کلمات قصارنہج البلاغہنہج البلاغہ انڈکس

امیر المؤمنین علیہ السلام کا مشکل و دقیق کلام

فصل

اس میں ہم امیر المؤمنین علیہ السلام کا وہ مشکل و دقیق کلام منتخب کر کے درج کریں گے جو محتاجِ تشریح ہے

۱) جب وہ وقت آئے گا، تو دین کا یعسوب اپنی جگہ پر قرار پائے گا، اور لوگ اس طرح سمٹ کر اس طرف بڑھیں گے، جس طرح موسمِ خریف کے قزع جمع ہوجاتے ہیں۔

(سید رضی کہتےہیں )کہ یعسوب سے وہ بلند مرتبہ سردار مرُاد ہے جو اُس دن لوگوں کے معاملات کا مالک و مختار ہوگا  اور قزع ابرکی اُن ٹکڑیوں کو کہتے ہیں جن میں پانی نہ  ہو۔

۲) یہ خطیب شحشح

(سید رضی کہتے ہیں کہ) شحشح کے معنی خطیبِ ماہر و شُعلہ بیان کےہیں ۔اور جو زبان آوری یا رفتار میں رواں ہو اُسے شحشح کہا جاتا ہے۔ اور دوسرے مقام پر اس کے معنی بخیل اور کنجوس کے ہوتے ہیں۔

۳)  لڑائی جھگڑنے کا نتیجہ قُحم ہوتے ہیں۔

(سید رضی کہتے ہیں کہ) قحم سے تباہیاں مراد ہیں کیونکہ قحام کے معنی ڈھکیلنے کے ہیں اور لڑائی جھگڑا عموماً لڑنے جھگڑنے والوں کو مہلکوں اور تباہیوں میں ڈھکیل دیتا ہے۔ اور اسی سے قحمۃ الاعراب (کی لفظ) ماخوذ ہے اور وہ یہ ہوتی ہےکہ باد یہ نشین عرب خشک سالیوں میں اس طرح مبتلا ہوجائیں،کہ ان کے چوپائے صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ ہوکر رہ جائیں۔ اور یہی اِس بلا کا  انہیںڈھکیل دینا ھے۔ اور اس کی ایک اور بھی توجیہ کی گئی ہے ۔اور وہ یہ کہ سختی و شدّت چونکہ انھیں شاداب حصّوں کی طرف ڈھکیل دیتی ہے، یعنی صحرائی زندگی کی سختی و قحط سالی انھیں شھروں میں چلے جانے پر مجبور کردیتی ھے ،س لیے اسے قحمہ کہا جاتا ھے۔

۴)  جب لڑکیاں نص الحقائق کو پہنچ جائیں تو اُن کے لیے دوہیالی رشتہ دار زیادہ حق رکھتے ہیں۔

(سید رضی کہتے ہیںکہ) نص الحقائق کی جگہ "نص الحقاق” بھی وارد ہوا ہے۔ "نص” چیزوں کی انتہا اور اُن کی آخری حد کو کہتے ہیں۔ جیسے چوپایہ کی وہ انتہائی رفتار کہ جو وہ دوڑ سکتا ہے "نص” کہلاتی ہے  اور یونہی "نصصت الرجل عن الامر” اس موقع پر کہا جائے گا، جب کسی شخص سے پوری طرح پوچھ گچھ کرنے کے بعد اس سے سب کچھ اُگلوا لیا ہو۔ تو حضرت نے "نص الحقاق” سے حدِ کمال تک پہنچنا مراد لیا ہےکہ جو بچپن کی حدِ آخر اور وہ زمانہ ہوتا ہے کہ کم سن کم سنی کے حدود سے نکل کر بڑوں کی صف میں داخل ہوتا ہے۔اور یہ بلوغ کے لیے نہایت فصیح اور بہت عجیب کنایہ ہے۔

حضرت علیہ السلام یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب لڑکیاں اس حد تک پہنچ جائیں تو ددہیالی رشتہ دار جب کہ وہ محرم بھی ہوں، جیسے بھائی اور چچا، وہ ان کا رشتہ کہیں کرنا چاہیں تو وہ ان کی ماں سے زیادہ رشتہ کے انتخاب کا حق رکھتے ہیں۔ اور "حقاق” سے (لڑکی کی) ماں کا دوھیالی رشتہ داروں سے جھگڑنا مراد ہے۔ اور ہر ایک کا اپنے کو دوسرے سے زیادہ حق دار ثابت کرنا ہے۔ اور اسی سے "حاققتہ حقاقا” بروزن "جادلتہ جدالا” ہے۔ یعنی میں نے اس سے لڑائی جھگڑا کیا، اور یہ بھی کہا گیا ھے کہ "نص الحقاق” سے مراد بلوغِ عقل اور حدِرُشد و کمال تک پہنچنا ہے۔ کیونکہ حضرت نے وہ زمانہ مراد لیا ہے کہ جس میں لڑکی پر حقوق و فرائض عائد ہوجاتے ہیں۔ اور جس نے "نص الحقائق” کی روایت کی ہے اس نے حقائق کو حقیقت کی جمع لیا ہے۔

یہ مفاد ہے اس کا جو ابوعبیدہ قاسم ابن سلام نے کہا ہے۔ مگر میرے خیال میں اس مقام پر "نص الحقاق” سے مراد یہ ہےکہ لڑکیاں اس حد تک پہنچ جائیں، کہ جس میں ان کے لیے عقد اور اپنے حقوق کا خود استعمال جائز ہوتا ھے۔

اِس طرح سے اسے سہ سالہ اُونٹنیوں سے تشبیہ دی گئی ہے اور "حقاق” "حق” اور "حقّۃ” کی جمع ہے۔ یہ اس اُونٹنی اور اُونٹ کو کہتے ہیں،جو تین سال ختم کرنے کے بعد چوتھے سال میں داخل ہو، اور اُونٹ اُس عمر میں سواری اور تیز دوڑانے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اور "حقائق” بھی "حقّہ” کی جمع ہے۔ اس بنا پر دونوں روایتوں کے ایک ہی معنی ہوں گے۔اور یہ معنی جو ہم نے بیان کئے ہیں، پہلے معنی سے زیادہ اسلُوب کلامِ عرب سے میل کھاتے ہیں۔

۵)  ایمان ایک "لُمظہ” کی صورت سے دل میں ظاھر ہوتا ہے۔ جُوں جُوں ایمان بڑھتا ہے، وہ "لمظہ” بھی بڑھتا جاتا ہے۔

(سید رضی کہتے ہیں کہ) "لُمظہ” سفید نُقطہ یا اُس کے مانند سفید نشان کو کہتے ہیں، اور اسی سے "فرس المظ” اُس گھوڑے کو کہا جاتا ہےجس کے نیچے کے ہونٹ پر کچھ سفیدی ہو۔

۶) جو شخص کوئی "دین ظنون” وصول کرے تو جتنے سال اس پر گذرے ہوں گے ان کی زکوٰۃ دینا ضروری ہے۔

(سید رضی کہتے ہیں کہ) "دین ظنون” وہ قرضہ ہوتا ہے کہ قرض خواہ یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ وہ اسے وصول ہوگا، یا انھیں کبھی امید پیدا ہو، اور کبھی نا امیدی ۔اور یہ بہت فصیح کلام ہے۔ یونہی ہر وہ چیز جس کی تمہیں طلب ہو اور یہ نہ جان سکو کہ تم اُسے حاصل کرو گے یا نہیں، وہ "ظنون” کہلاتی ہے۔ چنانچہ اعشی کا یہ قول اسی معنی کا حامل ہےجس کا مضمون یہ ہے۔

’’وہ جدظنون جو گرج کر برسنے والے ابر کی بارش سے بھی محروم ہو، دریائے فرات کے مانند نہیں قرار دیا جاسکتا جبکہ وہ ٹھاٹھیں مار رہا ہو۔ اور کشتی اور اچھّے تیراک کو ڈھکیل کر دُور پھینک رہا ہو۔”

"جد” اس پرانے کنوئیں کو کہتے ہیں جو کسی بیابان میں واقع ہو، اور "ظنون” وہ ہےکہ جس کے متعلق یہ خبر نہ  ہو کہ اس میں پانی ہے یا نہیں۔

۷)  جب آپ نے لڑنے کے لیے لشکر روانہ کیا، تو اُسے رخصت کرتے وقت فرمایا:

جہاں تک بن پڑے عورتوں سے "عاذب” رھو۔

(سید رضی فرماتےہیں کہ) اس کے معنی یہ ہیں کہ عورتوں کی یاد میں کھو نہ جاؤ، اور اُن سے دل لگانے اور ان سے مقاربت کرنے سے پرھیز کرو، کیونکہ یہ چیز بازوئے حمیّت میں کمزوری اور عزم کی پختگیوں میں سُستی پیدا کرنے والی ہے۔ اور دشمن کے مقابلہ میں کمزور اور جنگ میں سعی و کوشش سے روگرداں کرنے والی ہے۔ اور جو شخص کسی چیز سے منہ پھیر لے، اس کے لیے کہا جاتا ہے کہ "اعذب عنہ” (وہ اس سے الگ ہوگیا) اور جو کھانا پینا چھوڑدے اسے "عاذب” اور "عذوب” کہا جاتا ہے۔

۸) وہ اِس "یاسر فالج” کے مانند ہے جو جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینک کر پہلے ہی داؤں میں کامیابی کا متوقع ہوتا ہے۔

(سید رضی کہتےہیں کہ) "یاسرون” وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جو نحر کی ہوئی اُونٹنی پر جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینکتے ہیں۔ اور "فالج” کے معنی جیتنے والے کے ہیں۔ یوں کہا جاتا ھے "قد فلج علیھم وفلجھم” (وہ ان پر غالب ہوا) چنانچہ مشہور رجز نظم کرنے والے شاعر کا قول ہے۔

"جب میں نے کسی "فالج” کو دیکھا کہ اس نے فلج حاصل کی۔

۹)  جب "احمرار” باس ہوتا تھا تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سپر میں جاتے تھے، اور ہم میں سے کوئی بھی ان سے زیادہ دشمن سے قریب تر نہ ہوتا تھا۔

(سید رضی کہتے ہیں کہ) اس کا مطلب یہ ہے کہ جب دشمن کا خطرہ بڑھ جاتا تھا اور جنگ سختی سے کاٹنے لگتی تھی تو مسلمان یہ سہارا ڈھونڈنے لگتے تھے کہ رسول اللہ خود بنفس نفیس جنگ کریں تو اللہ تعالیٰ آنحضرت ؐکی وجہ سے ان کی نصرت فرمائے اور آپؐ کی موجودگی کے باعث خوف و خطر کے موقع سے محفوظ رہیں۔

حضرت کا ارشاد جب "احمرار باس” ہوتا تھا (جس کے لفظی معنی یہ ہیں کہ جنگ سُرخ ہوجاتی تھی) یہ کنایہ ہے،جنگ کی شدّت و سختی سے۔ اور اس کی توجیہ میں چند اقوال ذکر کئے گئے ہیں۔ مگر ان میںسب سے بہتر قول یہ ہے، کہ آپ نے جنگ کی تیزی اور گرمی کو آگ سے تشبیہ دی ہے،جو اپنے اثر اور رنگ دونوں کے اعتبار سے گرمی اور سُرخی لیے ہوتی ہے، اور اس معنی کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حنین کے دن قبیلۂ بنی ہوازن کی جنگ میں لوگوں کو جنگ کرتے دیکھا، تو فرمایا: اب وطیس گرم ہو گیا۔ "وطیس” اُس جگہ کو کہتے ہیں  جس میں آگ جلائی جائے۔ اس مقام پر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے لوگوں کے میدانِ کارزار کی گرم بازاری کو آگ کے بھڑکنے اور اس کے لپکوں کی تیزی سے تشبیہ دی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button