مقالاتنہج البلاغہ مقالات

اللہ کی رحمت کے تین مظہر نہج البلاغہ کی روشنی میں

تحریر: سید محمد غضنفر فائزی، نزیل حوزہ علمیہ قم، ۲۹ رجب ۱۴۳۵ ھ ۔ ۲۹ مئی ۲۰۱۴ ء جمعرات

بسم اللَّه الرحمن الرحیم
و الحمد للَّه اولاً وآخراً و الصلاۃ والسلام علی اشرف الانبیاء محمد و آله الطاهرین

امیر المومنینؑ نے مومنین پر اللہ رب العزت کی رحمت واسعہ کو اپنے تین نورانی کلمات قصار میں یوں بیان فرمایا ہے
۱ ۔ امام باقرؑ نے امیر المومنینؑ سے روایت کو نقل کیا ہے کہ حضرت فرماتےتھے۔ (كَانَ‏ فِي‏ الْأَرْضِ‏ أَمَانَانِ‏ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ وَ قَدْ رُفِعَ أَحَدُهُمَا فَدُونَكُمُ الْآخَرَ فَتَمَسَّكُوا بِهِ أَمَّا الْأَمَانُ الَّذِي رُفِعَ فَهُوَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ أَمَّا الْأَمَانُ الْبَاقِي فَالاسْتِغْفَارُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَ ما كانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ أَنْتَ فِيهِمْ وَ ما كانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ يَسْتَغْفِرُون‏)۔ ( نہج البلاغہ حکمت : ۸۸)۔

اللہ نے امت محمد ﷺ کو عذاب سے بچانے کے لیے دو امان نامے قرار دیے ہیں: ایک امان کو اللہ نے اٹھالیا ہے، جب کہ دوسرا سبب امان قیامت تک باقی ہے، لہذا اس سے ہمیشہ متمسک رہنا وہ امان نامہ جو ا مت سے اٹھا لیا گیا ہے وہ رسول اکرم ﷺ کی ذات بابرکت تھی اور جو امان نامہ قیامت تک باقی ہے وہ استغفار ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے قرآن میں اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا ہے ــــ(وَ ما كانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ أَنْتَ فِيهِمْ وَ ما كانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ يَسْتَغْفِرُون) ۔سورہ انفال : ۳۳ ۔ اللہ، آپ کی امت پر اس وقت تک عذاب نہیں کرے گا، جب تک آپ ان میں موجود ہیں اور جب تک یہ لوگ استغفار کرتے رہیں گے اللہ ان پر عذاب نہیں کرےگا۔

سید رضیؒ اس حکمت کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں: یہ قرآن کریم سے لطیف ترین استنتاج اور استخراج ہے جس کو حضرتؑ نے اپنی زبان مبارک سے بیان فرمایا ہے۔

دوسرے مقام پر فرمایا ۔ عَجِبْتُ لِمَنْ يَقْنَطُ وَ مَعَهُ الِاسْتِغْفَار۔ (نہج البلاغہ حکمت۸۷)۔ تعجب ہے مجھے اس شخص پر جو کہ جو اپنے گناہوں کی کثرت کی وجہ سے مایوس ہو چکا ہے جب کہ اس کے پاس استغفار جیسی عظیم نعمت موجود ہے۔ (یعنی استغفار کے ہوتے ہوئے مایوس ہو نا واقعاً جای تعجب ہے)۔

اور تیسرےمقام پر فرمایا: (مِنْ كَفَّارَاتِ الذُّنُوبِ الْعِظَامِ إِغَاثَةُ الْمَلْهُوفِ وَ التَّنْفِيسُ عَنِ الْمَكْرُوب)‏‏ ۔(نہج البلاغہ ،حکمت نمر:۲۴)۔ تیسری نعمت کو حضرت نے یوں بیان فرمایا ہے کہ بڑے گناہوں کا کفارہ یہ ہے کہ انسان ستم رسیدہ لوگوں کی مدد کرے اور غمزدہ لوگوں کو خوش حال کرے ۔

ان تین نعمتوں کی توضیح و تفسیر سے پہلے گناہ کی ہولناک بزرگی کو بیان کرنا ضروری ہے تاکہ ان تین نعمات کی عظمت کو انسان درک کرسکے۔

گناہ کی ہولناک بزرگی
گناہ میں دس صفات پائی جاتی ہیں۔
۱۔ گناہ کرنے والے کے صفات:
۱۔ گناہ کرنے والا ضعیف ترین مخلوق ہے۔ قدرت کے اعتبار سے مطلقا ضعیف ہے۔ (خلق الانسان ضعیفا ً)۔ سورہ نساء آیہ ۲۸، ضعیف، صفت مشبہ ہے۔ یعنی یہ صفت اس کی ذات سے قابل زوال نہیں ہے۔ انسان کے دائمی ضعف کی دلیل یہ ہے کہ نہ اپنی خلقت پر قادر ہے اور نہ موت و زوال کو دفع کرسکتا ہے۔

۲۔ مطلقاً بے اختیار ہے۔ (عَبْدًا مَّمْلُوكًا لَّا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ) سورہ نحل آیہ 75، چونکہ اس کی ذات دوسرے کے اختیار میں ہے  ، لہذا فی نفسہ کسی چیز پر قادر نہیں ہے۔

۳۔ علم میں انتہائی ناقص و ضعیف ہے۔ (وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا) سورہ الاسرا ء آيہ ۷۵ ، چونکہ علم میں ناقص اور بے مقدار علم رکھتا ہے لہذا جہالت کی تاریکی اس کے تمام اعمال و رفتار پر نمایاں ہے کوئی کام بھی مطلقاً بے نقص عیب انجام دینے پر قادر نہیں ہے۔ (إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا) انسان ظالم اورجاہل ہے (سورہ احزاب آیہ ۷۲)۔

۴۔ صبرو حوصلہ بھی کم رکھتا ہے۔ (إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا) سورہ معارج ۱۹، جب کوئی مصیبت آتی ہے تو جزع فزع کرنے لگ جاتا ہے۔

۵۔ جلد باز اور عجول خلق کیا گیا ہے۔ (ان الانسان خلق ھلوعاً) سورہ معارج آيہ ۱۹، اور (کان الانسان عجولاً)۔ سورہ اسراء آيہ ۱۱، لہذا مستحکم اور مطلقاً بے نقص و عیب کام کرنا اس کے بس میں نہیں ہے۔

اس قدر عظیم نقص و عیب کے باوجود وہ جس ذات کی نافرمانی اور بے ادبی کرتا ہے اس کی شان کیا ہے۔

۲۔ جس کی نافرمانی کرتا ہے اس کے صفات
۱۔ وہ قہّار مطلق ہے۔ (قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ) سورہ رعد: ۱۶، اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور واحد قہار مطلق ہے۔

۲۔ وہ جبّار مطلق ہے۔ (هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّر) سورہ حشر ۲۳، اللہ وہ ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہ بادشاہ، قدو س، سلام، مومن، ہر چیز پر غالب، عزت والا اور جبار متکبر ہے۔

۳۔ تمام قدرت اسکے ہاتھ میں ہے۔ (ان القوۃ للَّهُ جمیعاً) سورہ بقرہ آیہ ۱۶۵۔

۴۔ ہر چیز پر قادر ہے۔ (ان اللَّهُ علی کل شی قدیر) سورہ نور ۴۵۔

۵ ۔ ھر قسم کا عذاب نازل کر سکتا ہے۔ (قل ھو القادر علی ان يبعث عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ) سورہ انعام ۶۵۔ اللہ اس بات پر قادر ہے کہ تم لوگوں پر اوپر سے عذاب کو نازل کرے یا زمین سے عذاب کو ظاہر کرے۔

۳۔ اللہ کی آنکھوں کے سامنے گناہ کرتا ہے۔
ظاہر ہے جب مجرم انسان کی آنکھوں کے سامنے جرم کا مرتکب ہوتاہے تو اس عمل سے طرف مقابل کی جتنی توہین ہو تی ہے وہ نظروں سے چھپ کر کیے جانے والے گناہ میں نہيں پائی جاتی۔ روز روشن میں مالک کے سامنے جرم کرنے والے کی سزا اور ہوتی ہے اور چھپ کر جرم کرنے والے کی سز ا اور ہوتی ہے، لہذا چھپ کر چوری کرنے والے کی سزا ہاتھ کاٹنا اور زبردستی مال لوٹنے والے کی سزا پھانسی ہے، يا باقی تین سزائیں۔
۱ـ (الم یعلم بان اللَّه یری) سورہ علق ۱۴ ۔ کیا انسان نہیں جانتا کہ اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔
۲ـ (يَعْلَمُ خَائنَةَ الْأَعْيُنِ وَ مَا تخْفِى الصُّدُور) سورہ غافر ۱۹، اللہ آنکھوں کی خیانت اور دلوں میں چھپے رازوں کو جانتا ہے۔
۳۔ (ِلا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَار) سورہ انعام ۱۰۳۔ آنکھیں اللہ کو دیکھ نہیں سکتی لیکن وہ آنکھوں کو دیکھ سکتا ہے۔
۴۔ (ان اللَّهُ کان علیکم رقیباً) سورہ نسا ء ۱۰ ۔ اللہ ہروقت تمہیں دقت سے دیکھ رہا ہے ۔
۵۔ (ان اللَّهُ بما تعملون بصیرا) (سورہ بقرہ ، ۱۱۰ و ۲۳۳ و ۲۳۷) ۔ اللہ تمہارے تمام کاموں کو دیکھ رہا ہے۔
۶۔ (ان اللَّهُ سمیع علیم) سورہ بقرہ ۱۸۱ ۔ اللہ ہر چیز کو سنتا بھی اور جانتا بھی ہے۔
۴۔ اللہ کی زمین اور اس کی کائنات میں گناہ کرتا ہے۔ (گویا اللہ کےگھر میں گناہ کرتا ہے)۔
۱۔ وہ زمین و آسمان کا مالک ہے۔ (لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا) سورہ مائدہ ۱۷ و ۱۸۔ آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب پر اللہ کی حکومت ہے۔
۲۔ وہ صاحب ملکوت ہے۔ (فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ) یس ۸۳۔ پاک ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں زمین و آسمان کے ملکوت ہیں۔
5۔ گناہ کرنے کے بعد اسی کے پاس ہی جانا ہے۔
اگر گناہ کرنے کے بعد ا س شخص سے ملاقات نہ ہو تو شرمندگی کم ہوتی ہے لیکن اگر گناہ کر نے کے بعد اسی کی خدمت میں حاضر ہونا ہو تو گناہ کی شدت میں اور زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ اور گناہگار کی شرمندگی بھی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
۱۔ (وَ اتَّقُواْ اللَّهَ وَ اعْلَمُواْ أَنَّكُم مُّلَاقُوه) سورہ بقرہ ۲۲۔ اللہ سے ڈرو اور یا درکھو کہ تم لوگوں نے اس سے جا کر ملاقات کرنی ہے۔
۲۔ (يَأَيُّهَا الْانسَنُ إِنَّكَ كاَدِحٌ إِلىَ‏ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيه) سورہ انشقاق ۲ ۔ اے انسان !تمہیں زبردستی اپنے رب کی طرف لے جارہے ہیں اور تمہیں اس سے جاملنا ہے۔
۳۔ (إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون) سورہ بقرہ ۱۵۶۔ ہم اللہ کے لیے ہیں او راسی کی طرف پلٹ کر چلے جائیں گے۔
۶۔ اس سے فرار ہر گز ممکن نہیں۔
اگر گناہ کرنے کے بعد مجرم بھاگ جائے تو پھر اپنے آپ کو عذاب سے نجات دلا سکتا ہے لیکن اگر گناہ کرنے کےبعد فرار ممکن نہ ہو تو پھر گناہ گا ر کا انجام کیا ہوگا۔
۱۔ (يَقُولُ الْانسَانُ يَوْمَئذٍ أَيْنَ المْفَر ) سورہ قیامت ۱۰۔ انسان اس دن کہے گا: فرار کرنا کیسے ممکن ہے؟
۲۔ امیرالمومنینؑ دعا کمیل میں اللہ کی قدرت کو یوں بیان کرتے ہیں  (لا یمکن الفرار من حکومتک)۔
۷۔ وہ شدت سے حساب لے گا۔
اگر گناہ کے بعد پوچھ پڑتال نہ ہو تو شاید گناہگار آسودہ خاطر ہوجائے۔ لیکن اگر گناہ کرنے والا اپنے مولیٰ کی بارگاہ میں شدت کے ساتھ محاسبہ کیا جائے تو گناہ کی وحشتناکی میں کس قدر اضافہ ہو جاتا ہے۔ بلکہ مجرم کی شرمندگی ہرگز قابل دید نہیں ہوتی۔ اور اگر ظاہر و باطن، نفس نفس، سانس سانس، کا حساب لیا جاتا تو کیا عالم ہوگا؟
۱۔ (وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّهُ) سورہ بقرہ ۲۸۴۔ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے یا اس کو چھپایا ہوا ہے اللہ سب کا حساب لے گا۔
۲۔ (فَحَاسَبْنَاهَا حِسَابًا شَدِيدًا وَ عَذَّبْنَاهَا عَذَابًا نُّكْرًا) سورہ طلاق ۸۔ ہم نے (اپنی مخالفت کرنے والے ہر قوم و قریہ سے) سخت ترین حساب لیا ہے اور بدترین طریقے سے عذاب کیا ہے۔
۷۔ اللہ نے لوگوں کو اپني مخالفت سے منع کیا ہے اور بہت جلدی اور بد ترین عذاب کی دھمکی دی ہے۔
اگر گناہگار کو مولیٰ نے مخالفت سے منع نہ کيا ہو اور مخالفت پر بد ترين عذاب کی دھمکی نہ دي ہوت و مجرم و خاطی کا دل آسودہ ہوتا ہے لیکن اگر مولیٰ نے مخالفت کرنے والوں کو بدترین عذاب کی دھمکی دی ہو اور سب کچھ جانتے ہوئے، قصدو ارادہ و اختیار کے ساتھ مولیٰ کی مخالفت کرے تو پھر اس کا عذاب کیسا ہونا چاہیے؟
۱۔ (وَ يُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ) سورہ آل عمران ۲۸ و ۳۰، اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے ۔ (یعنی مجھ سے ڈرو نہ میرے عذاب سے)۔
۲۔ (ان ربک لسریع العقاب) سورہ اعراف ۱۶۷، اللہ بہت جلد عقاب کرنے والا ہے۔
۳۔ (وَ اتَّقُواْ اللَّهَ وَ اعْلَمُواْ أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَاب) سورہ بقرہ ۱۹۶ و سورہ مائدہ ۲، اللہ سے ڈرو اور یاد رکھو اللہ سخت ترین عذاب والا ہے۔
۴۔ (ولَعَذَابُ الاَخِرَةِ أَشَدُّ وَ أَبْقَى) سورہ طہ ۱۲۷۔ آخرت کا عذاب بہت سخت اور ہميثہ باقی رہنے والا ہے۔
۵۔ (فَيَوْمَئذٍ لَّا يُعَذِّبُ عَذَابَهُ أَحَدٌ وَ لَا يُوثِقُ وَثَاقَهُ أَحَد) سورہ فجر ۲۵، ۲۶۔ نہ اللہ جیسا کوئی عذاب دے سکتا ہے اور نہ اس جیسا کو ئی باندھ سکتا ہے۔
۹۔ گناہگار اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو اس کی معصیت میں استعمال کرتا ہے۔
انسان کا تمام وجود و ہستی بلکہ کل عالم، اللہ کاہ ے۔ گناہگار سورج کی روشنی، اللہ کی زمین، ہوا، فضا سميت اپنے ہاتھ، پاؤں، آنکھیں، زبان اور قدرتـ جو اللہ کی اطاعت کے لیے امانت دی گئی ہیںـ ان کو اس کی بدترین مخالفت میں استعمال کرتا ہے۔
۱۔ (جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْأَبْصَارَ وَ الْأَفْئدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُون) سورہ نحل ۷۸۔ اللہ نے تمہیں کان، آنکھیں اور دل اس لیے دیئے ہیں تاکہ تم لوگ اس کا شکر کرو (نہ کہ نافرمانی کرو)۔
۲۔ (الْيَوْمَ نخَتِمُ عَلىَ أَفْوَاهِهِمْ وَ تُكلَّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَ تَشهْدُ أَرْجُلُهُم بِمَا كاَنُواْ يَكْسِبُون) سورہ یس ۶۵۔ آج قیامت کے دن ہم مجرموں کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان ہاتھ اور پاؤں ان کے کاموں کے بارے میں شہادت دیں گے۔
۱۰۔ ہر گناہ اللہ پر ظلم علی اللہ ہے۔
اگرچہ اللہ رب العزت نے شرک کو ظلم علی اللہ سے تعبير کیا ہے: (ان الشرک لظلم عظيم) لیکن در حقیقت ہر گناہ ظلم علی اللہ ہوتا ہے۔ چونکہ گناہگار، عالماً عامداً، شیطان اور نفس امارہ کی اطاعت کر کے شرک فی الطاعت میں مبتلا ہوتا ہے۔
اس پس منظر میں کوئی گناہ بھی بخشے جانے کے قابل نہیں ہے۔ چونکہ اللہ رب العزت پر ظلم اور اس کی توہین اور نافرمانی ہے اور اس کے بے انتہا غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اسی لیے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تم گناہ کے چھوٹے ہونے کی طرف نہ دیکھو بلکہ اس کو دیکھو کہ کس کی معصیت اور نافرمانی کر رہے ہو (لا تنظر الی صغر الخطيئةولکنانظرالیمن عصيته) امالی الطوسی ۵۲۸۔ اس زاویہ نگاہ سے کوئی بھی گناہ صغیرہ نہں رہے گا۔

اللہ کی عظیم رحمت کے مظاہر
انسانوں کی اس قدر عظیم جسارت اور نافرمانی کے باوجود ، اللہ رب العزت نے ان کی مغفرت کے متعدد دروازے کھلے ہیں۔ مجموع آیات و روایات سے بارہ اسباب معلوم ہوتے ہیں۔ ہماری بحث فی الحال نہج البلاغہ کے کلمات قصار کے بارے میں ہے۔ ان میں تین اسباب کا تذکزہ آیا ہے۔ لہذا ہم یہاں انہیں تین اسباب کا مختصر تذکرہ کریں گے۔

پہلی رحمت: رسول اللہ ﷺ کی ذات بابرکت
اس رحمت کا تذکرہ کلمات قصار میں ۸۸ نمبر حکمت میں پایا جاتا ہے۔ حضرت فرماتےہیں: اللہ نے انسانوں کے لیے دو امان قرار دی ہیں: ایک رسول اکرم ﷺ کی ذات بابرکت ہے پھر بعنوان شاہد اس آیہ کریمہ کو بیان فرمایا ہے۔ جس میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے۔ (وَ مَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ أَنتَ فِيهِم ) انفال ۳۳۔ (اللہ ان لوگوں پر اس وقت تک عذاب نہیں کرے گا، جب تک آپ ان میں موجود ہیں)۔
اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں آٹھ مقامات پر مختلف انداز سے رسول اکرم ﷺ کو سبب رحمت قرار دیا ہے ۔
پہلا مقام ۔ یہی مورد ہے جس کو امیرالمومنین ؑ نے بیان فرمایا ہے اللہ نے سورہ انفال آیہ ۳۳، میں رسول اللہ ﷺ کی ذات بابرکت کو انسانوں کے لیے رحمت کا سبب اور عذاب الیم سے امان کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
جس طرح اللہ رب العزت نے اپنی مخالفت کرنے والوں کو بدترین عذاب کی دھمکی دی ہے، اسی طرح رسول اللہ کی مخالفت کرنے والوں کو بھی بدترین عذاب کے ساتھ ڈرایا ہے۔ (فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يخُالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبهَمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبهَمْ عَذَابٌ أَلِيم)۔ (سورہ نور ۶۳)، رسول اللہ کی مخالفت کرنے والوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ کسی فتنہ میں مبتلا ہوجائیں یا عذاب الیم میں گرفتا ر ہو جائیں۔
رسول اللہ کی ذات بابرکت اتنی عظیم نعمت الہیٰ ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے کسی مشرک اور منافق پر بھی عذاب نازل نہیں ہوتا۔ اصول کافی کی آٹھویں جلد میں حارث بن عمر و فہری (ہمارے ہاں حارث بن نعمان یا نعمان بن حارث کہتے ہیں لیکن اصول کافی میں حارث بن عمر و فہری آیا ہے) ، امیرالمومنینؑ کی ولایت پر غضب ناک ہوا اور عذاب کا مطالبہ کیا تو اس وقت اللہ نے اس آیت کو نازل کیا جب تک آپ ﷺ مدینے میں ہیں اللہ ان پر عذاب نہیں کرے گا۔ تو حضرتؐ نے فرمایا اے حارث یا توبہ کرو یامدینے سے باہر چلے جاؤ (اگر عذاب کا شوق ہے) تو اس نے کہا میں تو بہ نہیں کروں گا اور گھوڑے پر سوار ہو کر مدینے سے باہر چلا گیا جونہی مدینےکی حدود سے باہر نکلا، آسمان سے ایک پتھر آیا اور ہلاک ہوگیا۔ (اصول کافی جلد ۸ ،۵۸ ، حدیث ۱۸)
دوسرے مقام پر فرمایا۔ (وَ مَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِين) سورہ انبیاء ۱۰۷۔ اے رسول ﷺ جس میں طرح میں ہر شے کی کے لیے رحمت ہوں (ورحمتی وسعت کل شیء) سورہ اعراف ۱۵۶۔ اسی طرح میں نے آپ کو ہر شے کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے (وَ مَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِين) اور ان عالمین میں گناہگار بھی ہے، لہذا رسول ان کے لیے بھی رحمت ہیں اور جہاں رحمت ہے وہاں عذاب نہیں آسکتا۔ حتی کہ رسول اللہ کے ہوتے ہوے منافق و مشرک کو بھی عذاب نہیں ہو سکتا۔
تفسیر مجمع البیان میں ابن عباس سےنقل ہوا ہے کہ (وَ مَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِين) کی وجہ سے اللہ نے کفار سے بھی مسخ ہونا آٹھا لیا ہے ۔ مجمع البیان ۷، ۱۰۷ و عنہ فی البحار : ۱۶ ، ۳۰۶۔ یہ مطلب حضرت کے حیاً و میتاً رحمت ہونے کی بین دلیل ہے۔
تیسرے مقام پر فرمایا: قل إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي‏ يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَ اللَّهُ غَفُورٌ رَحِيم۔ سورہ آل عمران: ۳۱ ۔اے پیغمبر! کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبّت کرتے ہو تو میری پیروی کرو- اللہ بھی تم سے محبّت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا کیونکہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔
چوتھے مقام پر فرمایا: وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ‏ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ‏ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّاباً رَحِيما۔ سورہ النساء ۶۴۔ اے کاش یہ لوگ جب اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے تھے تو آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو وہ اللہ کو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا پاتے۔
پانچویں مقام پر فرمایا: (لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُواْ مُؤْمِنِين) سورہ الشعراء ۳۔ اے رسول! تم ان کافروں کے ایمان نہ لانے پر افسوس کرکے اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔
رسول اللہ کافروں کے بھی اتنےخیر خواہ تھے کہ ان کی حماقت اور کفر پر اصرار کی وجہ سے بہت زیادہ افسوس کرتے تھے جو حضرت کے لیے انتہا ئی خطرناک ہو گیا تھا۔ لہذا رب العزت نے حضرت کو اس سےمنع فرمایا۔ یہ حضرت کے عظیم رحمت ہونے کی دلیل ہے۔
یہی مطلب چھٹے مقام پر یوں فرمایا: (فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلىَ ءَاثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُواْ بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا)۔ کہف ۶۔
اور ساتویں مقام پر یوں فرمایا۔ (فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيهْمْ حَسَرَات) فاطر ۸۔ اے رسول! حسرت اور افسوس کر کے تم اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو (کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے اور اتنی اچھی باتوں کو نہیں مانتے)۔
لیکن آٹھویں طائفہ آیات میں اللہ رب العزت نے اپنے حبیب کو مومنین کے لیے رحمت خاصہ ہونا بیان فرمایا ہے۔ (لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيم سورہ توبہ ۱۲۸) بے شک تم لوگوں کے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے، تمہیں تکلیف میں دیکھنا اس پر شاق گذرتا ہے اور وہ تمہاری بھلائی چاہتا ہے اورمومنین پر نہایت شفیق اور مہربان ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ آیات کے مطابق حضرت کی ذات بابرکت مومن وکافر، چرند و پرند، حیوان و انسان سب کے لیے رحمت ہیں اور ان آیات سے یہ ظاہر ہوتا ہے رسو ل اللہ ﷺ سے کسی حال میں رحمت کو سلب نہیں کیا جاسکتا۔

اس حکمت سے معارض روایات
حقیر کی نظر میں روایت کایہ حصہ اشکال رکھتا ہے۔ عجالۃً چند مطالب کو ذکر کرنا اثبات مدعیٰ کے لیے کافی ہے۔ نہج البلاغہ کے اس کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام باقرؑ نے امیرا لمومنینؑ سے نقل فرمایا ہے اللہ نے امت رسول کے لیے دو امان نامے قرار دیے ہیں۔ ایک رسول اللہ کی ذات بابرکت اور دوسرا استغفار۔ رسول اللہ کی ذات کی صورت میں امان کو آپ کی رحلت کی وجہ سے امت سے اٹھا لیا گیا ہے۔ جب کہ استغفار کی صورت میں امان الہی قیامت تک باقی ہے۔ اس دوسرے مطلب میں کوئی اشکال نہیں۔ اشکال صرف پہلے حصے میں ہے۔
اولاً: تو یہ مطلب مرحوم سید رضیؒ (متوفی ۴۰۶ ھ)نے مرسلا ً امام باقرؑ سےنقل کیا ہے۔ اس کلام کی سند نہیں ہے۔ یہ مطلب نہ ان سے پہلے کسی شیعہ عالم یا محدث مثل صفار (متوفی ۲۹۰ ھ)، معیاشی (متوفی ۳۰۰ ھ)، علی بن ابراہیم (۳۰۷ ھ )، کلینی (متوفی ۳۲۹ ھ)، صدوق (متوفی ۳۸۱ ھ )، و دیگران نے ذکر کیا ہے اور نہ ان کے بعد۔
کتاب مدارک نہج البلاغہ میں آقای محمد دشتی ص ۴۲۱ ،نے اس مقام پر انتہائی اشتباہ کیا ہے انہوں نے اس حکمت کے مدارک میں عیاشی،  تفسیر علی بن ابراہیم اور کافی کو ذکر کیا ہے۔ جب میں نے وہاں مراجعہ کیا تو وہاں حدیث (حیاتی خیرلکم و مماتی خیر لکم ۔۔۔) تھی، نہ کہ دو امان تھے ایک کو اٹھا لیا گیا ہے اور ایک باقی ہے، لہذا محققین سے گذارش ہے کہ ہر مطلب کو بلا تحقیق قبول نہ کریں۔
ثانیاً: اہل سنت نے بالاتفاق اس مطلب کو ابن عباس کی طرف منسوب کیا ہے۔ طبری (متوفی ۳۱۰ ھ)، نے اپنی تفسیر جامع البیان ج ۹، ۵۵، ابن ابی حاتم (متوفی ۳۲۷ھ)، نے اپنی تفسیر جلد ۵ ص۱۶۹ میں، فخر رازی (متوفی ۶۰۶ ھ) نے مفاتیح الغیب: ۱۵،۴۸۰ میں، ابن کثیر دمشقی (متوفی ۷۷۴ ھ) نے تفسیر القرآن العظیم ج ۴۔ ۴۳ میں، سیوطی (متوفی ۹۱۱ ھ) نے الدرالمنثور ج ۳، ۱۸۱ میں اس مطلب کو ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ اللہ نے امت کے لیے دو امان قرار دی ہیں: ایک رسول اللہ اور دوسرا استغفار، رسول اللہ کو اٹھا لیا گیا ہے لیکن استغفار کی صورت میں امان قیامت تک باقی ہے۔ (قال ابن عباس کان فیھم امانان، النبیﷺو استغفار فذھب النبی وبقی الاستغفار)۔
اہل سنت کی کتب میں یہ مطلب سید رضیؒ (متوفی ۴۰۶ ھ) سے سو سال پہلے طبری (متوفی ۳۱۰ ھ ) اور ابن ابی حاتم (متوفی ۳۲۷ ھ) نے اسے ابن عباس کی طرف منسوب کیا ہے۔
شیعہ کتب میں سب سے پہلے یہ مطلب نہج البلاغہ میں سید رضیؒ (متوفی ۴۰۶ ھ) نے بغیر سند مرسلاً نقل کیا ہے۔ اور ان کے سو سال بعد فتال نیشاپوری (متوفی ۵۰۸ ھ ) نے روضۃ الواعظین میں اور ان کے بعد مرحوم طبرسی (متوفی ۵۴۸ھ) نے تفسیر مجمع البیان میں اور ان کے بعد ا بن ابی الحدید (متوفی ۶۵۶ ھ)نے اس کو نقل کیا ہے۔
ان کے علاوہ کسی شیعہ کتاب میں یہ مطلب نقل نہیں ہوا جو اس کے ضعف کی دلیل ہے۔
ثالثاً: اس روایت مرسلہ کے مقابلے میں بہت ساری صحیح السند روایات موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قیامت تک امان ہیں۔ حیاً بھی امان تھے اور رحلت کے بعدحضرت کی قبر کا وہی حکم ہے جو حیات میں خود حضرت ﷺکا تھا۔

پہلا طائفہ۔ اصول کافی میں صحیح سند کے ساتھ امام صادقؑ سےنقل ہوا ہے کہ حضرت نے فرمایا: إِذَا دَخَلْتَ‏ الْمَدِينَةَ فَاغْتَسِلْ قَبْلَ أَنْ تَدْخُلَهَا أَوْ حِينَ تَدْخُلُهَا ثُمَّ تَأْتِي قَبْرَ النَّبِيِّ ص ثُمَّ تَقُومُ فَتُسَلِّمُ عَلَى رَسُولِ اللَّه‏۔۔۔۔۔ جب تم مدینہ میں داخل ہو تو غسل کرو اور رسول اللہ ﷺ کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر سلا م کرو ۔۔۔۔ یہاں تک کہ حضرتؑ نے فرمایا اور یوں کہو: اے اللہ! تو نے کہا ہے گناہگار رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں آئیں اور خود بھی استغفار کریں اور رسول اللہ ﷺ بھی ان کے لیے استغفار کریں تو اللہ کو تواب اور رحیم پائیں گے۔ اے اللہ! میں تیرے نبی کے پاس آیا ہوں اور اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہوں اور رسول کو اپنا شفیع قرار دیتا ہوں تاکہ تو میرے گناہ معاف کردے۔ اصول کافی جلد ۴، ص ۵۵۰، ۵۵۱۔
یہ روایت اصول کافی کے علاوہ تمام معروف شیعہ میں موجود ہے مثلاً معتبر ترین کتاب شیعہ کامل الزیارات تالیف ابن قولویہ (متوفی ۳۶۷ھ) ص ۱۶ ، ان کے بعد مرحوم صدوق (متوفی ۳۸۱ھ ) نے الفقیہ میں، ان کے بعد شیخ طوسی (متوفی ۴۶۰ھ نے التہذیب اور مصباح المتھجد وغیرہ، سب میں موجود ہے۔
یہ روایات حضرت کو قیامت تک گناہگاروں کے لیے، زمان حیات کے گناہگاروں کی طرح امان قرار دیتی ہے۔ جس طرح اس وقت گناہ گار یہ آیت پڑھ کر اللہ سے تو سل کرتے تھے، حکم دیا گیا ہے کہ قیامت تک گناہگار اس کو پڑھ کر توسل کریں۔

دوسرا طائفہ۔ یہ روایت انتہائی معتبر اور تمام کتب شیعہ میں موجو دہے ۔
ثقۃ الاسلام کلینی (متوفی ۳۲۹ھ) کے استاد محمد بن حسن صفار قمی (متوفی ۲۹۰ھ) نے بصائر الدرجات میں، عرض الاعمال علی رسول اللہ، کے باب میں امام باقرؑ اور صادقؑ سے اسناد صحیح اسناد کے ساتھ سات روایات نقل کی ہیں۔
کلینی کے دوسرے شیخ علی بن ابراھیم کوفی مدفون قم (متوفی ۳۰۷ھ) نے اپنی تفسیر میں، ان دونوں کے شاگرد کلینی نے روضہ کافی میں ان کے علاوہ عیاشی (متوفی ۳۰۰ ھ) نے اپنی تفسیر میں اور ان کے بعد صدوقؒ نے فقیہ میں تھوڑے تھوڑے اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے۔
بصائر کا متن اکثر کتب میں ہے اس کی عبارت یوں ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا (عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص لِأَصْحَابِهِ حَيَاتِي خَيْرٌ لَكُمْ وَ مَمَاتِي خَيْرٌ لَكُمْ قَالُوا أَمَّا حَيَاتُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ص فَقَدْ عَرَفْنَا فَمَا فِي وَفَاتِكَ قَالَ أَمَّا حَيَاتِي فَإِنَّ اللَّهَ يَقُولُ وَ ما كانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ أَنْتَ فِيهِمْ وَ ما كانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ وَ أَمَّا وَفَاتِي فَتُعْرَضُ عَلَيَّ أَعْمَالُكُمْ فَأَسْتَغْفِرُ لَكُمْ)۔
میری حیات بھی تم لوگوں کے لیے خیر ہے اور میری وفات بھی تمہارے لیے خیر ہے۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ آپ کی حیات کا خیر ہونا تو ہمیں معلوم ہے، آپ کی وفات کیسے ہمارے لیے خیر ہے۔ تو حضرت نے فرمایا۔ میری حیات تمہارے لیے خیر ہے چونکہ میری وجہ سے اللہ نے تم لوگوں پر عذاب نازل نہیں کرتا۔ (وَ ما كانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ أَنْتَ فِيهِمْ) اور میری وفات اس لیے خیرہے کہ تمہارے اعمال (ہر پیر اور جمعرات کے دن) میرے سامنے لائے جاتے ہیں۔ اگر خیر دیکھتا ہوں تو اللہ کا شکر کرتا ہوں اور اگر گناہ دیکھتا ہوں تو تمہارے لیے استغفار کرتا ہوں۔ پس حضرتؐ حیاً و میتاً امت کے لیے امان ہیں۔ بصائر الدرجات ۱، ۴۳۳، و مابعدہ، تفسیر عیاشی ۲، ۵۴ ،ح ۴۵، تفسیر علی بن ابراھیم ۲، ۲۷۷، کافی : ۸، ۲۵۴ ح ۳۶۱، فقیہ : ۱، ۱۹۱۔
اور بصائر میں اس کے بعد اضافہ بھی آیا ہے کہ حضرت نے فرمایا اللہ نے انبیاء کا گوشت زمین پر حرام قرار دیا ہے۔ (ان اللَّهُ حرم لحومنا علی الارض ان یطعم منھا) یعنی انبیاء کے جسد قبروں میں صحیح وسالم باقی رہتےہیں۔

تیسرا طائفہ۔ وہ روایات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ۔ جس شخص نے رحلت کے بعد میری قبر کی زیارت کی گویا اس نے حال حیات میںمیری زیارت کی ۔عن علی قال : قال رسول اللَّهُﷺ: مَنْ‏ زَارَنِي‏ بَعْدَ وَفَاتِي كَانَ كَمَنْ زَارَنِي فِي حَيَاتِي وَ كُنْتُ لَهُ شَهِيداً وَ شَافِعاً يَوْمَ الْقِيَامَة۔ کامل الزیارات : ۱۲ ، المقنعہ : ۴۵۸ و عنہما فی البحار : ۹۷ ، ۱۴۳ ۔
چوتھا طائفہ روایات: بہت ساری روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول ا کرم ﷺ ہر صلوات پڑھنے اور سلام کرنے والے کا جواب دیتے ہیں اس باب میں روایات بہت زیادہ ہیں۔ چند روایات کو بطور نمونہ ذکر کردیتے ہیں۔ عن النبی ﷺ: (من صلی علیّ عند قبري سمعتہ و من صلی علیّ نائیاً وکل بھا ملک یبلغنی)۔ کنزا لعمال: ۱۔ ۴۹۸، ۲۱۹۷۔ الدر المنثور: ۵ ، ۲۱۹ ۔
و فی روایۃ: انہ قال : من صلی علیّ عند قبري سمعتہ ومن صلی علیّ من بعید علمتہ۔ کنزا لعمال: ۱۔ ۴۹۸، ۲۱۹۸ ۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص میری قبر کے پاس مجھ پر صلوات پڑھتا ہے اس تو میں خود سنتا ہوں اور جو دور سے صلوات پڑھتا ہے ایک فرشتہ مجھ تک پہنچاتا ہ ۔
جواب کے بارے میں ایک روایت میں یوں آیا ہے: ملک مجھے اس شخص کی صلوات کی خبر دیتا ہے تو میں کہتا ہوں: (صلی اللَّهِ علیه کما صلی علیّ)۔ الجعفریات: ۲۱۶ ، و عنہ فی المستدرک: ۵، ۳۲۹۔
اور ایک روایت کے مطابق ہوا، مسلمانوں کے صلوات و سلام کو پہنچائی ہے۔ لئالی اخبار: ۳، ۴۳۲۔
اور سلام کے بارے میں فرمایا۔ امام صادقؑ سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ اللہ نے ظھلیل نامی فرشتے کو رسول اللہ ﷺ کی قبر پر مامور کیا ہے جو رسول اللہ کو لوگوں کے صلوات اور سلام پہنچاتا ہے اور حضرت، ان کے سلام کا جواب دیتےہیں۔ جمال الاسبوع: ۲۴۲، و امالی الطوسی: ۲، ۲۹۰۔
اور ایک روایت میں ہے کہ جبرئیلؑ لوگوں کا سلام پہنچاتا ہے تو حضرت جواب دیتے ہیں (وعلیہ السلام و رحمۃ اللہ برکاتہ) تنبیہ الغافلین سمرقندی (متوفی ، ۳۷۳ ھ): ص ۱۹۰۔
اور ایک اور روایت میں ہے: مشرق و مغرب میں جہاں بھی کوئی شخص مجھ پرسلام کہتا ہے میں اور اللہ کے ملائکہ اس کے سلام کا جواب دیتے ہیں۔ عن ابی ہریرہ قال : قال رسول اللہ : (ما من مسلم فی شرق و لا فی غرب الا انا ملائکةربی نردعلیه سلامه)۔ جلا ء الافہام: ابن قیم : ۲۲ ح ۲۵۔
پس یہ طائفہ روایات بھی حضرت کے حیاً اور میتاً برابر ہونے کو بیان کرتی ہیں

پانچواں طائفہ: وہ آیات اور روایات جو حضرت کو حیاً اور میتاً شاہد اور ناظر ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔
خلاصہ یہ روایات سند کے اعتبار سے صحیح ہیں اور دلالت کے اعتبار سے نص ہیں۔ جبکہ نہج البلاغہ کی یہ روایتـ جو اس بات پردلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صرف حیات میں امان تھے رحلت کے بعد نہیں ہیں۔ مرسلہ ہے، لہذا ان کے ساتھ تعارض کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
خامساً۔ نہج البلاغہ کی یہ روایت (قد رفع احدھما) کہ رسول اللہ کی صورت میں امان نامہ اٹھا لیا گیا ہے۔ باقی آیات جو ہم نے پہلے ذکر کی ہیں اس کے ساتھ معارض ہیں۔ آیہ (وَ مَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِين) سورہ انبیاء ۱۰۷ ، حضرت کے وجود کو قیامت تک رحمت قرار دیتی ہے۔ ہرگز کوئی مسلمان یہ ادعاء نہیں کر سکتا کہ حضرت حیات میں رحمت تھے، رحلت کے بعد رحمت نہیں ہیں۔
اور یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ حضرت حیات میں امان بھی تھے اور رحمت بھی تھے، لیکن رحلت کے بعد صرف رحمت ہیں امان نہیں، چونکہ امان خود رحمت کا ایک حصہ اور نوع ہے اور قابل تفکیک نہیں ہیں۔ (انک میت و انھم میتون ) سورہ زمر ۳۰۔ کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کا کون منصب سلب ہوا ہے تاکہ یہ کہیں کہ اب مرنے کے بعد امان ہونا باقی نہیں ہے۔
اور رحمۃ للعالمین کا مقتضی یہ ہے کہ ہمیشہ اور ہر عالم کے لیے رحمت ہیں۔
سادساً۔ رسول اللہ ﷺ کی ذات بابرکت رحلت کے بعد اگر امت کے لیے امان نہ ہوں تو اس سے لازم آتا ہے کہ اللہ نے اپنی رحمت کا ایک مظہر، امت سے سلب کرلیا ہے۔ جو خود اللہ کی رحمت واسعہ سے منافی ہے۔
لہذا مناسب ترین جواب یہ ہے کہ اس مرسلہ روایت کا انکار کیا جائے نہ کہ رسول اللہ کے امان ہونے کو محدود قرار دیا جائے۔
اہل سنت نے تو بالاتفاق اس کو ابن عباسؓ کا استنباط قرار دیا ہے۔ جس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ ابن عباسؓ نے اپنے علم کے مطابق بات کی ہے۔
تعجب اس بات پر ہے کہ نہج البلا غہ کی شروحات کو میں نے دیکھا ہے کہ کسی نے روایت کے اس حصے میں پائے جانے والے اشکال کی طرف توجہ نہیں کی۔ (و العصمة لاھلھا)۔

دوسری رحمت: استغفار
حضرت نے اپنے اس کلام مبارک (حکمت ۸۸ اور ۸۷) جس میں رحمت کا تذکرہ فرمایا ہے، وہ نعمت استغفار ہے۔
حکمت نمبر ۸۷ کے مطابق حضرت نےفرمایا۔ مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو گناہوں کے بعد اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جاتا ہے جب کہ اس کے پاس استغفار جیسی نعمت موجو دہے۔
اور حکمت ۸۸ کے مطابق حضرت نے فرمایا۔ اللہ نے زمین پر اپنے بندوں کے لیے عذاب سے دو امان قرار دیے ہیں ایک امان رسول اللہ ﷺ کی ذات تھیں جو اٹھا لی گئ ہے جبکہ دوسری امان استغفار ہے، جس کا دروازہ قیامت تک کھلا ہو  ہے۔
ان دو کلمات قصار میں استغفار کے دو فوائد کا تذکرہ آیا ہے: ایک یہ کہ استغفار گناہ گار کو اللہ کی رحمت سے مایوسی سے بچاتا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ استغفار عذاب سے بچنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔

عظمت نعمت استغفار
اللہ رب العزت نے اپنے بندوں پر احسان عظیم کرتے ہوئے ان کے ہزاروں گناہوں کے باجود عفو و بخشش کا راستہ کھلا ہے۔ اگر عفو و مغفرت نہ ہوتے تو مجر م گناہ کرنے کےبعد اصلاح نہ کرسکتا کیونکہ اس کے بخشے جانے کا سوال ہی نہیں ہے۔ لہذا اللہ نے بنی آدم کے ضعف کو مشاہد ہ کرتے ہوئے ان کے لیے واپسی کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔
اس باب میں آیات و روایات حد و حساب سے باہر ہیں۔ کلام اللہ، احادیث رسول و اہلبیتؑ میں اس باب میں بہت زیادہ تاکید وارد ہوئی ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ حضرت امام موسیٰ کاظمؑ فرماتےہیں: میں ہر روز پانچ ہزار مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ (انی استغفر اللَّهُ کل یوم خمسة آلاف مرۃ) الزہد، تألیف حسین بن سعید اھوازی: ۷۴، و عنہ فی الوسائل: ۱۶، ۸۶، و البحار: ۴۸، ۱۱۹۔

استغفار کی فضیلت کے بارے میں چند آیات
استغفار کی فضیلت کے بارے میں چند آیات و روایات کو تبرکاً عرض کردیتا ہوں
۱۔ قال اللَّه تبارک و تعالی: وَ ما كانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (سورہ نفال ۳۳) جب تک لوگ استغفار کرتے رہیں گے، اللہ، ان پر عذاب نازل نہیں کرےگا ۔
۲۔ قل يا عِبادِيَ‏ الَّذِينَ‏ أَسْرَفُوا عَلى‏ أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعاً، سورہ زمر ۵۳۔ اے رسول! آپ ان سے کہہ دیں: اے میرے بندو، جنہوں نے اپنے نفسوں پر اسراف و گناہ سےظلم کیا ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ تمہارے سارے گناہوں کوبخش دےگا۔
3: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ‏ يُشْرَكَ‏ بِهِ وَ يَغْفِرُ ما دُونَ ذلِكَ لِمَنْ يَشاء۔ سورہ نساء ۳۸ و ۱۱۳، اللہ شرک کو معاف نہیں کرتا اور اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے گا معاف کردے گا۔

چند احادیث
۱۔ امیرالمومنین (ع) فرماتےہیں: عَجِبْتُ لِمَنْ يَقْنَطُ وَ مَعَهُ الِاسْتِغْفَار۔ (نہج البلاغہ حکمت۸۷)، تعجب ہے مجھے اس شخص پر جو کہ جو اپنے گناہوں کی کثرت کی وجہ سے مایوس ہو چکا ہے جب کہ اس کے پاس استغفار جیسی عظیم نعمت موجود ہے۔
۲۔ قال رسول اللهﷺ: إن الشيطان قال بعزتك و جلالک يا رب لا أبرح أغوي عبادك ما دامت‏ أرواحهم‏ في أجسادهم فقال له الرب و عزتي و جلالي لا أزال أغفر لهم ما استغفروني۔ (فردوس الاخبار: ۲، ۱۵۳، ح ۴۵۹۵)۔
رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں شیطان نے اللہ سے کہا۔ اے اللہ تیری عزت اور تیرے جلال کی قسم جب تک تیرے بندوں کے بدن میں روح ہے میں ان کو گمراہ کرتا رہوں گا۔ تو اللہ نے فرمایا: مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ہے میں بھی ان کو اس وقت تک معاف کرتا رہوں گاجب تک وہ استغفار کرتے رہیں گے۔
۳ ۔ امام باقرؑ نے رسول اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ صحابہ نے اپنے گناہوں کی شکایت کی تو حضرت نے فرمایا: اگر تم لوگ گناہ نہ کرتے اور اللہ سے استغفار نہ کرتے تو اللہ ایک اور مخلوق کو خلق کرتا جو گناہ کرتے اور استغفار کرتے تاکہ اللہ ان کے گناہوں کو معاف کرتا  (لَوْ لَا أَنَّكُمْ‏ تُذْنِبُونَ‏ فَتَسْتَغْفِرُونَ‏ اللَّهَ‏ لَخَلَقَ اللَّهُ خَلْقاً حَتَّى يُذْنِبُوا ثُمَّ يَسْتَغْفِرُوا اللَّهَ فَيَغْفِرَ اللَّهُ لَهُم‏) (اصول کافی: ۲، ۴۲۳، و تفسیر عیاشی: ج ۱، ۱۰۹۔
۴۔ ایک اور حدیث میں امام باقرؑ فرماتےہیں۔ جو شخص نماز صبح کے بعد ۷۰ مرتبہ استغفار کرے اللہ اس کے اس دن کے ستر ہزار گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اور جو ایک دن میں ستر ہزار سے زیادہ گناہ کرے تو اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔ (ثواب الاعمال: ۱۶۵)۔
۵۔ رسول اکرمﷺ فرماتےہیں۔ اپنے گھروں اور محفلوں اور دسترخوانوں اور بازاروں اور راستوں اور جہاں بھی ہو زیادہ سے زیادہ استغفار کیا کرو چونکہ تمہیں معلوم نہیں کس وقت اللہ کی مغفرت تمہارے لیے شامل حال ہو جائے۔ قال رسول اللهﷺ: أكثروا من‏ الاستغفار في بيوتكم و في مجالسكم و على موائدكم و في أسواقكم و في طرقكم و أينما كنتم فإنكم لا تدرون متى تنزل المغفرة.) مستدرك الوسائل ج‏5 / 319)

تیسری رحمت: مظلوموں کی مدد کرنا بڑےگناہوں کا کفارہ ہے۔
امیر المومنینؑ فرماتےہیں: مِنْ‏ كَفَّارَاتِ‏ الذُّنُوبِ الْعِظَامِ إِغَاثَةُ الْمَلْهُوفِ وَ التَّنْفِيسُ عَنِ الْمَكْرُوب‏۔ نہج البلاغہ حکمت:۲۔ بڑے گناہوں کا کفارہ یہ ہے کہ انسان ستم رسیدہ مظلوم لوگوں کی مدد کرے اور غمزدہ لوگوں کو خوشحال کرے۔
اس نورانی جملے میں حضرت نے گناہان کبیرہ کے کفارے کا تذکرہ کیا ہے۔

گناہوں کا کفارہ دو قسم کا ہوتا ہے:
۱۔ دل سے گناہ پر نادم ہونا اور زبان سے استغفار کرنا، جس کو استغفار کہا جاتا ہے۔ اب تک اس کی بحث تھی۔
۲۔ عملی توبہ، اس حکمت میں حضرت نےعملی توبہ کا تذکرہ کیا ہے۔ اور یہ عملی توبہ بالخصوص بڑے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے۔
مؤمنین کو خوش کرنے کے بارے بہت زیادہ روایات ہیں اور مظلو م مومنین کی مدد کرنا بعض روایات کے مطابق واجب ہے۔ عن زید الشحام عن ابي عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ مَنْ أَغَاثَ أَخَاهُ الْمُؤْمِنَ اللَّهْفَانَ‏ عِنْدَ جَهْدِهِ‏ فَنَفَّسَ كُرْبَتَهُ وَ أَعَانَهُ عَلَى نَجَاحِ حَاجَتِهِ كَانَتْ لَهُ بِذَلِكَ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَتَانِ وَ سَبْعُونَ رَحْمَةً مِنَ اللَّهِ يُعَجِّلُ لَهُ مِنْهَا وَاحِدَةً تصلح [يُصْلِحُ‏] بِهَا مَعِيشَتَهُ وَ يَدَّخِرُ لَهُ إِحْدَى وَ سَبْعِينَ رَحْمَةً لِأَفْزَاعِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَ أَهْوَالِهَا۔ اصول کافی: ۲، ۱۹۹، و ثواب الاعمال: ۱۴۹ و ۱۸۶۔ جس شخص نے مصیبت زدہ مومن کی مشکلات میں مدد کی اور اسے کرب و پریشانی سے نجات دی اور اس کی حاجت کو پورا کرنے میں اس کی مدد کی تو اللہ اس کو بہتر (۷۲) رحمتیں عطا کرے گا۔ ان میں ایک رحمت دنیا میں عطا کرتا ہے، جس سے اس کی مالی مشکلات کو حل کر دیتا ہے اور ۷۱ رحمتوں کو قیامت کے دن کے ہولناک مناظر اور خطروں کے لیے محفوظ رکھتا ہے۔
اسی حقیقت کی طرف امیر المؤمنین (ع) نے اشارہ فرمایا ہے۔ آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ ہمیں توبہ اورعمل صالح کی توفیق عطا فرمائے (الہی آمین)۔

سید محمد غضنفر فائزی، نزیل حوزہ علمیہ قم، ۲۹ رجب ۱۴۳۵ ھ ۔ ۲۹ مئی ۲۰۱۴ ء جمعرات۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button