مقالاتنہج البلاغہ مقالات

عورت کا مقام

مقالہ نگار: تسکین فاطمہ حیدری جامعۃ الزھراء قم المقدسہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عورت کی خلقت کا مقصد
قرآن خلقت و صلاحیت کے فلسفہ (۱) میں مرد و عورت کے درمیان مثلاً روح الہی (۲) فطرت الھی (۳) وجدان اخلاقی (۴) و امانت (۵) و غیرہ میں فرق قرار نہیں دیا اور جیسا کہ انسان کی اہمیت ایمان عمل صالح (۶)، علم(۷)، تقوی(۸)، ایمان میں سبقت (۹)، جھاد (۱۰)، ہجرت (۱۱) خوشبختی کی راہ (۱۲) وغیرہ سے ہے اور قرآن مرد و عورت کے درمیان ان تمام چیزوں میں ذرہ برابر فرق قرار نہیں ہے۔ بلکہ مرد و عورت کی ایک دوسرے کے ذریعے مکمل جانا ہے۔ فقط یہی نہیں بلکہ اسلام عورت کی خلقت کا مقصد بیان کرتا ہے کہ اللہ نے عورت کو خلق کیا اور عورت کو ہی مرد کے وجود کی خلقت و پیدائش کیلئے مقدمہ قرار دیا۔

اسلام کے مطابق انسان کی خلقت کا ہدف (علت غائی) اس کا کمال تک پہنچنا ہے۔ انسان کیلئے آسمان، زمین، ہوا، پانی، سورج، چاند، ستارہ… تمام چیزیں خلق کی گئی ہیں لیکن یہ نہیں کہا جاتا کہ عورت مرد کیلئے پیدا کی گئی ہے بلکہ قرآن آواز دے رہا ہے کہ مرد کو وجود عورت بخشتی اور خدا قرآن میں مختلف مقام پر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے جیسے سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے {ھن لباس لکم و انتم لباس لھن} یا فرماتا ہے کہ {و لھن مثل الذی علیھن بالمعروف } (۱۳) اور دوسری جگہ اس کے مقام و عظمت کے بارے میں اس طرح فرماتا ہے کہ {ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکما زواجا لستکنوا الیھا و جعل بینکم مودۃ و رحمۃ}(۱۴) کلمہ ’’من نفسکم‘‘  مرد و عورت کے مساوی و برابر ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

قرآن میں بہت زیادہ آیات عورت کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے جو کہ عورت کے مقام و فضیلت کی طرف نشان دہی کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ عورت کے حقوق کی رعایت کی تاکید کرتیں ہیں اور ان کے حقوق کی رعایت نہ کرنے پر آتش جہنم کی دھمکی دی گئی ہے مثلاً {تلک حدود اللہ } و {تبعد حدودہ فقد ظلم نفسہ} اور سورہ نساء کے شروع میں ہی کلمہ ’’اتقوا‘‘ عورت کی منزلت و ان کے حقوق کی رعایت کی طرف اشارہ ہے۔

اس کے علاوہ بھی بہت زیادہ آیات و روایات عورت کے مقام و منزلت کے بارے میں موجود ہیں اور قرآن میں ایک مکمل سورہ، سورہ نساء کے نام سے موجود ہے۔ اگر کسی جگہ پر ہمارے معصومین علیہم السلام نے عورت کی مذمت کی ہے تو سبب وجہ بھی بیان فرمائی ہے اور عورت کو محبت و مہربانی کا مرکز قرار دیا ہے۔

جیسا کہ امام علیؑ اپنے فرزند امام حسنؑ سے وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عورتوں سے مشورہ نہ کرنا ۔ ان کی رائے کمزور اور ان کا ارادہ سست ہوتا ہے۔ انہیں پردہ میں رکھ کر ان کی نگاہوں کو تاک جھانک سے محفوظ رکھو کہ پردہ کی سختی ان کی عزت و آبرو کو باقی رکھنے والی ہے اور ان کا گھر سے نکل جانا غیر معتبر افراد کے اپنے گھر میں داخل کرنے سے زیادہ خطرناک نہیں ہے۔ اگر ممکن ہو تو وہ تمہارے علاوہ کسی کو نہ پہچانیں تو ایسا ہی کرو اور خبردار انہیں ان کے ذاتی مسائل سے زیادہ اختیارات نہ دو اس لئے کہ عورت ایک پھول ہے اور حاکم و متصرف نہیں ہے اس کے پاس و لحاظ کو اس کی ذات سے آگے نہ بڑھاؤ اور اس میں دوسروں کی سفارش کا حوصلہ نہ پیدا ہونے دو۔ دیکھو خبردار غیرت کے مواقع کے علاوہ غیرت کا اظہار مت کرنا اس طرح اچھی عورت بھی برائی کے راستے پر چلی جائے گی اور بے عیب بھی مشکوک ہوجاتی ہے۔ (۱)

لیکن اگر دیکھا جائے تو اس کلام میں مختلف احتمالات پائے جاتے ہیں ایک احتمال یہ ہے کہ اس دور کے حالات کی طرف اشارہ ہے جب عورتیں ۹۹ فیصد جاہل ہوا کرتی تھیں اور ظاہر ہے کہ پڑھے لکھے انسان کا کسی جاہل عورت سے مشورہ کرنا نادانی کے علاوہ کچھ نہیں۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس میں عورت کی جذباتی فطرت کی طرف اشارہ ہے کہ اس کے مشورہ میں جذبات کی کارفرمائی کا خطرہ زیادہ ہے۔ لہذا اگر کوئی عورت اس نقص سے بلند تر ہو جائے تو اس سے مشورہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تیسرا احتمال: یہ ہے کہ اس میں ان مخصوص عورتوں کی طرف اشارہ ہوا جن کی رائے پر عمل کرنے سے عالم اسلام کا ایک بڑا حصہ تباہی کے گھاٹ اتر گیا اور آج تک اس تباہی کے اثرات دیکھے جا رہے ہیں۔ (۲)

اس وصیت کی عمدہ و بہترین شرح ابن میثم بحرانی اس طرح بیان کرتے ہیں کہ امام علیؑ نے امام حسنؑ سے عورت و ان کے امور کے بارے میں چند وصیتیں کیں

۱: عورت سے مشورہ کرنے سے پرہیز کرو، کیونکہ یہ عقلی لحاظ سے ناقص (ناقص العقل) ہیں اور ان کی فکروں میں خطا کا امکان ہے۔
۲: عورتوں کے نظریہ کو حجاب (لباس) کے ذریعے پوشیدہ کرو۔
۳: جس شخص کے بارے (چاہے مرد ہو یا عورت) اطمینان نہ ہو اسے گھر میں لانا بہتر نہیں۔
۴: بعض موقع پر مردوں کو گھر میں لانے سے زیادہ فساد کا سبب عورتوں کا گھر سے باہر جانا ہے اور عورتوں کیلئے اچھا یہ ہے کہ اپنے شوہر کے علاوہ کسی کو نہ پہچانے۔
۵: وہ امور جو عورت کی طاقت و قدرت سے باہر ہیں (کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ) ان پر مسلط نہیں ہونا چاہیے۔

ان تمام باتوں کے باوجود امامؑ نے فرمایا ’’المراۃ ریحانۃ‘‘ عورت ایسی گھاس کے مانند ہے جو خوشبودار ہوتی ہے عورت کا کام حاکم ہونا نہیں بلکہ عورت کا وجود لذت و فائدہ بخش ہے شاید ایک وجہ عورت کی ریحانہ (خوشبو) کے لفظ سے مخصوص کرنے کی یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عرب کی عورتیں عطر بہت زیادہ استعمال کرتی تھیں اور یہ کہ عورت حاکم نہیں ہوسکتی اس لئے کہ وہ حاکم بننے کیلئے نہیں خلق کی گئی ہیں بلکہ(محکوم بنا کر پیدا کی گئی ہیں) تاکہ اس پر حکومت کی جائے۔

۶: انکا احترام جن (چیزوں) سے مربوط ہے اس سے تجاوز نہ کرو
۷: عورت کو دوسروں کی سفارش کیلئے نہ بلاؤ، کیونکہ یہ کام ان کی توانائی سے باہر ہے اور اس کام میں انہیں کے نقصان کا اندیشہ ہے۔

۸: عورت کے معاملہ میں ان کی پاکدامنی و غیرت کو بیچ میں نہ لاؤ کیونکہ یہ چیزیں ان کے لئے فساد کا موجب بن سکتی ہیں یعنی یہ برے کاموں کیلئے مجبور کرسکتی ہیں اور اس کام کی برائی و کثافت کو ان کی نگاہوں سے دور کرسکتی ہیں۔

اسی طرح علامہ خوئی وصیت کی ۳۱ کی بہت اچھی تشریح کی ہے اور نیک نظریہ کے مطابق اگر مولا علیؑ نے عورتوں سے مشورہ کرنے سے منع کیا ہے تو عورتوں کی فکری ناتوانی کی وجہ سے، اور اگر وہ امور جو ان کی قدرت سے باہر ہیں اگر ان کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر ڈالنے سے روکا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ ان کاموں کی وجہ سے انہیں تکلیف ہوسکتی ہے اور یہ چیزیں ان کی خوبصورتی و اہمیت کو ختم کر سکتی ہیں اور انہیں دوسروں کی سفارش کیلئے نہ بلاؤ کیونکہ دوسروں کی توجہ ان کی طرف ہو سکتی ہے اور یہ فساد کا موجب بن سکتا ہے۔ (۱)

امام علیؑ کے اقوال و گفتار حقیقت میں اسلام و قرآن ہے کہ ہرگز یہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ ایک ساتھ حوض کوثر پر رسول اکرمؐ کے پاس حاضر ہوں گے اور اگر کوئی انسان منبع اسلامی کی بررسی و تحقیق کرے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ اسلام نے عورت کی کمزوری جو لائق مہربان و کرم ہے اس پر خاص توجہ کی ہے اور اسے اپنا دفاع (حفاظت) کرنے سے بھی مجبور جانا ہے اسی وجہ سے عورتوں کو خوشبو و شیشہ سے تشبیہ دی اور مردوں کو سفارش کی کہ ان کے ساتھ مہربانی و نرمی کا سلوک کریں۔ (۲)

اسلام کہتا ہے کہ وہ امور جو عورتوں سے مربوط نہیں ہیں ان میں عورتوں سے مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن وہ امور جو عورتوں سے مخصوص ہیں ان سے مشورہ کرو مثلاً وہ امور جو لڑکیوں سے مربوط ہیں ’’أستمرو انساء فی بناتھن‘‘ وہ امور جو کہ تمہاری بیٹیوں سے مربوط ہیں ان کے بارے میں اپنی عورتوں سے مشورہ کرو اگر دیکھا جائے تو مولا کا مقصد عورتوں کی مذمت کرنا نہیں بلکہ ایک واقعیت جو خلقت میں پائی جاتی ہے اسے بیان کرتے ہیں یعنی قانون تکوینی و بقاء نسل انسان اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خدا نے اس عظیم عہدہ کو عورتوں کے سپرد کیا اس کے تمام وسائل و لوازم انہیں عطا فرمائے۔ ان میں ایک وسیلہ عشق و محبت ہے کہ مرد اس صفت سے محروم ہے اس لئے کہ کا درد برداشت کے قابل ہو اس کیلئے عقل کی کمزوری کا ہونا ضروری ہے۔ (۳)

مولا علیؑ نے اپنی وصیت میں عورتوں سے مشورہ کرنے سے منع کیا ہے لیکن مولاؑ نے عمومی بات نہیں کہی اور نہ تمام عورتوں کو ناقص العقل کہا ہے اور خود قرآن میں جو آیات مشورہ پر دلالت کرتیں ہیں وہ آیات عام ہیں اور عمومیت پر دلالت کرتی ہیں {امرھم شوری بینھم} (۱) و {والمومنون و المومنات بعضھم اولیاء بعض یأمررہ بالمعروف و ینھون عن المنکرٖ} (۲) بعض مومن مرد و عورت بعض، بعض کے سرپرست ہیں اور ایک دوسرے کو اچھے و پسندیدہ کاموں کی دعوت دیتے ہیں اور برے کاموں کو انجام دینے سے منع کرتے ہیں ہمارے ائمہ خود عورتوں سے مشورہ کرتے تھے اور جو عورتیں باکمال تھیں دوسروں کو بھی ان سے مشورہ کرنے کی تاکید کرتے تھے جیسا کہ مولا علیؑ فرماتے ہیں کہ (ایاک و مشاورۃ النسا الا من جربت بکمال عقل) (۳)یعنی عورتوں سے مشورہ کرنے سے پرہیز کرو مگر وہ عورتوں جن کی عقلیں کمال تک پہنچ گئی ہو اور بانجھ نہ ہو ان تمام باتوں کی بنا پر ثابت ہوتا ہے کہ وہ احادیث جو عورتوں کی عقل کے ناقص ہونے پر دلالت کرتیں ہیں بعض عورتوں کیلئے ہیں نا کہ تمام عورتوں کیلئے۔ (۴)

ہمارے معصومینؑ کا عورتوں سے مشورہ کرنا اس بات پر واضح دلالت کرتا ہے کہ تمام عورتیں ناقص العقول نہیں ہیں جیسا کہ مولا علیؑ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول خداؐ نے اپنے اصحاب و انصار سے پوچھا کہ بتاؤ عورتوں کیلئے بہترین چیز کیا ہے؟ کسی نے زیور کسی نے حجاب، کسی نے گھر کہا یہاں تک کسی نے صحیح جواب نہیں دیا مولا علیؑ جب پلٹ کر گھر آئے تو جناب فاطمہؑ سے وہی سوال پوچھا بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے عرض کیا: عورتوں کیلئے بہتر یہ ہے کہ وہ نہ نامحرم کو دیکھے اور نہ ہی نامحرم اسے دیکھے۔ غرض دوسرے دن رسول اکرمؐ کے دوبارہ سوال کرنے پر مولا علیؑ نے جواب دیا حضرتؐ نے فرمایا: اے علیؑ تم نے خود غور فکر کی، مولاؑ نے عرض کی: نہیں یہ جواب فاطمہؑ نے دیا۔ (۵)

یہی نہیں بلکہ بے شمار واقعات موجود ہیں جو عورتوں کی فضیلت کو بیان کرتے ہیں اور بہت زیادہ احادیث و روایات بھی موجود ہیں۔ خود ہمارے ائمہ طاہرینؑ کی طرف سے عورتوں کے مقام و منزلت کے بارے میں روایات نقل کی گئی ہیں جیسا کہ امام صادقؑ جناب ہاجر کی تعریف و توصیف کے بعد اس طرح ان کی صفت بیان کی ’’جمیلۃ عاقلۃ‘‘ جناب ہاجر عاقل و خوبصورت عورت تھیں۔ اسی طرح جناب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی جوانی کے دنوں میں اپنی جان کی حفاظت کیلئے دربار سے باہر چلے گئے اور جناب شعیب علیہ السلام کی بیٹی کی بتائی ہوئی تدبیر کے ذریعے اپنی جان کی حفاظت کی اور زندگی کو دوام بخشا اور رسول خداﷺ نے ام سلمیؓ کی اس طرح تعریف کی ’’یرحمک اللہ انت علی خیر و الی خیر‘‘ خدا کی رحمت تمہارے شامل حال ہو کہ تم نیکی کے راستے پر ہو اور ہمیشہ رہو گی اسی طرح امام حسینؑ نے جناب سکینہ اپنی دختر نیک اختر کے بارے میں بیان فرمایا کہ ’’و اما سکینۃ غالب علیھا الا ستغراق مع اللہ‘‘ سکینہ یاد خدا میں غرق ہے۔ (۶)

جیسا کہ مولاؑ نے وپنی وصیت ۳۱ میں عورت کو نقص ایمان بیان فرمایا ہے بعض ہمارے علمائے کرام مثلاً ابن میثم بحرانی وغیرہ عورت کے نقص ایمان ہونے کی وجہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ وہ ان ایام سے مربوط ہے جبکہ عورت نماز و روزہ کو ترک کرتی ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو عورت اپنے ان ایام کا جبران کر لیتی ہے وہ کس طرح ؟

عورتیں، مردوں سے چھ سال پہلے (قبل) نماز شروع کرتیں ہیں اور ان چھ سال کی مدت میں انکی نماز ۱۲۹۰ رو ز کی نماز، مردوں سے زیادہ ہے اور وہ تمام ایام جبکہ نماز و روزہ کو انجام نہیں دیتی ہے ایک سال حد اقل ۳۶ دن و حد اکثر ۱۲۰ دن سے زیادہ نہیں ہوتے لہذا ہر حال میں اس طرح وہ دن جن میں نماز و روزہ کو ترک کرتیں ہیں جبران ہو جاتا ہے اور بہت سے عورتیں ثواب کی نیت سے بعد میں نماز و روزہ کو ادا بھی کرتیں ہیں۔ (۱)

دوسری جگہ مولاؑ نے ارشاد فرمایا: ’’و اما نقصان عقولھن فشھادۃ امراتین کشھادۃ الرجل الواحد‘‘ (۲) اور عقلوں کے اعتبار سے ناقص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہوتی ہے مولا علیؑ نے کیوں عورتوں کو ناقص العقل کہا۔ اس کی بہترین توضیح ہمارے علماء کرام اس طرح بیان کرتے ہیں کیونکہ عورت کے مزاج کا خاصہ یہ ہے کہ واقعات کے بیان میں جذبات کو ضرور شامل کر دیتی ہیں اور یہی چیز گواہی میں نقص پیدا کردیتی ہے ورنہ وہ شعور اور ادراک کے اعتبار سے ناقص نہیں ہوتی ہے اس کا نقص عقل پر جذبات کے غلبہ سے ظاہر ہوتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو مرد کو بھی ناقص العقل بنا سکتی ہے یا دوسرے الفاظ میں اگر مرد اپنے فسق کی بنا پر قابل شہادت نہ رہے تو اس کا شمار بھی ناقص العقل افراد ہی میں ہوگا کہ فسق کی تعلیم جذبات و خواہشات نے دی ہے عقل نے نہیں دی ہے۔

دوسری طرف اگر ہم دیکھیں تو عقل کی دو اقسام ہیں عقل انسانی و اجتماعی، عقل انسانی میں عورت و مرد برابر ہیں لیکن عقل اجتماعی میں مرد عورت پر مقدم و غالب ہے وہ اس طرح عقل انسانی وہیں عقل ہے ’’ما عبد بہ الرحمن و اکتسب بہ الجنان‘‘ یعنی عقل وہ چیز ہے جس کے ذریعے خدا کی عبادت کی جاتی ہے اور اس عقل کے وسیلہ سے بہشت حاصل کی جاتی ہے اسی عقل انسانی کے ذریعے انسان خدا سے رابطہ برقرار کرتا ہے اور آیات الہی پر غور و فکر {أفلا تعقلون}کیوں تفکر نہیں کرتے؟ یہ آیت عمومیت پر دلالت کرتی ہے یعنی مرد و عورت دونوں کو شامل کرتی ہے لہذا عقل انسانی وہ عقل ہے جس میں مرد و عورت مساوی و برابر ہیں۔ لیکن عقل اجتماعی، فیصلہ کرنا، ہدایت، امامت، جنگ، گواہی وغیرہ سے مربوط ہے اور یہاں پر عورت کے جذبات غالب آجاتے ہیں وہ عورت کی نرمی و جذبات عقل پر غالب ہو جاتے ہیں اس بنا پر مرد کی عقل، عورت کی عقل پر مقدم ہے۔ (۳)

دوسری جگہ مولا علی عورت کی فضیلت اور اسکے وظیفہ کے بارے میں اس طرح ارشاد فرماتے ہیں… و جہاد المرۃ حسن التبعل(۱) عورت کا جہاد شوہر کے ساتھ خوش اخلاقی و اس کی اطاعت ہے کیونکہ شوہر کی اطاعت میں خدا کی اطاعت ہے عورت کا نفس (امارہ) اس مسئلہ میں شکست کھاتا ہے اور عورت اللہ کے راستے پر گامزن ہوتی ہے۔ مولا ؑ کے اس قول سے بھی عورت کی عظمت واضح ہوتی ہے کہ خدا نے عورت کو میدان جہاد میں جانے سے منع کیا ہے مگر اسے بغیر اجر و ثواب کے نہیں چھوڑا ہے بلکہ فرمایا: عورت کا جہاد شوہر داری ہے۔ عورت یہ نہ سوچے کہ اللہ نے اسے اس فضیلت (جہاد) سے محروم کردیا ہے بلکہ اگر عورت گھر میں رہے اور اپنے تمام وظیفہ کو انجام دے تو ا س کا ثواب بالکل اس مجاہد کی طرح ہے جو میدان میں جا کر شمشیر کے ذریعے دشمنوں سے مقابلہ کرتا ہے رسول اکرمؐ نے فرمایا: اس کا ثواب شہید کے ثواب کا نصف ہے واقعاً اگر عورت اپنے شوہر کی دنیا و آخرت کے کاموں میں مدد کرتی ہے تو اس کا اجر مجاہدوں و شہدا کے برابر ہوتا ہے (۲) یہ اس واقعہ سے واضح ہوتا ہے جیسا کہ ایک شخص رسول خداؐ کے پاس آیا اور عرض کی جب میں گھر جاتا ہوں تو میری بیوی میرے استقبال کو آتی ہے جب گھر سے باہر نکلتا ہوں تو خدا حافظی کرنے دروازہ تک آتی ہے اور جب بھی مجھے غمگین دیکھتی ہیں تو کہتی ہے کیوں غمگین ہیں؟ اگر آپ کا یہ غم دنیا و روزی کی کمی کیلئے ہے تو جان لیں رزق و روزی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور خدا اس کا ضامن ہے اور اگر آپ کا غم آخرت کیلئے ہے تو یہ ایک اچھا کام ہے کہ آپ آخرت کی فکر میں ہیں خدا آپ کے غم میں اضافہ کرے۔ رسول خداؐ نے فرمایا: خدا زمین پر اپنے بندوں کو کام کرنے کیلئے بھیجتا ہے اور یہ عورت انہیں میں سے ایک ہے۔ (۳)

اولاد کی تربیت
ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دنیا کے نظام میں کونسا ایسا کام ہے جس کی ذمہ داری اللہ نے عورتوں کو دی ہے یا یہ کہ عورتوں کو کس لئے خلق فرمایا ہے؟ اور کس مقصد کی بنا پر ان کو خاص جسم و روح عطا کی ہے؟ اور ایسی کون سی خاص چیزیں اس مقصد کی تکمیل کیلئے انہیں بخشی ہے؟ اگر ہم ایک کلمہ میں اس ہدف و رسالت کا خلاصہ کرنا چاہے تو وہ عورت کا ’’ماں‘‘ہونا ہے یہ پاک کلہ خود گرانبھا جواہرات و مرواید و مخزن وضع اور برکات و فیض کا سرچشمہ ہے اللہ نے ماں ہونے کی بنا پر بھی عورت کو خاص روح و جسم عطا کیا ہے عورت ہی انسان کو آمادہ کرتی ہے کہ اس کا کیا وظیفہ (ذمہ داری) ہے اگر ماں کا نقش نہ ہوتا تو کوئی بھی نقش وجود میں نہ آتا عورت عالم ہستی کی ضرورت ہے۔ اللہ نے اس عظیم کائنات کو خلق کیا اور ایک عظیم و بلند تر مقام عورت کیلئے قرار دیا اور یہ اس کا ماں ہونا ہے اور ماں کو وہ تمام وسائل و اسباب عنایت کئے جو اس نقش عظیم کو پورا کرنے کیلئے ضروری و لازم تھے۔ پتہ یہ چلا کہ اللہ نے عورت کی طبیعی شرائط و خاص خصوصیات کے ساتھ خلق کیا کہ اگر یہ عورت نہ ہوتی تو انسان بھی وجود میں نہ آتا۔ (۴)

اولاد کی تربیت ایک عظیم فریضہ ہے جو کہ اللہ نے والدین خصوصاً ماں کو یہ ذمہ داری دی ہے عورت بھی اپنے کمال قدرت کے ذریعے اس عظیم ذمہ داری کو انجام دیتی ہے بچہ ماں کی تمام صفات، گفتار و رفتار ہر چیز پر غور کرتا ہے اور ہر چیز اپنی ماں سے اپناتا ہے بچہ کیلئے پہلی درسگاہ ماں کی آغوش ہے عورت بھی تربیت کے مرحلہ میں ایسی قدرت و صلاحیت کی حامل ہے کہ اپنی تمام صفات کو با آسانی اپنے بچوں میں منتقل کرسکتی ہے اور بچہ بھی بغیر چوں و چرا کے ان صفات کو قبول کر لیتا ہے اور انہیں اپنے لئے سر مشق و نمونہ قرار دیتا ہے مولاعلیؑ نے اولاد کی تربیت میں عورت کے کردار کو بہت ہی اچھے انداز میں بیان کیا ہے (۱) اگر عورت نہ ہو تو اولاد کے گمراہ ہونے کا اندیشہ ہے اولاد کے بد اخلاق، بد کردار ہونے کا خطرہ ہے عورت ہی وہ ہستی ہے جو اولاد کو گمراہی کے دلدل سے بچاتی ہے اور ہدایت کے راستے کی نشاندہی کرتی ہے۔

اجتماع میں عورت کا مقام
مرد و عورت دونوں حیات انسانی کی ضروریات کو حاصل کرنے میں مساوی ہیں قرآن کریم فرماتا ہے {بعضکم من بعض}(۲) یعنی اے انسان تم بعض، بعض سے ہو اور تمہاری وجود نسخ میں کوئی فرق نہیں ہے اس بنا پر عورت بھی مرد کی طرح مستقل طور پر کام، ارادہ، و زندگی پر اختیار رکھتی ہے اور ان کاموں کا نقصان و فائدہ خود انہیں سے مربوط ہے۔ ملاحظہ مرد و عورت قرآن کے مطابق برابر و مساوی ہیں اور اجتماع میں شرکت کے عنوان ہے ملکہ سباء کو یاد کیا ہے کہ ملک کے امور کو اجراء کرتی تھیں انہیں عقلمند عورت کے عنوان سے معرفی کراتی ہے۔

(۳) جناب شعیبؑ کی بیٹیوں کو بھی اس طرح یاد کیا ہے کہ اجتماعی کاموں میں شرکت کرتی تھیں قرآن سیاسی کاموں میں مثلاً محبت، ہجرت، امر بہ معروف و نہی از منکر،مباہلہ (۴۔۵۔۶۔۷) وغیرہ میں مرد و عورت کا ایک خاص صورت میں تذکرہ کیا ہے۔ قرآن کریم عورتوں کی کسب و تلاش اقتصادی کو محترم شمار کیا ہے۔ (۸) اور ان کو صاحب ارث قرار دیا ہے۔ (۹) اور عورت کو دو چیزوں (رخصت) کے ذریعے امتیاز بخشا ہے۔ عورت کا مقام، کاشت کاری کی طرح ہے کہ نوع انسانی اس کے وسیلہ سے رشد و نمو پاتی ہے اور ان کی بقا (انسانوں کی) ان سے وابستہ و مربوط ہوتی ہے یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن کمال و رشد تک پہنچنے کیلئے عورت کو زمینہ جانتا ہے اور اسے فراہم کرنے والی بھی خود عورت ہوتی ہے اور مرد بہت کم اس کام میں شرکت (دخالت) کرتا ہے۔

عورت کا وجود مطافت و حساسیت پر منحصر ہے اسی لئے مولا علیؑ فرماتے ہیں کہ المرأۃ ریحانۃ اور اس کی یہ حالت (کیفیت) اس کے اموال و اجتماعی وظائف پر بھی اثر انداز ہوتی ہے یعنی معلوم یہ ہوا کہ عورت بھی تمام احکام عبادی و حقوق اجتماعی میں مرد کے ساتھ شریک ہے جس طرح مرد استقلال رکھتا ہے عورت بھی صاحب استقلال ہے و عورت کی عظمت و مقام اس کے ماں ہونے کی بنا پر ہے۔

عورت کا ماں ہونا ہی اس کی ارزش و اہمیت پر دلالت کرتا ہے اور اس کے مقام کو بناتا ہے ان آیات و روایات کے علاوہ بھی بشمار آیات قرآنی و روایات موجود ہیں کہ جن کے ذریعے ہم استدلال کر سکتے ہیں اور عورت کے مقام کو بیان کر سکتے ہیں۔

فہرست منابع
۱۔قرآن کریم ۲۔نہج البلاغہ ،سید رضی ترجمہ:علامہ جوادی
۳۔حکمت نظری وعملی در نہج البلاغہ آیۃ اللہ جواد املی ۴۔درسھائی از نہج البلاغہ ،ایۃ اللہ منتظری ج۱
۵۔مقام زن از دیدگاہ نہج البلاغہ ،دکتر سید جواد مصطفوی ۶۔زن از دیدگاہ نہج البلاغہ فاطمہ علائی رحمانی
۷۔روان شناسی زن در نہج البلاغہ مریم معین الاسلام ۸۔زن ،عقل،ایمان ،مشور؟دکتر کبری خزعی
۹۔برنامہ ریزی رابہردی مسائل زنان در نہج البلاغہ سیمیندخت بھزادپور
۱۰۔دانسنامہ امام علی ؑ علی اکبر استاد ج۵ ۱۱۔نہج البلاغہ امام علی ؑ،دکتر اس اللہ مبشری
۱۲۔نہج البلاغہ فیض الاسلام

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button