شمع زندگی

197۔ دوستی کی اہمیت

فَقْدُ الْاَحِبَّةِ غُرْبَةٌ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۶۵)
دوستوں کو کھو دینا غریب الوطنی ہے۔

انسان کی فطرت ہے کہ وطن میں جھونپڑی بھی ہو تو مطمئن ہوتا ہے کیونکہ وہاں اُس کے دوست و احباب اور عزیز و اقارب ہوتے ہیں۔ انسان مل کر زندگی گزارنے والی مخلوق ہے۔ معاشرتی و اجتماعی زندگی اُس کے لئے سکون و راحت کا سبب ہوتی ہے۔ اُسے اُس مقام کی مٹی سے بھی انس ہوتا ہے جہاں پرورش پائی ہوتی ہے۔ امیرالمومنینؑ اِس فرمان میں انہی دوست و احباب کی اہمیت کو واضح فرما رہے ہیں۔ پیارے بچھڑ جائیں تو گویا وطن میں بھی غربت ہے، پیاروں کے بغیر زندگی میں سکون نہیں ہوگا۔ ہر طرف اجنبیت و بیگانگی اور خوف و وحشت ہوگی۔ پیاروں کے بچھڑ جانے سے مراد یا تو ان کی موت ہے جس پر انسان خود کو تنہا محسوس کرتا ہے البتہ موت اٹل فیصلہ ہے اس پر صبر سے ہی سکون ملے گا۔ زیادہ احتمال یہ ہے کہ یہاں جدائی سے انسان کی اپنی کوتاہیاں اور بد اخلاقیاں مراد ہیں جن کی وجہ سے یہ تعلقات بکھر اور ٹوٹ جاتے ہیں اور امامؑ اسی برتاؤ کو تبدیل کرنے کی تاکید فرما رہے ہیں۔ پیاروں کی جدائی واقعاً بہت دکھی کر دینے والا عمل ہے۔ اس دنیا میں سخت سزاؤں میں سے ایک قید تنہائی ہے یعنی جہاں کوئی ملنے ملانے والا نہ ہو اس لئے انسان کو دوست احباب کو اہمیت دینی چاہیے تاکہ یہ ہم سے چھن نہ جائیں۔ پیاروں سے مل کر حاصل ہونے والے سکون کی حالت میں انسان زندگی کی ترقی کے لئے بہت سے فیصلے کر سکتا ہے اور اپنی بھی اور پیاروں کی ترقی و کامیابی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button