شمع زندگی

271۔ حلم

وَ الْحِلْمُ فِدَامُ السَّفِيْهِ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۱۱)
حلم و بردباری احمق کے منہ کا تسمہ ہے۔

انسان کو منزل کمال تک پہنچانے والے اوصاف میں سے ایک حلم ہے۔

حلم:

یعنی مخالف کی نا زیبا حرکتوں یا باتوں کو برداشت کرنا۔ اللہ سبحانہ نے خود کو حلیم کہا ہے اور حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں کہا کہ وہ حلیم تھے۔ امیرالمومنینؑ نے اس فرمان میں حلم کو تسمہ کہ کر جہاں کلام کی فصاحت و بلاغت کا عظیم نمونہ پیش کیا وہیں حلم کی مختصر الفاظ میں بہترین تعریف بیان فرمائی۔

چوپاؤں کو کاٹنے سے روکنے یا ان کو فصل میں منہ مارنے سے منع کرنے کے لئے یا چوپاؤں کے بچوں کو بے وقت ماں کا دودھ پینے سے روکنے کے لیے ان کے منہ پر ایک جالی سی چڑھا دی جاتی ہے جو انہیں ان کاموں سے روکتی ہے۔ اسے چھنکا یا دہاں بند کہا جاتا ہے۔ کسی احمق کے احمقانہ قول یا فعل سے بچنے کے چھینکے کا نام حلم ہے جس کے ذریعے اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کے ضرر و نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔

قرآن مجید نے بھی فرمایا کہ اگر کسی جاہل کے پاس سے گزرو تو اس سے باتوں میں الجھنے کے بجائے اسے سلام کہ کر گزر جاؤ، وہ کیا کہتا ہے اس کا جواب دینے کے بجائے اپنے مقام کو مد نظر رکھتے ہوئے مختصر الفاظ میں جس سے آپ کی عزت بھی بچے، جواب دے کر گزر جاؤ ورنہ بعض اوقات احمق و جاہل کے مقابلے میں ایک جملہ کہ دیا جائے تو وہ دس نامعقول باتیں کرے گا۔ اگر انسان ان کا جواب دینا شروع کرے گا تو اس جیسا سمجھا جائے گا۔

کسی حکیم نے بہترین لفظ کہے کہ احمق کا مقابلہ کرنا اور جواب دینا آگ پر ایندھن ڈالنا ہے۔ اس لیے کامیاب لوگ برداشت و بردباری سے کام لیتے ہیں اور زندگی کے سفر میں احمقوں کے ساتھ الجھ کر وقت ضائع نہیں کرتے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button