خطبات

خطبہ (۷۹)

(٧٨) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۷۸)

بَعْدَ فِرَاغِہٖ مِنْ حَرْبِ الْجَمَلِ فِیْ ذَمِّ النِّسَآءِ:

جنگِ جمل سے فارغ ہونے کے بعد عورتوں کی مذمت میں فرمایا : [۱]

مَعَاشِرَ النَّاسِ! اِنَّ النِّسَآءَ نَوَاقِصُ الْاِیْمَانِ، نَوَاقِصُ الْحُظُوْظِ، نَوَاقِصُ الْعُقُوْلِ:

اے لوگو! عورتیں ایمان میں ناقص، حصوں میں ناقص اور عقل میں ناقص ہوتی ہیں:

فَاَمَّا نُقْصَانُ اِیْمَانِهِنَّ فَقُعُوْدُهُنَّ عَنِ الصَّلٰوةِ وَ الصِّیَامِ فِیْۤ اَیَّامِ حَیْضِهِنَّ، وَ اَمَّا نُقْصَانُ عُقُوْلِهِنَّ فَشَهَادَةُ امْرَاَتَیْنِ كَشَهَادَةِ الرَّجُلِ الْوَاحِدِ، وَ اَمَّا نُقْصَانُ حُظُوْظِهِنَّ فَمَوَارِیْثُهُنَّ عَلَی الْاَنْصَافِ مِنْ مَّوارِیْثِ الرِّجَالِ.

نقصِ ایمان کا ثبوت یہ ہے کہ ایام کے دور میں نماز اور روزہ انہیں چھوڑنا پڑتا ہے اور ناقص العقل ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے اور حصہ و نصیب میں کمی یوں ہے کہ میراث میں ان کا حصہ مردوں سے آدھا ہوتا ہے۔

فَاتَّقُوْا شِرَارَ النِّسَآءِ، وَ كُوْنُوْا مِنْ خِیَارِهِنَّ عَلٰی حَذَرٍ، وَ لَا تُطِیْعُوْهُنَّ فِی الْمَعْرُوْفِ حَتّٰی لَا یَطْمَعْنَ فِی الْمُنْكَرِ.

بُری عورتوں سے ڈرو اور اچھی عورتوں سے بھی چوکنا رہا کرو۔ تم ان کی اچھی باتیں بھی نہ مانو تاکہ آگے بڑھ کر وہ بری باتوں کے منوانے پر نہ اتر آئیں۔

۱؂یہ خطبہ جنگ جمل کی تباہ کاریوں کے بعد ارشاد فرمایا اور چونکہ اس جنگ کی ہلاکت آفرینیاں ایک عورت کے حکم پر آنکھ بند کر کے چل پڑنے کا نتیجہ تھیں، اس لئے اس میں ان کے فطری نقائص اور ان کے وجوہ و اسباب کا ذکر فرمایا ہے۔

چنانچہ ان کی پہلی کمزوری یہ ہے کہ انہیں ہر مہینہ میں چند دنوں کیلئے نماز و روزہ سے دستبردار ہونا پڑتا ہے اور یہ اعمال سے علیحدگی ان کے ایمان کے نقص کی دلیل ہے۔ اگرچہ ایمان کے حقیقی معنی تصدیق قلبی و اعتقاد باطنی کے ہیں، مگر بطورِ مجاز عمل و کردار پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ چونکہ اعمال ایمان کا آئینہ ہوتے ہیں لہٰذا اعمال کو بھی ایمان کا جزو قرار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ امام علی ابنِ موسیٰ الرضا علیہ السلام سے مروی ہے کہ:

اِنَّ الْاِيْمَانَ هُوَ التَّصْدِيْقُ بِالْقَلْبِ وَ الْاِقْرَارُ بِاللِّسَانِ وَ الْعَمَلُ بِالْاَرْكَانِ.

ایمان دل سے تصدیق، زبان سے اقرار، اور اعضا سے عمل کرنے کا نام ہے۔[۱]

دوسری کمزوری یہ ہے کہ ان کی فطری استعداد عقلی تصرفات کو پورے طور سے قبول کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ لہٰذا ان کے میدان عمل کی وسعت ہی کے لحاظ سے فطرت نے ان کو قوائے عقلیہ دیئے ہیں جو حمل، ولادت، رضاعت، تربیتِ اولاد اور امورِ خانہ داری میں ان کی رہنمائی کر سکیں اور اسی ذہنی و عقلی کمزوری کی بنا پر ان کی گواہی کو مرد کی گواہی کا درجہ نہیں دیا گیا۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے:

﴿وَاسْتَشْهِدُوْا شَهِيْدَيْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ‌ۚ فَاِنْ لَّمْ يَكُوْنَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰٮهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰٮهُمَا الْاُخْرٰى﴾

اپنے مردوں میں سے جنہیں تم گواہی کیلئے پسند کرو دو مردوں کی گواہی لیا کرو، اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں۔ اگر ایک بھول جائے گی تو ان میں سے ایک دوسری کو یاد دلا دے گی۔[۲]

تیسری کمزوری یہ ہے کہ ان کی میراث کا حصہ مرد کے حصہ میراث سے نصف ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے:

﴿يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِىْۤ اَوْلَادِكُمْ‌ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ‌ ۚ﴾

خدا تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں وصیت کرتا ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہو گا۔[۳]

اس سے عورت کی کمزوری کا پتہ یوں چلتا ہے کہ میراث میں اس کا حصہ نصف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی کفالت کا بار مرد پر ہوتا ہے تو جب مرد کی حیثیت ایک کفیل و نگران کی قرار پائی تو نگرانی و سرپرستی کی محتاج صنف اپنی کمزوری کی خود آئینہ دار ہو گی۔

ان کی فطری کمزوریوں کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ان کی اندھا دھند پیروی اور غلط اطاعت کے مفاسد کا ذکر کرتے ہیں کہ بری بات تو خیر بری ہوتی ہی ہے، اگر وہ کسی اچھی بات کیلئے بھی کہیں تو اسے اس طرح انجام نہیں دینا چاہیے کہ انہیں یہ خیال ہونے لگے کہ یہ ان کی خاطر اور رضاجوئی کیلئے بجا لائی گئی ہے، بلکہ اس طرح کہ وہ یہ سمجھ لیں کہ اس اچھے کام کو اس کے اچھا ہونے کی وجہ سے کیا گیا ہے اس میں ان کی خواہش و رضامندی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اور اگر ان کو یہ وہم بھی ہو گیا کہ اس میں ان کی خوشنودی کو ملحوظ رکھا گیا ہے تو وہ ہاتھ پکڑتے ہوئے پہنچہ پکڑنے پر اتر آئیں گی اور یہ چاہنے لگیں گی کہ ان کی ہر بری سے بری بات کے آگے سر جھکایا جائے، جس کا لازمی نتیجہ تباہی و بربادی ہو گا۔

امیر المومنین علیہ السلام کے اس ارشاد کے متعلق علامہ محمد عبدہ تحریر کرتے ہیں کہ:

وَ لَقَدْ قَالَ الْاِمَامُ قَوْلًا صَدَّقَتْهُ التَّجَارِبُ فِی الْاَحْقَابِ الْمُتَطَاوِلَةِ.

امیر المو منین علیہ السلام نے ایک ایسی بات کہہ دی ہے کہ طویل صدیوں کے تجربے اس کی تصدیق کرتے ہیں۔[۴]

[۱]۔ درۂ نجفیہ، ص ۱۳۶۔

[۲]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۲۸۲۔

[۳]۔ سورۂ نساء، آیت ۱۱۔

[۴]۔ نہج البلاغہ، شیخ محمد عبدہ، ص ۱۲۹۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button