خطبات

خطبہ (۵۷)

(٥٧) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۵۷)

لِاَصْحَابِهٖ

اپنے اصحاب سے فرمایا

اَمَا اِنَّهٗ سَیَظْهَرُ عَلَیْكُمْ بَعْدِیْ رَجُلٌ رَّحْبُ الْبُلْعُوْمِ، مُنْدَحِقُ الْبَطْنِ، یَاْكُلُ مَا یَجِدُ، وَ یَطْلُبُ مَا لَا یَجِدُ، فَاقْتُلُوْهُ، وَ لَنْ تَقْتُلُوْهُ! اَلَا وَ اِنَّهٗ سَیَاْمُرُكُمْ بِسَبِّیْ وَ الْبَرَآئَةِ مِنِّیْ، فَاَمَّا السَّبُّ فَسُبُّوْنِیْ، فَاِنَّهٗ لِیْ زَكَاةٌ، وَ لَكُمْ نَجَاةٌ، وَ اَمَّا الْبَرَآئَةُ فَلَا تَتَبَرَّاُوْا مِنِّیْ، فَاِنِّیْ وُلِدْتُّ عَلَی الْفِطْرَةِ، وَ سَبَقْتُ اِلَی الْاِیْمَانِ وَ الْهِجْرَةِ.

میرے بعد جلد ہی تم پر ایک ایسا شخص [۱] مسلط ہو گا جس کا حلق کشادہ اور پیٹ بڑا ہو گا، جو پائے گا اُسے نگل جائے گا اور جو نہ پائے گا اس کی اسے ڈھونڈ لگی رہے گی۔ (بہتر تو یہ ہے کہ) تم اسے قتل کر ڈالنا، لیکن یہ معلوم ہے کہ تم اسے ہرگز قتل نہ کرو گے۔ وہ تمہیں حکم دے گا کہ مجھے بُرا کہو اور مجھ سے بیزاری کا اظہار کرو۔ جہاں تک بُرا کہنے کا تعلق ہے، مجھے بُرا کہہ لینا۔ اس لئے کہ یہ میرے لئے پاکیزگی کا سبب اور تمہارے لئے (دشمنوں سے) نجات پانے کا باعث ہے۔ لیکن (دل سے ) بیزاری اختیار نہ کرنا اس لئے کہ مَیں (دین) فطرت پر پیدا ہوا ہوں اور ایمان و ہجرت میں سابق ہوں۔

۱؂اس خطبہ میں جس شخص کی طرف امیرالمومنین علیہ السلام نے اشارہ کیا ہے، اس سے بعض نے زیاد ابن ابیہ، بعض نے حجاج ابنِ یوسف اور بعض نے مغیرہ ابن شعبہ کو مراد لیا ہے، لیکن اکثر شارحین نے اس سے معاویہ مراد لیا ہے اور یہی صحیح ہے، کیونکہ جو اوصاف حضرتؑ نے بیان فرمائے ہیں، وہ اسی پر پورے طور سے صادق آتے ہیں۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے معاویہ کی زیادہ خوری کے متعلق لکھا ہے کہ:

پیغمبر ﷺ نے ایک دفعہ اسے بلوا بھیجا تو معلوم ہوا کہ وہ کھانا کھا رہا ہے۔ پھر دوبارہ سہ بارہ آدمی بھیجا تو یہی خبر لایا، جس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا: « اَللّٰھُمَّ لَا تَشْبَعْ بَطْنَہٗ» (خدایا! اس کے پیٹ کو کبھی نہ بھرنا)۔ اس بد دُعا کا اثر یہ ہوا کہ جب کھاتے کھاتے اُکتا جاتا تھا تو کہنے لگتا تھا: « اِرْفَعُوْا، فَوَاللہِ! مَاشَبِعْتُ وَ لٰکِنْ مَّلَلْتُ وَ تَعِبْتُ» : دستر خوان بڑھاؤ، خدا کی قسم! میں کھاتے کھاتے عاجز آ گیا ہوں، مگر پیٹ ہے کہ بھرنے ہی میں نہیں آتا۔[۱]

یونہی امیر المومنین علیہ السلام پر سبّ و شتم کرنا اور اپنے عاملوں کو اس کا حکم دینا تاریخی مسلمات میں سے ہے کہ جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں اور منبر پر ایسے الفاظ کہے جاتے تھے کہ جن کی زد میں اللہ و رسولؐ بھی آ جاتے تھے۔ چنانچہ اُمّ المومنین اُمّ سلمہ نے معاویہ کو لکھا:

اِنَّكُمْ تَلْعَنُوْنَ اللهَ وَ رَسُوْلَهٗ عَلٰى مَنَابِرِكُمْ، وَ ذٰلِكَ اَنَّكُمْ تَلْعَنُوْنَ عَلِیَّ بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ وَّ مَنْ اَحَبَّهٗ، وَ اَنَا اَشْهَدُ اَنَّ اللهَ اَحَبَّهٗ وَ رَسُوْلُهٗ.

تم اپنے منبروں پر اللہ اور اس کے رسولؐ پر لعنت کرتے ہو۔ وہ یوں کہ تم علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور انہیں دوست رکھنے والوں پر لعنت کرتے ہو، اور میں گواہی دیتی ہوں کہ علیؑ کوا للہ بھی دوست رکھتا تھا اور اس کا رسولؐ بھی۔

(عقد الفرید، ج۳، ص۱۳۱)

خدا عمر ابنِ عبدالعزیز کا بھلا کرے کہ جس نے اسے بند کر دیا اور خطبوں میں سبّ و شتم کی جگہ اس آیت کو رواج دیا:

﴿اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَآىِٕ ذِى الْقُرْبٰى وَيَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْىِ‌ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ﴾

اللہ تمہیں انصاف اور حسنِ سلوک اور صاحبان قرابت کو دینے کا حکم دیتا ہے اور لغو باتوں، برائیوں اور ستم کاریوں سے روکتا ہے۔ اللہ اس سے تمہیں نصیحت کرتا ہے شاید کہ تم سوچ بچار سے کام لینے لگو۔[۲]

حضرتؑ نے اس کلام میں اس کے قتل کا حکم اس بنا پر دیا ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کا ارشاد ہے:

اِذَا رَاَيْتُمْ مُعَاوِيَةَ عَلٰى مِنْۢبَرِیْ فَاقْتُلُوْهُ.

جب معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو تو اسے قتل کر دو۔ (فردوس دیلمی)

[۱]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۴، ص ۵۵۔

[۲]۔ سورۂ نحل، آیت ۹۰۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button