شمع زندگیھوم پیج

110۔ مضبوط آدمی

اَلَا وَاِنَّ الشَّجَرَةَ الْبَرِّيَّةَ اَصْلَبُ عُوْداً، والرَّوَائِعَ الْخَضِرَةَ اَرَقُّ جُلُوْداً۔ (خط ۴۵)
یاد رکھو کہ جنگل کے درخت کی لکڑی مضبوط ہوتی ہے اور تر و تازہ پیڑوں کی چھال کمزور اور پتلی ہوتی ہے۔

اس فرمان میں انسانی تربیت کا ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے۔ اگر کوئی درخت بیابانوں اور خشکی کے علاقوں میں پرورش پاتا ہے تو وہ قحط کے خلاف بھی زیادہ دیر کھڑا رہ سکتا ہے اور تند و تیز ہواؤں کا مقابلہ بھی آسانی سے کر سکتا ہے مگر وہ درخت جو لب دریا ہو اور پانی کا حصول اس کے لیے آسان ہو تو ظاہری طور پر تو خوبصورت اور شاخ دار ہوگا مگر سختیوں کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ آپ واضح فرمانا چاہتے ہیں کہ ناز و نعمت میں پرورش پانے والے اہداف تک پہنچنے میں مشکلات آئیں تو برداشت نہیں کر سکتے اور راستے میں ہی ہار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ امیرالمؤمنینؑ خود کو مشکلات سے گزر کر سخت و مضبوط ہونے والا قرار دے کر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ میں مشکلوں سے گھبرانے والا نہیں بلکہ ان مشکلوں کو عبور کر کے مقصد تک پہنچنے کے لیے آمادہ اور تیار ہوں۔

علامہ اقبال نے اپنے فارسی کلام میں ہیرے اور کوئلے کی گفتگو کو نظم میں پیش کیا۔ کوئلہ ہیرے کو کہتا ہے ہم دونوں ایک ہی کان سے ہیں تو تمہیں اتنی عزت کیوں اور مجھے اتنی ذلت کا سامنا کس لیے ہے ۔ہیرا جواب دیتا ہے:

فارغ از خوف و غم و وسواس باش

خوف و غم اور وسوسوں سے خود کو آزاد کر اور پتھر کی طرح سخت ہو جا اور ہیرا بن جا۔ یعنی خود میں مضبوطی پیدا کریں تو مقام و منزلت اور عزت و وقار ملے گا۔

شمع زندگی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button