مقالات

عدالت در گفتار علی ؑ

امیر المؤمنین علیہ السلام نے عدالت کے نفاذ پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور آپ کے متعدد فرامین آج بھی نہج البلاغہ کے اندر موجود ہیں البتہ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ عدالت و انصاف کے متعلق حضرت علی علیہ السلام نے وہی کچھ فرمایا:جو نہج البلاغہ میں ہے بلکہ حدیث کی دوسری کتابوں میں بھی جہاں کہیں عدالت کی بات ہے وہیں فرامین علی ؑ بھی نظرآتے ہیں۔

لہٰذا ہم یہاں پر بطور نمونہ چار فرامین ذکر کرتے ہیں کہ جن میں سے دو کا انتخاب نہج البلاغہ سے اور دو کا وسائل الشیعہ سے کیا گیا ۔

۱۔زیادابن ابیہ کو خطاب:جب حضرت نے زیاد کو فارس اور اس کے گردونواح کے علاقوں کے لئے عبد اللہ عباس کا جانشین بنایا تو اسے چند نصیحتیں فرمائیں جن میں سے ایک یہ تھی۔

’’اِسْتَعْمِلِ الْعَدْلَ واقذَرِ العَشفَ والحَیْفَ۔‘‘

’’عدل کی روش پر چلو۔بے راہ روی اور ظلم سے کنارہ کشی کرو۔‘‘( نہج البلاغہ حکمت ۴۷۶ مفتی جعفر حسین ۔(

۲۔قاضی شریح کو خطاب:حضرت امیرا لمؤ منین علیہ السلام جب شریخ کو قاضی کے عہدے پر نصب کرتے ہیں تو فرماتے ہیں:

’’ثم واس بین المسلمین بِوَجْھِکَ وَمَنْطِقِکَ وَمَجْلِسِکَ حتّٰی لا یطمع قریْبکَ فی حَیْٖفِکَ وَلایَتیأس عدوکَ مِن عَدلِکَ۔‘‘( وسائل الشیعہ جلد۲۷؍ابواب آداب القاضی باب۱؍ حدیث ۱؍ص۲۱۲۔(

’’مسلمانوں (مدعی وملزم)کی طرف نظر کرنے ،بات کرنے اور بٹھانے (یا اپنے بیٹھنے ) کی جگہ کے حوالے سے مساوات برقرار رکھو تاکہ تمہارے اقرباء تمہارے (دوسروں پر)ظلم کرنے (اور اپنوں کو زیادہ دینے )کا لالچ نہ رکھیں اور تمہارے دشمن تمہارے عدل وانصاف سے مایوس نہ ہوجائیں ۔‘‘

۳۔حضرت عمر کو خطاب:حضرت عمر کی خلافت کا زمانہ ہے حضرت علی علیہ السلام حقیقی جانشین پیامبر  ﷺ ہونے کی حیثیت سے حضرت عمر کو چند ایک نصیحتیں کرتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ فرماتے ہیں تین چیزیں ہیں کہ اگر انھیں یا د رکھو اور ان پہ عمل کرو تو پھر اور کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ،اور اگر ان تین پہ عمل نہ کیا تو پھر جو کچھ بھی کرتے پھرو گے فائدہ مند نہ ہوگا،حضرت عمر پوچھتے ہیں وہ تین چیزیں کونسی ہیں ؟امام فرماتے ہیں:

’’ اِقامَۃُ  الحُدُودِ عَلیَ القَرِیبِ وَالْبَعِیدِ، وَالحُکمُ بِکِتابِ اللّٰہِ فِی الرِّضا وَالسَّخَطِ، والقسَّمُ بِالعَدْلِ بَینَ الاَحْمَر واَلاسْوَد۔‘‘( وسائل الشیعہ جلد۲۷؍ابواب اداب القاضی باب۱؍حدیث۱؍ص۲۱۳۔(

’’اپنے اور غیر (دونوں پر)حدود کا اجراء ،رضایت وناراضگی (دونوں صورتوں) میں کتاب اللہ کے مطابق حکم لگانا اور سرخ و سیاہ کے درمیان عدل وانصاف کے ساتھ تقسیم کرنا۔‘‘

۴۔زکات وصدقات وصول کرنے والوں کو خطاب:حضرت ؑ جن کارندوں کو زکات وصدقات کے وصول کرنے پر مقرر کرتے تھے ان کے لئے یہ ہدایت نامہ تحریر فرماتے (البتہ یہ اقتباس جو ہم یہاں پہ نقل کر رہے ہیں فقط حیوانوں کی زکات سے متعلق ہے)

جب تمہارا امین اس مال کو اپنی تحویل میں لے لے،تو اسے فہمائش کرنا کہ وہ اونٹنی اور اس کے دودھ پیتے بچے کو الگ الگ نہ رکھے اور نہ اس کا سارے کا سارا دودھ دُہ لیا کرے ۔۔۔اس میں اور اس کے ساتھ کی دوسری اونٹنیوں میں (سواری کرنے اور دوہنے میں)انصاف سے کام لے۔

’’وَلیَعْدِل بین صَواحِیَاتھا فی ذَالِکَ۔‘‘( نہج البلاغہ خطبہ ۲۵۔)

ان چاروں موارد میں اگر چہ مخاطب اول مخصوص افراد ہیں لیکن انھیں کے ساتھ مختص نہیں بلکہ ہر زمانہ میں آنے والے چھوٹے بڑے حکمران،قاضی اور زکات وصول کرنے والے کارکنان سب کو یہ دستورات دیئے جا رہے ہیں حتی ہم سب کو خطاب شامل ہے اور اگرہم اس چوتھے مورد پر ہی غور کرلیں کہ جس میں حیوانوں کے ساتھ بھی عدل وانصاف کو ضروری قرار دیا گیا ہے تو معلوم ہو جائے گا کہ دوسرے انسانوں کے ساتھ عدل وانصاف سے پیش آنا کتنا ضروری ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button