خطبات

خطبہ (۱۸۰)

(۱٨٠) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۸۰)

رُوِیَ عَنْ نَّوْفِ الْبِکَالِیِّ، قَالَ: خَطَبَنَا ھٰذِہِ الْخُطْبَۃَ بِالْکُوْفَۃِ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ وَ هُوَ قَآئِمٌ عَلٰى حِجَارَةٍ نَّصَبَهَا لَهٗ جَعْدَةُ بْنُ هُبَیْرَةَ الْمَخْزُوْمِیُّ، وَ عَلَیْهِ مِدْرَعَةٌ مِّنْ صُوْفٍ، وَ حَمَآئِلُ سَیْفِهٖ لِیْفٌ، وَ فِیْ رِجْلَیْهِ نَعْلَانِ مِنْ لِّیْفٍ، وَ كَاَنَّ جَبِیْنَهٗ ثَفِنَةُ بَعِیْرٍ،. فَقَالَ ؑ:

نوف بکالی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ: حضرتؑ نے یہ خطبہ ہمارے سامنے کوفہ میں اس پتھر پر کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا جسے جعدہ ابن ہبیرہ مخزومی نے نصب کیا تھا۔ اس وقت آپؑ کے جسم مبارک پر ایک اونی جُبہّ تھا اور آپؑ کی تلوار کا پرتلہ لیف خرما کا تھا اور پیروں میں جوتے بھی کھجور کی پتیوں کے تھے اور (سجدوں کی وجہ سے) پیشانی یوں معلوم ہوتی تھی جیسے اونٹ کے گھٹنے پر کا گھٹا۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ مَصَآئِرُ الْخَلْقِ، وَ عَوَاقِبُ الْاَمْرِ، نَحْمَدُهٗ عَلٰی عَظِیْمِ اِحْسَانِهٖ، وَ نَیِّرِ بُرْهَانِهٖ، وَ نَوَامِیْ فَضْلِهٖ وَ امْتِنَانِهٖ، حَمْدًا یَّكُوْنُ لِحَقِّهٖ قَضَآءً، وَ لِشُكْرِهٖۤ اَدَآءً، وَ اِلٰی ثَوَابِهٖ مُقَرِّبًا، وَ لِحُسْنِ مَزِیْدِهٖ مُوْجِبًا.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جس کی طرف تمام مخلوق کی بازگشت اور ہر چیز کی انتہا ہے۔ ہم اس کے عظیم احسان، روشن و واضح برہان اور اس کے لطف و کرم کی افزائش پر اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں۔ ایسی حمد کہ جس سے اس کا حق پورا ہو اور شکر ادا ہو اور اس کے ثواب کے قریب لے جانے والی اور اس کی بخششوں کو بڑھانے والی ہو۔

وَ نَسْتَعِیْنُ بِهِ اسْتِعَانَةَ رَاجٍ لِّفَضْلِهٖ، مُؤَمِّلٍ لِّنَفْعِهٖ، وَاثِقٍۭ بِدَفْعِهٖ، مُعْتَرِفٍ لَّهٗ بِالطَّوْلِ، مُذْعِنٍ لَّهٗ بِالْعَمَلِ وَ الْقَوْلِ.

ہم اس سے اس طرح مدد مانگتے ہیں جس طرح اس کے فضل کا امیدوار، اس کے نفع کا آرزو مند، (دفع بلیات کا) اطمینان رکھنے والا اور بخشش و عطا کا معترف اور قول و عمل سے اس کا مطیع و فرمانبردار اس سے مدد چاہتا ہو۔

وَ نُؤْمِنُ بِهٖۤ اِیْمَانَ مَنْ رَّجَاهُ مُوْقِنًا، وَ اَنَابَ اِلَیْهِ مُؤْمِنًا، وَ خَنَعَ لَهٗ مُذْعِنًا، وَ اَخْلَصَ لَهٗ مُوَحِّدًا، وَ عَظَّمَهٗ مُمَجِّدًا، وَ لَاذَ بِهٖ رَاغِبًا مُّجْتَهِدًا.

اور ہم اس شخص کی طرح اس پر ایمان رکھتے ہیں جو یقین کے ساتھ اس سے آس لگائے ہو اور ایمان (کامل) کے ساتھ اس کی طرف رجوع ہو اور اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ اس کے سامنے عاجزی و فروتنی کرتا ہو اور اسے ایک جانتے ہوئے اس سے اخلاص برتتا ہو اور سپاس گزاری کے ساتھ اسے بزرگ جانتا ہو اور رغبت و کوشش سے اس کے دامن میں پناہ ڈھونڈتا ہو۔

لَمْ یُوْلَدْ سُبْحَانَهٗ فَیَكُوْنَ فِی الْعِزِّ مُشَارَكًا، وَ لَمْ یَلِدْ فَیَكُوْنَ مَوْرُوْثًا هَالِكًا، وَ لَمْ یَتَقَدَّمْهُ وَقْتٌ وَّ لَا زَمَانٌ، وَ لَمْ یَتَعَاوَرْهُ زِیَادَةٌ وَّ لَا نُقْصَانٌ، بَلْ ظَهَرَ لِلْعُقُوْلِ بِمَاۤ اَرَانَا مِنْ عَلَامَاتِ التَّدْبِیْرِ الْمُتْقَنِ، وَ الْقَضَآءِ الْمُبْرَمِ.

اس کا کوئی باپ نہیں کہ وہ عزت و بزرگی میں اس کا شریک ہو، نہ اس کے کوئی اولاد ہے کہ اسے چھوڑ کر وہ دنیا سے رخصت ہو جائے اور وہ اس کی وارث ہو جائے، نہ اس کے پہلے وقت اور زمانہ تھا، نہ اس پر یکے بعد دیگرے کمی اور زیادتی طاری ہوتی ہے، بلکہ جو اس نے مضبوط نظام (کائنات) اور اٹل احکام کی علامتیں ہمیں دکھائی ہیں، ان کی وجہ سے وہ عقلوں کیلئے ظاہر ہوا ہے۔

فَمِنْ شَوَاهِدِ خَلْقِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ مُوَطَّدَاتٍۭ بِلَا عَمَدٍ، قَآئِمَاتٍۭ بِلَا سَنَدٍ، دَعَاهُنَّ فَاَجَبْنَ طَآئِعَاتٍ مُّذْعِنَاتٍ، غَیْرَ مُتَلَكِّئَاتٍ وَّ لَا مُبْطِئَاتٍ، وَ لَوْلَا اِقْرَارُهُنَّ لَهٗ بِالرُّبُوْبِیَّةِ وَ اِذْعَانُهُنَّ لَہٗ بِالطَّوَاعِیَةِ، لَمَا جَعَلَهُنَّ مَوْضِعًا لِّعَرْشِهٖ، وَ لَا مَسْكَنًا لِّمَلٰٓئِكَتِهٖ، وَ لَا مَصْعَدًا لِّلْكَلِمِ الطَّیِّبِ وَ الْعَمَلِ الصَّالِحِ مِنْ خَلْقِهٖ.

چنانچہ اس آفرنیش پر گواہی دینے والوں میں آسمانوں کی خلقت ہے کہ جو بغیر ستونوں کے ثابت و برقرار اور بغیر سہارے کے قائم ہیں۔ خداوند عالم نے انہیں پکارا تو یہ بغیر کسی سستی اور توقف کے اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہوئے لبیک کہہ اٹھے۔ اگر وہ اس کی ربوبیت کا اقرار نہ کرتے اور اس کے سامنے سر اطاعت نہ جھکاتے تو وہ انہیں اپنے عرش کا مقام اور اپنے فرشتوں کا مسکن اور پاکیزہ کلموں اور مخلوق کے نیک عملوں کے بلند ہونے کی جگہ نہ بناتا۔

جَعَلَ نُجُوْمَهَاۤ اَعْلَامًا یَّسْتَدِلُّ بِهَا الْحَیْرَانُ فِیْ مُخْتَلِفِ فِجَاجِ الْاَقْطَارِ، لَمْ یَمْنَعْ ضَوْءَ نُوْرِهَا ادْلِهْمَامُ سُجُفِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ، وَ لَا اسْتَطَاعَتْ جَلَابِیْبُ سَوَادِ الْحَنَادِسِ اَنْ تَرُدَّ مَا شَاعَ فِی السَّمٰوٰتِ مِنْ تَلَاْلُؤِ نُوْرِ الْقَمَرِ.

اللہ نے ان کے ستاروں کو ایسی روشن نشانیاں قرار دیا ہے کہ جن سے حیران و سرگرداں اطراف زمین کی راہوں میں آنے جانے کیلئے راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اندھیری رات کی اندھیاریوں کے سیاہ پردے ان کے نور کی ضوپاشیوں کو نہیں روکتے اور نہ شب ہائے تاریک کی تیرگی کے پردے یہ طاقت رکھتے ہیں کہ وہ آسمانوں میں پھیلی ہوئی چاند کے نور کی جگمگاہٹ کو پلٹا دیں۔

فَسُبْحَانَ مَنْ لَّا یَخْفٰی عَلَیْهِ سَوَادُ غَسَقٍ دَاجٍ، وَّ لَا لَیْلٍ سَاجٍ، فِیْ بِقَاعِ الْاَرَضِیْنَ الْمُتَطَاْطِئَاتِ، وَ لَا فِیْ یَفَاعِ السُّفْعِ الْمُتَجَاوِرَاتِ، وَ مَا یَتَجَلْجَلُ بِهِ الرَّعْدُ فِیْۤ اُفُقِ السَّمَآءِ، وَ مَا تَلَاشَتْ عَنْهُ بُرُوْقُ الْغَمَامِ، وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ تُزِیْلُهَا عَنْ مَّسْقَطِهَا عَوَاصِفُ الْاَنْوَآءِ وَ انْهِطَالُ السَّمَآءِ! وَ یَعْلَمُ مَسْقَطَ الْقَطْرَةِ وَ مَقَرَّهَا، وَ مَسْحَبَ الذَّرَّةِ وَ مَجَرَّهَا، وَ مَا یَكْفِی الْبَعُوْضَةَ مِنْ قُوْتِهَا، وَ مَا تَحْمِلُ الْاُنْثٰی فِیْ بَطْنِهَا.

پاک ہے وہ ذات جس پر پست زمین کے قطعوں اور باہم ملے ہوئے سیاہ پہاڑوں کی چوٹیوں میں اندھیری رات کی اندھیاریاں اور پرسکون شب کی ظلمتیں پوشیدہ نہیں ہیں اور نہ اُفق آسمان میں رعد کی گرج اس سے مخفی ہے اور نہ وہ چیزیں کہ جن پر بادلوں کی بجلیاں کوند کر ناپید ہو جاتی ہیں اور نہ وہ پتے جو(ٹوٹ کر) گرتے ہیں کہ جنہیں (بارش کے)نچھتروں کی تند ہوائیں اور موسلا دھار بارشیں ان کے گرنے کی جگہ سے ہٹا دیتی ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ بارش کے قطرے کہاں گریں گے اور کہاں ٹھہریں گے اور چھوٹی چیونٹیاں کہاں رینگیں گی اور کہاں (اپنے کو) کھینچ کر لے جائیں گی اور مچھروں کو کون سی روزی کفایت کرے گی اور مادہ اپنے پیٹ میں کیا لئے ہوئے ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الْكَآئِنِ قَبْلَ اَنْ یَّكُوْنَ كُرْسِیٌّ اَوْ عَرْشٌ، اَوْ سَمَآءٌ اَوْ اَرْضٌ، اَوْ جَانٌّ اَوْ اِنْسٌ. لَا یُدْرَكُ بِوَهْمٍ، وَ لَا یُقَدَّرُ بِفَهْمٍ، وَ لَا یَشْغَلُهٗ سَآئِلٌ، وَ لَا یَنْقُصُهٗ نَآئِلٌ، وَ لَا یَنْظُرُ بِعَیْنٍ، وَ لَا یُحَدُّ بِاَیْنٍ، وَ لَا یُوْصَفُ بِالْاَزْوَاجِ، وَ لَا یَخْلُقُ بِعِلَاجٍ، وَ لَا یُدْرَكُ بِالْحَوَاسِّ، وَ لَا یُقَاسُ بِالنَّاسِ، الَّذِیْ كَلَّمَ مُوْسٰی تَكْلِیْمًا، وَ اَرَاهُ مِنْ اٰیَاتِهٖ عَظِیْمًا، بِلَا جَوَارِحَ وَ لَاۤ اَدَوَاتٍ، وَ لَا نُطْقٍ وَّ لَا لَهَوَاتٍ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جو عرش و کرسی، زمین و آسمان اور جن و انس سے پہلے موجود تھا۔ نہ (انسانی) وہموں سے اسے جانا جا سکتا ہے اور نہ عقل و فہم سے اس کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ اسے کوئی سوال کرنے والا (دوسرے سائلوں سے) غافل نہیں بناتا اور نہ بخشش و عطا سے اس کے ہاں کچھ کمی آتی ہے۔ وہ آنکھوں سے دیکھا نہیں جا سکتا اور نہ کسی جگہ میں اس کی حد بندی ہو سکتی ہے۔ نہ ساتھیوں کے ساتھ اسے متصف کیا جا سکتا ہے اور نہ (اعضاء و جوارح کی) حرکت سے وہ پیدا کرتا ہے اور نہ حواس سے وہ جانا پہچانا جا سکتا ہے اور نہ انسانوں پر اس کا قیاس ہو سکتا ہے۔ وہ خدا کہ جس نے بغیر اعضاء و جوارح اور بغیر گویائی اور بغیر حلق کے کوؤں کو ہلائے ہوئے موسیٰ علیہ السلام سے باتیں کیں اور انہیں اپنی عظیم نشانیاں دکھلائیں۔

بَلْ اِنْ كُنْتَ صَادِقًا اَیُّهَا الْمُتَكَلِّفُ لِوَصْفِ رَبِّكَ، فَصِفْ جَبْرَئِیْلَ وَ مِیْكَآئِیْلَ وَ جُنُوْدَ الْمَلٰٓئِكَةِ الْمُقَرَّبِیْنَ، فِیْ حُجُرَاتِ الْقُدُسِ مُرْجَحِنِّیْنَ، مُتَوَلِّهَةً عُقُوْلُهُمْ اَنْ یَّحُدُّوْۤا اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ. فَاِنَّمَا یُدْرَكُ بِالصِّفَاتِ ذَوُو الْهَیْئَاتِ وَ الْاَدَوَاتِ، وَ مَنْ یَّنْقَضِیْۤ اِذَا بَلَغَ اَمَدَ حَدِّهٖ بِالْفَنَآءِ. فَلَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ، اَضَآءَ بِنُوْرِهٖ كُلَّ ظَلَامٍ، وَ اَظْلَمَ بِظُلْمَتِهٖ كُلَّ نُوْرٍ.

اے اللہ کی توصیف میں رنج و تعب اٹھانے والے! اگر تو (اس سے عہدہ برآہونے میں) سچا ہے تو پہلے جبرئیلؑ و میکائیلؑ اور مقرب فرشتوں کے لاؤ لشکر کا وصف بیان کر کہ جو پاکیزگی و طہارت کے حجروں میں اس عالم میں سر جھکائے پڑے ہیں کہ ان کی عقلیں ششدر و حیران ہیں کہ وہ اس بہترین خالق کی توصیف کر سکیں۔ صفتوں کے ذریعے وہ چیزیں جانی پہچانی جاتی ہیں جو شکل وصورت اور اعضاء و جوارح رکھتی ہوں اور وہ کہ جو اپنی حد انتہا کو پہنچ کر موت کے ہاتھوں ختم ہو جائیں۔ اس اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ جس نے اپنے نور سے تمام تاریکیوں کو روشن و منور کیا اور ظلمت (عدم) سے ہر نور کو تیرہ و تار بنادیا ہے۔

اُوْصِیْكُمْ عِبَادَ اللهِ بِتَقْوَی اللهِ الَّذِیْ اَلْبَسَكُمُ الرِّیَاشَ، وَ اَسْبَغَ عَلَیْكُمُ الْمَعَاشَ، فَلَوْ اَنَّ اَحَدًا یَّجِدُ اِلَی الْبَقَآءِ سُلَّمًا، اَوْ لِدَفْعِ الْمَوْتِ سَبِیْلًا، لَكَانَ ذٰلِكَ سُلَیْمَانَ بْنَ دَاوٗدَ ؑ، الَّذِیْ سُخِّرَ لَهٗ مُلْكُ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ، مَعَ النُّبُوَّۃِ وَ عَظِیْمِ الزُّلْفَةِ، فَلَمَّا اسْتَوْفٰی طُعْمَتَهٗ، وَ اسْتَكْمَلَ مُدَّتَهٗ، رَمَتْهُ قِسِیُّ الْفَنَآءِ بِنِبَالِ الْمَوْتِ، وَ اَصْبَحَتِ الدِّیَارُ مِنْهُ خَالِیَةً، وَ الْمَسَاكِنُ مُعَطَّلَةً، وَ وَرِثَهَا قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ.

اللہ کے بندو! میں تمہیں اس اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں جس نے تم کو لباس سے ڈھانپا اور ہر طرح کا سامانِ معیشت تمہارے لئے مہیا کیا۔ اگر کوئی دنیوی بقا (کی بلندیوں پر) چڑھنے کا زینہ یا موت کو دور کرنے کا راستہ پا سکتا ہوتا تو وہ سلیمان ابن داؤد علیہما السلام ہوتے کہ جن کیلئے نبوت و انتہائے تقرب کے ساتھ جن و انس کی سلطنت قبضہ میں دے دی گئی تھی، لیکن جب وہ اپنا آب و دانہ پورا اور اپنی مدت (حیات) ختم کر چکے تو فنا کی کمانوں نے انہیں موت کے تیروں کی زد پر رکھ لیا، گھر ان سے خالی ہو گئے اور بستیاں اجڑ گئیں اور دوسرے لوگ ان کے وارث ہو گئے۔

وَ اِنَّ لَكُمْ فِی الْقُرُوْنِ السَّالِفَةِ لَعِبْرَةً! اَیْنَ الْعَمَالِقَةُ وَ اَبْنَآءُ الْعَمَالِقَةِ! اَیْنَ الْفَرَاعِنَةُ وَاَبْنَآءُ الْفَرَاعِنَةِ! اَیْنَ اَصْحَابُ مَدَآئِنِ الرَّسِّ الَّذِیْنَ قَتَلُوا النَّبِیِّیْنَ، وَاَطْفَاُوْا سُنَنَ الْمُرْسَلِیْنَ، وَاَحْیَوْا سُنَنَ الْجَبَّارِیْنَ! اَیْنَ الَّذِیْنَ سَارُوْا بِالْجُیُوْشِ، وَ هَزَمُوا الْاُلُوْفَ، وَعَسْكَرُوا الْعَسَاكِرَ، وَمَدَّنُوا الْمَدَآئِنَ!.

تمہارے لئے گزشتہ دوروں (کے ہر دور)میں عبرتیں (ہی عبرتیں) ہیں۔ (ذرا سوچو تو کہ) کہاں ہیں عمالقہ [۱] اور ان کے بیٹے؟ اور کہاں ہیں فرعون اور ان کی اولادیں؟ کہاں ہیں اصحاب الرس کے شہروں کے باشندے؟ جنہوں نے نبیوں کو قتل کیا، پیغمبروں کے روشن طریقوں کو مٹایا اور ظالموں کے طور طریقوں کو زندہ کیا۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو لشکروں کو لے کر بڑھے؟ ہزاروں کو شکست دی اور فوجوں کو فراہم کرکے شہروں کو آباد کیا۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کے ذیل میں فرمایا ہے]

قَدْ لَبِسَ لِلْحِكْمَةِ جُنَّتَهَا، وَ اَخَذَهَا بِجَمِیْعِ اَدَبِهَا، مِنَ الْاِقْبَالِ عَلَیْهَا، وَ الْمَعْرِفِةِ بِهَا، وَ التَّفَرُّغِ لَهَا، فَهِیَ عِنْدَ نَفْسِهٖ ضَالَّتُهُ الَّتِیْ یَطْلُبُهَا، وَ حَاجَتُهُ الَّتِیْ یَسْئَلُ عَنْهَا، فَهُوُ مُغْتَرِبٌ اِذَا اغْتَرَبَ الْاِسْلَامُ، وَ ضَرَبَ بِعَسِیْبِ ذَنَۢبِهٖ، وَ اَلْصَقَ الْاَرْضَ بِجِرَانِهٖ، بَقِیَّةٌ مِّنْ بَقَایَا حُجَّتِهٖ، خَلِیْفَةٌ مِّنْ خَلَآئِفِ اَنْۢبِیَآئِهٖ.

وہ حکمت کی سپر پہنے ہو گا اور اس کو اس کے تمام شرائط و آداب کے ساتھ حاصل کیا ہو گا (جو یہ ہیں کہ:)ہمہ تن اس کی طرف توجہ ہو، اس کی اچھی طرح شناخت ہو اور دل (علائق دنیا سے) خالی ہو۔ چنانچہ وہ اس کے نزدیک اسی کی گمشدہ چیز اور اسی کی حاجت و آرزو ہے کہ جس کا وہ طلبگار و خواستگار ہے۔ وہ اس وقت (نظروں سے اوجھل ہو کر) غریب و مسافر ہو گا کہ جب اسلام عالم غربت میں اور مثل اس اونٹ کے ہو گا جو تھکن سے اپنی دم زمین پر مارتا ہو اور گردن کا اگلا حصہ زمین پر ڈالے ہوئے ہو۔ وہ اللہ کی باقی ماندہ حجتوں کا بقیہ اور انبیاءؑ کے جانشینوں میں سے ایک وارث و جانشین ہے۔

ثُمَّ قَالَ ؑ:

اس کے بعد حضرتؑ نے فرمایا:

اَیُّهَا النَّاسُ! اِنِّیْ قَدْ بَثَثْتُ لَكُمُ الْمَوَاعِظَ الَّتِیْ وَعَظَ الْاَنْۢبِیَآءُ بِهَا اُمَمَهُمْ، وَ اَدَّیْتُ اِلَیْكُمْ مَاۤ اَدَّتِ الْاَوْصِیَآءُ اِلٰی مَنْۢ بَعْدَهُمْ، وَ اَدَّبْتُكُمْ بِسَوْطِیْ فَلَمْ تَسْتَقِیْمُوْا، وَ حَدَوْتُكُمْ بِالزَّوَاجِرِ فَلَمْ تَسْتَوْسِقُوْا.

اے لوگو! میں نے تمہیں اسی طرح نصیحتیں کی ہیں جس طرح کی انبیاءؑ اپنی اُمتوں کو کرتے چلے آئے ہیں اور ان چیزوں کو تم تک پہنچایا ہے جو اوصیاءؑ بعد والوں تک پہنچایا کئے ہیں۔ میں نے تمہیں اپنے تازیانہ سے ادب سکھانا چاہا مگر تم سیدھے نہ ہوئے اور زجر وتو بیخ سے تمہیں ہنکایا لیکن تم یکجا نہ ہوئے۔

لِلّٰهِ اَنْتُمْ! اَتَتَوَقَّعُوْنَ اِمَامًا غَیْرِیْ یَطَاُ بِكُمُ الطَّرِیْقَ، وَ یُرْشِدُكُمُ السَّبِیْلَ؟.

اللہ تمہیں سمجھے! کیا میرے علاوہ کسی اور امام کے امید وار ہو جو تمہیں سیدھی راہ پر چلائے اور صحیح راستہ دکھائے؟۔

اَلَاۤ اِنَّهٗ قَدْ اَدْبَرَ مِنَ الدُّنْیَا مَا كَانَ مُقْبِلًا، وَ اَقْبَلَ مِنْهَا مَا كَانَ مُدْبِرًا، وَ اَزْمَعَ التَّرْحَالَ عِبَادُ اللهِ الْاَخْیَارُ، وَ بَاعُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الدُّنْیَا لَا یَبْقٰی، بِكَثِیْرٍ مِّنَ الْاٰخِرَةِ لَایَفْنٰی.

دیکھو! دنیا کی طرف رخ کرنے والی چیزوں نے جو رخ کئے ہوئے تھیں پیٹھ پھرا لی اور جو پیٹھ پھرائے ہوئے تھیں انہوں نے رخ کر لیا، اللہ کے نیک بندوں نے (دنیا سے) کوچ کرنے کا تہیہ کر لیا اور فنا ہونے والی تھوڑی سی دنیا ہاتھ سے دے کر ہمیشہ رہنے والی بہت سی آخرت مول لے لی۔

مَا ضَرَّ اِخْوَانَنَا الَّذِیْنَ سُفِكَتْ دِمَآؤُهُمْ ـ وَ هُمْ بِصِفِّیْنَ ـ اَنْ لَّا یَكُوْنُوا الْیَوْمَ اَحْیَآءً؟ یُسِیْغُوْنَ الْغُصَصَ، وَ یَشْرَبُوْنَ الرَّنْقَ! قَدْ ـ وَاللهِ ـ لَقُوا اللهَ فَوَفَّاهُمْ اُجُوْرَهُمْ، وَ اَحَلَّهُمْ دَارَ الْاَمْنِ بَعْدَ خَوْفِهِمْ.

بھلا اُن ہمارے بھائی بندوں کو کہ جن کے خون صفین میں بہائے گئے اس سے کیا نقصان پہنچا کہ وہ آج زندہ موجود نہیں ہیں؟ (یہی نہ کہ اگر وہ ہوتے) تو تلخ گھونٹوں کو گوارا کرتے اور گدلا پانی پیتے۔ خدا کی قسم! وہ خدا کے حضور میں پہنچ گئے، اس نے ان کو پورا پورا اجر دیا اور خوف و ہراس کے بعد انہیں امن چین والے گھر میں اتارا۔

اَیْنَ اِخْوَانِیَ الَّذِیْنَ رَكِبُوا الطَّرِیْقَ، وَ مَضَوْا عَلَی الْحَقِّ؟ اَیْنَ عَمَّارٌ؟ وَ اَیْنَ ابْنُ التَّیِّهَانِ؟ وَ اَیْنَ ذُو الشَّهَادَتَیْنِ؟ وَ اَیْنَ نُظَرَآؤُهُمْ مِنْ اِخْوَانِهِمُ الَّذِیْنَ تَعَاقَدُوْا عَلَی الْمَنِیَّةِ، وَ اُبْرِدَ بِرُؤُوْسِهِمْ اِلَی الْفَجَرَةِ؟.

کہاں ہیں؟وہ میرے بھائی کہ جو سیدھی راہ پر چلتے رہے اور حق پر گزر گئے۔ کہاں ہیں عمار؟ اور کہاں ہیں ابن تیہان؟ اور کہاں ہیں ذو الشہادتین؟ اور کہاں ہیں ان کے ایسے اور دوسرے بھائی؟ کہ جو مرنے پر عہد و پیمان باندھے ہوئے تھے اور جن کے سروں کو فاسقوں کے پاس روانہ کیا گیا۔

قَالَ: ثُمَّ ضَرَبَ بِیَدِهٖۤ عَلٰی لِحْیَتِهِ الشَّرِیْفَةِ الْكَرِیْمَةِ، فَاَطَالَ الْبُكَآءَ، ثُمَّ قَالَ ؑ:

نوف کہتے ہیں کہ: اس کے بعد حضرتؑ نے اپنا ہاتھ ریش مبارک پر پھیرا اور دیر تک رویا کئے اور پھر فرمایا:

اَوْهِ عَلٰۤی اِخْوَانِیَ الَّذِیْنَ تَلَوُا الْقُرْاٰنَ فَاَحْكَمُوْهُ، وَ تَدَبَّرُوا الْفَرْضَ فَاَقَامُوْهُ، اَحْیَوُا السُّنَّةَ، وَ اَمَاتُوا الْبِدْعَةَ، دُعُوْا لِلْجِهَادِ فَاَجَابُوْا، وَ وَثِقُوْا بِالْقَآئِدِ فَاتَّبَعُوْہُ.

آہ! میرے وہ بھائی کہ جنہوں نے قرآن کو پڑھا تو اسے مضبوط کیا، اپنے فرائض میں غور و فکر کیا تو انہیں ادا کیا، سنت کو زندہ کیا اور بدعت کو موت کے گھاٹ اتارا، جہاد کیلئے انہیں بلایا گیا تو انہوں نے لبیک کہی اور اپنے پیشوا پر یقین کامل کے ساتھ بھروسا کیا تو اس کی پیروی بھی کی۔

ثُمَّ نَادٰی بِاَعْلٰی صَوْتِهٖ:

اس کے بعد حضرتؑ نے بلند آواز سے پکار کر کہا:

اَلْجِهَادَ الْجِهَادَ عِبَادَ اللهِ! اَلَا وَ اِنِّیْ مُعَسْكِرٌ فِیْ یَوْمِیْ هٰذَا، فَمَنْ اَرَادَ الرَّوَاحَ اِلَی اللهِ فَلْیَخْرُجْ.

جہاد! جہاد! اے بندگان خدا! دیکھو میں آج ہی لشکر کو ترتیب دے رہا ہوں۔ جو اللہ کی طرف بڑھنا چاہے وہ نکل کھڑا ہو۔

قَالَ نَوْفٌ: و عَقَدَ لِلْحُسَیْنِ ؑ فِیْ عَشَرَةِ اٰلَافٍ، و لِقَیْسِ بْنِ سَعْدٍ -رَحِمَهُ اللهُ- فِیْ عَشَرَةِ اٰلَافٍ، وَ لِاَبِیْۤ اَیُّوْبَ الْاَنْصَارِیِّ فِیْ عَشَرَةِ اٰلَافٍ، وَ لِغَیْرِهِمْ عَلٰی اَعْدَادٍ اُخَرَ، وَ هُوَ یُرِیْدُ الرَّجْعَةَ اِلٰی صِفِّیْنَ، فَمَا دَارَتِ الْجُمُعَةُ حَتّٰی ضَرَبَهُ الْمَلْعُوْنُ ابْنُ مُلْجَمٍ لَّعَنَهُ اللهُ، فَتَرَاجَعَتِ الْعَسَاكِرُ، فَكُنَّا كَاَغْنَامٍ فَقَدَتْ رَاعِیَهَا، تَخْتَطِفُهَا الذِّئَابُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ!.

نوف کہتے ہیں کہ: اس کے بعد حضرتؑ نے دس ہزار کی سپاہ پر حسین علیہ السلام کو اور دس ہزار کی فوج پر قیس ابن سعد کو اور دس ہزار کے لشکر پر ابو ایوب انصاری ؒ کو امیر بنایا اور دوسرے لوگوں کو مختلف تعداد کی فوجوں پر سالار مقرر کیا اور آپؑ صفین کی طرف پلٹ کر جانے کا ارادہ رکھتے تھے، لیکن ایک ہفتہ بھی گزرنے نہ پایا تھا کہ ملعون ابن ملجم (لعنة اللہ) نے آپؑ کے (سر اقدس پر) ضرب لگائی جس سے یہ تمام لشکر پلٹ گئے اور ہماری حالت ان بھیڑ بکریوں کے مانند ہو گئی جو اپنے چرواہے کو کھو چکی ہوں اور بھیڑیے ہر طرف سے انہیں اُچک کر لے جا رہے ہوں۔

۱؂تاریخ کے صفحات اس کے شاہد ہیں کہ اکثر و بیشتر قوموں کی ہلاکت و تباہی ان کے ظلم و جور اور علانیہ فسق و فجور کی وجہ سے ظہور میں آئی۔ چنانچہ وہ قومیں جنہوں نے ربع مسکون کے ہر گوشہ پر اپنے اقتدار کے سکے جمائے اور شرق و غرب عالم پر اپنے پرچم لہرائے جب ان کی بد اعمالیوں اور بدکرداریوں سے پردہ ہٹا تو پاداش عمل کے قانون نے اس طرح ان کا استیصال کیا کہ صفحۂ عالم سے حرف غلط کی طرح محو ہو گئے۔ عاد و ثمود کی سلطنتوں کا خاتمہ ہو گیا، فرعون و نمرود کی شہنشاہیاں مٹ گئیں، طسم و جدیس کی سر بفلک عمارتیں سنسان کھنڈر بن گئیں،اصحاب الرس کی بستیاں اُجڑ کر ویرانہ ہو گئیں اور جہاں زندگی کے قہقہے تھے وہاں موت کی اداسیاں اور جہاں جمگھٹے تھے وہاں بھیانک سناٹے چھا گئے۔ یہ قوموں کا عروج و زوال چشم بینا کیلئے ہزاروں عبرت کے سامان رکھتا ہے اور ان واقعات کے پیش کرنے سے مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ انسان ان کے احوال و واردات سے عبرت اندوز ہو اور غرور و طغیان کی سر مستیوں میں کھو کر اپنے انجام کو بھول نہ جائے۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام نے اسی موعظت و عبرت کیلئے عمالقہ، فراعنہ اور اصحاب الرس کی تباہیوں کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جو عظمت و ارتفاع کی چوٹیوں سے ہلاکت و بربادی کے قعرِ مذلت میں اس طرح گرے کہ ان کا نام و نشان بھی نہ رہا۔

یہ ’’عمالقہ‘‘ کون تھے؟ اس کیلئے ابن قتیبہ نے تحریر کیا ہے:

وَ مِنْ وُّلْدِ اِرَمَ بْنِ سَامِ بْنِ نُوْحٍ ؑ طَسْمٌ وَّ جَدِيْسٌ ابْنَا لَاوِدِ بْنِ اِرَمَ بْنِ سَامِ بْنِ نُوْحٍ ؑ، وَ نَزَلُوا الْيَمَامَةَ وَ اَخُوْهُمَا عِمْلِيْقُ بْنُ لَاوِدِ ابْنُ اِرَمَ بْنِ سَامِ بْنِ نُوْحٍ ؑ، نَزَلَ بَعْضُهُمْ بِالْحَرَمِ وَ بَعْضُهُمُ الشَّامَ، فَمِنْهُمُ الْعَمَالِيْقُ اُمَمٌ تَفَرَّقُوْا فِی الْبِلَادِ، وَ مِنْهُمْ فَرَاعِنَةُ مِصْرٍ وَّ الْجَبَابِرَةُ.

ارم ابن سام ابن نوحؑ کی اولاد میں سے طسم اور جدیس تھے کہ جو لاود ابن ارم ابن سام ابن نوحؑ کے بیٹے تھے۔ یہ یمامہ میں فروکش ہوئے اور ان کا ایک بھائی عملیق ابن لاود ابن ارم ابن سام ابن نوحؑ تھا کہ جس کی اولاد میں سے کچھ افراد مکہ میں اور کچھ شام میں مقیم تھے اور انہی قبائل عرب میں سے ’’عمالقہ‘‘ تھے کہ جو متعدد گروہوں کی صورت میں مختلف شہروں میں پھیل گئے اور انہی میں سے فراعنہ مصر اور شام کے فرمانروا تھے۔ (المعارف، ص۱۳)

مؤرخ طبری نے لکھا ہے:

وَ وُلِدَ لِلَاوِذَ اَيْضًا عِمْلِيْقُ بْنُ لَاوِذَ، وَ كَانَ مَنْزِلُهُ الْحَرَمَ وَ اَكْنَافَ مَكَّةَ، وَ لَحِقَ بَعْضُ وَلَدِهٖ بِالشَّامِ، فَمِنْهُمْ كَانَتِ الْعَمَالِيْقُ، وَ مِنَ الْعَمَالِيْقِ الْفَرَاعِنَةُ بِمِصْرَ.

لاوذ کا ایک بیٹا عملیق تھا اور مکہ اور اس کے اطراف میں اس کی رہائش تھی اور اس کی اولاد میں سے کچھ لوگ شام چلے گئے اور اسی کی اولاد میں سے عمالقہ تھے اور انہی عمالقہ میں سے فراعنہ مصر تھے۔ (طبری، ج۱، ص۱۴۲)

اس سے ظاہر ہوا کہ عمالقہ عرب کے قبائل بائدہ تھے جنہوں نے شام و حجاز پر اپنی حکومتیں قائم کر رکھی تھیں۔ چنانچہ ابتدا میں اس خاندان کے مورث اعلیٰ عملیق کو اقتدار حاصل تھا، مگر اس کے بعد طسم کی طرف منتقل ہو گیا اور طسم کے بعد جب عملوق ابن طسم بر سر اقتدار آیا تو اس نے ظلم و جور اور فسق و فجور کی حد کر دی، یہاں تک کہ اس نے حکم دے رکھا تھا کہ قبیلہ جدیس کی جو عورت بیاہی جائے وہ شوہر کے ہاں جانے سے پہلے اس کے شبستان عشرت میں ایک رات گزار کر جائے۔ چنانچہ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اور جب اسی خاندان کی ایک عورت عفیرہ بنت عفار کے ساتھ یہی شرمناک برتاؤ ہوا تو اس نے شوہر کے ہاں جانے سے انکار کر دیا اور اپنے قبیلہ کو اشعار کے ذریعہ سے غیرت دلائی جس پر پورا قبیلہ اپنی عزت و ناموس کی بربادیوں پر تلملا اٹھا اور انتقام لینے کے درپے ہو گیا۔ چنانچہ عفیرہ کے بھائی اسود ابن عفار نے عملوق کو اس کے عملہ کے ساتھ دعوت کے بہانے سے اپنے ہاں بلوا لیا اور ان کے پہنچتے ہی بنی جدیس نے تلواریں نیاموں سے نکال لیں اور ان پر اس طرح اچانک ٹوٹ پڑے کہ ریاح ابن مر کے علاوہ کوئی اپنا بچاؤ نہ کر سکا۔ یہ بھاگ کر شاہ یمن کے دربار میں جا پہنچا اور اسے بنی جدیس پر حملہ کرنے کی ترغیب دی۔ چنانچہ وہ ایک لشکر جرار لے کر ان پر چڑھ دوڑا اور انہیں شکست دے کر ہلاک و منتشر کر دیا اور اقتدار ان کے ہاتھوں سے چھین لیا۔ یہ عمالقہ وہی ہیں جنہوں نے ۲۰۰۰ق م مصر پر حملہ کیا تھا اور جنہیں ہیکسوس (چرواہے بادشاہ)کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

چنانچہ مسعودی نے ان کے مصر میں داخل ہونے کے سلسلہ میں لکھا ہے:

وَ مَلَّكُوا النِّسَآءَ، فَطَمِعَتْ فِيْهِمْ مُلُوْكُ الْاَرْضِ، فَسَارَ اِلَيْهِمْ مِنَ الشَّامِ مَلِكٌ مِّنْ مُّلُوْكِ الْعَمَالِيْقِ يُقَالُ لَهُ الْوَلِيْدُ بْنُ دُوْمَعٍ، فَكَانَتْ لَهٗ حُرُوْبٌۢ بِهَا، وَ غَلَبَ عَلَى الْمُلْكِ، فَانْقَادُوْۤا اِلَيْهِ، وَ اسْتَقَامَ لَهُ الْاَمْرُ اِلٰۤى اَنْ هَلَكَ، ثُمَّ مَلَكَ بَعْدَهُ الرَّيَّانُ بْنُ الْوَلِيْدِ الْعِمْلَاقِيُّ، وَ هُوَ فِرْعَوْنُ يُوْسُفَؑ… ثُمَّ مَلَكَ بَعْدَهٗ دَارِمُ بْنُ الرَّيَّانِ الْعِمْلَاقِيُّ، ثُمَّ مَلَكَ بَعْدَهٗ كَامِسُ بْنُ مِعْدَانَ الْعِمْلَاقِيُّ.

جب اہل مصر نے عورتوں کے ہاتھ میں اقتدار دے دیا تو دوسرے بادشاہوں کے دل میں اسے فتح کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ چنانچہ شاہانِ عمالقہ میں سے ایک بادشاہ نے جسے ولید ابن دومع کہا جاتا ہے، مصر پر چڑھائی کی اور بہت سی لڑائیاں لڑیں۔ آخر اہل مصر نے اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اس کی حکومت تسلیم کر لی۔ جب یہ مر گیا تو ریان ابن ولید عملاقی تخت فرمانروائی پر بیٹھا او ریہی حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ کا فرعون تھا۔ اس کے بعد دارم ابن ریان اور پھر کامس ابن معدان عملاقی فرمانروا ہوا۔ (مروج الذہب، ج۱، ص۲۲۲)

یہ انتہائی سر کش و ظالم حکمران تھے جس کی پاداش میں قدرت نے ان کو نیست و نابود کرنے کے سامان پیدا کر دیے۔

چنانچہ مسعودی تحریر کرتے ہیں:

وَ قَدْ كَانَتِ الْعِمَالِيْقُ بَغَتْ فِی الْاَرْضِ، فَسَلَّطَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مُلُوْكَ الْاَرْضَ فَاَفْنَتْهَا.

عمالقہ نے زمین میں شر و فساد پھیلا رکھا تھا، جس کے نتیجہ میں قدرت نے ان پر دوسرے فرمانرواؤں کو مسلط کر دیا جنہوں نے انہیں فنا و برباد کر دیا۔ (مروج الذہب، ج۱، ص۲۶۵)

ان عمالقہ کے بعد ولید ابن مصعب حکمران ہوا۔ یہ بعض مؤرخین کے نزدیک شام کے قبیلہ لخم سے تھا اور بعض نے اسے قبطی لکھا ہے اور یہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد کا فرعون تھا۔ اس کے کبر و انانیت اور غرور و نخوت کی یہ حالت تھی کہ ﴿اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى۝۲۴ْۖ﴾ کا دعویٰ کر کے دنیا کی ساری قوتوں کو اپنے تصرف و اختیار میں سمجھنے لگا تھا اور اس زعم میں مبتلا تھا کہ کوئی طاقت اس سے سلطنت و حکومت کو چھین نہیں سکتی۔ چنانچہ قرآن مجید نے اس کے دعویٰ «اَنَا وَ لَا غَیْرِیْ» کو ان لفظوں میں بیان کیا ہے:

﴿قَالَ يٰقَوْمِ اَلَيْسَ لِىْ مُلْكُ مِصْرَ وَهٰذِهِ الْاَنْهٰرُ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِىْ‌ۚ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَؕ‏﴾

اس نے کہا کہ اے قوم! کیا یہ ملک مصر میرا نہیں ہے؟ اور یہ میرے محل کے نیچے بہتی ہوئی نہریں میری نہیں ہیں؟ کیا تمہیں یہ نظر نہیں آتا؟۔[۱]

مگر جب اس کی سلطنت مٹنے پر آئی تو لمحوں میں مٹ گئی۔ نہ اس کی جاہ و حشمت سدراہ ہوئی اور نہ مملکت کی وسعت روک تھام کر سکی، بلکہ جن نہروں کی ملکیت پر اسے گھمنڈ تھا انہی کی تلملاتی لہروں نے اسے اپنی لپیٹ میں لے کر اس کی روح کو دار البوار میں اور جسم کو کائنات کی عبرت و بصیرت کیلئے کنارے پر پھینک دیا۔

اسی طرح ’’اصحاب الرس‘‘ ایک نبی کی دعوت و تبلیغ کے ٹھکرانے اور سرکشی و نافرمانی کرنے کے نتیجہ میں ہلاک و برباد ہو گئے۔

چنانچہ قدرت کا ارشاد ہے:

﴿وَّعَادًا وَّثَمُوْدَا۟ وَ اَصْحٰبَ الرَّسِّ وَقُرُوْنًۢا بَيْنَ ذٰ لِكَ كَثِيْرًا‏ ﴿۳۸﴾ وَكُلًّا ضَرَبْنَا لَهُ الْاَمْثَالَ‌ وَكُلًّا تَبَّـرْنَا تَـتْبِيْرًا‏﴾

اور اسی طرح عاد و ثمود اور اصحاب الرس اور ان کے درمیانی زمانہ کی بہت سی قوموں کو ہم نے ہلاک کر دیا۔ ہم نے سب کیلئے مثالیں بیان کی تھیں اور آخر ہم نے ان سب کو جڑ بنیاد سے اکھاڑ دیا۔[۲]

’’رس‘‘ آذربائیجان کے علاقہ میں ایک نہر کا نام تھا جس کے کنارے پر بارہ بستیاں آباد تھیں جن کے رہنے والوں کو ’’اصحاب الرس‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان بستیوں کے نام: ۱۔آبان، ۲۔آذر، ۳۔ دی، ۴۔ بہمن، ۵۔ اسفندار، ۶۔ فروردین، ۷۔ اردی بہشت، ۸۔ خرداد، ۹۔ مرداد، ۱۰۔ تیر، ۱۱۔ مہر، ۱۲۔ شہریور[۳] تھے۔ ان میں اسفندار کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور اس میں صنوبر کا ایک درخت تھا جسے یافث ابن نوحؑ نے لگایا تھا اور اسے ’’شاہ درخت‘‘ کہا جاتا تھا۔ اسی درخت کے بیجوں سے دوسری بستیوں میں بھی ایک ایک درخت لگایا گیا تھا۔ یہ لوگ ہر مہینے ایک بستی میں جمع ہوتے اور اس درخت کی پرستش کرتے اور سال میں ایک مرتبہ نوروز کے موقع پر اسفندار میں ان کا اجتماع ہوتا تھا اور اس اصل درخت کی خاص اہتمام سے پوجا کرتے، قربانیاں چڑھاتے اور منتیں مانتے تھے۔ قدرت نے انہیں اس درخت کی عبادت سے روکنے کیلئے یہود ابن یعقوب کی نسل سے ایک پیغمبر ان کی طرف بھیجا جنہوں نے انہیں اس مشرکانہ عبادت سے روکنا چاہا، مگر انہوں نے ان کا کہنا نہ مانا اور انکار و سرکشی پر اتر آئے اور ان کی ہلاکت کے درپے ہو گئے۔ چنانچہ ان لوگوں نے چشمہ کے اندر ایک کنواں کھود کر اس میں انہیں پھینک دیا اور اس کا منہ ایک پتھر سے بند کر دیا جس سے وہ تڑپ تڑپ کر جاں بحق ہو گئے۔ اس ظلم و سفاکی کے نتیجہ میں قہر الٰہی نے کروٹ لی اور ان پر لو کے ایسے جھونکے چلے کہ ان کے بدن جھلس کر رہ گئے اور زمین سے گندھک کا لاوا پھوٹ نکلا جس سے ان کے جسم کی ہڈیاں تک پگھل گئیں اور ساری کی ساری بستیاں الٹ گئیں۔

[۱]۔ سورۂ زخرف، آیت ۵۱۔

[۲]۔ سورۂ فرقان، آیت ۳۸-۳۹۔

[۳]۔ یہی نام فارسی مہینوں کے ہیں جو انہی بستیوں کے نام پر رکھے گئے تھے، کیوں کہ ہر مہینے ان لوگوں کا ایک بستی میں اجتماع ہوتا تھا جس کی وجہ سے اس مہینے کا بھی وہی نام ہو گیا جو اس بستی کا نام تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button