شمع زندگی

306۔ دوستی و دشمنی میں توازن

اَحْبِبْ حَبِيبَكَ هَوْنًا مَا عَسٰى اَنْ يَكُوْنَ بَغِيضَكَ يَوْمًا مَا وَ اَبْغِضْ بَغِيْضَكَ هَوْنًا مَا عَسٰى اَنْ يَكُوْنَ حَبِيْبَكَ يَوْمًا مَا۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۶۸)
اپنے دوست سے بس ایک حد تک محبت کرو، شاید کسی دن وہ تمہارا دشمن ہو جائے، اور دشمن کی دشمنی بس ایک حد میں رکھو، ہو سکتا ہے کسی دن وہ تمہارا دوست ہو جائے۔

انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ اور تغیر و تبدل آتے رہتے ہیں۔ دشمنیاں دوستی اور دوستیاں عداوت و دشمنی میں بدلتی رہتی ہیں۔ یہ حقیقی دوستی کی بات ہے ورنہ بہت سی دوستیاں تو حقیقت میں دوستیاں ہوتی ہی نہیں بلکہ مفاد پرستیاں ہوتی ہیں۔ شاعری میں دوستوں کی بے وفائی ایک عام موضوع ہے جو بناوٹی اورحقیقی دونوں قسم کے دوستوں کے لیےبیان کی جاتی ہے۔

امیرالمومنینؑ نے جہاں بارہا دوستی کی اہمیت کو بیان فرمایا وہاں دوستی اور دشمنی کی حدود کو بھی بیان فرمایا: دوستی کی حد یہ ہے کہ آپ زندگی کے فقط وہ پہلو دوست کو بتائیں جو آپ کے دشمن کو بھی معلوم ہو جائیں تو آپ کی زندگی میں پریشانی نہ آئے اور کبھی یہی دوست دشمن بن جائے تو آپ کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

دوستی کے وقت سب راز بتا دیے جاتے ہیں اور جب اختلاف ہوتا ہے تو یہی راز آج کی زبان میں بلیک میلنگ کا سبب بنتے ہیں اور زندگیاں برباد کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس لیے دوستی میں حد رہے گی تو بلیک میلنگ سے محفوظ رہا جا سکے گا۔ اسی طرح زمانہ رخ بدل سکتا ہے اور دشمن بھی قریب آ سکتا ہے اور دشمنی دوستی میں بدل سکتی ہے مگر دشمنی کے وقت حد نہ رکھی گئی تو یا کل کا دشمن قریب نہ آ سکے گا اور اگر دوست بن بھی گیا تو ہمیشہ ماضی یاد آنے پر شرمساری ہوگی۔

دوستوں کی بے وفائی کے اکثر گلے کا سبب دوستی کی حدود ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے ہوتے ہیں اور حد سے زیادہ اعتماد اور بھروسے کی بنا پر ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دوستی نبھانے کے بھی طریقے ہیں اور دشمنی کرنے کے بھی ڈھنگ ہوتے ہیں۔ آپؑ انہی کو دوستی و دشمنی کی حد اعتدال سے تعبیر فرما رہے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button