شمع زندگی

308۔ ظاہر و باطن

اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ تُحَسِّنَ فِيْ لَامِعَةِ الْعُيُوْنِ (نہج البلاغہ حکمت ۲۷۶)
خدایا میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ میرا ظاہر لوگوں کی ظاہر بین آنکھوں میں بہتر ہو اور جو میں باطن میں چھپائے ہوئے ہوں، وہ تیری نظروں میں برا ہو۔

انسان کے اعمال کا گہرا تعلق اس کی نیت اور سوچ سے ہے۔ عمل کا معیار بھی اسی سوچ کے مطابق بنتا ہے۔ اگر ایک شخص کام کو خلوص کے ساتھ انجام دے رہا ہے، جو ظاہر کر رہا ہے وہی حقیقت و باطن ہے تو وہ عمل باعث عزت و اجر ہوگا۔ اگر انسان کسی کی خدمت کر رہا ہے، مدد کر رہا ہے اور اس کے ذہن میں یہ ہے کہ اس طرح میری شہرت ہوگی، لوگ مجھے اچھا کہیں گے یا مثلاً بعض اوقات لوگوں سے داد یا ووٹ لینا چاہتا ہے، اس لیے خدمت خلق کر رہا ہے تو یہ عمل ریا اور دکھاوا کہلائے گا اور اخلاقیات میں یہ بہت قابل نفرت کردار ہے۔

اسے منافقت کہا جائے گا یعنی اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ۔ لوگ ریا اور دکھاوا کر کے اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں جبکہ ریا کار کی حقیقت جلد واضح ہو جاتی ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی نے دکھاوے کے لیے عمل انجام دیا، کسی پر احسان کیا، اس نے شکر گزاری نہیں کی تو ناراض ہو جاتا ہے۔ کبھی یوں ہوتا ہے کہ جس مقصد کے لیے دکھاوا کر رہا تھا وہ مقصد حاصل ہو گیا تو اس کا کردار بدل جاتا ہے اور لوگ نئے کردار کو دیکھ کر محبت کرنے کے بجائے نفرت کرنے لگتے ہیں۔

اس لیے جو شخص لوگوں میں عزت چاہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اجر چاہتا ہے تو اس کا ظاہر و باطن ایک ہونا چاہیے۔ اس فرمان میں آپؑ اخلاص ہی کی دعا مانگ رہے ہیں اور اخلاص ہی اعمال کو زینت بخشتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button