مقالاتنہج البلاغہ مقالات

قوموں کے زوال کے اسباب

تحریر: سید محمد کاشف رضا رضوی، یوپی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تمام تعریفیں اس خدا ئے بزرگ کے لئے ہیں جس نے انسان کی تخلیق علقہ سے فرمائی اور درود و سلام ہو حضرت ختمی مرتبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی آل پاک پر اور ان کے دشمنوں پر تا ابد لعنت ہو۔

بعدہ مولا امیر المومنین ؑ کے کلام میں جہاں دنیا کے تمام موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے وہیں قوموں کے زوال کے موضوع کی طرف بھی مولا امیر المومنینؑ نے یا صریحاً گفتگو کی ہے یا اس کی طرف اشارہ کیا ہے اس موضوع میں تین لفظ آئے ہیں قوم، زوال، اور اسباب، قوم اسم جمع ہے قوم کے معنی: انسانوں کا ایک گروہ جو اپنی مخصوص فکر رسم و رواج یا فرہنگ رکھتی ہو یا انسانوں کا فقط ایک گروہ۔ زوال کے معنی ذلت، پستی، یا اپنے مقام و عزت و آبرو کا کھو دینا ہے، اسباب سبب کی جمع ہے سبب کے معنی وجہ اور علت کے ہیں چونکہ مقالہ نہج البلاغہ کی روشنی میں ہونا چاہیے اس لئے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ مولاؑ کیا ارشاد فرماتے ہیں جب آپؑ نہج البلاغہ کی ورق گردانی کریں تو معلوم ہوگا کہ امامؑ نے اس موضوع پرصریحاً گفتگو کی ہے یا آپؑ کے کلام سے اس موضوع کی طرف اشارہ ملتا ہے۔

امیرالمومنینؑ قوموں کے زوال کے سلسلہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’ایہاالناس ! انا قد اصبحنا فی دھر عنود وزمن کنود (شدید)یعد فیہ المحسن مسیئاویزداد الظالم فیہ عتواً لاننتفع بما علمنا ولا نسئال عماجھلنا ولا نتخوف قارعۃً حتیٰ تحل بنا‘‘۔ (۱)
’’ایہا الناس! ہم ایک ایسے زمانے میں پیدا ہوئے ہیں جو سرکش اور ناشکرا ہے یہاں نیک کردار برا سمجھا جاتا ہے اور ظالم اپنے ظلم میں بڑھتا ہی جا رہا ہے نہ ہم علم سے کوئی فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ جن چیزوں سے ناواقف ہیں ان کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور نہ کسی مصیبت کا اس وقت تک احساس کرتے ہیں جب تک وہ نازل نہ ہو جائے‘‘۔

امیر المومنینؑ کے کلام میں کیا بلاغت اور لطف ہے آج اگر ہم اپنے معاشرے کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھیں تو یہ باتیں صاف نظر آ جائیں گی۔ یہاں پر علامہ ذیشان جوادی طاب ثراہ فرماتے ہیں: یہ امیرالمومنینؑ کی زندگی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری کائنات کامسئلہ ہے کہ انسان جس دور کے بھی حالات دیکھتا ہے یہی نقشہ نظر آتا ہے نیک کردار انسانوں کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ ظالموں کی سرکشی بڑھتی جاتی ہے اور قیامت یہ ہے کہ صاحب علم اپنے علم سے استفادہ نہیں کرتا ہے اور جاہل اپنے جہل پر شرمندہ نہیں ہوتا ہے مصیبتوں کے مقابلہ کی تیاری کی طرف سے ہر انسان غافل رہتا ہے اور جب مصیبت نازل ہو جاتی ہے تو فریاد کرنے لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مصیبت بھی اس کی برادری کی کوئی فرد ہے کہ یہ غافل ہو جائے اور یہ احساس کھو بیٹھے تو وہ بھی بے حس ہو جائے‘‘۔

تو آپ نے دیکھا کہ جو قو م سرکش اور نا شکری ہو نیکی کو بدی خیال کرتی ہو ظلم میں بڑھتی جائے علم سے استفادہ نہ کرے جہل پر شرمندہ بھی نہ ہو اور مصیبتوں سے غافل ہو وہ قوم کس طرح ترقی یافتہ ہو سکتی ہے یہ ایک خطبہ کا جز تھا۔ ایک دوسرے خطبہ میں امام علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:

’’واعلموا- رحمکم اللہ- انکم فی زمان القائل فیہ باالحق قلیل، واللسان عن الصدق کلیل واللازم للحق ذلیل اھلہ معتکفون علی العصیان مصطلحون علی الادھان فتاھم عارم وشائبھم آثم عالمھم منافق وقارئھم مماذق لا یعظم صغیرھم کبیرھم ولا یعول غنیم فقیرھم‘‘۔ (۲)
’’(خدا تم پر رحم کرے) یہ یاد رکھو کہ تم اس زمانے میں زندگی گزار رہے ہو جس میں حق کہنے والوں کی قلت ہے اور زبانیں صدق بیانی سے کند ہو گئی ہیں۔ حق سے وابستہ رہنے والا ذلیل شمار ہوتا ہے اور اہل زمانہ گناہ و نافرمانی پر جمے ہوئے ہیں اور ظاہر داری پر متحد ہو گئے ہیں۔ جوان بد خو ہیں، بوڑھے گنہگار ہیں، عالم منافق ہیں اور قاری چاپلوس ہیں، نہ چھوٹے بڑوں کی تعظیم کرتے ہیں اور نہ دولت مند فقیروں کی دستگیری کرتے ہیں‘‘۔

امام علیہ السلام نے اپنے اس کلام میں جن باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ یہ ہیں کہ جس قوم میں حق کہنے والوں کی کمی ہو اور جھوٹ کا بول بالا ہو حق کہنے والا ذلیل ہو اور پوری قوم خدا کی نافرمانی پر تل گئی ہو اور ظاہر داری پر جمی ہو، جوان بدمزاج اور بوڑھوں کا نامہ اعمال گناہوں سے پر ہو، جس قوم کے عالم منافق اور قاری چاپلوس اور چھوٹے بڑوں کا احترام نہ کرتے ہوں اور دولت مند فقیروں کا خیال نہ کرتے ہوں وہ قوم پست ہی ہو سکتی ہے ترقی یافتہ نہیں۔

اس کے بعد دوسری جگہ امام ؑ فرماتے ہیں:
’’قد اصطلحتم علیٰ الغل فیمابینکم ونبت المرعیٰ علیٰ دمنکم و تصافیتم علیٰ حب الامال وتعادیتم فی کتب الاموال لقد استھام بکم الخبیثو تاہ بکم الغرور واللّٰہ المستعان علیٰ نفسی وانفسکم ‘‘۔(۳)
’’مگر تم نے آپس میں کینہ و حسد پر اتفاق کر لیا ہے اور اسی گھورے پر سبزہ اگ آیا ہے اور امیدوں کی محبت میں ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو اور مال جمع کرنے میں ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ شیطان نے تمہیں بہکا دیا ہے اب اللہ ہی میرے اور تمہارے نفسوں کے مقابلہ میں ایک سہارا ہے‘‘۔

یہاں پر بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جس قوم کے دلوں میں کینہ و حسد نے جگہ بنالی ہو، اگر لوگوں کو ایک دوسرے سے امیدیں نہ ہوتیں تو ایک دوسرے سے ہم آہنگی نہ کرتے، اور مال کی لالچ میں جس قوم کے افراد ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں وہ قوم کیا پنپ سکتی ہے؟ کیا اسکی ترقی کا بھی کوئی راستہ ہے؟ بات یہیں تک نہیں رہتی بلکہ امامؑ اپنے کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:

اما بعد! پروردگار نے کسی دور کے ظالموں کی کمر اس وقت تک نہیں توڑی جب تک انہیں ڈھیل نہیں دیدی ہے اور کسی قوم کی ٹوٹی ہوئی ہڈی کو اس وقت تک جوڑا نہیں ہے جب تک اسے مصیبتوں اور بلاؤں میں مبتلا نہیں کیا ہے۔ اپنے لئے تم نے جن مصیبتوں کا سامنا کیا ہے اور جن حادثات سے تم گذر چکے ہو انہیں میں سامان عبرت موجود ہے مگر مشکل یہ ہے کہ ہر دل والا عقلمند نہیں ہوتا ہے اور ہر کان والا سمیع یا ہر آنکھ والابصیر نہیں ہوتا ہے۔

کس قدر حیرت انگیز بات ہے اور میں کس طرح تعجب نہ کروں کہ یہ تمام فرقے اپنے اپنے دین کے بارے میں مختلف دلائل رکھنے کے باوجود سب غلطی پر ہیں کہ نہ نبی کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور نہ ان کے اعمال کی پیروی کرتے ہیں۔ نہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ عیب سے پرہیز کرتے ہیں شبہات پر عمل کرتے ہیں اور خواہشات کے راستوں پر قدم آگے بڑھاتے ہیں ان کے نزدیک معروف وہی ہے جس کو یہ نیکی سمجھیں اور منکر وہی ہے جس کا یہ انکار کردیں۔ مشکلات میں ان کا مرجع خود ان کی ذات ہے اور مبہم مسائل میں ان کا اعتماد صرف اپنی رائے پر ہے۔ گویا کہ ان کا ہر شخص اپنے نفس کا امام ہے اور اپنی ہر رائے کو مستحکم وسائل اور مضبوط دلائل کا نتیجہ سمجھتا ہے۔

یہاں پر علامہ جوادیؒ ارشاد فرماتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی دور کا انسان بھی اگر عبرت حاصل کرنا چاہے تو اس کے لئے ماضی اور مستقبل دونوں عبرت کے آئینہ لئے کھڑے رہتے ہیں مگر افسوس کہ انسان کی آنکھ نہیں کھلتی ہے اور اسے گذشتہ اقوام کی طرح دھوکہ کھانے میں مزہ آتا ہے اور وہ اس فریب کو اپنے لئے غذائے روح تصور کرتا ہے خود اپنے عالم اسلام کو دیکھ لیجئے ابھی انگریزوں کے مظالم سے نجات ملنے نہیں پائی تھی کہ امریکہ کے پنجہ میں جکڑ لئے گئے اور اس طرح کہ اس کی غلامی ہی کو عبدیت پروردگار کی بہترین تمثیل تصور کرنے لگے اور اسی میں نجات آخرت کے خواب دیکھنے لگے۔

یہ نقشہ صرف باطل مذاہب کے افراد کا نہیں ہے بلکہ مذہب حق کے پرستاروں میں بھی ایسے کردار کے افراد مل جائیں گے جو بظاہر تو مذہب حق سے نسبت رکھتے ہیں لیکن حق کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے قرآن ان کے لئے اجنبی کتاب ہے اور سیرت اہل بیت اجنبی کردار۔ ان کی نگاہ میں قرآن اور اہل بیتؑ کا اتباع ان پر واجب نہیں ہے بلکہ ان کی خواہشات کا احترام قرآن و اہل بیت پر فرض ہے۔ مذہب کو مذہب کے نام پر تباہ کر رہے ہیں اور تعلیمات اہل بیتؑ کو محبت کے نام پر برباد کررہے ہیں۔

ظاہر ہے کہ جب ان پر امیرالمومنینؑ کی فریاد کا کوئی اثر نہیں ہے تو کسی اور کے کلام کا کیا اثر ہو سکتا ہے؛ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اس کے بعد دوسرے خطبے میں امت کے سقوط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’وقد ترون عھود اللّٰہ منقوضۃ فلا تغضبون وانتم لنقض ذمم آبائکم وتانفون وکانت امور اللہ علیکم ترد وعنکم تصدر والیکم ترجع فمکنتم الظلمۃ من منزلتکم والقیتم الیھم ازمتکم واسلمتم اموراللہ فی ایدیھم یعملون بالشبھات ویسیرون فی الشھوات وایم اللہ لو فرقوکم تحت کل کوکب لجمعکم اللہ لشر یوم لھم‘‘۔(۴)
’’افسوس کہ تم عہد الٰہی کو ٹوٹتے ہوئے دیکھ رہے ہو اور تمہیں غصہ بھی نہیں آتا جبکہ تمہارے باپ دادا کے عہد کو توڑا جاتا ہے تو تمہیں غیرت آ جاتی ہے ایک زمانہ تھا کہ اللہ کے امور تم ہی پر وارد ہوتے تھے اور تمہارے ہی پاس سے باہر نکلتے تھے اور پھر تمہاری ہی طرف پلٹ کر آتے تھے لیکن تم نے ظالموں کو اپنی منزلوں پر قبضہ دیدیا اور ان کی طرف اپنی زمام امر بڑھادی اور انھیں سارے امور سپرد کر دیے کہ وہ شبہات پر عمل کرتے ہیں اور خواہشات میں چکر لگاتے رہتے ہیں خدا گواہ ہے کہ اگر یہ تمہیں ہر ستارے کے نیچے منتشر کردیں گے تو بھی خدا تمہیں اس دن جمع کر دے گا جو ظالموں کیلئے بد ترین دن ہوگا۔‘‘
جو قوم عہد الٰہی کو توڑنے والی ہو وہ کیونکر نہ زوال پزیر ہوگی عہد الٰہی کے بارے میں اتنا کہنا کافی ہے کہ ’’ان تعبد اللہ ولا تتبع خطوات الشیاطین‘‘۔
جس قوم کی زمام امر خدا کو چھوڑ کر شیاطین و ظالمین کے ہاتھ میں ہو اس قوم کا زوال پزیر ہونا لازمی ہے اس کے بعد جب ہم آپ کے مکتوبات کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو ان مکتوبات میں سے ایک مکتوب میں آپ ابو موسیٰ اشعری سے خطاب کرکے فرماتے ہیں:

’’فان الناس قد تغیر کثیر منھم عن کثیر من حظھم فمالوا مع الدنیا ونطقوا بالھویٰ وانی نزلت من ھٰذاالامر منزلاً معجباً اجتمع بہ اقوام اعجبتھم انفسھم وانا اداوی منھم قرحاً اخاف ان یکون علقاً ‘‘۔ (۵)
’’کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو آخرت کی بہت سی سعادتوں سے محروم ہوگئے ہیں دنیا کی طرف جھک گئے ہیں اور خواہشات کے مطابق بولنے لگے ہیں۔ میں اس امر کی وجہ سے حیرت و استعجاب کی منزل میں ہوں جہاں ایسے لوگ جمع ہو گئے ہیں جنہیں اپنی ہی بات اچھی لگتی ہے میں ان کے زخموں کا مداوا تو نہیں کررہا ہوں لیکن ڈر رہا ہوں کہ کہیں یہ منجمد خون کی شکل نہ اختیار کرلے‘‘۔

اس نامہ میں مولاؑ نے جس بات کی طرف اشارہ کیا ہے وہ کسی بھی قوم کے زوال کے ا سباب ہیں وہ اس قوم کا دنیا سے لگاؤ اور خواہشات کی اتباع ہے۔ ایک دوسرے نامے میں ارشاد ہوتا ہے:

’’فانّما اھلک من کان قبلکم منعوا الناس الحق فاشترو ہ واخذو ہم بالباطل فاقتدوہ‘‘ (۶)
’’تم سے پہلے والے صرف اس بات سے ہلاک ہو گئے کہ انہوں نے لوگوں کے حق روک لیے اور انہیں رشوت دے کر خرید لیا اور انہیں باطل کا پابند بنایا تو سب انہیں کے راستوں پہ چل پڑے‘‘۔

جس قوم کے لوگ دوسروں کے حقوق روک لیں اور رشوت کا بازار گرم ہو وہ قوم ہمیشہ پسماندہ رہے گی۔ اس سلسلے میں مولاؑ اپنے حکیمانہ کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:

’’جاھلکم مزداد وعالمکم مسوف ‘‘۔ (۷)
’’تمہارے جاہلوں کو دولت فراواں دے دی جاتی ہے اور عالم کو صرف مستقبل کی امید دلائی جاتی ہے‘‘۔

جس قوم میں جاہلوں کے پاس مال ودولت زیادہ ہو اور عالم کو صرف مستقبل کی امید ہو ظاہر ہے وہ قوم بھی ترقی یافتہ نہیں بلکہ پسماندہ ہوگی کیونکہ جاہل مال ودولت کو عیش وعشرت میں صرف کرکے ختم کر دے گا اور اگر عالم کے پاس ہو گی تو اس کا درست مصرف کرے گا۔

امیر المومنینؑ جنگ جمل کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کسی بھی قوم کے زوال کے اسباب میں سے ایک سبب کی طرف اشارہ فرمایا ہے امیر المومنینؑ ارشاد فرماتے ہیں:

’’کنتم جند المراۃ واتباع البھیمۃ ؛ رغا فأجبتم ،وعقر فھربتم۔ اخلاقکم دقاق، وعھدکم شقاق، ودینکم نفاق، وماؤکم زعاق۔ والمقیم بین اظھرکم مرتھن بذنبہ، والشاخص عنکم متدارک برحمۃ من ربہ ‘‘۔ (۸)
’’افسوس! تم لوگ ایک عورت کے سپاہی اور ایک جانور کے پیچھے چلنے والے تھے جس نے بلبلانہ شروع کیا تو تم لبیک کہنے لگے اور وہ زخمی ہو گیا تو تم بھاک کھڑے ہوئے۔ تمہارے اخلاقیات پست، تمہارا عہد ناقابلِ اعتبار، تمہارا دین نفاق اور تمہارا پانی شور ہے، تمہارے درمیان قیام کرنے والا گویا گناہوں کے ہاتھوں رہن ہے اور تم سے نکل جانے والا گویا رحمت پروردگار کو حاصل کر لینے والا ہے‘‘۔

یہاں پر علامہ جوادی طاب ثراہ فرماتے ہیں: ’’کس قدر ذلیل ہے وہ انسان جو جانور کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے تیار ہے اور خطیبِ ممبر سلونی کی آواز سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہے ۔ یہ نتیجہ ہے اخلاق کی پستی ، وعدہ اور پیمان میں عہد شکنی اور دین میں نفاق کا‘‘

امیر المومنینؑ نے یہ خطبہ جنگ جمل کے بعد مسجد بصرہ کی دیوار سے ٹیک لگا کر ارشاد فرمایا تھا اور اس خطبے میں اہل بصرہ کی پستیِ کردار کی طرف اشارہ کیا تھا۔ یہ معرکہ، ۱۰جمادی الثانیہ، ۳۶ ہجری کو ظہر کے وقت شروع ہوا اور اسی دن شام کو ختم ہوگیا۔ اس میں امیر المومنینؑ کے بائیس ہزار کے لشکر میں سے ایک ہزار ستر اور دوسری روایت کی بناء پر پانچ سو افراد شہید ہوئے اور عائشہ کے گیارہ ہزار کے لشکر میں پانچ ہزار افراد مارے گئے اور پیغمبر ﷺ کے اس ارشاد کی پوری تصدیق ہو گئی کہ
’’لن یفلح القوم ولو امرھم امرأۃ ‘‘۔ (۹)
’’وہ قوم کبھی کامرانی کامنہ نہیں دیکھ سکتی جس کی قیادت عورت کے ہاتھ میں ہو‘‘۔

شاید رسول ﷺ اس واقعہ کو دیکھ رہے تھے تبھی تو آپؐ یہ جملہ فرما گئے لیکن لوگوں کو پھر بھی ہوش نہ آیا اور رسول ﷺ کی بات ان کے اوپر منطبق ہو گئی۔

امیرالمومنینؑ نے قوموں اور ملتوں کی شکست اور پیروزی کے معیار کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’ایھا الناس لو لم تتخاذلواعن نصر الحق ولم تھنوا عن توہین الباطل لم یطمع فیکم من لیس ملتکم ولم یقو من قوی علیکم لکنکم تھتم متاہ بنی اسرائیل ولعمری لیضعفن لکم التیہ من بعدی اضعافا بما خلفتم الحق ورأ ظہورکم وقطعتم الادنیٰ ووصلتم الابعد واعلموا انکم ان اتبعتم الداعی لکم، سلک بکم منھاج الرسول وکفیتم مؤنۃ الاعتساف، ونبذتم الثقل الفادح عن الاعناق‘‘۔ (۱۰)
ایھا الناس! اگر تم حق کی مدد کرنے میں کوتاہی نہ کرتے اور باطل کو کمزور بنانے میں سستی کا مظاہرہ نہ کرتے تو تمہارے بارے میں وہ قوم طمع نہ کرتی جو تم جیسی نہیں ہے اور تم پر یہ لوگ قوی نہ ہو جاتے، لیکن افسوس کہ تم بنی اسرائیل کی طرح گمراہ ہو گئے اور میری جان کی قسم میرے بعد تمہاری یہ حیرانی اور سرگردانی دو چند ہو جائے گی کہ تم نے حق کو پسِ پشت ڈال دیا ہے، قریب ترین سے قطع تعلق کر لیا ہے اور دور والوں سے رشتہ جوڑ لیا ہے، یاد رکھو کہ اگر تم داعیِ حق کا اتباع کر لیتے تو وہ تمہیں کج روی کی زحمتوں سے بچا لیتا اور تم اس سنگین بوجھ کو اپنی گردنوں سے اتار کر پھینک دیتے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پروردگار نے امت اسلامیہ کو ایک مخصوص کرامت وشرافت اور بلندی عطا فرمائی ہے لیکن اسی کے ساتھ امت کی یہ ذمہ داری قرار دی ہے کہ حق کی نصرت کرتی رہے اور باطل کو کمزور بنانے میں کسی سستی کامظاہرہ نہ کرے ورنہ یہ شرف و اعزاز و احترام سلب بھی ہو سکتا ہے اور اسے بنی اسرائیل جیسی ذلت سے دو چار بھی کیا جا سکتا ہے۔

امت اسلامیہ کی سب سے بڑی کوتاہی یہی تھی کہ اس نے اس شخص کی نصرت سے سرتابی کی جسے مجسمہ حق قرار دیا گیا تھا اور ان افراد کاساتھ دیا جو سراپا باطل تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چودہ صدیوں سے مسلسل ذلت کی شکار ہے اور اس کی عزت وعظمت لفظی بازیگری کے علاوہ کچھ نہیں رہ گئی ہے۔

امیر المومنینؑ نے ہمیں کامیابی اور ناکامی کا ایک معیار عطا فرمایا ہے کہ حق کی نصرت کرنے اور باطل کو کمزور بنانے میں ہی ہر قوم، ہر قبیلہ اور ہر امت کی کامیابی اور عزت ہے ورنہ ذلت و خواری اور پستی کے علاوہ کچھ نہیں۔

حق کاساتھ دینا کامیابی کا سبب اور باطل کا ساتھ دینا ہی زوال اور پستی کی علامت ہے۔ جو مولاؑ کے کلام سے حاصل ہوتی ہے۔ امیر المومنینؑ کے تمام اقوال کا جائزہ لینے کے بعد جو خاکہ ظاہراً قوموں کے زوال کے اسباب کے سلسلے میں نظر آتا ہے وہ اس طرح ہے کہ:

جو قوم سرکش اور ناشکری ہو، نیکی کو بدی تصور کرے، جس کے ظلم میں اضافہ ہو تا جا رہا ہو، علم سے استفادہ نہ کرے اور جہل پر شرمندہ نہ ہو۔ جوقوم حق کہنے سے گریز کرتی ہو، جھوٹ کا بول بالا ہو، پوری قوم خدا کی نافرمانی پر تل جائے، جس قوم کے جوان بد مزاج اور بوڑھے گنہگار ہوں۔

جس قوم میں عالم منافق، قاری چاپلوس، چھوٹے بڑوں کا احترام نہ کرتے ہوں، دولت مند فقیروں کا خیال نہ کرتے ہوں۔
جس قوم کے لوگ حاسد، کینہ ور اور لالچی ہوں اور جو قوم گزشتہ اقوام کے حالات سے عبرت نہ حاصل کرتی ہو۔
جس قوم میں عہدِ الٰہی کو توڑا جا رہا ہو حوس پرستی کی راہ پر گامزن ہو، شبہات پر عمل کرتی ہو۔
جس قوم کی زمامِ امر ظالمین و شیاطین کے ہاتھوں میں ہو، جو قوم دنیا پرست، خواہشات کی اتباع کرنے والی ہو۔
جس قوم میں لوگوں کے حقوق محفوظ نہ ہوں رشوت خوری کا بازار گرم ہو، جس قوم کی قیادت عورت کے ہاتھ میں ہو وہ قوم کس طرح ترقی یافتہ ہو سکتی ہے، کیا اس کے بعد بھی اس کی کامیابی کا کوئی راستہ ہے؟

اگر ہم گزشتہ اقوام کا ایک مختصر جائزہ لیں تو معلوم یہ ہو گا کہ یہ باتیں کس حد تک منطبق ہوتی ہیں۔ اگر ہم قوم نوحؑ کے احوال پر نظر کرتے ہیں تو یہی بات نظر آتی ہے کہ انہوں نے داعیِ حق کی آواز پر لبیک نہیں کہا اور اپنے باطل اور دنیا پرستی پرجمے رہے اور بالآخر ہلاک ہو گئے۔

اس کے بعد قومِ موسیٰؑ (بنی اسرائیل) بھی جناب موسیؑ اور ہارونؑ کی آواز پر لبیک نہ کہنے کی بناء پر ہلاک ہوئی۔ اس کے علاوہ جو ان میں برائیاں تھیں وہ الگ۔ اس کے بعد اگر ہم قوم لوطؑ پر نگاہ کرتے ہیں تو ان کی بھی گمراہی کا سبب ہم جنس پرستی، دنیا پرستی، حق کا ساتھ نہ دینا رہا ہے۔ اگر ہم امت اسلامیہ پر نگاہ ڈالیں تو یہاں بھی وہی تمام خامیاں نظر آجائیں گی جو مولا امیر المومنینؑ کے کلام سے ظاہر ہوئی ہیں۔ اور ان میں سب سے اہم ہے مسئلہ رہبری اور قیادت۔ چونکہ مولاؑ کے کلام اور رسول ﷺ کی حدیث سے یہ بات ظاہر ہو چکی ہے کہ کسی بھی قوم کی کامیابی اور ناکامی کا راز اس کے رہبر اور قائد میں پوشیدہ ہے۔ اگر کسی قوم کا رہبر بے دین اور ظالم ہو تو وہ قوم بھی ویسی ہی شمار کی جائے گی لہٰذا قوموں کے زوال کے اسباب کو ذکر کرنے کے بعد یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ مولا امیر المومنینؑ نے رہبری کے لئے کیا شرائط بیان فرمائے ہیں۔ اور لوگوں کا اجتماعی اخلاق کیسا ہونا چاہیے۔

امیر المومنینؑ رہبری کے شرائط کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’الھم انک تعلم انہ لم یکن الذی کان منا منافسۃ فی سلطان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الیٰ آخر خطبہ (۱۱)
’’خدا تو جانتا ہے کہ میں نے حکومت کے بارے میں جو اقدام کیا ہے اس میں نہ سلطنت کی لالچ تھی اور نہ مالِ دنیا کی تلاش، میرا مقصد صرف یہ تھا کہ دین کے آثار کو ان کی منزل تک پہنچاؤں اور شہروں میں اصلاح پیدا کروں تاکہ مظلوم بندے محفوظ ہو جائیں۔ خدیا! تجھے معلوم ہے کہ میں نے سب سے پہلے تیری طرف رخ کیا ہے اور تیری آواز سنی ہے اور اسے قبول کیا ہے اور تیری بندگی میں رسول اکرم ﷺ کے علاوہ کسی نے بھی مجھ پر سبقت نہیں کی ہے۔

تم لوگوں کو معلوم ہے کہ لوگوں کی آبرو، ان کی جان، ان کے منافع، الٰہی احکام اور امامت مسلمین کا ذمہ دار نہ کوئی بخیل ہو سکتا ہے کہ وہ اموالِ مسلمین پر ہمیشہ دانت لگائے رہے گا، اور نہ کوئی جاہل ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی جہالت سے لوگوں کو گمراہ کردیگا اور نہ کوئی بد اخلاق ہو سکتا ہے کہ وہ بد اخلاقی کے چکر لگاتا رہے گا اور نہ کوئی مالیات کا بددیانت ہو سکتا ہے کہ وہ ایک کو مال دیدے گا اور ایک کو محروم کر دیگا اور نہ فیصلہ میں رشوت لینے والا ہو سکتا ہے کہ وہ حقوق کو برباد کر دے گا اور انھیں ان کی منزل تک نہ پہنچنے دے گا اور نہ کوئی سنت کو معطل کرنے والا ہو سکتا ہے کہ وہ امت کو ہلاک و برباد کر دے گا‘‘۔

اس مقام پر حضرت امیرؑ نے امامت و قیادت کے چند شرائط کا تذکرہ کیا ہے جن کے بغیر امت برباد تو ہو سکتی ہے منزل تک نہیں پہنچ سکتی ہے کاش امت اسلامیہ نے روز اول سے ان شرائط کا لحاظ رکھا ہوتا تو تاریخ خلفاء میں جاہلوں، احمقوں، ظالموں، رشوت خوروں اور بد کرداروں کے نام نہ ہوتے اور امت اسلامیہ کو اقوام عالم کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑتا۔
امیرالمومنینؑ کی ان بے نظیر نصیحتوں کے بعد اب کسی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ خدا میر ی اس سعی ناقص کو قبول فرمائے۔

حوالہ جات
(۱) خطبہ نمبر ۳۲
(۲) خطبہ نمبر ۳ ۲۳
(۳) خطبہ ۱۳۳
(۴) خطبہ نمبر ۱۰۶
(۵) مکتوب نمبر ۷۸
(۶) مکتوب نمبر ۷۹
(۷)کلمہ قصار نمبر ۲۸۳
(۸) خطبہ نمبر ۱۳
(۹) یہ حدیث مولانا مفتی جعفر صا حب کی ترجمہ کی نہج البلاغہ سے لی ہے ۔
(۱۰) خطبہ نمبر ۱۶۶
(۱۱) خطبہ نمبر ۱۳۱

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button