خطبات

خطبہ (۱۰۲)

(۱٠۱) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۰۱)

اُنْظُرُوْا اِلَی الدُّنْیَا نَظَرَ الزَّاهِدِیْنَ فِیْهَا، الصَّادِفِیْنَ عَنْهَا، فَاِنَّهَا وَاللهِ! عَمَّا قَلِیْلٍ تُزِیْلُ الثَّاوِیَ السَّاكِنَ، وَ تَفْجَعُ الْمُتْرَفَ الْاٰمِنَ، لَا یَرْجِـعُ مَا تَوَلّٰی مِنْهَا فَاَدْبَرَ، وَ لَا یُدْرٰی مَا هُوَ اٰتٍ مِّنْهَا فَیُنْتَظَرَ.

دنیا کو زہد اختیار کرنے والوں اور اس سے پہلو بچانے والوں کی نظر سے دیکھو۔ خدا کی قسم! وہ جلد ہی اپنے رہنے سہنے والوں کو اپنے سے الگ کر دے گی اور امن و خوشحالی میں بسر کرنے والوں کو رنج و اندوہ میں ڈال دے گی اور جو چیز اس میں کی منہ موڑ کر پیٹھ پھرا لے وہ واپس نہیں آیا کرتی اور آنے والی چیز کا کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ اس کی راہ دیکھی جائے۔

سُرُوْرُهَا مَشُوْبٌۢ بِالْحُزْنِ، وَجَلَدُ الرِّجَالِ فِیْهَا اِلَی الضَّعْفِ وَ الْوَهْنِ، فَلَا یَغُرَّنَّكُمْ كَثْرَةُ مَا یُعْجِبُكُمْ فِیْهَا لِقِلَّةِ مَا یَصْحَبُكُمْ مِنْهَا.

اس کی مسرتیں رنج میں سمو دی گئی ہیں اور جواں مردوں کی ہمت و طاقت اس میں کمزوری و ناتوانی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ (دیکھو) دنیا کو خوش کر دینے والی چیزوں کی زیادتی تمہیں مغرور نہ بنا دے۔ اس لئے کہ جو چیزیں تمہارا ساتھ دیں گی وہ بہت کم ہیں۔

رَحِمَ اللهُ امْرَاً تَفَكَّرَ فَاعْتَبَرَ، وَ اعْتَبَرَ فَاَبْصَرَ، فَكَاَنَّ مَا هُوَ كَآئِنٌ مِّنَ الدُّنْیَا عَنْ قَلِیْلٍ لَّمْ یَكُنْ، وَ كَاَنَّ مَا هُوَ كَآئِنٌ مِّنَ الْاٰخِرَةِ عَمَّا قَلَیْلٍ لَّمْ یَزَلْ، وَ كُلُّ مَعْدُوْدٍ مُّنْقَضٍ، وَ كُلُّ مُتَوَقَّعٍ اٰتٍ، وَ كُلُّ اٰتٍ قَرِیْبٌ دَانٍ.

خدا اس شخص پر رحم کرے جو سوچ بچار سے عبرت اور عبرت سے بصیرت حاصل کرے۔ دنیا کی ساری موجود چیزیں معدوم ہو جائیں گی، گویا کہ وہ موجود تھیں ہی نہیں اور آخرت میں پیش ہونے والی چیزیں جلد ہی موجود ہو جائیں گی، گویا کہ وہ ابھی سے موجود ہیں۔ ہر شمار میں آنے والی چیز ختم ہو جایا کرتی ہے اور جس کی آمد کا انتظار ہو اسے آیا ہی جانو اور ہر آنے والے کو نزدیک اور پہنچا ہوا سمجھو۔

[مِنْهَا]

[اس خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

اَلْعَالِمُ مَنْ عَرَفَ قَدْرَهٗ، وَ كَفٰی بِالْمَرْءِ جَهْلًا اَلَّا یَعْرِفَ قَدْرَهٗ، وَ اِنَّ مِنْ اَبْغَضِ الرِّجَالِ اِلَی اللهِ لَعَبْدًا وَّكَلَهُ اللهُ اِلٰی نَفْسِهٖ، جَآئِرًا عَنْ قَصْدِ السَّبِیْلِ، سَآئِرًا بِغَیْرِ دَلِیْلٍ، اِنْ دُعِیَ اِلٰی حَرْثِ الدُّنْیَا عَمِلَ، وَ اِنْ دُعِیَ اِلٰی حَرْثِ الْاٰخِرَةِ كَسِلَ! كَاَنَّ مَا عَمِلَ لَهٗ وَاجِبٌ عَلَیْهِ، وَ كَاَنَّ مَا وَنٰی فِیْهِ سَاِقطٌ عَنْهُ!.

عالم وہ ہے جو اپنا مرتبہ شناس ہو اور انسان کی جہالت اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ وہ اپنی قدر و منزلت نہ پہچانے۔ لوگوں میں سب سے زیادہ ناپسند، اللہ کو وہ بندہ ہے جسے اللہ نے اس کے نفس کے حوالے کر دیا ہے۔ اس طرح کہ وہ سیدھے راستے سے ہٹا ہوا اور بغیر رہنما کے چلنے والا ہے۔ اگر اسے دنیا کی کھیتی (بونے) کیلئے بلایا جاتاہے تو سرگرمی دکھاتا ہے اور آخرت کی کھیتی (بونے) کیلئے کہا جاتا ہے تو کاہلی کرنے لگتا ہے۔ گویا جس چیز کیلئے اس نے سرگرمی دکھائی ہے وہ تو ضروری تھی اور جس میں سستی و کوتاہی کی ہے وہ اس سے ساقط تھی۔

[وَ مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

وَذٰلِكَ زَمَانٌ لَّا یَنْجُوْ فِیْهِ اِلَّا كُلُّ مُؤْمِنٍ نُّوَمَةٍ، اِنْ شَهِدَ لَمْ یُعْرَفْ، وَ اِنْ غَابَ لَمْ یُفْتَقَدْ، اُولٰٓئِكَ مَصَابِیْحُ الْهُدٰی، وَ اَعْلَامُ السُّرٰی، لَیْسُوْا بِالْمَسَایِیْحِ، وَ لَا الْمَذَایِیْعِ الْبُذُرِ، اُولٰٓئِكَ یَفْتَحُ اللهُ لَهُمْ اَبْوَابَ رَحْمَتِهٖ، وَ یَكْشِفُ عَنْهُمْ ضَرَّآءَ نِقْمَتِهٖ.

وہ زمانہ ایسا ہو گا کہ جس میں وہ خوابیدہ مومن ہی بچ کر نکل سکے گا کہ جو سامنے آنے پر جانا پہچانا نہ جائے اور نگاہ سے اوجھل ہونے پر اسے ڈھونڈھا نہ جائے۔ یہی لوگ تو ہدایت کے جگمگاتے چراغ اور شب پیمائیوں میں روشن نشان ہیں۔ نہ وہ اِدھر اُدھر کچھ کا کچھ لگاتے پھرتے ہیں، نہ لوگوں کی برائیاں اچھالتے ہیں اور نہ ان کے راز فاش کرتے ہیں۔ اللہ انہی لوگوں کیلئے رحمت کے دروازے کھول دے گا اور ان سے اپنے عذاب کی سختیاں دور رکھے گا۔

اَیُّهَا النَّاسُ! سَیَاْتِیْ عَلَیْكُمْ زَمَانٌ یُّكْفَاُ فِیْهِ الْاِسْلَامُ، كَمَا یُكْفَاُ الْاِنَآءُ بِمَا فِیْهِ.

اے لوگو! وہ زمانہ تمہارے سامنے آنے والا ہے کہ جس میں اسلام کو اس طرح اوندھا کر دیا جائے گا جس طرح برتن کو ان چیزوں سمیت جو اس میں ہوں، الٹ دیا جائے۔

اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّ اللهَ قَدْ اَعَاذَكُمْ مِنْ اَنْ یَّجُوْرَ عَلَیْكُمْ، وَ لَمْ یُعِذْكُمْ مِنْ اَنْ یَّبْتَلِیَكُمْ، وَ قَدْ قَالَ جَلَّ مِنْ قَآئِلٍ: ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ وَّ اِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِیْنَ۝﴾.

اے لوگو! اللہ نے تمہیں اس امر سے محفوظ رکھا ہے کہ وہ تم پر ظلم کرے۔ مگر اس سے پناہ نہیں کہ وہ تمہیں آزمائش میں ڈالے۔ اس بزرگ و برتر کہنے والے کا ارشاد ہے: ’’اس میں ہماری بہت سی نشانیاں ہیں اور ہم تو بس ان کا امتحان لیا کرتے ہیں‘‘۔

اَمَّا قَوْلُهٗ ؑ: «كُلُّ مُؤْمِنٍ نُوَمَةٍ» فَاِنَّمَا اَرَادَ بِهٖ: الْخَامِلَ الذِّكْرِ الْقَلِیْلَ الشَّرِّ.

سیّد رضی فرماتے ہیں: حضرتؑ کے ارشاد ’’ہر خوابیدہ مومن‘‘ میں ’’خوابیدہ‘‘ سے مراد وہ شخص ہے کہ جو گمنام اور بے شر ہو۔

وَ «الْمَسَایِیْحِ»: جَمْعُ مِسْیَاحٍ، وَ هُوَ الَّذِیْ یَسِیْحُ بَیْنَ النَّاسِ بِالْفَسَادِ وَ الْنَّمَآئِمِ.

اور «الْمَسَایِیْح» مسیاح کی جمع ہے۔ اور ’’مسیاح‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو لوگوں میں فتنہ و شر پھیلاتا رہے اور لگائی بجھائی کرتا رہے۔

وَ «الْمَذَایِیْعِ»: جَمْعُ مِذْیَاعٍ، وَ هُوَ الَّذِیْ اِذَا سَمِعَ لِغَیْرِهٖ بِفَاحِشَةٍ اَذَاعَهَا وَ نَوَّهَ بِهَا. وَ «الْبُذُرُ» : جَمْعُ بَذُوْرٍ وَ هُوَ الَّذِیْ یَكْثُرُ سَفَهُهٗ وَ یَلْغُوْ مَنْطِقُهٗ.

اور «الْمَذَایِیْع» مذیاع کی جمع ہے اور ’’مذیاع‘‘ اسے کہتے ہیں کہ جو کسی کی برائی سنے تو اسے اچھالے اور علانیہ بیان کرے اور «الْبُذُرُ» بذور کی جمع ہے اور ’’بذور‘‘ اسے کہتے ہیں کہ جو احمق اور اَول فول بکنے والا ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button