شمع زندگیمیڈیا گیلری

347۔ شخصی کردار

مَنْ فَاتَہٗ حَسَبُ نَفْسِہٖ لَمْ یَنْفَعْہُ حَسَبُ اٰبَآئِہٖ (نہج البلاغہ حکمت ۳۸۹)
جسے ذاتی شرف و منزلت حاصل نہ ہو اسے آباؤ اجداد کی منزلت کچھ فائدہ نہیں دیتی۔

ہر انسان زندگی میں کسی نہ کسی چیز کو اپنے لیے فخر کا سبب جانتا ہے۔ بعض اس قابل فخر شے کا اظہار کرتے ہیں اور بعض نہیں۔ کچھ چیزیں حقیقت میں قابل فخر ہوتی ہیں اور کچھ نہیں۔ امیر المؤمنینؑ نے یہاں عمل کو اور ذاتی خوبیوں کو فخر کا حقیقی ذریعہ قرار دے کر عمل کی ترغیب دی اور ساتھ ہی اس مطلب کو بھی واضح فرمایا ہے کہ بہت سے لوگ جب اپنے اندر کسی ہنر و عمل کی وجہ سے قابل فخر شے نہیں پاتے تو وہ اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرتے ہیں مگر کسی کے اپنے اندر کمال نہ ہو تو آباؤ اجداد کے کمالات گننے سے انسان خود صاحب ِکمال نہیں بن جاتا۔

بلکہ حکماء نے کہا ہے کہ زمانہ بھی کتنا عجیب ہو گیا ہے کہ زندہ شخص مردوں کو اپنے لیے بزرگی کا سبب اور بوسیدہ ہڈیوں کو اپنے لیے باعث فخر جانتا ہے۔ بہت سے حکماء آباؤ اجداد پر فخر کو عیب و عار سمجھتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہےکہ کسی کے لیے یہ عار کافی ہے کہ وہ دوسروں کے ذریعے خود کو قابل فخر جانے بلکہ یہ فخر تو آباؤ اجداد کے لیے بھی باعث ندامت ہے کہ وہ اپنی اولاد میں کمال پیدا نہ کر سکے۔ اگر کسی کے آباؤ اجداد با کمال ہوں تو اس کے لیے کمال کی منزلیں طے کرنا آسان ہوتا ہے مگر پھر بھی کمال تک نہ پہنچے تو اس کے لیے کمزوری سمجھی جائے گی۔

پڑھے لکھے باپ کا بیٹا جاہل ہو اور یوں کہے کہ میرا باپ اتنا پڑھا ہوا تھا تو یہ دگنا عیب ہے کہ اتنے پڑھے لکھے باپ کا بیٹا ہو کر بھی جاہل ہے۔ ہاں با کمال لوگ آباؤ اجداد کا ذکر کریں تو یہ حقیقی کمال ہوگا، بیان کرنے والے کا بھی اور جس کا کمال بیان کیا جا رہا ہے اس کا بھی۔ جیسے نہج البلاغہ کے جامع اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرتے ہیں جبکہ خود بھی ایک صاحب کمال ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button