ترجمه قرآن کریم

سورہ اعراف

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ الف لام میم صاد۔

٢۔ یہ کتاب آپ پر (اس لیے ) نازل کی گئی ہے کہ آپ اس سے لوگوں کو تنبیہ کریں اور اہل ایمان کے لیے نصیحت ہو پس آپ کو اس سے کسی قسم کی دل تنگی محسوس نہیں ہونی چاہیے۔

٣۔اس (کتاب) کی پیروی کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اور اس کے سوا دوسرے آقاؤں کی اتباع نہ کرو، مگر تم نصیحت کم ہی قبول کرتے ہو۔

٤۔ اور کتنی ایسی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے تباہ کیا پس ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آیا یا ایسے وقت جب وہ دوپہر کو سو رہے تھے۔

٥۔پس جب ہمارا عذاب ان پر آیا تو وہ صرف یہی کہہ سکے : واقعی ہم ظالم تھے۔

٦۔ پس جن کی طرف پیغمبر بھیجے گئے ہم ہر صورت میں ان سے سوال کریں گے اور خود پیغمبروں سے بھی ہم ضرور پوچھیں گے۔

٧۔ پھر ہم پورے علم و آگہی سے ان سے سرگزشت بیان کریں گے اور ہم غائب تو نہیں تھے۔

٨۔اور اس دن (اعمال کا) تولنا برحق ہے ، پھر جن (کے اعمال) کا پلڑا بھاری ہو گا پس وہی فلاح پائیں گے۔

٩۔ اور جن کا پلڑا ہلکا ہو گا وہ لوگ ہماری آیات سے زیادتی کے سبب خود گھاٹے میں رہے۔

١٠۔اور ہم ہی نے تمہیں ز مین میں بسایا اور اس میں تمہارے لیے سامان زیست فراہم کیا (مگر) تم کم ہی شکر کرتے ہو۔

١١۔ بتحقیق ہم نے تمہیں خلق کیا پھر تمہیں شکل و صورت دی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو پس سب نے سجدہ کیا صرف ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ تھا۔

١٢۔ فرمایا: تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے باز رکھا جب کہ میں نے تجھے حکم دیا تھا؟ بولا: میں اس سے بہتر ہوں ، مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔

١٣۔ فرمایا: یہاں سے اتر جا! تجھے حق نہیں کہ یہاں تکبر کرے ، پس نکل جا! تیرا شمار ذلیلوں میں ہے۔

١٤۔بولا:مجھے روز قیامت تک مہلت دے۔

١٥۔ فرمایا:بے شک تجھے مہلت دی گئی۔

١٦۔بولا: جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی تیرے سیدھے راستے پر ان کی گھات میں ضرور بیٹھا رہوں گا۔

١٧۔ پھر ان کے آگے ، پیچھے ، دائیں اور بائیں (ہر طرف) سے انہیں ضرور گھیر لوں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا۔

١٨۔ فرمایا: تو یہاں سے ذلیل و مردود ہو کر نکل جا، ان میں سے جو بھی تیری اتباع کرے گا تو میں تم سب سے جہنم کو ضرور بھر دوں گا۔

١٩۔ اور اے آدم !آپ اور آپ کی زوجہ اس جنت میں سکونت اختیار کریں اور دونوں جہاں سے چاہیں کھائیں ، مگر اس درخت کے نزدیک نہ جانا ورنہ آپ دونوں ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔

٢٠۔ پھر شیطان نے انہیں بہکایا تاکہ اس طرح ان دونوں کے شرم کے مقامات جو ان سے چھپائے رکھے گئے تھے ان کے لیے نمایاں ہو جائیں اور کہا: تمہارے رب نے اس درخت سے تمہیں صرف اس لیے منع کیا ہے کہ مبادا تم فرشتے بن جاؤ یا زندہ جاوید بن جاؤ۔

٢١۔ اور اس نے قسم کھا کر دونوں سے کہا: میں یقیناً تمہارا خیر خواہ ہوں۔

٢٢۔پھر فریب سے انہیں (اس طرف) مائل کر دیا، جب انہوں نے درخت کو چکھ لیا تو ان کے شرم کے مقامات ان کے لیے نمایاں ہو گئے اور وہ جنت کے پتے اپنے اوپر جوڑنے لگے اور ان کے رب نے انہیں پکارا: کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟ اور تمہیں بتایا نہ تھا کہ شیطان یقیناً تمہارا کھلا دشمن ہے ؟

٢٣۔ دونوں نے کہا: پروردگارا! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

٢٤۔ فرمایا: ایک دوسرے کے دشمن بن کر نیچے اتر جاؤ اور زمین میں تمہارے لیے ایک مدت تک قیام اور سامان زیست ہو گا۔

٢٥۔ فرمایا:زمین ہی میں تمہیں جینا اور وہیں تمہیں مرنا ہو گا اور (آخرکار) اسی میں سے تمہیں نکالا جائے گا۔

٢٦۔ اے فرزندان آدم! ہم نے تمہارے لیے لباس نازل کیا جو تمہارے شرم کے مقامات کو چھپائے اور تمہارے لیے آرائش (بھی) ہو اور سب سے بہترین لباس تو تقویٰ ہے ، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے شاید یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔

٢٧۔اے اولاد آدم!شیطان تمہیں کہیں اس طرح نہ بہکا دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا اور انہیں بے لباس کیا تاکہ ان کے شرم کے مقامات انہیں دکھائے ، بے شک شیطان اور اس کے رفقائے کار تمہیں ایسی جگہ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں جہاں سے انہیں تم نہیں دیکھ سکتے ، ہم نے شیاطین کو ان لوگوں کا آقا بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔

٢٨۔اور جب یہ لوگ کسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہیں تو کہتے ہیں : ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے پایا ہے اور اللہ نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے ، کہہ دیجیے :اللہ یقیناً بے حیائی کا حکم نہیں دیتا، کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہو جن کا تمہیں علم ہی نہیں ؟

٢٩۔کہہ دیجیے : میرے رب نے مجھے انصاف کا حکم دیا ہے اور یہ کہ ہر عبادت کے وقت تم اپنی توجہ مرکوز رکھو اور اس کے مخلص فرمانبردار بن کر اسے پکارو، جس طرح اس نے تمہیں ابتدا میں پیدا کیا ہے اسی طرح پھر پیدا ہو جاؤ گے۔

٣٠۔ (اللہ) نے ایک گروہ کو ہدایت دے دی ہے اور دوسرے گروہ پر گمراہی پیوست ہو چکی ہے ، ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیاطین کو اپنا آقا بنا لیا ہے اور (بزعم خود) یہ سمجھتے ہیں کہ ہدایت یافتہ ہیں۔

٣١۔ اے بنی آدم!ہر عبادت کے وقت اپنی زینت(لباس)کے ساتھ رہو اور کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو،اللہ اسراف کرنے والوں کو یقیناً دوست نہیں رکھتا۔

٣٢۔کہہ دیجیے : اللہ کی اس زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی اور پاک رزق کو کس نے حرام کیا ؟ کہہ دیجیے : یہ چیزیں دنیاوی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہیں اور قیامت کے دن تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی، ہم اسی طرح اہل علم کے لیے آیات کو کھول کر بیان کرتے ہیں۔

٣٣۔ کہہ دیجیے : میرے رب نے علانیہ اور پوشیدہ بے حیائی (کے ارتکاب)، گناہ، ناحق زیادتی اور اس بات کو حرام کیا ہے کہ تم اللہ کے ساتھ اسے شریک ٹھہراؤ جس کے لیے اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرو جنہیں تم نہیں جانتے۔

٣٤۔ اور ہر قوم کے لیے ایک وقت مقرر ہے پس جب ان کا مقررہ وقت آ جاتا ہے تو نہ ایک گھڑی تاخیر کر سکتے ہیں اور نہ جلدی۔

٣٥۔اے اولاد آدم! اگر تمہارے پاس خود تم ہی میں سے رسول آئیں جو تمہیں میری آیات سنایا کریں تو (اس کے بعد) جو تقویٰ اختیار کریں اور اصلاح کریں پس انہیں نہ کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے۔

٣٦۔اور جو لوگ ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں اور ان سے تکبر کرتے ہیں وہی اہل جہنم ہیں ،جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

٣٧۔ اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اس کی آیات کی تکذیب کرے ؟ ایسے لوگوں کو وہ حصہ ملتا رہے گا جو ان کے حق میں لکھا ہے چنانچہ جب ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے ) ان کی قبض روح کے لیے آئیں گے تو کہیں گے : کہاں ہیں تمہارے وہ (معبود) جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے تھے ؟ وہ کہیں گے : وہ ہم سے غائب ہو گئے اور اب وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ واقعی کافر تھے۔

٣٨۔اللہ فرمائے گا: تم لوگ جن و انس کی ان قوموں کے ہمراہ داخل ہو جاؤ جو تم سے پہلے جہنم میں جا چکی ہیں ، جب بھی۔کوئی جماعت جہنم میں داخل ہو گی اپنی ہم خیال جماعت پر لعنت بھیجے گی، یہاں تک کہ جب وہاں سب جمع ہو جائیں گے تو بعد والی جماعت پہلی کے بارے میں کہے گی: ہمارے رب! انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا لہٰذا انہیں آتش جہنم کا دوگنا عذاب دے ، اللہ فرمائے گا: سب کو دوگنا (عذاب) ملے گا لیکن تم نہیں جانتے۔

٣٩۔ان کی پہلی جماعت دوسری جماعت سے کہے گی: تمہیں ہم پر کوئی بڑائی حاصل نہ تھی؟ پس تم اپنے کیے کے بدلے عذاب چکھو۔

٤٠۔جنہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی اور ان سے تکبر کیا ہے ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور ان کا جنت میں جانا اس طرح محال ہے جس طرح سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا اور ہم مجرموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔

٤١۔ ان کے لیے جہنم ہی بچھونا اور اوڑھنا ہو گی اور ہم ظالموں کو ایسا بدلہ دیا کرتے ہیں۔

٤٢۔ اور ایمان لانے والے اور نیک اعمال بجا لانے والے اہل جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ، ہم کسی کو (نیک اعمال کی بجا آوری میں ) اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ دار نہیں ٹھہراتے۔

٤٣۔ اور ہم ان کے دلوں میں موجود کینے نکال دیں گے ، ان کے (محلات کے ) نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی اور وہ کہیں گے : ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہمیں یہ راستہ دکھایا اور اگر اللہ ہماری رہنمائی نہ فرماتا تو ہم ہدایت نہ پاتے ، ہمارے رب کے پیغمبر یقیناً حق لے کر آئے اور اس وقت ان (مومنین) کو یہ ندا آئے گی کہ یہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو ان اعمال کے صلے میں ہے جنہیں تم بجا لاتے رہے ہو۔

٤٤۔اور اہل جنت اہل جہنم سے پکار کر کہیں گے :ہم نے وہ تمام وعدے سچے پائے جو ہمارے پروردگار نے ہم سے کیے تھے ، کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدوں کو سچا پایا؟ وہ جواب دیں گے :ہاں ، تو ان (دونوں ) کے درمیان میں سے ایک پکارنے والا پکارے گا: ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔

٤٥۔جو لوگوں کو راہ خدا سے روکتے اور اس میں کجی پیدا کرنا چاہتے تھے اور وہ آخرت کے منکر تھے۔

٤٦۔اور (اہل جنت اور اہل جہنم) دونوں کے درمیان ایک حجاب ہو گا اور بلندیوں پر کچھ ایسے افراد ہوں گے جو ہر ایک کو ان کی شکلوں سے پہچان لیں گے اور اہل جنت سے پکار کر کہیں گے : تم پر سلامتی ہو، یہ لوگ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے مگر امیدوار ہوں گے۔

٤٧۔ اور جب ان کی نگاہیں اہل جہنم کی طرف پلٹائی جائیں گی تو وہ کہیں گے : ہمارے پروردگار ہمیں ظالموں کے ساتھ شامل نہ کرنا۔

٤٨۔اور اصحاب اعراف کچھ ایسے لوگوں کو بھی پکاریں گے جنہیں وہ ان کی شکلوں سے پہچانتے ہوں گے اور کہیں گے : آج نہ تو تمہاری جماعت تمہارے کام آئی اور نہ تمہارا تکبر۔

٤٩۔اور کیا یہ (اہل جنت) وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں تم قسمیں کھا کر کہتے تھے کہ ان تک اللہ کی رحمت نہیں پہنچے گی؟ (آج انہی لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ) جنت میں داخل ہو جاؤ جہاں نہ تمہیں کوئی خوف ہو گا اور نہ تم محزون ہو گے۔

٥٠۔اور اہل جہنم اہل جنت کو پکاریں گے : تھوڑا پانی ہم پر انڈیل دو یا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کچھ ہمیں دے دو، وہ جواب دیں گے : اللہ نے جنت کا پانی اور رزق کافروں پر حرام کیا ہے۔

٥١۔ جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا دیا تھا اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈالا تھا، پس آج ہم انہیں اسی طرح بھلا دیں گے جس طرح وہ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اور ہماری آیات کا انکار کیا کرتے تھے۔

٥٢۔اور ہم ان کے پاس یقیناً ایک کتاب لا چکے ہیں جسے ہم نے از روئے علم واضح بنایا ہے جو ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت و رحمت ہے۔

٥٣۔کیا یہ لوگ صرف اس (کتاب کی تنبیہوں ) کے انجام کار کے منتظر ہیں ؟ جس روز وہ انجام کار سامنے آئے گا جو لوگ اس سے پہلے اسے بھولے ہوئے تھے وہ کہیں گے : ہمارے پروردگار کے پیغمبر حق لے کر آئے تھے کیا ہمارے لیے کچھ سفارشی ہیں جو ہماری شفاعت کریں یا ہمیں (دنیا میں ) واپس کر دیا جائے تاکہ جو عمل (بد) ہم کرتے تھے اس کا غیر(عمل صالح) بجا لائیں ؟ یقیناً انہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال دیا اور جو جھوٹ وہ گھڑتے رہتے تھے وہ ان سے ناپید ہو گئے۔

٥٤۔ تمہارا رب یقیناً وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر متمکن ہوا، وہ رات سے دن کو ڈھانپ دیتا ہے جو اس کے پیچھے دوڑتی چلی آتی ہے اور سورج اور چاند اور ستارے سب اسی کے تابع فرمان ہیں۔ آگاہ رہو! آفرینش اسی کی ہے اور امر بھی اسی کاہے ، بڑا با برکت ہے اللہ جو عالمین کا رب ہے۔

٥٥۔ اپنے رب کی بارگاہ میں دعا کرو عاجزی اور خاموشی کے ساتھ، بے شک وہ تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

٥٦۔ اور تم زمین میں اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ پھیلاؤ اور اللہ کو خوف اور امید کے ساتھ پکارو، اللہ کی رحمت یقیناً نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔

٥٧۔ اور وہی تو ہے جو ہواؤں کو خوش خبری کے طور اپنی رحمت کے آگے آگے بھیجتا ہے ، یہاں تک کہ جب وہ ابر گراں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم انہیں کسی مردہ زمین کی طرف ہانک دیتے ہیں پھر بادل سے مینہ برسا کر اس سے ہر طرح کے پھل پیدا کرتے ہیں ، اسی طرح ہم مردوں کو بھی (زمین سے ) نکالیں گے شاید تم نصیحت حاصل کرو۔

٥٨۔ اور پاکیزہ زمین میں سبزہ اپنے رب کے حکم سے نکلتا ہے اور خراب زمین کی پیداوار بھی ناقص ہوتی ہے۔ یوں ہم شکر گزاروں کے لیے اپنی آیات کو مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں۔

٥٩۔ ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا پس انہوں نے کہا: اے میری قوم! تم اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے ، مجھے تمہارے بارے میں ایک عظیم دن کے عذاب کا ڈر ہے۔

٦٠۔ ان کی قوم کے سرداروں نے کہا :ہم تو تمہیں صریح گمراہی میں مبتلا دیکھتے ہیں۔

٦١۔ کہا: اے میری قوم! مجھ میں تو کوئی گمراہی نہیں بلکہ عالمین کے پروردگار کی طرف سے ایک رسول ہوں۔

٦٢۔میں اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچاتا ہوں اور تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

٦٣۔ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ خود تم میں سے ایک شخص کے پاس تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں تنبیہ کرے ؟ اور تم تقویٰ اختیار کرو، شاید اس طرح تم رحم کے مستحق بن جاؤ۔

٦٤۔ مگر ان لوگوں نے ان کی تکذیب کی تو ہم نے انہیں اور کشتی میں سوار ان کے ساتھیوں کو بچا لیا اور جنہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی تھی انہیں غرق کر دیا، کیونکہ وہ اندھے لوگ تھے۔

٦٥۔ اور قوم عاد کی طرف ہم نے انہی کی برادری کے (ایک فرد) ہود کو بھیجا، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے ، کیا تم (ہلاکت سے ) بچنا نہیں چاہتے ؟

٦٦۔ ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا: ہمیں تو تم احمق لگتے ہو اور ہمارا گمان ہے کہ تم جھوٹے بھی ہو۔

٦٧۔ انہوں نے کہا: اے میری قوم! میں احمق نہیں ہوں ، بلکہ میں تو رب العالمین کا رسول ہوں۔

٦٨۔ میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا ناصح (اور) امین ہوں۔

٦٩۔ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ خود تم میں سے ایک شخص کے پاس تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں تنبیہ کرے ؟ اور یاد کرو جب قوم نوح کے بعد اس نے تمہیں جانشین بنایا اور تمہاری جسمانی ساخت میں وسعت دی (تنومند کیا)، پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو، شاید تم فلاح پاؤ۔

٧٠۔ انہوں نے کہا : کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم خدائے واحد کی عبادت کریں اور جن کی ہماری باپ دادا پرستش کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں ؟ پس اگر تم سچے ہو تو ہمارے لیے وہ (عذاب) لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو۔

٧١۔ ہود نے کہا : تمہارے رب کی طرف سے تم پر عذاب اور غضب مقرر ہو چکا ہے ، کیا تم مجھ سے ایسے ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں ؟ اللہ نے تو اس بارے میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے ، پس تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔

٧٢۔ہم نے اپنی رحمت کے ذریعے ہود اور انکے ساتھیوں کو بچا لیا اور جو ہماری آیات کو جھٹلاتے تھے ان کی جڑ کاٹ دی (کیونکہ) وہ تو ایمان لانے والے ہی نہ تھے۔

٧٣۔اور قوم ثمود کی طرف ہم نے انہی کی برادری کے (ایک فرد) صالح کو بھیجا، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے ، تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلیل آ چکی ہے ، یہ اللہ کی اونٹنی ہے جو تمہارے لیے ایک نشانی ہے ، اسے اللہ کی زمین میں چرنے دینا اور اسے برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ دردناک عذاب تمہیں آ لے گا۔

٧٤۔ اور یاد کرو جب اللہ نے قوم عاد کے بعد تمہیں جانشین بنایا اور تمہیں زمین میں آباد کیا، تم میدانوں میں محلات تعمیر کرتے ہو اور پہاڑ کو تراش کر مکانات بناتے ہو، پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد کرتے نہ پھرو۔

٧٥۔ ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کمزور طبقہ اہل ایمان سے کہا: کیا تمہیں اس بات کا علم ہے کہ صالح اپنی رب کی طرف سے بھیجے گئے (رسول)ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا: جس پیغام کے ساتھ انہیں بھیجا گیا ہے اس پر ہم ایمان لاتے ہیں۔

٧٦۔ متکبرین نے کہا: جس پر تمہارا ایمان ہے ہم تو اس سے منکر ہیں۔

٧٧۔آخر انہوں نے اونٹنی کے پاؤں کاٹ دیے اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے لگے : اے صالح! اگر تم واقعی پیغمبر ہو تو ہمارے لیے وہ (عذاب) لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو۔

٧٨۔ چنانچہ انہیں زلزلے نے گرفت میں لے لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔

٧٩۔پس صالح اس بستی سے نکل پڑے اور کہا:اے میری قوم! میں نے تو اپنے رب کا پیغام تمہیں پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔

٨٠۔ اور لوط (کا ذکر کرو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم ایسی بے حیائی کے مرتکب ہوتے ہو کہ تم سے پہلے دنیا میں کسی نے اس کا ارتکاب نہیں کیا۔

٨١۔ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو، بلکہ تم تو تجاوز کار ہو۔

٨٢۔ اور ان کی قوم کے پاس کوئی جواب نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ کہیں : انہیں اپنی بستی سے نکال دو، یہ لوگ بڑے پاکیزہ بننے کی کو شش کرتے ہیں۔

٨٣۔چنانچہ ہم نے لوط اور ان کے گھر والوں کو نجات دی سوائے ان کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔

٨٤۔اور ہم نے اس قوم پر ایک بارش برسائی ر دیکھو ان مجرموں کا کیا انجام ہوا۔

٨٥۔ اور اہل مدین کی طرف ہم نے انہی کی برادری کے (ایک فرد) شعیب کو بھیجا، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آ چکی ہے ، لہٰذا تم ناپ اور تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دو اور زمین میں اصلاح ہو چکی ہو تو اس میں فساد نہ پھیلاؤ، اگر تم واقعی مومن ہو تو اس میں خود تمہاری بھلائی ہے۔

٨٦۔ اور اللہ پر ایمان رکھنے والوں کو خوفزدہ کرنے ،انہیں اللہ کے راستے سے روکنے اور اس میں کجی پیدا کرنے کے لیے ہر راستے پر(راہزن بن کر) مت بیٹھا کرو اور یہ بھی یاد کرو جب تم کم تھے اللہ نے تمہیں زیادہ کر دیا اور دیکھو کہ فساد کرنے والوں کا کیا انجام ہوا۔

٨٧۔ اور اگر تم میں سے ایک گروہ میری رسالت پر ایمان لاتا ہے اور دوسرا گروہ ایمان نہیں لاتا تو ٹھہر جاؤ یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔

    پارہ : قال الملا 9

    ٨٨۔ ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا: اے شعیب!ہم تجھے اور تیرے مومن ساتھیوں کو اپنی بستی سے ضرور نکال دیں گے یا تمہیں ہمارے مذہب میں واپس آنا ہو گا،شعیب نے کہا:اگر ہم بیزار ہوں تو بھی ؟

    ٨٩۔اگر ہم تمہارے مذہب میں واپس آ گئے تو ہم اللہ پر بہتان باندھنے والے ہوں گے جبکہ اللہ نے ہمیں اس (باطل) سے نجات دے دی ہے اور ہمارے لیے اس مذہب کی طرف پلٹنا کسی طرح ممکن نہیں مگر یہ کہ ہمارا رب اللہ چاہے ، ہمارے رب کا علم ہر چیز پر محیط ہے ، ہم نے اللہ (ہی) پر توکل کیا ہے ، اے ہمارے پروردگار! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان برحق فیصلہ کر اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

    ٩٠۔ اور قوم شعیب کے کافر سرداروں نے کہا: اگر تم لوگوں نے شعیب کی پیروی کی تو یقیناً بڑا نقصان اٹھاؤ گے۔

    ٩١۔ چنانچہ انہیں زلزلے نے آ لیا پس وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔

    ٩٢۔جنہوں نے شعیب کی تکذیب کی (ایسے تباہ ہوئے ) گویا وہ کبھی آباد ہی نہیں ہوئے تھے ، شعیب کی تکذیب کرنے والے خود خسارے میں رہے۔

    ٩٣۔ شعیب ان سے نکل آئے اور کہنے لگے : اے میری قوم!میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچائے اور تمہیں نصیحت کی، تو (آج) میں کافروں پر رنج و غم کیوں کروں ؟

    ٩٤۔ اور ہم نے جس بستی میں بھی نبی بھیجا وہاں کے رہنے والوں کو تنگی اور سختی میں مبتلا کیا کہ شاید وہ تضرع کریں۔

    ٩٥۔پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی میں بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوشحال ہو گئے اور کہنے لگے : ہمارے باپ دادا پر بھی برے اور اچھے دن آتے رہے ہیں ، پھر ہم نے اچانک انہیں گرفت میں لے لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی۔

    ٩٦۔اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کے سبب جو وہ کیا کرتے تھے انہیں گرفت میں لے لیا۔

    ٩٧۔کیا ان بستیوں کے لوگ بے فکر ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آ جائے جب وہ سو رہے ہوں ؟

    ٩٨۔یا کیا ان بستیوں کے لوگ بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن کو آ جائے جب وہ کھیل رہے ہوں ؟

    ٩٩۔کیا یہ لوگ اللہ کی تدبیر سے خوف نہیں کرتے اللہ کی تدبیر سے تو فقط خسارے میں پڑنے والے لوگ بے خوف ہوتے ہیں۔

    ١٠٠۔ جو لوگ اہل زمین (کی ہلاکت) کے بعد زمین کے وارث ہوئے ہیں ،کیا ان پر یہ بات عیاں نہیں ہوئی کہ ہم چاہیں تو ان کے جرائم پر انہیں گرفت میں لے سکتے ہیں ؟ اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں پھر وہ کچھ نہیں سنتے۔

    ١٠١۔ یہ وہ بستیاں ہیں جن کے حالات ہم آپ کو سنا رہے ہیں اور ان کے پیغمبر واضح دلائل لے کر ان کے پاس آئے لیکن جس چیز کو وہ پہلے جھٹلا چکے تھے وہ اس پر ایمان لانے کے لیے آمادہ نہ تھے ، اللہ اس طرح کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے۔

    ١٠٢۔اور ہم نے ان میں سے اکثر کو بد عہد پایا اور اکثر کو ان میں فاسق پایا۔

    ١٠٣۔پھر ان رسولوں کے بعد ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرکردہ لوگوں کی طرف بھیجا تو انہوں نے ان نشانیوں (کے انکار) کے سبب (اپنے اوپر) ظلم کیا پھر دیکھ لو مفسدوں کا کیا انجام ہوا۔

    ١٠٤۔ اور موسیٰ نے کہا: اے فرعون! میں رب العالمین کا رسول ہوں۔

    ١٠٥۔(مجھ پر) لازم ہے کہ میں اللہ کے بارے میں صرف حق بات کروں ، میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل لے کر آیا ہوں ، لہٰذا تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دے۔

    ١٠٦۔ فرعون نے کہا: اگر تم سچے ہو اور کوئی نشانی لے کر آئے ہو تو اسے پیش کرو۔

    ١٠٧۔ موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا تو وہ دفعتاً سچ مچ کا ایک اژدھا بن گیا۔

    ١٠٨۔اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ نکالا تو وہ ناظرین کے سامنے یکایک چمکنے لگا۔

    ١٠٩۔قوم فرعون کے سرداروں نے کہا: یہ یقیناً بڑا ماہر جادوگر ہے۔

    ١١٠۔ یہ تمہیں سر زمین سے نکالنا چاہتا ہے ، بتاؤ اب تمہاری کیا صلاح ہے ؟

    ١١١۔ انہوں نے کہا: موسیٰ اور اس کے بھائی کو کچھ مہلت دو اور لوگوں کو جمع کرنے والے ( ہرکاروں ) کو شہروں میں روانہ کر دو۔

    ١١٢۔وہ تمام ماہر جادوگروں کو تمہارے پاس لائیں ،

    ١١٣۔ اور جادوگر فرعون کے پاس آئے (اور) کہنے لگے :اگر ہم غالب رہے تو ہمیں صلہ ملے گا؟

    ١١٤۔فرعون نے کہا:ہاں یقیناً تم مقرب بارگاہ ہو جاؤ گے۔

    ١١٥۔انہوں نے کہا: اے موسیٰ! پہلے تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں ؟

    ١١٦۔موسیٰ نے کہا: تم پھینکو، پس جب انہوں نے پھینکا تو لوگوں کی نگاہوں کو مسحور اور انہیں خوفزدہ کر دیا اور انہوں نے بہت بڑا جادو پیش کیا۔

    ١١٧۔ اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنا عصا پھینک دیں ، چنانچہ اس نے یکایک ان کے خود ساختہ جادو کو نگلنا شروع کیا۔

    ١١٨۔ اس طرح حق ثابت ہوا اور ان لوگوں کا کیا دھرا باطل ہو کر رہ گیا۔

    ١١٩۔ پس وہ وہاں شکست کھا گئے اور ذلیل ہو کر لوٹ گئے۔

    ١٢٠۔اور سب جادوگر سجدے میں گر پڑے۔

    ١٢١۔کہنے لگے : ہم رب العالمین پر ایمان لے آئے۔

    ١٢٢۔ جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے۔

    ١٢٣۔ فرعون نے کہا: قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا تم اس پر ایمان لے آئے یقیناً یہ تو ایک سازش ہے جو تم نے اس شہر میں کی ہے تاکہ اہل شہر کو یہاں سے بے دخل کرو پس عنقریب تمہیں (اس کا انجام ) معلوم ہو جائے گا۔

    ١٢٤۔ میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے ضرور کاٹوں گا پھر تم سب کو ضرور بالضرور سولی چڑھا دوں گا۔

    ١٢٥۔ انہوں نے کہا: ہمیں تو اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

    ١٢٦۔اور تو نے ہم میں کون سی بری بات دیکھی سوائے اس کے کہ جب ہمارے رب کی نشانیاں ہمارے پاس آئیں تو ہم ان پر ایمان لے آئے ، اے ہمارے رب! ہم پر صبر کا فیضان فرما اور ہمیں اس دنیا سے مسلمان اٹھا لے۔

    ١٢٧۔ اور قوم فرعون کے سرداروں نے کہا: فرعون!کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو آزاد چھوڑ دے گا کہ وہ زمین میں فساد پھیلائیں اور وہ تجھ سے اور تیرے معبودوں سے دست کش ہو جائیں ؟ فرعون بولا: عنقریب ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیں گے اور ہمیں ان پر بالا دستی حاصل ہے۔

    ١٢٨۔ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اللہ سے مدد طلب کرو اور صبر کرو، بے شک یہ سرزمین اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے اور نیک انجام اہل تقویٰ کے لیے ہے۔

    ١٢٩۔ (قوم موسیٰ نے ) کہا: آپ کے آنے سے پہلے بھی ہمیں اذیت دی گئی اور آپ کے آنے کے بعد بھی، موسیٰ نے کہا: تمہارا رب عنقریب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اور زمین میں تمہیں خلیفہ بنا کر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔

    ١٣٠۔اور بتحقیق ہم نے آل فرعون کو قحط سالی اور پیداوار کی قلت میں مبتلا کیا شاید وہ نصیحت حاصل کریں۔

    ١٣١۔پس جب انہیں آسائش حاصل ہوتی تو کہتے : ہم اس کے مستحق ہیں اور اگر برا زمانہ آتا تو اسے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کی بد شگونی ٹھہراتے ، آگاہ رہو! ان کی بد شگونی اللہ کے پاس ہے لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔

    ١٣٢۔ اور کہنے لگے :اے موسیٰ!ہم پر جادو کرنے کے لیے خواہ کیسی نشانی لے آؤ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے۔

    ١٣٣۔پھر ہم نے بطور کھلی نشانیوں کے ان پر طوفان، ٹڈی دل، جوؤں ، مینڈکوں اور خون (کا عذاب) نازل کیا مگر وہ تکبر کرتے رہے اور وہ جرائم پیشہ لوگ تھے ؟

    ١٣٤۔اور جب ان پر کوئی بلا نازل ہو جاتی تو کہتے :اے موسی! ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کریں جیسا کہ اس نے آپ سے عہد کر رکھا ہے (کہ وہ آپ کی دعا سنے گا) اگر آپ نے ہم سے عذاب دور کر دیا تو ہم آپ پر ضرور ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی ضرور آپ کے ساتھ جانے دیں گے۔

    ١٣٥۔پھر جب ہم ایک مقررہ مدت کے لیے جس کو وہ پہنچنے والے تھے عذاب کو دور کر دیتے تو وہ عہد کو توڑ ڈالتے۔

    ١٣٦۔تب ہم نے ان سے انتقام لیا پھر انہیں دریا میں غرق کر دیا کیونکہ انہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی اور وہ ان سے لاپرواہی برتتے تھے۔

    ١٣٧۔اور ہم نے ان لوگوں کو جو بے بس کر دیے گئے تھے اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنایا جسے ہم نے برکتوں سے نوازا تھا اور بنی اسرائیل کے ساتھ آپ کے رب کا نیک وعدہ پورا ہو گیا کیونکہ انہوں نے صبر کیا تھا اور فرعون اور اس کی قوم جو کچھ بنایا کرتے تھے اور جو اونچی عمارتیں تعمیر کرتے تھے وہ سب کچھ ہم نے تباہ کر دیا۔

    ١٣٨۔اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا پار کرایا تو وہ ایسے لوگوں کے پاس پہنچ گئے جو اپنے بتوں کی پوجا پاٹ میں لگے ہوئے تھے ، کہنے لگے : اے موسیٰ! ہمارے لیے بھی ایسا معبود بنا جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں ، موسیٰ نے کہا: تم تو بڑی نادان قوم ہو۔

    ١٣٩۔ یہ قوم جس روش پر گامزن ہے یقیناً برباد ہونے والی ہے اور جو اعمال یہ انجام دیتے ہیں وہ باطل ہیں۔

    ١٤٠۔موسیٰ نے کہا: کیا میں تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی اور معبود تلاش کروں ؟ حالانکہ اس نے تمہیں عالمین پر فضیلت دی ہے۔

    ١٤١۔ اور (وہ وقت یاد کرو)جب ہم نے تمہیں آل فرعون سے نجات دی جو تمہیں بدترین عذاب میں مبتلا کرتے تھے ، تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔

    ١٤٢۔ اور ہم نے موسیٰ سے تیس(٣٠) راتوں کا وعدہ کیا اور دس(دیگر)راتوں سے اسے پورا کیا اس طرح ان کے رب کی مقررہ میعاد چالیس راتیں پوری ہو گئی اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا: میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور اصلاح کرتے رہنا اور مفسدوں کا راستہ اختیار نہ کرنا۔

    ١٤٣۔ اور جب موسیٰ ہماری مقررہ میعاد پر آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام کیا تو کہنے لگے : پروردگارا ! مجھے (جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کروں ، فرمایا: تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے لیکن اس پہاڑ کی طرف دیکھو پس اگر وہ اپنی جگہ قائم رہا تو تم مجھے دیکھ سکو گے ، پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑے ، پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کرنے لگے : پاک ہے تیری ذات میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں ۔

    ١٤٤۔فرمایا: اے موسیٰ! میں نے لوگوں میں سے آپ کو اپنے پیغامات اور ہمکلامی کے لیے منتخب کیا ہے لہٰذا جو کچھ میں نے آپ کو عطا کیا ہے اسے اخذ کریں اور شکر گزاروں میں سے ہو جائیں۔

    ١٤٥۔ اور ہم نے موسیٰ کے لیے (توریت کی) تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھی (اور حکم دیا کہ) اسے پوری قوت سے سنبھالیں اور اپنی قوم کو حکم دیں کہ اس میں سے شائستہ ترین باتوں کو اپنا لو، عنقریب میں تمہیں نافرمانوں کا ٹھکانا دکھا دوں گا۔

    ١٤٦۔ میں انہیں اپنی آیات سے دور رکھوں گا جو زمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں اور تمام نشانیاں دیکھ کر بھی ان پر ایمان نہیں لاتے اور اگر یہ راہ راست دیکھ بھی لیں تو اس راستے کو اختیار نہیں کرتے اور اگر انحراف کا راستہ دیکھ لیں تو اس راستے کو اپنا لیتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے ہماری نشانیوں کی تکذیب کی اور ان سے غفلت برتتے رہے۔

    ١٤٧۔ اور جنہوں نے ہماری آیات اور آخرت کی پیشی کی تکذیب کی ان کے اعمال ضائع ہو گئے ، کیا ان لوگوں کو اس کے سوا کوئی بدلہ مل سکتا ہے جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں ؟

    ١٤٨۔اور موسیٰ کے (کوہ طور پر جانے کے ) بعد ان کی قوم نے اپنے زیورات سے ایک بچھڑا بنا لیا (یعنی) ایسا جسم جس میں بیل کی آواز تھی، کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ نہ تو ان سے بات کر سکتا ہے اور نہ ان کی رہنمائی کر سکتا ہے ، ایسے کو انہوں نے معبود بنا لیا اور وہ زیادتی کے مرتکب تھے۔

    ١٤٩۔اور جب وہ سخت نادم ہوئے اور دیکھ لیا کہ گمراہ ہو گئے ہیں تو کہنے لگے : اگر ہمارا رب ہم پر رحم نہ کرے اور ہمیں معاف نہ فرمائے تو ہم حتمی طور پر خسارے میں رہ جائیں گے۔

    ١٥٠۔اور جب موسیٰ نہایت غصے اور رنج کی حالت میں اپنی قوم کی طرف واپس آئے تو کہنے لگے : تم نے میرے بعد بہت بری جانشینی کی، تم نے اپنے رب کے حکم سے عجلت کیوں کی؟ اور (یہ کہہ کر) تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی کو سر کے بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ہارون نے کہا: اے مان جائے ! یقیناً قوم نے مجھے کمزور بنا دیا تھا اور وہ مجھے قتل کرنے والے تھے لہٰذا آپ دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں اور مجھے ان ظالموں میں شمار نہ کریں۔

    ١٥١۔موسیٰ نے کہا: اے میرے پروردگار! مجھے اور میرے بھائی کو معاف فرما اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔

    ١٥٢۔جنہوں نے گوسالہ کو(معبود)بنایا بے شک ان پر عنقریب ان کے رب کا غضب واقع ہو گا اور دنیاوی زندگی میں ذلت اٹھانا پڑے گی اور بہتان پردازوں کو ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔

    ١٥٣۔اور جنہوں نے گناہ کا ارتکاب کیا پھر اس کے بعد توبہ کر لی اور ایمان لے آئے تو اس (توبہ) کے بعد آپ کا رب یقیناً بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

    ١٥٤۔اور جب موسیٰ کا غصہ فرو ہو گیا تو انہوں نے (توریت کی)وہ تختیاں اٹھائیں جن کی تحریر میں ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت تھی جو اپنے پروردگار سے خائف رہتے ہیں۔

    ١٥٥۔ اور موسیٰ نے ہماری مقررہ میعاد کے لیے اپنی قوم سے ستر افراد منتخب کیے ، پھر جب انہیں زلزلے نے گرفت میں لیا (تو) موسیٰ نے عرض کیا: پروردگارا! اگر تو چاہتا تو انہیں اور مجھے پہلے ہی ہلاک کر دیتا، کیا تو ہمارے کم عقل لوگوں کے اعمال کی سزا میں ہمیں ہلاک کر دے گا؟ یہ تو تیری ایک آزمائش تھی جس سے جسے تو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ، تو ہی ہمارا آقا ہے ، پس ہمیں معاف فرما اور ہم پر رحم فرما اور تو معاف کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔

    ١٥٦۔ اور ہمارے لیے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بھلائی مقرر فرما ہم نے تیری طرف رجوع کر لیا ہے ،ارشاد فرمایا: عذاب تو جسے میں چاہتا ہوں دیتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے ، پس اسے میں ان لوگوں کے لیے مقرر کر دوں گا جو تقویٰ رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔

    ١٥٧۔(یہ رحمت ان مومنین کے شامل حال ہو گی)جو لوگ اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی امی کہلاتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور پاکیزہ چیزیں ان کے لیے حلال اور ناپاک چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے ) طوق اتارتے ہیں ، پس جو ان پر ایمان لاتے ہیں ان کی حمایت اور ان کی مدد اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا ہے ، وہی فلاح پانے والے ہیں۔

    ١٥٨۔ کہہ دیجیے : اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا (بھیجا ہوا) رسول ہوں آسمانوں اور زمین کا مالک ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی زندگی اور وہی موت دیتا ہے ، لہٰذا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ، اس امی نبی پر جو اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو شاید تم ہدایت حاصل کر لو۔

    ١٥٩۔اور قوم موسیٰ میں ایک جماعت ایسی تھی جو حق کے مطابق رہنمائی اور اسی کے مطابق عدل کرتی تھی۔

    ١٦٠۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو بارہ قبیلوں میں تقسیم کر کے جدا جدا جماعتیں بنائیں اور جب ان کی قوم نے ان سے پانی طلب کیا تو ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنا عصا پتھر پر مارو، چنانچہ اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ، ہر جماعت نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر لیا اور ہم نے ان کے سروں پر بادل کا سائبان بنایا اور ان پر من و سلویٰ نازل کیا، جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عنایت کی ہیں انہیں کھاؤ اور (بعد میں نافرمانی کی وجہ سے ) یہ لوگ ہم پر نہیں بلکہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔

    ١٦١۔اور جب ان سے کہا گیا کہ اس بستی میں سکونت اختیار کرو اور اس میں جہاں سے چاہو کھاؤ اور حطہ کہتے ہوئے اور دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے ، نیکی کرنے والوں کو ہم عنقریب مزید عطا کریں گے۔

    ١٦٢۔مگر ان میں سے ظالم لوگوں نے وہ لفظ بدل ڈالا جو خلاف تھا اس کلمہ کے جو انہیں کہا گیا تھا، پھر ان کے اس ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر آسمان سے عذاب بھیجا۔

    ١٦٣۔اور ان سے اس بستی (والوں ) کے بارے میں پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی، جب یہ لوگ ہفتہ کے دن خلاف ورزی کرتے تھے اور مچھلیاں ہفتہ کے دن ان کے سامنے سطح آب پر ابھر آتی تھیں اور ہفتہ کے علاوہ باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں ، اس طرح ان کی نافرمانی کی وجہ سے ہم انہیں آزماتے تھے۔

    ١٦٤۔اور جب ان میں سے ایک فرقے نے کہا:ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاکت یا شدید عذاب میں ڈالنے والا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا: (ہم یہ نصیحت) تمہارے رب کی بارگاہ میں عذر پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور(اس لیے بھی کہ) شاید وہ تقویٰ اختیار کریں۔

    ١٦٥۔پس جب انہوں نے وہ باتیں فراموش کر دیں جن کی انہیں نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے برائی سے روکنے والوں کو نجات دی اور ظالموں کو ان کی نافرمانی کی وجہ سے برے عذاب میں مبتلا کر دیا۔

    ١٦٦۔پس جب انہوں نے اس امر میں سرکشی کی جس سے انہیں روکا گیا تھا تو ہم نے کہا: خوار ہو کر بندر بن جاؤ۔

    ١٦٧۔اور (یاد کریں ) جب آپ کے رب نے اعلان کیا کہ وہ ان (یہودیوں ) پر قیامت تک ایسے لوگوں کو ضرور مسلط کرتا رہے گا جو انہیں بدترین عذاب دیں گے آپ کا رب یقیناً جلد سزا دینے والا ہے اور بلا شبہ وہ غفور، رحیم بھی ہے۔

    ١٦٨۔ اور ہم نے انہیں زمین میں مختلف گروہوں میں تقسیم کیا، ان میں کچھ لوگ نیک اور کچھ لوگ دوسری طرح کے تھے اور ہم نے آسائشوں اور تکلیفوں کے ذریعے انہیں آزمایا کہ شاید وہ باز آ جائیں۔

    ١٦٩۔ پھر ان کے بعد نا خلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جو کتاب اللہ کے وارث بن کر اس ادنیٰ زندگی کا مال و متاع سمیٹتے تھے اور کہتے تھے : ہم جلد ہی بخش دیے جائیں گے اور اگر ایسی ہی اور متاع ان کے سامنے آ جائے تو اسے بھی اچک لیتے ، کیا ان سے کتاب کا میثاق نہیں لیا گیا تھا کہ وہ اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ بھی نہ کہیں گے اور جو کچھ کتاب کے اندر ہے اسے یہ لوگ پڑھ چکے ہیں اور اہل تقویٰ کے لیے آخرت کی زندگی ہی بہترین زندگی ہے ، کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟

    ١٧٠۔ اور جو لوگ کتاب اللہ سے متمسک رہتے اور نماز قائم کرتے ہیں ہم (ایسے ) مصلحین کا اجر ضائع نہیں کرتے۔

    ١٧١۔اور (یہ بات بھی یاد کرو) جب ہم نے پہاڑ کو ان کے اوپر اس طرح اٹھایا گویا وہ سائبان ہو اور انہیں یہ گمان تھا کہ وہ ان پر گرنے ہی والا ہے (ہم نے ان سے کہا) جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے پوری قوت کے ساتھ اس سے متمسک رہو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو شاید کہ تم تقویٰ والے بن جاؤ۔

    ١٧٢۔ اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور ان پر خود انہیں گواہ بنا کر (پوچھا تھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے کہا تھا:ہاں ! (تو ہمارا رب ہے ) ہم اس کی گواہی دیتے ہیں ، (یہ اس لیے ہوا تھا کہ) قیامت کے دن تم یہ نہ کہ سکو کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے۔

    ١٧٣۔یا یہ کہو کہ شرک تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا نے کیا تھا اور ہم تو ان کے بعد کی اولاد ہیں ، تو کیا اہل باطل کے قصور کے بدلے میں ہمیں ہلاکت میں ڈالو گے ؟

    ١٧٤۔اور اس طرح ہم آیات کو کھول کر بیان کرتے ہیں شاید کہ یہ لوٹ آئیں۔

    ١٧٥۔اور انہیں اس شخص کا حال سنا دیجیے جسے ہم نے اپنی آیات دیں مگر وہ انہیں چھوڑ نکلا پھر شیطان نے اس کا پیچھا کیا تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا۔

    ١٧٦۔اور اگر ہم چاہتے تو ان( آیات) کے طفیل اس کا رتبہ بلند کرتے لیکن یہ شخص تو زمین بوس ہو گیا تھا اور اپنی نفسانی خواہش کا تابعدار بن گیا تھا، لہٰذا س کی مثال اس کتے کی سی ہو گئی کہ اگر تم اس پر حملہ کرو تو بھی زبان لٹکائے رہے اور چھوڑ دو تو بھی زبان لٹکائے رکھے ، یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں ، پس آپ انہیں یہ حکایتیں سنا دیجیے کہ شاید وہ فکر کریں۔

    ١٧٧۔ بدترین مثال ان لوگوں کی ہے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں اور خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں۔

    ١٧٨۔راہ راست وہ پاتا ہے جسے اللہ ہدایت عطا کرے اور جنہیں اللہ گمراہ کرے وہ خسارے میں ہیں۔

    ١٧٩۔ اور بتحقیق ہم نے جن و انس کی ایک کثیر تعداد کو (گویا) جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے ، ان کے پاس دل تو ہیں مگر وہ ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں ، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ، یہی لوگ تو (حق سے ) غافل ہیں۔

    ١٨٠۔اور زیبا ترین نام اللہ ہی کے لیے ہیں پس تم اسے انہی (اسمائے حسنیٰ) سے پکارو اور جو اللہ کے اسماء میں کج روی کرتے ہیں انہیں چھوڑ دو، وہ عنقریب اپنے کیے کی سزا پائیں گے۔

    ١٨١۔اور جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے ان میں ایک جماعت ایسی ہے جو حق کے مطابق ہدایت کرتی ہے اور اسی کے مطابق عدل کرتی ہے۔

    ١٨٢۔اور جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں ہم انہیں بتدریج اس طرح گرفت میں لیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہو گی۔

    ١٨٣۔ اور میں انہیں ڈھیل دوں گا، میری تدبیر یقیناً نہایت مضبوط ہے۔

    ١٨٤۔کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا کہ ان کے ساتھی(محمدؐ) میں کسی قسم کا جنون نہیں ہے ؟وہ تو بس صاف صاف تنبیہ کرنے والا ہے۔

    ١٨٥۔ کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اور جو چیزیں اللہ نے پیدا کی ہیں ان میں غور نہیں کیا اور(یہ نہیں سوچا کہ) شاید ان کی موت کا وقت نزدیک ہو رہا ہو؟ آخر اس (قرآن) کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے ؟

    ١٨٦۔جسے اللہ گمراہ کرے کوئی اس کی ہدایت کرنے والا نہیں اور اللہ ایسے لوگوں کو ان کی اپنی سرکشی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔

    ١٨٧۔یہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ قیامت واقع ہونے کا وقت کب ہے ؟ کہہ دیجیے : اس کا علم صرف میرے رب کے پاس ہے ، قیامت کے وقت کو اللہ کے سوا کوئی ظاہر نہیں کر سکتا، (قیامت کا واقع ہونا) آسمانوں اور زمین کا بڑا بھاری حادثہ ہو گا جو ناگہاں تم پر آ جائے گا، یہ آپ سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا آپ اس کی کھوج میں ہوں ، کہہ دیجیے : اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

    ١٨٨۔کہہ دیجیے :میں خود بھی اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں مگر اللہ جو چاہتا ہے (وہ ہوتا ہے ) اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے حاصل کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف بھی نہ پہنچتی، میں تو بس ایمان والوں کو تنبیہ کرنے اور بشارت دینے والا ہوں۔

    ١٨٩۔وہی تو ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ(انسان) اس سے سکون حاصل کرے پھر اس کے بعد جب مرد نے عورت کو ڈھانپ لیا (مقاربت کی) تو عورت کو ہلکا سا حمل ہو گیا جس کے ساتھ وہ چلتی پھرتی رہی، پھر جب وہ حمل بھاری ہوا تو دونوں (میاں بیوی) نے اپنے رب اللہ سے دعا کی کہ اگر تو نے ہمیں سالم بچہ دیا تو ہم ضرور تیرے شکر گزار ہوں گے۔

    ١٩٠۔پس جب اللہ نے انہیں سالم بچہ عطا کیا تو وہ دونوں اللہ کی اس عطا میں (دوسروں کو) اللہ کے شریک ٹھہرانے لگے ، اللہ ان کی مشرکانہ باتوں سے بالاتر ہے۔

    ١٩١۔کیا یہ لوگ ایسوں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں جو کوئی چیز خلق نہیں کر سکتے بلکہ خود مخلوق ہوتے ہیں ؟

    ١٩٢۔ اور جو نہ تو ان کی مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہی خود اپنی مدد کرنے پر قادر ہیں۔

    ١٩٣۔ اور اگر تم انہیں راہ راست کی طرف بلاؤ تو وہ تمہاری اطاعت نہیں کریں گے ، تمہارے لیے یکساں ہے خواہ تم انہیں دعوت دو یا تم خاموشی اختیار کرو۔

    ١٩٤۔اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں ، پس اگر تم سچے ہو تو تم انہیں ذرا پکار کر تو دیکھو انہیں چاہیے کہ تمہیں (تمہاری دعاؤں کا) جواب دیں۔

    ١٩٥۔کیا ان کے پیر ہیں جن سے وہ چلتے ہیں ؟ کیا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑتے ہیں ؟ کیا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہیں ؟ کیا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں ؟ کہہ دیجیے : تم اپنے شریکوں کو بلاؤ پھر میرے خلاف (جو) تدبیریں (کر سکتے ہو) کرو اور مجھے مہلت تک نہ دو۔

    ١٩٦۔ بے شک میرا آقا تو وہ اللہ ہے جس نے کتاب نازل کی اور جو صالحین کا کارساز ہے۔

    ١٩٧۔ اور اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو وہ نہ تو تمہاری مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہی خود اپنی مدد کر سکتے ہیں۔

    ١٩٨۔اور اگر ہدایت کے لیے تم انہیں بلاؤ تو وہ تمہاری بات بھی سن نہیں سکتے اور تم انہیں دیکھتے ہو کہ بظاہر وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی دیکھ نہیں سکتے۔

    ١٩٩۔(اے رسول) در گزر سے کام لیں ، نیک کاموں کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جائیں۔

    ٢٠٠۔ اور اگر شیطان آپ کو اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگیں ، یقیناً وہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔

    ٢٠١۔بے شک جو لوگ اہل تقویٰ ہیں انہیں جب کبھی شیطان کی طرف سے کسی خطرے کا احساس ہوتا ہے تو وہ چوکنے ہو جاتے ہیں اور انہیں اسی وقت سوجھ آ جاتی ہے۔

    ٢٠٢۔اور ان کے (شیطانی) بھائی انہیں گمراہی میں کھینچتے لیے جاتے ہیں پھر وہ (انہیں گمراہ کرنے میں ) کوتاہی بھی نہیں کرتے۔

    ٢٠٣۔ اور جب آپ ان کے سامنے کوئی معجزہ نہیں لاتے تو کہتے ہیں : تم نے خود اپنے لیے کسی نشانی کا انتخاب کیوں نہ کیا؟ کہہ دیجیے : میں یقیناً اس وحی کا پابند ہوں جو میرے رب کی جانب سے میری طرف بھیجی جاتی ہے ، یہ (قرآن) تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے باعث بصیرت اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔

    ٢٠٤۔ اور جب قرآن پڑھا جائے تو پوری توجہ کے ساتھ اسے سنا کرو اور خاموش رہا کرو ، شاید تم پر رحم کیا جائے۔

    ٢٠٥۔(اے رسول) اپنے رب کو تضرع اور خوف کے ساتھ دل ہی دل میں اور دھیمی آواز میں صبح و شام یاد کیا کریں اور غافل لوگوں میں سے نہ ہوں۔

    ٢٠٦۔ جو لوگ آپ کے رب کے حضور میں ہوتے ہیں وہ یقیناً اس کی عبادت کرنے سے نہیں اکڑتے اور اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کے آگے سجدہ ریز رہتے ہیں۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button