خطبات

خطبہ (۱۹۶)

(۱٩٦) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۹۶)

یَعْلَمُ عَجِیْجَ الْوُحُوْشِ فِی الْفَلَوَاتِ، وَ مَعَاصِیَ الْعِبَادِ فِی الْخَلَوَاتِ، وَ اخْتِلَافَ النِّیْنَانِ فِی الْبِحَارِ الْغَامِرَاتِ، وَ تَلَاطُمَ الْمَآءِ بِالرِّیَاحِ الْعَاصِفَاتِ.

وہ (خداوند عالم) بیابانوں میں چوپاؤں کے نالے (سنتا ہے)، تنہائیوں میں بندوں کے گناہوں سے آگاہ ہے اور اَتھاہ دریاؤں میں مچھلیوں کی آمد و شد اور تند ہواؤں کے ٹکراؤ سے پانی کے تھپیڑوں کو جانتا ہے۔

وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا نَّجِیْبُ اللهِ، وَ سَفِیْرُ وَحْیِهٖ، وَ رَسُوْلُ رَحْمَتِهٖ ﷺ.

میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے برگزیدہ، اس کی وحی کے ترجمان اور رحمت کے پیغامبر ہیں۔

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنِّیْۤ اُوْصِیْكُمْ بِتَقْوَی اللهِ الَّذِی ابْتَدَاَ خَلْقَكُمْ، وَ اِلَیْهِ یَكُوْنُ مَعَادُكُمْ، وَ بِهٖ نَجَاحُ طَلِبَتِكُمْ، وَ اِلَیْهِ مُنْتَهٰی رَغْبَتِكُمْ، وَ نَحْوَهُ قَصْدُ سَبِیْلِكُمْ، وَ اِلَیْهِ مَرَامِیْ مَفْزَعِكُمْ، فَاِنَّ تَقْوَی اللهِ دَوَآءُ دَآءِ قُلُوْبِكُمْ، وَ بَصَرُ عَمٰۤی اَفْئِدَتِكُمْ، وَ شِفَآءُ مَرَضِ اَجْسَادِكُمْ، وَ صَلَاحُ فَسَادِ صُدُوْرِكُمْ، وَ طُهُوْرُ دَنَسِ اَنْفُسِكُمْ، وَ جِلَآءُ عَشَاۤ اَبْصَارِكُمْ، وَ اَمْنُ فَزَعِ جَاْشِكُمْ، وَ ضِیَآءُ سَوَادِ ظُلْمَتِكُمْ.

میں تمہیں اس اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں کہ جس نے تمہیں پیدا کیا اور جس کی طرف تمہیں پلٹنا ہے۔ وہی تمہاری کامرانیوں کا ذریعہ اور تمہاری آرزوؤں کی منزل منتہا ہے۔ تمہاری راہ حق اسی کی طرف پلٹتی ہے اور وہی خوف و ہراس کے وقت تمہارے لئے پناہ گاہ ہے۔ (دل میں اللہ کا خوف رکھو) کیونکہ یہ تمہارے دلوں کے روگ کا چارہ، فکر و شعور کی تاریکیوں کیلئے اجالا، جسموں کی بیماریوں کیلئے شفا، سینے کی تباہ کاریوں کیلئے اصلاح، نفس کی کثافتوں کیلئے پاکیزگی، آنکھوں کی تیرگی کیلئے جلا، دل کی دہشت کیلئے ڈھارس اور جہالت کی اندھیاریوں کیلئے روشنی ہے۔

فَاجْعَلُوْا طَاعَةَ اللهِ شِعَارًا دُوْنَ دِثَارِكُمْ، وَ دَخِیْلًا دُوْنَ شِعَارِكُمْ، وَ لَطِیْفًۢا بَیْنَ اَضْلَاعِكُمْ، وَ اَمِیْرًا فَوْقَ اُمُوْرِكُمْ، وَ مَنْهَلًا لِّحِیْنِ وُرُوْدِكُمْ، وَ شَفِیْعًا لِّدَرَكِ طَلِبَتِكُمْ، وَ جُنَّةً لِّیَوْمِ فَزَعِكُمْ، وَ مَصَابِیْحَ لِبُطُوْنِ قُبُوْرِكُمْ، وَ سَكَنًا لِّطُوْلِ وَحْشَتِكُمْ، وَ نَفَسًا لِّكُرَبِ مَوَاطِنِكُمْ، فَاِنَّ طَاعَةَ اللهِ حِرْزٌ مِّنْ مَتَالِفَ مُكْتَنِفَةٍ، وَ مَخَاوِفَ مُتَوَقَّعَةٍ، وَ اُوَارِ نِیْرَانٍ مُّوْقَدَةٍ.

صرف ظاہری طور پر اللہ کی اطاعت کا جامہ نہ اوڑھ لو، (بلکہ) اسے اپنا اندرونی پہناوا بناؤ، نہ صرف اندرونی پہناوا، بلکہ ایسا کرو کہ وہ تمہارے باطن میں اتر جائے اور پسلیوں کے اندر (دل میں) رچ بس جائے اور اسے اپنے معاملات پر حکمران اور (حشر میں) وارد ہونے کے وقت سر چشمہ، منزل مقصود تک پہنچنے کا وسیلہ، خوف کے دن کیلئے سپر، نہاں خانۂ قبر کیلئے چراغ، (تنہائی کی) طویل وحشتوں کیلئے ہمنوا و دمساز اور منزل کی اندوہناکیوں سے رہائی (کا ذریعہ) قرار دو، کیونکہ اطاعت خدا گھیرنے والے مہلکوں، پیش آئند خوف و دہشت کے مرحلوں اور بھڑکتی ہوئی آگ کی لپکوں کیلئے پناہ گاہ ہے۔

فَمَنْ اَخَذَ بِالتَّقْوٰی عَزَبَتْ عَنْهُ الشَّدَآئِدُ بَعْدَ دُنُوِّهَا، وَ احْلَوْلَتْ لَهُ الْاُمُوْرُ بَعْدَ مَرَارَتِهَا، وَ انْفَرَجَتْ عَنْهُ الْاَمْوَاجُ بَعْدَ تَرَاكُمِهَا، وَ اَسْهَلَتْ لَهُ الصِّعَابُ بَعْدَ اِنْصَابِهَا، وَ هَطَلَتْ عَلَیْهِ الْكَرَامَةُ بَعْدَ قُحُوْطِهَا، وَ تَحَدَّبَتْ عَلَیْهِ الرَّحْمَةُ بَعْدَ نُفُوْرِهَا، وَ تَفَجَّرَتْ عَلَیْهِ النِّعَمُ بَعْدَ نُضُوْبِهَا، وَ وَبَلَتْ عَلَیْهِ الْبَرَكَةُ بَعْدَ اِرْذَاذِهَا.

جو تقویٰ کو مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے تو مصیبتیں اس کے قریب ہونے کے باوجود دور ہٹ جاتی ہیں، تمام امور تلخی و بدمزگی کے بعد شیریں و خوشگوار ہو جاتے ہیں، (تباہی و ہلا کت کی) موجیں ہجوم کرنے کے بعد چھٹ جاتی ہیں اور دشواریاں سختیوں میں مبتلا کرنے کے بعد آسان ہو جاتی ہیں، قحط و نایابی کے بعد لطف و کرم کی جھڑی لگ جاتی ہے، رحمت برگشتہ ہونے کے بعد پھر جھک پڑتی ہے، زمین میں پایاب ہونے کے بعد پھر نعمتوں کے سر چشمے ابل پڑتے ہیں اور پھوار کی کمی کے بعد رحمت و برکت کی دھواں دھار بارشیں ہونے لگتی ہیں۔

فَاتَّقُوا اللهَ الَّذِیْ نَفَعَكُمْ بِمَوْعِظَتِهٖ، وَ وَعَظَكُمْ بِرِسَالَتِهٖ، وَ امْتَنَّ عَلَیْكُمْ بِنِعْمَتِهٖ، فَعَبِّدُوْا اَنْفُسَكُمْ لِعِبَادَتِهٖ، وَ اخْرُجُوْۤا اِلَیْهِ مِنْ حَقِّ طَاعَتِهٖ.

اس اللہ سے ڈرو! کہ جس نے پند و موعظت سے تمہیں فائدہ پہنچایا، اپنے پیغام کے ذریعے تمہیں وعظ و نصیحت کی، اپنی نعمتوں سے تم پر لطف و احسان کیا۔ اس کی بندگی و نیاز مندی کیلئے اپنے نفسوں کو رام کرو اور اس کی فرمانبرداری کا پورا پورا حق ادا کرو۔

ثُمَّ اِنَّ هٰذَا الْاِسْلَامَ دِیْنُ اللهِ الَّذِی اصْطَفَاهُ لِنَفْسِهٖ، وَ اصْطَنَعَهٗ عَلٰی عَیْنِهٖ، وَ اَصْفَاهُ خِیْرَةَ خَلْقِهٖ، وَ اَقَامَ دَعَآئِمَهٗ عَلٰی مَحَبَّتِهٖ، اَذَلَّ الْاَدْیَانَ بِعِزَّتِهٖ، وَ وَضَعَ الْمِلَلَ بِرَفْعِهٖ، وَ اَهَانَ اَعْدَآءَهٗ بِكَرَامَتِهٖ، وَ خَذَلَ مُحَادِّیْهِ بِنَصْرِهٖ، وَ هَدَمَ اَرْكَانَ الضَّلَالَةِ بِرُكْنِهٖ، وَ سَقٰی مَنْ عَطِشَ مِنْ حِیَاضِهٖ، وَ اَتْاَقَ الْحِیَاضَ بِمَوَاتِحِهٖ.

پھر یہ کہ اسلام ہی وہ دین ہے جسے اللہ نے اپنے پہچنوانے کیلئے پسند کیا، اپنی نظروں کے سامنے اس کی دیکھ بھال کی، اس کی (تبلیغ کیلئے) بہترین خلق کا انتخاب فرمایا، اپنی محبت پر اس کے ستون کھڑے کئے، اس کی عزت و برتری کی وجہ سے تمام دینوں کو سر نگوں کیا اور اس کی بلندی کے سامنے سب ملتوں کو پست کیا، اس کی عزت و بزرگی کے ذریعہ دشمنوں کو ذلیل اور اس کی نصرت و تائید سے مخالفوں کو رسوا کیا، اس کے ستون سے گمراہی کے کھمبوں کو گرا دیا، پیاسوں کو اس کے تالابوں سے سیراب کیا اور پانی الچنے والوں کے ذریعہ حوضوں کو بھر دیا۔

ثُمَّ جَعَلَهٗ لَا انْفِصَامَ لِعُرْوَتِهٖ، وَ لَا فَكَّ لِحَلْقَتِهٖ، وَ لَا انْهِدَامَ لِاَسَاسِهٖ، وَ لَا زَوَالَ لِدَعَآئِمِهٖ، وَ لَا انْقِلَاعَ لِشَجَرَتِهٖ، وَ لَا انْقِطَاعَ لِمُدَّتِهٖ، وَ لَا عَفَآءَ لِشَرَآئِعِهٖ، وَ لَا جَذَّ لِفُرُوْعِهٖ، وَ لَا ضَنْكَ لِطُرُقِهٖ، وَ لَا وُعُوْثَةَ لِسُهُوْلَتِهٖ، وَ لَا سَوَادَ لِوَضَحِهٖ، وَ لَا عِوَجَ لِانْتِصَابِهٖ، وَ لَا عَصَلَ فِیْ عُوْدِهٖ، وَ لَا وَعَثَ لِفَجِّهٖ، وَ لَا انْطِفَآءَ لِمَصَابِیْحِهٖ، وَ لَا مَرَارَةَ لِحَلَاوَتِهٖ.

پھر یہ کہ اسے اس طرح مضبوط کیا کہ اس کے بندھنوں کیلئے شکست و ریخت نہیں، نہ اس کے حلقہ (کی کڑیاں) الگ الگ ہو سکتی ہیں، نہ اس کی بنیاد گر سکتی ہے، نہ اس کے ستون اپنی جگہ چھوڑ سکتے ہیں، نہ اس کا درخت اکھڑ سکتا ہے، نہ اس کی مدت ختم ہو سکتی ہے،نہ اس کے قوانین محو ہو سکتے ہیں، نہ اس کی شاخیں کٹ سکتی ہیں، نہ اس کی راہیں تنگ، نہ اس کی آسانیاں دشوار ہیں، نہ اس کے سفید دامن پر سیاہی کا دھبہ، نہ اس کی استقامت میں پیچ و خم، نہ اس کی لکڑی میں کجی، نہ اس کی کشادہ راہ میں کوئی دشواری ہے، نہ اس کے چراغ گُل ہوتے ہیں، نہ اس کی خوشگواریوں میں تلخیوں کا گزر ہوتا ہے۔

فَهُوَ دَعَآئِمُ اَسَاخَ فِی الْحَقِّ اَسْنَاخَهَا، وَ ثَبَّتَ لَهَاۤ اٰسَاسَهَا، وَ یَنَابِیْعُ غَزُرَتْ عُیُوْنُهَا، وَ مَصَابِیْحُ شَبَّتْ نِیْرَانُهَا، وَ مَنَارٌ اقْتَدٰی بِهَا سُفَّارُهَا، وَ اَعْلَامٌ قُصِدَ بِهَا فِجَاجُهَا، وَ مَنَاهِلُ رَوِیَ بِهَا وُرَّادُهَا.

اسلام ایسے ستونوں پر حاوی ہے جس کے پائے اللہ نے حق (کی سر زمین) میں قائم کئے ہیں اور ان کی اساس و بنیاد کو استحکام بخشا ہے اور ایسے سر چشمے ہیں جن کے چشمے پانی سے بھرپور اور ایسے چراغ ہیں جن کی لوئیں ضیاء بار ہیں اور ایسے مینار ہیں جن کی روشنی میں مسافر قدم بڑھاتے ہیں اور ایسے نشان ہیں کہ جن سے سیدھی راہوں کا قصد کیا جاتا ہے اور ایسے گھاٹ ہیں جن پر اترنے والے ان سے سیراب ہوتے ہیں۔

جَعَلَ اللهُ فِیْهِ مُنْتَهٰی رِضْوَانِهٖ، وَ ذِرْوَةَ دَعَآئِمِهٖ، وَ سَنَامَ طَاعَتِهٖ، فَهُوَ عِنْدَ اللهِ وَثِیْقُ الْاَرْكَانِ، رَفِیْعُ الْبُنْیَانِ، مُنِیْرُ الْبُرْهَانِ، مُضِیْٓءُ النِّیْرَانِ، عَزِیْزُ السُّلْطَانِ، مُشْرِفُ الْمَنَارِ، مُعْوِزُ الْمَثَارِ. فَشَرِّفُوْهُ وَ اتَّبِعُوْهُ، وَ اَدُّوْۤا اِلَیْهِ حَقَّهٗ، وَ ضَعُوْهُ مَوَاضِعَهٗ.

اللہ نے اسلام میں اپنی انتہائے رضا مندی، بلند ترین ارکان اور اپنی اطاعت کی اونچی سطح کو قرار دیا ہے چنانچہ اللہ کے نزدیک اس کے ستون مضبوط، اس کی عمارت سر بلند، دلیلیں روشن اور ضیائیں نور پاش ہیں۔ اس کی سلطنت غالب اور مینار بلند ہیں اور اس کی بیخ کنی دشوار ہے۔ اس کی عزت و وقار باقی رکھو، اس کے (احکام کی) پیروی کرو، اس کے حقوق ادا کرو اور اس (کے ہر حکم) کو اس کی جگہ پر قائم کرو۔

ثُمَّ اِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ بَعَثَ مُحَمَّدًا -ﷺ بِالْحَقِّ حِیْنَ دَنَا مِنَ الدُّنْیَا الْاِنْقِطَاعُ، وَ اَقْبَلَ مِنَ الْاٰخِرَةِ الْاِطِّلَاعُ، وَ اَظْلَمَتْ بَهْجَتُهَا بَعْدَ اِشْرَاقٍ، وَ قَامَتْ بِاَهْلِهَا عَلٰی سَاقٍ، وَ خَشُنَ مِنْهَا مِهَادٌ، وَ اَزِفَ مِنْهَا قِیَادٌ، فِی انْقِطَاعٍ مِّنْ مُّدَّتِهَا، وَ اقْتِرَابٍ مِّنْ اَشْرَاطِهَا، وَ تَصَرُّمٍ مِّنْ اَهْلِهَا، وَانْفِصَامٍ مِّنْ حَلْقَتِهَا، وَانْتِشَارٍ مِّنْ سَبَبِهَا، وَ عَفَآءٍ مِّنْ اَعْلَامِهَا، وَ تَكَشُّفٍ مِّنْ عَوْرَاتِهَا، وَقِصَرٍ مِّنْ طُوْلِهَا. جَعَلَهُ اللهُ بَلَاغًا لِّرِسٰلَتِهٖ، وَ كَرَامَةً لِّاُمَّتِهٖ، وَ رَبِیْعًا لِّاَهْلِ زَمَانِهٖ، وَرِفْعَةً لِّاَعْوَانِهٖ، وَشَرَفًا لِّاَنْصَارِهٖ.

پھر یہ کہ اللہ سبحا نہ نے محمد ﷺ کو اس وقت حق کے ساتھ مبعوث کیا جب کہ فنا نے دنیا کے قریب ڈیرے ڈال دیئے اور آخرت سر پر منڈلانے لگی، اس کی رونقوں کا اجالا اندھیرے سے بدلنے لگا اور اپنے رہنے والوں کیلئے مصیبت بن کر کھڑی ہو گئی، اس کا فرش درشت و ناہموار ہو گیا اور فنا کے ہاتھوں میں باگ ڈور دینے کیلئے آمادہ ہو گئی۔ یہ اس وقت کہ جب اس کی مدت اختتام پذیر اور (فنا کی) علامتیں قریب آ گئیں، اس کے بسنے والے تباہ اور اس کے حلقہ کی کڑیاں الگ ہو نے لگیں، اس کے بندھن پراگندہ اور نشانات بوسیدہ ہو گئے، اس کے عیب کھلنے اور پھیلے ہوئے دامن سمٹنے لگے۔ اللہ نے ان کو پیغام رسانی اور اُمت کی سرفرازی کا ذریعہ، اہل عالم کیلئے بہار اور یار و انصار کی رفعت و عزت کا سبب قرار دیا۔

ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْهِ الْكِتَابَ نُوْرًا لَّا تُطْفَاُ مَصَابِیْحُهٗ، وَ سِرَاجًا لَّا یَخْبُوْ تَوَقُّدُهٗ، وَ بَحْرًا لَّا یُدْرَكُ قَعْرُهٗ، وَ مِنْهَاجًا لَّا یُضِلُّ نَهْجُهٗ، وَ شُعَاعًا لَّا یُظْلِمُ ضَوْؤُهٗ، وَ فُرْقَانًا لَّا یُخْمَدُ بُرْهَانُهٗ، وَ تِبْیَانًا لَّا تُهْدَمُ اَرْكَانُهٗ، وَ شِفَآءً لَّا تُخْشٰۤی اَسْقَامُهٗ، وَ عِزًّا لَّا تُهْزَمُ اَنْصَارُهٗ، وَ حَقًّا لَّا تُخْذَلُ اَعْوَانُهٗ.

پھر آپؐ پر ایک ایسی کتاب نازل فرمائی جو (سراپا) نور ہے، جس کی قندیلیں گل نہیں ہوتیں، ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی، ایسا دریا ہے جس کی تھاہ نہیں لگائی جا سکتی، ایسی شاہراہ ہے جس میں راہ پیمائی بے راہ نہیں کرتی، ایسی کرن ہے جس کی چھوٹ مدہم نہیں پڑتی، وہ ایسا (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والا ہے جس کی دلیل کمزور نہیں پڑتی، ایسا کھول کر بیان کرنیوالا ہے جس کے ستون منہدم نہیں کئے جا سکتے، وہ (سراسر) شفا ہے جس کے ہوتے ہوئے (روحانی) بیماریوں کا کھٹکا نہیں، وہ (سر تا سر) عزت و غلبہ ہے جس کے یار و مددگار شکست نہیں کھاتے، وہ (سراپا) حق ہے جس کے معین و معاون بے مدد چھوڑے نہیں جاتے۔

فَهُوَ مَعْدِنُ الْاِیْمَانِ وَ بُحْبُوْحَتُهٗ، وَ یَنَابِیْعُ الْعِلْمِ وَ بُحُوْرُهٗ، وَ رِیَاضُ الْعَدْلِ وَ غُدْرَانُهٗ، وَ اَثَافِیُّ الْاِسْلَامِ وَ بُنْیَانُهٗ، وَ اَوْدِیَةُ الْحَقِّ وَ غِیْطَانُهٗ. وَ بَحْرٌ لَّا یَنْزِفُهُ الْمُسْتَنْزِفُوْنَ، وَ عُیُوْنٌ لَّا یُنْضِبُهَا الْمَاتِحُوْنَ، وَ مَنَاهِلُ لَا یُغِیْضُهَا الْوَارِدُوْنَ، وَ مَنَازِلُ لَا یَضِلُّ نَهْجَهَا الْمُسَافِرُوْنَ، وَ اَعْلَامٌ لَّا یَعْمٰی عَنْهَا السَّآئِرُوْنَ، وَ اٰكَامٌ لَّا یَجُوْزُ عنْهَا الْقَاصِدُوْنَ.

وہ ایمان کا معدن اور مرکز ہے، اس سے علم کے چشمے پھوٹتے اور دریا بہتے ہیں، اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں، وہ اسلام کا سنگ بنیاد اور اس کی اساس ہے، حق کی وادی اور اس کا ہموار میدان ہے، وہ ایسا دریا ہے کہ جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کر سکتے، وہ ایسا چشمہ ہے کہ پانی الچنے والے اسے خشک نہیں کر سکتے، وہ ایسا گھاٹ ہے کہ اس پر اترنے والوں سے اس کا پانی گھٹ نہیں سکتا، وہ ایسی منزل ہے کہ جس کی راہ میں کوئی راہرو بھٹکتا نہیں، وہ ایسا نشان ہے کہ چلنے والے کی نظر سے اوجھل نہیں ہوتا، وہ ایسا ٹیلہ ہے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے گزر نہیں سکتے۔

جَعَلَهُ اللهُ رِیًّا لِّعَطَشِ الْعُلَمَآءِ، وَ رَبِیْعًا لِّقُلُوْبِ الْفُقَهَآءِ، وَ مَحَاجَّ لِطُرُقِ الصُّلَحَآءِ، وَ دَوَآءً لَّیْسَ بَعْدَهٗ دَآءٌ، وَ نُوْرًا لَّیْسَ مَعَهٗ ظُلْمَةٌ، وَ حَبْلًا وَّثِیْقًا عُرْوَتُهٗ، وَ مَعْقِلًا مَّنِیْعًا ذِرْوَتُهٗ، وَ عِزًّا لِّمَنْ تَوَلَّاهُ، وَ سِلْمًا لِّمَنْ دَخَلَهٗ، وَ هُدًی لِّمَنِ ائْتَمَّ بِهٖ، وَ عُذْرًا لِّمَنِ انْتَحَلَهٗ، وَ بُرْهَانًا لِّمَنْ تَكَلَّمَ بِهٖ، وَ شَاهِدًا لِّمَنْ خَاصَمَ بِهٖ، وَ فَلْجًا لِّمَنْ حَاجَّ بِهٖ، وَ حَامِلًا لِّمَنْ حَمَلَهٗ، وَ مَطِیَّةً لِّمَنْ اَعْمَلَهٗ، وَ اٰیَةً لِّمَنْ تَوَسَّمَ، وَ جُنَّةً لِّمَنِ اسْتَلْاَمَ، وَ عِلْمًا لِّمَنْ وَّعٰی، وَ حَدِیْثًا لِّمَنْ رَّوٰی، وَ حُكْمًا لِّمَنْ قَضٰی.

اللہ نے اسے عالموں کی تشنگی کیلئے سیرابی، فقیہوں کے دلوں کیلئے بہار اور نیکوں کی رہ گزر کیلئے شاہراہ قرار دیا ہے۔ یہ ایسی دوا ہے کہ جس سے کوئی مرض نہیں رہتا، ایسا نور ہے جس میں تیرگی کا گزر نہیں، ایسی رسی ہے کہ جس کے حلقے مضبوط ہیں، ایسی چوٹی ہے کہ جس کی پناہ گاہ محفوظ ہے۔ جو اس سے وابستہ ہو اس کیلئے سرمایۂ عزت ہے، جو اس کی حدود میں داخل ہو اس کیلئے پیغام صلح و امن ہے، جو اس کی پیروی کرے اس کیلئے ہدایت ہے، جو اسے اپنی طرف نسبت دے اس کیلئے حجت ہے، جو اس کی رُو سے بات کرے اس کیلئے دلیل و برہان ہے، جو اس کی بنیاد پر بحث و مناظرہ کرے اس کیلئے گواہ ہے، جو اسے حجت بنا کر پیش کرے اس کیلئے فتح و کامرانی ہے، جو اس کا بار اٹھائے یہ اس کا بوجھ بٹانے والا ہے، جو اسے اپنا دستور العمل بنائے اس کیلئے مرکب (تیز گام) ہے، یہ حقیقت شناس کیلئے ایک واضح نشان ہے، جو (ضلالت سے ٹکرانے کیلئے) سلاح بند ہو اس کیلئے سپر ہے، جو اس کی ہدایت کو گرہ میں باندھ لے اس کیلئے علم و دانش ہے، بیان کرنے والے کیلئے بہترین کلام اور فیصلہ کرنے والے کیلئے قطعی حکم ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button