مقالاتنہج البلاغہ مقالات

تین نورانی اور حکمت بھرے کلمات

مقالہ نگار: محمد فرقان گوہر

آغاز سخن:
کلام کی عظمت و سربلندی کلیم کی عظمت کی دلیل ہوتی ہے، لیکن اگر کلام کرنے والی شخصیت امیر کلام ہو تو معلوم نہیں ہو پاتا کہ ان دونوں میں سے کونسی چیز دوسری  کے لیے عظمت و سربلندی کا باعث ہے ۔ اگرچہ خود آپ علیہ السلام ہی کے بقول انسان کی شخصیت اس کی زبان کے نیچے چھپی ہوتی ہے اور شخصیت علی علیہ السلام تو وہ ہے جس تک کسی عقل کی رسائی ممکن نہیں، یوں اس ہستی کے کلام کو سمجھنا بھی اس سادگی کا حامل نہیں ہے، تاہم ان عظیم شخصیات نے چونکہ خود اس بات کو مد نظر رکھا ہے کہ  انسانوں کے سطح ذہنی  کے مطابق گفتگو کی جائے، اس لیے خاکسار جیسے عام انسان بھی اس تلاش میں لگ جاتے ہیں کہ اس نورانی کلام  سے اپنے تئیں فیض یاب ہو سکیں۔

جہاں تک  ان تین حکمتوں کے انتخاب کی وجہ کا سوال ہے تو  ان کے اندر موجود ایک قسم کے ارتباط اور واسطے کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ انتخاب انجام پایا ہے، باین معنی کہ اس تحریر کا ہدف انسان کو حیات طیبہ نامی حقیقت سے روشناس  کرانا ہے، اسکے لیے پہلے مرحلے میں  بیداری ضروری ہے اور بیدار ہونے کے لیے توجہ ضروری ہے، جب تک کوئی شخص غافل رہتا ہے تو وہ کسی چیز کے ادراک کی صلاحیت نہیں رکھتا  یوں پہلے مرحلے میں سوئے ہوئے انسان کو جاگنے کی ضرورت پر زور دیا ہے، اگلے مرحلے میں اس بیداری  کے سامنے موجود سب سے بڑی رکاوٹ یعنی غفلت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور پھر آخری مرحلے میں اسے حیات طیبہ پر گامزن کرنے کے لیے ایک انسانی اصول کی طرف توجہ دلائی ہے۔

یوں اس تحریر کا  اصلی اور بنیادی ہدف  انسان کو خواب غفلت  سے بیدار کر کے حیات طیبہ کی  شاہراہ پر گامزن کرنا ہے۔ "تاکہ جو ہلاکت کی کھائی میں گرے وہ بھی دلیل اور رہنما دیکھ کر اور جو زندگی  پانا چاہے وہ بھی واضح دلائل کی روشنی میں”۔[1]

پہلی حکمت: سوئے ہوئے قافلے

قَالَ الامام علی (عليه‏ا لسلام) اَهْلُ الدُّنْيَا كَرَكْبٍ یُّسَارُ بِهِمْ وَ هُمْ نِيَامٌ

امام علی علیہ السلام نے فرمایا: اہل دنیا اک ایسے قافلے کی مانند ہیں جسے لے جایا جا رہا ہے در حالانکہ وہ سو رہے ہیں۔

اسناد و مصادر:
یہ کلام ان معدود کلمات  قصار میں سے ہے جس کے مصادر تک پہنچنے میں اہل تحقیق تا بحال کامیاب نہیں ہو پائے ہیں،[2] البتہ قیروانی (سنہ وفات ۴۵۳ہجری) نے زہرالآداب و ثمرالالباب نامی ادب کی کتاب میں اس کلام کو ابو العباس عبد اللہ بن المعتز جو کہ ابن المعتز کے نام سے معروف ہے،[3] کی طرف نسبت دی ہے۔[4] اس شاعر کے باقی کلام کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نثری ادب کی مہارت میں اس نے حضرت علی علیہ السلام کے کلمات سے بہت استفادہ کیا ہے، اور بعید نہیں ہے کہ یہ جملے اس نے آنحضرت علیہ السلام سے مستعار لے کر اپنے کلام میں ذکر کیے ہوں۔ مزید بر آں اسی سے ملتا جلتا  کلام جس کا ذکر ہم آئندہ کریں گے جہاں امام علی علیہ السلام نے متعدد مقامات پر دنیا کو ایک قافلے سے تشبیہ دی ہے،[5] اس مفروضے کو شدت سے تقویت پہنچاتا ہے کہ یہ  الفاظ  ابن المعتز کےنہیں، بلکہ درحقیقت علی علیہ السلام کی زبان عصمت ہی سے صادر ہوئے ہیں۔ اور یہ کوئی تعجب یا حیرت کی بات نہیں ہے کہ ایک ادیب بالخصوص اگر وہ جاہ طلب بھی ہو، وہ دوسروں کے کلمات کو اپنی نثر یا شعر میں جگہ دے کر انہیں اپنے کلام کے طور پر پیش کرے۔

وضاحت:
امام علی علیہ السلام  نے دنیا والوں کو اک ایسے قافلے سے تشبیہ دی ہے جو سوتے ہوئے اپنا سفر طے کر رہا ہے۔ غور کرنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ مولا علیؑ نے کس شاندار انداز میں سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ وضاحت کرنا چاہیں تو نہایت ہی ظریف اور قابل توجہ نکات سامنے آتے ہیں، تاہم سب سے پہلےیہ دیکھنا ہے کہ اہل دنیا کون ہیں ؟

اہل دنیا کی حقیقت؟
دنیا  اور آخرت ایسی اصطلاحیں ہیں جن کا اطلاق دو الگ جہانوں پر ہوتا ہے۔ اس جہان کو جو انسان کی سوچ، فکر ، اور احساس  کے قریب ہے دنیا کہا جاتا ہے کیونکہ دنیا دنو اور قرب سے ہے ۔[6] پس  یہ جہان جو انسانی سوچ سے بھی قریب ہے، وہ اسے اپنے حواس پنج گانہ سے محسوس کر رہا ہے ، یہ دنیوی جہان ہے ، اس دنیا کے ظاہری جلوے،  رنگینیاں ، روشنیاں اور رعنائیاںسب دل فریب اور چشم نواز  ہیں ، جو ان رنگینیوں  میں کھو گیا، اس کی رعنائیوں سے دھوکہ کھا گیا، اس کے ظاہری جلووں ، ٹاٹھ باٹھ ، جاہ و جلال ، عزت و حشم، دولت و ثروت کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھ کر زندگی لٹانے کے لیے انہی چیزوں کے حصول کو اپنی پناہگاہ سمجھ بیٹھا وہ اہل دنیا ٹھہرا۔اب احادیث میں موجود ان  چند مثالوں پر ذرا غور کیجیے:

"دنیا ایک سانپ کی مانند ہے جس کا ظاہر بہت ہی فریب دہ، جبکہ اس کے اندر زہر بھرا ہے، نادان اس کے ظاہر سے دھوکہ کھاتے ہیں جبکہ عقلمند اس سے اپنا دامن بچاتے ہیں۔ "(حضرت علی علیہ السلام)[7]

دنیا کی مثال ایک ایسے سوار کی مانند ہے جو کسی درخت کے پاس سے گذرے اور اس کے سایے میں آرام کرے، جب اس کا سایہ ڈھلنے لگے تو وہاں سے کوچ کر جائے۔ (پیامبر اسلام ﷺ 4)[8]

دنیا  ایک نمکین سمندر کے مانند ہے کہ جس سے پانی پینے والا سیراب ہونے کی بجائے مزید پیاس کا احساس کرتا ہے۔یہاں تک کہ پیاس اسے مار ڈالتی ہے۔ (امام صادق علیہ السلام)۔ [9]

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سامنے دنیا ایک نیلی آنکھ والی خوبصورت عورت کی شکل میں ظاہر ہوئی، آپ علیہ السلام نے پوچھا کہ کتنے لوگوں سے شادی کی ہے، کہنے لگی: بہت سوں سے، فرمایا: پھر سب سے طلاق لے لی؟ کہنے لگی: نہیں بلکہ سب کو قتل کر ڈالا، فرمایا: تیرے  طلبگاروں  پر صد افسوس  کہ اس کے باوجود وہ ماضی سے عبرت کا سامان فراہم نہیں کرتے۔ ( امام صادق علیہ السلام)۔[10]

حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے کہا: دنیا ایک گہرا سمند ر ہے جس میں بہت بڑی دنیا ہلاک ہوئی ہے، پس  تم اللہ پر ایمان کو  اپنی کشتی اور تقوائے الہی کو  توشہ راہ قرار دو، اگر نجات پا گئے تو اللہ کی رحمت  کا نتیجہ ہے اور اگر ہلاک ہوئے تو تمہارے گناہوں کا نتیجہ ہے۔[11]

پس معلوم ہوا کہ ظاہر کو حقیقت سمجھ بیٹھنا، اور اس کے تلخ پہلووں کی طرف توجہ نہ دینا ، جاہ و جلال کی رعنائیوں میں کھو بیٹھنا اور اس کے پیچھے ہونے والے ہزاروں  بلکہ لاکھوں ظلم و ستم، استثمار اور استحصال کی لمبی داستانوں کو فراموشی کی نذر کر دینا، یہ اہل دنیا کی نشانی ہے۔ اس کے مقابلے میں اہل آخرت، اعمال کی ابتداء اور انتہاء یعنی نتائج اعمال پر بھی توجہ رکھتے ہیں، اس لیے وہ اس دنیا کی رعنائیوں سے دھوکہ نہیں کھاتے۔  یہی وجہ ہے کہ اہل حقیقت، دنیا کے ظاہر سے دھوکہ کھانے کی بجائے  اس کی حقیقت پر نگاہ جمائے رکھتے ہیں، اسی لیے کبھی اسے بے وفا عورت سے تشبیہ دیتے ہیں، تو کبھی زہر قاتل سے بھرے  سانپ سے، کبھی بے پروا سوار سے جو انسان کی زندگی سے فائدہ اٹھاتا ہے تو کبھی بے فائدہ نمکین پانی سے جو انسان کی پیاس بجھانے کی صلاحیت سے محروم ہے۔

اس قافلے کی خصوصیات:

ا۔ سفر:
حضرت علی علیہ السلام نے اہل دنیا کو  ایسے قافلے سے تشبیہ دی ہے جو سو رہا ہے، قافلے میں ایک خصوصیت ہوتی ہے اور وہ یہ کہ وہ کسی منزل کی طرف جا رہا ہوتا ہے ۔ یعنی کاروان کی اصطلاح سفر کی متقاضی ہے، آج بھی جب کاروان کا نام  آتا ہے تو سفر ہی کا تصور لازمی طور پر ذہن میں آتا ہے، گویا آنحضرت علیہ السلام نے اس دنیا میں چلنے والے ہر انسان کو ایک مسافر گردانا ہے، یعنی یہ دنیا سفر گاہ ہے منزل نہیں، چنانچہ اس بات کی متقاضی ہے کہ اس میں ہر آن انسان کو کسی رخت بستہ مسافر کی طرح رہنا چاہیے، اس کی رعنائیوں میں پھنسنے والا ایسا ہے جیسے دور دراز صحرا میں راہ چلتے مسافر کو صحرا کی ریت کا ایک حصہ پسند آ جائے اور وہ اس میں پڑا و ڈال دے،  جیسا کہ مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں:  اے لوگو تم فقط ایک مسافر کی حیثیت سے آئے ہو جس کو تھوڑی سی دیر کے لیے مرکب سے پیادہ کیا گیا ہے، تاکہ کچھ دیر سستا لے، پھر اپنا رخت سفر باندھے اور اس کے بعد کوچ کر جائے۔ [12] اسی لیے تو قرآن کریم  نے نیکیوں میں آگے بڑھنے والوں کو ہی السابقون السابقون کہا ہے، گویا عقب ماندہ لوگ در حقیقت وہی ہیں جو نیکیوں کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں نہ کہ وہ جو دنیا جمع کرنے کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں۔

۲۔ اجتماعیت:
قافلہ ایک اور خصوصیت کا حامل بھی ہوتا ہے اور وہ ہے اجتماعیت ، یعنی اہل دنیا ایک ہی طرح سے حرکت کر رہے ہیں  اور  ان کی منزل ایک ہے، دوسرے لفظوں میں:  اگرچہ ظاہر کو دیکھا جائے تو اہل دنیا کے کئی ایک چہرے سامنے آتے  ہیں، کوئی فرعون کی مانند ظلم کے پیکر، تو کوئی مال جمع کرنے میں وارث قارون،  کچھ جاہ و جلال کے پیاسے تو کچھ  مال و منال کےبھوکے، کوئی تشنہ قدرت تو کسی کو آسائش کی تمنا، سب کی خواہشیں، ادائیں، تمنائیں، اپنے تمام تر اختلاف، تشتت اور تفرق کے باوجود ایک ہی راستے کے راہی ہیں، سب کا انجام اور فرجام ایک ہی ہے، سب ایک ہی انجام کی جانب گامزن ہیں۔

۳۔مسلوب الارادہ  ہونا:
اس قافلے کی تیسری خصوصیت اس کا سویا ہوا ہونا ہے، یعنی بیداری کا فقدان ہے، ایسے لوگ مرتے دم تک سوئے رہتے ہیں، جب موت سامنے آتی ہے تو بیدار ہوتے ہیں” (رسول اکرم ص)[13] ایسے لوگوں  کی باگ ڈور ان کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے، یعنی وہ خود کسی منزل کی جانب گامزن نہیں ہیں، بلکہ کوئی اور ہے جو انہیں چلا رہا ہے، ان کی حرکات و سکنات غیر ارادی ہے اور غیر اختیاری ہیں۔ جس طرح کوئی سویا ہوا شخص کسی بھی قسم کے ارادے، اختیار اور قوت تفکر سے تہی ہوتا ہے، بالکل اسی طرح اہل دنیا بھی مسلوب الارادہ، بے اختیار، بے بس ہوتے ہیں، ان  میں قوت ارادی ختم ہو جاتی ہے۔

۴۔ نا معلوم میر کاروان:
مولا علی علیہ السلام  نے "یسار بہم” کے ذریعے اس  خصوصیت کو بیان کیا ہے، یعنی انہیں چلایا جا رہا ہے، یہ مجہول کا صیغہ ہے، کون چلا رہا ہے؟ اس قافلے کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے؟ یہ معین نہیں ہے، یعنی کون ان  کا مالک ہے یہ بات معلوم نہیں ہے، ممکن ہے متعدد مالک ہوں، چنانچہ مالک اور صاحب اختیار اگر ایک شخص ہو تو معلوم کیا جا سکتا ہے، لیکن جس چیز پر کئی ایک لوگ ملکیت کا حق رکھتے ہوں تو کہا جاتا ہے کہ یہ چیز مجہول الملک ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ یہ آزاد ہے بلکہ اس کا مالک معلوم نہیں ہے۔  قرآن کریم نے اس مفہوم کو اس انداز میں بیان کیا ہے:

اللہ تعالی ایسے غلام کی مثال دیتا ہے جو چند بدخو اور جھگڑالو  لوگوں کی ملکیت میں ہے اور دوسرا ایسا ہے جس کا صرف ایک ہی آقا ہے، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ الحمدللّٰہ، بلکہ ان میں سےاکثر نہیں جانتے۔[14]

اگر میر کاروان ایک ہو، اگر وہ ایسا ہو  جو انسان کی خیر اور بھلائی کا خواہان ہو اور اگر وہ انسان کو راستہ معین کر کے بتا دے، تو منزل معلوم ہے اور اگر کئی ایک لوگوں کے ہاتھ میں باگ ڈور ہو، کوئی ادھر کھینچے اور کوئی دوسری طرف تو نہ پھر منزل متعین ہو گی اور نہ ہی راستے کا سراغ ملے گا۔

نتیجہ:
اگرچہ اس حکمت بھری مثال میں علی علیہ السلام نے نتیجہ کو قاری کے ذہن پر چھوڑتے ہوئے، انسان کو دعوت فکر دیہے، تاہم یہ سمجھنا کوئی مشکل بھی نہیں ہے  کہ جو شخص سفر کی حالت میں سو جائے، اور اس کو چلانے والا شخص بھی معین نہ ہو تو  اس کی منزل سوائے ایک نامعلوم انجام کے اور کیا ہو سکتی ہے، بلکہ اس کی منزل، اس کو چلانے والے کی خواہش پر معین ہو گی، اب یہ دیکھنا ہے کہ اہل دنیا کس کے فرمان اور کس کے حکم سے چلتے ہیں، یعنی اس سوئے ہوئے، بے بس، بے اختیار، بے ارادہ قافلے کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے؟ اس ڈگمگاتی کشتی کا ناخدا کون ہے؟

یہ بات تو طے ہے کہ انسان خدا  کی طرف سے آیا ہے اور اسے خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے، لیکن کس منہ سے، کن اعمال کے ساتھ اور کن چیزوں کو اپنے نامہ اعمال میں رکھ کر وہ خدا کے حضور جائے گا، اس بات کا انحصار اس کی ذاتی زندگی کی کاوشوں پر ہے، کیونکہ انسان اپنی کوشش ہی کا پھل چنتا ہے۔

بہرحال یہ انسان جو اہل دنیا ہیں، وہ اسی دنیا میں رہنے کے لیے دن رات کوشش کرتے ہیں، ان کی زندگی کا حاصل اسی دنیا میں چند دن آرام سے گذر جانے کے لیے، ان کی ساری نا آرامیاں، سب کاوشیں، سب کی سب محنتیں، مشقتیں، رنج و غم، زحمتیں، جدو جہد، ایک ہی چیز کی متمنی ہیں اور وہ ہے یہی دنیا۔ تو یہاں سے ان کی منزل بھی معین ہو جاتی ہے، ایسے لوگوں کو ان کے عمل پر اکسانے والی چیز، یہی مادی خواہشات ہوتی ہیں، ان کا محرک، ان کو تحریک بخشنے والا انجن، اس کی ذاتی اور سطحی خواہشات ہوتی ہیں، قرآن حکیم نے اسی مفہوم کو کس شاندار انداز میں بیان کیا ہے:

کیا تو نے اس شخص کو دیکھا ہےجس نے اپنی خواہش کو خدا بنا لیا ہے اور علم رکھنے کے باوجود (عملی انحراف کے باعث) خدا نے اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور خدا کے بعد کون ہدایت کر سکتا ہے کیا تم اتنا بھی  دھیان نہیں  دیتے؟[15]

اس کا خدا یعنی دن رات جس کی پوجا کرتا ہے اور اس کے لیے تن من  کی بازی لگا رکھی ہے، وہ چند مادی خواہشیں ہیں، اس راہ  کا لازمی اور منطقی انجام گمراہی ہی ہے، تو اس لیے اللہ تعالی کی طرف سے فراہم کردہ ہدایت کے سارے اسباب اس کے لیے کار آمد ثابت نہیں ہوتے، نہ انبیاء کی تعلیمات اور نہ ہی اس کی بھیجی کتابیں وغیرہ،  گویا ایسے میں اللہ تعالی اس سے اپنی ہدایت چھین لیتا ہے، اور یوں گمراہی اس کا حتمی مقدر بن جاتی ہے۔ اسی لیے تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے بعد کوئی اور بھی ہے جو اسے ہدایت کی راہ پر چلائے؟ یعنی جب اللہ تعالیٰ کی بھیجی کتابیں اور اس کے مبعوث کردہ انبیاء کا سلسلہ ہدایت جب اس کے لیے کار آمد ثابت نہیں ہوا تو پھر اور کیا چیز بچتی ہے جو اسے ہدایت کی راہ پر گامزن کر پائے؟

یہ ہے اہل دنیا کا منطقی انجام  ہمیشہ کے لیے ایک نا معلوم سفر میں آوارہ  رہنا، ہمیشہ ایک نامعلوم منزل کی تلاش میں  رہنا، ہمیشہ ایک نامرئی چیز کی تلاش میں رہنا، ہر آن  ایک سراب کیطرف گامزن رہنا، چنانچہ ارشاد باری ہے:

اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیں انکے اعمال ایسے ہیں جیسے ایک چٹیل میدان میں سراب جسے پیاسا پانی خیال کرتا ہے مگر جب وہاں پہنچتا ہے تو اسے کوئی چیز نہیں ملتی، بلکہ اللہ کو وہاں پاتا ہے تو اللہ اس کا حساب پورا کر دیتا ہے اور اللہ بہت جلدحساب کرنے والا ہے۔[16]

یعنی اہل دنیا جو درحقیقت کافر ہی ہوتے ہیں ، ان کی مثال صحرا میں راہ چلتے پیاسے مسافر کی سی ہے جسے پیاسا آدمی پانی سمجھ کر ہر وقت اس کے پیچھے بھاگتا ہے، لیکن جب بھی اس کے پاس آتا ہےتو دیکھتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہے، انسانی خواہشوں کی کہانی بھی بالکل ایسی ہے، پورا ہونے سے پہلے ایسے لگتا ہے کہ یہ خواہش ہی درحقیقت میری اصلی خواہش ہے، لیکن  پوری ہوجانے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بڑی خواہش اس کی منتظر ہے، یوں اس کی پیاس نہ فقط بجھتی نہیں ہے بلکہ ہمیشہ بڑھتی چلی جاتی ہے، یہی ہے وہ نامعلوم منزل جو اس کی زندگی تو ختم کر دیتی ہے لیکن راستہ ختم نہیں ہوتا ، پس ایک ہی راہ بچتی ہے اور وہ ہے کہ خدا کی راہ جو صراط حق و حقیقت بھی ہے، صراط مستقیم بھی  اور صراط اطمینان بھی ۔  اسی کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ انسان کے ان بے پناہ غموں اور گم گشتگی کی داستان اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔

دوسری حکمت: ایک نامرئی بیماری

قال عليه السلام: الحذرالحذر! فوالله لقد ستر،حتی کأنه قد غفر[17] امام علیہ السلام نے فرمایا: اپنے آپ کو بچاؤ، اپنے آپ کو بچاؤ،  اللہ کی قسم، خداوند متعال نے اتنی پردہ پوشی کی کہ گویا یہ گمان ہونے لگا کہ اس نے بخش دیا ہے۔

اسناد و مصادر:
سید رضی سے پہلے اس نورانی حکمت کو اہل سنت کے معروف ادیب جاحظ نے  سو منتخب کلمات (المائہ المختارہ) میں نقل کیا ہے، [18] اسی طرح شافعی مذہب سے تعلق رکھنے والے معروف عالم دین ماوردی جو کہ سید رضی کے ہم عصر  بھی ہیں، نے بھی اپنی کتاب میں اس کلام کو علی علیہ السلام کی طرف منسوب کیے بغیر، سلف صالح کے قول کے طور پر نقل کیا ہے۔ [19] شواہد و قرائن کی روشنی میں اس نتیجہ تک پہنچا جا سکتا ہے کہ سلف صالح سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہی ہیں۔ اسی سے ملتا جلتا کام شیعہ کے معروف عالم دین کراجکی نے بھی اپنے کنز الفوائد میں انجام دیا ہے۔ [20]

بعض اہل تحقیق کا یہ کہنا ہے کہ یہ حکمت، اور اس سے پہلے والی حکمت جہاں امام علی علیہ السلام موت کی یاد دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: جب تم زندگی کی طرف پشت پھیر رہے ہو اور موت سامنے سے تمہاری طرف آ رہی ہے، تو پھر ملاقات میں کیا دیر؟؟۔ اسی طرح حکمت ۱۸ جس میں فرماتے ہیں: جو اپنی آرزوؤں کے بہاؤ میں بہ گیا، اس نے موت سے ٹھوکر کھائی۔  یہ تینوں حکمتیں نہج البلاغہ کے خطبہ ۳۸ کا ہی ایک جزو ہیں۔ [21]

وضاحت:
مذکورہ بالا نورانی کلام میں  حضرت علی علیہ السلام نے کائنات پر حاکم اللہ تعالیٰ کے ہمیشگی اور ناقابل تغییر قوانین میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا ہے، جسے  ہم واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔

انسان کی تباہی میں غفلت کا کردار:
غفلت ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کو یہ احساس ہی نہیں ہونے دیتی کہ وہ غافل ہے۔ گویا غافل انسان ایک ایسا بیمار ہے جو اپنی بیماری سے واقف نہیں ہے۔  قرآن نے جہاں انسانوں کی کثیر تعداد کو اہل جہنم قرار دیا ہے، وہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کا سب سے بڑ ا سبب غفلت ہے، فرمایا: ان کے دل تو ہیں، لیکن اس سے سمجھتے نہیں، آنکھیں تو ہیں  پر   دیکھتے نہیں ،کان تو ہیں پر  سنتے نہیں، ایسے لوگ چوپایوں کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔ ایسے لوگ غافل ہیں۔ [22]

اس آیہ کریمہ میں غفلت کو انسان کی تباہی کے آخری اور اصلی سبب کے طور پر ذکر کیا، کیونکہ یہ غفلت ہی ہے جو انسان کو اس حد تک پہنچا دیتی ہے کہ اس کو حق بات سننے کی طاقت نہیں رہتی، اس کی آنکھوں کو خدائی نشانیاں دیکھنے سے عاجز بنا دیتی ہے، اور یہی وہ غفلت ہی ہے جس کا شکار انسان تفکرانہ سوچ اور مدبرانہ افکار کو ہاتھ سے دے بیٹھتا ہے، جس کے نتیجہ میں وہ ظاہر بین اور سطحی سوچ کا مالک ہو جاتا ہے۔

مصباح الشریعت نامی کتاب [23] میں دنیا سے متعلق ایک نہایت ہی خوبصورت تشبیہ دی گئی ہے،  کہا: دنیا ایک انسان کی مانند ہے کہ تکبر جس کاسر ، حرص اس کی آنکھیں، طمع و لالچ اس کے کان، ریاء  اس کی زبان، شہوت اس کے ہاتھ، خود پسندی اس کے پاؤں، اور غفلت  اس کا دل ہے۔ [24]

یعنی اگر دنیا پرستی مجسم ہو کر سامنے آئے تو اس کے خدو خال یہ ہیں، ان سب میں مرکزی حیثیت غفلت کو حاصل ہے، جس طرح قلب انسان ، اس کی تمام حرکات کا مرکز ہوتا ہے، دنیا پرستی کا اصلی مرکز اور محور غفلت ہے۔ یہ اگر  نہ ہو تو  دنیا پرستی خود بخود مر جاتی ہے۔

نکتہ مقابل:
غفلت کا نکتہ مقابل ذکر و تذکر ہے، اشیاء کو چونکہ اپنی اضداد سے پہچانا جاتا ہے، اس لحاظ سے ہم اگر مذکورہ تشبیہ سے استنباط کرنا چاہیں تو یہ نتیجہ لے سکتے ہیں کہ جو حیثیت دنیا پرستی کی عملی تصویر میں غفلت کو  حاصل ہے، وہی حیثیت خدا پرستی میں ذکر کو  حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کی ساری کی ساری عبادات، ظاہری اعمال، نماز، روزہ، حج، وغیرہ میں سب سے بنیادی عنصر ذکر ہے۔ باین معنی کہ یہ انسان کو عبودیت کی یاد دلاتے ہیں، انسان کو بندگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ فرمایا: نماز قائم کر میرے ذکر کے لیے، [25] فرمایا: نماز سب سے بڑا ذکر ہے ان لوگوں کے لیے جو ذکر کرنے والے ہیں۔ [26] فرمایا: نماز  بے حیائی اور برائی سے بچاتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے۔[27] یعنی نماز میں پایا جانے والا ذکر اور یا د دلانے کا عنصر سب سے بڑی فضیلت ہے۔ نماز کا سب سے بڑا فائدہ، سب سے بڑا ہدف اور سب سے بڑا عامل، اس کا ذکر پر مشتمل ہونا ہے۔ پس اللہ تعالی نے غفلت سے نجات دلانے کے لیے انسان کو عبادی اعمال پر مکلف بنایا ہے؛ تاکہ وہ تذکر کے مرحلے تک پہنچ سکے ۔

خدائی قانون:
تاہم امام علی علیہ السلام نے مذکورہ فرمان مبارک میں ایسے لوگوں کو مخاطب قرار دیا ہے جو اللہ تعالی کی عطا کردہ ہدایتوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور برائیوں پر برائیاں کرتے چلے جاتے ہیں، ایسے میں اللہ تعالیٰ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے، اور ان کی برائیاں بھی انہیں اچھائیاں لگنے لگتی ہیں، در حقیقت یہ پردہ پوشی رحمت  نہیں، بلکہ ناراضگی کا نتیجہ ہے، یہ الہی  سنت ہے، قانون الہی ہے کہ جب کوئی انسان یا معاشرہ برائیوں پر اصرار کرتا نظر آتا ہے تو خداوند بھی ان پر نعمتوں کی بوچھاڑ کر دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ مکمل طور پر غافل ہو جاتے ہیں، اور پھر اچانک ان کو گرفت میں لے لیتا ہے اور یوں ان کا کام تمام ہو جاتا ہے۔

قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ملتا ہے:

فرمایا: کافر لوگ یہ گمان نہ کریں: ہم انہیں مہلت دیتے ہیں  تو  یہ ان کے لیے اچھا ہے؛ بلکہ ہم تو فقط اس لیے انہیں مہلت دیتے ہیں تاکہ وہ گناہوں میں اضافہ کر سکیں اور ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔[28]

فرمایا: میں انہیں مہلت دیتا ہوں، بے شک میری چال بہت ہی مضبوط ہے۔ [29]

اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جنہیں میں نے مہلت دی حالانکہ وہ ظالم تھیں، پھر (کچھ ہی عرصے میں) انہیں گرفت میں لے لیا اور (سب کو) میری طرف ہی لوٹنا ہے۔ [30]

ان سب آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ جب اپنی گرفت میں نہ لے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہے، بلکہ کبھی کبھار یہی نہ پکڑنا اس کی ناراضگی کی دلیل ہے۔

قابل غور ادبی نکتہ:
مذکورہ بالا نورانی کلام میں آنحضرت علیہ السلام  نے جس تاکید کا اظہار کیا ہے وہ نہایت ہی قابل غور ہے، فرمایا :اپنے آپ کو بچاؤ، بچاؤ، اللہ کی قسم اس نے اتنا چھپایا کہ گمان ہونے لگا کہ بخش دیا ہے۔

اس کلام میں چند ایک طرح سے تاکید کا عنصر پایا جاتا  ہے، سب سے پہلے تو تکرار کے ذریعے: بچاؤ، بچاؤ، اس کے بعد قسم کھائی یہ دوسری تاکید تھی، اور پھر لام تاکید کا استعمال کیا، یہ تیسری تاکید تھی، اور اس کے بعد "قد” کا لفظ استعمال کیا جو تاکید کا فائدہ پہنچاتا ہے، ان سب تاکیدات کے  ذریعے آنحضرت ع ہمیں اس مطلب تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ خدا کی ستاریت، پردہ پوشی اور گناہوں کا چھپا دینا، ہمیشہ اللہ کی رحمت سے نہیں ہے اور اس سے کوئی یہ مفہوم نہ لے کہ انسان کے گناہ بخشے جا چکے ہیں یا پھر اس نے گناہ نہیں کیے، بلکہ وہ گناہ اس کے نامہ اعمال میں ہیں، اور خدا اس سے کسی بھی وقت اپنی گرفت میں لے سکتا ہے، اور پکڑ سے بچنا چاہیے کیونکہ یہ ایک  خدائی قانون ہے کہ وہ انسان کو اس وقت اپنی گرفت میں لیتا ہے، جب وہ مکمل طور پر غفلت کا شکار ہو چکا ہوتا ہے۔

تیسری حکمت: حیات طیبہ کی شہ رگ حیات

وَقَالَ ع:خَالِطُواالنَّاسَمُخَالَطَةًإِنْمِتُّمْمَعَهَابَكَوْاعَلَيْكُمْوَإِنْعِشْتُمْحَنُّواإِلَيْكُم‏
امام علیہ السلام نے فرمایا: لوگوں سے میل جول اس انداز میں رکھو کہ اگر مر جاؤ تو وہ تم پر روئیں اور اگر زندہ رہو تو تم سے ملنے کے مشتاق ہوں۔

اسناد و مصادر:
سید رضیؒ سے پہلے اس روایت کو شیخ صدوقؒ نے تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ اپنی کتاب من لا یحضرہ الفقیہ میں نقل کیا ہے،[31] اس کے علاوہ اہل سنت کے معروف عالم دین سبط ابن جوزی نے بھی اپنی متصل سند کے ساتھ اس روایت کو اس انداز میں نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا،[32] مزید بر آن شیخ طوسی نے امالی میں اس روایت کو نقل کیا ہے،[33] اسی طرح مجموعہ ورام میں بھی یہ روایت ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے۔[34]

وضاحت:
انسان ایک معاشرتی موجود ہے، اس لحاظ سے معاشرہ، اجتماع اور سماج انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، اس کو  خوشحال اور صحت مند بنانے کے لیے کچھ اجتماعی اصولوں کا ہونا ضروری ہے، جن کی روشنی میں انسانی رفتار اور اجتماعی اخلاقیات تشکیل پا سکیں۔ یہ اصول ہی ہیں جو انسانی اخلاقیات پر مستقیم اور بلاواسطہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ ان اصولوں کی بنیاد کیا ہونی چاہیے؟ یعنی کس چیزکو بنیاد بنا کر انسانی روابط کے  اصول وضع کیے جا سکتے ہیں؟ وہ کونسا بنیادی عنصر  ہے جو سماجی تعلقات اور رسومات کی تشکیل کی بنیاد بن سکتا ہے؟

علم الاجتماع کے بعض مغربی مفکرین نے منفعت پرستی کو بنیاد بنایا ہے، باین معنی کہ اجتماعی اور اخلاقی اصولوں کی مراعات کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس سے معاشرتی  منافع کو تحفظ مل سکتا ہے۔ یعنی یہی وہ واحد صورت ہے جس میں ہمارے منافع کو تحفظ مل سکتا ہے، پس اجتماعی اصولوں کی پیروی لازم ہے کیونکہ اس میں ہمارے ہی منافع کو تحفظ ملتا ہے۔ (شہید مطہری نے اس نظریے کو رسل کی طرف نسبت دی ہے)[35] بعض دوسرے مفکرین نتائج کو دیکھ کر عمل کی بہتری  کا فیصلہ صادر کرتے  ہیں۔ باین معنی  کہ معاشرے کی اکثریت کی بھلائی جس چیز میں مضمر ہو اس چیز کو اخلاقی اصول کی بنیاد قرار دیا جا سکتا ہے، اگرچہ اس میں کسی ایک فرد یا اقلیت کا نقصان ہی کیوں نہ ہو جائے۔ (مارکسیسم اور اس جیسے اصالۃ الاجتماع کے قائلین اسی زمرے میں آتے ہیں)۔ اسی طرح کسی نے اخلاقی وجدان کا نظریہ دیا تو کسی نے کچھ اور کہا، یہ سب اس لیے تھا کیونکہ اخلاق کے لیے دینی اصولوں سے ہٹ کر انسانیت کے لیے جدید نسخہ تجویز کرنا تھا، جس کے باعث انسان کو سوائے رنج، دکھ، دھوکے اور دنیا پرستی کے اور کچھ نہ ملا۔

ان نظریات کے مقابلے میں علی علیہ السلام نے ہمیں یہ درس دیا ہے:

"لوگوں سے میل جول اس انداز میں رکھو کہ اگر مر جاؤ تو وہ تم پر روئیں اور اگر زندہ رہو تو تم سے ملنے کے مشتاق ہوں”

یہ عبارت بظاہر ایک سادہ مفہوم کی حامل ہے، لیکن اس کے پیچھے انسان کی اخلاقی رفتار کا فلسفہ چھپا ہوا ہے، یعنی انسان نے کس بنیاد پر اخلاقی سلوک کو رواج دینا ہے؟ کیا شخصی منافع کو مد نظر رکھ کر؟ یا  نتائج عمل کو مد نظر رکھ کر؟ یا پھر کوئی تیسری شق ہے، جسے بنیاد بنا کر ایسے اعمال انجام دینے ہیں؟

اس کی وضاحت میں سب سے موزوں عبارت تو وہی ہے جو خود آنحضرتؑ کی زبانی سید رضی نے نقل کی ہے کہ فرمایا:  لوگوں کے دل ایک دوسرے سے گریزان ہوتے ہیں، جو بھی ان کی طرف محبت کا ہاتھ بڑھائے گا اس کی طرف رخ کریں گے۔ [36]

اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ انسان کی اخلاقی رفتار کی بنیاد نہ تو نفع کی تلاش ہے، نہ ہی عمل کے نتیجے میں ملنے والے ثمرات اور اثرات، یہ سب اپنی جگہ شاید مل بھی جائیں، لیکن عمل کی بنیاد قرار نہیں پا سکتے۔ عمل کی بنیاد محبت پر ہے، یعنی انسانی روابط کی بنیاد محبت نامی حقیقت پر ہے،محبت ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو شاید شخصی منفعت  بھی اس میں ہو، لیکن ایک ایسی منفعت جو خود غرضی سے پاک ہے، اک ایسی حقیقت جو انسان کو  ایثار کرنا سکھاتی ہے۔

محبت ایک بنیادی دستور ہے جس کی بنیاد پر انسانی اخلاق کی ڈکشنری میں ایثار، قربانی، دوسروں کے کام آنا، انسانیت کی خدمت کرنا، بنی نوع بشر کے نفع سے متعلق سوچنا، دوسروں کے منافع پر اپنے منافع کو قربان کر دینا، وغیرہ شامل ہو جاتا ہے۔ جبکہ اگر انسانی تعلقات کی بنیاد منفعت پرستی یا نتیجہ پرستی پر رکھ دی جائے تو اس میں ہمیشہ خود غرضی کا عنصر نظر آتا ہے۔

اسلام میں محبت کو دین کے مترادف بھی تعریف کیا گیا ہے، فرمایا: کیا دین محبت کے سوا بھی کچھ ہے؟[37] اس کا مطلب صاف واضح ہے کہ دین سے اگر محبت کا عنصر چھین لیا جائے تو اس کے اندر موجود جاذبیت ختم ہو جاتی ہے اور یوں فقط ظاہری اعمال اور وظائف میں منحصر ہو جاتا ہے۔ جبکہ اسلام ظاہری اعضا و جوارح سے آگے بڑھ کر دلوں تک رسائی چاہتا ہے، اس لیے محبت کو  بنیادی حیثیت دیتا ہے۔ اولیائے الہی سے محبت، خدا سے محبت، رسول اسلامؐ سے محبت اور اس کی آل اطہارؑ سے محبت۔

لیکن مذکورہ فرمان میں علی علیہ السلام نے المسلم، یا المومن  کی بجائے” الناس” کا لفظ استعمال کیا ہے، اور یوں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ محبت کسی اور انداز کی ہے، جہاں میل جول اور رہن سہن کا طریقہ کار شامل ہے، یہاں عقیدے، مذہب، دین سے قطع نظر صرف انسانی بنیادوں  پر روابط استوار ہونے کی بات ہے۔

ایک اور نکتہ جو اس فرمان مبارک میں  مدنظر ہے، وہ یہ کہ: محبت کا لفظ صراحت کے ساتھ ذکر نہیں ہوا ہے، گویا اثرات محبت کا پایا جانا ضروری ہے، یعنی کسی بھی قلبی جھکاؤ یا لگاؤ کا پتا نہیں دیتے فقط اس بات کا پتا دیتے ہیں کہ آپ کے روابط سالم اور صحت مند تھے۔ یہاں دو علامتیں ہیں جن کا ذکر اس فرمان مبارک میں ہے:

پہلی علامت: کرداری  بنیاد
یعنی یہ محبت انسانی کردار، رفتار ، اور روش و منش زندگی کی بنیاد پر پیدا ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں علیؑ ہر اس محبت کی نفی کر رہے ہیں جو فقط ظاہری خدو خال کو دیکھ کر یا ظاہر پر فریفتہ ہو کر کی جائے، بلکہ اس کا منشاء اور بنیاد انسانی کردار ہے۔ فرمایا "خالطوا” یعنی میل جول رکھو، اور یہ میل جول ایسا ہونا چاہیے جو محبت زا ہو، ایجاد محبت کا باعث  ہو۔  کیونکہ محبتیں دو قسم کی ہوتی ہیں، فعال اور منفع ، فعال محبتیں دوسروں پر اثر انداز ہوتی ہیں، جبکہ منفعل محبتیں خود انسان کو اپنا غلام بنالیتی ہیں، یہاں تک کہ کبھی کبھار تو وہ خود اپنا آپ کھو بیٹھتا ہے، علیؑ  پہلی محبت کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں جو انسان پر اثر انداز ہونے کے بجائے اسے فعال بناتی ہے تاکہ وہ دوسروں پر اثر گذار ہو سکے۔

دوسری علامت: بادوام محبت
اس محبت کے معنوی ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ محبت موت یا حیات دونوں حالتوں میں قائم رہتی ہے، جبکہ شہوانی محبتیں فقط دنیوی زندگی تک اور وہ بھی ظاہری حسن کے ایام تک محدود رہتی ہیں۔ فرمایا: اگر مر جاؤ تو تم پر روئیں اور اگر زندہ رہو تو تم سے ملنے کے شوقین (مشتاق) ہوں۔

آج کے اس صنعتی دور میں جہاں انسانی زندگی روز بروز مشینی زندگی میں بدلتی جا رہی ہے، آئے دن انسان زیادہ سے زیادہ  روپیہ پیسہ کمانے کے چکر میں مطلوبہ انسانی زندگی سے دور ہوا جا رہا ہے۔ مطلوبہ انسانی زندگی جسے قرآن نے حیات طیبہ کہا ہے، کی ایک اہم ترین علامت یہ ہے کہ اس کی بنیاد کسب محبت اور دلوں کو جیت لینے پر ہے، اک ایسی جیت جو ظاہری حسن و جمال کے بجائے پاکیزگی  کردار و گفتار،  ایثار و ہمدردی کے نیک جذبات اور اس جیسی دیگر سنجیدہ انسانی صفات سے حاصل ہوتی ہے، جہاں دوسروں کے نفع کی خاطر اپنے آپ کو مشکلات میں بھی ڈالا جا سکتا ہے، کیونکہ مومن کی ایک علامت یہ ہے کہ اس کا نفس اس سے تھک جاتا ہے جبکہ لوگ اس  کے سبب آسائش اور آرام میں ہوتے ہیں ۔(حضرت علی علیہ السلام)[38]

انسانی زندگی اور مشینی زندگی میں یہ بنیادی دراڑ ہے جو آج کے دور میں روز بروز گہری ہوتی چلی جارہی ہے، یہ فیصلہ امام علیؑ نے سنا دیا ہے انسانی زندگی جینے کے لیے کردار کی روشنی سے محبتوں کے دیے لوگوں کے دلوں میں جلانا ضروری ہے، اس کے لیے مشقتیں اٹھانی پڑیں، اپنے کو مشکلات میں ڈالنا پڑے، یا پھر اپنے فائدے اور منافع  قربان کرنا پڑیں ۔جبکہ مشینی زندگی میں ان چیزوں کی کوئی ویلیو یا قیمت  نہیں ہے۔ پس دیکھنا یہ ہے کہ ہم حیات طیبہ کے اس زرین اصول پر کس طرح عمل پیرا ہوتے ہیں۔


[1] انفال :۴۲

[2] دیکھیے: مصادر نہج البلاغہ، ج۴، ص۵۳

[3] وہ عباسی خلافت کے دوسرے دور کے خلیفہ معتزباللہ کا بیٹا، معروف شاعر اور ادیب تھا، اسے ایک روزہ خلیفہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ خلافت لینے کے لیے بیعت تو ہوئی لیکن کامیابی نہ مل سکی اور  اس دور کے عباسی خلیفہ  المقتدر باللہ کے ہاتھوں، سنہ ۲۹۶ ہجری میں مارا گیا ۔ مزید معلومات کے لیے رجوع کریں: مسعودی، التنبیہ و الاشراف، ص ۳۲۶-۳۲۷

[4] دیکھیے: زہرالآداب و ثمر الالباب، ابراہیم بن علی قیروانی، ج۳، ص۸۲۶

[5] اس حوالے سے دیکھیے: اصول کافی ، خطبہ علی ع ، ج۸، ص۱۷۱، نہج البلاغہ، خطبہ ۱۵۷، حکمت۴۲۲، ۴۲۵، مشابہ یابی یعنی ہم معنی کلام کی تلاش حدیث کے صدور کو ثابت کرنے کے لیے مختلف راہوں میں سے ایک ہے، جس کی طرف علم حدیث کے علماء نے توجہ کی ہے۔

[6] سميت الدُّنْيَا لأنها دنت و تأخرت الآخرة ، — الدُّنْيَا هي القربي إلينا – کتاب العین، فراہیدی، ۸: ۷۵

[7] مَثَلُ الدُّنْيَا كَمَثَلِ الْحَيَّةِ لَيِّنْ مَسُّهَا وَ السَّمُّ التَّاقِعُ فِي جَوْفِهَا يَهْوِى إِلَيْهَا الْغِرُّ الْجَاهِلُ وَ يَحْذَرُهَا ذُو اللُّبِّ الْعَاقِلِ – صبح البلاغ : ۴۸۹

[8]ِ إِنَّمَا مَثَلُ الدُّنْيَا كَمَثَلِ رَجُلٍ رَاكِبٍ مَرَّ عَلَى شَجَرَةٍ وَلَهَا فَيْءٌ فَاسْتَظَلَّ تَحْتَهَا فَلَمَّا أَنْ مَالَ الظَّلُ عَنْهَا ارْتَحَلَ فَذَهَبَ و ترگه (کتاب الزہد:۵۰، حدیث ۱۳۴)۔

[9] مَثَلُ الدُّنْيَا كَمَثَلِ الْبَحْرِ الْمَالِحِ كُلَّمَا شَرِبَ الْعَطْشَانُ مِنْهُ ازْدَادَ عَطَشاً حَتَّى يَقْتُلَه۔ (کتاب الزہد:۴۸، حدیث ۱۲۹)۔

[10] تَمَتَّلَتِ الدُّنْيَا لِعِيسَى ع فِى صُورَةِ امْرَأَةٍ زَرْقَاءَ فَقَالَ لَهَا كَمْ تَزَوَّجْتِ قَالَتْ كَثِيراً قَالَ فَكُلِّ طَلَّقَكِ قَالَتْ بلى [بَلْ كُلًّا قَتَلْتُ قَالَ فَوَيْحُ أَزْوَاجِكِ الْبَاقِينَ كَيْفَ لَا يَعْتَبِرُونَ بِالْمَاضِينَ (کتاب الزہد: ۴۸، حدیث ۱۲۹۔ اصول کافی، ج ۲: ۱۳۶)۔

[11] وَ قَالَ لُقْمَانُ – عَلَيْهِ السَّلَامُ – لِابْنِهِ: «يَا بُنَيَّ، إِنَّ الدُّنْيَا بَحْرٌ عَمِيقٌ وَ قَدْ هَلَكَ فِيهَا عَالَمْ كَثِيرٌ، فَاجْعَلْ سَفِينَتَكَ فِيهَا الْإِيمَانَ بِاللَّهِ، وَ اجْعَلْ زَادَكَ فِيهَا تَقْوَى اللَّهِ، وَ اجْعَلْ شِرَاعَهَا التَّوَكُلَ عَلَى اللَّهِ فَإِنْ نَجَوْتَ فَبِرَحْمَةِ اللَّهِ، وَ إِنْ هَلَكْتَ فَبِذُنُوبِک» (اعتقادات الامامیہ، شیخ صدوق: ۴۹۔ من لایحضرہ الفقیہ، ۲: ۱۸۵)

[12] إِنَّمَا أَنْتُمْ فِيهَا كَرَكْبٍ عَرَسُوا فَأَنَاخُوا، ثُمَّ اسْتَقَلُوا فَغَدَوْا وَ رَاحُوا، اصول کافی ج۸، ص ۱۷۱، دار الاسلامیہ

[13] «الناس نيام اذا ماتوا انتبهوا» (شرح کافی ، مازندرانی، ۱۰: ۱۸۳)

[14] ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً رَجُلاً فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ وَ رَجُلاً سَلَماً لِرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيانِ مَثَلَا الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (سورہ زمر:29)

[15] أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَ أَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَ خَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَ جَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةٌ فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللَّهِ أَ فَلَا تَذَكَّرُون، جاثیہ،  آیت ۲۳

[16] وَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَراب بقيعَة يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّى إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئاً وَ وَجَدَ اللَّهَ عِنْدَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسابِ۔ سورہ نور، آیت ۳۹

[17] نہج البلاغہ، حکمت ۳۰

[18] بہ نقل از مصادر نہج البلاغہ، ج۴:  ص۲۷۔

[19] ماوردی، ادب الدنیا و الدین : ص ۱۳۹۔

[20] دیکھیے: کراجکی، کنز الفوائد، ج۱: ص ۳۰۴۔

[21] دیکھیے: مصادر نہج البلاغہ ، ج۴، ص۲۰، ۲۶ اور ۲۷۔

[22] اعراف : ۱۷۹

[23] اگرچہ اس کتاب کو امام جعفر صادق ع سے  منسوب کیا جاتا ہے، اور محدث نوری اس بات پر مصر نظر آتے ہیں، تاہم  علامہ مجلسی اور شیخ حر عاملی نے اس انتساب کو نہیں مانا ہے۔ دیکھیے: الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، ج۲۱، ص۱۱۰

[24] الدُّنْيَا بِمَنْزِلَةٍ صُورَةٍ رَأْسُهَا الْكِبْرُ وَ عَيْنُهَا الْحِرْصُ وَ أَذْنَهَا الطَّمَعُ وَلِسَانُهَا الرِّيَاءُ وَ يَدُهَا الشَّهْوَةُ وَ رِجْلُهَا الْعُجْبُ وَ قَلْبُهَا الْغَفْلَة ، مصباح الشریعہ ، ص۱۳۹

[25] طہ: ۱۴

[26] ہود: ۱۱۴

[27] عنکبوت: ۴۵

[28] آل عمران : ۱۷۸

[29] اعراف :۱۸۳

[30] حج :۴۸

[31] شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ج 4 :277۔

[32] دیکھیے: سبط ابن جوزی، تذکرہ الخواص، ص۱۴۲، اس عبارت کے ساتھ: أوصى أمير المؤمنين بنيه فقال: يا بني عاشروا الناس معاشرة إن عشتم حنوا اليكم، و إن متم بكوا عليكم.

[33] شیخ طوسی، امالی:  ص۵۹۵، الفاظ یہ ہیں: یا بنی عاشروا الناس عشرة: إن غبتم حنوا إليكم، و إن فقدتم بكوا عليكم.

[34] مجموعہ ورام: ج۲، ص۷۵

[35] مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے شہید مطہری کی کتاب: ہدف زندگی [بزبان فارسی]، ص ۲۸ اور اس کے ذیلی صفحات۔

[36] قُلُوبُ الرِّجَالِ وَحْشِيَّةٌ فَمَنْ تَأَلَّفَهَا أَقْبَلَتْ عَلَيْهِ، نہج البلاغہ: حکمت ۵۰

[37]َ وَ هَلِ الدِّينُ إِنَّا الْحُب … ،برق، المحاسن، ج۱: ص ۲۶۳

[38] الْمُؤْمِنُ نَفْسُهُ مِنْهُ فِي تَعَبِ وَ النَّاسُ مِنْهُ فِي راحة،  ابن شعبہ حرانی ، تحف العقول، ص۱۱۰


فہرست مصادر :(الف باء کی ترتیب کے ساتھ)

۱۔ قرآن

۲۔ نہج البلاغہ، تالیف: سید رضی، سنہ وفات: ۴۰۶ ہجری، تحقیق و تصحیح  : صبحی صالح، طبع :قم ، ایران، ناشر: موسسہ دار الہجرہ۔

۳۔ ادب الدنیا و الدین، تالیف: ابوالحسن ماوردى سنہ وفات: 450 هق، ناشر: دار و مكتبه هلال،بيروت، 1421 ه۔ق۔

۴۔ اعتقادات الامامیہ، تالیف: محمدبن على‏ بن بابویہ معروف بہ شیخ صدوق، سنہ وفات: 381 ہ۔ق، ناشر: کنگره شيخ مفيد، طبع: قم‏، ایران، سنہ ۱۴۱۴ ہجری قمری، طباعت دوم ۔

۵۔ الامالی، تالیف :محمدبن الحسن‏ طوسی، سنہ وفات: 460 ہجری،تحقیق و تصحیح: مؤسسہ البعثت، ناشر: دارالثقافۃ، قم‏، ایران۔

۶۔ التنبیہ و الاشراف ،تالیف: ابوالحسن على بن الحسين المسعودي (م 345)، تصحیح: عبدالله اسماعيل الصاوى، طبع: قاهرة، مصر، ناشر: دارالصاوی، بى تا (افسٹ قم: مؤسسہ نشرالمنابع الثقافۃ الاسلاميہ).

۷۔ الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، تالیف: شيخ آقا بزرگ تہرانى، طبع ايران‏، ناشر: اسماعیليان قم و کتابخانہ اسلامیہ تہران۔

۸۔ الکافی، تالیف: محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی، سنہ وفات: 329 ہ۔ق، تحقیق و تصحیح: على اكبر غفاری و محمد آخوندی، ناشر: دارالكتب الاسلامیہ، طباعت : چہارم، سنہ: 1407 ہجری، تہران، ایران۔‏

۹۔ المحاسن‏، تالیف :احمدبن محمد بن خالد برقی،سنہ وفات: 274 يا 280 ہجری،تحقیق و تصحیح: جلال الدين‏ محدث، ناشر: دارالكتب الإسلامية، طباعت: دوم، سنہ ۱۳۷۱ہجری، طبع قم‏، ایران۔

۱۰۔ تحف العقول تالیف: حسن بن على‏ ابن شعبہ حرانی، سنہ وفات: چوتھی صدی ہجری، تحقیق و تصحیح: على اكبر غفاری، ناشر: جامعہ مدرسين‏ طباعت : دوم ، سنہ ۱۳۶۳ ہجری قمری، قم ، ایران۔

۱۱۔ تذکرہ الخواص تالیف:سبط ابن جوزی، طبع بیروت، بی تا، بی نا۔

۱۲۔ زہرالآداب و ثمر الالباب، تالیف: ابراہیم بن علی قیروانی، سنہ وفات: 453 ه۔ق، ناشر: دارالجليل،بيروت، بی تا

۱۳۔ شرح الكافي- الاصول و الروضة، تالیف: محمد صالح بن احمد مازندرانی، سنہ وفات: 1081 ہجری، تحقیق: ابو الحسن‏ شعرانی، ناشر: المكتبةا لإسلامية، تہران ، ایران، 1382 ہجری طباعت اول۔

۱۴۔ کتاب الزہد ،تالیف: حسين بن سعيد كوفى اہوازى، سن وفات تیسری صدی ہجری، تحقیق و تصحیح: عرفانيان يزدى، غلامرضا، ناشر: المطبعة العلميہ، قم‏، ایران

۱۵۔ کتاب العین، تالیف: خليل بن احمد فراہیدی، سنہ وفات: 175 ہ۔ق، ناشر: نشر ہجرت، طباعت: دوم، سنہ ۱۴۰۹ہ۔ق، طبع قم، ایران۔ ‏

۱۶۔ کنز الفوائد تالیف: محمدبن على ‏كراجكى، سنہ وفات: 449 ق‏، تحقیق و تصحیح: عبدالله‏ نعمت،ناشر: دارالذخائر، قم‏، ایران، 1410 ق‏، طباعت اول

۱۷۔ مجموعہ ورام (تنبیہ الخواطر و نزہۃ النواظر) تالیف: مسعود بن عیسی ورام بن أبی فراس، سنہ وفات: 605ہجری، ناشر: مکتبہ فقیہ، قم ، ایران، طباعت اول، سنہ1410 ہجری

۱۸۔ مصادر نہج البلاغہ و اسانیدہ، تالیف: سید عبد الزہرا حسینی خطیب، طباعت چہارم، سنہ ۱۳۶۷ ہجری شمسی طبع بیروت، لبنان۔

۱۹۔ مصباح الشریعہ، منسوب بہ امام جعفر صادق ،تالیف: مجہول المولف، ناشر: موسسہ اعلمى‏، بیروت، لبنان، طبع اول، سنہ 1400 ہ ق۔

۲۰۔ من لایحضرہ الفقیہ، تالیف:محمدبن على‏ بن  بابویہ معروف بہ شیخ صدوق، سنہ وفات: 381 ق‏،محقق و مصحح: على اكبر غفاری، ناشر: دفتر انتشارات اسلامى (جامعہ مدرسين حوزه علمیہ قم سے وابستہ)‏، قم‏، 1413 ق‏،طباعت دوم‏۔

۲۱۔ ہدف زندگی، تالیف: شہید مرتضی مطہری، ناشر: انتشارات صدرا، تہران۔ طباعت پانزدہم [پندرہویں] سنہ ۱۴۳۳ہجری قمری۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button