دوست و دوستی خالق نہج البلاغہ مولائے کائناتؑ کے بیش بہا اقوال کی روشنی میں
مقالہ نگار: سید محمد مجتبیٰ علی
﷽
تمہید:
انسان اجتماعی اور معاشرتی زندگی گذارتا ہے اور اس زندگی میں اس سے متعلق بہت سے رشتے اور تعلقات ہوا کرتے ہیں جن میں سے ہر ایک کا ایک الگ مقام اور ہر ایک کی اپنی حیثیت ہوا کرتی ہے۔ ان رشتوں میں کچھ رشتے تو خدا داد ہوتے ہیں یعنی ان میں انسان کی مرضی اور اختیار کا دخل نہیں ہوتا، جیسے ماں، باپ، بھائی، بہن، گھر، خاندان، وغیرہ، لیکن کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جن میں انسان پوری طرح سے خود مختار ہوتا ہے، ایسے رشتوں میں سے ایک رشتہ، دوستی ہے۔ دوستی انسان کی عقل و فکر کی ایک حد تک عکاسی کرتی ہے، غالباً یہ حدیث ہی کا مفہوم ہے کہ ’’کسی شخص کو پہچاننا ہو تو اس کے ہم نشینوں کو دیکھو‘‘ تو اس طرح دوستی بھی ایک ایسا رشتہ ہے کہ جو انسان کی شخصیت بنانے اور بگاڑ نے میں کافی حد تک موثر ہے، دوست ایک ایسی شخصیت ہے کہ جو انسان سے سب سے زیادہ نزدیک اور قریب ہے کیونکہ یہ دوست ہم سن و سال اور ہم فکر و ہم مزاج ہوتا ہے۔ اس لئے ہمارے احساسات، فکر اور جذبات کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے اور فکری و عملی غلطیوں کی اصلاح بھی کر سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اچھے دوست کی ضرورت ہے ساتھ ہی خود کو اپنے دوست کے لئے ایک اچھا ساتھی اور ہمدم بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ اس لئے اس پر کافی غور و فکر کرنا چاہیئے۔ لہٰذا دوستی کو اسلامی نقطہ نظر سے مولائے کائنات کے قیمتی بیانات کی روشنی میں بیان کیا جاتا ہے۔
دوست اور دوستی، ایک ایسا عنوان ہے کہ جس سے نوع بشر کی ہر فرد آشنا ہے۔ عالم ہو یا جاہل، بڑا ہو یا چھوٹا ،امیر ہو یا غریب، ہر فرد اپنے افکار اور خیالات کے مطابق، اپنے ہم فکر اور ہم مزاج شخص کو اپنا دوست بناتا ہے۔ دوستی خدا کا اپنے مومن اور مخلص بندوں کے لئے ایک بہت بڑا تحفہ ہے اور یہ تحفہ اتحاد اور بھائی چارگی کے لئے بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کبھی کبھی یہ دوستی مختلف اغراض و مقاصد کے تحت ہوتی ہے۔ جیسے کسی خاص ہدف تک پہنچنے کے لئے، یا سیاسی فائدہ کے لئے، غرض کہ دوستی کا میدان بہت وسیع ہے اس میں مختلف عناوین اور مقاصد شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہماری گفتگو ایک اچھے، دین میں مددگار اور اسلامی دوست کے سلسلے میں ہے۔
دوستی کسے کہتے ہیں؟
اس عنوان کو اگر چہ ہر شخص جانتا ہے، لیکن اور زیادہ سمجھنے کے لئے دوست اور دوستی کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ دو ہم فکر اور ہم مزاج افراد کے درمیان ایک خاص قلبی اور محبتی رشتہ اور تعلقات کو دوستی کہتے ہیں۔ یہ دوستی کسی نسبی یا سببی رشتہ کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ صرف دو افراد کے ایک دوسرے سے میل جول اور ملاقات سے وجود میں آتی ہے۔ زیادہ تر دوستیاں، اسکولوں، مدرسوں اور کالجوں میں ہوا کرتی ہیں۔ عام طور پر کوئی کسی سے کہہ کر دوستی نہیں کرتا، بلکہ اسکول میں ساتھ رہتے رہتے کھیلتے کودتے دوستی ہو جاتی ہے اور زیادہ تر ایسی دوستیاں اسکولوں، مدرسوں ہی میں ختم بھی ہو جاتی ہیں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ایسی دوستیاں اسکول کے بعد بھی باقی رہیں۔ دوستی کرنا اور دوست بنانا سماج میں ایک اچھا کام سمجھا جاتا ہے اور یہ کام اچھے اخلاق اور خوش مزاجی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسی سلسلے میں مولائے کا ئنات علی علیہ السلام فرماتے ہیں ’’دوستی اور محبت عقل کا نصف حصہ ہے۔‘‘ [۱] آپؑ نے دوستی کرنے کو عقلمندی میں شمار کیا ہے۔
دوستی سے متعلق اسلامی نظریہ:
عام طور سے دوستی خود سے ہی ہو جاتی ہے، جب مختلف افراد ایک دوسرے سے ملتے ہیں، تو ان کے درمیان ہر کوئی اپنے ہم فکر اور ہم خیال شخص کو دوست بنا لیتا ہے۔ دنیا کے مختلف مذاہب میں سے کوئی بھی اس موضوع پر کوئی خاص نظریہ نہیں رکھتا۔ صرف اسلام ہی ایک ایسا دین ہے کہ جس نے اس موضوع کو بھی بڑی اہمیت دی ہے، اور دوست اور دوستی سے متعلق اپنا خاص نظریہ بھی ظاہر کیا ہے اور اس دوستی (رفاقت) کو بھی دینی چیزوں میں شمار کرتے ہوئے د وست کو دینی بھائی کہا ہے۔ ساتھ ہی دوستی کے اصول اور ضوابط بھی معین کئے ہیں۔
بہترین دوست:
دوست تو کئی قسم کے ہوتے ہیں، لیکن اسلامی نقطۂ نظر سے بہترین دوست وہ ہے کہ جس کو دیکھنے سے خدا کی یاد آ جائے۔ یعنی نیک کاموں اور خدا کی اطاعت میں معاون اور مددگار ہو۔ اور وہی دوستی پائیدار اور دنیا و آخرت میں مفید ہوتی ہے جو اسلامی اقدار کے تحت اور دینی اصول پر قائم ہو۔ بہترین دوست وہی ہے، جو عیوب کی مخلصانہ طور پر اصلاح کرے، ترقی کے حصول میں مدد کرے، دوست کی حفاظت کرے اور مشکل مراحل میں اس کا ساتھ دے۔ چونکہ دوست ہم عمر ہونے کی وجہ سے دین میں بھی ایک اچھا اور مددگار ساتھی ہوتا ہے اس لئے عبادت میں بھی دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ جب وہ دیکھتا ہے کہ یہ ہمارا ہم عمر ہے اور اتنی عبادت کرتا ہے، نماز شب کا پابند ہے، تو رشک کرتا ہے اور ساتھ ہی خود بھی پڑھنے کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ نام کے دوست تو بہت ہوا کرتے ہیں، لیکن حقیقی دوست اور سچا ساتھی وہی ہوتا ہے کہ جو آڑے وقت میں کام آئے۔ مولائے کائنات امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں ’’دوست اس وقت تک دوست سمجھا نہیں جا سکتا کہ جب تک وہ اپنے بھائی کی تین موقعوں پر حفاظت نہ کرے، مصیبت کے موقع پر، اس کی غیر موجودگی میں، اور اس کے مرنے کے بعد۔‘‘ [۲] اس حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ سچا دوست وہی ہے جو مصیبت، پریشانی اور برے وقت میں دوست کو چھوڑ کر بھاگے نہیں، بلکہ اس کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہوئے، اس کی پوری طرح سے مدد کرے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ اس کی غیر موجودگی میں اس کی مدد کرے اور اگر دوست کے پیٹھ پیچھے کوئی اسے برا بھلا کہہ رہا ہو، اس کے سلسلے میں بد گمانی، اور بد کلامی کر رہا ہو، برائی کر رہا ہو، تو وہ اس کی طرف داری اور حمایت کرے۔ تیسرا مورد اس کے مرنے کے بعد کا ہے کہ مرنے کے بعد دوست کے لئے ایصال ثواب کرے، اور دوست کے ادھورے کام کو پورا کرکے اس کی مدد کرے اس کے گھر والوں کا خیال رکھے، ان سے اظہار ہمدردی کرے، اور ان کی حتیٰ الامکان حمایت کرے، اور دوست کی کمی کا احساس نہ ہونے دے۔
دوست کی ضرورت:
دوستی بھی ایک فطری عمل ہے جو کسی استاد یا راہنما کا محتاج نہیں ہے، بلکہ انسان فطرتاً اس کی جانب بڑھتا ہے اور فطری طور پر اسے ایک دوست کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، اور دوست نہ ملنے پر وہ خود کو ادھورا سمجھنے لگتا ہے۔ مولائے کا ئناتؑ کے کلام کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو اس طرف اشارہ ملتا ہے، جس سے دوست اور دوستی کی ضرورت اور اہمیت اچھی طرح معلوم ہو جاتی ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ (الغریب من لم یکن لہ حبیب) [۳] تنہا اور غریب وہ شخص ہے کہ جس کا کوئی دوست نہ ہو۔ (غریب اسے کہتے ہیں، کہ جس کا اپنا کوئی نہ ہو، اسی لئے مسافر کو پردیسی یا غریب کہتے ہیں اس لئے کہ پردیس میں اس کا کوئی اپنا نہیں ہوتا بلکہ ہر کوئی اس کے لئے اجنبی ہوتا ہے) مطلب یہ ہوا کہ جس طرح پر دیس میں انسان اکیلا اور تنہا رہتا ہے اسی طرح دوستوں کے نہ ہو نے کی وجہ سے اپنے وطن میں بھی وہ اکیلا اور تنہا رہتا ہے۔ اچھے اور امین دوست انسان کے لئے نہایت ضروری ہیں جن سے وہ دل کی باتیں کہہ سکے، جن کے مفید مشوروں سے فائدہ اٹھا سکے اور جن کی دوستی سے مدد حاصل کر سکے۔ چونکہ دوست ہم عمر اور ہم فکر ہوتا ہے اس لئے بلا جھجک اس سے دل کی بات کہی جا سکتی ہے۔ لہٰذا تبادلۂ خیال کے لئے اچھے دوستوں کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ ہر منزل اور ہر مرحلہ میں اچھا دوست بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔ دوست اگر اچھا ہے تو علمی مسائل، درس و بحث اور علمی گتھیوں کو سلجھانے میں بہت حد تک مددگار ہو سکتا ہے جس کا کوئی دوست نہیں ہوتا وہ بالکل ہی معاشرے سے کٹا رہتا ہے اور جو دوست بنائے اور کھودے وہ اس سے بھی زیادہ لاچار شخص ہے اسی مطلب کی طرف خالق نہج البلاغہ امیر کائنات علیہ السلام اشارہ فرماتے ہیں: ’’بے چارہ وہ شخص ہے کہ جو دوست نہ بنا سکے اور اس سے بھی زیادہ عاجز اور لاچار وہ ہے کہ دوست بنانے کے بعد اسے کھو دے۔‘‘ [۴] آپؑ نے اس لئے ایسا فرمایا کہ اچھا دوست ڈھونڈنا تو پھر بھی ایک اہم اور سخت کام ہے، اور سب کے لئے آسان بھی نہیں ہے، لیکن دوستی باقی رکھنا جو کہ صرف خندہ پیشانی اور اچھے برتاؤ اور تعلقات سے بنی رہ سکتی ہے، اسے بھی نہ بچا سکے تو وہ زیادہ بے چارہ اور بڑا بد نصیب ہے۔
اچھے اور بہترین دوست کے صفات:
دوست تو بہت اور مختلف قسم کے ہوتے ہیں اور ہر اچھا انسان چاہتا ہے کہ اچھے افراد سے دوستی کرے اور یہ اچھے دوست کا انتخاب اس کی اپنی فکر اور مزاج کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ وہ جس میدان میں رغبت رکھتا ہے، دوست بھی اسی اعتبار سے چنتا ہے، عام طور پر لوگ صرف ظاہری اور دنیاوی فائدہ ہی نظر میں رکھتے ہیں اور اسی حساب سے اچھے اور برے کی تمیز کرتے ہیں، اسی بنا پر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی خاص میدان، جیسے پڑھائی میں تو بہت اچھا ہو، لیکن اپنی ذاتی زندگی یا دوسرے لحاظ سے برا ہو۔ تو ایسی دوستی مضبوط نہیں ہوتی ہے۔ اس طرح ہر لحاظ سے اچھا دوست ملنا مشکل بلکہ نا ممکن جیسا ہے۔ لیکن اگر ہم مولائے کائناتؑ کے بیش بہا اقوال پر غور کریں تو ان اقوال کی روشنی میں اچھے دوست کا بہ آسانی انتخاب کرسکتے ہیں جو ہر لحاظ سے اچھا ہو اور جس سے مضبوط دوستی ہو سکے۔ امام المتقینؑ امام حسنؑ کو وصیت کرتے ہوئے چار لوگوں سے دوستی نہ کرنے کی نصیحت فرماتے ہیں ۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:
(۱) بیوقوف سے دوستی نہ کرنا کیونکہ وہ تمہیں فائدہ پہنچانا چاہے گا تو نقصان پہنچا دے گا۔
(۲) بخیل (کنجوس) سے دوستی نہ کرنا کیو نکہ جب تمہیں اس کی مدد کی ضرور ت ہوگی تو وہ تم سے دور بھا گے گا۔
(۳) بد کردار سے دوستی نہ کرنا ورنہ وہ تمہیں کوڑیوں کے مول بیچ دے گا۔
(۴) جھوٹے سے دوستی نہ کرنا کیونکہ وہ سراب کے مانند تمہارے لئے دور کی چیزوں کو قریب اور قریب کی چیزوں کو دور کرکے دکھائے گا۔ [۵]
اسی مضمون کی ایک اور حکمت میں آپؑ بیان فرماتے ہیں ’’احمق سے دوستی نہ کرو کیونکہ وہ تمھارے برے کاموں کو اچھا کہے گا اور تمہیں اپنے جیسا بنا دے گا۔ [۶] اس سے بخوبی اچھے دوست اور دوستی کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے اور انتخاب دوست میں مدد ملتی ہے کہ کسے دوست بنایا جائے۔ اگر دوست اچھا ہے تو ہر میدان میں وہ مفید ہوگا اور اگر خدا نخواستہ وہ برا ہے، تو پھر جہاں جہاں اس کی دسترس ہے، وہ دوست کے لئے نقصان دہ اور ضرر کا با عث ہے۔
دوستی کی اہمیت:
دوست اور دوستی کی اہمیت کے لئے اتنا ہی کہنا کافی ہو گا کہ مولا امیر المومنین علی علیہ السلام نے دوست کے لئے ’’بھائی‘‘ (اخ) کا لفظ استعمال کیا ہے آپؑ اپنے اس عزیز، زاہد اور پارسا، دوست کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’کان لی فیما مضی اخ فی اللہ‘‘ گذشتہ زمانہ میں میرا ایک بھائی تھا۔ گویا یہ جملہ فرما کر آپؑ اپنے اس دوست کی کمی کا احساس کرتے ہیں۔ ایک جگہ آپؑ دوست سے بچھڑ جانے کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں ’’فقد الاحبۃ غربۃ ‘‘ دوستوں کو کھونا غریب الوطنی ہے۔ [۷]۔
دوستی کا اثر انسانی زندگی پر کافی حد تک ہوتا ہے۔ لہٰذا امام علی علیہ السلام صرف اپنے فرزندوں کو ہی نہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دیتے ہیں۔ آپؑ اپنے ایک مکتوب میں حارث ہمدانی کو مختلف نصیحتوں اور تعلیمات کے ساتھ دوست اور دوستی کی طرف بھی اشارہ فرماتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’ایسے آدمی سے دوستی مت کرو جس کی رائے اور نظریات کمزور ہوں اور افعال برے ہوں کیونکہ انسان کی زندگی اپنے دوست سے متاثر ہوتی ہے۔‘‘ [۸]۔۱گر دوست اچھا ہو گا تو اس کا اچھا اثر پڑے گا، لیکن اگر خدا نخواستہ دوست برا ہو تو اس کا برا اثر بھی پڑے گا۔ ہاں اس کا مطلب یہ نہیں کہ اچھا انسان برے کے ساتھ رہ کر برا ہی ہو جائے، نہیں۔ بلکہ بہت ممکن ہے کہ وہ برے کے ساتھ رہ کر خود کو پوری طرح سے بچائے رکھے البتہ اس برے دوست کے ساتھ دوستی کے سبب اس کی شخصیت پر ضرور اثر پڑے گا۔
جس طرح اچھے سے دوستی کرکے انسان کی اچھائی اور عزت میں اضافہ ہوتا ہے اسی طرح برے سے دوستی کرکے اس کی شخصیت پر برا اثر ہوتا ہے۔ لہٰذا دوستی کرتے وقت اس کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ کس سے دوستی کی جائے۔
دوستوں کی قسمیں:
یہ سوال اکثر جوانوں کے ذہن میں اٹھتا ہے کہ دوست کتنے طرح کے ہوتے ہیں؟ کیونکہ سارے دوست ایک جیسے نہیں ہوتے بلکہ دوستوں کے درمیان کافی فرق پایا جاتا ہے۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو اپنے دوست کے دشمن سے بھی دوستی کر لیتے ہیں اور دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکاتے رہتے ہیں۔ تو کیا انہیں بھی دوست کہا جا سکتا ہے، یا نہیں؟ مشکل کشاؑ نے اس مشکل کو بھی اپنے نایاب کلمات کے ذریعہ حل فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ تمہارے تین قسم کے دوست ہیں،
(۱) تمہارا دوست
(۲) تمہارے دوست کا دوست اور
(۳) تمہارے دشمن کا دشمن
اور اسی طرح تمہارے دشمن بھی تین ہی طرح کے ہوتے ہیں۔
(۱) تمہارا دشمن،
(۲) تمہارے دوست کا دشمن اور
(۳) تمہارے دشمن کا دوست۔ [۹]۔
اس کلمہ سے آسانی سے دوستوں اور دشمنوں کی قسمیں سمجھ میں آتی ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ دوست ہر کوئی نہیں ہو سکتا بلکہ جو دوستی کے شرائط پر پورا اترے وہی اچھا اور سچا دوست ہے۔
دوستی کی حد:
دوستی کس حد تک ہونی چاہئے، کیا ہم دوست سے صرف کسی خاص موضوع پر ہی گفتگو اور دوستانہ رکھیں یا پھر اپنی ساری باتیں اور راز کھول دیں، اور دوست کو پوری طرح سے اپنی زندگی میں شریک کر لیں، یا پھر دوستی محدود رکھیں۔ کس طرح کا رویہ ہونا چاہئے؟ مو لائے کائناتؑ نے اس عنوان کے ایک معیار اور ایک حد کو معین کر دیا ہے اور ایک لطیف اشارہ فرما دیا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’دوست سے دوستی کرو لیکن ایک حد تک، ممکن ہے کہ ایک دن وہی تمہارا دشمن ہو جائے اور دشمن سے دشمنی بھی ایک معین حد تک کرو ممکن ہے کہ وہ کبھی تمہارا دوست ہو جائے۔ [۱۰]۔ اس قیمتی حکمت میں مولائے کائناتؑ نے ہم لوگوں کو ایک معیار دیا کہ دوستی اور دشمنی دونوں مناسب حد تک رکھنا چاہئے۔ تاکہ اگر خدا نخواستہ دوست دشمن ہو جائے تو بچنے کی کوئی صورت باقی رہے، ورنہ اگر کوئی پردہ نہیں رہا تو پھر بچا نہیں جا سکتا ہے۔ اسی طرح دشمن سے دشمنی بھی ایک حد تک ہو، حد سے زیادہ کی صورت میں اگر اتفاقاً وہ دوست بن گیا تو پھر شرمندگی ہوگی اور اس کے مقابل خود کو ہلکا محسوس کرے گا۔ دوستی اور دشمنی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ نہ دوستی اور محبت ہمیں اپنے دوست کے حق میں اندھا بنا دے اور نہ ہی دشمن سے دشمنی ہمیں اس کی اچھائیوں پر پردہ ڈالنے پر مجبور کرے، معاشرہ اور سماج میں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو اگر کسی سے خوش ہیں تو اس کے سارے کاموں یہاں تک کہ برے کاموں میں بھی اس کی تعریف ہی کرتے ہیں۔ لیکن اگر کسی سے ناراض ہو تے ہیں تو اس کے اچھے کاموں کو بھی برا ہی کہتے ہیں الغرض کسی بھی کام کے سلسلہ میں صحیح نتیجہ دینے والے بہت ہی کم افراد ہوتے ہیں، اسی مفہوم کی طرف شیر خدا اشارہ فرماتے ہیں ’’تمہارا دوست وہی ہے جو تمہیں ٹوکے اور وہ دشمن ہے جو (تمہاری تعریفیں کر کر کے) تمہیں مغرور بنا دے۔ [۱۱]۔
دوستی کے لئے نقصان دہ چیزیں:
دوستی کی حفاظت کرنا دونوں دوستوں کا فرض ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ بے توجہی اور لا پرواہی کی وجہ سے یا نادانی کے سبب اچھے اور نیک دوستوں میں جدائی ہو جائے۔ اس لئے ایسے موارد سے بچنا چاہیے کہ جو دوستی کے لئے نقصان دہ ہیں۔ جیسے، دوست کو شرمندہ کرنا۔ اگر کوئی بات ہو بھی جائے تو بھی ایسی صورت سے بچنا چاہیے کہ جس کے سبب دوست کو شرمندہ ہونا پڑے دوسری چیز جس سے بچنا چاہیے وہ یہ کہ دوست کو غصہ نہ دلائے، یہ بھی مولائے کائناتؑ کے کلام کی روشنی میں دوستوں کے درمیان جدائی کا سبب ہو سکتا ہے۔ دوستی کی سب سے بڑی مصیبت ’’حسد‘‘ ہے۔ (یعنی دوست سے جلنا) آپؑ فرماتے ہیں کہ؛ ’’حسد الصدیق من سقم المودۃ‘‘ دوست سے جلنا محبت کی کمی کا نتیجہ ہے۔ [۱۲]۔
نتیجۃً یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ دوست اور دوستی پروردگار عالم کی اپنے بندوں پر ایک انمول نعمت ہے۔ جو خوش نصیب افراد کے حصہ میں آتی ہے اور اس کو اگر اسلامی اصول اور معیار سے سنوار دیا جائے تو دوستی ہمیشہ کے لئے ہو جاتی ہے اور ایک مثالی حیثیت اختیار کر لیتی ہے اچھا دوست ملنا بہت بڑی بات ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ بڑی اور اہمیت والی با ت یہ ہے کہ خود کو اپنے دوست کے لئے اچھا اور مفید دوست اور ساتھی بنایا جا ئے۔ مولائے کائناتؑ اس مضمون کی طرف اس طرح اشارہ فرماتے ہیں کہ ’’من ظنّ بک خیراً فصّدق ظنّہ‘‘ [۱۳]۔ جو تم سے حسن ظن رکھے اس کے گمان (حسن ظن) کو سچا ثابت کردو۔ مثال کے طور پر اگر کوئی تمہارے سلسلہ میں یہ خیال و گمان رکھتا ہو کہ تم ہر شب جمعہ زیارت عاشورا پڑھتے ہو یا حدیث کساء کی تلاوت کرتے ہو تو تمہیں چاہیئے کہ ثابت کر دکھاؤ کہ واقعاً تم پڑھتے ہو۔ اور اس کا راستہ یہ ہے کہ کم از کم ایک دفعہ اس کی نگاہوں کے سامنے مذکورہ نیک عمل انجام دو یہ ریا کاری نہیں بلکہ حکم امام ہے۔ کیونکہ اس سے اس کو دلی سکون ملے گا اور وہ تمہیں اپنے دین اور دنیا کے لئے مفید سمجھے گا اور بہت ممکن ہے کہ تمہارے ساتھ رہ کر وہ ایک اچھا اور بہتر سے بہتر انسان بن جائے۔
تحریر: سید محمد مجتبیٰ علی
حوالہ جات:
(۱) نہج البلاغہ، حکمت ۱۴۲
(۲) نہج البلاغہ، حکمت ۱۳۴
(۳) نہج البلاغہ، مکتوب ۳۱
(۴) نہج البلاغہ، حکمت ۱۲
(۵) نہج البلاغہ، حکمت ۲۸
(۶) نہج البلاغہ، حکمت ۲۹۳
(۷) نہج البلاغہ،حکمت ۶۵
(۸) نہج البلاغہ، مکتوب، ۶۹
(۹) نہج البلاغہ، حکمت ۲۹۵
(۱۰) نہج البلاغہ ،حکمت، ۲۶۸
(۱۱) غررالحکم و درر الکلم ص ۴۱۵
(۱۲) نہج البلاغہ، حکمت ۲۱۸
(۱۳) نہج البلاغہ ،حکمت ۲۴۸