شمع زندگیھوم پیج

134۔ عذر

اِحْذَرْ كُلِّ عَمَلٍ إِذَا سُئِلَ عَنْهُ صَاحِبُهُ اسْتَحْيَا مِنْهُ وَاَنْكَرَهُ۔ (نہج البلاغہ خط 69)
ہر اس عمل سے بچو کہ جب اس کے مرتکب ہونے والے سے جواب طلب کیا جائے تو وہ خود بھی اسے برا قرار دے یا اسے معذرت کی ضرورت پڑے۔

غلط کیا ہے اور صحیح کیا ہے اس کی پہچان کے لیے اس فرمان میں وضاحت کی گئی ہے۔ انسان کا ضمیر جب تک بیدار ہوتا ہے اس میں یہ ہمت ہوتی ہے کہ وہ ضمیر کے فیصلوں کا لحاظ کرتا ہے اور ضمیر کے خلاف عمل کر بھی بیٹھے تو اسے خود برا جانتا ہے یا اس سے اس غلطی کے بارے سوال کیا جائے تو معذرت کرتا ہے۔

امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں ایسے عمل سے خود کو محفوظ رکھو اور بچاؤ کیونکہ انکار اور عذر اس عمل کی برائی کی نشانی ہے اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں ہم نے عذر خواہی کر لی تو گویا وہ غلطی غلطی نہیں رہی جبکہ یہ صحیح نہیں ہے۔ اگر ضمیر کے خلاف ایسے اعمال کو مسلسل انجام دیا جائے تو اس کا نقصان یہ ہوتا کہ ضمیر بھی مر جاتا ہے اور وہ غلطی کو غلطی ہی نہیں سمجھتا اور جب غلطی نہیں سمجھے گا تو معذرت بھی نہیں کرے گا۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button