صحیفہ کاملہ

7۔ مشکلات کے وقت کی دعا

(۷) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

دُعا (۷)

اِذَا عَرَضَتْ لَهٗ مُهِمَّةٌ اَوْ نَزَلَتْ بِهٖ مُلِمَّةٌ وَّ عِنْدَ الْكَرْبِ:

جب کوئی مہم درپیش ہوتی یا کوئی مصیبت نازل ہوتی یا کسی قسم کی بے چینی ہوتی تو حضرتؑ یہ دُعا پڑھتے تھے:

یَا مَنْ تُحَلُّ بِهٖ عُقَدُ الْمَكَارِهٖ، وَ یَا مَنْ یُّفْثَاُ بِهٖ حَدُّ الشَّدَآئِدِ، وَ یَا مَنْ یُّلْتَمَسُ مِنْهُ الْمَخْرَجُ اِلٰى رَوْحِ الْفَرَجِ.

اے وہ جس کے ذریعہ مصیبتوں کے بندھن کھل جاتے ہیں، اے وہ جس کے باعث سختیوں کی باڑھ کند ہو جاتی ہے، اے وہ جس سے (تنگی و دشواری سے) وسعت و فراخی کی آسائش کی طرف نکال لے جانے کی التجا کی جاتی ہے۔

ذَلَّتْ لِقُدْرَتِكَ الصِّعَابُ، وَ تَسَبَّبَتْ بِلُطْفِكَ الْاَسْبَابُ، وَ جَرٰى بِقُدْرَتِكَ الْقَضَآءُ، وَ مَضَتْ عَلٰۤى اِرَادَتِكَ الْاَشْیَآءُ. فَهِیَ بِمَشِیَّتِكَ دُوْنَ قَوْلِكَ مُؤْتَمِرَةٌ، وَ بِاِرَادَتِكَ دُوْنَ نَهْیِكَ مُنْزَجِرَةٌ.

تو وہ ہے کہ تیری قدرت کے آگے دشواریاں آسان ہو گئیں، تیرے لطف سے سلسلۂ اسباب برقرار رہا، اور تیری قدرت سے قضا کا نفاذ ہوا، اور تمام چیزیں تیرے ارادہ کے رخ پر گامزن ہیں، وہ بن کہے تیری مشیت کی پابند اور بن روکے خود ہی تیرے ارادہ سے رکی ہوئی ہیں۔

اَنْتَ الْمَدْعُوُّ لِلْمُهِمَّاتِ، وَ اَنْتَ الْمَفْزَعُ فِی الْمُلِمَّاتِ، لَا یَنْدَفِعُ مِنْهَاۤ اِلَّا مَا دَفَعْتَ، وَ لَا یَنْكَشِفُ مِنْهَاۤ اِلَّا مَا كَشَفْتَ.

مشکلات میں تجھے ہی پکارا جاتا ہے اور بلیات میں تو ہی جائے پناہ ہے۔ ان میں سے کوئی مصیبت ٹل نہیں سکتی مگر جسے تو ٹال دے اور کوئی مشکل حل نہیں ہو سکتی مگر جسے تو حل کر دے۔

وَ قَدْ نَزَلَ بِیْ یَا رَبِّ مَا قَدْ تَكَاَّدَنِیْ ثِقْلُهٗ، وَ اَلَمَّ بِیْ مَا قَدْ بَهَظَنِیْ حَمْلُهٗ، وَ بِقُدْرَتِكَ اَوْرَدْتَّهٗ عَلَیَّ، وَ بِسُلْطَانِكَ وَجَّهْتَهٗ اِلَیَّ.

پروردگارا! مجھ پر ایک ایسی مصیبت نازل ہوئی ہے جس کی سنگینی نے مجھے گرانبار کر دیا ہے، اور ایک ایسی آفت آ پڑی ہے جس سے میری قوت برداشت عاجز ہو چکی ہے۔ تو نے اپنی قدرت سے اس مصیبت کو مجھ پر وارد کیا ہے، اور اپنے اقتدار سے میری طرف متوجہ کیا ہے۔

فَلَا مُصْدِرَ لِمَاۤ اَوْرَدْتَ، وَ لَا صَارِفَ لِمَا وَجَّهْتَ، وَ لَا فَاتِحَ لِمَاۤ اَغْلَقْتَ، وَ لَا مُغْلِقَ لِمَا فَتَحْتَ، وَ لَا مُیَسِّرَ لِمَا عَسَّرْتَ، وَ لَا نَاصِرَ لِمَنْ خَذَلْتَ.

تو جسے تو وارد کرے اسے کوئی ہٹانے والا، اور جسے تو متوجہ کرے اسے کوئی پلٹانے والا، اور جسے تو بند کرے اسے کوئی کھولنے والا، اور جسے تو کھولے اسے کوئی بند کرنے والا، اور جسے تو دشوار بنائے اسے کوئی آسان کرنے والا، اور جسے تو نظر انداز کرے اسے کوئی مدد دینے والا نہیں ہے۔

فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ افْتَحْ لِیْ یَا رَبِّ بَابَ الْفَرَجِ بِطَوْلِكَ، وَ اكْسِرْ عَنِّیْ سُلْطَانَ الْهَمِّ بِحَوْلِكَ، وَ اَنِلْنِیْ حُسْنَ النَّظَرِ فِیْمَا شَكَوْتُ، وَ اَذِقْنِیْ حَلَاوَةَ الصُّنْعِ فِیْمَا سَئَلْتُ، وَ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّ فَرَجًا هَنِیْٓئًا، وَ اجْعَلْ لِیْ مِنْ عِنْدِكَ مَخْرَجًا وَّ حِیًّا.

رحمت نازل فرما محمدﷺ اور ان کی آلؑ پر اور اپنی کرم نوازی سے اے میرے پالنے والے میرے لئے آسائش کا دروازہ کھول دے، اور اپنی قوت و توانائی سے غم و اندوہ کا زور توڑ دے، اور میرے اس شکوہ کے پیشِ نظر اپنی نگاہِ کرم کا رخ میری طرف موڑ دے، اور میری حاجت کو پورا کر کے شیرینی احسان سے مجھے لذت اندوز کر، اور اپنی طرف سے رحمت اور خوشگوار آسودگی مرحمت فرما، اور میرے لئے اپنے لطف خاص سے جلد چھٹکارے کی راہ پیدا کر۔

وَ لَا تَشْغَلْنِیْ بِالِاهْتِمَامِ عَنْ تَعَاهُدِ فُرُوْضِكَ، وَ اسْتِعْمَالِ سُنَّتِكَ، فَقَدْ ضِقْتُ لِمَا نَزَلَ بِیْ یَا رَبِّ ذَرْعًا، وَ امْتَلَاْتُ بِحَمْلِ مَا حَدَثَ عَلَیَّ هَمًّا، وَ اَنْتَ الْقَادِرُ عَلٰى كَشْفِ مَا مُنِیْتُ بِهٖ، وَ دَفْعِ مَا وَقَعْتُ فِیْهِ، فَافْعَلْ بِیْ ذٰلِكَ وَ اِنْ لَّمْ اَسْتَوْجِبْهُ مِنْكَ، یَا ذَا الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ.

اور اس غم و اندوہ کی وجہ سے اپنے فرائض کی پابندی اور مستحبات کی بجا آوری سے غفلت میں نہ ڈال دے۔ کیونکہ میں اس مصیبت کے ہاتھوں تنگ آ چکا ہوں، اور اس حادثہ کے ٹوٹ پڑنے سے دل رنج و اندوہ سے بھر گیا ہے، جس مصیبت میں مبتلا ہوں اس کے دور کرنے اور جس بلا میں پھنسا ہوا ہوں اس سے نکالنے پر تو ہی قادر ہے، لہٰذا اپنی قدرت کو میرے حق میں کار فرما کر، اگرچہ تیری طرف سے میں اس کا سزا وار نہ قرار پا سکوں۔ اے عرش عظیم کے مالک۔

–٭٭–

جب زہرِ غم رگ و پے میں اُترتا اور کرب و اندوہ کے شراروں سے دل و دماغ پھنکتا ہے تو درد و اَلم کی ٹیسیں سکون و قرار چھین لیتی ہیں اور صبر و شکیب کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ نہ تسلّی و تسکین کا کوئی سامان نظر آتا ہے، نہ صبر و ضبط کی کوئی صورت۔ ایسی حالت میں یاس و نا امیدی کبھی جنون و دیوانگی میں مبتلا اور کبھی موت کا سہارا ڈھونڈنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اگر انسان اس موقع پر بلند نظری سے کام لے تو اسے ایک ایسا سہارا مل سکتا ہے جو حوادث و آلام کے بھنور اور رنج و اندوہ کے سیلاب سے نکال لے جا سکتا ہے اور وہ سہارا اللہ ہے جو اضطراب کی تسلّی اور درد و کرب کا چارہ کر سکتا ہے۔ چنانچہ امیرالمومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے:

اِذَا اشْتَدَّ الْفَزَعُ فَاِلَى اللّٰهِ الْمَفْزَعُ.

جب بے چینی حد سے بڑھ جائے تو پھر اللہ ہی تسکین کا مرکز ہے۔[۱]

اور اگر اللہ کی ہستی پر ایمان نہ بھی ہو جب بھی فطرتِ خوابیدہ کروٹ لے کر اس کا راستہ دکھا دیتی ہے اور مصیبت و بیچارگی کسی ان دیکھی ہستی کے آگے جُھکنے اور اُس کا سہارا لینے کیلئے پکارتی ہے۔ چنانچہ ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے وجودِ باری کے سلسلہ میں گفتگو کی تو آپؑ نے اُس سے دریافت فرمایا کہ تمہیں کشتی پر سوار ہونے کا کبھی اتفاق ہوا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں۔ فرمایا: کبھی ایسا اتفاق بھی پیش آیا ہے کہ کشتی بھنور میں گھِر گئی ہو اور سمندر کی تلملاتی لہروں نے تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا ہو؟ اس نے کہا کہ جی ہاں! ایسا بھی ہوا ہے۔ فرمایا کہ اس وقت تمہارے دل میں کوئی خیال پیدا ہوا تھا؟ کہا کہ ہاں! جب ہر طرف سے مایوسی ہی مایوسی نظر آنے لگی تو میرا دل کہتا تھا کہ ایک ایسی بالا دست قوت بھی موجود ہے جو چاہے تو اس بھنور سے مجھے نکال لے جا سکتی ہے۔ فرمایا: بس وہی تو خدا تھا جو انتہائی مایوس کن حالتوں میں بھی مایوس نہیں ہونے دیتا اور جب کوئی سہارا نہ رہے تو وہ سہارا ثابت ہوتا ہے۔[۲]

چنانچہ جب انسان اللہ تعالیٰ پر مکمل یقین و اعتماد پیدا کر کے اس پر اپنے اُمور کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ اپنی ذہنی قوتوں کو منتشر ہونے سے بچا لے جاتا ہے اور جب ہمہ تن اس کی یاد میں کھو جاتا ہے تو الجھنیں اور پریشانیاں اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں۔ کیونکہ ذہن کا سکون اور قلب کی طمانینت اس کے ذکر کا لازمی نتیجہ ہے۔ جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ۝۲۸ۭ﴾

دل تو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔[۳]

وہ لوگ جو اطمینان کو بظاہر غم غلط کرنے والی کیفیت انگیز و مسرت افزا چیزوں میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ کبھی سکون و اطمینان حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ نہ عشرت کدوں میں اطمینان نظر آتا ہے، نہ تاج و دیہیم کے سایوں میں، نہ نغمہ و سرود کی محفلوں میں سکون و قرار بٹتا ہے، نہ ناؤ و نوش کی مجلسوں میں۔ بے شک ہر موقع پر ذکر و عبادت کیلئے دل آمادہ اور طبیعت حاضر نہیں ہوتی خصوصاً جب کہ انسان کسی مصیبت کی وجہ سے ذہنی کشمکش میں مبتلا ہو۔ اس لئے کہ مصیبت بہرصورت مصیبت ہے اور اس سے متاثر ہونا طبعی و فطری ہے۔ تو ایسے موقع پر نوافل سے دست کش ہوا جا سکتا ہے۔ مگر بہت سے لوگ ایسے بھی ملیں گے جو پریشان کُن حالات میں فرائض تک سے غافل ہو جاتے ہیں۔ تو انہیں امام علیہ السلام کی اس دُعا پر نظر کرنا چاہیے کہ وہ بارگاہِ الٰہی میں یہ دُعا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ: خواہ کتنے جانکاہ حوادث و آلام سے سابقہ پڑے ،مگر تیرے فرائض و نوافل سے غفلت نہ ہونے پائے، کیونکہ فرائض بہرصورت فرائض ہیں اور نوافل عبودیت کا تقاضا ہیں۔ اور ایسا نہ ہو کہ مصائب و آلام کے تاثرات عبودیت کے اظہار پر غالب آ جائیں۔

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ الکافی، ج ۲، ص ۴۶۸

[۲]۔ بحارالانوار، ج ۳، ص ۴۱

[۳]۔ سورۂ رعد، آیت ۲۸

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button