خطبات

خطبہ (۱۱۲)

(۱۱۱) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۱۱)

وَ اُحَذِّرُكُمُ الدُّنْیَا، فَاِنَّهَا مَنْزِلُ قُلْعَةٍ، وَ لَیْسَتْ بِدَارِ نُجْعَةٍ، قَدْ تَزَیَّنَتْ بِغُرُوْرِهَا، وَ غَرَّتْ بِزِیْنَتِهَا، دَارٌ هَانَتْ عَلٰی رَبِّهَا، فَخَلَطَ حَلَالَهَا بِحَرَامِهَا، وَ خَیْرَهَا بِشَرِّهَا، وَ حَیَاتَهَا بِمَوتِهَا، وَ حُلْوَهَا بِمُرِّهَا. لَمْ یُصْفِهَا اللهُ تَعَالٰی لِاَوْلِیَآئِهٖ، وَ لَمْ یَضِنَّ بِهَا عَلٰۤی اَعْدَآئِهٖ، خَیْرُهَا زَهِیْدٌ، وَ شَرُّهَا عَتِیْدٌ، وَ جَمْعُهَا یَنْفَدُ، وَ مُلْكُهَا یُسْلَبُ، وَ عَامِرُهَا یَخْرَبُ. فَمَا خَیْرُ دَارٍ تُنْقَضُ نَقْضَ الْبِنَآءِ، وَ عُمُرٍ یَّفْنٰی فَنَآءَ الزَّادِ، وَ مُدَّةٍ تَنْقَطِعُ انْقِطَاعَ السَّیْرِ!.

میں تمہیں دنیا سے خبردار کئے دیتا ہوں کہ یہ ایسے شخص کی منزل ہے جس کیلئے قرار نہیں اور ایسا گھر ہے جس میں آب و دانہ نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ یہ اپنے باطل سے آراستہ ہے اور اپنی آرائشوں سے دھوکا دیتی ہے۔ یہ ایک ایسا گھر ہے جو اپنے رب کی نظروں میں ذلیل و خوار ہے۔ چنانچہ اس نے حلال کے ساتھ حرام اور بھلائیوں کے ساتھ برائیاں اور زندگی کے ساتھ موت اور شیرینیوں کے ساتھ تلخیاں خلط ملط کر دی ہیں اور اپنے دوستوں کیلئے اسے بے غل و غش نہیں رکھا اور نہ دشمنوں کو دینے میں بخل کیا ہے۔ اس کی بھلائیاں بہت ہی کم ہیں اور برائیاں (جہاں چاہو) موجود۔ اس کی جمع پونجی ختم ہو جانے والی اور اس کا ملک چھن جانے والا اور اس کی آبادیاں ویران ہو جانے والی ہیں۔ بھلا اس گھر میں خیر و خوبی ہی کیا ہو سکتی ہے جو مسمار عمارت کی طرح گر جائے اور اس عمر میں جو زادِ راہ کی طرح ختم ہو جائے اور اس مدت میں جو چلنے پھرنے کی طرح تمام ہو جائے۔

اِجْعَلُوا مَا افْتَرَضَ اللهُ عَلَیْكُمْ مِنْ طَلَبِكُمْ، وَ اسْئَلُوْهُ مِنْ اَدَآءِ حَقِّهٖ مَا سَئَلَكُمْ، وَ اَسْمِعُوْا دَعْوَةَ الْمَوْتِ اٰذَانَكُمْ قَبْلَ اَنْ یُّدْعٰی بِكُمْ. اِنَّ الزَّاهِدِیْنَ فِی الدُّنْیَا تَبْكِیْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِنْ ضَحِكُوْا، وَ یَشْتَدُّ حُزْنُهُمْ وَ اِنْ فَرِحُوْا، وَ یَكْثُرُ مَقْتُهُمْ اَنْفُسَهُمْ وَ اِنِ اغْتُبِطُوْا بِمَا رُزِقُوْا.

جن چیزوں کی تمہیں طلب و تلاش رہتی ہے ان میں اللہ تعالیٰ کے فرائض کو بھی داخل کرلو اور جو اللہ نے تم سے چاہا ہے اسے پورا کرنے کی توفیق بھی اس سے مانگو۔ موت کا پیغام آنے سے پہلے موت کی پکار اپنے کانوں کو سنا دو۔ اس دنیا میں زاہدوں کے دل روتے ہیں، اگرچہ وہ ہنس رہے ہوں اور ان کا غم و اندوہ حد سے بڑھا ہوتا ہے، اگرچہ ان (کے چہروں) سے مسرت ٹپک رہی ہو اور انہیں اپنے نفسوں سے انتہائی بیر ہوتا ہے، اگرچہ اس رزق کی وجہ سے جو انہیں میسر ہے ان پر رشک کیا جاتا ہو۔

قَدْ غَابَ عَنْ قُلُوْبِكُمْ ذِكْرُ الْاٰجَالِ، وَ حَضَرَتْكُمْ كَوَاذِبُ الْاٰمَالِ، فَصَارَتِ الدُّنْیَا اَمْلَكَ بِكُمْ مِنَ الْاٰخِرَةِ، وَ الْعَاجِلَةُ اَذْهَبَ بِكُمْ مِنَ الْاٰجِلَةِ، وَ اِنَّمَاۤ اَنْتُمْ اِخْوَانٌ عَلٰی دِیْنِ اللهِ، مَا فَرَّقَ بَیْنَكُمْ اِلَّا خُبْثُ السَّرَآئِرِ، وَ سُوْٓءُ الضَّمَآئِرِ، فَلَا تَوَازَرُوْنَ، وَ لَا تَنَاصَحُوْنَ، وَلَا تَبَاذَلُوْنَ، وَ لَا تَوَادُّوْنَ.

تمہارے دلوں سے موت کی یاد جاتی رہی ہے اور جھوٹی امیدیں (تمہارے اندر) موجود ہیں۔ آخرت سے زیادہ دنیا تم پر چھائی ہوئی ہے اور وہ عقبیٰ سے زیادہ تمہیں اپنی طرف کھینچتی ہے۔ تم دین خدا کے سلسلہ میں ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہو، لیکن بد نیتی اور بد باطنی نے تم میں تفرقہ ڈال دیا ہے۔ نہ تم ایک دوسرے کا بوجھ بٹاتے ہو، نہ باہم پند و نصیحت کرتے ہو، نہ ایک دوسرے پر کچھ خرچ کرتے ہو، نہ تمہیں ایک دوسرے کی چاہت ہے۔

مَا بَالُكُمْ تَفْرَحُوْنَ بِالْیَسِیْرِ مِنَ الدُّنْیَا تُدْرِكُوْنَهٗ، وَ لَا یَحْزُنُكُمُ الْكَثِیْرُ مِنَ الْاٰخِرَةِ تُحْرَمُوْنَهٗ، وَ یُقْلِقُكُمُ الْیَسِیْرُ مِنَ الدُّنْیَا یَفُوْتُكُمْ، حَتّٰی یَتَبَیَّنَ ذٰلِكَ فِیْ وُجُوْهِكُمْ، وَ قِلَّةِ صَبْرِكُمْ عَمَّا زُوِیَ مِنْهَا عَنْكُمْ، كَاَنَّهَا دَارُ مُقَامِكُمْ، وَ كَاَنَّ مَتَاعَهَا بَاقٍ عَلَیْكُمْ.

تھوڑی سی دنیا پا کر خوش ہونے لگتے ہو اور آخرت کے بیشتر حصہ سے بھی محرومی تمہیں غم زدہ نہیں کرتی۔ ذرا سی دنیا کا تمہارے ہاتھوں سے نکلنا تمہیں بے چین کر دیتا ہے، یہاں تک کہ بے چینی تمہارے چہروں سے ظاہر ہونے لگتی ہے اور کھوئی ہوئی چیز پر تمہاری بے صبریوں سے آشکارا ہو جاتی ہے، گویا یہ دنیا تمہارا (مستقل ) مقام ہے اور دنیا کا ساز و برگ ہمیشہ رہنے والا ہے۔

وَ مَا یَمْنَعُ اَحَدَكُمْ اَنْ یَّسْتَقْبِلَ اَخَاهُ بِمَا یَخَافُ مِنْ عَیْبِهٖ، اِلَّا مَخَافَةُ اَنْ یَّسْتَقْبِلَهٗ بِمِثْلِهٖ. قَدْ تَصَافَیْتُمْ عَلٰی رَفْضِ الْاٰجِلِ وَ حُبِّ الْعَاجِلِ، وَ صَارَ دِیْنُ اَحَدِكُمْ لُعْقَةً عَلٰی لِسَانِهٖ، صَنِیْعَ مَنْ قَدْ فَرَغَ مِنْ عَمَلِهٖ، وَ اَحْرَزَ رِضٰی سَیِّدِهٖ.

تم میں سے کسی کو بھی اپنے کسی بھائی کا ایسا عیب اچھالنے سے کہ جس کے ظاہر ہونے سے ڈرتا ہے صرف یہ امر مانع ہوتا ہے کہ وہ بھی اس کا ویسا ہی عیب کھول کر اس کے سامنے رکھ دے گا۔ تم نے آخرت کو ٹھکرانے اور دنیا کو چاہنے پر سمجھوتہ کر رکھا ہے۔ تم لوگوں کا دین تو یہ رہ گیا ہے کہ جیسے ایک دفعہ زبان سے چاٹ لیا جائے (یعنی صرف زبانی اقرار) اور تم تو اس شخص کی طرح (مطمئن) ہو چکے ہو کہ جو اپنے کام دھندوں سے فارغ ہو گیا ہو اور اپنے مالک کی رضا مندی حاصل کر لی ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button