صحیفہ کاملہ

23۔ طلب عافیت کی دعا

(۲۳) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

اِذَا سَئَلَ اللّٰهَ الْعَافِیَةَ وَ شُكْرَهَا

جب طلبِ عافیت کرتے اور اس پر شکر ادا کرتے تو یہ دُعا پڑھتے:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اَلْبِسْنِیْ عَافِیَتَكَ، وَ جَلِّلْنِیْ عَافِیَتَكَ، وَ حَصِّنِّیْ بِعَافِیَتِكَ، وَ اَكْرِمْنِیْ بِعَافِیَتِكَ، وَ اَغْنِنِیْ بِعَافِیَتِكَ، وَ تَصَدَّقْ عَلَیَّ بِعَافِیَتِكَ، وَ هَبْ لِیْ عَافِیَتَكَ وَ اَفْرِشْنِیْ عَافِیَتَكَ، وَ اَصْلِحْ لِیْ عَافِیَتَكَ، وَ لَا تُفَرِّقْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ عَافِیَتِكَ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ.

اے اللہ! رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور مجھے اپنی عافیت کا لباس پہنا، اپنی عافیت کی ردا اوڑھا، اپنی عافیت کے ذریعہ محفوظ رکھ،اپنی عافیت کے ذریعہ عزت و وقار دے، اپنی عافیت کے ذریعہ بے نیاز کر دے، اپنی عافیت کی بھیک میری جھولی میں ڈال دے، اپنی عافیت مجھے مرحمت فرما، اپنی عافیت کو میرا اوڑھنا بچھونا قرار دے، اپنی عافیت کی میرے لئے اصلاح و درستی فرما، اور دنیا و آخرت میں میرے اور اپنی عافیت کے درمیان جدائی نہ ڈال۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ عَافِنِیْ عَافِیَةً كَافِیَةً شَافِیَةً عَالِیَةً نَّامِیَةً، عَافِیَةً تُوَلِّدُ فِیْ بَدَنِی الْعَافِیَةَ، عَافِیَةَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ، وَ امْنُنْ عَلَیَّ بِالصِّحَّةِ وَ الْاَمْنِ وَ السَّلَامَةِ فِیْ دِیْنِیْ وَ بَدَنِیْ، وَ الْبَصِیْرَةِ فِیْ قَلْبِیْ، وَ النَّفَاذِ فِیْۤ اُمُوْرِیْ، وَ الْخَشْیَةِ لَكَ، وَ الْخَوْفِ مِنْكَ، وَ الْقُوَّةِ عَلٰۤى مَاۤ اَمَرْتَنِیْ بِهٖ مِنْ طَاعَتِكَ، وَ الِاجْتِنَابِ لِمَا نَهَیْتَنِیْ عَنْهُ مِنْ مَّعْصِیَتِكَ.

اے میرے معبود! رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور مجھے ایسی عافیت دے جو بے نیاز کرنے والی، شفا بخشنے والی (امراض کے دسترس سے) بالا اور روز افزوں ہو، ایسی عافیت جو میرے جسم میں دنیا و آخرت کی عافیت کو جنم دے اور صحت، امن، جسم و ایمان کی سلامتی، قلبی بصیرت، نفاذ امور کی صلاحیت، بیم و خوف کا جذبہ اور جس اطاعت کا حکم دیا ہے اس کے بجا لانے کی قوت، اور جن گناہوں سے منع کیا ہے، ان سے اجتناب کی توفیق بخش کر مجھ پر احسان فرما۔

اَللّٰهُمَّ وَ امْنُنْ عَلَیَّ بِالْحَجِّ وَ الْعُمْرَةِ، وَ زِیَارَةِ قَبْرِ رَسُوْلِكَ، صَلَوَاتُكَ عَلَیْهِ وَ رَحْمَتُكَ وَ بَرَكَاتُكَ عَلَیْهِ وَ عَلٰۤى اٰلِهٖ، وَ اٰلِ رَسُولِكَ عَلَیْهِمُ السَّلَامُ اَبَدًا مَّاۤ اَبْقَیْتَنِیْ، فِیْ عَامِیْ هٰذَا وَ فِیْ كُلِّ عَامٍ، وَ اجْعَلْ ذٰلِكَ مَقْبُوْلًا مَّشْكُوْرًا، مَذْكُورًا لَّدَیْكَ، مَذْخُوْرًا عِنْدَكَ، وَ اَنْطِقْ بِحَمْدِكَ وَ شُكْرِكَ وَ ذِكْرِكَ وَ حُسْنِ الثَّنَآءِ عَلَیْكَ لِسَانِیْ، وَ اشْرَحْ لِمَرَاشِدِ دِیْنِكَ قَلْبِیْ، وَ اَعِذْنِیْ وَ ذُرِّیَّتِیْ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ، وَ مِنْ شَرِّ السَّامَّةِ وَ الْهَامَّةِ و الْعَامَّةِ وَ اللَّامَّةِ، وَ مِنْ شَرِّ كُلِّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍ، وَ مِنْ شَرِّ كُلِّ سُلْطَانٍ عَنِیْدٍ، وَ مِنْ شَرِّ كُلِّ مُتْرَفٍ حَفِیْدٍ، وَ مِنْ شَرِّ كُلِّ ضَعِیْفٍ وَّ شَدِیْدٍ، وَ مِنْ شَرِّ كُلِّ شَرِیْفٍ وَّ وَضِیْعٍ، وَ مِنْ شَرِّ كُلِّ صَغِیْرٍ وَ كَبِیْرٍ، وَ مِنْ شَرِّ كُلِّ قَرِیْبٍ وَّ بَعِیْدٍ، وَ مِنْ شَرِّ كُلِّ مَنْ نَّصَبَ لِرَسُوْلِكَ وَ لِاَهْلِ بَیْتِهٖ حَرْبًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ، وَ مِنْ شَرِّ كُلِّ دَآبَّةٍ اَنْتَ اٰخِذٌ بِنَاصِیَتِهَا، اِنَّكَ عَلٰى‏ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ.

بارالٰہا! مجھ پر یہ احسان بھی فرما کہ جب تک تو مجھے زندہ رکھے ہمیشہ اس سال بھی اور ہر سال حج و عمرہ اور قبر رسولﷺ اور قبور آل رسول علیہم السلام کی زیارت کرتا رہوں ،اور ان عبادات کو مقبول و پسندیدہ، قابل التفات اور اپنے ہاں ذخیرہ قرار دے، اور حمد و شکر و ذکر اور ثنائے جمیل کے نغموں سے میری زبان کو گویا رکھ، اور دینی ہدایتوں کیلئے میرے دل کی گرہیں کھول دے، اور مجھے اور میری اولاد کو شیطان مردود اور زہریلے جانوروں، ہلاک کرنے والے حیوانوں اور دوسرے جانوروں کے گزند، اور چشم بد سے پناہ دے، اور ہر سرکش شیطان، ہر ظالم حکمران، ہر جمع جتھے والے مغرور، ہر کمزور اور طاقتور، ہر اعلیٰ و ادنیٰ، ہر چھوٹے بڑے، اور ہر نزدیک اور دور والے، اور جن و انس میں سے تیرے پیغمبرﷺ اور ان کے اہل بیت علیہم السلام سے برسر پیکار ہونے والے، اور ہر حیوان کے شر سے جن پر تجھے تسلط حاصل ہے، محفوظ رکھ، اس لئے کہ تو حق و عدل کی راہ پر ہے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ مَنْ اَرَادَنِیْ بِسُوْٓءٍ فَاصْرِفْهُ عَنِّیْ، وَ ادْحَرْ عَنِّیْ مَكْرَهٗ، وَ ادْرَاْ عَنِّیْ شَرَّهٗ، وَ رُدَّ كَیْدَهٗ فِیْ نَحْرِهٖ، وَ اجْعَلْ بَیْنَ یَدَیْهِ سُدًّا حَتّٰى تُعْمِیَ عَنِّیْ بَصَرَهٗ، وَ تُصِمَّ عَنْ ذِكْرِیْ سَمْعَهٗ، وَ تُقْفِلَ دُوْنَ اِخْطَارِیْ قَلْبَهٗ، وَ تُخْرِسَ عَنِّیْ لِسَانَهٗ، وَ تَقْمَعَ رَاْسَهٗ، وَ تُذِلَّ عِزَّهٗ، وَ تَكْسِرَ جَبَرُوْتَهٗ، وَ تُذِلَّ رَقَبَتَهٗ، وَ تَفْسَخَ كِبْرَهٗ، وَ تُؤْمِنَنِیْ مِنْ جَمِیْعِ ضَرِّهٖ وَ شَرِّهٖ، وَ غَمْزِهٖ وَ هَمْزِهٖ وَ لَمْزِهٖ، وَ حَسَدِهٖ وَ عَدَاوَتِهٖ وَ حَبَآئِلِهٖ، وَ مَصَآئِدِهٖ وَ رَجِلِهٖ وَ خَیْلِهٖ، اِنَّكَ عَزِیْزٌ قَدِیْرٌ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور جو مجھ سے برائی کرنا چاہے اسے مجھ سے روگردان کر دے، اس کا مکر مجھ سے دور، اس کا اثر مجھ سے دفع کر دے، اور اس کے مکر و فریب (کے تیر) اسی کے سینے کی طرف پلٹا دے، اور اس کے سامنے ایک دیوار کھڑی کر دے، یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کو مجھے دیکھنے سے نابینا اور اس کے کانوں کو میرا ذکر سننے سے بہرا کر دے، اور اس کے دل پر قفل چڑھا دے، تاکہ میرا اسے خیال نہ آئے، اور میرے بارے میں کچھ کہنے سننے سے اس کی زبان کو گنگ کر دے، اس کا سر کچل دے، اس کی عزت پامال کر دے، اس کی تمکنت کو توڑ دے، اس کی گردن میں ذلت کا طوق ڈال دے، اس کا تکبر ختم کر دے، اور مجھے اس کی ضرر رسانی، شر پسندی، طعنہ زنی، غیبت، عیب جوئی، حسد، دشمنی اور اس کے پھندوں، ہتھکنڈوں، پیادوں اور سواروں سے اپنے حفظ و امان میں رکھ، یقیناً تو غلبہ و اقتدار کا مالک ہے۔

–٭٭–

یہ دُعا طلب عافیت کے سلسلہ میں ہے۔ ’’عافیت‘‘ دین و دنیا کے تمام انواع خیر کو شامل ہے۔ وہ جسم سے متعلق ہو جیسے صحت و تندرستی، یا روح سے جیسے سیرت و کردار کی پاکیزگی ، وہ دنیا کی کامرانی سے متعلق ہو، یا آخرت کی فلاح سے، غرض ظاہر و باطن اور دنیا و آخرت کی ہر فلاح و بہبود اس کے ضمن میں آ جاتی ہے۔ اسی جامعیت کے لحاظ سے پیغمبر اکرم ﷺ کو طلب عافیت سے بڑھ کر کوئی دُعا مطلوب و مرغوب نہ تھی۔ چنانچہ وارد ہوا ہے کہ:

مَا سَئَلَ اللّٰهُ شَيْئًا اَحَبَّ اِلَيْهِ مِنْ اَنْ يَّسْئَلَ اللهَ الْعَافِيَةَ.

پیغمبر اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے کوئی ایسی چیز طلب نہیں کی جو انہیں طلب عافیت سے زیادہ پسند ہو۔[۱]

اس دُعا میں لفظ ’’عافیت‘‘ کا تکرار اس کے متعدد معانی کے اعتبار سے ہے۔ چنانچہ ہر جملہ میں لفظ عافیت کے الگ الگ معنی ہیں اور وہ معنی بالترتیب یہ ہیں:

۱۔جسمانی صحت، ۲۔ذلت اور رسوائی سے نجات، ۳۔دشمن سے بچاؤ، ۴۔عیوب و رذائل سے علیحدگی، ۵۔فقر و احتیاج سے دوری، ۶۔عزت نفس، ۷۔استغناء، ۸۔بے خوفی، ۹۔ازالۂ نقاہت، ۱۰۔امور دنیا و آخرت کی اصلاح۔

ان تمام انواعِ عافیت کے سوال کے بعد حج، عمرہ، زیارت قبر رسولؐ اور زیارت قبور آئمہؑ کیلئے دُعا فرمائی ہے اور ان اعمال پر دُعائے عافیت کو اس لئے مقدم کیا ہے کہ یہ تمام اعمال صحت، عافیت اور وسعت مال سے وابستہ ہیں۔

’’حج‘‘ کے لغوی معنی قصد و ارادہ کے ہیں اور ’’عمرہ‘‘ اعتمار سے ہے جس کے معنی زیارت کے ہیں اور شرعاً مکہ مکرمہ میں مخصوص دنوں میں مخصوص اعمال و ارکان کے بجا لانے کا نام ہے۔ ان لوگوں کیلئے جو مکہ سے ۱۲ میل دور کے رہنے والے ہیں ’’حج تمتع‘‘ ہے جس میں دو مرتبہ احرام باندھا جاتا ہے۔ پہلی مرتبہ عمرہ کی نیت سے جس کے بعد عمرہ کے مخصوص اعمال بجا لائے جاتے ہیں اور دوسری مرتبہ آٹھ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھا جاتا ہے جس کے بعد حج کے مخصوص اعمال ادا کئے جاتے ہیں۔ حج کے بعد یا حج سے پہلے مدینہ میں زیارت قبر رسولؐ مستحب مؤکد اور ثواب عظیم کی حامل ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

مَنْ زَارَ قَبْرِیْ بَعْدَ مَوْتِیْ كَانَ كَمَنْ هَاجَرَ اِلَیَّ فِیْ حَيَاتِیْ.

جو شخص میری رحلت کے بعد میری قبر کی زیارت کرے وہ اس شخص کے مانند ہے جس نے میری زندگی میں میری طرف ہجرت کی ہو۔[۲]

یہ زیارت حج ہی کا ایک تتمہ ہے اور امام شافعی نے اسے ’’حج اصغر‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اسے ترک کرنا حقِ پیغمبرؐ کو نظر انداز کرنا اور احسان ناشناسی کا مظاہرہ ہے۔ اسی طرح آئمہ اطہار علیہ السلام کے مشاہد کی زیارت مستحب مؤکد اور ان کے حقوق کے اعتراف کی دلیل ہے۔ چنانچہ امام رضا علیہ السلام کا ارشاد ہے:

اِنَّ لِكُلِّ اِمَامٍ عَهْدًا فِیْ عُنُقِ اَوْلِيَآئِهٖ وَ شِيْعَتِهٖ، وَ اِنَّ مِنْ تَمَامِ الْوَفَآءِ بِالْعَهْدِ وَ حُسْنِ الْاَدَآءِ زِيَارَةَ قُبُوْرِهِمْ.

ہر امامؑ کیلئے اس کے دوستوں اور شیعوں کے ذمہ ایک عہد و پیمان ہے اور وفائے عہد و حسن ادائیگی کی تکمیل یہ ہے کہ ان کی قبروں کی زیارت کی جائے۔[۳]

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ ریاض السالکین، ج ۷ ص ۱۵۰

[۲]۔ دعائم الاسلام، ج۱، ص ۲۹۶

[۳]۔ الکافی، ج ۴، ص ۵۶۷

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button