صحیفہ کاملہ

36۔ بادل اور بجلی کو دیکھتے اور رعد کی آواز

(۳۶) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

اِذَا نَظَرَ اِلَى السَّحَابِ وَ الْبَرْقِ وَ سَمِعَ صَوْتَ الرَّعْدِ:

جب بادل اور بجلی کو دیکھتے اور رعد کی آواز سنتے تو یہ دُعا پڑھتے:

اَللّٰهُمَّ اِنَّ هٰذَیْنِ اٰیَتَانِ مِنْ اٰیَاتِكَ، وَ هَذَیْنِ عَوْنَانِ مِنْ اَعْوَانِكَ، یَبْتَدِرَانِ طَاعَتَكَ بِرَحْمَةٍ نَّافِعَةٍ اَوْ نَقِمَةٍ ضَارَّةٍ، فَلَا تُمْطِرْنَا بِهِمَا مَطَرَ السَّوْٓءِ، وَ لَا تُلْبِسْنَا بِهِمَا لِبَاسَ الْبَلَآءِ.

بارالٰہا! یہ (ابرو برق) تیری نشانیوں میں سے دو نشانیاں اور تیرے خدمت گزاروں میں سے دو خدمت گزار ہیں ،جو نفع رساں رحمت یا ضرر رساں عقوبت کے ساتھ تیرے حکم کی بجاآوری کیلئے رواں دواں ہیں، تو اب ان کے ذریعہ ایسی بارش نہ برسا جو ضرر و زیاں کا باعث ہو اور نہ ان کی وجہ سے ہمیں بلا و مصیبت کا لباس پہنا۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اَنْزِلْ عَلَیْنَا نَفْعَ هٰذِهِ السَّحَآئِبِ وَ بَرَكَتَهَا، وَ اصْرِفْ عَنَّاۤ اَذَاهَا وَ مَضَرَّتَهَا، وَ لَا تُصِبْنَا فِیْهَا بِاٰفَةٍ، وَ لَا تُرْسِلْ عَلٰى مَعَایِشِنَا عَاهَةً.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور ان بادلوں کی منفعت و برکت ہم پر نازل کر، اور ان کے ضرور و آزار کا رخ ہم سے موڑ دے، اور ان سے ہمیں کوئی گزند نہ پہنچانا، اور نہ ہمارے سامان معیشت پر تباہی وارد کرنا۔

اَللّٰهُمَّ وَ اِنْ كُنْتَ بَعَثْتَهَا نَقِمَةً وَّ اَرْسَلْتَهَا سَخْطَةً، فَاِنَّا نَسْتَجِیْرُكَ مِنْ غَضَبِكَ، وَ نَبْتَهِلُ اِلَیْكَ فِیْ سُؤَالِ عَفْوِكَ، فَمِلْ بِالْغَضَبِ اِلَى الْمُشْرِكِیْنَ، وَ اَدِرْ رَحٰى نَقِمَتِكَ عَلَى الْمُلْحِدِیْنَ.

بارالٰہا! اگر ان گھٹاؤں کو تو نے بطور عذاب بھیجا ہے اور بصورت غضب روانہ کیا ہے تو پھر ہم تیرے غضب سے تیرے ہی دامن میں پناہ کے خواستگار ہیں اور عفو و درگزر کیلئے تیرے سامنے گڑگڑا کر سوال کرتے ہیں، تو مشرکوں کی جانب اپنے غضب کا رخ موڑ دے، اور کافروں پر آسیائے عذاب کو گردش دے۔

اَللّٰهُمَّ اَذْهِبْ مَحْلَ بِلَادِنَا بِسُقْیَاكَ، وَ اَخْرِجْ وَحَرَ صُدُوْرِنَا بِرِزْقِكَ، وَ لَا تَشْغَلْنَا عَنْكَ بِغَیْرِكَ، وَ لَا تَقْطَعْ عَنْ كَافَّتِنَا مَادَّةَ بِرِّكَ، فَاِنَّ الْغَنِیَّ مَنْ اَغْنَیْتَ، وَ اِنَّ السَّالِمَ مَنْ وَّقَیْتَ مَا عِنْدَ اَحَدٍ دُوْنَكَ دِفَاعٌ، وَ لَا بِاَحَدٍ عَنْ سَطْوَتِكَ امْتِنَاعٌ، تَحْكُمُ بِمَا شِئْتَ عَلٰى مَنْ شِئْتَ، وَ تَقْضِیْ بِمَاۤ اَرَدْتَّ فِیْمَنْ اَرَدْتَ.

اے اللہ! ہمارے شہروں کی خشک سالی کو سیرابی کے ذریعہ دور کر دے، اور ہمارے دل کے وسوسوں کو رزق کے وسیلہ سے برطرف کر دے، اور اپنی بارگاہ سے ہمارا رخ موڑ کر ہمیں دوسروں کی طرف متوجہ نہ فرما، اور ہم سب سے اپنے احسانات کا سر چشمہ قطع نہ کر، کیونکہ بے نیاز وہی ہے جسے تو بے نیاز کرے اور سالم و محفوظ وہی ہے جس کی تو نگہداشت کرے۔ اس لئے کہ تیرے علاوہ کسی کے پاس (مصیبتوں کا) دفعیہ اور کسی کے ہاں تیری سطوت و ہیبت سے بچاؤ کا سامان نہیں ہے۔ تو جس کی نسبت جو چاہتا ہے حکم فرماتا ہے اور جس کے بارے میں جو فیصلہ کرتا ہے، وہ صادر کر دیتا ہے۔

فَلَكَ الْحَمْدُ عَلٰى مَا وَقَیْتَنَا مِنَ الْبَلَآءِ، وَ لَكَ الشُّكْرُ عَلٰى مَا خَوَّلْتَنَا مِنَ النَّعْمَآءِ، حَمْدًا یُّخَلِّفُ حَمْدَ الْحَامِدِیْنَ وَرَآءَهٗ، حَمْدًا یَّمْلَاُ اَرْضَهٗ وَ سَمَآءَهٗ‏، اِنَّكَ الْمَنَّانُ بِجَسِیْمِ الْمِنَنِ، الْوَهَّابُ لِعَظِیْمِ النِّعَمِ، الْقَابِلُ یَسِیْرَ الْحَمْدِ، الشَّاكِرُ قَلِیْلَ الشُّكْرِ، الْمُحْسِنُ الْمُجْمِلُ ذُو الطَّوْلِ، لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ، اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ.

تیرے ہی لئے تمام تعریفیں ہیں کہ تو نے ہمیں مصیبتوں سے محفوظ رکھا، اور تیرے ہی لئے شکر ہے کہ تو نے ہمیں نعمتیں عطا کیں، ایسی حمد جو تمام حمد گزاروں کی حمد کو پیچھے چھوڑ دے، ایسی حمد جو خدا کے آسمان و زمین کی فضاؤں کو چھلکا دے، اس لئے کہ تو بڑی سے بڑی نعمتوں کا عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑے انعامات کا بخشنے والا ہے، مختصر سی حمد کو بھی قبول کرنے والا اور تھوڑے سے شکریے کی بھی قدر کرنے والا ہے، اور احسان کرنے والا، اور بہت نیکی کرنے والا، اور صاحب کرم و بخشش ہے۔ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور تیری ہی طرف (ہماری) بازگشت ہے۔

–٭٭–

جب سورج کی تیز شعائیں سمندروں اور جھیلوں کی سطح سے بخارات اٹھاتی ہیں تو وہ بخارات جو ننھی ننھی بوندوں کا مجموعہ ہوتے ہیں بادلوں کی دلفریب صورت میں فضا میں لہرانے اور ہوا میں اڑنے لگتے ہیں اور جب ہوا کے جھونکے انہیں حرکت میں لاتے ہیں تو ان کی تہوں میں پانی کا جمع شدہ ذخیرہ کبھی ہلکی پھوہار اور کبھی دھواں دار بارش کی صورت میں برسنے لگتا ہے اور ٹیلوں، چٹانوں پر سے گزرتا ندی نلوں کو چھلکاتا، زمین کے ذرہ ذرہ کو سیراب کر دیتا ہے جس سے زمین کی سطح پر ہریالی اور کاشتکار کے چہرے پر سرخی دوڑ جاتی ہے۔ چنانچہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:

﴿اَللہُ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ فَتُثِيْرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُہٗ فِي السَّمَاءِ كَيْفَ يَشَآءُ وَيَجْعَلُہٗ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہٖ۝۰ فَاِذَآ اَصَابَ بِہٖ مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖٓ اِذَا ہُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ۝۴۸ۚ﴾

خدا ہی وہ ہے جو ہواؤں کو چلاتا ہے تو وہ بادلوں کو حرکت میں لاتی ہیں، پھر وہ جس طرح چاہتا ہے انہیں فضا میں پھیلا دیتا ہے اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ ان بادلوں کے اندر سے بوندیں نکل پڑتی ہیں، پھر خدا اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے انہیں برسا دیتا ہے تو وہ خوشیاں منانے لگتے ہیں۔[۱]

جب ان بادلوں میں ننھی ننھی بوندیں ہوا سے ٹکراتی یا آپس میں رگڑ کھاتی ہیں تو اس ٹکراؤ سے ان میں برقی قوت پیدا ہوتی ہے جو بعض بادلوں میں مثبت ہوتی ہے اور بعض میں منفی۔ اس طرح کے جس طرف سے بجلی آتی ہے اسے مثبت کا نام دے دیا گیا ہے اور جدھر جاتی ہے اسے منفی کہہ لیتے ہیں۔ جب یہ مثبت اور منفی والے بادل ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں تو یہ دونوں متضاد قسمیں آپس میں ٹکراتی ہیں جس سے روشنی کا ایک شرارہ پیدا ہوتا ہے جو اپنی تیزی اور چمک کی وجہ سے آنکھوں میں چکا چوند پیدا کر دیتا ہے۔ اس شرارہ کا نام ’’برق‘‘ ہے۔ یہ برق ہر وقت درخشاں رہتی ہے اور ایک سیکنڈ میں کم و بیش سو مرتبہ چمکتی ہے۔ اور اس کے ہر شرارہ میں دس کروڑ وولٹ سے لے کر بیس ارب تک بجلی ہوتی ہے۔ اس شرارہ سے اس قدر گرمی پیدا ہوتی ہے کہ آس پاس کی ہوا گرم ہو جاتی ہے اور اس گرمی کی وجہ سے اس کا پھیلاؤ بڑھ جاتا ہے اور اس کی جگہ پر چاروں طرف سے ٹھنڈی ہوائیں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ بڑھتی ہیں جس سے کڑک کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس کڑک کا نام ’’رعد‘‘ ہے۔ یہ کڑک بجلی کے چمکنے کے چند دقیقہ بعد سنائی دیتی ہے۔ اس لئے کہ آواز کی رفتار روشنی کی رفتار سے بہت سست ہوتی ہے۔ چنانچہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو چوراسی میل فی سیکنڈ ہے اور آواز کی رفتار تین سو ستر گز فی سیکنڈ ہے۔ اس لحاظ سے اگر ایک میل کے فاصلہ سے روشنی اور آواز ایک ساتھ چلیں تو آواز پانچ سیکنڈ بعد میں پہنچے گی۔

کبھی کبھی یہ بجلی زمین پر گر بھی پڑتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب برقی قوت والا بادل ٹھنڈک پا کر زمین کے قریب آ جاتا ہے تو اس سے اونچی اور بلند سطح عمارتیں، اونچے اونچے درخت اور کھلے میدان اور ان میں چلنے پھرنے والے انسان اور چوپائے برقائے جاتے ہیں۔ اور جب ان کی جمع شدہ برقی قوت بادلوں کے مخالف برقی قوت سے ٹکراتی ہے تو دھماکے کے ساتھ روشنی اور گرمی پیدا ہوتی ہے۔ اسے عرف عام میں بجلی کا گرنا کہتے ہیں۔ اس سے ہر وہ چیز متاثر ہوتی ہے جو اس کی زد میں آ جاتی ہے۔ نہ اس سے سر بلند عمارتیں محفوظ رہ سکتی ہیں اور نہ کوئی جاندار زندہ و سلامت رہ سکتا ہے۔ مگر جہاں یہ ہلاکت و تباہی کا سرو سامان لئے ہوئے ہے وہاں بیش بہا فوائد کی بھی حامل ہے۔ چنانچہ اس بجلی سے ایک سال کے عرصہ میں دس کروڑ ٹن نایئٹروجن گیس پیدا ہوتی ہے جو بارش کے ساتھ زمین پر اترتی ہے اور زمین کی قوت و نشو و نما کو بڑھاتی اور اس کیلئے کھاد کا کام دیتی ہے۔ چنانچہ خداوندعالم نے اس کے دونوں پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

﴿وَمِنْ اٰيٰتِہٖ يُرِيْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَمَـعًا﴾

اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہیں بجلی کا منظر دکھایا جس کا ایک رخ خوف ناک اور دوسرا امید افزا ہے۔[۲]

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ سورۂ روم، آیت ۴۸

[۲]۔ سورۂ روم، آیت ۲۴

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button