مقالات

بعثت انبیا کے مقاصد نہج البلاغہ کی روشنی میں

مقدمہ

خدا وند عالم نے اپنے بندوں کو گمراہی اور ضلالت سے بچانے کے لئے ہدایت کرنے والے ہادیوں کو پہلے بھیجا پھر ہدایت لینے والوں کو   خدا نے جس طرح گزشتہ امتوں کی ہدایت کے لئے انبیا مبعوث کیا اسی طرح آخری امت کی ہدایت کی خاطر پیغمبر خاتم کو اس دنیا میں مبعوث فرمایا۔کمال اور سعادت تک پہنچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ انسان کا ارتباط حاملان وحی سے ہو یعنی پیغمبران خدا سے جو انسانوں کو سعادت کی منزل تک پہنچاتے ہیں ۔گرچہ انسان کی عقل بھی پیغمبر ہے اور راہ سعادت کی نشان دہی کرتی ہے لیکن عقل کی رسائی لامحدود نہیں ہے بلکہ وہ محدود ہےاس لئے خدا وند عالم نے اس حجت باطنی کے علاوہ انبیا کو حجت ظاہری قرار دے کر مقام رسالت و نبوت جیسی نعمتوں سے نواز کر انسانوں کی رہنمائی اور ہدایت کا سامان فراہم کیا ۔پس جو بھی اس دینی سرچشمے سے جس کو وحی سے تعبیر کیا جاتا ہے سیراب ہو گا گویا وہ وسائل شناخت ومعرفت کے در سے متمسک ہو جائے گا اور اسے سعادت حاصل ہوگی۔

فلسفہ بعثت جو مقالے کا عنوان ہے ایک عقیدتی بحث ہے جس پر دانشمندوں نے  مختلف نظریات کے تحت بعثت انبیا سے متعلق مطالب بیان کئے ہیں ۔جن میں فلسفہ اور حکمت کے دانشمند بھی شامل ہیں وہ کہتے ہیں کہ انسان چونکہ مدنی الطبع اور معاشرتی مخلوق ہے اور افراتفری ولاقانونیت معاشرے کا ایک لازمی حصہ ہے اس کی روک تھام اور اس  اختلال کے خاتمے کے لئے  ضروری ہے کہ معاشرے میں قانون کی حکومت ہو یہاں پر فلاسفہ قائل ہیں کہ  انسانی عقل تمام جوانب زندگی کو درک نہیں کر سکتی اور حقیقی قانون گزار وہ ہے جو قانون بنائے جانے والے افراد کی تمام مصلحتوں کو مدنظر رکھ کر قانون کی تدوین کرے۔

 ان تمام مقدمات کا نتیجہ یہ ہوگا کہ صرف خداوند کی ذات ہے کہ انبیاالٰہی کے توسط سے انسان کےافادے کے لئے قانون گذاری کرے اور اس قانون کوانہیں الٰہی انسانوں کےزر یعے اجرا کرے اس لئے    خداوند نے پیغمبر ان کو مختلف مقاصد و اہداف کےساتھ مبعوث کیا۔

قرآن مجید میں بھی متعدد مقامات پرہدایت ورہبری کوایک الٰہی سنت ،نظام خلقت میں ایک عمومی قانون اور واضح چیزوں میں سے قرار دیا ہے،اس لئے کہ ہر موجود کی خلقت کا مقصد مطلوبہ کمال تک پہنچنا ہے اس دلیل کی بنائ پر ہر چیز اور خصوصا انسان ہدایت ورہبری کا محتاج ہے تاکہ اس راستے کوطے کرنے میں اس کی مدد کرے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔

ربنا الذی اعطی کل شی  خلقہ ثم ھدی( سورہ طہ 50)

ہمارا پروردگار وہی ہے جس نے ہر شی کو وجود عطا کیا پھر اس کی ہدایت کی

پروردگار عالم نے اپنے حقیقی رہنماوں کو بھیج کر ضروری رہنمائی کو انسان کے اختیار میں دیا تاکہ ان مقامات پر جہاں مصلحت و حقیقی منافع کی تشخیص  میں ہدایت کی ضرورت ہو وہاں پر حقیقی راہنماوں کی ہدایت کے ذریعے انسان کمال و ترقی کےراہوں کو پہچان سکے لذا قرآن میں بعثت انبیا کے متعدد اہداف بیان کئے گئے ہیں۔ان مقاصد میں سے کچھ یوں ہیں جیسے کہ یکتا پرستی کی طرف دعوت اور شرک سے مبارزہ، اتمام حجت ،انسانوں کی تعلیم و تربیت ،معاشرے میں اختلاف کی صورت میں قضاوت و داوری اور معاشرے میں قیام عدل    ۔۔۔بطور دلیل ہم قرآن مجید کی اس آیہ شریفہ کو پیش کر تے ہیں۔

پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہے

لم یکن الذین کفروا من اھل الکتاب والمشرکین منفکین حتی تاتیھم البینۃرسول من اللہ یتلوا صحفا مطہرۃ فیہا کتب قیمہ (سورہ بینہ)

اہل کتاب میں سے جو کافر ہوگئے اور مشرک ،جدا ہونے والے نہیں تھے یہاں تک کہ ان کے پاس روشن دلیل آجائے اللہ تعالی کی طرف سے رسول جو پاک صحیفے پڑھتا ہے ان میں پختہ تحریر ہیں۔

اب  ہم  دیکھتے ہیں کہ نہج البلاغہ جسے تحت کلام خالق و  فوق کلام مخلوق کا سند حاصل ہے جو تشنگان علم ومعرفت کے لئے ایک بحر بیکراں ہے اس میں مولای متقیان امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام بعثت انبیا کے اہداف کن کن چیزوں کو قرار دیتے ہیں؟

اہداف بعثت

الف:بُعد اعتقادی اور دینی

امیر المومنین  علی ؑ نہج البلاغہ کے بعض حصوں میں اہداف بعثت بیان فرماتے اہداف بعثت کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔

1۔ہدایت اور راہنمائی:

 فلسفہ بعثت میں سے ایک  راہ حق کی طرف لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کرنا  ہے۔علیؑ اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ

الف:

اشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ ارسلہ بالدین المشہور والعلم الماثور والکتاب المسطور والنور الساطع والضیا الامع والامر الصادع ازاحۃ للشبہات واحتجاجا بالبینات و تحذیرا بالآیات وتخویفا بالمثلات[1]

ترجمہ:اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں ۔انہیں پروردگار نے مشہور دین،ماثور نشانی،روشن کتاب ،ضیاپاش نور،چمکدار روشنی اور واضح امر کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ شبہات زائل  ہوجائیں اور دلائل کے ذریعہ حجت تمام کی جاسکے،آیات کے ذریعہ ہو شیار بنایا جاسکے اور مثالوں کے ذریعہ ڈرایا جاسکے۔

اس خطبہ میں علی ؑ بعثت انبیا ءکے چہار اہداف کو بیان فرماتے ہیں

1۔ازاحۃ للشبہات :پیامبر اس لئے مبعوث ہوئے کہ لوگوں کے درمیان موجود شبہات کو زائل کریں امام شبہ کے معنی  میں فرماتے ہیں :انما سمیت الشبۃ شبہۃ لانہا تشبہ الحق…۔[2]

ترجمہ:یقینا شبہ کو شبہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حق سے مشابہ ہوتا ہے۔اس موقع پر اولیا اللہ کے لئے یقینکی روشنی ہوتی ہے اور سمت ہدایت کی راہنمائی۔لیکن…۔

2۔احتجاجاً بالبینات:یہ واضح اور آشکار دلیل کے معنی میں ہے۔راغب اصفہانی لکھتا ہے کہ بینہ واضح اور روشن دلیل کے معنی میں ہے خواہ عقلی ہو یا محسوساتی یوں بینات سے مراد ہم معجزہ اور ہم عقلی استدال ہو سکتا ہے۔

بعثت انبیا کے اہداف میں سے ایک ہدف انسانی معاشرے میں انسانوں کے درمیان شکوک وشبہات کو دور کرنا ہے کیونکہ شک و شبہ میں مبتلا انسان حقیقت کو درک نہیں کرسکتا اور اس بصیرت کا فقدان اس کو گمراہ کردیتا ہے۔اسی لئے انبیا الٰہی اس میدان میں لوگوں کو حقیقت نمائی اور سکون و اطمینان کی طرف ترغیب دلاتے تھے ۔اسی سلسلے میں مولا فرماتے ہیں

…ارسلہ بالدین المشہور… ازاحۃ بلشبہات[3]

انہیں پروردگار نے مشہور دین،ماثور نشانی،روشن کتاب،ضیا پاش نور ،چمکدار روشنی اور واضح امر کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ شبہات زائل ہوجائیں اور دلائل کے ذریعے حجت تمام کی جاسکے…

حضرت امیر ؑ نے شک کے کئی قسمیں بیان کی ہیں

والشک علی اربع شعب : علی التماری والھول والتردد والاستسلام…[4]

شک کے چہار شعبے ہیں کٹ حجتی ،خوف حیرانی اور باطل کے ہاتھوں سپردگی ظاہر ہے کہ جو کٹ حجتی کو شعار بنالے گا اس کی رات صبح کبھی نہ ہوگی اور جو ہمیشہ سامنے کی چیزوں سے ڈرتا رہے گا وہ الٹے پاوں پیچھے ہی ہٹا رہے گااور جو شک وشبہ میں حیران و سرگردان رہے گا اسے شیاطین اپنے پیروں تلے روند ڈالیں گے اور جو اپنے کو دنیا و آخرت کی ہلاکت کے سپرد کردے گا وہ واقعاً ہلاک ہو جائے گا۔

3۔وتحذیراً بالآیات:پیامبر اسلام ﷺاور دیگر انبیا و رسل کے وظائف میں سے ایک لوگو ں کو خوف خدا اور عذاب الٰہی سے ڈرانا ہے۔

  • ممکن ہے کہ یہاں پر آیات سے مراد آیات قرآنی اور خطابات شرعی ہو یعنی لوگوں کو قرآن مجید میں آئے ہوئے وعدو ں کی طرف متوجہ کرنا ہو
  • ممکن ہے کہ آیات سے مراد گزشتہ امتوں کی نافرمانیوں اور گناہوں کی وجہ سے ان پر آئے ہوئے عذاب وغیرہ ہو تاکہ امت اسلامی ان واقعات سے عبرت حاصل کریں۔جیسے کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے فارسلنا علیہم الطوفان والجراد ولقمل والضفادع والدم آیات مفصلات ….َ[5]

ترجمہ: پھر ہم نے ان پرطوفان، ٹڈی ،جوں،مینڈک اور خون کو مفصل نشانی بنا کر بھیجا …۔

4۔وتخویفاً بالمثلات: راغب کہتے ہیں کہ المثلۃ  نقمۃ تنزل بالانسان فیجعل مثالاً یرتدع بہ غیرہ وذالک کالنکال وجمعہ مثلات ومثلات[6]

‘‘مُثلہ’’ وہ آفات اور بلا ہے جو انسان پر نازل ہوتے ہیں اور وہ دوسرے لوگوں کے لئے عبرت حاصل کرنے کی مثال بن جاتے ہیں۔

دوم:

واشہد ان محمد اعبدہ ورسلہ المجتبی من خلائقہ والمعتام لتشرح حقائقہ والمختص بعقائل کراماتہ والمصطفی لکرائم رسالاتہ والموضحۃ بہ اشراط الہدی والمجلبہ غربیب العمی[7]

ترجمہ:اور پھر میں شہادت دیتا ہوں کہ حضرت محمد  اس کے بندہ اور تمام مخلوقات میں منتخب رسول ہیں ۔انہیں حقائق کی تشریح کے لئے چنا گیا ہے اور بہترین شرافتوں سے مخصوص کیاگیا ہے ۔عظیم ترین پیغامات کے لئے ان کا انتخاب ہوا ہے اور ان کے ذریعہ ہدایت کی علامات وضاحت کی گئی ہے اور گمراہی کی تاریکیوں کو دور کیا گیا ہے۔

اس نورانی کلام میں امام عالی مقام بعثت کے  اہداف کچھ یوں بیان فرمارہے ہیں۔

1۔المعتام لشرح حقائقہ :انبیا ءکرام دین اور شریعت کی حقائق کو بیان کرنے کے لئے منتخب ہوا ہے۔

قرآن کریم نے دستورات آسمانی ،تعالیم اور شرح و تبین کو یوں بیان فرمایا ہے وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم…[8]

ترجمہ:اور آپ کی طرف بھی ذکر کو نازل کیا ہے تاکہ ان کے لئے ان احکام کو واضح کردیں جو ان کی طرف نازل کئے گئے ہیں اور شاید اس بارے میں کچھ غورو فکر کریں۔

لوگ بغیر کسی واسطے کے معارف الٰہی کو نہیں سمجھ سکتے ہیں لہذا لوگوں میں سے کوئی تو ایسا ہو جو اس ظرفیت کو رکھتا ہو وہ منصب پیامبری پر مبعوث ہو جائیں تاکہ تعلیم اور تبین کا وظیفہ انجام پا سکے۔

2۔المختص بعقائل کراماتہ: عقائل  عقیلہ کا جمع ہے جو نفیس شئی کے معنی میں آیا ہے۔بعثت انبیاء کے اہداف میں سے ایک تمام انسانوں اور تمام زمانوں میں آنے والے نسلوں کو نمونہ عمل پیش کرنا ہے جوتمام فضائل اور کمالات کا مجسمہ ہو۔جیسے پیغمبر اسلام فرماتے ہیں انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق[9]

3۔المصطفی لکرائم رسالاتہ:نبی کریم ﷺ کو خدا وند عالم نے تمام خوبیوں کے ساتھ مبعوث فرمایا تاکہ عظیم ترین رسالات کو انجام دیے سکیں ۔رسالات رسالۃ کا جمع ہے جو خدا کے تمام احکام اور تمام تعالیم پر مشتمل ہیں جس کو پہنچانے کی ذمہ داری رسول خدا ﷺ پر ہیں ۔

4۔الموضحۃ بہ اشراط الہدی: اشراط شر ط کا جمع ہےجو علامت اور نشانی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ابن اثیر کہتا ہے کہ بادشاہ کے ملازمین کو‘‘ شُرط’’ کہتے ہیں کیونکہ ان کا اپنا ایک خاص علامت ہے ان کو ان کی اسی علامت اور نشانیوں کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔انبیا ء کرام اپنے فعل اور قول و تقریر اور قوانین و تعالیم اسلامی کے بیان کی نشانی جس کے ذریعے سے لوگوں کو راہ حق کی طرف ہدایت کرے مجہز تھے

5۔المجلوبہ غربیب العمی: غربیب کا معنی  سخت سیاہ ہونا ہے۔فلسفہء بعثت میں سے ایک جاہلیت اور گمراہی کو دور کرنا ہے اور معاشرے کو نور علم سے منور کرنا ہے جس میں حق و باطل خلط ملط ہو چکا ہے ۔

سوم:

 ارسل بوجوب الحجج وظہور الفلج وایضاح المنہج فبلغ الرسالۃ صادعا وحمل علی المحجۃ دالا علیہا واقام اعلام الاہتداد ومنار الضیا و جعل امراس الاسلام متینۃ وعری الایمان وثیقۃ[10]

‘‘اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد اس کے بندہ اور مخلص رسول اور پسندیدہ امین ہیں۔اس نے انہیں ناقابل انکار دلائل ۔واضح کامیابی اور نمایا راستہ کے ساتھ بھیجا اور انہوں نے اس کے پیغام کو واشگاف انداز میں پیش کر دیا ہے اور لوگوں کو سیدھے راستہ کی رہنمائی کردی ہے ۔ہدایت کے نشان قائم کر دئے ہیں اور روشنی کے منارہ استوار کردئے ہیں ۔اسلام کی رسیوںکو مضبوط بنادیا ہے اور ایمان کے بندھنوں کو مستحکم کردیا ہے۔’’

چہارم

 فساق الناس حتی بواہم محلتہم وبلغہم منجاتہم فاستقامت قناتہم اوطمانت صفاتہم[11]

ترجمہ:آپ ﷺ نے لوگوں کو کھینچ کر ان کے مقام تتک پہنچایا اور انہیں منزل نجات سے آشنا بنادیا یہاں تک کہ ان کی کجی درست ہوگئی اور ان کے حالات استوار ہوگئے۔

1۔انبیا کی بعثت  کا ایک مقصد انسانی معاشرے سے جہل اور نادانی کو دور کر کے علم و آگاہی کی طرف لے جانا ہے چونکہ جہالت میں ڈوبے ہوئے معاشرے میں ہر قسم کے فتنہ وفساد پیدا ہوسکتا ہے یہی سب سے بڑا عامل ہے کہ جس نے انسانوں کو ترقی اور کمال تک پہنچنے سے روک رکھا ہے اس وجہ سے تمام انبیا نے بھی اپنی تمام تر توجہ معاشرے سے جہالت کو نکالنے پر دی  ۔اس سلسلے میں علی (ع) فرماتے ہیں:

اضإٕٕٕٕٔت بہ البلاد بعد الضلالۃ والجہالۃ الغالبۃ[12]

ان ( پیامبر اسلام (ص) کی وجہ سے تمام شہر ضلالت کی تاریک اور جہالت کے غلبہ کے بعد منور اور روشن ہوگئ ایک اور مقام پر فرمایا :ابتعثہ والناس یضربون فی غمرۃ[13]

خدا نے انہیں (پیغمبروں) کو اس وقت بھیجا ہے جب لوگ گمراہیوں میں چکر کاٹ رہے تھے اور حیرانیوں میں غلطان تھے ۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پیغمبر خدا پر وحی کا آغاز بھی اقر باسم ربک الذی خلق سے ہوا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہالت کو صرف تعلیم وتربیت کے ہی ذریعے سے ختم کیا جاسکتا ہے اس لئے انبیا کرام کی تبلیغات کا ایک اہم مقصد تعلیم وتربیت رہا ہے۔

2۔یکتا پرستی اور خدا شناسی کی طرف دعوت:

اہداف بعثت انبیاء میں سے ایک مہم تریں ہدف لوگو کو یکتا پرستی اور خدا شناسی کی طرف دعوت دینا ہے اورلوگو کو جھل و شرک سے نجات دینا ہے

زمان جاھلیت میں موجود اعتقادی انحرافات میں سے ایک بت پرستی تھا نبی اکرم اور دوسرے انبیاء نے اپنے اپنے زمانوں میں لیخرج عبادہ من عبادہ الاوثان الی عبادتہ اور لوگوں کو شیطان کی عبادت سے رحمان کی عبادت کی طرف مایل کردیا

3۔ اتمام حجت:

خدا وند عالم نے ارسال رسل کے ذریعے تمام امتوں پر حجت تمام کی ہے تاکہ قیامت کے دن کوئی شخص یہ عذر پیش نہ کر سکے کہ ہم تک حق بات نہیں پہنچی اسی لئے خدا وند قہار کا عذاب بھی انہی اشخاص کے لئے ہے جن کے درمیان نبی یا رسول آکرتبلیغ کی ہو اور اس کےبعد غلط راستے پر گامزن ہوئے ہو۔

وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا[14]

یعنی اور جب تک ہم رسول مبعوث نہ کرلیں عذاب کرنے والے ہوا کرتے

مولا علی ؑ فرماتے ہیں:

…ارسلہ لانفاذ امرہ وانہا عذرہ وتقدیم نذرہ[15]

انہیں (پیامبر اسلام) پروردگار نے اپنے حکم کو نافذ کرنے اپنی حجت تمام کرنے اور عذاب کی خبریں پیش کرنے کے لئے بھیجا ہے ۔ایک اور مقام پر آنحجرت کا بیان یوں آیا ہے

…وانھی الیکم علی لسانہ محابہ من الاعمال … واتخذ علیکم الحجۃ[16]

اور تمہارے لئے پیغمبر کی زبان سے ان تمام اعمال کو پہنچا دیا ہے جن کو وہ دوست رکھتا ہے یا جس سے نفرت کرتا ہے اپنےاوامر و نواہی کو بتا دیا ہے اور دلائل تمہارے سامنے رکھ دئے ہیں اور حجت تمام کردی ہے ۔

مولا علی ؑ کے ان دونوں ارشادات  سے معلوم ہوتا ہے کہ فلسفہ بعثت انبیا میں سے ایک اتمام حجت ہے۔

4۔بدعتوں کا سدّ باب:

بعثت کے فائدوں میں سے ایک احکام الٰہی کو روشن کرنا اور معاشرے میں پیدا ہونے والے بدعتوں کو ختم کرنا اور ان کا روک تھام کرنا ہے۔اس سلسلے میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں :ارسلہ بحجۃ کافیۃ وموعظۃ شاففیۃ ودعوۃمتلافیۃ اظہر بہ الشرائع المجہولۃ وقمع بہ البدع المدخولۃ وبیّن بہ الاحکام المفضولۃ [17]

ب :بُعد اجتماعی

1۔ معاشرے میں اجتماعی عدالت برقرار کرنا:

        انبیا الٰہی کے بعثت کے اہداف میں سے ایک انسانی معاشرے میں پیدا ہونے والی اختلافات کو دور کرنا ہے قرآن مجید نے اس مطلب کو یوں بیان کیا ہے۔

لقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معہم الکتاب والمیزان لیقوم الناس بالقسط[18]

یقینا ہن نے اپنے رسولوں کو کھلی دلیلوں کے ساتھ بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ ہی کتاب و میزان نازل کی ہے تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔

اسی مقصد کو حضرت علی ؑ نے یو ں بیان فرمایا ہے

…فانظروا الی مواقع نعم اللہ الیہم[19]

دیکھو کہ پروردگا نے ان پر کس قدر احسانات کئے جب ان کی طرف ایک رسول بھیجدیا ،جس نے اپنے نظام سے ان کی نتیجہ میں نعمتوں نے ان پر کرامت کے بال وپر پھیلا دیے اور راحتوں کے دریا بہا دیے شریعت نے انہیں اپنی برکتوں کے بیش قیمت فوائد میں لپیٹ لیا وہ نعمتوں میں غرق ہوگئے اور زندگی کی شادابیوں میں مزے اڑانے لگے ۔ایک مظبوط حاکم کے زیر سایہ حالات سازگار ہوگئے اور حالات نے غلبہ و بزرگی کے پہلو میں جگہ دلوادی اور ایک مستحکم ملک کی بلندیوں پر دنیا و دین کی سعادتیں ان کی طرف جھک پڑین وہ عالمین کے حکام ہوگئے اور اطراف زمین کے بادشاہ شمار ہونے لگے جو کل ان کے امور کے مالک تھے آج وہ ان امور کے مالک ہوگئے اور اپنے احکام ان پر نافذ کرنے لگے جو کل اپنے احکام ان پر نافذ کر رہے تھے کہ ان نہ ان کا دم خم نکالا جا سکتا تھا اور نہ ان کا زور ہی توڑا جا سکتا تھا…۔

2۔اللہ کی نعمتوں کو یاد کرنا:

مولائے کائنات کے ارشادات کی روشنی میں اہدافِ بعثت میں سے ایک ہدف اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی یاد آوری ہے جیسے کہ آپ (ع) فرماتے ہیں

ویذ کروہم منسیی نعمتہ[20]

‘‘(اللہ نے انبیا کا ایک سلسلہ قائم کیا) تاکہ انہیں بھولی ہوئی نعمت ِ پروردگار یاد دلائیں۔۔۔’’جب بھی نعمت کی بات آتی ہے تو انسان اپنی ذہنی وسعت کے لحاظ سے اس نعمت کی قیمت لگاتا ہے حالانکہ وسیع نظر سے دیکھا جائے تو تمام چیزیں نعمت خداوندی ہیں جیسے کہ قرآن حکیم میں ارشاد رب العزت ہورہا ہے

ان تعدوا نعمت اللہ لا تحصوھا[21]

اگرچہ خدا کی دی ہوئی تمام نعمتیں اہمیت کے لحاظ سے مساوی ہیں لیکن امیرالمومنین علی علیہ السلام ہدایت کی نعمت کو خاص اہمیت دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔

‘‘…والناس فی فتن انجذم فیہا حبل الذین … فلھدی خامل…’’[22]

‘‘…یہ بعثت اس وقت ہوئی جب لوگ اپنے فتنوں میں مبتلا تھے جن سے ریسمان دین ٹوٹ چکی تھی ،یقین کے ستون ہل گئے تھے،اصول میں شدید اختلاف تھا اور امو ر میں سخت انتشار مشکلات سے نکلنے کے راستے  تنگ وتاریک ہوگئے تھے،ہدیات گمنام تھی اور گمراہی برسر عام…’’

یقینا فتنہ وفساد کے متلاطم سمندر میں انسان کے لئے ہدای جیسی کشتی ِ نجات میسر ہو تو اس سے بڑی نعمت اور کیا ہوسکتی ہے۔نعمت کا ایک روشن مصداق ولایت ہے جس کے اعلان کا دن ،دین کے اکمال کادن اور اتمام نعمت کا دن قرار پایا اسی لئے علی علیہ السلام نے فرمایا :

بنا اھتدیتم…وبنا افجتم عن السّرار[23]

امام نے فرمایا تم لوگوں نے ہماری وجہ سے ہدایت کا راستہ پایا ہے اور بلندی پر قدم جمائے ہیں اور ہماری وجہ سے ہی تاریک راتوں سے اجالے کی طرف آئے ہو…’’

3۔اخلاقی  فضیلتوں سے آگاہی:

خداوند متعال نے اپنی لاریب کتاب میں پیغمبروں کی بعثت کاایک ہدف تعلیم وتزکیہ قرار دیا ہےاور بعض مقامات پر تعلیم کوتزکیہ پر مقدم کرکے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے جیسے کہ قرآن کریم کی اس آیت میں ہم ملاحظہ کرتے ہیں۔لقد منّ اللہ علی المومنین اذ بعث فیہم رسولا من انفسہم یتلوا علیہم ویزّکیہم الکتاب و الحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین[24]

یقینا اللہ تعالی نے مومنوں پر احسان کی جبکہ اس نے ان میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور اگرچہ وہ اس سے پہلے صریح گمنامی میں تھے۔

حضرت علی ؑ اسی مطلب کو تمام انبیا کی بعثت کا ہدف بلکہ تخلیق انسان کا مقصد قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ خدا نے انسانوں کو خلق فرمایا اور ان سے اخلاق حسنہ اور پسندیدہ رفتار وکردار چاہا اور وہی خدا جانتا تھا کہ یہ مقصد صرف نفع اور نقصان کی شناخت کے ذریعے سے ہی ممکن ہے اور یہ شناخت اور معرفت صف امر بہ معروف اور نہی از منکر کی راہ سے حاصل ہوتی ہے اور امراور نہی کا مطلب جنت کا وعدہ دینا اور جہنم کا خوف دلانا ہے اور یہ بات مسلّم ہے کہ اللہ نے ہر امت میں مبشّر خوشخبری دینے والا اور منذر ڈرانے والا بھیجا ہے۔

رسول خدا ﷺ نے جو اخلاق حسنہ کے کامل ترین مصداق تھے جاہلیت کے معاشرے کو اخلاقی پستی سے نکالنے اور ان کی اصلاح کو اپنی بعثت کے اہداف کا سر نامہ تبلیغ قرار دیا ایسا معاشرہ جس میں جاہل و نادان کی عزت وتکریم کی جوتی تھی اور عالم و دانشمند کو ذلت کی نگا سے دیکھتے تھے جیسے کہ اس خطبہ میں ہم ملاحظہ کرتے ہیں۔کہ

‘‘…بارض عالمہا ملجم وجاہلہا مکرم’’[25]

پیغمبر اسلام کی بعثت اس سر زمین میں ہوئی جس سرزمین پر عالم کو لگام لگی ہوئی تھی اور جاہل محترم تھا اور جنگ وجدال اور معصوم انسانوں کا خون بہانے میں ذرہ بھر شرم محسوس نہیں کرتے تھے اور بچوں کو زندہ درگور کرنا اس معاشرے کا معمول بن چکا تھا ایسے حالات میں پیغمبر اسلام کی بعثت ہوئی۔چنانچہ علی ؑ فرماتے ہیں

…و طول ہجعۃ من الامم واعتزام من الفتن وانتشار من الامور وتلظ من الحروب…[26]

یعنی اللہ نے اپنے بزرگ پیغمبروں کو اس وقت بھیجا جب امتیں خواب غفلت میں پڑی ہوئی تھیں فتنے سر اٹھائے ہوئے تھے اورجملہ امور میں ایک انتشار کی کیفیت تھی اور جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔

4۔عقل کے مخفی اسرار کا انکشاف:

        پیامبران خدا کے فلسفہ بعثت میں سے ایک عقل وخرد کے خزانوں کا انکشاف کرنا ہے انبیا الٰہی نے عقل بشری کو شکوفائی دی اور واضح کردیا کہ عقل ایسی عظیم موجود ہے کہ انسان دوسرے تمام مخلوقات سے اسی عقل کی بنیاد پر ممتاز ہوتا ہے۔

 پہلے خطبے میں امام عالی مقام فرماتے ہیں :

وبشروا لہم دفائن العقول ویروہم آیات المقدرہ…[27]

یعنی خدا نے لوگوں کے درمیان رسولوں کو بھیجا تاکہ لوگوں کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں اور انہیں قدرت الٰہی کی نشانیاں دکھلائیں…۔

اسی انسان کی عقل کی روشنی میں آج مشکل سے مشکل ترین بیماریوں کا علاج ممکن ہوا ہیں اور عصر حاضر کے حیران کن ترقی  کے میدان میں نہ صرف کرہ زمین بلکہ فضا میں بھی انسانوں کی حکمرانی شروع ہوئی ہیں علمی تحقیقات اور جدیدترین انکشافات اس بات کی دلیل ہے کہ انسانی عقل  کمال کی طرف بڑھ رہی ہے یہ تمام چیزین انبیا کی ہی وجہ سے ممکن ہوا ہے ۔مولائے متقیان امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ؑ اسی نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

فہو امام من اتقی وبصیرۃ من اہتدی وسراج مع ضوئہ وشہاب سطح نورہ وزند برق لمعہ…۔[28]

… یعنی پیامبر اسلام اور تمام پیامبران الٰہی اہل تقوی کے امام اور طالبان ہدایت کے لئے سرچشمہٕ بصیرت ہیں وہ ایسا چراغ ہے جس کی روشنی لو دے رہی ہے اور ایسا ستارہ ہے جس کا نور درخشان ہے ایسا چقماق ہے جس کی چمک برق آسا ہے..

نتیجہ:

        خداوند عالم کا یہ قانون ہے کہ وہ راہرو سے پہلے راہبر کو اور ہدایت لینے والوں سے پہلے ہدایت دینے والوں کو بھیجتا ہے اسی قانون کی خاطر سب سے پہلے حضرت آدم کو خلیفہ اور راہنما بنا کر بھیجا اور یہ سلسلہ ختم الرسل مولای کل پیغمبر اسلام تک رہا اور ان کے بعد اسی اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور قیامت تک قائم رکھنے کے لئے سلسلہ امامت کا آغاز فرمایا ۔لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا وند متعال نے انبیاء کرام کو اس لئے بھیجا تاکہ بندگان خدا کو راہ سعادت کی طرف راہنمائی کریں اور کمال تک پہنچائیں اس مقالے میں ہم نے اہداف انبیا کو نہج البلاغہ سے یعنی کلام علی ؑ سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

 حوالہ جات

[1] نہج البلاغہ خطبہ دوم

[2] نہج البلاغہ خطبہ 38

[3] نہج البلاغہ خطبہ 191

[4] نہج البلاغہ حکمت 31

[5] اعراف آیت 133

[6] مفردات مادہ مثل

[7] نہج البلاغہ خطبہ 178

[8]  نحل آیۃ 44

[9] کنز العمال،ج3،ص16

[10] نہج البلاغہ خطبہ 185

[11] نہج البلاغہ خطبہ 33

[12] نہج البلاغہ خطبہ 151

[13]  نہج البلاغہ خطبہ 191

[14] سورہ اسرا /15

[15] نہج البلاغہ خطبہ 83

[16]  نہج البلاغہ خطبہ 86

[17]  نہج البلاغہ خطبہ 161

[18]  سورہ حدید آٓ 25

[19]  نہج البلاغہ خطبہ 192

[20] نہج البلاغہ خطبہ اول

[21] سورہ نحل / 18

[22] نہج البلاغہ خطبہ دوم

[23] نہج البلاغہ خطبہ /4

[24]  سورہ آل عمران آیت 164

[25] نہج البلاغہ خطبہ 2

[26] نہج البلاغہ خطبہ 89

[27]  نہج البلاغہ خطبہ اول

[28]  نہج البلاغہ خطبہ94

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button