صحیفہ کاملہ

24۔ والدین کے حق میں دعا

(۲۴) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

لِاَبَوَیْهِ عَلَیْهِمَا السَّلَامُ

اپنے والدین کے حق میں حضرتؑ کی دُعا:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَ رَسُوْلِكَ، وَ اَهْلِ بَیْتِهِ الطَّاهِرِیْنَ، وَ اخْصُصْهُمْ بِاَفْضَلِ صَلَوَاتِكَ وَ رَحْمَتِكَ وَ بَرَكَاتِكَ وَ سَلَامِكَ، وَ اخْصُصِ اللّٰهُمَّ وَالِدَیَّ بِالْكَرَامَةِ لَدَیْكَ، وَ الصَّلٰوةِ مِنْكَ یَاۤ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ.

اے اللہ! اپنے عبد خاص اور رسول محمدﷺ اور ان کے پاک و پاکیزہ اہل بیت علیہم السلام پر رحمت نازل فرما، اور انہیں بہترین رحمت و برکت اور درود و سلام کے ساتھ خصوصی امتیاز بخش، اور اے معبود! میرے ماں باپ کو بھی اپنے نزدیک عزت و کرامت اور اپنی رحمت سے مخصوص فرما، اے سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اَلْهِمْنِیْ عِلْمَ مَا یَجِبُ لَهُمَا عَلَیَّ اِلْهَامًا، وَ اجْمَعْ لِیْ عِلْمَ ذٰلِكَ كُلِّهٖ تَمَامًا، ثُمَّ اسْتَعْمِلْنِیْ بِمَا تُلْهِمُنِیْ مِنْهُ، وَ وَفِّقْنِیْ لِلنُّفُوْذِ فِیْمَا تُبَصِّرُنِیْ مِنْ عِلْمِهٖ، حَتّٰى لَا یَفُوْتَنِی اسْتِعْمَالُ شَیْ‏ءٍ عَلَّمْتَنِیْهِ، وَ لَا تَثْقُلَ اَرْكَانِیْ عَنِ الْحَفُوْفِ فِیْمَاۤ اَلْهَمْتَنِیْهِ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور ان کے جو حقوق مجھ پر واجب ہیں ان کا علم بذریعہ الہام عطا کر، اور ان تمام واجبات کا علم بے کم و کاست میرے لئے مہیا فرما دے، پھر جو مجھے بذریعہ الہام بتائے اس پر کاربند رکھ، اور اس سلسلہ میں جو بصیرت علمی عطا کرے اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے، تاکہ ان باتوں میں سے جو تو نے مجھے تعلیم کی ہیں کوئی بات عمل میں آئے بغیر نہ رہ جائے، اور اس خدمت گزاری سے جو تو نے مجھے بتلائی ہے میرے ہاتھ پیر تھکن محسوس نہ کریں۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ كَمَا شَرَّفْتَنَا بِهٖ، وَ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، كَمَاۤ اَوْجَبْتَ لَنا الْحَقَّ عَلَى الْخَلْقِ بِسَبَبِهٖ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما کیونکہ تو نے ان کی طرف انتساب سے ہمیں شرف بخشا ہے، محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما کیونکہ تو نے ان کی وجہ سے ہمارا حق مخلوقات پر قائم کیا ہے۔

اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِیْۤ اَهَابُهُمَا هَیْبَةَ السُّلْطَانِ الْعَسُوْفِ، وَ اَبَرُّهُمَا بِرَّ الْاُمِّ الرَّءُوْفِ، وَ اجْعَلْ طَاعَتِیْ لِوَالِدَیَّ وَ بِرِّیْ بِهِمَاۤ اَقَرَّ لِعَیْنِیْ مِنْ رَّقْدَةِ الْوَسْنَانِ، وَ اَثْلَجَ لِصَدْرِیْ مِنْ شَرْبَةِ الظَّمْاٰنِ، حَتّٰۤى اُوْثِرَ عَلٰى هَوَایَ هَوَاهُمَا، وَ اُقَدِّمَ عَلٰى رِضَایَ رِضَاهُمَا، وَ اَسْتَكْثِرَ بِرَّهُمَا بِیْ وَ اِنْ قَلَّ، وَ اَسْتَقِلَّ بِرِّیْ بِهِمَا وَ اِنْ كَثُرَ.

اے اللہ! مجھے ایسا بنا دے کہ میں ان دونوں سے اس طرح ڈروں جس طرح کسی جابر بادشاہ سے ڈرا جاتا ہے، اور اس طرح ان کے حال پر شفیق و مہربان رہوں جس طرح شفیق ماں (اپنی اولاد پر) شفقت کرتی ہے، اور ان کی فرمانبرداری اور ان سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کو میری آنکھوں کیلئے اس سے زیادہ کیف افزا قرار دے جتنا چشم خواب آلود میں نیند کا خمار، اور میرے قلب و روح کیلئے اس سے بڑھ کر مسرت انگیز قرار دے جتنا پیاسے کیلئے جرعۂ آب، تاکہ میں اپنی خواہش پر ان کی خواہش کو ترجیح دوں، اور اپنی خوشی پر ان کی خوشی کو مقدم رکھوں، اور ان کے تھوڑے احسان کو بھی جو مجھ پر کریں زیادہ سمجھوں، اور میں جو نیکی ان کے ساتھ کروں وہ زیادہ بھی ہو تو اسے کم تصور کروں۔

اَللّٰهُمَّ خَفِّضْ لَهُمَا صَوْتِیْ، وَ اَطِبْ لَهُمَا كَلَامِیْ، وَ اَلِنْ لَّهُمَا عَرِیْكَتِیْ، وَ اعْطِفْ عَلَیْهِمَا قَلْبِیْ، وَ صَیِّرْنِیْ بِهِمَا رَفِیْقًا، وَ عَلَیْهِمَا شَفِیْقًا.

اے اللہ! میری آواز کو ان کے سامنے آہستہ، میرے کلام کو ان کیلئے خوشگوار، میری طبیعت کو نرم اور میرے دل کو مہربان بنا دے اور مجھے ان کے ساتھ نرمی و شفقت سے پیش آنے والا قرار دے۔

اَللّٰهُمَّ اشْكُرْ لَهُمَا تَرْبِیَتِیْ، وَ اَثِبْهُمَا عَلٰى تَكْرِمَتِیْ، وَ احْفَظْ لَهُمَا مَا حَفِظَاهُ مِنِّیْ فِیْ صِغَرِیْ.

اے اللہ! انہیں میری پرورش کی جزائے خیر دے، اور میری حسن نگہداشت پر اجر و ثواب عطا کر، اور کم سنی میں میری خبر گیری کا انہیں صلہ دے۔

اَللّٰهُمَّ وَ مَا مَسَّهُمَا مِنِّیْ مِنْ اَذًى، اَوْ خَلَصَ اِلَیْهِمَا عَنِّیْ مِنْ مَّكْرُوْهٍ، اَوْ ضَاعَ قِبَلِیْ لَهُمَا مِنْ حَقٍّ، فَاجْعَلْهُ حِطَّةً لِّذُنُوْبِهِمَا، وَ عُلُوًّا فِیْ دَرَجَاتِهِمَا، وَ زِیَادَةً فِیْ حَسَنَاتِهِمَا، یَا مُبَدِّلَ السَّیِّئَاتِ بِاَضْعَافِهَا مِنَ الْحَسَنَاتِ.

اے اللہ! انہیں میری طرف سے کوئی تکلیف پہنچی ہو، یا میری جانب سے کوئی ناگوار صورت پیش آئی ہو، یا ان کی حق تلفی ہوئی ہو تو اسے ان کے گناہوں کا کفارہ، درجات کی بلندی اور نیکیوں میں اضافہ کا سبب قرار دے،اے برائیوں کو کئی گنا نیکیوں سے بدل دینے والے۔

اَللّٰهُمَّ وَ مَا تَعَدَّیَا عَلَیَّ فِیْهِ مِنْ قَوْلٍ، اَوْ اَسْرَفَا عَلَیَّ فِیْهِ مِنْ فِعْلٍ، اَوْ ضَیَّعَاهُ لِیْ مِنْ حَقٍّ، اَوْ قَصَّرَا بِیْ عَنْهُ مِنْ وَّاجِبٍ فَقَدْ وَهَبْتُهٗ لَهُمَا، وَ جُدْتُّ بِهٖ عَلَیْهِمَا، وَ رَغِبْتُ اِلَیْكَ فِیْ وَضْعِ تَبِعَتِهٖ عَنْهُمَا، فَاِنِّیْ لَاۤ اَتَّهِمُهُمَا عَلٰى نَفْسِیْ، وَ لَاۤ اَسْتَبْطِئُهُمَا فِیْ بِرِّیْ، وَ لَاۤ اَكْرَهٗ مَا تَوَلَّیَاهُ مِنْ اَمْرِیْ یَا رَبِّ، فَهُمَاۤ اَوْجَبُ حَقًّا عَلَیَّ، وَ اَقْدَمُ اِحْسَانًاۤ اِلَیَّ، وَ اَعْظَمُ مِنَّةً لَدَیَّ مِنْ اَنْ اُقَاصَّهُمَا بِعَدْلٍ، اَوْ اُجَازِیَهُمَا عَلٰى مِثْلٍ، اَیْنَ اِذًا- یَّاۤ اِلٰهِیْ- طُوْلُ شُغْلِهِمَا بِتَرْبِیَتِیْ؟ وَ اَیْنَ شِدَّةُ تَعَبِهِمَا فِیْ حِرَاسَتِیْ؟ وَ اَیْنَ اِقْتَارُهُمَا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمَا لِلتَّوْسِعَةِ عَلَیَّ؟ هَیْهَاتَ مَا یَسْتَوْفِیَانِ مِنِّیْ حَقَّهُمَا، وَ لَاۤ اُدْرِكُ مَا یَجِبُ عَلَیَّ لَهُمَا، وَ لَاۤ اَنَا بِقَاضٍ وَّظِیْفَةَ خِدْمَتِهِمَا، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اَعِنِّیْ یَا خَیْرَ مَنِ اسْتُعِیْنَ بِهٖ، وَ وَفِّقْنِیْ یَاۤ اَهْدٰى مَنْ رُّغِبَ اِلَیْهِ، وَ لَا تَجْعَلْنِیْ فِیْۤ اَهْلِ الْعُقُوْقِ لِلْاٰبَآءِ وَ الْاُمَّهَاتِ، یَوْمَ تُجْزٰى‏ ﴿كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۝﴾.

بارالٰہا! اگر انہوں نے میرے ساتھ گفتگو میں سختی، یا کسی کام میں زیادتی، یا میرے کسی حق میں فرو گذاشت، یا اپنے فرض منصبی میں کوتاہی کی ہو تو میں ان کو بخشتا ہوں اور اسے نیکی و احسان کا وسیلہ قرار دیتا ہوں، اور پالنے والے! تجھ سے خواہش کرتا ہوں کہ اس کا مؤاخذہ ان سے نہ کرنا، اس لئے کہ میں اپنی نسبت ان سے کوئی بدگمانی نہیں رکھتا، اور نہ تربیت کے سلسلہ میں انہیں سہل انگار سمجھتا ہوں، اور نہ ان کی دیکھ بھال کو ناپسند کرتا ہوں، اس لئے کہ ان کے حقوق مجھ پر لازم و واجب، ان کے احسانات دیرینہ اور ان کے انعامات عظیم ہیں، وہ اس سے بالاتر ہیں کہ میں ان کو برابر کا بدلہ یا ویسا ہی عوض دے سکوں، اگر ایسا کر سکوں تو اے میرے معبود! وہ ان کا ہمہ وقت میری تربیت میں مشغول رہنا، میری خبر گیری میں رنج و تعب اٹھانا، اور خود عسرت و تنگی میں رہ کر میری آسودگی کا سامان کرنا کہاں جائے گا، بھلا کہاں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کا صلہ مجھ سے پا سکیں، اور نہ میں خود ہی ان کے حقوق سے سبکدوش ہو سکتا ہوں، اور نہ ان کی خدمت کا فریضہ انجام دے سکتا ہوں، رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور میری مدد فرما اے بہتر ان سب سے جن سے مدد مانگی جاتی ہے، اور مجھے توفیق دے اے زیادہ رہنمائی کرنے والے ان سب سے جن کی طرف (ہدایت کیلئے) توجہ کی جاتی ہے، اور مجھے اس دن جبکہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر زیادتی نہ ہو گی، ان لوگوں میں سے قرار نہ دینا جو ماں باپ کے عاق و نافرمان بردار ہوں۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ وَ ذُرِّیَّتِهٖ، وَ اخْصُصْ اَبَوَیَّ بِاَفْضَلِ مَا خَصَصْتَ بِهٖ اٰبَآءَ عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اُمَّهَاتِهِمْ، یَاۤ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ و اولاد پر رحمت نازل فرما اور میرے ماں باپ کو اس سے بڑھ کر امتیاز دے جو مومن بندوں کے ماں باپ کو تو نے بخشا ہے، اے سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے۔

اَللّٰهُمَّ لَا تُنْسِنِیْ ذِكْرَهُمَا فِیْۤ اَدْبَارِ صَلَوَاتِیْ، وَ فِیْ اِنًى مِّنْ اٰنَآءِ لَیْلِیْ، وَ فِیْ كُلِّ سَاعَةٍ مِّنْ سَاعَاتِ نَهَارِیْ.

اے اللہ! ان کی یاد کو نمازوں کے بعد رات کی ساعتوں اور دن کے تمام لمحوں میں کسی وقت فراموش نہ ہونے دے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اغْفِرْ لِیْ بِدُعَآئِیْ لَهُمَا، وَ اغْفِرْ لَهُمَا بِبِرِّهِمَا بِیْ مَغْفِرَةً حَتْمًا، وَ ارْضَ عَنْهُمَا بِشَفَاعَتِیْ لَهُمَا رِضًى عَزْمًا، وَ بَلِّغْهُمَا بِالْكَرَامَةِ مَوَاطِنَ السَّلَامَةِ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے ان کے حق میں دُعا کرنے کی وجہ سے، اور انہیں میرے ساتھ نیکی کرنے کی وجہ سے لازمی طور پر بخش دے، اور میری سفارش کی وجہ سے ان سے قطعی طور پر راضی و خوشنود ہو، اور انہیں عزّت و آبرو کے ساتھ سلامتی کی منزلوں تک پہنچا دے۔

اَللّٰهُمَّ وَ اِنْ سَبَقَتْ مَغْفِرَتُكَ لَهُمَا فَشَفِّعْهُمَا فِیَّ، وَ اِنْ سَبَقَتْ مَغْفِرَتُكَ لِیْ فَشَفِّعْنِیْ فِیْهِمَا، حَتّٰى نَجْتَمِعَ بِرَاْفَتِكَ فِیْ دَارِ كَرَامَتِكَ، و مَحَلِّ مَغْفِرَتِكَ وَ رَحْمَتِكَ، اِنَّكَ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ، وَ الْمَنِّ الْقَدِیْمِ، وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ.

اے اللہ! اگر تو نے انہیں مجھ سے پہلے بخش دیا تو انہیں میرا شفیع بنا، اور اگر مجھے پہلے بخش دیا تو مجھے ان کا شفیع قرار دے، تاکہ ہم سب تیرے لطف و کرم کی بدولت تیرے بزرگی کے گھر اور بخشش و رحمت کی منزل میں ایک ساتھ جمع ہو سکیں، یقیناً تو بڑے فضل والا، قدیم احسان والا اور سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔

–٭٭–

خداوند عالم کے عظیم احسانات کے بعد ماں باپ کے احسانات کا درجہ ہے جن کی پرورش و تربیت میں ربوبیت الٰہی کی جھلک نظر آتی ہے اور وہ بغیر کسی طمع ،غرض اور عوض کے پیہم تربیت کا اہتمام کرتے اور شفقت و مہربانی کے سایوں میں پروان چڑھاتے ہیں۔ چنانچہ وہ بچہ جو گوشت و پوست کا ایک لوتھڑا ہوتا ہے، جس کا شعور ناتمام، حواس کمزور، قویٰ ناقص، نفع نقصان کے سمجھنے سے قاصر، نہ اپنی کسی ضرورت کو پورا کر سکتا ہے نہ بغیر سہارے کروٹ بدل سکتا ہے، نہ بیٹھ سکتا ہے، نہ کھڑا ہو سکتا ہے، ہر لمحہ ایک نگرانی کرنے والے کا محتاج، ہر مرحلہ پر دوسروں کا دست نگر، کون ہے جو اسے اپنے آرام و راحت کی قربانی کر کے پالتا ہے؟ وہ ’’ماں‘‘ ہے جو ایسی حالت میں تربیت اور دیکھ بھال کا بیڑہ اٹھاتی ہے اور راتوں کی نیند اور دن کا سکون اس کیلئے قربان کر دیتی ہے۔ جب اس میں اٹھنے بیٹھنے کی سکت نہیں ہوتی، اسے گود میں اٹھائے پھرتی ہے۔جب کچھ توانائی آتی ہے تو ہاتھ کا سہارا دے کر چلنا سکھاتی ہے اور جب ہوش سنبھالتا ہے تو باپ اس کی تعلیم و اخلاقی تربیت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اس کی خاطر طرح طرح کی مشقتیں برداشت کرتا ہے اور اپنے خون پسینہ کی کمائی سے اسے علم و ہنر سے آراستہ کرتا ہے۔ اگر شریعتِ اسلام کا یہ حکم نہ بھی ہوتا کہ ان کے ساتھ خوش رفتاری سے پیش آیا جائے، جب بھی حق شناسی و شکر گزاری کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے پیہم احسانات کے بدلہ میں ان کے حقوق کا اعتراف کیا جائے اور ان کا احترام ملحوظ رکھا جائے چہ جائیکہ شریعت نے بھی ان کے ساتھ نیکی کا تاکیدی حکم دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

﴿وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْ كِلٰہُمَا فَلَا تَقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا۝۲۳ وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا۝۲۴ۭ﴾

تمہارے پرودگار کا حکم ہے کہ اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچیں تو انہیں (کسی ناگوار بات پر) اُف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے نرمی کے ساتھ بات کرو اور شفقت و مہربانی سے ان کے سامنے عاجزی کا اظہار کرو اور کہو کہ: اے میرے پروردگار! جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری پرورش کی ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما۔[۱]

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنی عبادت کا بلا شرکت غیرے حکم دیا ہے اور اس کے پہلو بہ پہلو ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا بھی ذکر کیا ہے۔ تا کہ ربوبیت حقیقی کے ساتھ ربوبیت مجازی نظر انداز نہ ہونے پائے اور دونوں کے تقاضے یکساں پورے ہوں۔ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کی پرستش کرے اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرے۔ اس نیکی کو صرف ان کی زندگی تک محدود نہ سمجھنا چاہیے، بلکہ ان کے مرنے کے بعد بھی ان کے حقوق برقرار رہتے ہیں۔ چنانچہ ان کے حقوق میں سے یہ ہے کہ ان کا قرضہ ادا کرے، ان کی وصیت کی تعمیل کرے اور جو واجبات ان کے ذمہ ہوں انہیں ادا کرے۔ جیسے نماز،روزہ، حج وغیرہ۔ اور ان کیلئے ہمیشہ دُعائے مغفرت کرے ارشادات معصومینؑ سے مستفاد ہوتا ہے کہ اگر ان کی زندگی میں ان کے حقوق سے فرو گذاشت کی گئی ہو تو ان کے جوارِ رحمت میں پہنچنے کے بعد ان کے حق میں دُعائے مغفرت کرنے اور ان کے دوسرے حقوق ادا کرنے سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔ اور اگر عاق بھی ہو تو اہل عقوق کی فہرست سے خارج کر دیا جاتا ہے اور در صورتے کہ نہ زندگی میں ان کا کچھ خیال کیا ہو اور نہ مرنے کے بعد ان کے حقوق کی طرف توجہ کی ہو تو اس کے نتیجہ میں عمر کم اور زندگی تلخ ہو جاتی ہے اور فقر و پریشانی اور جان کنی کی انتہائی شدت میں مبتلا ہو کر مرتا ہے۔

 [٭٭٭٭٭]

[۱]۔ سورۂ بنی اسرائیل، آیت ۲۳-۲۴

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button