خطبات

خطبہ (۱۱۳)

(۱۱٢) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۱۲)

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الْوَاصِلِ الْحَمْدَ بِالنِّعَمِ، وَ النِّعَمَ بِالشُّكْرِ، نَحْمَدُهٗ عَلٰۤی اٰلَآئِهٖ كَمَا نَحْمَدُهٗ عَلٰی بَلَآئِهٖ، وَ نَسْتَعِیْنُهٗ عَلٰی هٰذِهِ النُّفُوْسِ الْبِطَآءِ عَمَّا اُمِرَتْ بِهٖ، السِّرَاعِ اِلٰی مَا نُهِیَتْ عَنْهُ، وَ نَسْتَغْفِرُهٗ مِمَّاۤ اَحَاطَ بِهٖ عِلْمُهٗ، وَ اَحْصَاهُ كِتَابُهٗ، عِلْمٌ غَیْرُ قَاصِرٍ، وَ كِتَابٌ غَیْرُ مُغَادِرٍ، وَ نُؤْمِنُ بِهٖ اِیْمَانَ مَنْ عَایَنَ الْغُیُوْبَ وَ وَقَفَ عَلَی الْمَوْعُوْدِ، اِیْمَانًا نَّفٰۤی اِخْلَاصُهٗ الشِّرْكَ، وَیَقِیْنُهُ الشَّكَ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جو حمد کا پیوند نعمتوں سے اور نعمتوں کا سلسلہ شکر سے ملانے والا ہے۔ ہم اس کی نعمتوں پر اسی طرح حمد کرتے ہیں جس طرح اس کی آزمائشوں پر ثنا و شکر بجا لاتے ہیں اور ان نفسوں کے خلاف اس سے مدد مانگتے ہیں کہ جو احکام کے بجا لانے میں سست قدم اور ممنوع چیزوں کی طرف بڑھنے میں تیز گام ہیں۔ اور (ان گناہوں سے) مغفرت چاہتے ہیں کہ جن پر اس کا علم محیط اور نامۂ اعمال حاوی ہے۔ نہ علم کوئی کمی کرنے والا ہے اور نہ نامۂ اعمال کسی چیز کو چھوڑنے والا ہے۔ ہم اس شخص کے مانند اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ جس نے غیب کی چیزوں کو (اپنی آنکھوں سے) دیکھ لیا ہو اور وعدہ کی ہوئی چیزوں سے آگاہ ہو چکا ہو۔ ایسا ایمان کہ جس کے خلوص نے شرک کو اور یقین نے شک کو دور پھینک دیا ہو۔

وَ نَشْهَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِیْكَ لَهٗ، وَ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَ رَسُوْلُهٗ، شَهَادَتَیْنِ تُصْعِدَانِ الْقَوْلَ، وَ تَرْفَعَانِ الْعَمَلَ، لَا یَخِفُّ مِیْزَانٌ تُوْضَعَانِ فِیْهِ، وَ لَا یَثْقُلُ مِیْزَانٌ تُرْفَعَانِ عَنْهُ.

اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں جو وحدہٗ لاشریک ہے اور یہ کہ محمد ﷺ اس کے عبد اور رسول ہیں۔ یہ دونوں شہادتیں (اچھی) باتوں کو اونچا اور (نیک ) اعمال کو بلند کرتی ہیں۔ جس ترازو میں انہیں رکھ دیا جائے گا اس کا پلہ ہلکا نہیں ہو گا اور جس میزان سے انہیں الگ کر لیا جائے گا اس کا پلہ بھاری نہیں ہو سکتا۔

اُوْصِیْكُمْ عِبَادَ اللهِ بِتَقْوَی اللهِ الَّتِیْ هِیَ الزَّادُ وَ بِهَا الْمَعَادُ، زَادٌ مُّبَلِّغٌ وَّ مَعَادٌ مُّنْجِحٌ، دَعَاۤ اِلَیْهَاۤ اَسْمَعُ دَاعٍ، وَ وَعَاهَا خَیْرُ وَاعٍ، فَاَسْمَعَ دَاعِیْهَا، وَ فَازَ وَاعِیْهَا.

اے اللہ کے بندو! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ اس لئے کہ یہی تقویٰ زاد راہ ہے اور اسی کو لے کر پلٹنا ہے۔ یہ زاد (منزل تک) پہنچانے والا اور یہ پلٹنا کامیاب پلٹنا ہے۔ اس کی طرف سب سے بہتر سنا دینے والے نے دعوت دی اور بہترین سننے والے نے اسے سن کر محفوظ کر لیا۔ چنانچہ دعوت دینے والے نے سنا دیا اور سننے والا بہرہ اندوز ہو گیا۔

عِبَادَ اللهِ! اِنَّ تَقْوَی اللهِ حَمَتْ اَوْلِیَآءَ اللهِ مَحَارِمَهٗ، وَ اَلْزَمَتْ قُلُوْبَهُمْ مَخَافَتَهٗ، حَتّٰۤی اَسْهَرَتْ لَیَالِیَهُمْ، وَ اَظْمَاَتْ هَوَاجِرَهُمْ، فَاَخَذُوْا الرَّاحَةَ بِالنَّصَبِ، وَ الرِّیَّ بِالظَّمَاِ، وَ اسْتَقْرَبُوْا الْاَجَلَ فَبَادَرُوا الْعَمَلَ، وَ كَذَّبُوا الْاَمَلَ فَلَاحَظُوا الْاَجَلَ.

اللہ کے بندو! تقویٰ ہی نے اللہ کے دوستوں کو منہیات سے بچایا ہے اور ان کے دلوں میں خوف پیدا کیا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی راتیں جاگتے اور تپتی ہوئی دوپہریں پیاس میں گزر جاتی ہیں اور اس تعب و کلفت کے عوض راحت (دائمی) اور اس پیاس کے بدلہ میں (تسنیم و کوثر سے) سیرابی حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے موت کو قریب سمجھ کر اعمال میں جلدی کی اور امیدوں کو جھٹلا کر اجل کو نگاہ میں رکھا۔

ثُمَّ اِنَّ الدُّنْیَا دَارُ فَنَآءٍ وَّ عَنَآءٍ، وَ غِیَرٍ وَّ عِبَرٍ:

پھر یہ دنیا تو فنا اور مشقت، تغیر اور عبرت کی جگہ ہے:

فَمِنَ الْفَنَآءِ اَنَّ الدَّهْرَ مُوَتِّرٌ قَوْسَهٗ، لَا تُخْطِئُ سِهَامُهٗ، وَ لَا تُؤْسٰی جِرَاحُهٗ، یَرْمِی الْحَیَّ بِالْمَوْتِ، وَ الصَّحِیْحَ بِالسَّقَمِ، وَ النَّاجِیَ بِالْعَطَبِ، اٰكِلٌ لَّا یَشْبَعُ، وَ شَارِبٌ لَّا یَنْقَعُ.

چنانچہ فنا کرنے کی صورت یہ ہے کہ زمانہ اپنی کمان کا چلہ چڑھائے ہوئے ہے جس کے تیر خطا نہیں کرتے اور نہ اس کے زخموں کا کوئی مداوا ہو سکتا ہے، زندہ پر موت کے، تندرست پر بیماری کے اور محفوظ پر ہلاکت کے تیر چلاتا رہتا ہے۔ وہ ایسا کھاؤ ہے کہ سیر نہیں ہوتا اور ایسا پینے والا ہے کہ اس کی پیاس بجھتی ہی نہیں۔

وَ مِنَ الْعَنَآءِ اَنَّ الْمَرْءَ یَجْمَعُ مَا لَا یَاْكُلُ، وَ یَبْنِیْ مَا لَا یَسْكُنُ، ثُمَّ یَخْرُجُ اِلَی اللهِ، لَا مَالًا حَمَلَ، وَ لَا بِنَآءً نَقَلَ.

اور رنج و تعب کی صورت یہ ہے کہ انسان مال جمع کرتا ہے لیکن اس میں سے کھانا اسے نصیب نہیں ہوتا، گھر بناتا ہے مگر اس میں رہنے نہیں پاتا اور پھر اللہ کی طرف اس طرح چل دیتا ہے کہ نہ مال ساتھ اٹھا کر لے جا سکتا ہے اور نہ گھر ہی ادھر منتقل کر سکتا ہے۔

وَمِنْ غِیَرِهَا اَنَّكَ تَرَی الْمَرْحُوْمَ مَغْبُوْطًا، وَ الْمَغْبُوْطَ مَرْحُوْمًا، لَیْسَ ذٰلِكَ اِلَّا نَعِیْمًا زَلَّ،وَ بُؤْسًا نَزَلَ.

اور اس کے تغیّر کی یہ حالت ہے کہ تم ایک ایسے شخص کو دیکھتے ہو جس کی حالت قابل رحم ہوتی ہے اور وہ (دیکھتے ہی دیکھتے)اس قابل ہو جاتا ہے کہ اس پر رشک کھایا جائے اور قابل رشک آدمی کو دیکھتے ہو کہ (چند ہی دنوں میں) اس کی حالت پر ترس آنے لگتا ہے۔ اس کی یہی وجہ تو ہے کہ اس سے نعمت جاتی رہی اور اس پر فقر و افلاس ٹوٹ پڑا۔

وَ مِنْ عِبَرِهَا اَنَّ الْمَرْءَ یُشْرِفُ عَلٰۤی اَمَلِهٖ فَيَقْطَعُهٗ حُضُوْرُ اَجَلِهٖ، فَلَاۤ اَمَلٌ یُّدْرَكُ، وَ لَا مُؤَمَّلٌ یُّتْرَكُ.

اور اس سے عبرت حاصل کرنے کی صورت یہ ہے کہ انسان اپنی امیدوں کی انتہا تک پہنچنے والا ہی ہوتا ہے کہ موت پہنچ کر امیدوں کے سارے بندھن توڑ دیتی ہے۔ اس طرح نہ امیدیں بر آتی ہیں اور نہ امیدیں باندھنے والا ہی باقی چھوڑا جاتا ہے۔

فَسُبْحَانَ اللهِ! مَاۤ اَغَرَّ سُرُوْرَهَا! وَ اَظْمَاَ رِیَّهَا! وَ اَضْحٰی فَیْئَهَا! لَا جَآءٍ یُّرَدُّ، وَ لَا مَاضٍ یَّرْتَدُّ. فَسُبْحَانَ اللهِ! مَاۤ اَقْرَبَ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ لِلَحَاقِهٖ بِهٖ، وَ اَبْعَدَ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ لِانْقِطَاعِهٖ عَنْهُ.

اللہ اکبر! اس دنیا کی مسرت کی فریب کاریاں اور اس کی سیرابی کی تشنہ کامیاں کتنی زیادہ ہیں اور اس کے سایہ میں دھوپ کی شرکت کتنی زیادہ ہے۔ نہ آنے والی (موت) کو پلٹا یا جا سکتا ہے اور نہ جانے والا پلٹ کر آ سکتا ہے۔ سبحان اللہ! زندہ مُردوں سے انہی میں مل جانے کی وجہ سے کتنا قریب ہے اور مُردہ زندوں سے تمام تعلقات کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے کس قدر دور ہے۔

اِنَّهٗ لَیْسَ شَیْءٌۢ بِشَرٍّ مِّنَ الشَّرِّ اِلَّا عِقَابُهٗ، وَ لَیْسَ شَیْءٌۢ بِخَیْرٍ مِّنَ الْخَیْرِ اِلَّا ثَوَابُهٗ، وَ كُلُّ شَیْءٍ مِّنَ الدُّنْیَا سَمَاعُهٗ اَعْظَمُ مِنْ عِیَانِهٖ، وَ كُلُّ شَیْءٍ مِّنَ الْاٰخِرَةِ عِیَانُهٗ اَعْظَمُ مِنْ سَمَاعِهٖ، فَلْیَكْفِكُمْ مِنَ الْعِیَانِ السَّمَاعُ، وَ مِنَ الْغَیْبِ الْخَبَرُ.

بیشک کوئی بدی سے بدتر شے نہیں سوا اس کے عذاب کے اور کوئی اچھائی سے اچھی چیز نہیں سوا اس کے ثواب کے۔ دنیا کی ہر چیز کا سننا اس کے دیکھنے سے عظیم تر ہے، مگر آخرت کی ہر شے کا دیکھنا سننے سے کہیں بڑھا چڑھا ہوا ہے۔ تم اسی سننے سے اس کی اصلی حالت کا جو مشاہدہ میں آئے گی اندازہ اور خبر ہی سن کر اس غیب کی تصدیق کر لو۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ مَا نَقَصَ مِنَ الدُّنْیَا وَ زَادَ فِی الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ مِّمَّا نَقَصَ مِنَ الْاٰخِرَةِ وَ زَادَ فِی الدُّنْیَا، فَكَمْ مِنْ مَّنْقُوْصٍ رَّابِحٍ وَّ مَزِیْدٍ خَاسِرٍ! اِنَّ الَّذِیْۤ اُمِرْتُمْ بِهٖۤ اَوْسَعُ مِنَ الَّذِیْ نُهِیْتُمْ عَنْهُ، وَ مَاۤ اُحِلَّ لَكُمْ اَكْثَرُ مِمَّا حُرِّمَ عَلَیْكُمْ، فَذَرُوْا مَا قَلَّ لِمَا كَثُرَ، وَ مَا ضَاقَ لِمَا اتَّسَعَ.

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا کی کمی اور آخرت کا اضافہ عقبیٰ کی کمی اور دنیا کے اضافے سے کہیں بہتر ہے۔ بہت سے گھاٹا اٹھانے والے فائدہ میں رہتے ہیں اور بہت سے زیادہ سمیٹ لینے والے نقصان میں رہتے ہیں۔ جن چیزوں کا خدا نے تم کو حکم دیا ہے (اور تمہارے لئے جائز رکھی ہیں) ان کا دامن ان چیزوں سے کہیں وسیع ہے جن سے روکا ہے اور حرام کی ہوئی چیزوں سے حلال چیزیں کہیں زیادہ ہیں۔ لہٰذا زیادہ چیزوں کی وجہ سے کم چیزوں کو چھوڑ دو، اور تنگنائے حرام سے نکل کر حلال کی وسعتوں میں آ جاؤ۔

قَدْ تَكَفَّلَ لَكُمْ بِالرِّزْقِ، وَ اُمِرْتُمْ بِالْعَمَلِ، فَلَا یَكُوْنَنَّ الْمَضْمُوْنُ لَكُمْ طَلَبُهٗۤ اَوْلٰی بِكُمْ مِنَ الْمَفْرُوْضِ عَلَیْكُمْ عَمَلُهٗ، مَعَ اَنَّهٗ وَاللهِ! لَقَدِ اعْتَرَضَ الشَّكُّ، وَ دَخِلَ الْیَقِیْنُ، حَتّٰی كَاَنَّ الَّذِیْ ضُمِنَ لَكُمْ قَدْ فُرِضَ عَلَیْكُمْ، وَ كَاَنَّ الَّذِیْ قَدْ فُرِضَ عَلَیْكُمْ قَدْ وُضِعَ عَنْكُمْ.

اس نے تمہارے رزق کا ذمہ لے لیا ہے اور تمہیں اعمال بجا لانے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا جس چیز کا ذمہ لیا جا چکا ہے اس کی تلاش و طلب، اعمال و فرائض کے بجا لانے سے تمہاری نظروں میں مقدم نہ ہونا چاہیے۔ مگر خدا کی قسم! تمہارا طرز عمل ایسا ہے کہ دیکھنے والے کو شبہ ہونے لگے اور ایسا معلوم ہو کہ رزق کا حاصل کرنا تو تم پر فرض ہے اور جو واقعی تمہارا فریضہ ہے یعنی واجبات کا بجا لانا، وہ تم سے ساقط ہے۔

فَبَادِرُوا الْعَمَلَ، وَ خَافُوْا بَغْتَةَ الْاَجَلِ، فَاِنَّهٗ لَا یُرْجٰی مِنْ رَجْعَةِ الْعُمُرِ مَا یُرْجٰی مِنْ رَّجْعَةِ الرِّزْقِ، مَا فَاتَ الْیَوْمَ مِنَ الرِّزْقِ رُجِیَ غَدًا زِیَادَتُهٗ، وَ مَا فَاتَ اَمْسِ مِنَ الْعُمُرِ لَمْ یُرْجَ الْیَوْمَ رَجْعَتُهٗ. اَلرَّجَآءُ مَعَ الْجَآئِیْ، وَ الْیَاْسُ مَعَ الْمَاضِیْ، فَـ ﴿اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝﴾.

عمل کی طرف بڑھو اور موت کے اچانک آ جانے سے ڈرو۔ اس لئے کہ عمر کے پلٹ کر آنے کی آس نہیں لگائی جا سکتی، جبکہ رزق کے پلٹنے کی امید ہو سکتی ہے۔ جو رزق ہاتھ نہیں لگا کل اس کی زیادتی کی توقع ہو سکتی ہے اور امید نہیں کہ عمر کا گزرا ہوا ’’کل‘‘ آج پلٹ آئے گا۔ امید تو آنے والے کی ہو سکتی ہے اور جو گزر جائے اس سے تو مایوسی ہی ہے۔ ’’اللہ سے ڈرو، جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور جب موت آئے تو تم کو بہر صورت مسلمان ہونا چاہیے‘‘ ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button