مقالات

اہل سنت عالم کا نہج البلاغہ پر تبصرہ

علامہ عبد الرزاق ملیح آبادی

علامہ عبد الرزاق ملیح آبادی اہلسنت عالم اور مولانا ابو الکلام آزاد  کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔انہوں نے علامہ اقبال کے قریبی اہل سنت عالم جناب مولانا غلام رسول مہر کے کہنے پر نہج البلاغہ کے دوسرے حصے خطوط و وصیتوں کا ترجمہ کیا۔یہ کسی اہل سنت عالم  کا  نہج البلاغہ کے اس حصہ  کا پہلا اردو ترجمہ ہے۔اہل سنت کے مشہور عالم جناب علامہ رئیس احمد جعفری نے نہج البلاغہ کے پہلے حصہ یعنی خطبات کا ترجمہ کیا۔

شیعہ عالم علامہ سید مرتضی حسین صدر الافاضل نے نہج البلاغہ کے تیسرے اور آخری حصہ کلمات قصار کا اردو ترجمہ کیا۔ تینوں حصوں کا یہ مکمل ترجمہ ایک ساتھ اس وقت بھی  شیخ غلام علی اینڈ سنز کی طرف سے شائع ہو رہا ہے اور بازار میں موجود ہے۔

یوں نہج البلاغہ کا یہ مکمل اردو ترجمہ جہاں کلام امام کو سمجھنے کے لئے بہترین کوشش ہے وہیں یہ شیعہ سنی علماء کے اتحاد اور مل کر علمی کام کرنے کا ایک بہترین نمونہ بھی ہے۔علامہ عبد الرزاق ملیح آبادی نے ترجمہ کے شروع میں نہج البلاغہ کے متعلق ایک خوبصورت مضمون بعنوان پہلا بول لکھا جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے

پہلا بول

علمائے عرب و عجم کا فیصلہ ہے کہ کلام اللہ اور کلام رسول اللہ کے بعد امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا کلام، افصح الکلام و ابلغ المقال ہے حضرت امیر کی لسان امیر اللسان اور حضرت امیرؑ کا کلام، امیرالکلام ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملاء اعلیٰ سے کوئی مقدس نورانی ہستی بول رہی ہے۔ لفظ تو بے شک انسانی لفظ ہیں۔ آواز بھی بے شک انسانی آواز ہے، مگر کلام کا انجام و نظام انسانی نہیں، بلکہ ملکوتی ہے، چھوٹے سے چھوٹا فقرہ بھی اپنی جگہ ممتاز ہے۔ ایسا ممتاز کہ انسانی کلام میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

اللہ کی رحمتیں ہوں سیّد رضی پر، کہ امیر المومنین علیہ السلام کے خطبوں، تحریروں اور جملوں کا ایک مجموعہ چھوڑ گئے (نہج البلاغہ) اسی مجموعہ کا نام ہے، یہ مجموعہ بلاشبہ عربی ادب کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے اور اسی سرمایہ پر عربی زبان جتنا فخر کرے کم ہے۔ ( نہج البلاغہ) کا ایک ایک لفظ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ اس کے جس حصے میں تحریریں جمع کی گئی ہیں، انمول خزانہ ہے۔

ہر زبان میں نثر نے نظم کے بہت بعد ترقی کی ہے، قوم کی ذہنی پختگی اور تمدن کی ترقی کے ساتھ نثر آگے بڑھتی ہے، عربی زبان میں نثر کا پہلا نمونہ ( قرآن مجید ہے ) مگر قرآن کی نثر ایسے اسلوب پر ہے کہ بقول ابن خلدون، فن انشاء میں اسے رہنما بنایا نہیں جا سکتا۔ اس نثر کی پیروی انسانی طاقت سے باہر ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خلفائے ثلاثہ کے مراسلات، مکاتیب، نہایت مختصر ہوتے تھے۔ اس لیے کہ نثر نے ابھی تک ترقی نہیں کی تھی۔ دفعتاً امیر المومنین علیہ السلام سے نثر شروع ہو جاتی ہے یہ نثر صحیح معنی میں نثر ہے مگر ایسی نثر، جس پر ہر عربی نثر قربان کی جا سکتی ہے۔

امیر المومنین کی خطابت ایک معجزہ ہے، لیکن امیرالمومنین کی انشاء تو معجزے سے بڑھ کر کوئی اور چیز ہے۔ ایسی بے تکلف، بلند، ٹھوس تحریر کی امیرالمومنین سے پہلے عربی ادب میں مثال نہیں ملتی اور پھر تحریر بھی کیسی۔ ہر موضوع پر، ہر عنوان پر، اہم سیاسی مسائل پر محیط  اعلیٰ سے اعلیٰ اخلاقی مواعظ پر حاوی ،طنزیہ بھی، ناصحانہ بھی، دل ملانے والی بھی، دل ہلا ڈالنے والی بھی۔ ایمان کی پرورش کرنے والی بھی، نفاق کو بے پردہ کر ڈالنے والی بھی، طویل سے طویل بھی، مختصر سے مختصر بھی ۔مگر اس طرح کہ ہر لفظ فصاحت کا علمبردار، ہر جملہ بلاغت کا آئینہ دار بلکہ سچ تو یہ ہے کہ فصاحت و بلاغت امیر المومنینؑ کی کنیزیں ہیں جو ہر وقت تعمیل حکم کے لیے ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہیں۔

اہل علم جانتے ہیں ایسی بلیغ تحریر کے ترجمے میں لوہے کے کیسے چنے چبنا پڑتے ہیں۔ پھر امیرالمومنین کی تحریر کا ترجمہ کیسا ہوگا! یہ جانتے ہوئے بھی، اپنی بے بصاعتی کا علم رکھتے ہوئے بھی اس کٹھن مہم کا بیڑامیں نے اٹھالیا۔ میری اس جرأت کی سفارش، شاید یہ واقعہ کرے کہ اس سے ادبی خزانے کو اردو میں منتقل کرنے کی اب تک کسی نے ہمت نہیں کی اور میری اس جرأت کی ذمہ داری سراسر مولانا غلام رسول صاحب مہر کے سر پر ہے۔ وہ ہمت نہ دلاتے، تو میں جرأت بھی نہ کرتا۔

ترجمہ جیسا بھی ہے، آپ کے سامنے ہے، اس میں خامیاں ہو سکتی ہیں۔ لیکن یہ بات میرے تسلّی کی ہے کہ ترجمہ صحیح ہے۔ میں نے اردو زبان کی سلاست بھی کہیں کہیں صحت ترجمہ پر قربان کر دی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس ترجمہ کو سامنے رکھ کر عربی ادب کے شیدائی ( نہج البلاغہ) کا مطالعہ کریں گے تو بہت فائدہ اٹھایں گے۔

اس کتاب میں سلمان فارسی کے نام ایک خط کے علاوہ جتنی تحریریں ہیں امیرالمومنین کے آغاز خلافت سے شہادت تک کی ہیں، یعنی 36 ہجری سے 40 ہجری تک تقریباً چار برس کی مدت میں امیرالمومنین نے یہ سب لکھا ہے، یا املا کر کے لکھوایا ہے۔

سید رضی نے ( نہج البلاغہ) جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس لیے تیار نہیں کیا تھا کہ امیرالمومنین ؑکا سب کلام جمع کر دیں، بلکہ مقصود یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ فصیح و بلیغ کلام چُن لیا جائے، یعنی ( نہج البلاغہ) امیرالمومنین کے کلام کا مکمل مجموعہ نہیں ہے، بلکہ فصیح ترین کلام کا مجموعہ ہے، اس لیے ( نہج البلاغہ) میں پابندی نہیں کی گئی کہ مکمل تحریریں جمع کی جائیں، بہت سی نا مکمل تحریریں بھی ہیں لیکن ( نہج البلاغہ) کے شہرہ آفاق شارح، ابن ابی الحدید نے اکثر نا مکمل تحریریں مستند روایتوں سے مکمل کر دی ہیں۔

خاکسار

عبد الرزاق،ملیح آبادی

نئی دہلی۔نومبر ۱۹۵۰

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button