نہج البلاغہ مقالات

عشق با علی علیہ السلام اور محسنِ ملتؒ

تحریر: مولانا مقبول حسین علوی دام عزہ

عشق محبتوں کی معراج اور چاہتوں کی انتہا کا نام ہے۔ لسان العرب کے مطابق عشق ”عُجْبُ الْمُحِبِّ بِالْمَحْبُوْبِ“ محب کا محبوب کی وجہ سے خود کو بڑا سمجھنا یا فخر کرنا عشق ہے۔

کسی کی کوئی صفت و فضیلت بھا جائے تو اُس سے عشق ہو جاتا ہے۔ علی علیہ السلام کی ذات وہ ہے جن سے متعلق، محسن ملت نے عبد الباقی العمری کا یہ شعر ”علیٌّ امامٌ“ کے مقدمہ میں لکھا۔

مَا فَرَّقَ اللهُ شَيْئًا فِیْ خَلِیْقَتِہٖ

مِنَ الْفَضَائِلِ اِلَّا عِنْدَكَ اِجْتَمَعَا

اللہ نے اپنی مخلوق کو جو فضائل الگ الگ دیے ہیں وہ آپؑ میں یکجا کر دئے ہیں۔ (صفحہ 6)

فقط یہی نہیں پیغمبر اکرم ﷺ کی حدیث تشبیہ کے مطابق انبیاء علیہم السلام میں پائی جانے والی الگ الگ فضیلتوں کو یک جا دیکھنا ہو تو وہ علی علیہ السلام میں نظر آئیں گی۔

اب پاک فطرت طبیعت کا تقاضا یہی ہے کہ ایسی کامل شخصیت سے عشق ہو۔ اُن پاک فطرت طبیعتوں میں سے ایک ”محسن ملت“ ہیں۔

عشقِ حقیقی کا ثبوت و گواہ تین عمل ہوتے ہیں۔

محبوب و معشوق کی فضیلتوں اور خوبیوں کا بیان۔
محبوب کی زبان یا قلم سے بیان ہونے والی باتوں کو دہراتے رہنا۔
محبوب کے دُکھ سُن کر دُکھی ہو جانا۔

پہلا ثبوت

محبوب کی فضیلتیں

محسن ملت کے عشق علی علیہ السلام کی پہلی علامت امامؑ کے فضائل و عظمت پر لکھی گئی آپ کی پہلی کتاب ”النہج السوی فی معنی المولیٰ والولی“ ہے۔

25 سال کی عمر میں مولا علی علیہ السلام کی سر زمین نجف اشرف میں عربی میں یہ کتاب لکھتے ہیں اور نجف اشرف ہی سے 1388ھ میں شائع ہوتی ہے۔ کتاب کی دنیا سے آشنائی رکھنے والے ہی اس اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں کہ ایک پاکستانی طالب علم کی عربی میں اپنے مولاؑ کی ولایت کے بارے لکھی جانے والی کتاب پرصاحب ”الذریعہ فی تصانیف الشیعہ“ کے مؤلف علامہ شیخ محمد محسن آقا بزرگ طہرانی قدس سرہ اپنے تاثرات لکھتے ہیں۔

محسن ملتؒ کی اس کتاب پر تبصرہ اس وقت مقصود نہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ آپ کا قلم حرکت میں آیا تو مولاؑ کی عظمت و حق ولایت کے اظہار و بیان کے لکھنے سے۔

آپ کلمۃ المؤلف میں لکھتے ہیں: مولیٰ و ولی کا معنی آیات کریمہ اور روایات نبویہ ﷺ میں واضح و ظاہر ہے مگر لوگوں نے اس کی تاویلیں کیں اور اندھے و بہرے ہو کر اس سے رُخ موڑ لیا؟

تصنیف و تالیف کی بنیاد فضائل سے کی اور پھر زندگی میں ”تفسیر الکوثر“جیسی دس جلدوں کی تفسیر قرآن لکھی مگر زندگی کے آخری سالوں میں یعنی پہلی کتاب کے 55 سال بعد رحلت سے تین سال پہلے پھر اپنے مولیٰ کے فضائل پر مشتمل کتاب لکھتے ہیں:

”علی امام بنص صفاتہ و خصائص ذاتہ“
عربی میں لکھی جانے والی یہ کتاب مولائے کائنات امیرالمومنینؑ کی سر زمین نجف اشرف سے ہی شائع ہوئی ہے۔

محسن ملتؒ اپنی اس کتاب علی امامؑ کے صفحہ 7 پر مولاؑ کی عظمت کے بارے میں لکھتے ہیں:

فَعَلِیّ علیہ السلام یفتح عینیہ فی حجر النبی والنبی یُغمض عینیہ فی حجر علی صلوۃ اللّٰہ علیہما و آلھما۔
علی علیہ السلام آنکھیں کھولتے ہیں تو نبی ﷺ کی گود میں اور نبی ﷺ آنکھیں بند کرتے ہیں تو علی علیہ السلام کی گود میں۔

محسن ملتؒ کے قلم سے تحریر شروع ہوتی ہے تو مولاؑ کے فضائل سے اور قلم اپنے کمال کو چھو کر رُکتا ہے تو اپنے امامؑ کی عظمتوں کے بیان پر۔ گویاطتصنیف و تالیف کی ابتداء و انتہاء اس اظہار محبت و عشق پر مبنی ہے۔

تصنیف و تالیف کے ساتھ نجی و عوامی محافل و مجالس میں جب فضائل علی علیہ السلام کی بات آتی تو آنکھوں کی چمک عشقِ علی علیہ السلام کا اظہار کرتی نظر آئی۔

14 نومبر 2019ء جامعۃ الکوثر، اسلام آباد میں مرکز افکار اسلامی کی نہج البلاغہ کی نئی اشاعت کی رونمائی کی تقریب میں نہج البلاغہ سے عظمت اہل بیت علیہم السلام کو یوں بیان فرمایا: نہج البلاغہ میں مولاؑ کا اہل بیتؑ کے سلسلہ میں ایک ارشاد ہے:

فاَنْزِلُوْهُمْ بِاَحْسَنِ مَنَازِلِ الْقُرْاٰنِ۔ (نہج البلاغہ، خطبہ 85)
اہل بیت علیہم السلام کو قرآن کی بہترین منازل پر رکھو۔ احسن کی لفظ قابل توجہ ہے۔ قرآن کی بہترین منازل پر رکھو۔ اہل بیت علیہم السلام عدلِ (ہم پلہ) قرآن ہیں۔

ان فضائل کی ادائیگی کے وقت اِس مفسّر قرآن قدس سرہ کے چہرے کی نورانیت اور لفظوں میں عشق اہل بیت علیہم السلام کی مٹھاس حرف لکھنے سے سمجھ میں نہیں آتی بلکہ ویڈیو موجود ہے۔ چہرے کو دیکھ کر سننے سے واضح ہوتی ہے۔

زندگی کے آخری سال 2023ء مرکز افکار اسلامی کے نہج البلاغہ انعامی مقابلے کی قرعہ اندازی فرماتے ہوئے مولاؑ کی عظمت کو یوں بیان فرمایا:

ہم بھی دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ہم علی علیہ السلام کی معرفت کماحقہ رکھتے ہیں۔ علی علیہ السلام کو اگر مقام شجاعت میں دیکھیں تو کوئی ثانی نہیں، اگر مقام عبادت میں ہیں تو علی علیہ السلام کا کوئی ثانی نہیں، سب سے بڑے عبادت گزار علی علیہ السلام ہیں۔ اگر مقام غریب پروری ہے تو سب سے بڑے رحم دل علی علیہ السلام ہیں۔ اگر ایک شخص شجاع ہے، جری ہے تو وہ سخت دل ہوتا ہے رحم دل نہیں ہوتا، علی علیہ السلام جامع صفات حمیدہ ہیں۔ غریب پروری میں علی علیہ السلام کا کوئی ثانی نہیں۔

آپؑ کی جب حکومت قائم ہوتی ہے سب شعبوں کو دوسروں کے سپرد کیا غریب پروری کو اپنے پاس رکھا، غریب پروری اس دور میں اجناس پہنچانا تھی وہ اپنے پاس رکھی۔ چنانچہ رات کو اپنی پشت مبارک پر سامان اُٹھا اُٹھا کر غریبوں تک پہنچاتے تھے اور لوگوں کو پتہ نہیں چلتا تھا۔ جب آپؑ کی شہادت ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ علی علیہ السلام تھے۔ بہت سی بیواؤں، یتیموں اور مساکین کو اپنی پشت پر سامان اُٹھا کر مدد پہنچائی۔

فضائل کا یہ بیان اظہار محبت و عشق کا ایک بیّن ثبوت ہے جس پر بہت کچھ لکھا اور بیان فرمایا۔

دوسرا ثبوت

”محبوب کی باتوں کو دُہرانا “

محسن ملتؒ کی تحریر ہو یا تقریر، نجی محفل ہو یا عوامی اجتماع کلام علی علیہ السلام خصوصاً نہج البلاغہ میں نقل ہونے والی اپنے مولاؑ کی باتوں کو دہراتے رہتے تھے۔ اپنے مولاؑ کے کلام کے بارے میں مرکز افکار اسلامی کی طرف سے نہج البلاغہ کے عنوان سے منعقدہ ایک نشست میں 2023ء میں فرماتے ہیں:

نہج البلاغہ کیا ہے، نہج البلاغہ ایک معجزہ ہے کلام اللہ کے بعد مخلوق کی کلام سے بالا تر ہے۔ نہج البلاغہ علی علیہ السلام کے معجزات میں سے ایک زندہ معجزہ ہے۔ ایک علمی معجزہ ہے جو ہمارے سامنے ہے اور ہم اُسے نظر انداز کرتے ہیں اہمیت نہیں دیتے۔

اپنی تحریروں میں کہاں کہاں اپنے مولا کی باتوں کو دُہرایا اس پر آپ کے چالیسویں کے موقع پر مرکز افکار اسلامی کی طرف سے 96 صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے۔ ”نہج البلاغہ کے پھول اور محسن ملت کا چمن“۔

اگر محسن ملتؒ کی تحریری خدمات کو دیکھیں تو اُس میں سر فہرست قرآن مجید کا ترجمہ اور دس جلدوں پر مشتمل تفسیر الکوثر، قرآن مجید کے ترجمہ کے مقدمے میں اٹھارہ مقامات پر نہج البلاغہ سے قرآن کی عظمت و اہمیت کے لیے شواہد و دلائل لائے ہیں۔

تیسرا ثبوت

محبوب کے دُکھ پر دُکھی ہو جانا

عشق کا ایک اہم ثبوت معشوق و محبوب کے غم پر غم زدہ ہو جانا ہے اس کی مثال ماں کی وہ محبت ہے کہ بچے کے پاؤں پر چوٹ لگتی ہے ماں اُس چوٹ کی ٹھیس و درد اپنے دل پر محسوس کرتی ہے زبان سے آہ اور آنکھوں سے آنسوں نکل آتے ہیں۔

محسن ملتؒ اس عاشق علی علیہ السلام کی زبان سے اپنے مولا علی علیہ السلام کی مظلومیت کا ذکر بارہا سُنا۔ آواز بھرا جاتی تھی آنکھیں نم ہو جاتی تھیں۔

مرکز فکار اسلامی کی طرف سے نہج البلاغہ کی اشاعت پر کتاب کی رونمائی کی محفل میں جامعۃ الکوثر کے ہال میں خطاب شروع کیا تو فرمایا: کلام بھی مظلوم ہے خود مولاؑ بھی مظلوم ہیں۔ مولاؑ کا فرمان ہے:

اَنَا اَوَّلُ مَنْ یَّجِثُوْ بَیْنَ یَدَی الرَّحْمٰنِ لِلْخُصُوْمَۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
میں وہ پہلا شخص ہوں گا جو قیامت کے دن اللہ کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لیے دو زانوں ہوں گا۔

مولاؑ مظلوم ہیں چاہنے والوں اور نہ چاہنے والوں کے ہاں۔ چاہنے والوں نے حد سے تجاوز کرکے مولا پر ظلم کیا اور نہ چاہنے والوں نے بھی آپ سے روگردانی کرکے، آپؑ کے احکام کی پیروی نہ کرکے ظلم کیا۔ یہ مظلومِ تاریخ علی علیہ السلام ہیں۔ یہی نہج البلاغہ دوسرے لوگ کہتے ہیں یہ شیعوں کی کتاب ہے شیعہ بھی اسے کہاں ہاتھ لگاتے ہیں۔

ایک مظلوم امامؑ اس فرمان سے پتہ چلتا ہے اَنَا اَوَّلُ مَنْ یَّجِثُوْ سب سے پہلے مقدمہ پیش کرنے والے امام۔ اس مظلوم امام کے کلمات و فرامین کو نشر کرنے کی ضرورت ہے۔ (خطاب 14-11-2019 جامعۃ الکوثر اسلام آباد)

نہج البلاغہ انعامی مقابلے جولائی 2023ء کی قرعہ اندازی کے موقع پر فرمایا:
علی علیہ السلام مظلومِ تاریخ ہیں، علی علیہ السلام تاریخ کے سب سے بڑے مظلوم ہیں۔ اس لیے فرمایا: ”اَنَا اَوَّلُ مَنْ یَّجِثُوْ“ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ مظلوم۔ علی علیہ السلام اپنے زمانے ہی میں نہیں آج بھی مظلوم ہیں، نظر انداز ہیں۔ علی علیہ السلام کو پہچانا نہیں گیا ۔ علی علیہ السلام کی معرفت نہیں ہے۔ نہج البلاغہ کو بھی مسلمانوں کے درمیان وہ مقام نہیں مل سکا۔ اُس پر وہ توجہ نہیں دی گئی۔

ہم اپنی کوتاہی کا اعتراف کرتے ہیں اور مولا سے معذرت چاہتے ہیں کہ ہم نہیں کر سکے۔ ہم کو یہ توفیق حاصل نہیں ہوئی (یہ الفاظ کہتے ہوئے آنکھوں میں آنسو دیکھے جا سکتے تھے) کہ آپ کے ان کلمات کو لوگوں تک پہنچائیں۔ نہج البلاغہ لوگوں تک پہنچانا ایک بڑی توفیق ہے۔ (جولائی 2023، جامعہ اہل بیتؑ اسلام آباد)

مرکز افکار اسلامی کے نہج البلاغہ کے ایک پروگرام میں فرمایا:
علی علیہ السلام رسالت مآب ﷺ کے بعد تنہا رہ گئے اور آج بھی تنہا ہیں۔ ہمارے درمیان علی علیہ السلام کے نام کے نعرے بہت ہیں لیکن بدقسمتی سے علی علیہ السلام کی پیروی بہت کم ہے۔ علی علیہ السلام کو پہچانا نہیں گیا۔ علی علیہ السلام کو پہچانا نہیں گیا اور علی علیہ السلام کا نام لیا جاتا ہے بغیر معرفت کے۔
(جامع مسجد امام صادقؑ اسلام آباد)

محسن ملتؒ اپنے بیان میں جہاں مولاؑ کی مظلومیت کو بیان کرتے اور اُس پر دُکھی ہو جاتے وہیں اپنی تحریر میں بھی مولاؑ کی مظلومیت کا بار بار تذکرہ فرماتے۔ قرآن مجید کی تفسیر و ترجمہ میں سورہ حج آیت 19 کے ضمن میں اس حدیث کو درج فرمایا:

اَنَا اَوَّلُ مَنْ یَّجِثُوْ بَیْنَ یَدَی الرَّحْمٰنِ لِلْخُصُوْمَۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
میں وہ پہلا شخص ہوں گا جو حق طلبی کے لیے قیامت کے روز اللہ کے سامنے دو زانو ہوں گا۔
(بلاغ القرآن سورہ حج، آیت 19)

اپنی جوانی میں لکھی گئی کتاب ”النہج السوی فی معنی المولیٰ والولی“ کے تیسرے ایڈیشن کے مقدمے میں اپنے مولاؑ کے دُکھوں اور مظلومیت کو یوں تحریر فرمایا:

وَ اَنْتَ اَوَّلُ مَظْلُوْ مٍ وَ اَنْتَ اَوَّلُ مَنْ یَّجِثُوْ بَیْنَ یَدَی الرَّحْمٰنِ لِلْخُصُوْمَۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
(النہج السوی، صفحہ 15)

پھر نہج البلاغہ میں مولا کے درد بھرے جملوں کو یوں درج فرمایا:

صَبَرتَ صَبَرتَ ” وَ فِی الْعَیْنِ قَذًى،وَ فِی الْحَلْقِ شَجًا“۔ (نہج البلاغہ، خطبہ 3)
آپؑ نے صبر کیا صبرکیا (حالانکہ آنکھوں میں خلش تھی اور حلق میں پھندے تھے)۔
النہج السوی صفحہ 17

نہج البلاغہ ہی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

قُلْتَ یَا مَوْلَایَ (لَقَدْ مَلَئْتُمْ قَلْبِیْ قَیْحًا، وَ شَحَنْتُمْ صَدْرِیْ غَیْظًا، وَ جَرَّعْتُمُوْنِیْ نُغَبَ التَّهْمَامِ اَنْفَاسًا۔ (نہج البلاغہ خطبہ 37)

اور آپؑ نے فرمایا ہے اے میرے مولا تم نے میرے دل کو پیپ سے بھر دیا ہے اور میرے سینے کو غیض و غضب سے چھلکا دیا ہے ۔ تم نے مجھے غم و حزن کے جرعے پے در پے پلائے۔

مقدمہ کے آخر میں ابو محمد صوری کے یہ اشعار لکھے:

وَ عَجِیْبٌ اَنَّ حَقًّا بِکُمْ

قَامَ النَّاسُ وَ فِیْکُمْ لَمْ یَقُمْ

رَکَبُوْا بَحْرَ ضَلَالٍ سَلَمُوْا

فِیْہِ وَالْاِسْلَامُ فِیْہِ مَا سَلَمْ

ثُمَّ کَانَتْ سُنَّۃٌ جَارِیَّۃٌ

کُلُّ مَنْ اَفْکَنَہٗ الظُّلْمُ وَ ظَلَمْ

(النہج السوی، صفحہ 18)

آپؑ کے ذریعہ لوگوں میں جو حق رائج ہوا وہ آپؑ کے بارے اجرا نہ ہو سکا۔ لوگ ضلالت و گمراہی کے سمندرمیں غوطہ زن ہو کر بھی محفوظ رہے مگر اسلام اُن کے ہاتھوں محفوظ نہ رہا پھر یہ رواج بن گیا کہ جس کے لیے آپ پر ظلم ممکن ہوا اُس نے آپؑ پر ظلم کیا۔

محسن ملتؒ اپنی کتاب ”علی امام“ میں جہاں فضائل علی علیہ السلام کے بیان کے ذریعہ اپنی محبت و عشق کا اظہار فرماتے ہیں وہیں درجنوں بار امام کی مظلومیت پر اپنے دُکھ و درد کو بھی پیش فرماتے ہیں۔

کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: وَ صَبَرَ وَ فِی الْعَیْنِ قَذًى،وَ فِی الْحَلْقِ شَجًا۔ (نہج البلاغہ، خطبہ 3)
آپؑ نے صبر کیا جبکہ آنکھوں میں گرد و غبار کی خلش اور گلے میں غم و رنج کے پھندے لگے ہوئے تھے۔

مقدمہ میں ہی لکھتے ہیں:
فَدَیْتُکَ یَا اِمَامَ الْمُجَاھِدِیْنَ الصَّابِرِیْنَ ،اَصَبْرُکَ اَعْظَمُ بَعْدَ الرَّسُوْلِ اَمْ جِھَادُکَ مَعَ الرَّسُوْلِ؟ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْکَ ،اَنْتَ صَبَرْتَ عَلٰی جَوْرِھِمْ وَ ھُمْ لَمْ یَصْبِرُوْا عَلٰی عَدْلِکَ۔ (علی علیہ السلام امام، ص 2)
اے مجاہدین و صابرین کے امام آپ پر جان قربان۔ آیا رسالت مآبؐ کے بعد آپؑ کا صبر بڑا ہے یا رسول اللہؐ کے ساتھ آپؑ کا جہاد؟ پروردگار کے درود و سلام ہوں آپؑ پر، آپؑ نے اُن کے ظلم و جور پر صبر کیا اور وہ آپؑ کی عدالت پر صبر نہ کر سکے۔

مظلومیت امامؑ کے بیان کے لیے ایک باب قائم کیا ۔ ”ضَغَائِنٌ فِی الصُّدُوْرِ“ ”دلوں میں کینے“۔

اس باب میں لکھتے ہیں :

و اِنَّ عَلِیًّاعَلَیْہِ السَّلَامُ قَتَلَ نِصْفَ قَتْلَی الْمُشْرِکِیْنَ یَوْمَ بَدْر ٍ۔
بدر کے دن علی علیہ السلام نے مشرکین کے آدھے سپاہی قتل کیے۔

آپؑ نے بنو امیہ، بنو عبد الدار اور بنو مخزوم کے 35 افراد اکیلے قتل کیے اور جب رسول اللہ ﷺ کی رحلت ہوئی تو اُس تلوار کی وجہ سے جس سے اِن قبیلوں کے آباء و اجداد کی شاہ رگ حیات قطع کی تھی وہ کینے ظاہر ہونا شروع ہوئے جسے خود امام فرماتے ہیں:

اَنَا وَضَعْتُ فِی الصِّغَرِ بِكَلَاكِلِ الْعَرَبِ، وَ كَسَرْتُ نَوَاجِمَ قُرُوْنِ رَبِیْعَةَ وَ مُضَرَ۔ (نہج البلاغہ خطبہ 190، صفحی 558)
میں نے تو بچین ہی میں عرب کا سینہ پیوند زمین کر دیا تھا اور قبیلہ ربیعہ و مضر کے ابھرے ہوئے سینگوں کو توڑ دیا تھا۔

اس باب میں مشرکین کے کینوں کی کئی مثالیں نقل کیں۔ ایک جگہ پر علی علیہ السلام کا فرمان نقل فرمایا: عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں:

میں اور نبیؐ اور علی علیہما السلام مدینہ کے اطراف میں نکلے اور ایک باغ سے گزر ہوا۔ علی علیہ السلام نے کہا یا رسول اللہ ﷺ یہ باغ کتنا خوبصورت ہے۔ آپؐ نے فرمایا: جنت میں آپ کا باغ اس سے بھی اچھا ہے پھر اپنے ہاتھ سے علی علیہ السلام کے سر اور داڑھی کی طرف اشارہ کیا اور پھر رونے لگے اور آپؐ کا گریہ بلند ہوا۔ آپؐ سے کہا گیا کہ کیا چیز رلاتی ہے ؟ فرمایا: امت کے دلوں کا کینہ جسے وہ آپ کے بارے میں اس وقت تک ظاہر نہیں کریں گےجب تک میں اس دنیا سے چلا نہ جاؤں۔ ( امام علیؑ، صفحہ 257)

محسن ملتؒ نے علی علیہ السلام سے بغض و کینہ کے کئی واقعات بیان فرما کر آپؑ کی مظلومیت کو پیش کیا۔

محسن ملت علی علیہ السلام کی مظلومیت کی جس روایت کو اپنی گفتگو میں بار بار بیان فرماتے تھے اُسے متعدد حوالوں سے اپنی کتاب ”علیؑ امام“ میں لکھا۔

صحیح بخاری کے حوالے سے لکھا کہ :

عَنْ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِب ٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَا اَوَّلُ مَنْ یَّجِثُوْ بَیْنَ یَدَی الرَّحْمٰنِ لِلْخُصُوْمَۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (ص۲۶۷)

محسن ملت پھر کتب روایت والوں کی نا انصافی کو بیان کرتےہوئے لکھتے ہیں:
اکثر لکھنے والوں نے اس حدیث کو سورہ حج آیت 19 کے ساتھ جوڑ دیا جو آیت بدر کے جنگ کرنے والوں کے لیے بیان ہوئی ہے اور اس روایت کو بدر کے ساتھ جوڑا گیا تاکہ علی علیہ السلام کے اس مقدمے کو مشرکین بدر کے ساتھ مقدمے کے طور پر پیش کیا جائے اور علی علیہ السلام کے اصل مقدمہ پر پردہ ڈالا جائے جبکہ مذکورہ روایت تمام مصادر میں الگ بیان ہوئی ہے اور بدر والے مبارزین کے بارے نازل ہونے والی آیت الگ بیان ہوئی ہے اور یہ دو الگ حدیثیں ہیں کیونکہ مقدمہ پیش کرنے والی حدیث علی علیہ السلام سے منقول ہے اور آیت والی روایت قیس بن عباس سے نقل ہوئی ہے۔

یہ ہیں مظلومیت علی علیہ السلام کے چند موارد جنہیں شیخ صاحب قدس سرہ نے تفصیل سے بیان کرکے اور اپنے محبوب کے دُکھ و درد بیان کرکے اظہار عشق و محبت کیا۔ پروردگار شیخ الجامعہ قدس سرہ کو اپنے محبوب و معشوق کا قرب نصیب فرمائے۔

مقبول حسین علوی

مرکز افکار اسلامی کے شائع کردہ چند نہج البلاغہ

نہج البلاغہ اردو ترجمہ و حواشی
نہج البلاغہ اردو ترجمہ
نہج البلاغہ انگریزی ترجمہ

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button