مقالات

ولادت حضرت  امام حسن مجتبی علیہ لسلام

حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی ولادت باسعادت ۱۵ رمضان المبارک آدھی رات کے بعد مدینہ منورہ میں ہوئی اور اس نوزادکے دائیں  کان میں رسول خدا نے اذان دی اور بائیں کان میں اقامت تلاوت فرمائی۔

پیامبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے حضرت علی ؑ سے فرمایا :کیا آپ نے اس مولود کا نام رکھ لیا ہے ؟ حضرت علی ؑ نے فرمایا میں آپ پر کیسے سبقت کرسکتا ہوں  ابھی تک ایک لحظہ نہیں گزرا تھا کہ بشیر وحی ،جبرائیل نازل ہوا اور فرمان خدا بیان فرمایا : ’’سمہ الحسن‘‘ اس کانام حسن رکھو۔[1]

پیامبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسن ؑ کا عقیقہ کیا اور بسم اللہ پڑھی اور دعا کی ۔[2]

القابات وکنیت

القابات کچھ اس طر ح ہیں سیّد ،مجتبی ،ولیّ ،طیّب ،زکیّ وتقی ۔۔۔

فضائل امام  ؑ

امام حسن  ؑبلند ترین صفات وکمالات کا مجسمہ تھے آپ اپنے جد امجد اور والد بزگوار کے صفات وکمالات کے مکمل آئینہ دار تھے جنہوں نے زمین پر فضائل وکمالات کے چشمے جاری کئے۔

امام حسن ؑ فضائل ومناقب ،اصل رائے ،بلند افکار ،ورع وپرہیز گاری ،وسیع حلم ،اخلاق حسنہ میں بلندی کمالات پر فائز ہوئے یہ سب آپ کے اخلاق کے کچھ جواہر پارے ہیں ۔

 شیعہ اور اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت امام حسن ؑ ایک حدیث کساء کے افراد میں سے ہیں اور آپ کی شان ہی میں آیہ تطہیر نازل ہوئی اور حدیث ثقلین کے ذریعے آپ ؑ مباہلہ میں بھی تھے او رپیامبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں یہ میرا بیٹا ہے اور اس سے محبت کیا کرتے تھے ۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند اور ان کے پھول ہیں آپ ؑ حلم ، صبر ،جود اور سخاوت میں رسول اسلام کے مشابہ تھے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سے خالص محبت کیا کرتے تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی محبت مسلمانوں کے درمیان مشہور تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد احادیثیں آپ ؑ کی شان میں بیان فرمائی ہیں جن میں سے کچھ احادیث یوں ہیں ۔

۱۔محبت رسول خدا

بی بی عائشہ سے روایت ہے :آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسن کو آغوش میں لیا اور ان کو اپنے سینے سے چمٹاتے ہوئے فرمایا :خدایا !یہ میرا فرزند ہے میں اس سے محبت کرتا ہوں اور جو اس سے محبت کریگا میں اس سے محبت کروں گا ۔[3]

۲۔بہترین سواری اور سوار

ابن عباس سے روایت منقول ہے :سرورکائنات امام حسن ؑ کو اپنے کندھے پر سوار کئے ہوئے کہیں لے جارہے تھے ،ایک شخص نے کہا :اے صاحبزادے !تمہاری سواری کتنی اچھی ہے ؟رسول اسلام نے فرمایا یہ نہ کہو کہ سواری کتنی اچھی ہے بلکہ یہ کہو کہ سوار کتنے اچھے ہیں۔ [4]

۳۔بلند اخلاق

امام حسن ؑکو اپنے جد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلند اخلاق وراثت میں ملے جواپنے اخلاق میں تمام انبیاء پر فضیلت رکھتے تھے ،مورخین نے آپ کے اخلاق کے متعلق متعدد روایات نقل کی ہیں ،ان ہی میں سے ایک یہ واقعہ ہے کہ ایک شامی شخص آپ ؑ کے پاس سے گزراتواس نے آپ ؑ کو دیکھ کر آپ پر سب وشتم کرنا شروع کیا ،امام خاموش رہے اور اس کو کوئی جواب نہ دیا جب وہ شخص سب وشتم کرکے خاموش ہو گیا امام حسن ؑ نے مسکراتے ہوئے چہرے سے اس سے فرمایا :اے بزرگ میرے خیال میں تم مسافر ہو اگرتم کچھ چاہتے ہو تو ہم تجھے عطاکریں ،اگر تم ہدایت چاہتے ہو تو ہم تمہاری ہدایت کریں ،اگرسواری کی ضرورت ہو تو سواری فراہم کریں،اگر تم بھوکے ہو توتمہیں کھانا کھلادیں گے ،اگرتم محتاج ہو تو تمہیں بے نیاز کردیں گے ،اگرتمہارے پاس رہنے کی جگہ نہیں ہے تو ہم اسکا انتظام کردیں گے ۔

جب امام ؑ اس سے اپنے نرم ولطیف کلام سے پیش آئے تو اس کے ہوش اڑ گئے وہ کوئی جواب نہ دے سکا ،وہ اس شش وپنج میں پڑگیا کہ امام سے کیسے عذر خواہی کرے اور جو گنا ہ مجھ سے صادر ہواہے اسکو کیسے مٹایا جائے؟اور اس نے کہنا شروع کیا ،اللہ تعالی بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کو کہاں قراردے۔[5]

یہ آپؑ کا بلند اخلاق تھا کہ ایک مرتبہ آپ فقیروں کی ایک ایسی جماعت کے پاس سے گزرے جوزمین پر بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے  انہوں نے آپ ؑ کو اپنے ساتھ کہانے کی دعوت دی تو آپ ؑنے ان کی دعوت کو قبول کرلیا اوران کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے لگے اور فرمایا :خدا وندعالم متکبروں کو دوست نہیں رکھتا ،پھر ان کو مہمان ہونے کی دعوت دی تو انہوں نے آپ ؑ کی دعوت پر لبیک کہا آپ ؑنے ان کو کھانا کھلایا ، کپڑادیا اور ان کو اپنے الطاف سے نوازا۔[6]

۴۔وسعت حلم

آپ ؑ ایسے حلیم وبردبار تھے کہ جو بھی آپ کے ساتھ بے ادبی کرتا آپ اسکے ساتھ احسان کرتے مؤرخین نے آپ کے حلم کے متعلق متعدد واقعات قلم بند کئے ہیں ایک واقعہ یہ ہے کہ آپ ؑنے جب اپنی بکری کا ایک پاؤں ٹوٹا ہوا دیکھا تو اپنے غلام سے فرمایا :یہ کس نے کیا ہے ؟غلام نے کہا میں نے ۔امام ؑتونے ایساکیوں کیا ؟غلام تاکہ آپ اسکی وجہ سے ناراض ہوجائیں !امام ؑنے مسکراتے ہوئے فرمایا :میں تمہیں ضرور خوش کروں گا ۔امام ؑ نے اس پر بہت زیادہ بخشش کرکے اسے آزاد کردیا ۔[7]

آپ ؑ کے سخت دشمن مروان بن حکم نے آپؑ کے عظیم حلم کا اعتراف کیا ہے اور جب آپ ؑکا جسم اطہر حضیرہ قدس میں لے جایا گیا تو اس نے آپ کے جنازہ کو کاندھا دینے میں سبقت کی ،امام حسین ؑ یہ دیکھ کر متعجب ہوئے اور اس سے فرمایا :آج تم اسکا جنازہ اٹھانے کیلئے آگئے جس پر تم کل غیظ وغضب کا گھو نٹ پیتے تھے ؟مروان نے کہا :جس کا حلم پہاڑکی مانند ہو میں اسکے ساتھ ایسا ہی کروں گا ۔ [8]

امام حسن ؑاپنے حلم ،بلند آداب اور عظیم اخلاق میں ایک نمونہ تھے اور اسی صفت کی وجہ سے آپ لوگوں کے قلوب میں جگہ بنائے تھے ۔

۵۔سخاوت

امام حسن ؑلوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے ،آپ اکثر غریبوں پر احسان فرماتے تھے ، کسی سائل کو کبھی رد نہیں کرتے تھے اور ایک مرتبہ آپ سے سوال کیا گیا : آپ ؑسائل کو رد کو نہیں کرتے ہیں ؟آپ ؑنے فرمایا :بے شک میں اللہ کا سائل ہوں ، اسی سے لولگاتا ہوں ،مجھے اس بات سے شرم آتی ہے کہ میں خود تو سائل ہوں اور سوال کرنے والوں کو رد کردوں بے شک خدا مجھ پر نعمتیں نازل کرتا ہے اور میں نے اپنی نعمتیں لوگوں کودینے کی عادت بنالی ہے اور مجھے یہ خوف ہے کہ اگر کہیں میں نے اپنی یہ عادت ختم کرلی تو خداوند بھی کہیں اپنی نعمتوں کو روک نہ لے ۔اسکے بعد آپ ؑنے یہ جملات پڑھے :اگرمیرے پاس کوئی سائل آتا ہے تومیں اسے خوش آمدید کہتا ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ آپ کا احترام کرنا مجھ پر واجب ہے ۔آپ کااحترام ہر شخص پر فرض ہے اور انسان کے بہترین ایام وہ ہیں جب اس سے سوال کیاجائے ۔

آپ ؑ کے دروازے پر محتاجوں اور فقیروں کی بھیڑ لگی رہتی تھی آپ ؑان کے ساتھ احسان ونیکی کرتے اور انہیں ان کی خواہش سے زیادہ عطا کیاکرتے تھے مؤرخین نے آپؑ کے کرم وسخاوت کے متعدد واقعات نقل کئے ہیں ،ہم ان میں سے بعض واقعات کو نقل کررہے ہیں ۔

۱۔ایک اعرابی نے آکر سوال کیا توامام ؑنے فرمایا :جو کچھ خزانہ میں ہے اسکودے دو  اس وقت خزانہ میں دس ہزار درہم تھے اس اعرابی نے امام ؑکی خدمت عرض کیا :کیا  آپ مجھے یہ اجازت مرحمت فرمائیں گے کہ میں آپ کی شان ومدح میں کچھ اشعار پڑہوں ؟ توامام ؑنے فرمایا :ہم ایسے لوگ ہیں جن کی بخشش سرسبز وشاداب ہے جس میں آرزو اور امید چرتی رہتی ہے ہم سوال کیے جانے سے پہلے ہی سخاوت کرتے ہیں تاکہ سائل کی آبرومحفوظ رہے ۔[9]

اگرسمندر کو ہماری بخشش کی فضیلت معلوم ہوتی تووہ اپنی فیاضی سے شرمند ہ ہوجاتا ۔

۲۔امام حسن ؑایک ایسے حبشی غلام کے پاس سے گزرے جو اپنے سامنے رکھی ہوئی روٹی کا ایک ٹکڑا خود کھاتا تھا اور دوسراروٹی کاایک ٹکڑا اپنے کتے کو ڈال رہا تھا امام ؑنے اس سے فرمایا ’’تم ایسا کیوں کررہے ہو‘‘

اس نے کہا مجھے شرم آتی ہے کہ میں توروٹی کھاؤں اور اسکو نہ کھلاؤں۔

امام ؑنے اس غلام میں اس بہترین خصلت کا مشاہدہ فرمایا اور اسکو اچھی خصلت کی جزا دینا چاہی اس کے احسان کے مقابلہ میں احسان کرناچاہا تاکہ فضیلتوں کو رائج کیاجاسکے ۔ اس سے فرمایا،تم اسی جگہ پر رہو،پھر آپ نے اسکے مالک کے پاس جاکر غلام اور جس باغ میں وہ رہتا تھا اس کو خریدا اور اسکے بعد اسے آزاد کرکے اس باغ کامالک بنادیا ۔[10]

۳۔ایک مرتبہ امام حسن ؑمدینہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے تو آپ نے سنا کہ ایک آدمی اللہ تعالی سے دس ہزار درہم کا سوال کررہا  ہے تو جلدی سے اپنے بیت الشرف میں آئے اور اسکے لئے دس ہزار درہم بھیج دئے ۔

۶۔زہد

رسول اسلام  ﷺکے اس پہلے پھول اور آپ کے اس لخت جگر نے اپنی زندگی زہد وتقوی میں بسر کی اور ہمیشہ خدا سے لولگائے رہے ،اور زندگی کے بہت کم مال ودولت پر قناعت فرمائی امام ؑفرماتے ہیں :روٹی کامعمولی ٹکڑا مجھے شکم سیر کردیتا سادہ پانی کا ایک گھونٹ میرے لئے کافی ہے ۔زندگی میں معمولی کپڑا میرے پہننے کے لئے کافی ہے اور مرنے کے بعد میری تکفین کے لئے کافی ہے ۔

[1] . امالی شیخ صدوق ص۱۹۷،۱۹۸  ،علل الشرایع ،ج ۱،ص۱۳۷،۱۳۸

[2] . حر عاملی ، وسائل الشیعہ ،ج۲۱،ص۴۳۵

[3] .کنزالعمال ج ۷،ص۱۰۴، مجمع الزوائد ج ۹ ص۱۷۶

[4] . صواعق محرقہ ،ص۸۲، حلیۃ الاولیاء،ج۲،ص۳۵

[5] . مناقب ابن شہر آشوب ج۲،ص۱۴۹

[6] . اعیان الشیعہ جلد۴،ص۲۴

[7] . مقتل الحسین خوارزمی ج ۱،ص۱۴۷

[8] . شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید  ،جلد ۴،ص۵

[9] . ابن شہر آشوب ،مناقب  آل ابی طالب ،ج۳،ص۱۸۲،بحارالانوار،ج۴۳،ص۳۴۱

[10] . البدایہ  والنہایہ،ج۸ ،ص۳۸ ،اہل البیت  ،ص۲۹۱،۲۹۲

تحریر: مولانا ممتاز حسین بھڈوال

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button