مقالات

نہج البلاغہ کا تعارف:تیسری قسط

آیا نہج البلاغہ کلام علیؑ ہے؟

کچھ ناقدین نے نہج البلاغہ کو سید رضی کے ذہن رسا کا اختراع قرار دیا ہے اور انہوں نے ان دلائل پر اعتماد کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ یہ کلام حضرت علیؑ کا نہیں ہوسکتا۔

۱۔  کتاب میں بعض عبارتیں ایسی ایسی ہیں جن میں صحابہ پر طعن و تشنیع کی گئی ہے۔  جو حضرت علیؑ سے ممکن نہیں۔

۲۔  کتاب میں فلسفیانہ اصطلاحات ہیں جیسے این، کیف اور مسائل کی تشریح کرتے ہوئے شماریات اور فضائل و رذائل کی تقسیم بندی اور صفت و موصوف کا خاص خیال رکھنا اور اسی طرح مور اور چیونٹی کے بارے میں گفتگو کرنا عرب جن سے ناآشنا تھے، جب یونان اور فارس کی کتب کا ترجمہ  ہو گیا تو یہ مضامین اہل عرب تک پہنچے۔

۳۔  کتاب میں مسجع اور مقفیٰ عبارتیں ہیں اور لفظوں کے وہ صنائع و بدائع ہیں جو عصر امووی کے آخری دور اور عصر عباسی کے آغاز میں پائے جاتے ہیں۔

۴۔  کتاب کی کچھ عبارتوں سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صاحب نہج البلاغہ غیب سے آشنا تھا اور ہم اس بات کو کبھی بھی مولا علیؑ سے منسوب نہیں کر سکتے۔

 متقدمین میں سے سب سے پہلے اس بارے میں ابن خلکان نے یہ شبہہ پیدا کیا اور اس رائے کا اظہار کیا کہ نہج البلاغہ سید رضی کا کلام نہیں ہے، پھر مستشرقین میں سے کلیمان ھوار نے یہ کہا کہ یہ کتاب علی ابن طاہر المرتضی کی تالیف ہے۔

 لیکن محققین، علماء اور صاحبان بصیرت نےان باتوں کو نہایت مضبوط دلائل اور براہین ساطعہ  کے ساتھ رد کر دیا ہے۔

 نہج البلاغہ کی اہمیت، افادیت اور عظمت  کےسبب تالیف کے  دور سے لے کر آج تک اس کی بہت زیادہ شرحیں اور حاشیے لکھے گئے ہیں اور علماء نے اس طرف خصوصی توجہ دی ہے۔

 

۱۔ سب سے پہلے پہلی شرح اعلام نہج البلاغہ ہے جسے تحریر کیا ہے سید علی بن الناصر نے جو سید رضی کے معاصرین میں سے ہیں۔

۲۔ شرح احمد بن محمد ابلوبری جو پانچویں صدی ہجری کے اعلام میں سے ہیں۔

۳۔ شرح ٖضیا الدین ابی الرضا فضل اللہ الروندی۔

۴۔ معارج نہج البلاٖغہ ابو الحسین علی بن ابی القاسم البیہقی النشاپوری

۵۔ منہاج البراعۃ ابو الحسین قطب الدین سعید بن  ھبۃ اللہ الروندی۔

۶۔ حدائق الحقائق ابو الحسین محمد بن الحسین مشہور بہ قطب الدین الکیدری

۷۔  شرح القاضی عبد الجبار المردد بین سعبۃ الفقھاء المعاصرین المشارکین فی الاسم

۸۔ شرح ابی حامد عزالدین عبدالحمید بن ابی الحدید المعتزلی

۹۔ تلخیص شرح ابن ابی الحدید للقاٖضی محمود الطبسی

۱۰۔ تلخیص آخر  لفخر الدین عبد اللہ بن  الموید باللہ جس کا نام العقد النضید المستخرج من شرح ابن ابی الحدید ہے۔

۱۱۔ شرح العلامہ جمال الدین الحسن بن یوسف الحلی

۱۲۔ شرح کبیر چار جلدوں میں کمال الدین بن عبد الرحمن الحلی جسے انہوں نے چار شرحوں سے منتخب کیا ہے شرح قطب الدین الکیدری، شرح قاضی عبدالجبار،  شرح ابن ابی الحدید، شرح کبیرلابن میثم۔

۱۳۔ شرح نہج البلاغہ لکمال الدین میثم بن علی بن میثم بحرانی متوفی ۶۷۹ ھ وہ کہتے ہیں:

۱۔ امام علی علیہ السلام کی رائے صحابہ کرام کے بارے میں:

لَقَدْ رَاَیْتُ اَصْحَابَ مُحَمَّدٍ ﷺ، فَمَاۤ اَرٰی اَحَدًا مِنْكُمْ یُشْبِهُهُمْ! لَقَدْ كَانُوْا یُصْبِحُوْنَ شُعْثًا غُبْرًا، قَدْ بَاتُوْا سُجَّدًا وَّ قِیَامًا، یُرَاوِحُوْنَ بَیْنَ جِبَاهِهِمْ وَ خُدُوْدِهِمْ، ۔۔۔، خَوْفًا مِّنَ الْعِقَابِ، وَ رَجَآءً لِلثَّوَابِ!. ‘‘ (خ ۹۷)

 ’’  میں نے آنحضرت محمدﷺ کے اصحاب کو دیکھا ہے میں نے تم لوگوں میں سے کسی کو بھی ان جیسا نہیں پایا وہ لوگ صبح کے وقت گرد و غبار میں اٹے ہوتے اور رات کا وقت سجدوں اور قیام میں گذارتے ہیں اور اپنی یشانیوں اور رخساروں کو باری باری زمین پر رکھتے اور معاد کا ذکر پر ایسے کھڑے ہوتے جیسے انگاروں پر کھڑے ہوں اور طولانی سجدوں کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر گٹے پڑ جاتے تھے جب اللہ کا ذکر کیا جاتا تھا تو ان کی آنکھوں سے اشک رواں ہو جاتا تھا یہاں تک کہ ان کے گریبان بھیگ جاتے تھے اور وہ عذاب کے خوف اور ثواب کی امید میں اس طرح لرزتے ہیں جیسے جکھڑ کے دوران درخت حرکت میں آ جاتے ہیں۔‘‘

  اب اگر امام علیؑ نے کچھ صحابہ کے بارے میں کہا ہے تو اس لیے کہ انہوں نے فتنہ پردازی کی تھی اور قوم میں انتشار پیدا کیا تھا لیکن امام علیؑ کا لہجہ متین ہے اور وہ حق کے دائرے سے باہر نہیں۔

۲۔  امام علیؑ ایسی فکری طاقت اور فطری صلاحیت رکھتے تھے کہ انہوں نے فلسفیانہ مضامین کو اپنے خطبوں میں جگہ دی ہے تو یہ ان کی وقّاد طبیعت سے کچھ بعید نہیں۔

 ۳۔یہاں تک بعض لوگوں کے نزدیک وہ غیب کی خبریں دیتے ہیں تو یہ اجتماعی فیصلوں اور سیاسی مقدمات اور اسباب کے نتائج ہیں اس لیے کہ انہوں نے پوری زندگی حضور انورﷺ  کے ساتھ گزاری تھی۔

۴۔  ان کی کتاب میں جو سجع اور حسن ہے وہ طبعی ہے  بناوٹی نہیں۔

۱۴۔  شرح امام الاکبر شیخ محمد عبدہ مفتی دیار مصر یہ ان کے علاوہ بہت سی شرحیں ہیں جن کا تذکرہ پچاس صفحات میں الذریعہ الی تصانیف الشیعہ  جلد 14 میں آقا بزرگ تہرانی نے کیا ہے۔

رشحات قلم: مولانا سید تلمیذ حسنین رضوی

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button