مقالات

گزشتہ قوموں سے عبرت (حصه اول)

خالق کائنات نے بنی نوع انسان کو منزل کمال تک پہنچانے کے لئے صراط مستقیم کا تعین اور اس راہ کی طرف ہدایت کا انتظام کیا اور بشر سے پہلے ابو البشر حضرت آدم ؑکو راہنما بنا کر بھیجا  ہے۔ چنانچہ سورہ نساء کی اس آیہ میں ارشاد خداوندی ہے:۔

’’ رسلا مبشرین و منذرین لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل و کا ن اللہ عزیزا حکیما۔ ؎۱  یہ سارے رسل بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ااس لئے بھیجے گئے تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد انسانوں کی حجت خدا پر قائم نہ ہونے پائے اور خدا سب پر غالب اور صاحب حکمت والا ہے‘‘ خالق نے انسان کو عقل جیسی عظیم نعمت سے نواز نے کے ساتھ ان دو راستوں کی تعلیم بھی دی جن میں ایک راستہ، انسان کو ہدف تک پہنچانے والا ہے اور دوسرا، ہدف سے دور کرنے والا اطاعت کے فوائد اور عصیان کے برے نتائج سے بھی انسان کو تفصیل سے آگاہ کر دیا قرآن مجید میں ہر خشک و تر کو بیان کر دیا جہاں تک انسان کی صلاحیت قرآن سے فیض حاصل کرنے کے لئے ساتھ دیتی رہی مستفیض ہوا جہاں اس کی بس سے بات باہر تھی پیامبر اکرم نے عِدل قرآن کی طرف لوگوں کو ارجاع دیا اطاعت کرنے والوںکو قرآن مجید نے خوش خبری یوں سنائی: ’’ اور جو بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جن پر اللہ نے نعمتیں نازل کی ہیں انبیائ، صدیقین ،شہداء اور صالحین اور یہی بہترین رفقاء ہیں۔ ۲

البتہ ایک خطرناک دشمن ہمیشہ انسان کے ساتھ موجود ہے جو کہ ہر وقت انسان کو اپنی جال میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے وہ ہے نفس امارہ۔ اس کا اہم ترین مشغلہ انسان کو ہدف سے غافل کر کے ہمیشہ کے لئے گمراہ کرنا ہے اور یہ طبیعی بات ہے کہ مرض جیسا ہو گا علاج بھی اسی نوعیت کا ہونا چاہئیے یہاں ذکر موت اور گزشتگان کی حالت زندگی اور ان پر گزرے  ہوئے برے حالت کا تذکرہ انسان کو غفلت سے بیدار کرنے کے لئے بہترین طریقہ تھا قرآن مجید میں جگہ جگہ اقوام گزشتہ کی حالت پر غور کرنے اور اس سے عبرت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ ارشاد خداوند ’’ اے صاحبان نظر عبرت حاصل کرو‘‘ ۳  اس اہم نکتے کو سمجھے کے لئے مقالہ ’’کو تاریخ سے عبرت‘‘ کے عنوان پر لکھنے کے لئے  قلم اٹھایا ہے اس میں عبرت کے لغوی اور اصطلاحی معنی عبرت کے علل و طریقے اور جن قوموں اور افرد سے عبرت حاصل کرنی چاہئے اس کے بارے میں مقالے کی محدودیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مختصر لفظوں میں لکھنے کی کوشش کریں گے خداوند متعال سے دعا گو ہے کہ ہمارے گزشتگان کو ائمہ اطہار ؑ کے صدقے  میںبخش دے اور ہمیں ان واقعات سے عبرت لے کر اپنی زندگی کو گناہوں سے محفوظ گزارنے کی توفیق عنایت فرمائیے۔ آمین

لغت اور رقرآن و نہج البلاغہ میں عبرت کا معنی

مادہ عبرت علماء لغت کے نزدیک عبور کرنے، لفظ کی تشریح کرنے ،خواب کی تعبیر وغیرہ کی معنی میں آیا ہے صاحب معجم مقائیس کا قول ہے کہ : العین و الباء والراء اصل واحد صحیح یدل علی النفور و المعنی ۔۴،ابن منطور کے نزدیک عبرت خبر دینے اور

 ۱۔سورہ نساء ۱۶۵، ترجمہ قرآن ذیشان حیدر ص ۲۴۱:۲۔ سورہ نساء آیہ ۲۹ ترجمہ قرآن ذیشان حیدر ۳۔ سورہ الحشر آیہ ۲۔  ۴۔؎۱  معجم مقائیس اللغۃ ج ۴ ص ۲۰۷ 

خواب کی  تعبیر بتانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔  ؎۱ کتاب العین میں عبرت کے معنی تفسیر کرنے اور نہر کو عبور کرنے کے ہیں ۔۲،   ان تینوں کتابوں میں تفیسر، تشریح اور عبور کے معنی تقریبا بیشتر مشترک اور زیادہ استعمال ہوئے ہیں قرآن مجید اور احادیث کی کتابوں میں یہ لفظ جہاں جہاں بھی استعمال ہوا ہے اکثر درس لینے اور کسی گزشتہ واقعے سے عبرت لینے کے معنی میں استعمال ہواہے چنانچہ قرآن مجید میں یہ آیہ اسی معنی میں استعمال ہوئی ہے:   ’’فاعتبروا یا اولی الابصار‘‘ ۳آیہ’’ اے صاحبان نظر! عبرت حاصل کرو‘‘حضرت علی  ؑکے کلام مبارک میں بھی عبرت اسی معنی میں استعمال ہوا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں: من اعتبرا ابصر و من ابصر فھم و من فھم علم ۴جس نے گزشتہ قوموں کے حالات سے درس عبرت لیا اس کو بصیرت ملی اور جس کو بصیر ت ملی وہ سمجھ گیا اور جو سمجھ گیاوہ عالم بن گیا۔

اس بنا پر آیات اور امیر المومنین ؑکے کلمات کی روشنی میں یہ بات وضاحت ہو گئی کہ عبرت ہمیشہ درس لینے اور حالات سے سبق حاصل کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

عبرت کے  بارے میں تاکید اور اس کی ضرورت 

دین اسلام میں جہاں انسان کو تقوی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہاں پر گزشتہ قوموں کی بد کرداریوں پر ملنے والی سزا اور عذاب کے بارے میں غور کر کے اس سے درس لینے کے بارے میں بہت تاکید کی گئی ہے چنانچہ امیر المومنین فرماتے ہیں: خطبہ  ۱۶۱ بند ۴ ’’ اوصیکم عباد اللہ بتقوی اللہ و طاعتہ فانھا النجاۃ غدا الی المجد الکادح‘‘: بندگان خدا! میں تمہیں تقوای الہی اور اس کی اطاعت کی وصیت کرتاہوں بے شک اسی میں قیامت کے دن نجات ہے اور یہی  ہمیشہ کے لئے مرکز نجات ہے اس نے تمہیں مکمل طور پر انذار کیا اور بطور اتم تمہیں رغبت دلائی ۔

تمہارے لئے دنیا کے زوال اس کے منقطع ہونے او اس سے منتقل ہونے کی پوری توصیف کی اور تفصیل سے بتایا ہے لہذا اس میں سے جو چیز آپ کو تعجب میں ڈالے اس سے روگردانی اختیار کر لو کیوں کہ اس میں سے آپ کے ساتھ جانے والی چیز بہت کم ہے۔ یہ گھر غضب الہی کے بالکل قریب اور رضائے الہی سے بہت دور ہے۔ بندگان خدا! دنیا کے ہم و غم او اس کے ،معمول ،مصروفیات (اشتغال) سے چشم پوشی کرو کہ تمہیں اس سے بہرحال جدا ہونا ہے اور اس کے حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں اس سے اس طرح احتیاط کرو جس طرح ایک خوفزدہ اور مخلص جو پوری جانفشانی کے ساتھ تلاش کرنے والاحتیاط کرتا ہے۔

اعتبروا بما قد رأیتم من مصارع القرون قبلکم قد تزایلت او صالھم الی ۔۔۔ والسبیل قصد!نہج ۳۰۵  جوادی

اور اس سے عبرت حاصل کرو ان مناظر کے ذریعے جو تم نے دیکھ لئے ہیں کہ ان کے جوڑ اور بند بند ایک دوسرے سے الگ ہو گئے  اور ہلاک ہو گئے ان کی آنکھیں اور کان تباہ ہو گئے اور ان کی شرافت اور عزت ختم ہو گئی۔ ان کی مسرتیں اور خوشیاں اور نعمتیں ایک دم تباہ ہو گئیں اولاد کا قرب، فقدان، دوری، میں اور ازواج کی صحبت فراق میں بدل گئی اور نہ ایک دوسرے کے ساتھ کا سلسلہ رہا۔ لہذا بندگان خدااس شخص کی طرح ڈرو جو اپنے نفس پر مکمل قابو رکھتا ہو جو شہوات کو روک سکتاہو جو بصیرۃ عقل سے دیکھتا ہو،

  ؎۱۔لسان العرب  ج ۹ص ۱۶    ؎۲العین  ج ۲ ص ۱۱۲۵    ؎۳سورہ حشر آیۃ ۲ ترجمہ آقا مکارم شیرازی    ؎۴الحدیث روایات تربیتی از مکتب اھلبیت ج ۲ ص ۲۶۳

 کیوں کہ مسئلہ واضح ہے نشانیاں قائم ہیں راستہ سیدھا ہ اور راہ بالکل مستقیم ہے۔    ۔۱

امام علی علیہ السلام کے اس بلیغ بیان سے ایک عقل مند انسان یہ نتیجہ اخذکرسکتا ہے کہ تقوی ہی انسان کو باکمال بنا سکتا ہے اور ختم نہ ہونے والی ابدی زندگی جو تمام نعمتوں کے ہمراہ ہے ایک متقی انسان کے نیک اعمال کا نتیجہ ہو گی نیز ایک غافل انسان اگر اپنی غفلت سے بیدار ہو کر منزل تک پہنچنا چاہے تو خداوندکی ان نشانیوں کا مطالعہ کرے اور ہلاکت ہونے والے افراد کے حالات سے عبرت لے۔  ۱؎

خطبہ ۱۱۳ بند ۴ میں فرماتے ہیں ’’  رحم اللہ اسرأ  تفکر و اعتبر فابصر فکما نما ھو کائن من الدنیا عن قلیل لم یکن و کان ما کائن من الاخرۃ عما قلیل لم یزل الی قریب دان؎۲

خدا رحمت نزل کرے اس شخص پر جس نے غور و فکر کر کے عبرت حاصل کی اور عبرت حاصل کی تو بصیرت مل گئی گویا عنقریب دنیا کی ہر چیز ایسی ہو جائے گی جیسے تھی ہی نہیں اور آخرت کی چیزیں اس طرح ہو جائیں گی جیسے ابھی موجود ہیں ہر گنتی اور شمار میں والا گٹھنے والا ہے اور ہر وہ چیز جس کی امید کی جا سکتی ہو آنے والی اور ہر آنے والا گویا عنقریب نزدیک ہے اما م نے اس شخص کے لئے دعا کر کے یہ بتلایا کہ جو بصارت عقل سے حقائق میں فکر کی بلندیوں کو طے کرتے ہوئے غور کرتا ہے عنایت خداوند اس کے شامل حال ہوتی ہے اسی لئے فرمایا کہ جس نے درس عبرت لیا با بصیرت ہو گیا ایک اور مقام پر امام مومن کے عبرت لینے کے انداز کو بیان کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں’’ انما ینظر المومن الی الدنیا بعین الاعتبار و یقتات منھا ببطن الاضطرار و یسمع فیھا باذن المقت الی۔ ۔و لم یأ تھم یوم فیہ مبلسون   ؎۳

’’ بیشک مومن دنیا کی طرف عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور پیٹ کی ضرورت کی حد تک اس دنیا سے قوت لا یموت لے کر گزارا کرتاہے اس کی باتوں کو ہمیشہ نفرت اور بغض کے انداز سے سنتا ہے اور جب کسی کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ ثروت مند ہو گیا تو یہ تصور کرتا ہے مفلس و نادار ہو گیا اور اگر کسی کو بقا کی فکر کی وجہ سے مسرت مل گئی تو فنا کی فکر اور خیال سے اس کو غمگین بنایا جاتا ہے یہ سب اس دن سے پہلے ہے جس دن اہل دنیا مایوسی اور حیرت کا شکار ہوں گے۔‘‘ بے شک دینا سے آخرت کے لئے کچھ حاصل کرنا بہت مشکل کام  ہے اور اس کے لئے ہوشیاری اور انتہای عقلمندی کی ضرورت ہے اگر انسان دنیا کو سب کچھ سمجھ بیٹھے گا تو یہ انسان کواندھا بنا دیتی ہے جس کا نتیجہ تباہی اورخسار ت ہے اور اگر اس کو بعنوان وسیلہ اپنا لے تو انسان بصیرت کے ساتھ کامیاب زندگی گزارتے ہوئے اپنی آخرت کو بھی سنوار سکتا ہے امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: 

من قعد عنھا و اتتہ و من ابصر بھا بصرتہ و ابصر الیھا عمتہ  ۴  جو اس سے منہ پھیر کے بیٹھ رہے اس کی اطاعت کے لئے حاضر ہو جائے اور جو اس کو  ذریعہ اور وسیلہ کی حییثت دے کر آگے دیکھے اسے بینا بنادے اور جو اس کی ہدف آخر اور مقصد بنا کر دیکھے اس آندھا بنا دے ۔؎۵۔ سید رضی ؒ فرماتے ہیں اگر کوئی شخص حضرت کے اس ارشاد گرامی ’’ من ابصر بہا بصرتہ و ابصر الیہا اعمتہ‘‘ پر غور کرے توعجیب و غریب معانی اور دور رس حقائق کا ادراک کرے گا جن کی بلندیوں اور گہرائیوں کا ادراک ممکن نہیں ہے۔ ۶۔

۔۱   ترجمہ نہج البلاغہ ذیشان حیدر جوادی ص ۳۰۵خطبہ   ؎ ۱۰۳۲  ترجمہ ذیشان حیدر جوادی  ص ۱۹۸  ؎۳۔کلمات قصار ۳۶۷  ؎۴۔خطبہ ۸۱ جامعہ مدرسین بند ۲

۵۔ترجمہ ذیشان حیدر جوادی   ص ۱۳۱   ؎۶ ۔ ھمان

علامہ رضیؒ نے بالکل ایک مسلمہ حقیت کی بات کی ہے کہ امام کے کلام کا کما حقہ ادارک  عام انسان کے لئے ممکن نہیں ہے کیوں کہ یہ وہی کلام ہے جسے علم  بلاغت کے پائے کے علماء ’’کلام مافوق کلام بشر و ما دون کلام خالق‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں:  منتہی اگر اس جملے میں استعمال دو حرف جار ’’ با‘‘  اور ’’الی ‘‘ پر ایک ادیبانہ نظر دوڑائی جائے تو یہ بات واضح ہو جائے کہ ’’با‘‘  کے ایک معنی سبب کے ہے   ؎۱،اس بنا پر یہ مطلب سمجھ میں آتا ہے کہ جو اس دنیا کو ذریعہ اور سبب بنا کر اس سے استفادہ کرے گا وہی بینا ہے اور نہ صرف مذموم نہیں بلکہ کامیاب انسان ہی وہی ہے: چنانچہ’’ الدنیا مزرعۃ الاخرۃ‘‘ کی تعبیر بھی وہی سمجھا دیتی ہے اسی طرح’’ الی‘‘ کے معانی میں سے ایک معنی انتہاکے ہیں ؎۲اگر انسان دنیا کو اپنا ہدف بنالے اور اصلی ہدف سے غافل رہے تواس کا انجام تباہی ہے چونکہ دنیا چند مدت کی ہے اور اس کو ایک دن فنا ہونا ہے اس لئے نہ دنیا کو ہدف بنانا عقل مندی ہے او نہ دنیا کومکمل ترک کرنا عقل مندی ہے چنانچہ امام ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’الدنیا منتہی بصرالاعمی الی والاعمی لھا متزود  ۳۔ اس روایت کے آخری حصے میں امام فرماتے ہیں: بابصیرت انسان اس دنیا سے موت کے بعد والی دنیا کے لئے توشیہ راہ کا بندوبست کرتاہے اور اندھا انسان صرف اسی دنیا کے لئے کماتاہے امام موسی کاظم علیہ السلام سے منقول ہے۔’’   لیس منا من ترک دنیاہ لدینہ و دینہ لدنیاہ  ‘‘  ؎۴جو اپنی دنیا کو دین کی خاطر مکمل ترک کر دے اور جو دین کو دنیا کی خاطر ترک کر دے وہ ہم سے نہیں ہے۴ ۔لذا عبرت لینے میں انسان کی کامیابی ہے کیوں کہ عبرت کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں امام فرماتے ہیں: ’’ ما اکثر العبر و اقل الاعتبا ر ؎۵ عبرتیں کتنی زیادہ ہیں اور اس کے حاصل کرنے والے کتنے کم ہیں۔

؎۱۔ جامع المقدمات ص ۱۵۰ بخط حاج طاہر خوش نویس   ؎۲۔ھمان ص ۱۵۱  ؎۳ ۔الحدیث روایات ترتیبی از مکتب اہلبیت ج ۲ ص ۳۹ منقل از تحف العقول ص ۴۸۳   ؎۴۔الحدیث روایات ترتیبی ص ۳۴   ؎۔۵حکمت ۲۹۷ مترجم نہج البلاغہ ذیشان حیدر ص ۷۳۸

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button