مرکزی سلائیڈرمقالات

نہج البلاغہ میں حکومت

تحریر: سید ارشد حسین موسوی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

حکومت ایک ایسا کلمہ ہے جس کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں اور اسے متعدد کلمات کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے جیسے ملکی امورکا نظم و نسق چلانا، فرمان کا صادر کرنا، داخلی اور خارجی امور کو شکل و ترتیب دینا اور عصر حاضر میں ایک ملک کے اداری، سیاسی، انتظامی اور عسکری یا دفاعی امور کے کل مجموعہ کا نام حکومت قرار دیا جاتا ہے جس میں ایک کابینہ، وزراء یا ایک خاص شخص (جیسے بادشاہ یا ڈکٹیر) ملکی قوانین کے مطابق حکومت چلاتے ہیں۔ [1]

حکومت کی لغوی تعریف

حکومت اور حکم دونوں کا مصدر حکماً یا حکومة ہیں جس سے باقی افعال مشتق ہوئے ہیں اور اصل میں حکم کا معنی منع ہے (مطابق نقل مصباح المنیر)جب کہ راغب اصفہانی کہتے ہیں: مادہ حکم منع کے معنی میں ہے جس سے صلاح مراد ہے اور لسان العرب میں ذکر ہوا ہے کہ مراد حکومت کے ذریعہ ظلم و ستم سے منع کرنا ہے۔ [2]

قرآن میں حکومت

قرآن کریم میں حکومت کے بارے میں کئی ساری آیتیں موجود ہیں جن میں سے بعض آیات کو نکات کے ساتھ مختصر طور پر بیان کیا جاتا ہے

1۔ قرآن میں حکم فرمان کے معنی میں آیا ہے جو صرف خدائے متعال سے مخصوص ہے جیسے ”ان الحکم الّا للہ“ [3]حکم خدا کے بغیر کسی کے لیے نہیں ہے؛ ألا لہ الحکم (سورہ انعام: 62) جان لو کہ حکم صرف اس کے لیے ہے۔

2۔ مطلق طور پر حاکمیت صرف خدا کے لیے ہے اور وہی حقیقی مالک ہے ”و لہ ما فی السّماوات والارض“ [4] اس طرح کی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت ذاتاً خدا کے لیے ہے اور حکم بھی چاہے تکوینی ہو یا تشریعی، صرف اسی کے لیے ہے جیسے (سورہ مائدہ: 49) اور تشریعی صورت میں خداوند متعال اپنے بندوں کے ذریعہ حکومت تشکیل دینے کی تاکید کرتا ہے چاہے انبیاء کے ذریعہ یا صلحاء اور معصومین علیہم السلام کے ذریعہ۔

3۔ قرآن میں دینی اور اسلامی حکومت کے بارے میں مستحکم اور نہایت ہی واضح طور پر بحث کی گئی ہے کیونکہ قرآن میں انسان کے اجتماعی امور پر خاصی توجہ کی گئی ہے جن کا لازمہ اسلامی حکومت کی تشکیل ہے جیسے [5] تفسیر نعمانی میں حضرت علی علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ حضرت فرماتے ہیں: قرآن میں بہت ساری ایسی آیتیں ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ ایک امت کے لیے امام کی ضرورت ہے جو ان کے امور کے لیے قیام کرے، انہیں امر و نہی کرے، ان کے درمیان خدا کی حدود کو جاری کرے اور خدا کے دشمنوں سے جہاد کرے۔۔ [6]

حکومت کی قسمیں:

حکومت کی دو قسمیں ہیں: دینی یا غیر دینی؛ دینی  حکومت وہ حکومت ہے جس میں سو فیصد اسلامی احکام جاری کیے جائیں اور ان پر عمل در آمد ہو اور قوانین کے اجرا میں دینی اصولوں کا لحاظ کیا جائے۔ اس بنا پر بعض نام نہاد ملکوں میں جہاں نام کی مسلمان حکومت ہے، در حقیقت وہاں کی حکومت کو اسلامی حکومت کا نام نہیں دیا جا سکتا ہے۔ دینی حکومت کے مقابلے میں موجودہ زمانے کی حکومتیں ہیں جیسے بادشاہی یا سلطنتی نظام، لیبرل ڈیموکریسی، کمیونیسٹی، سیکولر اور ڈکٹیٹر شپ وغیرہ۔

نہج البلاغہ میں حکومت

حکومت کی ضرورت:

حضرت امیر المومنین علیہ السلام حکومت کو انسان کی بنیادی اور فطری ضرورت قرار دیتے ہوئے ایک کلی قاعدہ ذکر کرتے ہیں ”لا بدّ للنّاس من امیرٍ برٍّ اور فاجر“ [7] لوگوں کے لیے ایک امیر کی ضرورت ہے ہے چاہے وہ نیک ہو یا بد۔کیونکہ اگر حکومت نہ ہو تو معاشرے میں فتنہ و فساد برپا ہو جائے گا اور سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا، اسی لیے ارشاد فرماتے ہیں ”وال ظلوم غشوم خیر من فتنة تدوم“ [8] ایسے فتنے جو آئے دن معاشرے میں برپا ہوتے رہیں، سے ظالم اور ستمگر حاکم کی حکومت بہتر ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کسی ظالم یا اس کی ظلم کی بنیادوں پر قائم حکومت کی تائید نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ معاشرہ یا ملک میں فتنہ و فساد اور ہرج و مرج سے ظالم کی حکومت بہتر ہے۔

مولا علی علیہ السلام خوارج کے مقابلے میں جو سرے سے حکومت کے منکر ہو گئے تھے اور ”لا حکم الا للہ“ کے ذریعہ آنحضرت علیہ السلام کی حکومت کی نفی کر رہے تھے، کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں ”کلمة حقّ یراد بھا باطل نعم انّہ لا حکم الا للہ ولکن ھؤلاء یقولون لا امرة الّا للہ و انّہ لا بدّ للنّاس من امیر برٍّاو فاجرٍ“ [9] یعنی یہ کلام حق ہے جس سے باطل کا اراد کر رہے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ حکم صرف خدا کے لیے ہے لیکن یہ لوگ (خوارج) کہتے ہیں کہ حکمران صرف خدا ہے جب کہ لوگوں کو ایک حکمران کی ضرورت ہے چاہے وہ نیک ہو یا بد۔حضرت حکومت کی ضرورت اور افادیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مومن حکومت کے زیر سایہ اپنے کام میں مشغول ہو جاتا ہے اور کفر بھی اس سے مستفید ہوتا ہے۔ [10]

اسلامی حکومت کی ضرورت:

شاید بعض لوگ تصور کریں کہ علی علیہ السلام حکومت کی ضرورت کو ناگزیر سمجھتے ہیں، لیکن اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ حکومت کا دینی ہونا ضروری ہے۔ ان لوگوں کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ جو شخص نہج البلاغہ سے واقفیت رکھتا ہو خاص کر حکومت اور رہبری کے بارے میں جانکاری رکھتا ہو تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ مولا علی علیہ السلام نے اسلامی حکومت، اس کی اہمیت اور ضرورت کے بارے میں بہت زیادہ تاکید کی ہے۔ ہم نہایت ہی اختصار سے چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔

1۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام حکومت کی اہمیت اور افادیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ میں ڈرتا ہوں کہ یہ باقدر و قیمت مقام نااہل افراد کے ہاتھوں میں چلا جائے ”ولکنّنی آسی أن یلی أمر ھذہ الأُمّة سُفھاؤھا و فجّارھا فیتّذوا مال اللہ دولاً و عبادةُ خولاً والصّالحین حرباً والفاسقین حزباً“ [11] لیکن میں اس لیے غمگین ہوں کہ اس امت کے نادان اور تباہ کار افراد حکومت حاصل کرلیں اور خدا کے مال کو ہاتھوں ہاتھ قرار دیں اور اس کے بندوں کو غلام بنا لیں، نیک لوگوں سے جنگ کریں اور فاسقوں کے ساتھ ہو جائیں۔

2۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام اسلامی حکومت کی افادیت کو بیان کرتے ہوئے لوگوں کو وقت کے امام کی طرف دعوت دیتے ہیں تا کہ دینی حکومت کو مستحکم و مضبوط بنائیں، کیونکہ خدائی اور اسلامی حکومت امت مسلمہ کے امور کی حافظ و نگہبان ہوتی ہے۔ ”و انّ فی سلطان اللہ عصمة لأمرکم فاعطوہ طاعتکم ملوآمةٍ و لا مستکرہٍ بھا“ [12] بے شک خدا کی حکومت تمہارے امور کی محافظ ہے، اس بنا پر اپنے امور کی لگام کسی نفاق اور اکراہ کے بغیر اپنے امام کے سپرد کر دو۔

3۔ ایک معاشرہ میں علماء اور دانشوروں کو ظلم و ستم کے مقابلہ میں ذمہ دارقرار دیتے ہوئے خبر دار کرتے ہیں کہ قوم و ملت اور معاشرہ کی بدحالی کے سلسلے میں بے تفاوت نہ رہیں کیونکہ علماء نے خدا وند عالم کو ایک عہد دے رکھا ہے جسے نبھانا ان پر واجب ہے ”وما اخذ اللہ علی العلماء ألّا یقارّوا علی کظمة ظالمٍ ولا سغبِ مظلومٍ لألقیت حبلھا علی غاربھا“ [13] اور اللہ کا اہل علم سے یہ عہد نہ ہوتا کہ خبر دار ظالم کی شکم پُری اور مظلوم کی گرسنگی پر چین سے نہ بیٹھنا تو میں آج بھی اس خلافت کی رسی کو اسی کی گردن پر ڈال کر ہنکا دیت ۔

4۔ اسلامی معاشرہ میں رہبری کے مقام و منزلت کے سلسلے میں آنحضرت بہت ہی زیادہ حساس ہیں، لہذا ایک رہبر کی خصوصیات کو بیان کرتے ہیں ”ایّھا النّاس انّ احقّ النّاس بھذا الامر اقواھم و اعلمھم بامر اللہ فیہ“ [14]لوگو! یاد رکھو اس امر کا زیادہ حقدار وہ ہے جو سب سے زیادہ طاقتور اور دین الٰہی کا واقف ہو۔یعنی رہبر وہی ہو سکتا ہے جو علم و طاقت کے لحاظ سے اعلم زمان ہو، کیونکہ رہبر لوگوں کا حافظ اور نگہبان ہوتا ہے۔[15]

5۔ دینی حکومت کے لزوم اور ضرورت کے لیے ایک بہترین دلیل آیات شریفہ کی تفسیر ہے جسے مولا علی نے نہج البلاغہ میں ارشاد فرمایا ہے ”و فی ہذا اوضح دلیل علی انّہ لابدّ للامّة من امامٍ یقومہ بأمرھم فیأمرھم و ینھاھم، و یقیم فیھم الحدود و یجاھد العدوّ و یقسّم الغنائم و یفرض الفرائض ویعرّفھم ابواب ما فیہ صلاحھم۔۔۔۔“۔ [16] ان آیتوں میں واضح دلیلیں ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ امت کا ایک امام ہونا چاہیے جو ان کے امور کے لیے قیام کرے، انہیں امر و نہی کرے اور ان کے درمیان حدود کا اجرا کرے، اور دشمن کے ساتھ جہاد کرے اور ان کے درمیان عدل و انصاف کے تحت غنائم تقسیم کرے، لوگوں کے واجبات بجا لانے پر سعی و کوشش کرے اور انہیں صلاح و فلاح کے راستے دکھلائے۔۔۔

6۔ رہبر کی ذمہ داری، لوگوں کے حقوق اور ان کے مقابلے میں رہبر کے حقوق، رہبر کی منزلت، حقیقی رہبر اور امام اور ان کے اوصاف اور خصوصیات، اسلامی حکومت کی تشکیل، اس کے ارکان، اس کے مسائل یہ سب ایسے مسائل ہیں جو اسلامی حکومت کی ضرورت پر دلالت کرتے ہیں جن کے بارے میں نہج البلاغہ میں بحث کی گئی ہے۔

رہبر کی اہمیت اور منزلت:

حکومت اور امت مسلمہ میں اہم ترین بحث اسلامی حکومت کی رہبریت کے بارے میں کی گئی ہے، مثلاً اسلام میں رہبر کی خصوصیات کیا ہیں؟ اس کی منزلت کیا ہے؟ رہبر کو کیسا ہونا چاہیے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں ”فاعلم انّ افضل عباد اللہ عند اللہ امام عادل ھُدِیَ و ھَدَی“۔ [17]یاد رکھو خدا کے پاس سب سے بہترین بندہ وہ امام عادل ہے جو خود امام ہدایت یافتہ ہو اور دوسروں کو ہدایت دے۔ اگر رہبر عادل ہو تو لوگوں میں عدل و انصاف کا بول بالا ہوتا ہے اور لوگ امنیت کا احساس کرتے ہیں، سنت پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور سبھی لوگ اپنے حقوق سے مستفید ہوتے ہیں جب کہ عادل رہبر کے مقابلہ میں ظالم اور جابر حاکم ہو تو معاشرہ میں ظلم و ستم عام ہو جاتا ہے، لوگ خوف کا احساس کرتے ہیں، لوگوں کے حقوق پر شبیہ خون مارا جاتا ہے، بدعتیں رائج ہو جاتی ہیں اور گمراہی عام ہو جاتی ہے۔ لہذا امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: ”و انّ شرّ النّاس عند اللہ امام جائر ضلّ و ضُلّ بہ“ [18]اور بدترین فرد خدا کی بارگاہ میں وہ ظالم پیشوا ہے جو خود بھی گمراہ ہو اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے۔

در اصل عادل امام اور جائر یعنی ظالم امام ایک دوسرے کے مقابلے میں دو نظریہ یا راستے ہیں جہاں ایک طرف حق ہوتا ہے تو دوسری طرف باطل جس کی طرف قرآن بھی اشارہ کرتا ہے اور مولا علی علیہ السلام بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔پھر حضرت امیر المومنین علیہ السلام اسلامی رہبر یا حاکم کے مقام و منزلت کو نہایت ہی حساس اور اس کی ذمہ داری کو بہت ہی اہم قرار دیتے ہیں۔ ”فصاحبھا کراکب الصّغبة ان اشنقّ لھا خَرَمَ و ان اَسلَسَ لھا تقحّم“۔ [19] اس کا برداشت کرنے والا ایسا ہے جیسے سرکش اونٹنی کا سوار کہ مہار کھینچ لے تو زخمی ہو جائے اور ڈھیل دے تو ہلاکتوں میں کود پڑے۔ دوسری جگہ رہبریت کے مقام کو نہایت ہی اہم قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ”و مکان القیّم بالأمر مکان النّظام من الخرز یجمعہ و یضمّہ فان انقطع النّظام تفرّق الخرز و ذھب ثمّ لم یجتمع بحذافیرہ ابداً“۔ [20] ملک میں نگراں کی منزل مہروں کے اجتماع میں دھاگے کی طرح ہوتی ہے کہ وہی سب کو جمع کیے رہتا ہے اور وہ اگر ٹوٹ جائے تو سارا سلسلہ بکھر جاتا ہے ور پھر کبھی جمع نہیں ہو سکتا ہے۔ مولا علی علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق رہبر اور امام ہی ایک قوم یا ملک کی وحدت اور اتفاق کا محور ہوتا ہے، اگر محور ہی بکھر جائے تو باقی کیا کر سکتے ہیں اور کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟بلکہ پورا معاشرہ تفرقہ اور اختلاف کا شکار ہو جائے گا جس کی بنا پر اندرونی اور بیرانی دشمن حملے کریں گے اور اس ملک اور اس کی قوم کو تباہ و برباد کر دیں گے تا کہ نہ ہی رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔

امیر المومنین علیہ السلام ایک اور جگہ پر قائد یا رہبرکے نقش و کردار کو چکی کے مرکز سے تشبیہ دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ”و انّما انا قطب الرّحا تدور علیّ و انا بمکانی فاذا فارقتہ استحار مدارھا و اضطرب ثقالھا“۔[21]میں خلافت کی چکی کا مرکز ہوں جسے میرے گرد چکر لگانا چاہیے کہ اگر میں نے مرکز چھوڑ دیا تو اس کی گردش کا دائرہ متزلزل ہو جائے گا اور اس کے نیچے کی بساط بھی جا بجا ہوجائے گی۔

حکومت کا انگیزہ یا محرک:

ہر حکومت کو اس کے محرکات کے ذریعہ ایک دوسرے سے تشخیص دی جا سکتی ہے۔ بعض حکومتیں قبضہ و اقتدار کے محرکات کی بنا پر وجود میں آتی ہیں تو بعض میں نام و نشان اور شہرت کا محرک پایا جاتا ہے۔ بعض قدرت حاصل کرنے کیلئے تو بعض مال و دولت جمع کرنے کیلئے اور ان سب دنیوی محرکات کے مقابلے میں ایک خدائی انگیزہ (محرک) بھی پایا جاتا ہے۔ اس حکومت کی مدت ہو سکتا ہے کہ کم رہی ہو لیکن اس کے مثبت اور شیرین اثرات رہتی دنیا تک باقی رہتے ہیں جس طرح حضرت رسول اکرم ﷺ کی حکومت یا مولا علی علیہ السلام کی مختصر مدت کی حکومت۔

حضرت علی علیہ السلام دو طرح کی حکومتوں کو بیان کرتے ہیں، ایک دفعہ محدود لیکن مادی لحاظ سے اور ایک دفعہ حقیقت کی بنا پر خدائی لحاظ سے۔ لوگوں کی مادی دنیا اور مادی حکومت اور اس کی محدودیت کو بے ارزش بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”و لألفیتم دنیاکم ھذہ ازھد عندی من عفطة عنزٍ“۔ [22] اور تم دیکھ لیتے کہ تمہاری دنیا میری نظر میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے قیمت ہے۔ یعنی جس حکومت میں خدائی جلوہ نہ ہو اس کی کوئی قیمت ہی نہیں۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ”و لھی فی عینی اوھی و اھون من عفصةٍ مقرةٍ“۔ [23] یہ دنیا میری نظر میں کڑوی چھال سے بھی زیادہ حقیر اور بے قیمت ہے۔

حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں حکومت کے کچھ اصول اور اہداف ہیں اور اگر یہ اصول اور اہداف اس میں نہ پائے جائیں تو اس کی قیمت پھٹی ہوئی جوتی سے بھی کم ہے۔ حضرت علی علیہ السلام تو حکومت کو حق کے استحکام، باطل کی نابودی اور احیاء دین کا وسیلہ قرار دیتے ہیں اور اگر ایک حکومت ان امور سے فاقد ہو تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسی لیے ابن عباس کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: اس جوتے کی کتنی قیمت ہوگی؟ ابن عباس نے کہا: کچھ بھی نہیں (کیونکہ مولا علی علیہ السلام اس وقت اپنے اس نعلین مبارک کی جو پھٹی ہوئی تھی مرمت کر رہے تھے)، تو ابن عباس کے جواب میں آپؑ نے فرمایا: ”واللہ لھی احبّ الیّ من امرتکم الّا ان اقیم حقّاً او ادفع باطلاً“۔ [24]خدا کی قسم یہ مجھے تمہاری حکومت سے زیادہ عزیز ہیں مگر یہ کہ حکومت کے ذریعہ میں کسی حق کو قائم کر سکوں یا کسی باطل کو دفع کر سکوں۔

یہاں پر وہ صرف حق کو قائم کرنے یا باطل کو دفع نے کی بات نہیں کر رہے ہیں۔بلکہ وہ فرماتے ہیں کہ اگر میں ایسا نہ کر سکوں تو یہ حکومت اس جوتی سے بھی بے قیمت ہے۔ یعنی جو شخص امت مسلمہ کا امام ہو تو اس میں علم، فہم و فراست اور اس امر کو اجرا کرنے کی طاقت ہونی چاہیے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اس کی حکومت کسی کام کی بھی نہیں۔ ”ایھا النّاس انّ احقّ النّاس بھذا الامراقواھم علیہ و اعلمھم بامر اللہ فیہ“۔ [25] لوگو! یاد رکھو اس امر کا سب سے زیادہ سزا وار وہی ہے جو سب سے زیادہ طاقتور اور دین الٰہی کا واقف کار ہو۔

حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں دینی حکومت یعنی اقامہ حق، دوسری عبارت میں جب تک حق کا اقامہ کیا جائے تب تک دینی حکومت کسی بھی صورت میں عملی طور پر وجود میں نہیں آسکتی۔ حق ہو سکتا ہے کہ انفرادی ہو یا اجتماعی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حق معاشرہ میں کسی کمزور ترین فرد کا ہو جسے واپس لینا نہایت ہی سخت ہو، ایسی جگہ پر حق کا واپس لینا اور عدل و انصاف سے کام لینا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ مولا فرماتے ہیں: ”الذّلیل عندی عزیز حتّی آخز الحقّ لہ والقویّ عندی ضعیف حتّی آخذ الحقّ منہ“۔ [26] یاد رکھو تمہارا ذلیل میری نگاہ میں عزیز ہے یہاں تک کہ اس کا حق دلوا دوں اور تمہارا عزیز میری نگاہ میں ذلیل ہے یہاں تک کہ اس سے حق لے لوں۔دوسری جگہ پہ ارشاد فرماتے ہیں: ”ولکنّنی اضرب بالمقبل الی الحقّ المدبر عنہ و بالسّامع المطیع العاصیّ المریب ابدا“۔ [27] میں حق کی طرف آنے والوں کے ذریعہ انحراف کرنے والوں پر اور اطاعت کرنے والوں کے سہارے معصیت کار تشکیک کرنے والوں پر مسلسل ضرب لگاتا رہوں گا یہاں تک کہ میرا آخری دن آجائے۔

حضرت علی علیہ السلام کی روح و فکر صرف یہی ہے کہ کسی بھی صورت میں معاشرہ میں حق کا اقامہ کیا جائے اور جو بھی حق سے بغاوت کرے، اس کے ساتھ جنگ کی جائے، لہذا فرماتے ہیں: ”و لعمری ما علیّ من قتالٍ من خالف الحقّ و خابط الغیّ من اذھانٍ وایھانٍ“۔ [28]میری جان کی قسم! میں حق کی مخالفت کرنے والوں اور گمراہی میں بھٹکنے والوں سے جہاد کرنے میں نہ کوئی نرمی کر سکتا ہوں اور نہ سُستی۔

ایک نمونہ:

ایک عیسائی مؤرخ جارج جرداخ لکھتے ہیں ”علی علیہ السلام نے ایک رات کسی شخص کی آواز سنی جو لوگوں سے مدد مانگ رہا تھا، حضرت نے آواز سنی تو فرمایا: میں مدد کے لیے آرہا ہوں، کیا دیکھا کہ دو آدمی کھڑے ہیں، ایک نے دوسرے کا گریبان پکڑ رکھا ہے اور اسے نہیں چھوڑ رہا ہے۔جب حضرت علی ان کے پاس پہنچے تو اس آدمی نے کہا کہ میں نے اس آدمی کو نو درہم میں لباس بیچا، اس نے مجھے صرف دو درہم دیے، اب جب کہ میں نے باقی پیسے مانگے تو اس نے مجھے پیسے دینے سے انکار کرنے کے علاوہ گالیاں دیں اور طمانچہ بھی مارا۔ حضرت نے اس آدمی سے کہا کہ اس کے پیسے لوٹا دو، پھر مرد شاکی سے پوچھا کہ تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ اس نے تجھے طمانچہ مارا، اس نے اپنا گال دکھایا جس پر طمانچہ کے نشان باقی تھے۔ مولا نے اس شخص سے کہا کہ یہیں بیٹھو اور شکایت کرنے والے سے کہا کہ اس سے قصاص لو، اس آدمی نے کہا کہ مولا! میں اسے معاف کرتا ہوں، سو اس نے اسے معاف کر دیا۔ بہر حال مراد یہ ہے کہ حضرت نے اسی حال میں تب تک اس شخص کو نہیں چھوڑا جب تک کہ اس کا حق ادا نہیں ہوا۔ [29]

حکومت ہدف نہیں:

بہت سارے لوگ خاص کر موجودہ زمانے کے ممبران اسمبلی کرسی تک پہنچنے کیلئے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، منشور مرتب کرتے ہیں کہ ہم خدمت خلق کیلئے، جوانوں کو روزگار دینے کیلئے، مشکلات حل کرنے کیلئے وغیرہ حکومت چاہتے ہیں، مختلف طریقوں سے مکر و فریب کے ذریعہ کرسی حاصل کر لیتے ہیں لیکن اقتدار کی کرسی پر پہنچ جاتے ہیں تو اپنے تمام وعدے اور دعوے بھول جاتے ہیں اور ان کا تمام ہمّ و غمّ کرسی ہی ہوتی ہے جب کہ مولا ارشاد فرماتے ہیں کہ حکومت ہدف نہیں بلکہ منزل کمال تک پہنچنے کیلئے صرف ایک وسیلہ ہے۔ ”اللہمّ انّک تعلم لم یکن الّذی کان منّا منافسة فی سلطان ولا التماس شیئٍ من فضول الحطام ولکن لنرد المعالم من دینک و تظھر الاصلاح فی بلائک فیامن المظلومون من عبادک و و تقام المعطّلة من حدودک“۔ [30] خدایا تو جانتا ہے کہ میں نے حکومت کے بارے میں جو اقدام کیا ہے اس میں نہ سلطنت کی لالچ تھی اور نہ مال دنیا کی تلاش۔ میرا مقصد صرف یہ تھا کہ دین کے آثار کو ان کی منزل تک پہنچاؤں اور شہروں میں اصلاح پیدا کروں تاکہ مظلوم بندے محفوظ ہو جائیں اور معطل حدود قائم ہوجائیں۔

اسلامی حکومت کے اہداف:

ہر حکومت کے اہداف اس کے حاکم کے ذریعہ بیان کیے جاتے ہیں اور حاکم کے افکار اور اعمل سے اس کی حکومت کے اہداف کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ بعض حکمران برسر اقتدار آنے کے لیے بہترین منشور بنائیں اور دھوکہ دینے والے نعرے بلند کریں لیکن مقام عمل میں ان کی رفتار سے کچھ اور ظاہر ہوتا ہے۔ ان کی ضد و نقیض سے ان کے منحوس مقاصد کی قلعی بھی کھل جاتی ہے اور حقیقت عیاں ہو جاتی ہے لیکن مولا علی علیہ السلام اسلامی حاکم اور دینی حکومت کے اہداف کونہج البلاغہ کے خطبہ 131 میں  یوں بیان فرماتے ہیں:

1۔ حکومت عالی ترین تک پہنچنے کا ذریعہ اور مقدمہ ہے۔
2۔ حکومت مال و دولت جمع کرنے کا ذریعہ نہیں ہے۔
3۔ حکومت کا اصلی مقصد یہ ہے:

الف) معاشرہ میں حق کی تجدید حیات کے لیے سعی و تلاش
ب) لوگوں کے اصلاح اور امنیت کے لیے کوشش
ج) اسلامی قوانین کا اجرا

دوسروں میں اور مولا علی علیہ السلام میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مولا علی حکومت کو عدل و انصاف، امن و سلامتی، احیاء دین و حق اورکمال کی منزلوں تک پہنچنے کے لیے ایک ذریعہ سمجھتے ہیں جب کہ باقی حکمران حکومت کو ہی اصل سمجھ بیٹھتے ہیں اور جہاں تک ہو سکتا ہے، لوٹ مار، قتل و غارت، ظلم و ستم کرتے ہیں اور لوگوں کو چھوڑ کر اپنے ذاتی مفاد کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ”من ملک استأثر“۔ جس نے حکومت حاصل کرلی وہ طاقتور ہو گیا، کیونکہ یہ قدرت ہی ہے جو انسان کو گمراہ کر سکتی ہے لیکن اسے صرف تقوی کے ذریعہ کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

حکومت کو کبھی مال و دولت کے حصول کے خاطر استعمال کیا جاتا ہے (جیسا کہ موجودہ زمانے میں اکثر ملکوں میں دیکھ رہیں کہ وہاں کی عوام کتنی غریب یا محروم ہے لیکن ان کے لیڈر حضرات کتنے مزے میں ہیں) خود مال اچھی چیز ہے لیکن اس کا غلط استعمال مضر ہے، دوسرے یہ کہ انسان کا اصلی ہدف مال یا قدرت نہ ہو اگرچہ وسیلہ کے طور پہ یہ اچھی چیزیں ہیں۔

اسلامی حکومت اور رہبر کا فریضہ:

اگر چہ اس سے پہلے بھی اسلامی حکومت کے بعض فرائض کی طرف اشارہ کیا گیا لیکن یہاں پہ ہم اسلامی حکومت اور رہبر کے مزید وظائف کی طرف اشارہ کریں گے۔ حضرت علی علیہ السلام اسلامی حکومت اور رہبر کے فرائض کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”یجمع بہ الفیء ویقاتل بہ العدوّ و تامن بہ السّبل و یؤخذ بہ للضّعیف و من القویّ حتّی یستریح برّ و یستراح من فاجر“۔ [31] اور اس کے ذریعہ مال غنیمت اور خراج وغیرہ جمع کیا جاتا ہے اور دشمنوں سے جنگ کی جاتی ہے اور راستوں کا تحفظ کیا جاتا ہے اور طاقتور سے کمزور کا حق لیا جاتا ہے تا کہ نیک کردار انسان کو راحت ملے اور بدکردار انسان سے راحت ملے۔

بیت المال، عمومی املاک وغیرہ کی حفاظت اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اسی بیت المال کے ذریعہ اسلامی حکومت اپنے حکومتی امور کو چلاتی ہے، دشمنوں کا مقابلہ کرتی ہے، اسلام کی حفاظت کرتی ہے اور کمزوروں کی مدد کرتی ہے اور ظالموں کا راستہ روکتی ہے۔

عام طور پر ایک قوم یا معاشرہ کو دو طرح کے دشمنوں سے خطرہ ہوتا ہے:

1) خارجی دشمنوں سے
2) داخلی دشمنوں سے

مولا علی علیہ السلام ان دونوں خطروں سے نپٹنے اور امن و امان قائم کرنے کے لیے حکومت کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

ایک اور جگہ حضرت علی علیہ السلام اسلامی حکومت اور معاشرے میں رہبری کے وظائف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ولکن لنرد المعالم من دینک و نظھر الاصلاح فی بلادک، فیأمن المظلومون من عبادک و تقام المعطّلة من حدودک“۔ [32] یعنی میرا مقصد صرف یہ تھا کہ دین کے آثار کو ان کی امنزل تک پہنچاؤں اور شہروں میں اصلاح پیدا کر دوں تاکہ مظلوم بندے محفوظ ہو جائیں اور معطل حدود قائم ہو جائیں۔

دوسری جگہ رہبر اور عوام کے ایک دوسرے کے مقابلے میں حقوق کے سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں: ”فأمّا حقّکم علیّ فالنّصیحة لکم و توفیرفیئکم علیکم، و تعلیکم کیلا تجھلوا، و تأدیبکم کیما تعلموا و اما حقّی علیکم فالوفاء بالبیعة۔۔۔“۔ [33] تمہارا حق میرے ذمہ یہ ہے کہ میں تمہیں نصیحت کروں اور بیت المال کا مال تمہارے حوالے کر دوں اور تمہیں تعلیم دوں تا کہ تم جاہل نہ رہ جاؤ اور ادب سکھاؤں تا کہ با عمل ہو جاؤ اور میرا حق تم پر یہ ہے کہ بیعت کا حق ادا کرو۔۔۔

اس کے علاوہ اور بہت سارے فرائض ہیں جنھیں انجام دینا اسلامی حاکم یا حکومت کی ذمہ داری ہے جیسے اصلاح، خدائی احکام کے ساتھ اسلامی حکومت کی مطابقت اور ہماہنگی، لوگوں کے لیے خیر خواہی اور عدل و انصاف کی رعایت، معاشرہ میں فکر اور روح کی تربیت۔

مساوات اور برابری

حضرت علی علیہ السلام کی حکومت عدل و انصاف کی حکومت ہے جس میں نہ ہی مظلوم کا حق ضائع ہوتا ہے اور نہ ہی طاقتور کو کسی قسم کا امتیاز دیا جاتا ہے بلکہ یہاں سبھی برابر ہیں۔ ان کی حکومت کے سائے تلے کسی قسم کی رشتہ داری، دوستی یہاں تک کہ بھائی وغیرہ قانون کے مقابلہ میں سب برابر ہیں اور کسی کو کسی پر کسی قسم کی فوقیت حاصل نہیں ہے۔ حضرت عقیل اضافی طور پر مدد مانگتے ہیں لیکن اس کے بدلے میں آگ کی حرارت محسوس کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ علی حق محوری اور عدالت کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی تخفیف نہیں دے سکتے بلکہ ہر صورت میں حق و انصاف اور عدالت کو اجرا کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے۔ [34]

عدالت کے سلسلے میں مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ”فانّ الوالی اذا اختلف ھواہ منعہ ذلک کثیراً من العدل فلیکن امر النّاس عندک فی الحقّ سوائً فانّہ لیس فی الجور عوض من العدل“۔ [35] دیکھو اگر والی کے خواہشات مختلف قسم کے ہوں گے تو یہ بات اسے اکثر اوقات انصاف سے روک دے گی لیکن تمہاری نگاہ میں تمام افراد کے معاملات کو ایک جیسا ہونا چاہیے کہ ظلم کبھی عدل کا بدل نہیں ہو سکتا ہے۔

لہذا مولا علی حق و عدالت کے سلسلے میں لوگوں میں کسی بھی قسم کی تبعیض کے قائل نہیں ہیں اور لوگوں میں کسی قسم کا فرق نہیں کرتے۔ مصر کے گورنر کو لکھتے ہیں ”و آس بینھم فی اللّحظة والنّظرة حتّی لا یطمع العظماء فی حیفک لھم ولا ییأس الضعفاء من عدلک علیھم“۔ [36] اور نظر بھر کے دیکھنے یا کنکھیوں سے دیکھنے میں بھی برابر کا سلوک کرنا اور اشارہ و سلام میں بھی مساوات سے کام لینا تا کہ بڑے لوگ تمہاری ناانصافی سے امید نہ لگا بیٹھیں اور کمزور افراد تمہارے انصاف سے مایوس نہ ہو جائیں۔

ہم اس وقت بھی پوری دنیا میں دیکھتے ہیں کہ کہیں پر بھی کوئی حکومت دیکھنے کو نہیں ملتی جس میں خلیفہ یا حاکم کل اپنے گورنروں اور انتظامیہ کو اس طرح کے فرمان اجرا کرے اور لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کی بنا پر نیک برتاؤ کا حکم دے اور اگر حکم دیا بھی جاتا ہے لیکن اس پر عملد ر آمد نہیں ہوتا۔ مولا علی علیہ السلام کے اس کلام مبارک سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ نگاہ میں بھی برابری اور مساوات سے کام لیا جائے اور ایسا نہ ہو کہ ایک شخص کو اس کی خاص منزلت کی بنا پر سلام کیا جائے، اس کا احترام کیا جائے، اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے لیکن دوسرے افراد کے ساتھ ایسا سلوک نہ کیا جائے اور مولا کی نظر میں یہ برتاؤ غلط ہے۔

کسی کو کسی پر فوقیت نہیں

حضرت علی علیہ السلام اسلامی حکومت میں لوگوں اور خاص کر حکمرانوں کو عدل و انصاف اور مساوات کی تاکید کرتے ہیں: ”و ایّاک والاستئثار بما النّاس فیہ اسوة والتغابی عمّا تعنی بہ ممّا قد وضع للعیون ۔۔۔“۔ [37] دیکھو جس چیز میں سب لوگ برابر کے شریک ہیں اسے اپنے ساتھ مخصوص نہ کر لینا اور جو حق نگاہوں کے سامنے واضح ہو جائے اس سے غفلت نہ برتنا کہ دوسروں کے لیے یہی تمہاری ذمہ داری ہے اور عنقریب تمام امور سے پردے اٹھ جائیںگے۔

دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں: ”الا و انّ حقّ من قبلک و قبلنا من المسلمین فی قسمة ھذا الفیء سوائ“۔ [38] یاد رکھو! جو مسلمان تمھارے پاس یا میرے پاس  ہیں ان سب کا حق اس مال غنیمت میں ایک ہی جیسا ہے۔ یعنی اسلامی حکومت کے سائے میں سب برابر ہیں اور کسی کو کسی پر ترجیح نہیں ہے۔

ایک نمونہ

حضرت علی علیہ السلام اپنے اور عام لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کے لحاظ سے کسی بھی قسم کے فرق کے قائل نہیں تھے، اسی لیے انھیں جب اپنی زرہ اس یہودی یا عیسائی کے پاس ملی تو عام لوگوں کی طرح قاضی کے پاس گئے اور اپنا دعویٰ پیش کیا، لیکن گواہ نہ ہونے کی بنیاد پر آپ کو زرہ واپس نہ مل سکی۔ وہ شخص وہیں پہ اعتراف کرنے لگا کہ یہ فیصلہ پیغمبروں کی شان کا ہے اور ہاں یہ زرہ مولا علیؑ کی ہے جو اس نے انھیں واپس کر دی اور مسلمان ہوگیا، مسلمان ہونے کی بنا پر اسے وہی زرہ دوبارہ انعام کے طور پر وپس مل گئی۔ بعد میں یہی شخص مولا کے خاص سپاہیوں میں شامل ہوگیا اور جنگ نہروان میں مولا کی حمایت اور نصرت میں شہید ہوا۔ [39]

قدرت کے لیے جھک نہیں سکتے

حضرت علی علیہ السلام کی حکومت عدل و انصاف کی بنیادوں پر قائم ہے اور وہ کسی کی چاپلوسی کو ایک ذرہ بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ اسی لیے جب طلحہ و زبیر آپ کے پاس آئے تو آپ نے طلحہ کو یمامہ اور بحرین کی حکومت دی جب کہ یمن کی حکومت زبیر کے سپرد کی۔ جب انھوں نے اس کے مقابلے میں شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس صلہ رحم کے بدلہ میں آپ کو جزائے خیر عطا ہو تو آپ نے فرمایا: ”و انتما وصلتکما بولایة امور المسلمین“۔ اور ان سے حکم مکتوب واپس لے لیا جب کہ بعض کا کہنا ہے کہ مغیرہ بن شعبہ نے کہا: یا علی! فی الحال طلحہ اور زبیر کو بحرین بھیجیں اور شام کی حکومت معاویہ کو دے دیں اور جب آپ کی خلافت مضبوط ہو جائے تب ان کے ساتھ جیسا سلوک کرنا چاہیں، کریں۔ [40]

اس مقام پر حضرت علی نے تھوڑا سا سکوت اختیار کیا اور پھر فرمایا: میں مکر و فریب اور دھوکہ دہی سے بیزار ہوں اور میں اپنی حکومت میں کسی کو کسی قسم کا حق و حساب اور موقع نہیں دے سکتا [41]

ایک اور مقام پہ جب حضرت علی سے کہا جاتا ہے کہ مولا! لوگوں کے درمیان بیت المال برابر تقسیم نہ کریں کیونکہ لوگوں کو دنیا سے محبت ہے، لہذا امیروں اور بزرگوں کے دل جیتنے کے لیے انھیں کھلم کھلا مال و دولت دیں تو آپ  ارشاد فرماتے ہیں: ”أ تأمروننی ان اطلب النصر باالجور فیمن ولیت علیہ واللہ لا اطور بہ ما سمیر سمیر وما امّ نجم فی السّماء نجماً لو کان المال لی لسویت بینھم فکیف و انّما المال مال اللہ“۔ (7) کیا تم مجھے اس بات پر آمادہ کرنا چاہتے ہو کہ میں جن رعایا کا ذمہ دار بنایا گیا ہوں ان پر ظلم کر کے چند افراد کی کمک حاصل کر لوں۔ خدا کی قسم جب تک اس دنیا کا قصہ چلتا رہے گا اور ایک ستارہ دوسرے ستارہ کی طرف جھکتا رہے گا ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ مال اگر میرا ذاتی ہوتا جب بھی میں برابر سے تقسیم کرتا چہ جائیکہ یہ مال مالِ خدا ہے۔

اسلامی حکومت میں اخلاق

نہج البلاغہ میں اسلامی حکومت کے خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت بہترین اخلاق شمار کی گئی ہے اور مختلف خطبوں اور خطوط میں واضح طور پر دینی حکومت کے اخلاقی پہلو پر توجہ دی گئی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام اپنے وفا دار ساتھی جناب مالک اشتر کے نام خط میں لکھتے ہیں: ”و اشعر قلبک الرّحمة للرّعیّة والمحبّة لھم واللطف بھم“۔ [42] رعایا کے ساتھ مہربانی اور محبت و رحمت کو اپنے دل کا شعار بنا لو۔ دوسری جگہ مصر کے حاکم جناب محمد بن ابی بکر کو لکھتے ہیں: ”فاخفض لھم جناحک و الن لھم جانبک و انبسط لھم وجھک“۔ [43] رعایا کے ساتھ تواضع سے پیش آنا اور کشادہ روئی کا برتاؤ کرنا۔ اپنا رویہ نرم رکھنا۔ اسی طرح کے مطالب اپنے مکتوب شمارہ 27 میں بھی ارشاد فرماتے ہیں: ”و امرہ الّا یحجبھم ولا یعضھھم، ولا یرغب عنھم تفضّلاً بالامارة (بالامانة) علیہھم فانّھم الاخوان فی الدین والاعوان علی استخراج الحقوق“۔ [44] اور پھر حکم دیتا ہوں کہ خبردار لوگوں سے برے طریقہ سے پیش نہ آئیں اور انھیں پریشان نہ کریں اور نہ ان سے اظہار اقتدار کے لیے کنارہ کشی کریں کہ بہرحال یہ سب دینی بھائی ہیں اور حقوق کی ادائیگی میں تمھاری مدد کرنے والے ہیں۔

مولا علی علیہ السلام کی حکومت کے دوران لوگ بے توجہی، حقارت اور ذلت کا احساس نہیں کرتے تھے بلکہ آنحضرت کی حکومت کے دوران حضرت علی  کی صرف یہی کوشش تھی کہ انتظامیہ اور حکومتی  ارکان لوگوں کا احترام کریں، ان سے خوش اخلاقی سے پیش آئیں اور ان کی عزت کریں۔

حضرت علیؑ نے اپنی حکومت کے عملہ کے معمولی حرکات و سکنات سے بھی غافل نہیں تھے بلکہ قدم قدم پر انھیں متوجہ کرتے رہے کہ لوگوں کے مسائل میں غفلت سے کام نہ لو، ان پر ایک ذرہ بھی ظلم نہ کرو اور دوسری جانب سے عام مسلمانوں کی عزت، احترام و اکرام کا سبب تھے، جیسا کہ ارشاد فرماتے ہیں: اور خبردار نہ کسی مسلمان کو خوفزدہ کرنا اور نہ کسی کی زمین پر جبراً اپنا گذر کرنا، مال میں سے حق خدا سے ذرہ برابر زیادہ مت لینا اور جب کسی قبیلہ پر وارد ہونا تو ان کے گھروں میں گُھسنے کے بجائے چشمہ اور کنویں پر وارد ہونا۔ اس کے بعد سکون و وقار کے ساتھ ان کی طرف جانا اور ان کے درمیان کھڑے ہو کر سلام کرنا اور سلام کرنے میں بخل سے کام نہیں لینا؛ اس کے بعد ان سے کہنا کہ بندگان خدا مجھے تمھاری طرف پروردگار کے ولی اور جانشین نے بھیجا ہے تا کہ میں تمھارے اموال میں سے پروردگار کا حق لے لوں تو کیا تمہارے اموال میں کوئی حق اللہ ہے جسے میرے حوالے کر سکو؟ اگر کوئی شخص انکار کر دے تو اس سے دوبارہ تکرار نہ کرنا اور اگر کوئی شخص اقرار کرے تو اس کے ساتھ اس انداز سے جانا کہ نہ کسی کو خوفزدہ کرنا اور نہ کسی کو دھمکی دینا۔ نہ سختی کا برتاؤ کرنا اور نہ بے جا دباؤ ڈالنا۔ [45] جی ہاں یہ ہیں ایک اسلامی حکومت اور اسلامی قائد کے وظائف جنھیں ہم مولا علی علیہ السلام کی حکومت کے دوران واضح طور پر مشاہدہ کرتے ہیں۔

حکومت اور رہبریت کے لائق کون؟

دین اسلام میں رہبری کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اس منصب پر وہی شخص فائز ہو سکتا ہے جو اسے خداوند عالم کی امانت سمجھ کراپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دے۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ”و انّ عملک لیس لک طعمة ولکنّہ فی عنقک امانة“۔ [46] یہ تمھارا منصب کوئی لقمہ تر نہیں ہے بلکہ تمھاری گردن پر امانت الٰہی ہے۔حضرت علی حکومت اور اس کے عناصر کو بہت ہی اہم قرار دیتے ہیں، لہذا فرماتے ہیں: ”و من استھان بالامانة و رتع فی الخیانة و لم ینزّہ نفسہ و دینہ عنھا فقد احلّ بنفسہ الذُّلّ والخزی فی الدُّنیا و ھو فی الآخرة اذلّ و اخزی و انّ اعظم الخیانة خیانة الامّة و افظع الغشّ غشُّ الائمّة“۔ [47] اور جس شخص نے بھی امانت الٰہی کو معمولی تصور کیا اور خیانت کی چراگاہ میں داخل ہوگیا اور اپنے نفس کو خیانت کاری سے نہیں بچایا۔ اس نے دنیا میں بھی اپنے کو ذلّت اور رسوائی کی منزل میں اتار دیا اور آخرت میں ذلّت اور رسوائی اس سے بھی زیادہ ہے اور یاد رکھو کہ بدترین خیانت امت کے ساتھ خیانت ہے اور بد ترین فریب کاری سربراہِ دین کے ساتھ فریب کاری کا برتاؤ ہے۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق اگر ایک شخص کسی کو لوگوں کا حاکم بنا دے جب کہ وہ جانتا ہو کہ اس سے زیادہ شائستگی رکھنے والا، کتاب خدا اور سنت کا جاننے والا اس معاشرے میں موجود ہے تو گویا کہ اس نے خدا، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور تمام انبیاء کے ساتھ خیانت کی ہے اور ایسا شخص ہرگز حاکم اسلامی اور رہبریت کے منصب پر فائز نہیں ہو سکتا ہے۔ اسی لیے حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ”ایّھا النّاس انّ احقّ النّاس بھذا الامر اقواھم و اعلمھم بامر اللہ فیہ“۔ [48] لوگو! یاد رکھو اس امر کا زیادہ حقدار وہ ہے جو سب سے زیادہ طاقتور اور دین الٰہی کا واقف ہو۔

حکومت کا حق دار کون؟

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ”امّا بعد فلا یکن حظّک فی ولایتک ما لا تستیفہ ولا غیظاً تشتفیہ ولکن امتہ باطل و احیاء ہ حقّ“۔ [49]کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا حکومت حاصل کرنے کا مقصد مال یا لوگوں کے غیظ و غضب کو خاموش کرنا ہو، بلکہ حکومت کا مقصد تو باطل کو مٹانا اور احیاء حق ہونا چاہیے۔ دوسری جگہ ارشاد فرماتےہیں: وَلَعَمْرِیْ مَا عَلَیَّ مِنْ قِتَالِ مَنْ خَالَفَ الْحَقَّ، وَ خَابَطَ الْغَیَّ مِنْ اِدْهَانٍ وَ لَاۤ اِیْهَانٍ،“۔ میری جان کی قسم! میں حق کی مخالفت کرنے والوں اور گمراہی میں بھٹکنے والوں سے جہاد کرنے میں نہ کوئی نرمی کر سکتا ہوں اور نہ سستی۔ [50] یاد رکھو کہ میں طرح کے افراد سے جہاد کروں گا۔ ان سے بھی غیر حق کے دعویدار ہوں اور ان سے بھی جو حقدار کو اس کا حق نہ دیں گے [51] ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں: ”میں باطل کا شکم چاک کرکے اس کے پہلو سے وہ حق نکال لوں گا جسے اس نے مظالم کی تہوں میں چھپا دیا ہے“۔ [52] اس کے علاوہ خطبہ 6، 34، 37، 136، 192 اور 216 میں بھی اسی طرح کے نکات ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حکومت اسی کا حق ہے جو حق کو قبول کرتا ہو، عدل و انصاف کی رعایت کرتا ہو اور لوگوں اور ملت کے لیے عزت اور اقتدار کا طالب ہو۔ لہذا آنحضرت کی نظر میں مندرجہ ذیل صفات کے حامل افراد حکومت کے حق دار ہیں:

٭عالم اسلام کی رہبری کے مسئلہ اور اس کی ذمہ داری سے واقف ہو

آیات اور احادیث کی رو سے حکومت اور قیادت کے لیے ایسے شخص کو منتخب کرنا چاہیے جو اس کی صلاحیت رکھتا ہو، سب سے افضل ہو، اس کا اہل ہو، رہبریت کو خدا کی امانت سمجھتا ہو۔ ”من امّ قوماً و فیھم من ھو اعلم منہ لم یزل امرھم الی السفال الی یوم القیامة“۔ [53] ”من دعی الناس الیٰ نفسہ و فیھم من ھو اعلم منہ فھو مبتدع ضالّ“۔ [54] اور قرآن میں ملاحظہ کریں ”انّ اللہ یأمرکم أن تؤدّوا الامانات الیٰ اھلھا و اذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل“۔ [55]

اس سلسلے میں حضرت علیؑ فرماتے ہیں: ”جان لو ! اے رفاعہ! یہ حکومت خدا کی امانت ہے، جو بھی شخص اس میں خیانت کرے گا روز قیامت تک اس پر خدا کی لعنت ہے“۔ [56]

اس بنا پر حکومت ایسے شخص کو سونپ دینی چاہیے اور رہبر ایسا شخص ہونا چاہیے جو حکومت کو خدا کی امانت سمجھ کر اس میں خیانت نہ کرے۔لہذا حضرت علی علیہ السلام عترت اہل بیت علیہم السلام کو حکومت اسلامی کا اہل قرار دیتے ہیں اور انہیں کی ذوات مقدسہ کو رہبریت اور حکومت کے محور اور مرکز کے طور پر متعارف کرتے ہیں۔ (ملاحظہ فرمائیں نہج البلاغہ، خطبہ 2، 87، 154، 4)

اسلامی حکومت میں لوگوں کا رول

بعض لوگ افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں مثلاً بعض کہتے ہیں کہ ایک حکومت کا اصلی محور صرف لوگ ہوتے ہیں اور صرف ایسی ہی حکومت جائز ہے اور بس جب کہ ان کے مقابلہ میں دوسرا گروہ لوگوں کی حکومت کا سرے سے انکار کرتا ہے اور ان کا قول ہے کہ لوگ اسلامی حکومت میں کوئی رول ادا نہیں کرتے بلکہ اسلامی حکومت میں صرف خدا کی جانب سے احکام پر توجہ کرنی چاہیے اور بس؛ ان دونوں کے مقابلہ میں ایک اور گروہ ہے جو لوگوں کے نقش و کردار کو بھی مؤثر جانتا ہے اور حکومت کو دینی اور خدا ئی بھی قرار دیتا ہے یعنی دو پہلو مقبولیت اور مشروعیت کا قائل ہے جس کی تشریح سے اجتناب کرنا ناگزیر ہے۔ نہج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السلام لوگوں کے رول کو اہم قرار دیتے ہیں لیکن سبھی کچھ لوگ ہوں، اس کے بھی قائل نہیں ہیں، ملاحظہ فرمائیں۔

٭ مولا علی علیہ السلام کی حکومت لوگوں کی درخواست پر برپا ہوئی جیسا کہ آپ فرماتے ہیں: ”لو لا حضور الحاضر وقیام الحجة۔۔۔“۔ [57] کہ اگر حاضرین کی موجودگی اور انصار کے وجود سے حجت تمام نہ ہو گئی ہوتی اور اللہ کا اہل علم سے یہ عہد نہ ہوتا کہ خبر دار ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر چین سے نہ بیٹھنا تو میں آج بھی اس خلافت کی رسی کو اسی کی گردن پر ڈال کر ہنکا دیتا ۔۔۔ یہاں پر لوگوں کے جمع ہو کر حضرت علی سے درخواست کرنے کی بنا پر آنحضرت خلافت کی مہار سنبھالنے اور حکومت قبول کرنے کے لیے مجبور ہو گئے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر لوگ ایک جگہ جمع ہوجائیں اور کسی کو انتخاب کرنا چاہیں تو منتخب شخص چاہے علماء ہوں یا اہل بیت علیہم السلام، ان کے لیے حجت وجود میں آجاتی ہے۔

٭ حضرت علی علیہ السلام کا مالک اشتر کے نام مکتوب، جس میں لوگوں کے بارے میں اس طرح فرماتے ہیں: دین کا ستون۔ مسلمانوں کی اجتماعی طاقت، دشمنوں کے مقابلہ میں سامان دفاع عوام الناس ہی ہوتے ہیں۔ [58]

٭ اور ان تمام حقوق میں سب سے عظیم ترین حق رعایا پر والی کا حق اور والی پر رعایا کا حق ہے جسے پروردگار نے ایک کو دوسرے کے لیے قرار دیا ہے۔۔۔ اب اگر والی کو رعایا نے اس کا حق دے دیا اور والی نے رعایا کو اس کا حق دے دیا تو حق دونوں کے درمیان عزیز رہے گا۔ [59]

٭ لوگوں کا مثبت رول دیکھ کر حضرت علی علیہ السلام ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں: ”و جزاکم اللہ من اھل مصرٍ عن اھلبیت نبیّکم احسن ما یجزی العاملین بطاعتہ والشاکرین لنعمتہ فقد سمعتم و اطعتم و دعیتم فأجبتم“۔ [60] شہر کوفہ والو! خدا تمھیں تمھارے پیغمبر ﷺ کے اہلبیت کی طرف سے جزائے خیر دے۔ ایسی بہترین جزا جو اس کی اطاعت پر عمل کرنے والوں اور اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے والوں کو دی جاتی ہے۔ کہ تم نے میری بات سنی اور اطاعت کی اور تمھیں پکارا گیا تو تم نے میری آواز پر لبیک کہی۔اسی طرح باقی کئی ساری جگہوں پر عوام کے نقش و کردار کو بیان فرماتے ہیں جیسے خطبہ ہاے 34، 97، 121، 133، 27۔

بیعت یا ووٹ؟

گزشتہ زمانے میں لوگ اگر کسی حاکم کا انتخاب کرتے تھے تو اس کے ہاتھ پر بیعت کرتے تھے جب کہ موجودہ زمانے میں اس کی جگہ ووٹ دیا جاتا ہے جو در اصل بیعت ہی جیسا عمل ہے۔ اسی بیعت کے بارے میں حضرت علی لوگوں کو مخاطب قرار دیتے ہیں: ”و اما حقّی علیکم فالوفاء بالبیعة۔۔۔“۔ اور میرا حق تم پر یہ ہے کہ بیعت کا حق ادا کرو اور حاضر و غائب ہر حال میں خیر خواہ رہو، جب پکاروں تو لبیک کہو اور جب حکم دوں تو اطاعت کرو ۔ البتہ یاد رہے کہ اگر انسان حاکم اسلامی کے ساتھ بیعت کرلے تو پھر اس کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے جب کہ ووٹ کی صورت میں ایسا نہیں ہے یعنی لوگ ووٹ دے کر صرف وکیل کا انتخاب کرتے ہیں اور بس۔

اسلامی حکومت میں زبر دستی نہیں ہے

حضرت علی علیہ السلام نے اپنی حکومت کے دوران لوگوں سے کوئی زبردستی کام نہیں کروایا اور نہ ہی وہ اس کے قائل تھے، تعمیر نو ہو یا جنگ، کسی بھی کام میں لوگوں کے ساتھ زبردستی نہیں کرتے تھے بلکہ انہیں اختیار دے رکھا تھا کہ جنگ یا تعمیر یا حکومتی امور میں شرکت کریں یا نہ کریں، اسی لیے جہاد کے سلسلے میں فرماتے ہیں: ”و لیس لی ان احملکم علیٰ ما تکرھون“۔ [61]میں تمہیں زبردستی ایسے راستے کی طرف مائل نہیں کر سکتا جسے تم لوگ پسند نہیں کرتے۔

اسلامی حکومت میں لوگوں کے اختیارات

حضرت علی علیہ السلام کی ولایت اور ان کی حکومت کے درمیان کئی سالوں کا فاصلہ ہے۔ ان کی رہبری اور حکومت کے انتصابی یا انتخابی، اس کی مشروعیت اور مقبولیت کے بارے میں بہت زیادہ مطالب بیان کیے گئے ہیںکہ جن میں سے بعض کو غلط طریقہ سے تحلیل کیا گیا ہے۔ لیکن سب سے پہلے حضرت علیؑ کی ولایت اور امامت کا غدیر خم اور دوسرے مواقع پر خدا کی جانب سے رسول اکرم  ﷺ کے ذریعہ اعلان ہو چکا تھا، اس لحاظ سے حضرت علی کے انتصاب اور امامت میں لوگوں کا کوئی رول نہیں ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حاکم اسلامی خدا وند عالم کی طرف سے منصوب ہوتا ہے اور اس میں لوگوں کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ دوسری چیز یہ کہ پیغمبر اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد دشمنوں نے سازش کے ذریعہ خلافت کو ہتھیا لیا اور اس طرح سے لوگوں کو ان کے امام اور ان کی امامت و ولایت سے محروم کر دیا۔ اس بارے میں مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ”خدا گواہ ہے کہ یہ بات میرے خیال میں بھی نہ تھی اور نہ میرے دل سے گزری تھی کہ عرب اس منصب کو ان کے اہل بیت علیہم السلام اس طرح موڑ دیں گے اور مجھ سے اس طرح دور کر دیں گے۔ [62]

دوسری جگہ فرماتے ہیں: آگاہ رہو کہ خدا کی قسم فلاں شخص (ابن ابی قحافہ) نے قمیص خلافت کو کھینچ تان کر پہن لیا ہے حالانکہ اسے معلوم ہے کہ خلافت کی چکی کے لیے میری حیثیت مرکزی کیل کی ہے۔۔۔ اور یہ سوچنا شروع کر دیا کہ کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کر دوں یا اسی بھیانک اندھیرے پر صبر کرلوں جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف ہو جائے اور بچہ بوڑھا ہوجائے اور مومن محنت کرتے کرتے خدا کی بارگاہ میں پہنچ جائے۔۔۔تو میں نے اس عالم میں صبر کر لیا کہ آنکھوں میں مصائب کی کھٹک تھی اور گلے میں رنج و غم کے پھندے تھے۔ [63]

تیسری چیز یہ کہ قتل عثمان کے بعد لوگوں نے ہجوم کی صورت میں حضرت علیؑ کے گھر کا رخ کیا اور انھیں خلافت قبول کرنے کے لیے مجبور کیا۔ [64]اس کے علاوہ نہج البلاغہ، خ 173، خ 172، 6 اور مکتوب 6؛ سبھی امر پر دلالت کرتے ہیں کہ حضرت علیؑ کی خلافت اور مقبولیت میں لوگوں کا ہاتھ تھا۔ لیکن ان کی خلافت اور ولایت میں لوگوں کا کوئی عمل دخل نہیں تھا یعنی ان کی ولایت انتصابی تھی اور اس کی مشروعیت خداوند عالم کی جانب سے تھی اور اگر لوگ کسی کو اپنا خلیفہ بنا لیں تو اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ اس کی حکومت کو مشروعیت کا سرٹیفکیٹ مل گیا۔ ہاں لوگوں کا رول ضرور ہے اور وہ مقبولیت کے مقام پر ورنہ لوگ قبول کریں یا نہ کریں، امام ہمیشہ امام ہوتا ہے چاہے من اللہ یا من عند اللہ۔

حاکم اسلامی یا رہبر کے اوصاف

حاکم اسلامی کے لیے دو طرح کی صفات کو یہاں پہ ذکر کیا جاسکتا ہے:

الف) منفی
ب) مثبت

رہبر یا حاکم اسلامی کو منفی صفات سے پاک و منزہ ہونا چاہیے اور مثبت صفات کا حامل ہونا چاہیے، لہذا ہم پہلے منفی صفات کو بیان کریں گے اور پھر مثبت صفات کو۔

رہبر کی منفی صفات

منفی صفات کی وجہ سے لوگ رہبر سے دوری اختیار کرنے لگتے ہیں جس کے نتیجہ میں لوگ اس کی حکومت سے بددل ہو جاتے ہیں اور ان میں نفرت کا لاوا پکنے لگتا ہے جب کہ دنیوی و اخروی لحاظ سے بھی یہ صفات مشکل ساز ہوتی ہیں اور جس معاشرہ کا وہ رہبر ہوتا ہے، وہ دن بدن پسماندگی کی طرف چلا جاتا ہے لہذا رہبر کو جن منفی صفات سے پاک ہونا چاہیے، وہ اس طرح ہیں:

١۔ تکبر اور غرور

قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: ”ولا تمش فی الارض مرحاً“۔ [65] زمین پہ اکڑ کے نہ چلو۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ”و ایّاک والاعجاب بنفسک والثّقة بما یعجبک منھا و حبّ الاطراء فانّ ذالک من اوثق فرس الشیطان فی نفسہ لیمحق ما یکون من الاحسان المحسنین“۔ [66] اور دیکھو اپنے نفس کو بھی خود پسندی سے محفوظ رکھنا اور اپنی پسند پر بھی بھروسہ نہ کرنا اور زیادہ تعریف کا شوق پیدا نہ ہوجائے کہ سب باتیں شیطان کی فرصت کے بہترین وسائل ہیں جن کے ذریعہ وہ نیک کرداروں کے عمل کو ضائع اور برباد کر دیتا ہے۔ [67]، دوسری جگہ فرماتے ہیں: ”ایاک و مسامات اللہ فی عظمتہ و التّشبّہ فی جبروتہ فانّ اللہ یذلّ کلّ جبّر و یھین کلّ مختالٍ“۔۔ [68] دیکھو خبردار اللہ سے اس کی عظمت اور اس کے جبروت سے تشابہ کی کوشش نہ کرنا کہ وہ ہر جبار کو ذلیل کر دیتا ہے۔

نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 131 میں منسجم طور پر اسلامی حاکم یا رہبر کی منفی صفات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”وقد علمتم انّہ لا ینبغی ان یکون الوالی علی الفروج والدّماء وامغانم والاحکام و امامة المسلمین  البخیل۔۔۔“۔ تم لوگوں کو معلوم ہے کہ لوگوں کی آبرو۔ ان کی جان۔ ان کے منافع۔ الٰہی احکام اور امامت مسلمین کا ذمہ دار نہ کوئی بخیل ہو سکتا ہے کہ وہ اموال مسلمین پر ہمیشہ دانت لگائے رہے گا اور نہ کوئی جاہل ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی جہالت سے لوگوں کو گمراہ کر دے گا اور نہ کوئی بد اخلاق ہوسکتا ہے کہ وہ بد اخلاقی کے چرکے لگاتا رہے گا اور نہ کوئی مالیات کا بددیانت ہو سکتا ہے کہ وہ ایک کو مال دے دے گا اور ایک کو محروم کر دے گا اور نہ کوئی فیصلہ میں رشوت لینے والا ہو سکتا کہ وہ حقوق کو برباد کر دے گا اور انھیں ان کی منزل تک نہ پہنچنے دے گا اور نہ کوئی سنت کو معطل کرنے والا ہو سکتا ہے کہ وہ امت کو ہلاک و برباد کر دے گا۔ اس خطبہ میں آنحضرت چھ منفی اور بری صفتوں کو بیان کرتے ہیں جن سے ایک رہبر کو پاک ہونا چاہیے۔

2۔ بخیل
3۔ جاہل
4۔ ظالم اور بد اخلاق
5۔ بددیانت
6۔ رشوت خور
7۔ پیغمبر ﷺ کی سنت کو محو کرنے والا

اس کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی ان صفات کی مذمت فرماتے ہیں اور ان کے علاوہ اور بھی منفی صفتیں ذکر کرتے ہیں جیسے چاپلوسی، دھوکہ و فریب، عیب جوئی، اسراف وغیرہ۔

8۔ لالچی

”من طلب الرئاسة ھلک“۔ [69] جس نے حکومت طلب کی وہ ہلاک ہو گیا اسی طرح بصرہ اور کوفہ کا طلحہ اور زبیر کو گورنر بنا کر بھیجنا چاہتے تھے، جب ان سے حرص و لالچ کو دیکھا تو انھیں رد کر دیا اور ابن عباس نے زور دیا کہ انھیں یہ حکومت دی جائے، اس موقع پر فرمایا: اگر یہ دو (طلحہ اور زبیر) حکومت کے لیے لالچی نہ ہوتے تو ممکن تھا کہ میں انھیں والی بنا دیتا۔ [70]

9۔ چاپلوسی

حاکم اسلامی میں ایک اور صفت کا ہونا برا ہے اور وہ ہے چاپلوسی، مولا علی علیہ السلام چاپلوسی کے بارے میں فرماتے ہیں: ”و انّ مناسخف حالات الولاة عند صالح الناس، ان یظنّ بھم حبّ الفخر، ویوضع امرھم علی الکثیر، و قد کرھت ان یکون جال فی ظنّکم انّی احبّ الاطراء واستماع الثنائ؛و لستُ۔ بحمدللہ۔کذلک“۔ [71] اور احکام کے حالات میں نیک کردار افراد کے نزدیک بدترین حالت یہ ہے کہ ان کے بارے میں غرور کا گمان پیدا ہوجائے اور ان کے معاملات کو تکبر پر مبنی سمجھا جائے اور مجھے یہ بات سخت ناگوار ہے کہ تم میں سے کسی کو یہ گمان پیدا ہو جائے کہ میں رؤساء کو دوست رکھتا ہوں یا اپنی تعریف سننا چاہتا ہوں اور بحمد للہ میں ایسا نہیں ہوں۔

10۔ دھوکہ اور فریب:

حضرت فرماتے ہیں: ”واللہ ما معاویة بأدھی منّی، ولکنّہ یغدر و یفجر ولو لا کراھیة الغدر لکنت من ادھی الناس و لکن کلّ غدرة فجرة، و کلّ فجرة کفرة“۔ [72] خدا کی قسم! معاویہ مجھ سے زیادہ ہوشیار نہیں ہے لیکن کیا کروں کہ وہ مکر و فریب اور فسق و فجور بھی کر لیتا ہے اور اگر یہ چیز مجھے ناپسند نہ ہوتی تو مجھ سے زیادہ ہوشیار کوئی نہ ہوتا لیکن میرا نظریہ یہ ہے کہ ہر مکر و فریب گناہ ہے اور ہر گناہ پروردگار عالم کے احکام کی نافرمانی اور ایک لحاظ سے کفر ہے۔ اسی طرح فرماتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں دھوکہ اور فریب کو چالاکی اور بہترین سیاست سے تعبیر کیا جاتا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے اور دوسری جگہوں پر اس غلط عمل سے منع فرماتے ہیں۔ [73]

11۔ عیب جوئی

رعایا میں سب سے زیادہ دور اور تمھارے نزدیک مبغوض اس شخص کو ہونا چاہیے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے عیوب کا تلاش کرنے والا ہو کیونکہ بہر حال لوگوں میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور ان کی پردہ پوشی کی سب سے بڑی ذمہ داری والی پر ہے۔ [74]

12۔ اسراف

فضول خرچی سے پرہیز کرو اور میانہ روی اختیار کرو۔ [75]

13۔ بزدل

اسی طرح بزدل سے مشورہ نہ کرنا کہ وہ ہر معاملہ میں کمزور بنا دے گا۔ [76]

رہبر کی مثبت صفات

یہ وہ صفات ہیں جن کا ایک حاکم اسلامی یا رہبر میں ہونا ضروری ہے جن کی بنیادوں پر رہبر قوم و ملت اور اسلامی حکومت کو اچھی طرح چلا سکتا ہے اور اسلامی حکومت کا جو ہدف ہوتا ہے، اسے پایۂ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے۔

1۔ صحیح و سالم افکار

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ”اللّھمّ انّک تعلم انّہ لم یکن الّذی کان منافسةً فی سلطانٍ ولا التماس شیئٍ من فضول الحطام ولکن لنرد المعالم من دینک“۔ [77]خدایا تو جانتا ہے کہ میں حکومت کے بارے میں جو اقدام کیا ہے اس میں نہ سلطنت کی لالچ تھی اور نہ مال دنیا کی تلاش۔ میرا مقصد صرف یہ تھا کہ دین کے آثار کو ان کی منزل تک پہنچاؤں۔ اگر دیکھا جائے تو نہج البلاغہ کا یہ اصول قرآن کی بنیادوں پر استوار ہے، اسی طرح سے مولا علی کے کلام سے پتہ چلتا ہے کہ صحیح فکر رکھنے والے رہبر کی لوگوں کی نسبت نگاہ بھی صحیح و سالم ہونی چاہیے۔ جیسا کہ آپ فرماتے ہیں: ”فانّھم صنفان امّا اخ لک فی الدین او نظیر لک فی الخلق“۔ [78] اور مخلوقات کی دو قسمیں ہیںبعض تمہارے دینی بھائی ہیں اور بعض خلقت میں تمہارے جیسے بشر ہیں۔ لہذا لوگوں کے ساتھ نیک سلوک اور مہربانی پر زور دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ”و اشعر قلبک الرّحمة للرّعیّة والمحبّة لھم واللطف بھم“۔۔ [79] رعایا کے ساتھ مہربانی اور محبت و رحمت کو اپنے دل کا شعار بنا لو۔

2۔ قدرت اور طاقت

ہر حکومت اور رہبر کی ایک لازمی خصوصیت یہ ہے کہ اسے دور اندیش، قدرت مند اور طاقتور ہونا چاہیے، رہبر یا حاکم صاحب قدرت اور صاحب اقتدار ہو تاکہ حکومت کو نہایت ہی دور اندیشی اور بردباری کے ساتھ چلا سکے، لہذا مولا علی فرماتے ہیں:  ”انّ احقّ النّاس بھذا الامر اقواھم و اعلمھم بامر اللہ فیہ“۔ [80] بے شک اس امر کا زیادہ حقدار وہ ہے جو سب سے زیادہ طاقتور اور دین الٰہی کا واقف ہو۔ دوسری جگہ فرماتے ہیں: ”واللہ لھی احبّ الیّ من امرتکم الّا ان اقیم حقّاً او ادفع باطلاً“۔ [81] خدا کی قسم یہ مجھے تمہاری حکومت سے زیادہ عزیز ہیں مگر یہ کہ حکومت کے ذریعہ میں کسی حق کو قائم کر سکوں یا کسی باطل کو دفع کر سکوں۔

3۔ اعلم ہونا

نہج البلاغہ میں رہبر کے لیے اعلمیت کو بنیادی شرط قرار دیا گیا ہے جیسا کہ خطبہ 173 میں فرماتے ہیں: ”و اعلمھم بامر اللہ فیہ“۔ اور ان سب سے زیادہ دین الٰہی سے واقف ہو۔ اس میں دو نکتے بیان کیے گئے ہیں۔

٭ ایک تو دینی امور کے سلسلے میں سب سے اعلم یعنی زیادہ جانتا ہو وہی رہبر ہو سکتا ہے۔
٭ دوسرے خدا کے اوامر اور احکام سے پوری طرح آگاہی رکھتا ہو یعنی دینی علوم میں سب سے زیادہ آگاہی رکھتا ہو۔

4۔ صادق ہونا

حضرت علیؑ کی نظر میں ایک معاشرہ کا رہبر صرف وہی ہو سکتا ہے جو سب سے زیادہ سچا ہو اور لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائے کیونکہ اگر حاکم جھوٹ بولتا ہو اور اپنے وعدوں پر عمل نہ کرتا ہو تو اس کے اور لوگوں کے درمیان کبھی بھی اعتماد کی فضا بحال نہیں ہو سکتی، حضرت علیؑ فرماتے ہیں: ”ولیصدق رائد اھلہ و لیجمع شملہ و لیحضر ذھنہ“۔ [82] ہر نمائندہ کو اپنی قوم سے سچ بولنا چاہیے، اس کی پراگندگی کو جمع کرنا چاہیے، اس کے ذہن کو حاضر رکھنا چاہیے۔ دوسری جگہ مالک اشتر سے فرماتے ہیں: جہاں تک ہو سکے پرہیزگاروں اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔

5۔ امانتداری

قرآن کریم امانت داری پر بہت زور دیتا ہے جیسا کہ ہم پہلے بھی اس کی طرف اشارہ کر چکے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام اس امانت کے بارے میں اشعث بن قیس کو لکھتے ہیں: ”و انّ عملک لیس لک طعمة ولکنّہ فی عنقک امانة“۔ یہ تمھارا منصب کوئی لقمہ تر نہیں ہے بلکہ تمھاری گردن پر امانت الٰہی ہے۔

6۔ شجاعت

رہبر کا شجاع اور بہادر ہونا بھی ضروری ہے اور جو شخص بزدل ہو وہ ہر گز ایک معاشرہ کا رہبر نہیں بن سکتا اور اگر بن بھی جائے تو اس معاشرہ کو تباہی و بربادی کی طرف لے گا۔ حضرت علی علیہ السلام خود بھی شجاع تھے اور انھیں اپنے نفس پر اعتماد تھا لہذا لوگوں سے کھل کر کہا: یاد رکھو کہ اگر میں نے بیعت کی دعوت کو قبول کر لیا تو تمھیں اپنے علم ہی کے راستے پر چلاؤں گا اور کسی کی بات یا سرزنش نہیں سنوں گا۔ اس طرح کا اعلان اور یہ استقلال شجاعت نہیں تو اور کیا ہے کہ مولا علی کبھی کسی سے مرعوب نہیں ہوئے اور جہاں تک ممکن تھا حدود الٰہی کو اجرا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ دوسری جگہ پر ارشاد فرماتے ہیں: ”ولعمری ما علیّ من قتالٍ من خالف الحق و خابط الغیّ من ادھان ولا ایھان“۔ [83] میری جان کی قسم! میں حق کی مخالفت کرنے والوں اور گمراہی میں بھٹکنے والوں سے جہاد کرنے میں نہ کوئی نرمی کر سکتا ہوں اور نہ سُستی۔ حضرت علیؑ ڈنکے کی چوٹ پر حق کے دشمنوں کو للکار رہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اہم امر کے لیے شجاعت کی کتنی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ خطبہ نمبر 33، 92 اور مکتوبات 62 اور 45 میں بھی شجاعت کے سلسلے میں حضرت کے فرامین ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔

رہبری اور قیادت کے لیے سب سے ضروری چیز عدالت ہے۔ حضرت علی فرماتے ہیں: ”ان افضل عباد اللہ عند اللہ امام عادل ھُدی و ھدی“۔ خدا کے نزدیک بہترین بندہ وہ امام عادل ہے جو خود ہدایت یافتہ ہو اور دوسروں کو ہدایت دے۔ اگر نہج البلاغہ کو ابتدا سے آخر تک دیکھا جائے تو ہر جگہ عدالت کے بارے میں تاکید کی گئی ہے اور بالواسطہ یا بلا واسطہ عدالت پہ زور دیا گیا ہے، جیسا کہ دوسری جگہ حضرت فرماتے ہیں: خدا کی قسم میں مظلوم کو ظالم سے اس کا حق دلواؤں گا اور ظالم کو اس کی ناک میں نکیل ڈال کر کھینچوں گا تا کہ اسے چشمۂ عدل پر وارد کر دوں چاہے وہ کسی قدر ناراض کیوں نہ ہو۔ اسی طرح کے مطالب مکتوبات 46 اور 59 میں بھی مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں۔

8۔ بیت المال کی حفاظت

بیت المال کی حفاظت ایک اہم مسئلہ ہے اور موجودہ زمانے میں جہاں بھی جائیں، ہر جگہ حکمرانوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے اور لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ بڑے بڑے سیاست دان بیت المال میں لوٹ کھسوٹ کرکے اپنی ہی تجوریاں بھر رہے ہیں اور ہر ملک کا دیوالیہ نکلتا جا رہا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام اس مسئلہ پر کڑی نگاہ رکھتے تھے اور بیت المال کے مسئلہ کو ایک رہبر کے لیے بہت ہی اہم مسئلہ قرار دیتے ہیں جیسا کہ آپ فرماتے ہیں: ”واللہ لو وجدتہ قد تزوّج بہ النساء و ملک بہ الامائ، لرددتہ فانّ فی العدل سعة“۔ خدا کی قسم اگر میں کسی مال کو اس حالت میں پاتا کہ اسے عورت کا مہر بنا دیا گیا ہے یا کنیز کی قیمت کے طور پر دے دیا گیا ہے تو بھی اسے واپس کرا دیتا اس لیے کہ انصاف میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے۔ دوسری جگہ فرماتے ہیں: ”الا و انّ حقّ من قبلک و قبلنا من المسلمین فی قسمة ھذا الفیء سواء یردون عندی علیہ و یصدرون عنہ“۔ (4) یاد رکھو! جو مسلمان تمھارے پاس یا میرے پاس  ہیں ان سب کا حق اس مال غنیمت میں ایک ہی جیسا ہے اور اسی اعتبار سے وہ میرے پاس وارد ہوتے ہیں اور اپنا حق لے کر چلے جاتے ہیں۔

9۔ سادہ زندگی

حضرت علیؑ کی زندگی تو انتہائی سادہ تھی لیکن آپ دوسرے حکمرانوں کو بھی سادہ زندہ زندگی بسر کرنے کی سفارش کرتے ہیں، عثمان بن حنیف سے کہتے ہیں کہ میں جانتا ہوں، تم لوگ میری طرح زندگی بسر نہیں کر سکتے، لیکن کم از کم میری راہ پر چلنے کی کوشش تو کرو۔

دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں: ”فواللہ ما کنزت من دنیاکم تبراًولا ادّخرت من غنائمھا وفراًولا اعددت لیالی ثوبی طمراً ، ولا حزت من ارضھا شبراً“۔ خدا کی قسم میں نے تمہاری دنیا میں سے نہ کوئی سونا جمع کیا ہے اور نہ اس مال و متاع میں سے کوئی ذخیرہ اکٹھا کیا ہے اور نہ ان دو بوسیدہ کپڑوں کے بدلے کوئی اور معمولی کپڑا مہیا کیا ہے اور نہ ایک بالشت پر قبضہ کیا ہے۔

10۔ لوگوں کے درد میں شریک

حضرت علیؑ کی زندگی اتنی سادہ اور معمولی تھی کہ ایک فقیر شاید ان سے بہتر زندگی بسر کر رہا تھا، ان کے طرزِ زندگی کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ایک رہبر کو لوگوں جیسی زندگی بسر کرنی چاہیے نہ یہ کہ وہ خود محلوں اور عشرتکدوں میں بیٹھا رہے اور عوام الناس بھوک و افلاس میں مبتلا رہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جو رہبر عام لوگوں جیسی زندگی بسر کر رہا ہو، وہی ان کے درد کا بھی احساس کر سکتا ہے۔ حضرت علیؑ کیسی زندگی بسر کرتے ہیں، آئیے ملاحظہ کریں۔

آپ فرماتے ہیں: میں اگر چاہتا تو اس خالص شہد، بہترین صاف شدہ گندم اور ریشمی کپڑوں کے راستے بھی پیدا کر سکتا تھا لیکن خدا نہ کرے کہ مجھ پر خواہشات کا غلبہ ہو جائے اور مجھے حرص و طمع اچھے کھانوں کے اختیار کرنے کی طرف کھینچ کر لے جائیں جب کہ بہت ممکن ہے کہ حجاز یا یمامہ میں ایسے بھی افراد ہوں جن کے لیے ایک روٹی کا سہارا نہ ہو اور شکم سیری کا کوئی سامان نہ ہو۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں شکم سیر ہو کر سو جاؤں اور میرے اطراف بھوکے پیٹ اور پیاسے جگر تڑپ رہے ہوں اور تیرے اطراف وہ جگر بھی ہوں جو سوکھے چمڑے کو بھی ترس رہے ہوں۔

11۔ سنت پیغمبر اکرم ﷺ کا زندہ کرنے والا

حاکم اسلامی یا رہبر وہی شخص بن سکتا ہے جو باقی صفات کے ہمراہ نبی اکرم ﷺ کی سنت کو زندہ رکھے، خود بھی اس پر عمل کرے اور دوسروں کو بھی عمل کرنے کی دعوت دے۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اپنے پیغمبر ﷺ کی ہدایت کے راستہ پر چلو کہ یہ بہترین ہدایت ہے اور ان کی سنت اختیار کرو کہ یہ سب سے بہتر ہدایت کرنے والی ہے۔

(1) دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں: ”ولکم علینا العمل بکتاب اللہ تعالیٰ و سیرة رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  والقیام بحقّہ والنّعش لسنّتہ“۔۔
(2) تمہارے لیے میرے ذمہ یہی کام ہے کہ کتاب خدا اور سنت رسول ﷺ پر عمل کروں اور ان کے حق کو قائم کروں اور ان کی سنت کو بلند و بالا قرار دوں۔ خطبہ 145 اور 105 میں بھی ایسی تعبیریں مشاہدہ کی جا سکتی ہیں۔

12۔ تواضع اور فروتنی

رہبر یا حاکم اسلامی میں ایک اور صفت جس کا پایا جانا لازمی ہے، تواضع اور نرمی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب انسان مسند اقتدار پہ بیٹھ جائے تو مست و مغرور ہو جاتا ہے اور اپنے علاوہ کسی کو بھی اہمیت نہیں دیتا ہے، لہذا آیات اور روایات میں تواضع کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ مولا علی علیہ السلام لوگوں کے ساتھ نرمی برتنے اور تواضع اختیار کرنے پر بہت زیادہ تاکید کرتے ہیں مثلاً نہج البلاغہ میں ارشاد ہوتا ہے: ”وارفق ما کان الرفق ارفق“۔ (3) جہاں تک نرمی مناسب ہو نرمی سے ہی کام لینا۔ اسی طرح مکتوب 53 اور 45 میں بھی اس بارے میں کافی تاکید دیکھنے کو ملتی ہے۔

اس کے علاوہ سعہ صدر، خوش اخلاقی اور تنقید برائے تعمیر کو بھی ایک رہبر کی مثبت صفات میں شمار کیا جاتا ہے: مثلاً حکومت کا بہترین وسیلہ سعہ صدر ہے۔ مثلاً خوش اخلاقی اور نیک برتاؤ کے بارے میں فرماتے ہیں: اپنی حکومت کے دوران دوسروں کے ساتھ نیک برتاؤ کرو۔ یا لوگوں سے خطاب کرتے ہیں: عدالت اور حق کے سلسلے میں رائے دینے سے پرہیز نہ کرو۔

حکومت کے پائیداری اور نا پائیداری کے اسباب

الف) حکومت کے ناپائیداری کے اسباب

عام طور پر ہر حکومت کی ایک خاص مدت ہوتی ہے جیسا کہ حضرت امیر علیہ السلام فرماتے ہیں: ”لکلّ دولةٍ برھة“۔ ہر حکومت کے لیے ایک زمانہ ہوتا ہے۔ اب یہ اور بات ہے کہ کسی حکومت کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور کسی کی کم اور اس کے بھی خاص علل و اسباب ہیں جن میں سے بعض اسباب کو جن کی وجہ سے حکومت ناپائدار ہو جاتی ہے،حضرت علیؑ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:

سب سے پہلا سبب بے عدالتی اور ظلم و ستم کو قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت امیر علیہ السلام فرماتے ہیں: ”استعمل العدل واحذر العسف والحیف، فان العسف یعود بالجلاء والحیف یدعو الی السیف“۔ عدالت کو وسعت دو اور ظلم سے پرہیز کروکیونکہ ظلم لوگوں کو آوارہ بنا دیتی ہے اور ظلم و ستم سے تلوار نیاموں سے باہر آتی ہے یعنی خونریزی وجود میں آتی ہے۔ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں: ”الملک یبقی مع الکفر ولا یبقی مع الظلم“۔ کفر کے ساتھ حکومت کی بقاء ممکن ہے لیکن ظلم کے ساتھ اس کی بقاء ممکن ہے۔ اس کے علاوہ ایک حدیث میں حکومت کی ناپایداری کی چار علتیں بیان کرتے ہیں: ”یستدل علیٰ ادبار الدول باربع: تضییع الاصول والتمسک بالفرع و تقدیم الاراذل و تاخیر الافاضل“۔ (10) حکومت کی نابودی کی چار نشانیاں ہیں:

1۔ اصولوں کو بالائے طاق رکھنا
2۔ فروع کو مقدم رکھنا
3۔ پست و ذلیل افراد کو اہمیت دینا
4۔ شائستہ افراد کو محروم رکھنا۔ ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں: ”خور السلطان اشدّ علی الرعیّة من جور السلطان“۔ لوگوں کے لیے بادشاہ کے ظلم و جور سے زیادہ سخت اس کی کمزوری اور ناتوانی ہے۔

ب) حکومت کی پائیداری کے عوامل

جیسا کہ پہلے گزر گیا، ایک حاکم کے منفی صفات اس کی حکومت کے ناپائیداری کے عوامل بھی ہیں اور اس کے مثبت صفات ایک حکومت کی پائیداری کے عوامل بھی ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام دین کو ایک حکومت کی پائیداری کے عوامل میں سے قرار دیتے ہیں جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: ”صیر الدین حصن دولتک ۔۔۔ فکل دولة یحوطھا الدین لا تغلب“۔ دین کو اپنی حکومت کا قلعہ قرار دو۔۔۔ کیونکہ جو حکومت بھی دین کے قلعہ میں بند ہو، وہ شکست ناپذیر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ عدل پر کافی تاکید کرتے ہیں جیسا کہ میزان الحکمہ کی حدیث 6138، غرر الحکم کی حدیث 9574 اور 8722 اس مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ حکومتی امور پر نظارت اور دقت کو بھی ایک عامل بتایا گیا ہے جیسا کہ فرماتے ہیں: ”من امارات الدولة الیقظ لحراسة الامور“۔ حکومتی امور کی حفاظت کے لیے بیداری اور ہوشیاری حکومت کی پائیداری کی علامتوں میں سے ہے۔

نتیجہ

یہ تھی مختصر سی بحث نہج البلاغہ میں اسلامی حکومت کے بارے میں؛ خلاصہ یہ کہ تمام امت مسلمہ کا ایک ہی درد ہے اور وہ ہے دین سے دوری، بے دینی، دنیا داری، مادہ پرستی، جس کا موجودہ زمانے میں ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے دینی حکومت کی تشکیل جس میں تمام ملتیں اور قومیں دینی جذبہ کے تحت خدائی رنگ میں رنگ جائیں اور اسلامی ہویت اختیار کر سکیں۔ نہج البلاغہ میں ابتدا سے لے کر آخر تک دینی حکومت کی ضرورت، اس کی خصوصیات، اس کی پائیداری اور ناپائیداری کے عوامل اور حاکم اسلامی کے خصوصیات کو بیان کیا گیا ہے۔ نہج البلاغہ کی رو سے حکومت خدا کی آن و شان سے ہے اور وہ جسے اس منصب پہ منصوب کرے، وہی اس کے لائق ہے اور نہج البلاغہ کی نظر میں حکومت کے کئی ساری اہداف ہیں جن میں سے ایک اہم ہدف معاشرہ میں احیاء دین ہے۔ اس کے علاوہ حکومت خدا کی امانت ہے جسے جاہ طلبی، ذاتی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ مادی امور تو صرف ایک ذریعہ ہیں جن کے ذریعہ معنوی امور تک پہنچنا ضروری ہے اور ان معنوی امور تک پہنچانے کے لیے حکومت صرف ایک ذریعہ ہے اور بہترین ذریعہ اور بس۔

فہرست منابع

[1] قرآن مجید
[2] نہج البلاغہ
[3] الامامة والسیاسة
[4] امام علی علیہ السلام
[5] امام علی علیہ السلام
[6] تفسیر موضوعی پیام قرآن
[7] ترجمہ تاریخ یعقوبی
[8] تاریخ طبری ؛ محمد بن جریر طبری غرر الحکم
[9] دانشنامہ سیاسی
[10] سیرہ پیشوایان؛ مہدی پیشوائی
[11] سفینة البحار؛ محدث قمی
[12] صدای عدالت انسانی جارج جرداق
[13] لسان العرب
[14] مفردات راغب
[15] مصباح المنیر
[16] میزان الحکمة؛ ری شہری
[17] وسائل الشیعہ، شیخ حر عاملی

حوالہ جات

[]
[1]
دانشنامہ سیاسی، ص١٤١
[2] مفردات راغب، ص١٢٦؛ لسان العرب، ج١، ص٢٧٠
[3] سورہ یوسف/ ٢٧
[4] سورہ نحل/ ٥٢
[5] سورہ نسا/٧٦، بقرہ/١٨٣، آل عمران/ ١٠٤، مائدہ/ ٣٥، بقرہ/ ١٧٠، نسائ/ ١٤١ اور شوری/ ٣٨
[6] تفسیر موضوعی پیام قرآن، ج١٠، ص٢٨
[7] نہج البلاغہ، خطبہ ٤٠
[8] غرر الحکم، ج٢، ص٨٤ ٧
[9] نہج البلاغہ، خ٤٠
[10] وہی مدرک
[11] نہج البلاغہ،مکتوب ٦٢
[12] نہج البلاغہ، خ١٦٩
[13] نہج البلاغہ، خ٣
[14] نہج البلاغہ، خ١٧٣
[15] نہج البلاغہ، حکمت٣٣٢
[16] بحار الانوار، ج٩٠، ص٤١
[17] نہج البلاغہ، خ١٦٤
[18] نہج البلاغہ، خ١٦٤
[19] نہج البلاغہ، خ٣
[20] نہج البلاغہ، خ١٤٦
[21] نہج البلاغہ، خ١١٩
[22] نہج البلاغہ، خ٣
[23] نہج البلاغہ، مکتوب ٤٥
[24] نہج البلاغہ، خ٣٣
[25] نہج البلاغہ، خ١٧٣
[26] نہج البلاغہ، خ٣٧
[27] نہج البلاغہ، خ٦
[28] نہج البلاغہ، خ٢٤
[29] امام علی علیہ السلام، صدای عدالت انسانی، ج٢،ص ٧٢
[30] نہج البلاغہ، خ١٣١
[31] نہج البلاغہ، خ٤٠
[32] نہج البلاغہ، خ١٣١
[33] نہج البلاغہ، خ٣٤
[34] سیرہ پیشوایان، زندگانی حضرت علی
[35] نہج البلاغہ، مکتوب٥٩
[36] نہج البلاغہ، مکتوب٤٦
[37] نہج البلاغہ، مکتوب٥٣
[38] نہج البلاغہ، مکتوب٤٣
[39] علی صوت عدالة الانسانیہ، ج١، ص١١٧
[40] ترجمہ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٧٧
[41] امام علی ، ج١، ص١٠٨
[42] نہج البلاغہ، مکتوب ٥٣
[43] نہج البلاغہ، مکتوب٢٦
[44] نہج البلاغہ، مکتوب ٢٦
[45] نہج البلاغہ، مکتوب٢٥
[46] نہج البلاغہ، مکتوب ٥
[47] نہج البلاغہ، مکتوب٢٦
[48] نہج البلاغہ، خ١٧٣
[49] میزان الحکمة، ج١، ص١٨٠
[50] نہج البلاغہ، خ٢٤
[51] نہج البلاغہ، خ١٧٣
[52] نہج البلاغہ، خ١٧٣
[53] وسائل، ج٥، ص٤١٥
[54] سفینة البحار، ج٢، مادہ علم
[55] نسائ/٥٨
[56] دعائم الاسلام، ج٢، ص٥٣١
[57] نہج البلاغہ، خ٣
[58] نہج البلاغہ، مکتوب ٥٣
[59] نہج البلاغہ، خ٢١٦
[60] نہج البلاغہ، مکتوب٢
[61] نہج البلاغہ، خ٢٠٨
[62] نہج البلاغہ، مکتوب٦٢
[63] نہج البلاغہ، خ٣
[64] تاریخ طبری حالات بعد از رحلت نبی ۖ، تاریخ یعقوبی
[65] اسرائ/٣٧
[66] نہج البلاغہ، مکتوب٥٣
[67] نہج البلاغہ، مکتوب٥٣
[68] نہج البلاغہ، مکتوب٥٣
[69] میزان الحکمة، ص٦٧٢٢
[70] الامامة والسیاسة، ج١، ص٤٠
[71] نہج البلاغہ، خ١٠٦
[72] نہج البلاغة، خ٢٠٠
[73] نہج البلاغہ، مکتوب٥٣
[74] نہج البلاغہ، مکتوب ٥٣
[75] نہج البلاغہ، مکتوب ٥٣
[76] نہج البلاغہ، مکتوب ٥٣
[77] نہج البلاغہ، خ١٣١
[78] نہج البلاغہ، مکتوب٥٣
[79] نہج البلاغہ، مکتوب ٥٣
[80] نہج البلاغہ، خ١٧٣
[81] نہج البلاغہ، خ٣٣
[82] نہج البلاغہ، خ١٠٨
[83] نہج البلاغہ، خ٢٤

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button