
خطاب شیخ الجامعہ مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی اعلی اللہ مقامہ
عید غدیر کی مناسبت سے آںلائن بین الاقوامی نہج البلاغہ کانفرنس 2020
اہتمام: مرکز افکار اسلامی
اما بعد فقال الامام الصادق علیہ السلام :
وَلاَيَتِي لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ وِلاَدَتِي مِنْهُ لِأَنَّ وَلاَيَتِي لَهُ فَرْضٌ وَ وِلاَدَتِي مِنْهُ فَضْلٌ
عید غدیر! عید ولایت! عید اللہ الاکبر! جس کو حدیث میں ہمارے آئمہ علیہم السلام نے عید اللہ الاکبر کہا ہے۔
یہ عید اللہ کی بڑی عید ہے۔ غدیر کے دن اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی تکمیل کی اور اپنی نعمتوں کا اتمام کیا۔ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ اور اسلام کو پسندیدہ دین قرار دیا، وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا دین اسلام کو اللہ نے پسندیدہ قرار دیا ۔ اب دین کی تکمیل ہوگئی نعمتوں کی تکمیل ہوگئی علیؑ کی ولایت کے اعلان سے۔ اور اب جو علیؑ کو نہیں پہچان سکے علیؑ کی معرفت نہیں ہے۔ ان کے لیے یہ بات قابل فہم نہیں ہے۔ کہ دین کی تکمیل کیسے ہوئی اللہ کی نعمتیں کیسے پوری ہوئیں۔
آپ کو ایک بات بتا دیتے ہیں۔ کہ دین شریعت جو ہے یہ جامع نظام حیات کا نام ہے۔ یہ جامع نظام حیات قرآن اور حدیث پر مشتمل ہے۔ قرآن و حدیث اس کے بیان کے متکفل ہیں۔ قرآن مجید میں کلیات کا بیان ہوتا ہے اور اس کی تشریح اور تفصیل سنت نبوی کی ذمہ داری ہے۔ سنت نبوی کے بارے سب کو معلوم ہے کہ رسالت مآب ﷺ کے بعد سنت کی تدوین پر پابندی لگ گئی۔ ایک صدی تک سنت کی تدوین پر پابندی لگ گئی۔ جو دین شریعت کے بیان کی ذمہ داری سنت پر عائد ہوتی تھی، اس کی تدوین پر پابندی لگ گئی۔ یعنی اس وقت کے مسلمانوں کے لیے یہ بات قابل فہم نہیں ہے۔ پابندی لگ گئی! ایک صدی کے بعد تدوین شروع ہوگئی۔ جب تدوین شروع ہوگئی، نہیں بتایا کہ اس سے پہلے جو ممنوع رہا سنت کی تدوین۔
لیکن علیؑ۔۔۔! علیؑ جس کے پاس ہے اس کے لیے اس قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ سنت کی تدوین یا عدم تدوین لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اگر لوگوں کے ہاتھ میں دے دیں تو وہ یہ حشر کرنے والے تھے جو کیا۔ لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے۔
ہمارے ہاں یہ مسلمات میں سے ہے کہ سنت کی تدوین رسالت مآب ﷺنے اپنی زندگی میں فرمائی تھی اور علیؑ سے لکھوایا تھا۔ چنانچہ کتاب علیؑ آئمہ علیہم السلام کے پاس ہوتی تھی اس کتاب کو باملاء من رسول اللہ و بخط علی۔ رسول اللہ کے املا اور علی کے خط سے لکھی ہوئی کتاب۔ یہ کتاب اس قدر جامع ترین کتاب! جامع ترین کتاب ہے کہ اس میں تمام احکام، کلیات و جزئیات تک، حتیٰ ارش الخدش۔۔۔ (بصائر الدرجات ص۔167) حدیث ہے روایت میں متواتر ہے ہمارے ہاں۔ اس کتاب میں کسی کو اگر خراش آئی تو اس کا کیا تاوان ہے، اس تک کا اس میں ذکر ہے۔ وہ کتاب علیؑ کے ہاتھ سے تدوین ہوتی ہے، اولاد علیؑ میں یہ کتاب میراث امامت کے طور پر ہر امام کے پاس یہ کتاب موجود ہوتی تھی۔ اور ہمارے ہر امام نے اسی کتاب سے شریعت بیان کیا۔
شریعت کی تکمیل، نعمت کا اتمام علیؑ کی ولایت کی وجہ سے ہے۔ اور جس کے پاس علیؑ ہے وہ بہت بڑی سعادت والے ہیں۔ بہت خوش قسمت ہیں وہ لوگ جس کے پاس علیؑ ہیں۔ میں جب یہ بات کہتا ہوں کہ جس کے پاس علیؑ ہیں وہ بہت خوش قسمت لوگ ہیں، لیکن کاش ہمارے پاس علیؑ ہوتے۔ اعلان ولایت پر ہم عید مناتے ہیں۔ کیا ہے اعلان ولایت؟ یعنی آج کے بعد، غدیر کے بعد اللہ کی ولایت اللہ کا حکم نافذ ہے ہم پر، بالادستی، رسول کی بالا دستی؛ اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ رسول کی بالادستی ہمارے اوپر ہے کہ رسول کو حق حاصل ہے۔ ہم پر خود ہم سے زیادہ تصرف کا حق حاصل ہے۔ ولایت ہے۔ ولایت خدا، ولایت رسول ﷺ اور پھر رسول ﷺ نے وہ ولایت آج کے دن علیؑ کی طرف منتقل فرمائی، آج کے بعد ہم پر، تمام انسانوں، تمام مسلمانوں پر علیؑ کی ولایت نافذ ہوگئی، یعنی علیؑ جو حکم بیان فرمائیں گے اس پر عمل واجب، اطاعت واجب۔ علیؑ کی اطاعت واجب ہے۔
جس کا میں مولا ہوں اس کا علیؑ مولا ہے۔ جس پر میری ولایت نافذ ہے اس پر علیؑ کی ولایت نافذ ہے۔ جس کے لیے میری بات حجت ہے اس کے لیے علیؑ کی بات حجت ہے، جو میری اتباع کرنا ضروری سمجھتا ہے اس کے لیے علیؑ کی اتباع بھی ضرور سمجھنا ہوتا ہے آج کے بعد۔ یہ مطلب ہے علیؑ کی ولایت مافذ ہو گئی۔ آپ عید مناتے ہیں کہ علیؑ کی ولایت نافذ ہو گئی اور کیا ہے ولایت یہ پتا ہی نہیں! علیؑ کا حکم ہم پر نافذ ہے، علیؑ کا کیا حکم ہے کوئی پتا نہیں!
حکم کی جو ابتدائی ترین باتیں ہیں اسلام میں رہنے کے لیے اور قیامت کے دن علیؑ کے پاس سرخرو ہوکر جانے کے لیے جو ابتدائی ترین باتیں ہیں وہ بھی نہیں معلوم۔
وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ۔ ایمان والے اللہ سے محبت میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا، شدید حُب۔۔۔ محبت بہت زیادہ ہوتی ہے مومنین میں۔ کس کی؟ اللہ کی۔ علیؑ کے ساتھ محبت بھی اللہ کے ساتھ محبت کا لازمہ ہے۔ اللہ کے ہم شکر گزار ہیں علیؑ جیسے امام جو ہم کو دیئے۔ ایسے رہنما ہم کو عنایت فرمائے۔
اللہ کی توحید کے بارے میں جو تصور وحدت ہے تصور توحید ہے۔ نہج البلاغہ کا مطالعہ کرنا۔۔۔ اگر توفیق ہو کسی کو۔۔ نہج البلاغہ کا مطالعہ کرکے اللہ کی وحدانیت کو سمجھیں۔ آپ فرماتے ہیں: وَ اَبْیَنُ مِمَّا تَرَی الْعُیُوْنُ (نہج البلاغہ خطبہ 153)
اللہ، اللہ کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ ان چیزوں سے واضح ہے اَبْیَنُ، واضح ہے مِمَّا تَرَی الْعُیُوْنُ ان چیزوں سے جن کو آنکھیں دیکھتی ہیں، آنکھوں کے جو مشاہدے میں آتی ہیں ان سے اللہ کا وجود زیادہ واضح ہے ۔ علیؑ کے ماننے والوں کو بھی ایسا ہونا چاہیے۔
نہج البلاغہ میں تصور الٰہیت میں عجیب و غریب نکات ہیں۔ میں ان سب کا ذکر یہاں نہیں کر سکتا۔ کہ جو لوگ علیؑ کے مکتب کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں۔ وہ اللہ کے بارے میں تصور رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو ہے۔۔۔وغیرہ۔
ایک امام احمد بن حنبل ان کی کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ یہ جو لوگ کہتے ہیں اللہ ہر جگہ ہے غلط بات کرتے ہیں۔ ہر جگہ ہے اللہ۔۔۔ اسی کمرے میں دیا جلاتے ہیں تو روشنی ہوتی ہے۔ وہاں اللہ ہے تو روشنی نہیں ہوتی۔ ایک دیے کہ برابر بھی نہیں ہے اللہ۔۔۔! دیکھو استدلال ۔۔۔ مادیت کے تصور میں اللہ کو لیتے ہیں۔
یہاں ہمارے امام فرماتے ہیں: مَعَ كُلِّ شَیْءٍ لَا بِمُقَارَنَةٍ، (نہج البلاغہ خطبہ 1) اللہ ہر ایک کے ساتھ ہے، قرآن میں ہے : وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ رگِ گردن سے بھی زیادہ نزدیک ہے۔ لیکن مقارنت کے حساب سے نہیں کہ دور سے آکر نزدیک ہوگیا۔ نزدیک ہوگیا۔ پاس آگیا کے حوالے سے نہیں ہے۔
وَ غَیْرُ كُلِّ شَیْءٍ لَّا بِمُزَایَلَةٍ۔۔۔ (نہج البلاغہ خطبہ 1)
ہر ایک سے اللہ تعالیٰ کی ذات جدا ہے لیکن دوری کی وجہ سے نہیں۔
سبق فی العلو فلا شیئ اعلیٰ منہ (نہج البلاغہ خطبہ 49 ص 220)
اللہ سے بالاتر کوئی چیز نہیں ہے۔
وقرب فی الدنو فلا شیئ اقرب منہ
اور ہر ایک سے نزدیک ہے، اللہ سے نزدیک تر کوئی چیز نہیں ہے۔
فرمایا: الاول الذی لم یکن شیئ قبلہ، (نہج البلاغہ خطبہ 89 ص 286) اللہ تعالیٰ کی ذات وہ اوّل ہے اس سے پہلے کوئی چیز نہیں ہے
ولآخر الذی لیس لہ بعد
اور آخر بھی ہے، ایسا آخر کہ اس کے بعد کوئی چیز ہو۔۔۔ایسا نہیں ہے۔
وَ مَنْ اَشَارَ اِلَیْهِ فَقَدْ حَدَّهٗ، (نہج البلاغہ خطبہ 1)
کسی نے اگر اللہ کی طرف اشارہ کیا تو اس نے اس کو محدود کیا، جس طرف اشارہ کیا وہاں اللہ ہے،
وَ مَنْ حَدَّهٗ فَقَدْ عَدَّهٗ
جس نے اللہ تعالیٰ کو محدود کیا اس نے اللہ کو ایک نہیں کئی شمار کیا وہ متعدد ہوگیا۔
ومن وصفہ فقد حدہ
اللہ کا وصف اگر بیان کیا تو اللہ کو محدود کیا
وَ مَنْ حَدَّهٗ فَقَدْ عَدَّهٗ
جس نے اللہ کو محدود کیا اس نے اللہ کو متعدد کر دیا۔
ومن عدہ فقد۔۔۔
اور اللہ کو اگر متعدد کردیا تو پھر اللہ مخلوق ہوجاتا ہے۔
یہاں پر توحید کے حوالے سے ایک موقف ہے نہج البلاغہ کی روشنی میں ، ہمارا عقیدہ ہے شیعہ امامیہ کا عقیدہ ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کے اوصاف جو ہے، یہاں پر مولا نے فرمایا ہے کہ اللہ کا وصف نہ کرو۔ اس لیے کہ وصف اور ہوتا ہے موصوف اور ہوتا ہے۔ اللہ کو نہ کہو کہ اللہ کو یہ صفت حاصل ہے۔۔۔ایک کلامی بحث ہے۔ اس میں ہم ایک بات کے قائل ہیں اور دوسرے لوگ نہیں ہیں۔ دوسرے لوگ کہتے ہیں اللہ کی صفات زائد بر ذات ہیں۔ یعنی اللہ اور ہے اللہ کا علم اور۔ اللہ کو علم حاصل ہے اللہ کو حیات حاصل ہے، اللہ کو قدرت حاصل ہے۔ اللہ اور صفت میں مغایرت۔۔۔ زائد بر ذات سمجھتے ہیں۔ ہم مولا کے فرمان کی روشنی میں معرفت علوی کے تحت ہم ذات اور صفت میں تعدد کے قائل نہیں ہیں۔ ہم صفت کو زائد بر ذات نہیں سمجھتے ہیں۔
ہم نہیں کہتے اللہ کو زندگی حاصل ہے، اللہ ہوتا ہی وہ ہے جو زندہ ہو۔ اللہ کو علم حاصل ہے ۔ اللہ کو علم حاصل کیا مطلب اللہ ہوتا ہی وہ ہے جو علم حاصل ہے ۔ یعنی اللہ کی ذات کے لیے کوئی چیز حاصل ہے نہیں ہوتی۔ یہ تعدد لازم آتا ہے۔
آپ کو سمجھانے کے لیے ایک مثال دیتا ہوں۔ چار وجود میں آتا ہے تو جفت کے ساتھ۔ ان دونوں میں جدائی نہیں۔ نہ ایں کہ چار کو جفت حاصل ہے۔ چار ہوتا ہی جفت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہوتا ہی حی ہے ہوتا ہی قادر ہے ہوتا ہی عالم ہے۔ سب صفات اللہ تعالیٰ کی ذات سے مربوط ہیں۔
فرمایا کہ اگر کسی نے اللہ کی طرف اشارہ کیا تو اس نے اللہ کو محدود کیا، اور اگر کسی نے کہا اللہ کس میں ہے۔۔۔تو اللہ کوکسی کے اندر محدود کیا۔ اور کسی نے کہا اللہ کس پر ہے تو باقی جگہ اللہ سے خالی قرار دے دیا۔ لوگ کہتے ہیں اللہ عرش پر ہے۔ عرش کے اوپر اللہ تشریف رکھتا ہے۔۔۔۔تو۔۔۔بہر حال یہ باتیں قابل ذکر نہیں ہیں۔
مَا وَحَّدَهٗ مَنْ كَیَّفَهٗ، (نہج البلاغہ خطبہ 184)
جو اللہ تعالیٰ کی کیفیت ، شکل و صورت ، وضع قطع بیان کرے تو وہ موحد نہیں ہے۔ سمجھیں اس بات کو۔ مَا وَحَّدَهٗ مَنْ كَیَّفَهٗ، جو اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی وضع قطع بیان کرے وہ موحد نہیں ہے۔
وَ لَا حَقِیْقَتَهٗۤ اَصَابَ مَنْ مَّثَّلَهٗ،
نہ اللہ کی حقیقت کو حاصل کیا اس شخص نے جس نے اللہ کے لیے کوئی مثال دے دی ۔ ایک۔۔، ایک شخص کو کہا یہ اللہ نہیں اللہ جیسا ہے ۔ لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ قرآن میں صریح، اللہ کی کوئی مثل ہو نہیں سکتی۔ قرآن میں بھی ہے، یہاں بھی ہے
وَ لَاۤ اِیَّاهُ عَنٰی مَنْ شَبَّهَهٗ،
اللہ کو اگر کسی سے تشبیہ دے دیا تو پھر وہ اللہ کو نہیں سمجھا
وَ مَاۤ اَهْوَلَ مَا نَرٰی مِنْ مَّلَكُوْْتِكَ!
تیری مملکت اور اللہ کی سلطنت کتنی عظیم ہے۔ مولا فرماتے ہیں کتنی عظیم ہے۔ تیری سلطنت۔۔۔
اس وقت اگر آپ کو معلومات ہے کہ یہ کائنات کتنی عظیم ہے۔ اربوں اربوں کہکشاں ہیں ہر کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں۔ اور کائنات میں وسعت بھی آ رہی ہے۔ کہتے ہیں روشنی کی رفتار سے وسعت بھی آ رہی ہے۔ مولا فرماتے ہیں جو کائنات اس وقت ہے جو ہمارے علم میں ہے وہ کتنی عظیم ہے۔ سبحان اللہ!
وَ مَاۤ اَهْوَلَ مَا نَرٰی مِنْ مَّلَكُوْْتِكَ!
وَ مَاۤ اَحْقَرَ ذٰلِكَ فِیْمَا غَابَ عَنَّا مِنْ سُلْطَانِكَ! سبحان اللہ
کہتے ہیں آخری سرے سے آنے والی روشنی اربوں سال سے چلی ہوئی ابھی ہم تک نہیں پہنچا۔ اتنی وسیع ہے کائنات!
ہمارے تصور میں نہیں آتی۔ اتنی وسیع ہے یہ کائنات۔ مولا فرماتے ہیں کتنی ناچیز ہے یہ کائنات اس کے مقابلے میں جسے ہم نہیں جانتے۔ کائنات موجود ہے وہ جوہمارے علم و مشاہدے میں ہے ان میں موازنہ کون کر سکتا ہے علیؑ کے علاوہ۔ کوئی نہیں کر سکتا۔ یہ کائنات جو لوگوں کے مشاہدے میں آئی ہے۔
یہ علیؑ کی طرف سے تصور توحید۔ میں زیادہ یہاں عرض نہیں کر سکتا۔ کہ توحید کے بارے میں علیؑ کی طرف رجوع کرلو خدارا نہج البلاغہ پڑھو قرآن پڑھو پھر اپنا عقیدہ جانچو کہ آپ علیؑ کو مانتے بھی ہیں اور علیؑ کے شیعوں میں شمار ہیں آپ اور قیامت کے دن علیؑ پہچانیں گے۔
بلکہ موت کے وقت بھی مولا فرماتے ہیں: يَا حَارُ هَمْدَانَ، مَنْ يَمُتْ يَرَنِي
مولا کی زیارت موت اور نزع کے وقت بھی کرنا ہے۔ کس منہ سے زیارت کرو گے مولا کی اور اپنے چاہنے والے پیرو کاروں کو۔ شیعہ پیروکار کو کہتے ہیں۔ صرف ماننے والی کو نہیں کہتے۔ ایک فرقہ تھا آئمہ کے زمانے میں جو کہتا تھا کہ ماننا کافی ہے۔ ان کی منطق یہ تھی کہ کفر کے ساتھ کوئی عمل فائدہ نہیں دیتا اسی طرح ایمان کے ساتھ کوئی گناہ نقصان نہیں دیتا۔ اس کو کہتے ہیں۔ ایک فرقہ تھا۔ آئمہ علیھم السلام نے اس فرقے پر لعنت بھیجی ہے۔ جو کہتے صرف عقیدہ کافی ہے عمل ضروری نہیں۔ فرقہ مرجئہ۔ اپنی آخرت اور عاقبت کی فکر کرو۔ علی ؑکے شیعہ بنو۔ علیؑ کے پیروکار بننے کی کوشش کرو۔ غلط فہمی دور کرو، جب نزع کی حالت آئے گی اس وقت ساری غلط فہمی دور ہو جائے گی۔ اس وقت کہیں گے کاش
یہ بات ہم زندگی میں سمجھتے۔ زندگی میں سمجھانے والوں کے ساتھ نفرت کی، کیسے سمجھتے۔
ان شاءاللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ آپ کا مددگار ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے علیؑ کے شیعہ بننے کی۔ اور اس سے بڑی سعادت کوئی نہیں ہے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ