مقالاتنہج البلاغہ مقالات

عدالت علی علیہ السلام

بلال علی ڈار کشمیری (کشمیر ھند)

مقدمہ:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للّہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علیٰ محمّد و ال ِمحمّد

نہج البلاغہ میں جن موضوعات پر سیر بحث ہوئی ہے  ان میں ’’عدالت‘‘ ایک اہم موضوع ہے۔

عدالت کامفہوم یہ ہے کہ ہر شخص کی بنیادی ضرورتوں کو اور اس کی استعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سے اس کا حق دیا جائے, معاشرے کی مثال ایک گاڑی سی ہے کہ جس کا ہر پرزہ اپنی جگہ پر لگا ہوا ہے۔

اگر نہج البلاغہ کا مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ حضرت علی علیہ السلام نے عدالت کے موضوع پر بہت زیادہ روشنی ڈالی ہے اور اس کی اہمیت پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ یقیناً وہ افراد جو اسلام کے علاوہ دوسرے ادیان و مذاہب کی تعلیمات سے آشنائی رکھتے ہیں ان کے لیے یہ بات قابل تعجب ہے کہ دین کا رہبر و پیشوا عدالت کے موضوع پر کیوں اس طرح منہک ہے؟ کیا یہ وہ مسائل نہیں جن کا تعلق دنیا اور دنیوی زندگی سے ہے اور ایک دینی رہبر کا دنیوی زندگی اور اجتماعی مسائل سے کوئی ربط نہیں ہوا کرتا۔

لیکن جو افراد اسلامی تعلیمات سے آشنا ہے ان کے لیے کوئی تعجب نہیں ہوتا۔ چونکہ حضرت علی علیہ السلام کی پوری زندگی ان کے سامنے ہوتی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے پوری زندگی آغوش پیغمبر (ص) میں تربیت پائی۔ بلکہ پیغمبر(ص) نے بچپنے سے ہی حضرت علی علیہ السلام کو اپنے گھر میں پروان چڑھایا، مخصوص تعلیم تربیت سے آراستہ کیا، اسلام کے رموز واسرار ودیعت فرمائے اور اصول و فروع کو رگ و پے میں لہو بنا کر دوڑایا۔

ایسے افراد کے لیے اگر حضرت علی علیہ السلام نے عدالت جیسے مو ضوع پر کچھ ارشاد نہ فرمایا ہوتا تو یہ قابل تعجب ہوتا چونکہ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ

((لَقَدْاَرْسَلْنَارُسُلَنَا بِالْبَیّنَاتِ وَاَنْزَلْنَامَعْہُمُ الْکِتَابَ وَال۔مِیْزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالقِسْط ِ )) (۱)
ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں اور کتاب و میزان کے ساتھ بیھجا ہے تاکہ لوگوں کے درمیان عدالت قائم کریں۔

اس آیہ شریفہ میں تمام انبیاء کی بعثت کامقصد’’قیام عدالت‘‘ کو قرار دیا گیا ہے عدالت اتنا مقدس سرمایہ ہے کہ تمام انبیاء اسی کو فروع دینے کے لیے مبعوث ہوئے۔
انبیاء جو کہ صاحب شریعت ہیں اور آل محمدؐ محافظ شریعت ہونے کے باوجود کیسے ممکن ہے کہ حضرت علی علیہ السلام جیسا انسان جو قرآن کا مفسر، قرآن ناطق اور اسلام کے اصول و فروع کی اہمیت کو نظر انداز کردے۔

معنی عدالت:
عدالت کے معنی لغت میں برابری، برابر کرنے کے ہے۔ اور عرف عام میں عدالت دوسروں کے حقوق کی رعایت کرنا درمقابل ظلم
اصطلاح میں یہ معنی ہے: وضع کُلّ شیئِِ فی موضِعہ (ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا)

اقسام عدالت:
(الف) عدل تکوینی: خداوند متعال ہر مخلوق کو اس کی صلاحیت اور لیاقت کے مطابق عطافرماتا ہے قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ ہمارا پرودگار وہ ہے جس نے ہر شے کو اس کی مناسب خلقت عطا کی اور پھر ہدایت کی۔(۲)
(ب) عدل تشریعی: خداوند پیغمبروں اور دینی قوانین پر مشتمل شریعت کو بھیج کر معنوی کمالات کے حصول کی صلاحیت رکھنے والے انسان کی ہدایت کرتا ہے اور اس پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا۔

یقیناً اللہ عدل اور احسان اور قرابتداروں کو (ان کا حق) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے شاید تم نصیحت قبول کرو۔ (۳)

اسی طرح فریضہ الٰہی کے طاقت سے زیادہ نہ ہونے کے سلسلے میں اشاد ہوا ہے۔ اللہ کسی نفس پر اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ (۴)

عدالت کی اہمیت:
عدالت کی اہمیت کے بارے میں بہت ساری آیات و روایا ت ملتی ہیں۔
پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک رہبر و مسئول لوگوں کے درمیان ایک روز عدالت کے ساتھ رفتار کریں تو اُن ایک سو سال یا پچاس سال کہ جس میں اپنے اھل و عیال کے ساتھ عبادت میں مشغول رہا ہو بہتر ہیں۔(۵)
امیر المئومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ عدالت، ہم لوگوں کی مصلحت اور ہم روش پروردگار ہے۔ اور اسی طرح فرماتے ہیں کہ ’’العدل حیاۃ التبورُ ممات‘‘ عدالت حیات اور ظلم مرگ اجتماع ہے۔
اسلام کی تعلیمات نے سب بے پہلے اپنے عقیدت مندوں کی فکر و نظر کو متاثر کیا اسلام فقط انسانی معاشرے اور کائنات سے متعلق نیا علمی رجحان لے کر نہیں آیا تھا بلکہ اسلامی تعلیمات نے فکر و نظ رکے دھارے کو موڑ دیا تھا۔اسلام کا یہ قدم کسی طرح جہاں و کائنا ت سے متعلق دیے گے نظریات وعلوم سے کم نہیں تھا۔
ہر استاد اپنے شاگردوں کو نئی معلومات فراہم کرتا ہے اور ہر صاحب نظر اپنے پیروکاروں اور اتباع کرنے والوں کے لیے نئی اطلاعات فراہم کرتا ہے لیکن بہت ہی کم ایسے اساتذہ اور صاحبان نظر ہوں گے جنھوں نے اپنے شاگردوں کو جہاں جدید نظر یات و خیالات سے آگہی دی ہو اس کے ساتھ ساتھ ان کے طرزتفکر کو بھی نیا رُخ دیا ہو۔
یہ بات توضیح طلب ہے کہ کیسے منطق اور انداز فکر میں تبدیلی آئی چونکہ انسان مفکّر ہے اس لیے وہ تمام علمی و اجتماعی مسائل میں استدلال کرتے ہوئے خواہ ناخواہ بعض بنیادی اصولوں پر اعتماد کرتا ہے اور پھر نتیجہ نکالتا ہے چونکہ نظریات و طرز تفکّر کا انحصار انہیں اصولوں پر ہوتا ہے جیسے جیسے اصول بدلتے ہیں نظریات میں بھی تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے پھر اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ استدلال اور نتیجہ میں کس قسم کے ا صول پر تکیہ کیا گیا ہے اور یہیں سے تفکّرات اور نتائج اخذ ہوتے ہیں۔
اسلام نے ہر چیز کی حثیتوں کو اجاگر کیا ہے مثلاً تقویٰ کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی اسے بلند مرتبہ دیا ہے اور اس کی بےحد اہمیت کا قائل ہوا۔ اور اس کے بر خلاف قتل و خونریزی خاندانی و نسلی جذبہ برتری جیسی چیز جن کی زیادہ قدر و قیمت تھی ان کو گھٹا کر صفر کی حد تک پہنچا دیا۔ اسلام ہی کے ذریعہ عدالت نے نئی زندگی اور بلند منزلت پائی ہے اسلام نے اس چیز کو نہج البلاغہ میں خود حضرت علی علیہ السلا م کی زبان مبارک سے سنا۔ ایک ذہین نکتہ سنج سائل نے امیرالمئومنین علیہ السلام سے سوال کیا۔ ((اَلْعَدل اَفضَل اَم الجُود)) عدالت افضل ہے یا سخاوت؟ (۶)
اس جگہ انسان کی دو خصلتوں سے متعلق سائل نے امیرالمئومنین علیہ السلام سے سوال کیا ہے۔
انسان ہمیشہ ظلم و ستم سے گریز اور فرار کرتا رہا ہے اور اسی اُمید کے بغیر کسی کے ساتھ نیکی یا احسان کیا ہو۔
یوں اس سوال کا جواب بہت آسان نظر آتا ہے پہلی ہی فکر میں آدمی فیصلہ کرلیتا ہے کہ سخاوت عدالت سے افضل ہے کیونکہ عدالت دوسروں کے حقوق کی ریایت اور ان کی ریایت اور مقرر کردہ حدوں کو تجاوز نہ کرنے کا نام ہے لیکن سخاوت میں انسان اپنے مسلّم حقوق کو دوسروں پر نثار کرتا ہے اس کے بر خلاف جو عدالت سے کام لیتا ہے وہ دوسروں کے حقوق کو نہ خود پامال کرتا ہے بلکہ دوسروں کے حقوق کو پامالی سے بھی بچاتا ہے لیکن جو سخاوت کرتا ہے وہ جذبہ و فداکاری کا اظہار کرکے اپنے ذاتی حق کو دوسروں پر قربان کرکے خود دست بردار ہو جاتا ہے لھٰذا ایسی صورت میں سخاوت و عدالت سے بہتر و بالاتر ہے۔
اگر اخلاقی اور انفرادی معیار پر پَرکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ سخاوت عدالت سے کہیں زیادہ کمال نفس اور ارتقاء روح کا مظہر ہے۔ لیکن حضرت علی علیہ السلام اس کے بر عکس ارشاد فرماتے ہیں کہ عدل دو دلیلوں کی بنا پر سخاوت سے بہتر ہے ۔
(۱)۔((اَلْعَدْلُ یَضَعُ الْا ُمُوْرَ مَوَا ضِعَھَا‘ وَالْجُو دُ یُخْرِجُھَا مِنْ جَھْتِھَا)) عدالت کے ذریعہ نظام پر محل انجام پاتے ہیں اور سخاوت نظام ہستی کا رُخ موڑ دیتی ہے۔(۷)
(۲)۔((اَلْعَدْلُ سَائِسُ عَامُّ ‘ وَالْجُودُ عارِضُ خَاصُ)) عدالت اس عام قانون اور ہمہ گیر ضابطے کو کہتے ہیں کہ جس کی گرفت میں پورا معاشرہ ہے اور اس عظیم شاہراہ پر گامزن رہنا چاہے!

امیر المئومنین علیہ السلام اس کے بعد فرماتے ہیں کہ
((فاَلْعَدْلُ اَشرُ فُھُمَا وَ اَفْضَلُھُمَا)) لھٰذا عدل سخا وت سے بہتر وبرتر ہے۔ (۸)

حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں عدالت ہی وہ اصل ہے جس کے ذریعہ اجتماع کے نظم و نسق کی بقاء اور لوگوں کی رضامندی معاشرے سے پیکر کی سلامتی اور اجتماعی روح کو سکون ملتا ہے۔ ظلم و جور اور طبقاتی نظام سے خود ظالم اور اس انسان کی روح کو کبھی کبھی سکون نہیں مل سکتا ہے کہ جس کے فائدہ کے لیے ظلم کیا گیا ہے پس مظلوم اور غریبوں کو کیسے سکون و آرام مل سکتا ہے۔ عدالت ایک عام شاہراہ ہے کہ تمام لوگ اس سے بآسانی گزر سکتے ہیں ظلم وجور ایسی پُر پیچ اور خطرناک راہ ہے کہ جس سے ظالم و ستمگر بھی اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔

عدالتِ علی علیہ السلام:
حضرت امیرالمئومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے عدل کی یہ کیفیت تھی کہ مال سب کو مساوی تقسیم فرماتے ۔ آنحضرت ؐ کا ارشاد آپ کے حق میں ہے کہ  ’’وَاقْسمھم بالسوریۃ‘‘(۹)
امام شبعی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس دیکھی آپ اس کو قاضی شریح کے پاس لے گیے اور خود فرش کے کنارے بیٹھ گئے فرمایا کہ اگر میرا مدعا علیہ مسلمان ہوتا تو میں بھی اس کے برابر کھڑا ہو جاتا یہ کہہ کر آپ نے فرمایا کہ یہ زرہ میری ہے یہودی نے انکار کیا۔ قاضی شریح نے گواہ طلب کیے آپ نے امام حسنؑ اور قنبر کو پیش کیا مگر قاضی شریح نے قبول نہ کیا اور دلیل طلب کی۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ کوئی دلیل نہیں قاضی نے یہودی کے موافق فیصلہ کر دیا۔ حضرت علی علیہ السلام نے خاموشی اختیار کی۔ وہ یہودی زِرہ لیکر کچھ دور جانے کے بعد پھر واپس پلٹا اور کہنے لگا کہ میں اس امر کی گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اوراس امر کی شھادت دیتا ہوں کہ یہ انبیاء کے احکام ہیں کہ حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام ایسا شخص مجھ کو قاضی کے سامنے لائے کہ قاضی اس پر قضا جاری کرے میں اقرار کرتا ہوں کہ یہ زِرہ جنگ صفین میں علیؑ سے گرپڑی تھی۔ حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام اُس یہودی کے مسلمان ہو جانے سے بہت خوش ہوئے اور زِرہ اسی کو بخش دی اور ایک گھوڑا بھی عنایت کیا وہ یہودی حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ رہ کر جنگ نہروان میں شہید ہوا(۱۰)
خلیفہ سوم عثمان بن عفان نے جب اپنی خلافت کے دوران مسلمانوں کے اموال کو اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردیا اور ان کے بعد جب حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے خلافت کی باگ دوڑ سنبھالی تو آپ سے گزارش کی گئ کہ گزری ہوئی باتوں پر توجہ نہ دیں اور نہ اس کو چھیڑیں بلکہ اپنی کوششوں کو ان حادثات پر صرف فرمائیں جو آپ کی خلافت کے زمانے میں پیش آنے والے ہیں تو آپ نے ان کے جواب میں میں فرمایا کہ (( اَلْحَق القَدِیم لا یبطلہ شئی )) حق قدیم اور پُرا نہ ہونے کی وجہ سے کبھی باطل نہیں ہوتا۔
’’خدا کی قسم اگر کسی نے بیت المال سے اپنی شادی کی ہو یا کنیزیں خریدی ہو تو بھی میں اسے بیت المال میں پلٹا دوں گا‘‘ (خطبہ ۱۵) اور اس کے بعد فرماتے ہیں کہ
((فَاِنَّ فِی الْعَدْلِ سَعَۃًوَ مَنْ ضَا قَ عَلَیْہِ الْعَدْلُ‘فَالْجُورُ عَلَیْہِ اَضْیَقُ )) (۱۱)
عدالت میں ہی آسانیاں ہیں جس پر عدالت سخت ودشوار ہوگی پھر ظلم و زیادتی تو اس پر دشوار تر ہوجائے گی۔

عدالت  کو ایک حصار محکم سمجھنا چایئے اور اس کی حدوں کا پاس ولحاظ بھی رکھنا چایئے۔
اگر خدا نخواستہ اس کی حدیں ٹوٹ گیں اور اس میں کسی اور چیز کی آمیزش ہوگئ تو پھر کوئی قانون محفوظ نہیں رہ سکتا اور ایسی صورت میں طبیعت کے تقاضوں اور شہوت کی پیاس بجھانے کے لیے دوسری حدوں کا تشنہ ہوگا اور نتیجہ میں ناراضگی کا احساس زیادہ کرنے لگے گا۔

عدالت، علی علیہ السلام کی نگاہ میں:
حضرت علی علیہ السلام عدالت کو ایک وظیفہ الٰہی بلکہ ناموس الٰہی سمجھتے ہیں اور آپ کو ہرگز گوارہ نہیں کہ اسلامی تعلیمات سے آگاہ مسلمان طبقاتی نظام اور بے عدالتی کو تماشائی بنا دیکھتا رہے۔
امیرالمئومنین علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں خدا کی قسم! مجھے کانٹوں پر جاگتے ہوئے رات گزانا اور طوق و زنجیر میں مقید ہو کر گھسیٹا جانا اس سے کہیں زیادہ پسند ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے اس حالت میں ملاقات کروں کہ میں نے کسی بندے پر ظلم کیا ہو یا مال دنیا میں سے کوئی چیز غصب کی ہو۔ میں اس نفس کی خاطر کیونکر کسی پر ظلم کرسکتا ہوں جو جلد ہی فنا کی طرف پلٹنے والا اور مدتوں تک مٹی کے نیچے پڑا رہنے والا ہے۔
اور اسی طرح خطبہ شقشقیہ میں گزشتہ غم انگیز سیاسی حالات کو بیان فرماتے ہیں کہ جب حالات نے پلٹا کھایا تو لوگ قتل عثمان کے بعد آپ کے پاس آئے اور خلافت قبول کرنے کے لیے اصرار کر نے لگے گزشتہ دردناک واقعات اور موجودہ زمانہ کے ناگفتہ بہ حالات کو دیکھتے ہوئے آپ اس سنگین ذمہ داری کو قبول کرنا نہیں چاہتے تھے لیکن اگر آپ خلافت کو قبول نہ کرتے تو (ایک طرف) حقائق پامال ہو جاتے اور لو گ کہتے کہ علی کو پہلے سے ہی خلافت کی رغبت نہیں تھی اور آپ کی نگاہ میں اس کی کو اہمیت نہیں تھی تو (دوسری طرف) اسلام اس بات کی اجازت بھی نہیں دیتا کہ معاشرے میں ایک ظالم شکم پری کی بنا پر ناراض اور دوسری مظلوم و ستم دیدہ گرسنگی کی وجہ سے پریشان ہو۔ ایسی صورت میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تماشائی بنا رہے لہذا آپ نے اس ذمہ داری کو قبول کر لیا۔
امیر المئو منین علیہ السلام خطبہ شقشقیہ میں اس کی طرف یو ں اشارہ کر ہے ہیں کہ

لَوْلَا حُضُوْرُالْحَاضِرِ‘ قیامُ الُحُجّۃِ بِوُ جُودِ النَّاصِرِ ‘وَمَااَخَذَاللّٰہُ عَلیَ العُلَمآئِ اَلَّا یُقارُّوا علیٰ کظِّۃِ ظالِمِِ‘ وَلَا سَغَبَ مَظلُومِِ‘لَا لَقیتُ حَبلھا علی غَارِ بِھا ‘وَکسقَیتُ آخرَ ھَابِکاسِ اوَّلھا ‘‘(۱۲)
اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کر نے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو خدا نے علی سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کہ شکم پُری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و اطمینان سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ دوڑ اس کے کاندھے پر ڈال دیتا اور روز اوّل کی مانند ایک گو شہ میں بیٹھ جاتا۔

عدالت علی علیہ السلام و حکومت:
حضرت علی علیہ السلام نے بھی خدا کے نمائندوں کی طرح اپنے ہر حکومتی کارندے کی سخت مذمت فرمائی جس کا مقصد جاہ طلبی اور تشکیل پانے والی حکومت کی اہمیت نہیں بلکہ ایسی حکومت کو اس کے سارے رزق و برق کے باوجود سور کی اس ہڈی سے زیادہ پست تعبیر کیا ہے جو کسی مجذوم میں ہو۔
لیکن اگر یہی حکومت و ریاست اپنے حقیقی اور اصلی محور و مرکز پر ہو یعنی اس کے ذریعہ معاشرہ میں عدالت کو رواج دیا جا رہا ہو، حق کا و بول بالا ہو اور معاشرے کی خدمت کی جا رہی ہو تو ایسی حکومت حضرت علی علیہ السلام کی نگاہ میں نہایت مقدس ہے اور آپ کی یہی کو شش تھی کہ ایسی حکومت ان کے حریف و رقیب اور مفاد پرست و فرصت طلب افراد تک نہ پہچنے پائے آپ نے ایسی حکومت کی بقاء و حفاظت اور سرکشوں کی سر کوبی کے لیے تلوار اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کیا۔
حضرت علی علیہ السلام کے زمانے میں ابن عباس حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت علی علیہ السلام اس وقت اپنی بوسیدہ نعلین میں ٹانکے لگا رہے تھے حضرت نے ابن عباس سے پوچھا اے ابن عباس یہ بتاؤ ہماری اس نعلین کی کیا قیمت ہے؟ ابن عباس نے عرض کی مولا کوئی قیمت نہیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ میری نگاہ میں یہ نعلین تم لوگوں پر کی جانے والی حکومت سے بہتر ہے مگر یہ کہ میں اس حکومت کے ذریعہ عدالت کا اجرا کر سکوں، صاحب حق کو حق دلا سکوں اور باطل کو نا بود کر سکوں۔
نتیجہ:
جب مولائے کائنات امیرالمئومنین علی علیہ السلام نے حکومت کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لی اور آپ کی عادلانہ روش کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے ہی رنجش سے ارباب سیاست کے دلوں میں قہری طور پر رنجش پیدا ہو گئ اور اس رنجش کا نتیجہ یہ ہوا کہ تخریب کاری کی جانے لگی اور حکومت کے لیے درد سر ایجاد کیا جانے لگا۔ خیر خواہ دوست آپ کی خدمت میں آئے اور نہایت خلوص اور خیر خواہی کے ساتھ التماس کرنے لگے کہ آپ اہم سیاسی مصلحتوں کی خاطر اپنی سیاست میں کچھ نرمی لائیں اور اس قسم کی مشکلات سے اپنے کو بچائیں، ٹکڑا دے کہ ان کا منہ بند کر دینا بہتر ہے اس لیے کہ یہ تخریب کار ہیں ان سے بعض خلیفہ اوّل کے نمک خوار ہیں آپ کا مقابلہ معاویہ ایسے دشمن سے ہے جس کے قبضہ میں شام جیسا زرخیز علاقہ ہے مصلحت اسی میں ہے کہ عدالت جیسے موضوع کو نہ چھڑا جائے۔ حضرت امیر المئومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے جواب میں ارشاد فرمایا:

’’ اَتَامُرُونّیِ اَن اَطلُبَ النَّصرَ بِا لجَورِفِیمَن وُلِّیت ُ عَلیہِ لَا اَطُورُ سَمِیر ‘وَما اَمّ نَجمُ فی السّما ئِ نجمًا ‘لو کانَ المالُ لی لسَوّیتُ بَینھم ‘ فَکیفَ وَ اِنّماالمالُ مالُاللّہِ‘‘(۱۳)
کیا تم لوگ مجھ سے یہ توقع رکھتے ہو کہ خلافت کی خاطر نزاد پرستی و ظلم و زیادتی کروں مجھ سے یہ اُمید نہ رکھے ہوئے ہو کہ عدالت و انصاف کو خلافت و حکومت کی بھیٹ چڑھا دوں خدا کی قسم جب تک دنیا کا قصّہ جاری ہے اور تاروں میں کشش باقی ہے میں ہر گز یہ نہ کروں گا میں اور طبقاتی نظام؟ میں اور ’’عدالت‘‘ کی پائمالی؟ اگر میرا ذاتی مال ہوتا جسے رنج و مشقّت سے کمایا ہوتا تو بھی ایک دوسرے میں امتیاز قائم نہ کرتا چہ جائیکہ یہ مال تو خداوند عالم کا ہے اور میری حیثیت فقط ایک امانت دار کی سی ہے۔

امیرالمئومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام خداوند عالم کی بارگاہ میں اس طرح اپنی عدالت کو بیان فرما رہے ہیں کہ بارالٰہا! تو خوب جانتا ہے کہ جو کچھ ہم سے (جنگ و صلح کی صورت میں) ظاہر ہوا اس لیے نہیں تھا کہ ہمیں تسلط یا اقتدار کی خواہش تھی یا مال کی طلب تھی بلکہ یہ اس لیے تھا کہ ہم دین کے نشانات کو (پھر اُن کی جگہ پر) پلٹائیں اور تیرے شہروں میں امن و بہبودی کی صورت میں پیدا کریں تاکہ تیرے ستم رسیدہ بندوں کو کوئی کھٹکا نہ رہے اور تیرے وہ احکام (پھر سے) جاری ہوجائیں جنھیں بیکار بنا دیا گیا ہے۔
اے اللہ! میں پہلا شخص ہوں جس نے تیری طرف رجوع کیا اور تیرے حکم کو سن کر لبیک کہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم کے علاوہ کسی نے بھی نماز پڑھنے میں مجھ پر سبقت نہیں کی۔
خداوند متعال سے دعا ہے کہ ہمیں امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے اور عدالت کو صحیح معنوں میں اجرا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

حوالہ جات:
۱۔ سورہ الحدید۲۵
۲۔ سورہ طہٰ آیہ ۵۰
۳۔ سورہ النحل آیہ ۹۰
۴۔ سورہ مومنون آیہ ۶۲
۵۔ جامع السّعادات جلد ۲صفحہ ۲۲۳
۶۔ نہج البلاغہ حکمت۴۳۷
۷۔ نہج البلاغہ حکمت ۴۳۷
۸۔ نہج البلاغہ حکمت۴۳۷
۹۔ کنزالعمال جلد ۶صفحہ ۲۵۱
۱۰۔ بنابیع المودۃ صفحہ ۲۹۰منقول از الصواعق المحرقہ
۱۱۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۵
۱۲۔ نہج البلاغہ خطبہ۳ شقشقیہ
۱۳۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۶

بلال علی ڈار کشمیری (کشمیر ھند)
مدرسہ علمیہ امام خمینیؒ قم المقدسہ ایران

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button