’وہ یمن اور حجاز کی سرزمین پر حکومت کرتے تھے۔ ظلم اور فساد کی اتنی حدّ کو پہنچادی تھی کہ کوئی بھی امان میں نہ تھا‘‘۔
حتّیٰ عروسان عاد و ثمود کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’یہ لوگ حضرت نوحؑ کے اولاد سے اور ان سے شدّاد ہے۔ سرزمین احقاق (منطقہ عمان) میں زندگی کرتے تھے‘‘۔ خداوند عالم احقاف اور عاد کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’ہود پیامبرؑ ان سے تھے جتنا ان کو سیدھے راستے پر ہدایت کرتے امّا ان پر اثری نہیں ہوتا تھا‘‘۔
فرعون اور فرعونیان، بہت پہلے سے چلے آرہی تھی ان کل نسل مصر پر حکومت کرتے تھے۔ داستان حضرت یوسفؑ اور حضرت موسیٰؑ اسی سلسلہ سے ہیں۔ سورہ یوسف اور قصص نمونہ اور مثال ہے فرعونیوں کی۔
خداوند عالم قرآن کریم میں اصحاب رس کے بارے میں دو جگہ پر فرمایا: ’’ اصحاب رس کے بارے میں حتمی ہے ۔ وہ لوگ اپنے پیامبروں کو کنویں میں گلہ گونڈ کر شہید کیا۔ امّا کس زمان میں اور کہاں تھے محل اختلاف ہے۔امّا یہ کہ خاورمیانہ میں ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔ شام میں تھے یا یونان میں معلوم نہیں۔
ابن ابی الحدید مطلبی بیان کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتاہے کہ یونان اور ترکیہ سے نزدیک تھے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’رس ایک نھر (یا نالہ) کا نام ہے جو دریای خزر میں گرتے ہیں۔ اس کی بات تا حدود قابل تائید ہے ، ارس جو فعلاً دریای خزر میں گرتے ہیں ہمزہ شاید کثرت استعمال سے گراہوگا۔
امام (ع) فرماتے تھے یہ لوگ اتنی قدرت رکھتے ہوئے بھی موت سے جان نہیں چھڑا سکے ۔ تو ہم بھی اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آئے۔
’’ألستم فی مساکن من کان قبلکم اطول اعماراً، و أبقی آثاراٌ و أبعد آمالاً۔۔۔‘‘
خطبہ۱۱۰
امام (ع)فرماتے ہیں: کیا تم ان کے گھروں میں نہیں ہو، جو تم سے پہلے طویل عمر، پایدار آثار اور دور رس امیدواروں والے تھے۔۔۔
اگر کوئی دنیا سے عبرت حاصل کرناچاہو تو خود دنیا کی تاریخ سے عبرت حاصل کرو ۔ اس کی تاریخ کے اوراق الٹوگے تو اس کے بے وفائی آپ پر عیاں ہوگی۔ اس کا پیسہ بھی کل کو کام نہیں آئیگا۔ معصومیں (ع) کامشہور فرمان ہے : تین چیز دنیا میں انسان اس کو اپنا تے ہیں:
’’ مال ، خانوادہ، عمل‘‘
مال: کہتے ہیں جب تک تم زندہ ہو میں تمہارا ساتھ ہوں۔ جب مرجاؤگے تو تمہارا اور میرا رابط کٹ جائیگا۔
خانوادہ: تمہارا اہل خانہ، بیوی، بچے، بھائی۔۔۔ سب تمہارے ساتھ ہے۔ جب تک تم زندہ ہو اور قبرمیں دفن ہونے تک تمھارے ساتھ ہے۔ اور جب تمھیں قبر میں آرام سے دفن کرنے کے بعد واپس پلٹ کر تمھارے مال و منال کو تقسیم کرکے اپنی زندگی کی طرف پلٹ جائیگا۔
عمل: سب کارآمد تمھارے لیے نامہ اعمال ہے۔ نامہ اعمال جیسا بھی تمھارے ساتھ قبر اور نکیر و منکر کے سؤالات کا جواب دینے سے لیکر کل جنّت اور جہنم میں جانے تک تمھارے ساتھ ہوگا۔
پس گذشتہ لوگوں کی تاریخ سے عبرت حاصل کرلو۔ لوگ زندگی کی عیش عشرت کو ہر چیز پر مقدم کرتے تھے۔ امّا جب دنیا سے آنکھ بند کرلی تو نہ زاد و توشہ تھی ، آخرت کی لمبی اور طولانی سفر کے لیے اور نہ کوئی سواری۔
پس ایسے حالات میں تاریخی حوادث سے آنکھ بندکرلینا جہالت کے سوا کچھ نہیں ہے ، اور صاحب علم و عقل وہی ہے جو ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھائے۔ انسان کو ایسے چیز پر تکیہ کرناچائے جو ہمیں نجات دے سکیں۔
منابع
۱۔ شرح و ترجمہ نہج البلاغہ، زمانی۔
۲۔شرح و ترجمہ نہج البلاغہ، جعفری، علامہ محمد تقی ۔
۳۔ترجمہ نہج البلاغہ، مولانا مفتی جعفر حسین صاحب قبلہ۔
۴۔شرح نہج البلاغہ، معتزلی مدائنی، عز الدین عبدالحمیدبن ہبۃاللہ بن ابی الحدید۔
۵۔توضیح نہج البلاغہ، الحسینی الشیرازی، السید محمد۔
۶۔شرح و ترجمہ نہج البلاغہ، آملی، عزالدین جعفر بن شمس الدین۔
۷۔المنجد۔
۸۔منھاج البراعۃ فی شرح نھج البلاغہ، الھا شمی الخوئی، العلامۃمیرزا حبیب اللہ۔
’’آغا محمد محسن عادلی پاکستان‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button